دوپہر کا کھانا کھا کر وہ سب پچھلے باغ ميں بنے سوئمنگ پول کی جانب آگۓ۔ قہقہے، ہنسی مذاق ۔۔کتنی بے فکری تھی انکے لہجے ميں۔ لڑکياں ڈيک چئيرز پر براجمان تھيں جبکہ سب لڑکے سليوليس شرٹس اور برمودہ پہنے سوئمنگ کرنے ميں مگن تھے۔
وليہ اس وقت فارغ تھی۔ کچن سے نکل کر وہ يوں ہی پچھلے حصے کی جانب آئ۔ وہ نہيں جانتی تھی کہ وہ سب بھی وہاں ہيں۔ رہائشی کمروں کے آگے دالان سا موجود تھا جہاں بے حد خوبصورت پودے اور بيليں لپٹی ہوئ تھيں۔ وہ انہی کو ديکھتی۔ مگن اس حصے کی جانب آئ جہاں سے کچھ دور سوئمنگ پول نظر آتا تھا۔
“ايک يہ ہيں۔۔۔ فکر و فاقے سے آزاد زندگی کا مزہ بھرپور انداز ميں لے رہے ہيں۔ اور ايک ہم جيسے ہيں۔ صبح اسی فکر سے ہوتی ہے کہ آج چيزيں بکيں گی کہ نہيں۔ اور رات اس فکر پر ختم ہوتی ہے کہ کل کا کيا بنے گا۔” ايک پلر کے ساتھ ٹيک لگاۓ وہ ان سب کو حسرت سے ہنستے زندگی کو جيتے ديکھ رہی تھی۔
اس بات سے انجان کے پول سے باہر آکر دارم جو ايک چئير پر بيٹھا توليے سے ہاتھ منہ صاف کررہا تھا۔ اسکی نظريں وليہ کے چہرے پر ہی ٹکی تھيں۔
اور جيسے وليہ اسکی نظروں سے انجان تھی۔ اسی طرح وہ حاجرہ کی نظروں سے انجان تھا۔
جو اسکی وليہ پر بار بار اٹھنے والی نظروں سے بہت کچھ جان گئ تھی۔ اپنی چئير سے اٹھ کر وہ اسکے پاس آئ۔ ايک بازو کی کہنی اسکے دائیں کندھے پر ٹکاۓ اسکے کان کے قريب جھکی۔ دارم نے يکدم چونک کر نظروں کا رخ پھير کر حاجرہ کو ديکھا۔
“بات کيا ہے باس؟” وليہ کے لہجے کی شرارت پر دارم نے بھنويں اچکائيں۔
“کون سی بات؟” اسکے سوال پر اس نے بھی سوال کيا۔
“بات معدے سے ہوکر دل پر لگ گئ ہے” اسکی شرارت ميں ڈوبی بات کو وہ ايسے نظر انداز کرگيا جيسے واقعی کچھ نہيں۔
“کس کے معدے۔۔۔ کيا بدہضمی ہورہی ہے تمہيں۔۔ ميرے خيال سے بريانی ميں ايسا کچھ نہيں تھا”دارم نے حتی المقدور لہجے کو سرسری رکھا۔ مگر سنجيدہ چہرے کے ہمراہ جيسے وہ اپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کررہا تھا حاجرہ سے چھپا نہيں رہ سکا۔
“بکواس نہ کرو۔۔ ہمارے لئے تو نہيں مگر تمہارے لئے اس بريانی ميں بہت کچھ تھا۔”سيدھے ہوتے اسکے کندھے پر دھپ ماری۔
“اچھا مثلا۔۔وضاحت پليز” محبوب نہ سہی محبوب کا ذکر ہی سہی۔
“مجھے چکر دے رہے ہو مجھے” وہ اپنی جانب انگلی کرکے حيرت سے بولی۔
“تمہيں کافی چکر چڑھ چکے ہيں۔ پہلے انہيں اتارو۔۔” اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوتے اب وہ ہاتھ سينے پر باندھے کھڑا تھا۔
“کھوج تو ميں لگا کر رہوں گی” اس نے بھی دھمکی دی۔
دارم نے اسکے تلملانے پر قہقہہ لگايا۔ يہ پہلی بار تھا کہ وہ کسی طرح اسکے ہاتھ نہيں آرہا تھا۔ ورنہ وہ ہميشہ ہر بات ايک دوسرے سے ڈسکس کرتے تھے۔
وليہ نے اپنے خيالون سے چونک کر دارم کو قہقہہ لگاتے ديکھا۔
“لگتا ہے ان کی کوئ سيٹنگ ہے” وہ ان دونوں کو آپس ميں زيادہ باتيں کرتے ديکھتی تھی۔ باقی سب ہوتے تھے۔ مگر وہ دونوں زيادہ فرينک لگتے تھے۔
“مجھے کيا” اپنی بات پر خود کو سرزنش کی۔ اور مڑ کر اندر کی جانب چلی گئ۔
رات کی بھی تو تياری کرنی تھی۔
________________________
رات ميں وہ ہر چيز کو مصالحہ پہلے سے لگا چکی تھی۔
دارم نے انگيٹھی اور کھانے کی ٹيبل کا اہتمام باہر لان ميں ہی کر ديا تھا۔
ايک جانب کرسياں لگا کر وہ لوگ بيٹھے تھے اور انکے سامنے شہزاد اور وليہ تيزی سے ہاتھ چلاتے۔ کباب،، تکے بنا رہے تھے۔
“باجی يہ ديکھو صحيح رکھيں ہيں نا” شہزاد سيخيں انگيٹھی پر رکھتے اس سے پوچھ رہا تھا۔
وہ کام والی دو لڑکيوں کے ساتھ مل کر تيزی سے سلاد کاٹ رہی تھی۔
“ہاں ٹھيک ہے۔ بس اب ذرا آہستہ آہستہ پنکھی سے ہوا ديتے جاؤ۔۔ آہستہ دينا تيز دو گے تو کوئلے کی راکھ ہوا ميں زيادہ تيزی سے اڑے گی” اسے ہدايات دے کر وہ واپس اپنے کام ميں مگن ہوگئ۔
جيسے سلاد کو اچھے سے سجا کر مڑی دارم اور اسکے کزنز انہی کی جانب آرہے تھے۔
“لاؤ بھئ شہزاد ہم بھی شہيدوں ميں اپنا نام لکھوا ليں” عالم نے اسکے ہاتھ سے پنکھی پکڑتے اسے جھلاتے ہوۓ کہا۔
وليہ جو دوسری جانب اور سيخيں تيار کررہی تھی۔ دارم کو اپنی جانب آتا ديکھ کر جھجھکی۔
کوئ تصويريں لے رہا تھا اور کوئ سيخوں کی سيٹنگ ميں موجود تھا۔
“سر آپ لوگ انجواۓ کريں۔ ہم ہيں نا کرليں گے سب” وليہ نے دارم کو اپنے قريب کھڑے ديکھ کر مصروف انداز ميں کہا۔ ايک سيخ اسکے سامنے سے اٹھا کر وہ بھی برتن ميں موجود چکن کی بوٹيوں کو سيخوں پر لگانے لگا۔
“ہم انجواۓ ہی کررہے ہيں۔ ايک نيا ايکسپيرينس۔۔” دارم نے بھی مصروف سے انداز ميں کہا
“آپ اتنا ہی کم بولتی ہيں يا ہمارے ساتھ آپ کو بات کرنا اچھا نہيں لگتا” ہاتھ روک کر سيخ پر چلتے ہوۓ اسکے ہاتھ ديکھے جو سيخ کباب لگا رہے تھے۔ وہ بھی ايک سيخ لے کر اسی کے انداز کو فالو کرنے لگا۔
اسکی بات پر چند لمحوں کے لئے وليہ کے چلتے ہاتھ رکے۔
“انسان کو انہی لوگوں سے بات کرنی چاہئے جو اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق ہوں۔ اگر اپنے مقام سے اوپر والوں سے بات کرتا ہے تو منہ کے بل گرتا ہے۔ اور اگر اپنے سے نيچے والوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لوگ اسے منہ کے بل گرانے ميں کوئ کسر نہيں چھوڑتے” وليہ کی بات پر وہ لحظہ بھر کو اسکی بات کی گہرائ پہ ششدر رہ گيا۔ اتنی سی عمر اور اتنا تجربہ۔
“اگر وہ اپنے مرتبے سے ہٹ کر لوگوں سے بات چيت نہيں کرے گا۔ تو ميرا خيال ہے دنيا
پرکھنے کی صلاحيت سے محروم رہ جائے گا” دارم نے اسکی بات کو جھٹلايا۔ حالانکہ وہ اسکی بات ميں چھپی حقيقت سے متفق ہوا تھا۔
وليہ نے پہلی بار جھکی آنکھيں اٹھا کر اسکی جانب ديکھا جو اپنی بات کے تاثرات اسکے چہرے پر ديکھا تھا۔ وليہ کی نظريں بہت کچھ جتاتی سی تھيں۔
“سر جب انسان غريب ہو اور لاچار بھی تو وہ اس مقام پر رہتے ہوۓ بھی دنيا کے بہت سے چہروں کو پرکھ ليتا ہے۔ بہت سے تجربے حاصل کرليتا ہے۔ مگر يہ بات محلوں ميں رہنے والے نہيں جان پاتے” اس کا لہجہ طنزيہ نہيں سادہ سا تھا جيسے اپنا تجربہ بتا رہی ہو۔
“تو لوگوں کو پرکھنے کے فن سے آشنا ہيں آپ” دارم نے سراہا۔
“اپنے تئيں کوشش کرتی ہوں۔ مگر کون جانے کب کون کيسے بدل جاۓ۔ ساری کی ساری پرکھی ہوئ باتيں وہيں کی وہيں رہ جاتی ہيں، اسی لئے ميں کسی کی ذات کے حوالے سے کسی کو کچھ نہيں بتاتی” اس سے پہلے کے دارم اسے کہتا کہ اسکے بارے ميں کچھ بتائے۔ وليہ نے جيسے اسے شٹ اپ کال دے دی۔۔
دارم متاثر ہوۓ بنا نہ رہ سکا۔ اگر وہ اتنے مردوں کی بھيڑ ميں دکان چلا رہی تھی تو کيسے اور کيوں چلا رہی تھی۔ دارم کو آج اس بات کا جواب مل گيا تھا۔ اللہ نے اسے اس قدر اعتماد سے نوازا تھا کہ وہ بڑے بڑوں کے چھکے اڑا دينے کی صلاحيت رکھتی تھی۔
اور دارم کو پسند ہی ايسی مضبوط لڑکياں تھيں۔ ايسی لڑکياں مقابل کو خود بخود اپنی جانب کھينچتی ہيں۔ انہيں بننے سنورنے خود پر محنت کرنے کی ضرورت ہی نہيں ہوتی۔ ان کا مضبوط کردار مقابل کو چاروں خانے چت کرديتا ہے۔
جيسے رفتہ رفتہ دارم ہورہا تھا۔
دارم کو خاموش کروا کر اب وہ تندہی سے اپنا کام ختم کررہی تھی۔
کھانے تک پھر ان کے درميان کوئ بات نہيں ہوئ۔
کھانے کے بعد وليہ اور شہزاد باقی ملازموں کے ساتھ چيزيں سميٹ کر اندر جاچکے تھے۔
جبکہ وہ سب ابھی باہر ہی بيٹھے تھے۔
” يار کل قريب کے دريا سے مچھلی کا شکار نہ کريں” عالم کی بات پر فضا سب سے زيادہ ايکسائيٹڈ ہوئ۔
“واؤ گڈ آئيڈيا”
“ميرا خيال ہے يہاں ايک تاريخی قلعہ ہے اس کی سير کرکے آتے ہيں” فائقہ نے بھی مشورہ ديا۔
“ايسا کرتے ہيں پہلے قلعہ ديکھ آتے ہيں پھر وہيں سے مچھلی پکڑ کر وہيں پر پکا کر کھاليں گے۔” شاکر کے مشورے کی سب نے تائيد کی۔
“بيٹر پلين” دارم نے بھی سراہا۔
“شہزاد اور وليہ کو ساتھ لے جائيں گے” حاجرہ نے بھی مشورہ ديا۔
“ظاہر ہے تم نکميوں کو مچھلی پکانے کا طريقہ کہاں آتا ہوگا؟” شاکر کی بات پران تينوں نے تيکھے چتونون سے اسے ديکھا۔ باقی سب لڑکوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
شہزاد چاۓ کے کپ لئے انکی جانب آيا۔
“جيتے رہو” طلحہ نے خوش ہو کر اسے دعا دی۔
“آجا يار ادھر ہی بيٹھ جا” عالم نے اسے بھی وہيں ايک خالی کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
“تم چائے نہيں پيتے” شاکر نے سوال کيا۔
“نہيں سر اس وقت نہيں پيتا” اس نے متانت سے جواب ديا۔
“وليہ کيا کررہی ہے۔ اس سے کہو ادھر ہی آجاۓ” حاجرہ کو اسکی کمی محسوس ہوئ۔ اور يقينا دارم کو بھی۔ اسے لگا حاجرہ نے اسکے دل کی بات کہہ دی ہے۔ ايک اچٹتی نگاہ حاجرہ پر ڈالی اس نے شرارت سے آنکھ دبائ۔
اسکی شرارت سمجھ کر چہرے پر کھلنے والی مسکراہٹ کو اس نے بمشکل باقی سب سے چھپايا۔
“باجی نماز پڑھنے چلی گئيں ہيں اپنے کمرے ميں” شہزاد کی بات پر حاجرہ نے گہرا سانس لے کر جان بوجھ کر دارم کو ديکھا۔
وليہ کے حوالے سے يہ چھيڑ چھاڑ اسے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ زندگی ميں پہلی بار وہ ايسے کسی جذبے سے واقف ہوا تھا۔
چاۓ ختم کرتے ہی دارم نے سب کو اٹھنے کا اشارہ کيا۔
“چلو يار ريسٹ کرو۔۔ پھر صبح جلدی اٹھنا ہے۔ شہزاد کل ہم يہاں قريب ای ايک قلعہ کو ديکھنے جارہے ہيں۔ پھر مچھلی کے شکار کے لئے تو تم بھی تيار رہنا اور وليہ کو بھی بتا دينا۔” دارم کی بات پر اس نے اثبات ميں سر ہلايا۔
اندرونی حصے کی جانب بڑھتے وہ سب اپنے اپنے کمروں ميں چل دئيے۔
_______________________________
دارم دراوزہ دھکيل کر اندر داخل ہوا۔ اپنے پيچھے دروازہ بند کيا۔ لاک لگايا اور ريليکس انداز ميں بيڈ پر جاکر دھپ سے اس پر گرا۔۔
وليہ نے جلدی جلدی نفل ختم کرکے سلام پھيرا۔۔ کمرے کے ايک کونے ميں وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ کمرے ميں کسی کی موجودگی محسوس کرکے وہ گھبرائ۔ چاپ مردانہ محسوس ہوئ تو گبھراہٹ سوا ہوئ۔
سلام پھيرتے جيسے ہی بيڈ کی جانب پھٹی پھٹی نظروں سے ديکھا دارم اوندھے منہ ليٹا نظر آيا۔
يکدم وہ جاء نماز سے اٹھی۔ خاموشی ميں کسی کے کپڑوں کی سرسراہٹ محسوس کرتے دارم ليٹے ليٹے ہی سيدھا ہوا۔
سامنے نماز کے سٹائل ميں دوپٹہ لپيٹے وليہ کو حيرت اور دہشت بھری نظروں سے ديکھتے پايا۔
جھٹکا کھا کر اپنی جگہ سے اٹھا۔
“آ۔۔۔۔ آپ يہاں کيا کررہے ہيں۔۔ ” حيرت اور دہشت کی جگہ اب اشتعال نے لے لی تھی۔
“سوری۔۔۔ ميم يہ ميرا روم ہے” يکدم دارم کو بات سمجھ آئ تو اعصاب ريليکس ہوۓ۔رہائشی حصے خاص کر کمروں کی سجاوٹ کرتے يہ دارم کا ہی مشورہ تھا کہ سب کمروں کی سيٹنگ، سٹائل۔۔ حتی کہ فرنيچر بھی ايک سا ہو۔۔ کبھی کبھی آنے والے واقعی پريشان ہو جاتے تھے کہ کون سا کس کا کمرہ ہے۔ اور وليہ کے ساتھ بھی يہی ہوا۔
“ليکن يہ روم تو آپ نے مجھے ديا تھا” وہ اب بھی بے يقين کھڑی تھی۔
“نہيں ميم يہ روم نہيں تھا۔ معذرت اصل ميں سب رومز يہاں ايک جيسے ہيں۔ لہذا غلطی آپکی بھی نہيں اور غلطی ميری بھی نہيں” اس نے گويا اسے سمجھايا۔
وليہ کے بھی تنے اعصاب ڈھيلے پڑے۔
“ايک منٹ” وہ اسے وہيں کھڑے ہونے کا کہہ کر الماری کی جانب بڑھا۔
“يہ ديکھئے۔” الماری کھولی تو سامنے مردانہ کپڑے پڑے تھے۔ وليہ کو ياد آيا وہ بھی کمرے سے نکلنے سے پہلے اپنا بيگ اور ہينڈ بيگ الماری ميں رکھ آئ تھی۔ اسی لئے اندر آتے اسے کوئ ايسی چيز نظر نہيں آئ کہ جس کے باعث وہ چونکتی۔ تھکی ہوئ تھی اسی لئے جلدی جلدی وضوکرکے باہر نکلی کہ کہيں سستی کے چکر ميں نماز نہ نکل جاۓ۔
“آئم سوری” وہ شرمندگی سے بولی۔
“يو شڈ بی” دارم کی بات پر اس نے حيرت سے اسے ديکھا۔ وہ اميد کررہی تھی کہ وہ اٹس اوکے کہے گا۔ جتنا کلچرڈ وہ اسے لگا تھا اس لمحے انتہائ بدتہذيب لگا۔
“کمرے ميں آنے پہ نہيں بلکہ مجھے بداعتماد سمجھنے پر” دارم کی بات پر اس نے ہونٹ بھينچے۔
“ميں مانتا ہوں کہ ہم اجنبی ہيں۔۔ مگر اتنا گيا گزرا ہوں کہ آپ نے يوں بے اعتباری ظاہر کی” دارم کے لہجے ميں ہلکا سا شکوہ تھا۔
وليہ سے کوئ جواب نہيں بن پڑا۔
“اگين سوری”
“وليہ ميں امير ضرور ہوں مگر عياش امير نہيں۔ اميد ہے يہ بات آپ جيسی چہرہ شناس سمجھ چکی ہوگی” پہلی بار اس نے وليہ کے سامنے شايد اس کا نام ليا تھا۔ يا اتنی توجہ سے وليہ نے پہلی بار اسے اپنا نام ليتے سنا تھا۔
اب کی بار وہ کچھ بھی کہے بنا باہر نکلی۔ دارم اسکے پيچھے آيا۔ ايک ہاتھ سے اسے روکا۔
پھر چند قدم اس کے آگے چل کر اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر ايک جانب ہوا۔ اسے اندر جانے کا اشارہ کرتے خود تيزی سے اسکی جانب سے نکلتا اپنے کمرے ميں چلا گيا۔
وليہ اسکے ری ايکشن پر حيران تھی۔ وہ اسکی کيا لگتی تھی جس کی کہی بات پر وہ يوں مايوس ہو کر اس سے ناراض سا ہوگيا تھا۔
وليہ آنکھ لگنے تک يہی سوچے جارہی تھی۔