کھانا بالکل پسند نہيں۔ ايک دو بار سے زيادہ ميں نہيں کھا سکتا اور نہ ہی تم لوگوں کو بھی اس کی اجازت ديتا ہوں” دارم نے اگلے دن آفس آتے ہی رياض کی طلبی کی۔
“جی سر ميں نے ايک لڑکے سے بات کی ہے۔ ميرا جاننے والا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ايک دو دن ميں بندوبست ہو جاۓ گا” رياض نے اسے تسلی دی۔
“پليز ذرا جلدی” دارم کو کچھ تسلی ہوئ۔ اسے جانے کا اشارہ کرکے وہ فون کی جانب متوجہ ہوا۔
“جی ممی کيسی ہيں آپ” مسکراتے لہجے ميں دوسری جانب کی آواز سن کر استفسار کيا۔
“نہيں آپ ٹينشن فری ہو کر ٹور کريں۔ ہم دونوں ٹھيک ہيں۔” دارم نے ماں کو تسلی دی۔
“افف ممی۔ پليز کيا يہ ضروری ہے کہ ہر بار يہی ٹاپک ڈسکس ہو۔ مجھے فی الحال اپنی مرضی کی لڑکی نہيں ملی۔ جب ملی آپ کو بتا دوں گا اور يقين کريں دير نہيں لگاؤں گا۔” اسکی گھنی مونچھوں کے ساۓ تلے موجود خوبصورت تراشيدہ لب مسکراۓ۔
“اچھا کل کہاں کہاں ميٹنگ ہے” اب وہ انہيں موضوع سے ہٹا کر انکے مطلب کے موضوع پر آچکا تھا۔ اور اسکی کوشش کامياب ہوئ۔ صدف بھی اپنی امريکہ ميں ہونے والی ميٹنگز کی تفصيلات بتانے لگيں۔
______________________
صدف اور ياور ملک کے دو ہی بيٹے تھے ايک دارم اور دوسرا صارم۔ صارم بڑا تھا۔ پی ايچ ڈی کے لئے جرمنی گيا اور پھر وہيں ايک گوری سے شادی کرکے وہيں کا ہو کر رہ گيا۔ سال ميں ايک بار وہ بيوی اور دو بچوں سميت آجاتا تھا۔ جبکہ دارم چھوٹا تھا۔ ايم بی اے کے بعد باپ کے ڈيری فارمز اور فيکٹريز کو وہی سنبھال رہا تھا۔ جبکہ صدف اينج ای او کی سی ای او تھيں۔ يہ اينج ای او عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو منظر عام پر لا کر انکی مدد کرواتے تھے۔ دارم اگر اس اينج ای او کے خلاف نہيں تھا تو حق ميں بھی نہيں تھا۔ بہرحال وہ ماں کی اس سوشل ايکٹويٹی سے کافی حد تک دور ہی رہتا تھا۔ آجکل صدف ملک سے باہر فنڈز اور ڈونيشنز کے لئے گئ ہوئيں تھيں۔ دارم کو اتنا يقين ضرور تھا کہ ماں ايک پيسہ بھی ادھر سے ادھر نہيں کرتی تھين۔ اسی لئے اس نے کبھی انہيں روکا نہيں تھا اور نہ ہی ياورد ملک نے۔ يہ ايک مصروفيت کا ذريعہ تھا اسی لئے وہ انہيں منع نہيں کرتے تھے۔ بلکہ خود بھی وقتا فوقتا ڈونيٹ کرتے رہتے تھے۔
____________________
“يار ايک بہت بڑے بندے کے آفس سے آفر آئ ہے انہيں کک چاہئيے۔ تو باجی سے بات کر وہ وہاں جاب کرليں۔ يہ کھوکھا بھی تو کھولنا ہے نا۔ تو وہيں آفس ميں کک کی جاب کرليں” شہزاد کو دارم کے مينجر رياض صاحب نے کال کرکے آفس آنے کا کہا تھا۔ اور يہ بتايا تھا کہ انہيں آفس کے لئے کک کی ضرورت ہے۔ شہزاد کے دماغ ميں اسی وقت سے کھلبلی مچی ہوئ تھی۔ وہ سب دوست اس وقت وليہ کی دکان سجا رہے تھے۔ مختلف چيزيں سيٹ کررہے تھے۔
کل سے انہوں نے دکان پر کام کرنا شروع کرنا تھا۔
“نہيں يار ميں انہيں اچھے سے جانتا ہوں وہ نہيں مانيں گی۔ اور ويسے بھی ماحول کا کچھ نہيں پتہ۔ يہاں تو ہم سب ہوں گے نا انکے پاس۔ انکی طرف ميلی نگاہ بھی نہيں اٹھنے ديں گے۔ مگر وہاں تو جانتا ہے آفسز کا ماحول کيسا ہوتا ہے۔” دلاور کے لہجے مين بھائيوں جيسی فکر تھی۔ ايسے ہی تو وليہ کو اس پر اندھا اعتماد نہيں تھا۔
“اچھا چل جيسے تيری مرضی خير ميں تو کل جا کر ديکھتا ہوں” وہ دلاور کے دو ٹوک انداز پر خاموش ہوگيا۔ جلدی جلدی وہ سب کام نمٹانے لگے۔
_____________________
“سر ميں لڑکے کو لے آيا ہوں” رياض صاحب دارم کے آفس آتے ہی پيچھے پيچھے اسکے آفس ميں داخل ہوۓ۔
“کس لڑکے کو؟” دارم کے ذہن سے محو ہوچکا تھا کہ وہ کس بارے ميں بات کر رہے ہيں۔ آفس کی کرسی پر بيٹھے ايک ہاتھ ميں موبائل تھامے وہ اچنبھے سے بولا۔
“سر وہ کک کے لئے آپ کو بتايا تھا؟” دارم کے سوال پر انہوں نے سہولت سے جواب ديا۔
“اوہ ہاں۔ لے آئيے اسے۔ ميں چھوٹا سے انٹروڈکشن لينا چاہتا ہوں” دارم سے موبائل ميز پر رکھتے انہيں فورا لڑکے کے لانے کا اشارہ کيا۔
وہ الٹے قدموں باہر کی جانب گۓ۔ چند ہی لمحوں بعد پھر سے آفس مين داخل ہوۓ۔ اب کب بار ان کے ساتھ ايک دبلا پتلا لڑکا بھی تھا۔ شلوار قميض پہنے وہ لڑکا آفس سے مرعوب ہوتا اندر داخل ہوا۔
“السلام عليکم سر” اندر داخل ہوتے ہی اس نے دارم کوسلام کيا۔
“وعليکم سلام۔ آؤ بيٹھو” دارم نے سيدھا ہاتھ اٹھا کر اسے ميز کے دوسری جانب رکھی کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
وہ شکريہ کرتے ہوۓ بيٹھ گيا۔ رياض صاحب بھی اسکے بيٹھتے ہی ساتھ والی کرسی سنبھال چکے تھے۔
“کيا نام ہے آپکا؟” دارم نے نہايت شائستگی سے اس کا نام پوچھا۔
“شہزاد احمد نام ہے سر” اس نے سہولت سے بتايا۔
“کتنا پڑھے ہو؟” دارم کے سوال پر اس نے ايک لمحے کو رياض کو ديکھا۔
“جی ايف اے کيا ہے” شہزاد نے سادے لہجے ميں جواب ديا۔
“آگے کيوں نہيں پڑھا؟”
“سر جی اتنے وسائل نہيں تھے کہ پڑھتا۔ اور اگر پڑھتا تو گھر کا ہانڈی چولہا کيسے چلتا۔ بس کمانے کے لئے نکل پڑا” اسکی بات پر دارم کے چہرے پر گہرا سايہ لہرايا۔ ابھی اس لڑکے کی عمر ہی کيا تھی اور وہ معاش کے لئے فکر مند تھا۔
“تمہارے ابو کيا کرتے ہيں؟” اسکے سوال پر شہزاد کا چہرہ تاريک ہوا۔
“وہ معذور ہيں۔ کچھ سال پہلے ايکسيڈنٹ ميں انکی دونوں ٹانگيں۔۔” اس سے آگے اس کا لہجہ گلو گير ہوگيا۔
“اوکے اوکے۔۔ تم کل سے آجانا۔ اور ہاں ميری کچھ شرائط ہيں وہ تمہيں ماننی پڑيں گی” دارم کی بات پر اس نے فورا سر ہلايا۔
“سر جو کہيں گے مانوں گا” اس نے جلدی سے ہامی بھری۔
“پہلے تو يہ کہ تم يہاں کام کرنے کے ساتھ ساتھ بی اے کی تياری کرو گے۔ اور جب بی اے کے پيپر پاس کرلوگے تو تنخواہ ميں اضافہ ہوجاۓ گا۔ دوسرا يہ کہ تين مہينے کے پروبيشن پيريڈ کے بعد تم يہاں کے مستقل ورکر بن جاؤ گے۔ لہذا تمہارے والد کا علاج اور انکی معذوری کو بہتری ميں بدلنے کے لئے ہم پوری کوشش کريں گے”۔اسکی شرائط پر شہزاد کی آنکھيں نم ہوئيں۔
“بہت شکريہ سر۔ ميں ضرور پڑھائ جاری رکھوں گا” نم مگر مسکراتے لہجے ميں اسکے ہامی بھرنے پر دارم لمحہ بھر کو مسکرايا۔
“گڈ۔ رياض صاحب آپ اسے کام کی نوعيت بتا ديں۔ اور صفائ پر ميں کسی بات کم کمپرومائز نہيں کروں گا” رياض سے مخاطب ہوتے آخری بات اس نے شہزاد کو ديکھ کر تنبيہی لہجے ميں کی۔
“جی جی سر کوئ شکايت نہيں ہوگی” شہزاد بھی اسکی بات کا مطلب سمجھ گيا۔
:گريٹ” اسکی بات ختم ہوتے ہی رياض صاحب شہزاد کو لئے اسکے آفس سے باہر آگۓ۔
_____________________
آج اس کا پہلا دن تھا دکان پر۔ سائرہ سے دعائيں لے کر وہ اشکبار نگاہوں سے اپنی دکان ميں داخل ہوئ۔
ہر ہر قدم پر اسے باپ کی ياد ستا رہی تھی۔ کون سی ايسی لڑکی ہوتی ہے کہ جس کا گھر کی چار ديواری سے باہر نکل کر زمانے کی سرد و گرم نظريں برداشت کرنے کو دل کرتا ہے مگر اسے برداشت کرنا تھا۔ وہ کر رہی تھی۔ اپنے گھر والوں کے لئے۔ اللہ نے پيٹ اور بھوک کی ايسی ضرورت انسان کے ساتھ لگا رکھی ہے کہ جس کو پورا کرنے کے لئے انسان کو ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہيں۔ اور اسی مجبوری کی وجہ سے وليہ کو گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ مصطفی ابھی اس قابل نہيں تھا کہ انہيں گھر کے خرچے کی فکر ہوتی۔ وہ ابھی پڑھ رہا تھا۔ وليہ اسے کسی قابل بنانا چاہتی تھی۔ اور اس سب کے لئے اسے قربانی دينی تھی۔
سارا دن کيسے گزرا اسے پتہ بھی نہ چلا۔ دکان کا نام اس نے مصطفی ہوٹل کے نام سے ہی رکھا تھا۔
محلے والے جانتے تھے اسی لئے سارا دن اسکی مدد کے لئے گاہکی بڑھاتے رہے۔ دلاور نے کچھ سٹنگ ارينجمنٹ دکان کے اندر رکھا تھا اور کچھ باہر۔
اسے اميد تھی کہ اتنے مخلص لوگوں کی ہمراہی ميں اس کا کاروبار جلد ہی ترقی کرے گا۔
______________________
آج اسے دکان پر کام شروع کئے پانچواں روز تھا۔ اور دن بہ دن لوگوں کا رش بندھتا جارہا تھا۔
دوپہر کا وقت تھا کہ يکدم وليہ کو باہر سے کچھ شور کی آواز آئ۔ يہ شور کچھ غير معمولی نوعيت کا تھا۔
اس نے ذرا سا پردہ سرکا کر باہر ديکھا تو عجيب سے حليے والے لوگ باہر کی کرسيوں پر بيٹھے نظر آۓ۔ دلاور کا انداز ايسا تھا جيے کچھ بحث کررہا ہو۔
وليہ کا دل پريشان سا ہوا۔
سامنے دو مرد بيٹھے تھے لمبے لمبے بالوں والے۔ گريبان کے بٹن کھلے تھے۔ سونے کی موٹی موٹی چينيں گلے ميں اور ويسی ہی ہاتھوں ميں پہن رکھی تھين۔ ميزوں پر ٹانگيں رکھے ہاتھوں کو سر کے پيچھے باندھے ايسے بيٹھے تھا جيسے انہی کی دکان ہو۔
وليہ نے پردہ گرا کر موبائل اٹھايا اور دلاور کے نمبر پر بيل دی۔
تھوڑی ہی دير ميں دلاور نے ايک اور کام کرنے والے لڑکے کو وليہ کے پاس بھيجا۔
“جی باجی” اس لڑکے کی شکل پر بھی بارہ بجے تھے۔ کچھ پريشان سا دکھ رہا تھا۔
“مدثر يہ باہر کون لوگ ہيں۔ دلاور کو کيوں گھيرے بيٹھے ہيں؟” اس نے تشويش سے پوچھا۔
“کچھ نہيں باجی ويسے ہی کوئ لوگ آۓ ہيں۔ تم پريشان نہ ہو” اس نے نظريں چرائيں۔
“مجھے صحيح سے بتاؤ۔ ” وليہ اسکے بات چھپانے پر تھوڑا غصے سے بولی۔
“اچھا مگر تم دلاور کو مت بتانا کہ مين نے تمہيں بتا ديا ہے” اس نے ڈرتے ڈرتے ہامی بھری۔
“نہيں بتاتی” اس نے بھی وعدہ کيا۔
“باجی يہ يہاں کی جماعت کے غنڈے ہيں۔ جو بھی دکان يہاں کھلتی ہے وہ ان سے بھتہ ليتے ہيں۔ دلاور کو بھی وہ مجبور کر رہے ہيں کہ ہر ہفتے انہيں اس دکان کی کمائ کا تيس فيصد دينا ہوگا۔ اگر نہ ديا تو وہ دکان توڑ ديں گے۔ اور۔۔۔۔ اور۔۔۔” وہ کپکپاتے ہوۓ بتا رہا تھا۔
“اور کيا مدثر” وليہ کا بھی رنگ فق ہوا۔ يہ سب کرتے خيال بھی نہ آيا تھا کہ بھتہ خوری کتنی عام ہے۔ اور وہ بھی اس ميں پھنس سکتی تھی۔
“اور باجی وہ دھمکی دے رہے ہيں کہ ايسا نہ کيا تو وہ تمہارے گھر ميں گھس کر دنگا فساد کريں گے” مدثر نے ہچکچاتے ہوۓ بات پوری کی۔
وليہ سر تھام کر بيٹھ گئ۔
کيسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ايک عورت سکون سے روزی روٹی بھی نہيں کما سکتی۔
دو آنسو لڑھک کر گالوں سے پھسلے۔
“باجی تم پريشان نہ ہو۔ ہم ہيں نا تمہارے ساتھ۔ تم پر آنچ بھی نہيں آنے ديں گۓ”اسے روتا ديکھ کر مدثر نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔
کيسے سائبان تھے اسکے ساتھ۔
“تم دلاور کو ميرے پاس بھيجو” اس نے سر اثبات ميں ہلاتے مدثر کو کہا۔
وہ پردہ اٹھا کر باہر نکل گيا۔
کچھ ہی دير بعد دلاور اسکے سامنے موجود تھا۔
“دلاور ۔۔۔ وہ جتنا کہتے ہيں انہيں ہر ہفتے کا اتنا حصہ دے دو” وليہ نے کچھ بھی پوچھے بنا اسے حکم ديا۔
“آپا تم کيوں ڈر رہی ہو۔ کچھ نہيں کرسکتے يہ۔ صرف دھمکياں دے رہے ہيں۔ مين معاملہ سنبھال لوں گا” دلاور نے اسے تسلی دلائ۔
“نہيں دلاور۔ مجھے تم سب بہت عزيز ہو۔ ميں اپنی وجہ سے تم سب کو مشکل ميں نہيں ديکھ سکتی۔ مين جانتی ہوں يہ کس قماش کے لوگ ہيں۔
ہماری قسمت ميں جتنا ہوگا۔ اللہ ہميں دے دے گا۔ پليز۔ ” اس نے ہاتھ جوڑے وہ جانتی تھی۔ يہ لوگ انکار کرنے والوں کو اٹھا کر لے جاتے ہيں اور پھر
بند بوری لاشيں انکے گھر والوں کو ديتے ہيں۔ وہ اس دکان کے کسی بندے کو اپنی وجہ سے ان کا شکار نہيں ہونے دينا چاہتی تھی۔ يہ سب اسے بھائيوں کی طرح عزيز تھے۔
اسکے جڑے ہاتھ ديکھ کر دلاور نے ايک بے بس نظر اس پر ڈالی اور باہر نکل گيا۔
کچھ دير بعد وہ لوگ چلے گۓ۔ وليہ نے پردہ اٹھا کر باہر موجود خالی کرسيوں کو ديکھا اور سکھ کا سانس ليا۔