Wednesday, May 21, 2025

Mera Naam o Nishan Mile | Episode 5

اگلے دن ساڑھے دس بجے وہ تيار تھی۔ دو سوٹ رکھ لئے تھے۔ اور باقی کچھ کھانے پکانے سے متعلق سامان۔ پہلی بار يوں گھر سے باہر اکيلی جارہی تھی تو دل تھوڑا پريشان تھا۔ دلاور کو نجانے شہزاد نے کيا کہہ کر آمادہ کيا تھا کہ اس نے وليہ سے کوئ باز پرس نہيں کی۔
“دھيان سے رہنا بيٹا” سائرہ نے اجازت تو دے دی تھی مگر پريشان بھی تھيں۔
وہ سب اس وقت صحن ميں چارپائ پر بيثھے شہزاد کا انتظار کررہے تھے۔
“اماں کو تنگ مت کرنا۔ ان کا ہاتھ بٹا دينا” وليہ نے يمينہ کو نصيحت کی۔
“آپا آپ فکر مت کريں۔۔ ميں اماں کی مدد کروا دوں گی” يمينہ نے اسے تسلی دلائ۔
گيارہ بجنے ہی والے تھے جب بيرونی دروازہ کھٹکا۔ مصطفی فورا دروازے کے قريب گيا۔
“کون”
“ميں شہزاد باج سے کہو آجاۓ” شہزاد کی آواز دروازے کے پار سنائ دی۔
“اچھا بھائ” مصطفی نے دروازہ وا کرکے شہزاد سے مصافحہ کيا۔ اور پھر تيزی سے اندر کی جانب برھا۔
“آپا شہزاد بھائ آۓ ہيں۔” اس نے وليہ کو اطلاع دی۔ سائرہ نے بڑھ کر ڈھيروں قرآنی آيات اس پر پڑھ کر پھونکیيں۔
“اللہ کی امان ميں” دروازہ پار کرتے وہ شہزاد کے ساتھ ہولی۔
شہزاد نے فورا اس کا چھوٹا سا سفری بيگ پکڑا دائيں ہاتھ ميں پکڑا۔ بائيں ہاتھ ميں اس کا اپنا ويسا ہی چھوٹا سا بيگ تھا۔ چادر کوپوری طرح لپيٹے وليہ شہزاد کے ہمقدم تھی۔
“گاڑی ميں روڈ پر ہے” شہزاد نے ساتھ چلتے اسے کہا۔
وليہ نے ہولے سے سر ہلايا۔
تھوڑی ہی دير ميں مين روڈ آگئ۔ سفيد چمچاتی کرولا انکے سامنے کھڑی تھی اور ساتھ ہی باوردی ڈرائيور بھی۔
سلام کرے اس نے آگے بڑھ کر شہزاد سے دونوں بيگ تھامے۔ شہزاد نے پچھلی جانب کا دروازہ کھول کر وليہ کو بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ وہ خاموشی سے بيٹھ گئ تو شہزاد نے دروازہ بند کيا اور خود ڈرائيور کے ساتھ والی پسنجر سيٹ پر بيٹھ گيا۔
يہ گاڑی دارم کے آفس کی گاڑی تھی۔ لہذا شہزاد ڈرائيور کواچھے سے جانتا تھا۔ وہ دونوں باتوں ميں مصروف ہوگۓ اور وليہ باہر بھاگتے دوڑتے نظاروں ميں مگن ہوگئ۔
بيس منٹ بعد گاڑی ايک خوبصورت اور عاليشان گھر کے سامنے رکی۔
“آپ دونوں بيٹھيۓ ميں سر سے پوچھ کر آتا ہوں۔ پھر آپ دونوں ميرے ساتھ ہی فارم ہاؤس تک چليں گے” ڈرائيور نے شائستہ لہجے ميں شہزاد سے کہا۔
“ٹھيک ہے” شہزاد کے کہتے ہی وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
وليہ گردن موڑے گھر کے اندرونی حصے کو ديکھ رہی تھی جہاں پہلے سے ہی دو گاڑياں کھڑی تھيں۔ اور تين گاڑياں گھر سے باہر موجود تھيں۔ ڈرائيور جيسے ہی اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ چند منٹ بعد چھ لوگ گھر کے اندرونی حصے سے برآمد ہوۓ جن ميں تين فيشن ايبل لڑکياں اور چار اونچے لمبے خوبرو سے لڑکے برآمد ہوۓ۔ شہزاد انہيں باہر آتا ديکھ کر فورا گاڑی سے باہر نکلا۔ وليہ کچھ کنفيوز سی ہوئ۔ کيونکہ وہ سب انکی گاڑی کی ہی جانب ديکھ رہے تھے۔ وليہ نے اب کی بار چہرہ موڑ کر سامنے ديکھنا شروع کرديا۔ وہ پہلی بار اتنے امير لوگوں کے بيچ تھی۔
“پتہ نہيں مجھے ان سے بات کرنے کا سليقہ بھی آۓ گا کہ نہيں” اب تھوڑا سا گھبرا رہی تھی۔ حالانکہ يہ اسکی سرشت نہيں تھی۔ وہ مشکل سے مشکل وقت ميں بھی خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتی تھی۔
وليہ کی نظر اب شہزاد پر پڑی جو کسی سے بغلگير ہورہا تھا۔ پھر اس لڑکے نے باری باری شہزاد کا تعارف بافی سب سے کروايا۔ اور ايک اچٹتی نگاہ گاڑی ميں بيٹھی خود کو تکتی وليہ پر ڈالی۔ وليہ نے پھر چہرہ دائيں جانب موڑ ليا۔
“يا اللہ ميں نے شہزاد سے اسکے باس کی عمر کا کيوں نہيں پوچھا يہ سب تو بہت ينگ ہيں۔ ہاں کيا پتہ انکے بچے ہوں۔” وہ خود سے مفروضے گھڑنے لگی۔ ہاتھوں کی انگليوں کو اضطرابی انداز ميں مروڑ رہی تھی۔
“ميں بيٹھی ہی ہوں کہ باہر نکل آؤں۔۔۔ يہ شہزاد کا بچہ بھی جاکر چپک گيا ہے۔۔کتنا برا لگتی ہے انہی کی گاڑی ميں ٹھاٹھ سے بيٹھی انہيں نظر انداز کررہی ہوں” وہ شہزاد کو کوسنے لگی۔
ابھی وہ اسی ادھيڑ بن ميں تھی کہ کيا کرے کيا نہ کرے کہ شہزاد اسکی جانب والے دروازے کی جانب آيا۔
“باجی ايک منٹ باہر آؤگی ميں آپ کو باس سے ملوا دوں” شہزاد دروازہ کھولے اسے باہر آنے کی درخواست کررہا تھا۔ وہ لب بھينچے کانپتے وجود سے باہر آئ۔ جو بھی تھا مال دار لوگوں سے ملتے ايک فطری کمپليکس کا حملہ ہر غريب پر ہوتا ہے۔
مگر وہ دل ہی دل ميں خود کو ہمت دلا رہی تھی۔
باہر نکل کر اس نے اپنا رخ انکی جانب کيا جو اب خود گاڑی کی جانب آرہے تھے۔ ان ميں ايک لڑکا اور ايک ماڈرن سی لڑکی ہی اسکی جانب بڑھے باقی سب اپنی جگہ کھڑے تھے۔
وليہ اپنی جگہ پر ہی کھڑی رہی۔
“السلام عليکم” اس نے انکی جانب ديکھتے آواز کی لرزش پر قابو پايا۔
“وعليکم سلام۔۔ وليہ۔۔” لڑکی آگے آتی اسکی جانب ايسے بڑھی جيسے وہ بچپن کی سہلياں ہوں۔ وليہ نے اسکے جوش پر ايک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اثبات ميں سر ہلايا۔ حاجرہ نے آگے بڑھ کر يکدم اسے گلے سے لگايا۔
وليہ اس قدر پرجوش استقبال کے لئے تيار نہ تھی۔ اسکے چہرے کی حيرت دارم سے چھپی نہ رہی۔ وہ بمشکل مسکراہٹ چھپا گيا۔
“يو آر سو پريٹی۔۔ ميں دارم کی کزن ہوں” اس نے خود ہی اپنا تعارف کروايا۔
“باجی يہ ميرے باس سر دارم ہيں” شہزاد نے دارم کی جانب اشارہ کرتے وليہ کو بتايا۔
“کيسی ہيں آپ۔ بہت شکريہ آپ نے آنے کی حامی بھری۔” اونچا لمبا خوبصورت نين نقوش والا دارم اسی شائستہ لہجے ميں وليہ سے مخاطب ہوا جس لہجے ميں رات ميں وہ فون پر بات کررہا تھا۔
“نہيں پليز”وليہ نے نظريں جھکا کر بس اسی قدر کہا۔
“بھئ يہ دو دن تو اور بھی اچھے گزرنے والے ہيں۔ تمہاری کوکنگ کی دارم بہت تعريف کررہا تھا” حاجرہ کی بات پر وليہ چونکی۔۔ شہزاد نے بھی حيران ہوکر ديکھا۔ اس نے کب وليہ کے ہاتھ کے بنے کھانے کھاۓ۔ اب وليہ کی حيرت ميں ڈوبی نظريں دارم کی جانب اٹھيں۔
“شہزاد کافی تعريف کرتا ہے آپکی تو وہی ميں نے حاجرہ سے ڈسکس کيا” دارم نے کھاجانے والی نظروں سے حاجرہ کو ديکھا۔ جسے رات ميں ہی اس نے بريانی کھانے والے دن کا واقع بتايا تھا۔ مگر ابھی وہ شہزاد اور وليہ کے سامنے يہ بات نہيں کرنا چاہتا تھا۔
“چليں آپ لوگ بيٹھيں۔۔ ہم نکلتے ہيں” اس سے پہلے کے حاجرہ مزيد کوئ گل افشانی کرتی دارم نے فورا انہيں ادھر ادھر کيا۔
“ہاں چلو۔ اب فارم ہاؤس ميں ملافات ہوگی” حاجرہ کے پيچھے ہٹتے وليہ نے سکھ کا سانس ليا۔ وہ ايک دم گھلنے ملنےوالی نہيں تھی۔ ريزرو سی پرسنيلٹی تھی اس کی۔
وہ سب مختلف گاڑيوں ميں بيثھتے فارم ہاؤس کی جانب چل پڑے۔
__________________________
“کيا ضرورت تھی تمہيں يہ بات کہنے کی کہ مجھے اسکے کھانے بہت پسند ہيں” حاجرہ دارم کی گاڑی ميں اسکے ساتھ موجود تھی۔
“تو کيا نہيں ہو؟” اس نے بھول پن سے پوچھا۔۔ پہلی بار وہ دارم کو يوں جھنجھلاتے ديکھ رہی تھی۔ وہ تو لوگون کی پرواہ کرنے والا ہی نہيں تھا۔ کون کيا کہتا ہے کيا سوچتا ہے۔۔ پھر۔۔حاجرہ نے آنکھيں سکيڑ کے اس کی جھنجھلاہٹ سے لطف اٹھايا۔
“ہر بات ہر ايک کے سامنے نہيں کرتے۔۔اسے نہيں پتہ کہ ميں نے اسکے ہوٹل سے کبھی کچھ کھايا ہے۔ وہ شہزاد کے سامنے ميرے لئے بالکل اجنبی ہے” وہ خود بھی حيران تھا کہ اسے کيوں اس بات کی پرواہ ہورہی ہے اگر وہ اسے کے سامنے کھل جاۓ کہ وہ اسے پہلے سے جانتا ہے يا نہيں۔
“ہر ايک يا۔۔۔۔۔۔” حاجرہ نے اسے ديکھتے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔ دارم کو لگا وہ کچھ زيادہ ری ايکٹ کرگيا ہے۔ فورا بات پلٹ کر حاجرہ کا دھيان کہيں اور لگايا۔ ابھی تو وہ بھی اپنی کيفيات کوکوئ حتمی سند نہيں دے پارہا تھا کسی اور کو کيا بتاتا۔
_____________________
گھنٹے کے بعد گاڑی ايک بہت پرسکون، خاموش اور ہرے بھرے علاقے ميں پہنچی۔ دور تلک آبادی بہت کم تھی۔ يہ پرفضا سا علاقہ وليہ کو بے حد بھلا لگا۔
“نجانے اللہ کی تقسيم ميں يہ تضاد کيوں ہے؟” خود سے مخاطب وہ ان اميروں کے ٹھاٹھ ديکھ کر حيران تھی۔ جہاں غريب ايک چھت کے لئے ترستے ہيں۔ وہيں ايسے لوگ بھی ہيں جو نجانے کتنی چھتوں کے مالک ہيں۔ اس نے ايک گہری سانس کھينچی۔ شہزاد اور گاڑی کا ڈرائيور دونوں باتوں ميں مگن تھے۔
اسے موقع نہيں ملا شہزاد کو گھرکنے کا کہ اس نے اپنے باس کی عمر کے بارے ميں اسے کچھ نہيں بتايا تھا۔ اسکی بوکھلاہٹ کی اصل وجہ يہی تھی۔ وہ تو يہی سوچے بيٹھی تھی کہ کوئ عمر رسيدہ شخص ہوگا۔ مگر اس خوبرو شخص کو باس کی صورت ميں ديکھ کر وہ
گھبراتی نہ تو اور کيا کرتی۔
گاڑی ايک بڑے سے دروازے سے گزر کر ايک بہت بڑے ہائ وے پہ رواں دواں تھی۔ اردگرد خوبصورت لان تھے جنہيں کچھ مصنوعی چيزيں لگا کر اور بھی جاذب نظر بنايا ہوا تھا۔
وہ اس جگہ کی خوبصورتی کو سراہے بغير نہ رہ سکی۔ جس کا بھی ذوق تھا بہت اعلی تھا۔
کچھ دور جاکر تھوڑا سا رہائشی حصہ تھا۔ سفيد ماربل سے بنا وہ رہائشی حصہ ہرے بھرے درختوں کے درمياں بے حد بھلا معلوم ہورہا تھا۔
گاڑی رکتے ہی وليہ اتری۔ اسکے آگے ان سب کی گاڑياں بھی رک چکی تھيں۔ حاجرہ کو دارم نے وليہ کے پاس بھيجا۔ وہ اسے لئے فضا اور فائقہ سے ملانے لے آئ۔
وہ دونوں بھی گرمجوشی سے اس سے مليں۔ وليہ کو يہ ديکھ کر اور بھی اطمينان ہوا کہ وہ سب اميروں کی طرح نک چڑھی اور مغرور نہيں تھيں۔ بلکہ وليہ سے ايسے پيش آرہی تھيں جيسے اسکی دوست ہوں۔
وہ سب رہائشی حصے کے اندر آچکے تھے۔ تين چار ملازم انکے سامان لئے دارم کی ہدايات پر مختلف کمروں ميں پہنچا رہے تھے۔
“ميرا روم وہی ہوگا جو ميں ہر بار ليتی ہوں” حاجرہ دارم کو ہدايات دے کر دھونس بھرے لہجے مين بولی۔
“اچھا يار” دارم نے عجلت ميں کہا۔
“شہزاد اور آپ آئيں مس آپ کو روم دکھا دوں” دارم نے شہزاد اور پھر اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ وليہ شہزاد کی پيروی ميں چل پڑی۔
دارم ديکھ رہا تھا کہ وہ بہت خاموش طبع ہے۔ حاجرہ، فائقہ اور فضا کی باتون کا جواب بھی وہ ہوں ہاں کے علاوہ نہيں دے رہی تھی۔
“يہ والا روم آپ کا ہے۔ يہ شہزاد کا” اس نے دو کمروں کی جانب اشارہ کيا۔ وليہ کو اس کاريڈور ميں آمنے سامنے موجود سب کمرے ايک جيسے ہی لگ رہے تھے۔
“آپ چاہئيں تو فريش ہوليں” دارم پھر اس سے مخاطب ہوا۔ وليہ مسلسل نظريں دارم کے علاوہ باقی سب جگہوں پر گھوما رہی تھی۔
“جی ۔۔ پھر آپ ہميں کچن کا بتا ديجئيے گا تاکہ دوپہر کا کھانا ٹائم پہ تيار کرليں” وليہ نے پھر سے پروفيشنل انداز ميں کہا۔
“جی ضرور” دارم کے کہتے ساتھ ہی وہ اپنے روم ميں آگئ۔ ملازم اس کا بيگ رکھ کر جاچکا تھا۔ اتنا ويل فرنشڈ کمرہ تو وہ کبھی خواب ميں بھی نہيں سوچ سکتی تھی۔ دبيز قالين۔۔ خوبصورت آف وائٹ اور گولڈن رنگ کے امتزاج سے بنا بيڈ۔۔ کمرے ميں فرنيچر کی بھرمار نہيں تھی۔ بيڈ کے علاوہ دو خوبصورت لکڑی کی کرسياں موجود تھيں۔ بيڈ کے ساتھ اسی طرز کے سائيڈ ٹيبل تھے۔ کمرے کی کھڑکی پچھلے باغ کی جانب کھلتی تھی۔
وليہ ہولے سے چلتی بيڈ پر آکر بيٹھی۔ وہ اس مقام پر آکر بھی اپنی اوقات نہيں بھول رہی تھی۔ وہ ملازم تھی اور بس۔۔
بيڈ سے اٹھ کر وہ تيزی سے واش روم کی جانب بڑھی۔ جس کا دروازہ کھلا تھا۔ چادر وہ پہلے ہی اتار کر بيڈ پر رکھ چکی تھی۔ منہ دھو کر تھوڑا خود کو چاک و چوبند کيا۔ بيگ سے چادر نما دوپٹہ اتارا۔۔۔ واش بيسن کے شيشے ميں خود کا جائزہ ليا۔ يکدم نگاہوں ميں حاجرہ، فضا اور فائقہ کی ڈريسنگ لہرائ۔ جديد تراش خراش کی شرٹس کے ساتھ کيپری پہنے ہوۓ تھيں۔ دوپٹے سرے سے تھے ہی نہيں۔ اس نے سر جھٹکا۔ اس نے اپنے ہينڈ بيگ ميں سے موبائل نکال کر سائرہ کو اپنے ادھر پہنچ جانے کی اطلاع دی اور دروازے کی جانب بڑھی۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر آئ۔ سمجھ نہيں آئ کون سا کمرہ شہزاد کا تھا۔ سب کمروں کے دروازے ايک سے تھے۔ وہاں آمنے سامنے چھ کمرے بنے تھے۔
کچھ جھجھک کر اپنے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹايا۔
يہی غالبا دارم نے بتايا تھا۔ ايک بار ناک کرکے وہ انتظار ميں کھڑی تھی کہ اندر جانے کی اجازت ملے تو وہ جاۓ يا شہزاد باہر آئے۔
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ درواز جھٹکے سے کھلا۔
وہ جو سامنے شہزاد کو ديکھنے کی اميد کرتے ہوۓ دروازے کی جانب پلٹی دارم کو سامنے کھڑے ديکھ کر بوکھلائ۔
“اوہ سوری۔۔ وہ ميں سمجھی يہ شہزاد کا روم ہے” اس نے جلدی سے اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے وضاحت کی۔
“اٹس اوکے ميم۔۔ شہزاد کا روم اس طرف والا ہے” اس نے وليہ کے ہی ساتھ کمرے کے دوسری جانب اشارہ کيا۔ مخصوص نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اس نے وليہ کی راہنمائ کی۔
“تھينکس” وليہ نے اسکی گھنی مونچھوں تلے تراشيدہ لبوں پر کھلنے والی مسکراہٹ سے نظر چرائ۔ تيزی سے وہ دوسرے دروازے کی جانب بڑھی۔ دارم اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے کاريڈور سے گزر کر جاچکا تھا۔ وليہ نے بے اختيار اسکی چوڑی پشت کو ديکھا۔ بليو جينز اور لمين کلر کی ٹی شرٹ پہنے وہ حسين مرد تھا۔
يا شايد بے تحاشا دولت لوگون کو حسين بنا ديتی ہے۔
وليہ کے سوچنے کی رفتار ان لمحوں ميں بہت زيادہ ہو چکی تھی۔ شہزاد کے باہر آتے ہی وہ اسکے ساتھ مين ہال کی جانب آئ۔
دارم اپنے کزنز کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ سب باتوں ميں مصروف تھے۔ دارم انہيں آتا ديکھ کر اٹھا اور ايک جانب اشارہ کرکے کچن ميں لے آيا۔
“يہ ان دو دنوں کے لئے آپ دونوں کا ہوا۔ اسکی ذمہ داری آپ دونوں کے کندھوں پر” دارم نے خوش اخلاقی سے کچن ميں داخل ہوتے کہا۔
وہ دونوں بھی اسکے پيچھے آۓ۔ کشادہ، جديد طرز کا بنا يہ کچن وليہ کو بے حد بھلا لگا۔
دارم کے انداز پر وہ ہولے سے مسکرائ۔ دارم نے کسی قدر حسرت سے اسکی خوبصورت سی مسکان ديکھی۔
“اوکے سر” شہزاد کی آواز نے اسکی محويت توڑی۔
“پليز اگر اس وقت چاۓ بنا ديں تو مہربانی ہوگی۔” دارم نے دونوں کو مخاطب کيا۔
“کوئ اسنيکس بھی چاہئيں اسکے ساتھ؟” وليہ نے فريج کی جانب بڑھتے سوال کيا۔ پھر کھولنے سے پہلے اسکی جانب ديکھا جيسے اجازت چارہی ہو۔
“اب سے يہاں کی ہر چيز آپ دونوں کی جب چاہئيں کھوليں۔ جيسے چاہے استعمال کريں۔۔۔”
“مجھ سميت” دل کے کونے سے آخری جملے کی بازگشت سنائ دی۔ جسے فی الحال دارم نے ڈپٹ کر چپ کروايا.
“اسنیکس بنانا چاہئیں تو ویل اینڈ گڈ”
“اوکے بس بيس منٹ ميں ہم لاتے ہيں” وليہ نے فريج ميں موجود چيزوں کا جائزہ ليتے ہوۓ مصروف انداز ميں کہا۔
ايک مسکراتی نظر اس پر ڈال کر وہ کچن سے چلا گيا۔
_____________________________
آدھے گھنٹے بعد شہزاد لوازمات سے سجی ٹرالی لے کر سيٹنگ روم ميں آيا۔
دارم کے ملازم اسکے آنے سے پہلے ہی ضرورت کی ہر چيز لے کر آچکے تھے۔ لہذا ان سب کو مد نظر رکھتے وليہ نے جلدی سے ايگ چيز سينڈوچ اور ساتھ ميں کوکونٹ بسکٹس اوون ميں بنا ليے۔ گرم گرم کوکونٹ بسکٹس کا ايروما پورے سيٹنگ لاؤنج ميں پھيل چکا تھا۔
“واہ۔۔۔۔ خوشبو اتنی لاجواب ہے تو ذائقہ کيا ہوگا” شاکر نے خوشبو کو آنکھيں بند کرکے اچھے سے محسوس کرتے کہا۔
شہزاد نے سب کو چاۓ سرو کی۔
“بھئ تمہاری باجی کے تو ہم ابھی سے قائل ہوگۓ” حاجرہ نے بھی بسکٹس سے لطف ليتے ہوئے شہزاد کو مخاطب کيا۔ جو مسکراتے ہوۓ انکی تعريف وصول کررہا تھا۔
“دوپہر کا مينيو بتا ديں” شہزاد مئودب ہو کر ايک جانب کھڑا پوچھنے لگا۔
“بريانی بنا لو” دارم کا دل تو وليہ کی بريانی پہ ايسا آيا تھا کہ اسی کی فرمائش کر بيٹھا۔
“ہاں ٹھيک ہے۔۔ رات ميں باربی کيو رکھ ليتے ہين” باقيوں نے بھی تائيد کی۔
“جی” شہزاد مڑ کر جانے لگا کہ دارم کی آواز پر رکا۔
“تم نے اور وليہ نے چاۓ لی؟” اس کے استفسار پر وہ خاموش ہی رہا۔
“چلو” اسے ايک نظر تاسف سے ديکھتا وہ اسکے ساتھ کچن کی جانب ہوليا۔
جہاں وليہ چيزيں سميٹ رہی تھی۔ اور فارم ہاؤس کی ہی ايک ملازمہ اسکا ہاتھ بٹا رہی تھی۔
دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھوں پر موجود تھا۔ اس نے بھی ٹھيک نہيں کيا۔ اطمينان تھا کہ اب کوئ اس جانب نہيں آۓ گا سواۓ شہزاد کے۔ وہ مگن سی اس لڑکی کے ساتھ باتوں ميں بھی مصروف تھی۔
کچن کی جانب آتی ہوئ اسکی آواز دارم کو بے حد بھلی لگی۔
“تو ميڈم بولتی بھی ہيں مگر اپنی مرضی سے اور اپنی مرضی کے لوگوں سے” دارم کے لبوں پر ہولی سی مسکراہٹ جھلکی۔ کچن ميں داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹھکا۔ بالوں کا اونچا سا جوڑا بناۓ
دروازے کی جانب پشت کئے وہ سنک کے پاس کھڑی دھلے برتنوں کو کپڑے سے صاف کررہی تھی۔ دارم کی نظر اسکی گردن کی پشت پر موجود تل پر لمحے بھر کو ٹھٹھکی۔ پھر نظر موڑ کر اس نے ہولے سے کچن کا دروازہ بجايا۔
وہ تيزی سے مڑی۔ دارم کو نظريں جھکاۓ دروازے کے قريب ديکھ کر ہاتھ سرعت سے دوپٹے کی جانب گيا۔
شہزاد بھی دارم کے پيچھے کچن کے دروازے ميں نمودار ہوا۔
“آپ لوگوں کو ميں صرف کام کے لئے نہيں لايا۔ پليز جو بھی کھانا پينا ہو۔ آپ سہولت سے لے سکتے ہيں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ جيسے ميں آپ لوگوں کو اپنا سمجھ کر يہاں لايا ہوں۔ آپ بھی اس جگہ کو اپنا ہی سمجھيں گے۔ سو پہلے چاۓ ليں۔ اسکے بعد کچھ اور کيجئے گا۔ دوپہر اور رات کا مينيو ميں نے شہزاد کو بتا ديا ہے۔” آخر مين اس نے نگاہ اٹھا کر اسکی جانب ديکھا جو ہاتھوں کو باندھے ۔۔ اب نظريں جھکاۓ کھڑی تھی۔
“جی” افففف پھر وہی مختصر جواب۔ دارم نے ايک خشمگيں نگاہ اسکے جھکے سر پر ڈالی۔
مڑ کر شہزاد کو اندر آنے کا راستہ ديا اور خود نکل کھڑا ہوا۔
وليہ کو شہزاد کے باس کی بولتی نظريں ذرا اچھی نہيں لگ رہی تھيں۔
“پتہ نہيں ايسے کيوں گھورتا ہے۔ شہزاد کو گھورے وہ اس کا مستقل ملازم ہے۔۔ ميں تو نہيں ہوں” چاۓ نکالتے وہ مسلسل اسے سوچ رہی تھی۔
“ہاں مگر اچھا ہے۔۔ عزت کرنا جانتا ہے۔ اور اسی لئے اچھا بھی لگا ہے” چاۓ پيتے۔ وہ اپنی سوچوں ميں مگن تھی۔

Latest Posts

Related POSTS