اگلے دن صبح وہ سب تيار تھے۔ دارم معمول سے ہٹ کر سنجيدہ تھا۔ وليہ نے پرنٹڈ سادہ سی شلوار قميض پر انہی رنگوں سے ہم رنگ دوپٹہ چادر کی طرح لے رکھا تھا۔
دارم نے حاجرہ کو کچھ کہہ کر وليہ کی جانب بھيجا جو شہزاد کے ساتھ کھڑی باتوں ميں مصروف تھی۔
“تم دونوں ہمارے ساتھ آجاؤ” حاجرہ نے وليہ کے قريب آتے مزے سے اسکا بازو اپنی قيد ميں ليتے اسے ساتھ چلاتے ہوۓ کہا۔
وليہ کوئ بھی پس و پيش کئے بنا خاموشی سے اسکے ساتھ چلنے لگی۔
گاڑی کی پچھلی سيٹ پر وليہ اور شہزاد جبکہ ڈرائيونگ سيٹ پر دارم اور اسکے ساتھ حاجرہ بيٹھی تھی۔
سب گاڑياں ايک ايک کرکے آگے پيچھے چل پڑيں۔ سب سے آگے دارم کی گاڑی تھی۔
“وليہ تمہاری ايجوکيشن کيا ہے؟” وہ حاجرہ ہی کيا جو بولے بنا رہ سکے۔
“پرائيوٹ بی اے” وليہ نے مختصر جواب ديا۔
“آگے ايم اے کا کيوں نہيں سوچا؟” ايک اور سوال۔
“معاش کی فکر علم کی فکر سے زيادہ تھی۔ اسی لئے کسی ايک کشتی کا سوار ہونا پڑا” وليہ کی بات پر سن گلاسز کے پيچھے چھپی دو نظروں نے بڑے غور سے اسے ديکھا۔ عجيب فلسفی لڑکی تھی۔ چھوٹی سی بات ميں بھی
اتنی بڑی بات کر جاتی تھی کہ بندہ سوچتا ہی رہے۔
“يار تم ميں بہت ٹيلنٹ ہے۔ ميں صرف کوکنگ کی بات نہيں کررہی۔۔ تم۔۔ تم بہت بڑی بڑی باتيں کر جاتی ہو” حاجرہ نے ایک بار پھر دارم کے ان کہے الفاظ کو زبان دی۔
“علم صرف کتابوں ميں ہی ہوتا تو ۔۔ پڑھے لکھے جاہل اس معاشرے ميں نظر نہ آتے” وليہ نے ہنکارا بھر کر کہا۔ وہ بھی تو ايسے ہی معاشرے کے بيچ تھی۔ جہاں پڑھے لکھے لوگ بھی ہمہ وقت اسے کچھ کرنے نہيں دے پارہے تھے۔
“ميں اميد کرتی ہوں۔۔ ہم دوبارہ پھر کبھی ضرور مليں۔ ” حاجرہ نے صاف گوئ سے کہا۔
“آپ بہت اچھی ہيں۔” وليہ نے ہولے سے مسکرا کر اعتراف کيا۔
“ارے يار تم خود اتنی اچھی ہو۔۔ کيوں دارم؟” يکدم حاجرہ نے اسے جواب ديتے دارم کو انوالو کيا۔ گلاسز آنکھوں پہ ہونے کے باعث وہ اسکی گھوری سے فيض ياب نہيں ہوسکی۔
“انسان کی اچھائ اسکے چہرے پر نہيں لکھی ہوتی۔ يہ کل رات مجھے اندازہ ہوا ہے۔” دارم نے بات کو گھما کر جس بات کا حوالہ ديا وہ وليہ کو بہت اچھے سے سمجھ آگيا۔ چونک کر بيک ويو مرر مين ديکھا۔ مگر ہاۓ رے يہ سن گلاسز۔۔۔۔
وليہ نے سرعت سے آنکھيں پھيريں۔۔ مگر وہ اسکی نظروں کی چوری بڑے آرام سے پکڑ چکا تھا۔
حاجرہ اپنی شرارت کا اتنا بے تکا جواب سن کر بدمزہ ہوئ۔
گھنٹے کی ڈرائيو کے بعد وہ سب پرانے قلعہ پہنچ چکے تھے۔ کھنڈرات ميں يہ بھی ايک شاہکار ہی تھا۔ خوف بھی آرہا تھا مگر عجيب سی کشش بھی رکھتا تھا۔
سب گاڑيوں سے نکل کر ٹولوں کی صورت اس قلعہ کی جانب بڑھے۔ حاجرہ اور وليہ کے پيچھے فضا اور فائقہ تھيں۔ جبکہ شہزاد دارم اور عالم انکے آگے اور شاکراور طلحہ انکے پيچھے تھے۔
“يار يہ کتنا خوبصورت ليکن خوفناک ہے” فضا اس جگہ کی خوبصورتی کو سراہتی آگے بڑھ رہی تھی۔ بڑے بڑے پتھر۔۔ کمرے دالان۔۔۔
“کاش کہ ان جگہوں کی صحيح سے مرمت کروائ جاتی تو يہ جگہ ٹورئسٹ کے لئے بہترين اٹريکشن بن جاتی” دارم نے بھی اسے سراہتے افسوس سے کہا۔
“يہی تو الميہ ہے ہم نے ملک تو لے ليا مگر اپنی جگہوں سے محبت نہ کی نہ ہی ان کا خيال رکھا۔” عالم کی بات پر سب نے اتفاق کيا۔
“کيا يہاں شہزادے اور شہزادياں بھی رہتے ہوں گے” وليہ کی بات پر حاجرہ نے بھی انہيں ديکھا۔ دارم کو اس جگہ کی ہسٹری کا کافی علم تھا۔
“جی بالکل۔ يہ بادشاہوں کے ہی بناۓ ہوۓ ہيں اور يہاں انکی اولاديں يعنی شہزادے اور شہزادياں بھی رہتے تھے۔” دارم نے سہولت سے اسکی بات کا جواب ديا۔
ايک مين ہال ميں آکر وہ سب گول دائرے کی سی صورت ميں کھڑے اس جگہ کی خوبصورتی کو ديکھ رہے تھے۔
“ميں نے سنا ہے کہ جب آرکيٹيکٹ اس وقت ميں ايسے شاہکار تعمير کرتے تھے تو بادشاہ ان کو مروا ديتے تھے۔” وليہ تجسس کے مارے ايک اور سوال کر رہی تھی۔ وہ اتنی کم گو تھی کہ اسکے سوال پر دارم حيران تھا۔
“ہاں يار مين نے بھی کچھ ايسا ہی سنا ہے” فضا نے بھی اسکی تائيد کی۔
“جی ايسا ہی ہوتا تھا۔ ان فيکٹ اس دور ميں لوگ اتنے مغرور اور خود کو نعوذ باللہ خدا سمجھتے تھے کہ وہ اپنے جيسی چيز کسی اور کی برداشت نہيں کرتے تھے۔ ان کا يہی خيال ہوتا تھا کہ بس جو ہمارے پاس ہے اس جيسا کسی اور کو رکھنے يا بنانے کی ہمت نہ ہو۔۔ بس اسی زعم ميں نہ صرف آرکيٹيکٹس کو بلکہ ککس تک کو مار ديتے تھے۔ اگر آپ اس دور مين ہوتیں تو يقينا اپنے شاہکار کھانوں کے بعد کسی بادشاہ کے کہنے پر آپ کو مروا ديا جاتا” دارم نے جس سنجيدگی سے بات شروع کی تھی اختتام ہر گز سنجيدگی پر نہيں تھا۔
وليہ نے پہلی بار اسکی بات پر منہ بنايا۔
___________________________
کچھ دير وہاں گزارنے کے بعد وہ لوگ مچھلی پکڑنے کی غرض سے دريا پر چلے گۓ۔
سب مچھلی پکڑنے کے فن کو انجواۓ کر رہے تھے۔ جبکہ وليہ ان سے ذرا فاصلے پر دريا کے قريب ايک بڑے سے پتھر پر براجمان تھی۔ گھٹنوں پر بازو رکھے وہ نجانے کس سوچ ميں تھی۔
کچھ دير بعد اسے اپنے قريب آہٹ کا احساس ہوا۔
بليو جينز اور ہلکی اسکن سی ٹی شرٹ پہنے دارم بھی اسکے برابر تھوڑے فاصلے پر بيٹھا۔
وليہ نے چہرہ موڑ کر اسکی جانب ديکھا جو اسکی جانب متوجہ ہوتے ہوۓ بھی نہيں تھا۔ عجيب بے نياز بھی رہتا تھا اور نہيں بھی۔
وليہ نے چہرہ واپس موڑا۔
“مجھے آپکا رات کا رويہ سمجھ نہيں آيا” وليہ نے نہ چاہتے ہوۓ بھی بات کا آغاز کيا۔
“پھر بھی آپ کو برا لگا تو معذرت۔ مگر انسان انجان لوگوں پر يک دم اعتبار نہيں کرتا” وليہ نے دھيرے سے بہت کچھ سمجھاتے ہوۓ کہا۔
“ميں نے رات مين بھی آپ کو کہا تھا آپ جيسی چہرہ شناس کو يہ بات سمجھ لينی چاہئيے تھی۔ بہرحال مجھے برا اسی لئے لگا کہ ميں ايک پورا دن آپکے سامنے رہا۔ کيا ميں نے کوئ غلط حرکت۔۔ کوئ غلط نظر آپ پر ڈالی؟” وليہ نے اسکے سوال پر ہولے سے سر نفی ميں ہلايا۔
“ميری حيرانگی سے آپ کو سمجھ جانا چاہئيے تھا کہ مجھے بھی اس سچوئيشن کا اندازہ نہيں ہوا۔ خير چھوڑيں” دارم بات کلئير کرتے کرتے موضوع ہی بدل گيا۔
“آپکی کوکنگ ديکھنے کے بعد ميں چاہتا ہوں کہ آپ اسے بہتر انداز ميں پروفيشن بنائيں”دارم جو کہنا چاہتا تھا اس مدع پر آيا۔
“ميرے پاس جو ذرائع تھے ان کو بروئۓ کار لا کر ميں فقط اس کو اسی حد تک پروفيشن بنا سکتی تھی” ايک گہری سانس خارج کرکے اس نے کہا۔
“اگر ميں آپ کو کچھ آپشنز دوں؟” اس نے بات کرتے اسے سواليہ نظروں سے جانچا۔
“مثلا؟” اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“اگر ميں آپ کو ايک شاپ بنا کر ديتا ہوں۔ پيسہ فی الحال ميں لگاؤں گا۔ آپ شہزاد اور اسی طرح کے چند لڑکے جو آپکی شاپ پر بھی ہين انہيں کھانا پکانے ميں ٹرينڈ کرديں۔ پھر کيٹرنگ کا کام وہ سنبھاليں گے اور آپ صرف آرڈرز لے کر مينيو سيٹ کريں گی۔ اور مختلف ايوينٹس اور ہماری کلاس کی شاديوں ميں آپ کو ان ميں کرواؤں گا” دارم کی بات پر وہ جتنا حيران ہوتی کم تھا۔
“ليکن آپ يہ اتنا پيسہ کيوں لگائيں گے؟” وليہ نے حيران ہوتے پوچھا۔
“کيونکہ ميرے پاس بہت فالتو پيسے ہيں سوچا تھوڑے سے آپ کو دے کر ثواب کماؤں” دارم کی سنجيدہ بات ميں چھپے مذاق کو سمجھ کر وليہ کے تاثرات بگڑے۔
“محترمہ آپ جو بھی کمائيں گی اس کا ففٹی پرسنٹ ميں رکھوں گا اور ففٹی آپ” دارم کی بات پر وہ تھوڑا پرسکون ہوئ۔
“مجھے آپ صرف يہ بتائيں کہ آپ ان لڑکوں کو کتنی دير تک اپنے جيسا ٹرينڈ کرسکتی ہيں۔ شہزاد تو پہلے سے ہی ہے۔” دارم کی بات پر وہ اپنے مخصوص انداز ميں مسکرائ۔
“شہزاد کے علاوہ ميری شاپ پر جتنے لڑکے ہيں۔ وہ کافی ٹرينڈ ہيں۔ اور مزيد مجھے پنددہ دن ميں وہ اور بھی ٹرينڈ ہو جائيں گے۔” وليہ کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔
“ديٹس گريٹ۔۔ ميں چند دنوں ميں ايک اينويل ڈنر ارينج کروا رہا ہوں۔ اپنے گھر آپ وہاں آکر پہلا ايونٹ ارينج کريں۔۔” دارم نے اسے پہلی آفر بھی کردی۔
“اس کا ففٹی پرسنٹ بھی آپ رکھيں گے؟” دارم کے نرم سے لہجے نے وليہ کو باور کروايا کہ وہ برا انسان نہيں۔ اور پھر جب اس نے نئے جہانوں کو درياقت کرنے کے لئے اسکا سہارا لينا ہے تو پھر خوامخواہ کی روڈنيس دکھانے کا کيا فائدہ۔
اسکے سوال پر دارم کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ بکھری۔
“نہيں وہ سب کا سب آپکا ہوگا۔ ہاں شاپ اوپن ہونے کے بعد ميں کوئ رعايت نہيں دوں گا۔” اس نے مصنوعی سرزنش کی۔
“مچھلی پکڑی جاچکی ہے۔ اب آپ ہميں اپنے اچھے سے کھانے سے انٹرٹين کريں”دارم نے دائيں جانب ديکھتے اسے اٹھنے کا اشارہ کيا۔
شام تک ان سب نے واپسی کی راہ لی۔
مگر سائرہ کی بات وليہ کے لئے سچ ثابت ہوئ تھی۔ يہاں آنا اسکے لئے قسمت کے نئے دروازے کھول گيا تھا۔
_______________________
واپس آکر وليہ نے سائرہ کو دارم سے ہونے والی سب گفتگو بتائ۔
“ميں نے کہا تھا نہ وليہ يہ ايک دم سے ايک انجان راستے پر چلنے کا حکم آنا ايسے ہی نہيں تھا” سائرہ نے مسکراتے ہوۓ اسے کہا۔
“ہاں اماں۔ ميں تو سمجھتی تھی يہ بڑی گاڑيوں والے ہوتے ہی مغرور ہيں۔ مگر اماں وہ سب بہت اچھے ہيں۔۔ احساس ہی نہيں ہوا کہ پہلی بار ان سے مل رہی تھی۔” وليہ نے کھوۓ ہوۓ لہجے ميں کہا۔ جيسے ابھی بھی وہيں ہو۔
“ہاں بيٹا مگر ان سے تعلق بڑی سوچ سمجھ کر بناتے ہيں۔ يہ اوپر لے جانے والے نيچے بھی اسی تيزی سے پھينکتے ہيں۔ تو بس ہوشيار رہنا” سائرہ ابھی تھورا ڈری ہوئيں تھيں۔ اور پھر وليہ لڑکی ذات تھی۔ وہ جانتی تھيں کہ اسے اپنی حدود کا علم ہے مگر کسی دوسرے کو تو نہيں پتہ ہوتا نا۔
وليہ نے چند ہی دنوں ميں ان سب لڑکوں کو کافی حد تک کوکنگ ميں ٹرينڈ کرديا تھا۔
وہاں سے آنے کے کچھ دن بعد دارم کی وليہ کو کال آئ۔
“کيسی ہيں” سلام دعا کے بعد وہ گويا ہوا۔
“جی الحمداللہ آپ سنائيں” وليہ اس بار کافی شائستگی سے پيش آئ۔
“اس ويک اينڈ پہ ڈنرہے تو ميں چاہ رہا تھا آپ ايک بار ميرے گھر آکر کچن اور لان کا جائزہ لے ليتيں تاکہ کھانے پينے کی چيزوں کو کيسے رکھنا ہے اس کا اندازہ بھی ہوجاتا۔ اور مينيو بھی بيٹھ کر ڈيسائيڈ کرليتے” دارم کی بات پر وہ چند لمحوں کو سوچ ميں پڑی۔
“ميں کل گاڑی بھجوا ديتا ہوں آپ پہلے آفس آجائيں وہاں سے شہزاد کو ساتھ لے کر ميں آپ کو گھر بھی دکھا ديتا ہوں” دارم اسکی شش و پنج سے کسی قدر واقف تھا۔ يقينا وہ اکيلے نہيں جانا چاہتی تھی۔ اسے بنا جتاۓ دارم نے فورا حل نکالا۔
“جی ٹھيک ہے” اب کی بار وہ آرام سے مان گئ۔
“چليں پھر کل ملاقات ہوگی۔”دارم نے الوداعيہ کلمات کہہ کر فون بند کرديا۔
وليہ اس وقت دکان پر ہی موجود تھی۔ جب تک نيا کام نہ چل پڑتا دلاور نے اسے ابھی دکان ختم نہ کرنے کا مشورہ ديا تھا۔ وہ بھی سمجھ گئ تھی۔
اتنا اندازہ تو ہوگيا تھا کہ کوئ بھی بزنس يکدم نہيں چل پڑتا۔
__________________________
اگلے دن دوپہر کے بعد دارم نے اپنی گاڑی بھجوا دی۔ گاڑی کا نمبر اور کلر وہ پہلے ہی بتا چکا تھا۔ وليہ نے دلاور کو پڑھا ديا۔ دلاور اسے گاڑی تک چھوڑنے آيا تھا۔
کچھ دير ميں بعد گاڑی ايک شاندار سی بلڈنگ کی پارکنگ کی طرف مڑی۔
وليہ اس وقت اپنی مخصوص بڑی سی چادر ميں موجود تھی۔
گاڑی پارک کرنے سے پہلے ہی ڈرائيور نے کسی کو فون کيا۔ کچھ دير بعد اسے شہزاد گاڑی کی جانب آتا دکھائ ديا۔
وہ گاڑی سے اتری۔
“کيسی ہيں باجی” وہ مسکراتے ہوۓ اسے لئے آگے بڑھا۔
“بالکل ٹھيک تم سناؤ” وہ بھی خوشدلی سے بولی۔
“پڑھائ کيسی چل رہی ہے۔ تم نے کچھ دنوں سے گھر کا چکر نہيں لگايا۔
اماں تمہيں بہت پوچھ رہی تھيں” وہ محبت بھرے لہجے ميں بولی۔ دلاور اور شہزاد کی روٹين تھی کہ وہ روزانہ رات ميں گھر جانے سے پہلے اسکے گھر آتے سائرہ کو سلام دعا کرنے کے بعد کسی چيز کی ضرورت ہوتی تو ضرور پوچھ کر جاتے۔
“بس باجی آج آؤں گا۔ آپ سے تو روز ملاقات ہوجاتی ہے۔ چيزيں سيکھتے ہوۓ۔ اصل ميں آجکل پڑھائ مين زيادہ مصروف ہوں۔ کيونکہ ويک اينڈ پہ تو ہم سرکے گھر بزی ہوں گے۔اسی لئے سوچا پڑھائ کا حرج نہ ہو۔ تو ان دنوں وہ کوور کررہا ہوں” شہزاد مختلف راستوں سے ہوتا اسے لئے ايک کمرے کے دروازے تک آيا۔
“سر کا آفس” دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے بتايا۔
پہلے دروازے پر دستک دی۔ کم ان کی آواز پر وہ دروازہ دھکيل کر اندر داخل ہوا۔
دارم انہيں اندر آتا ديکھ کر اپنی سيٹ سے کھڑا ہوگيا۔ وليہ نے دھيرے سے سلام کيا۔ جس کا دارم نے خوشدلی سے جواب ديا۔
“پليز آئيۓ” دارم نے ايک کرسی کی جانب اسے اشارہ کرکے بيٹھنے کا بولا۔
دارم کی آنکھوں ميں ايک مخصوص چمک تھی۔
“شکريہ ميرے کہنے پر ايک بار پھر آپ ميرے سامنے حاضر ہيں” شہزاد اسے بيٹھتا ديکھ کر جا چکا تھا۔
“نہيں شکريہ آپ کا کہ آپ نے مجھے اتنا اہم موقع ديا۔ مجھ پر اور ميری صلاحيتوں پر اعتماد کيا۔”وليہ صاف گوئ سے بولی۔
“آپ کی تقريب ميں انداز کتنے بندے ہوں گے؟” وليہ نے پروفيشنل انداز ميں سوال کيا۔
“يہی کوئ لگ بھگ ڈيڑھ سو۔ ميں بہت بڑی گيدرنگ نہيں رکھتا۔ بس ميرے آفس کے ورکرز ہوں گے اور کچھ دوست” کرسی کے بازوؤں پر ہاتھ ٹکائے وہ اسے تفصيل بتا رہا تھا۔
اس وقت آفس کے فارمل حليے ميں وہ ان فارمل سے دارم کی نسبت اور بھی خوبصورت اور ڈيشنگ لگ رہا تھا۔ وليہ نے دل ميں اسے سراہا۔
کچھ ہی دير ميں شہزاد چاۓ کے کپ کی ٹرے تھامے آفس ميں داخل ہوا۔
“ارے جيو يار” دارم خوشدلی سے بولا۔ ايک کپ اس نے وليہ کے آگے اور ايک دارم کے آگے رکھا اور پھر سے چلا گيا۔
“پليز” اسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ديکھ کر دارم نے چاۓ پينے کا اشارہ کيا۔
“آپکے گھر کے کتنے لوگ ہوں گے؟” وليہ نے ايک بار سلسلہ پھر سے وہيں سے جوڑا۔۔
“ميرے گھر کے صرف ميں۔ اور ميرے مام اينڈ ڈيڈ ہوں گے۔ ہماری بہت لمبی چوڑی فيملی نہيں ہے۔ ايک بھائ اور بھابھی ہيں وہ باہر ہوتے ہيں اور يہاں پر ہم تين” دارم کی بات پر اس نے سر ہلانے پر اکتفا کيا۔