اتنی صبح دروازہ بجنے پر سائرہ نے يکدم دل تھاما۔
“اللہ خير کرے اس وقت کون آگيآ” وہ ابھی کچن ميں بچوں کا ناشتہ بنانے کے لئے گئيں ہی تھيں کہ دروازے پر بے وقت ہونے والی دستک پر پريشان ہو اٹھيں۔
“کون”دروازے کے قريب جا کر وہ ہولے سے بوليں۔
“بہن ميں رفيق ہوں۔ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ آپ مہربانی کرکے بس تھوڑا سا دروازہ کھول کر اسکی اوٹ ميں ہو جائيں” رفيق کی آواز سن کر وہ جو مطمئن ہوئيں تھيں۔ وہيں يوں بات بتانے پر پريشان تھيں۔ آخر ايسی کيا بات تھی۔
خاموشی سے دروازہ ہلکا سا وا کيا۔
“جی بھائ صاحب۔۔ سب خير ہے نا” وہ پريشان سی آواز ميں بوليں۔
“جی بہن۔۔” انہوں نے فقط اتنا ہی کہا پھر گہری سانس بھر کر مناسب الفاظ ميں انہيں سارے مسئلے سے آگاہ کيا۔
“آپ پريشان مت ہوئيے گا۔ ہم اس کا کوئ حل نکال ليں گے۔ آپ کو بتانے کا مقصد پريشان کرنا نہيں۔ بس يہی تھا کہ ايک تو آپ مناسب طريقے سے وليہ کو دکان پر جانے سے روکيں۔ دوسرے ميری بہن کا بيٹا ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ نوکری بھی اچھی ہے۔ اور اسے بچی کے کام کرنے سے کوئ اعتراض بھی نہيں ہوگا۔ ميرا خيال ہے ہم وليہ کو جتنی جلدی اسکے گھر کا کرديں ہم سب کے لئے بہتر ہوگا۔
آپ سوچ لين۔ پھر ميں بچے کو آپ سے ملوانے لے آؤں گا۔ آپ پرکھ ليجئے گا۔
جيسے آپ مناسب سمجھيں گی ہم کر ليں گے۔ مگر مجھے اس بات کا واحد حل يہی لگتا ہے۔ جب وہ منحوس انسان جان لے گا کہ بچی کی شادی ہورہی ہے تو خودبخود پيچھے ہٹ جاۓ گا۔”رفيق کا مشورہ سائرہ کو بھی بہتر لگا۔
“جی بھائ صاحب ميں آپ کو کل تک بتاتی ہوں۔ آپ سب کی مہربانی کے آپ لوگوں نے ايسے چھاؤں کر رکھی ہے ہم پر۔ اللہ آپ کو اجر دے۔ اور يقينا آپکے خاندان سے ہے تو بچہ اچھا ہی ہوگا۔ مجھے آپ کی پسند پہ کوئ شبہ نہيں۔
وليہ مجھ سے زيادہ آپ سب کی بچی ہے” سائرہ نم آنکھيں دوپٹے سے صاف کرتے ہوۓ بوليں۔
“بالکل بہن۔ ميں پھر آپکے جواب کا انتظار کروں گا۔ اچھا اب مين چلتا ہوں” رفيق کے جاتے ہی سائرہ شکستہ قدموں سے صحن ميں بچھی چارپائ کی جانب آئيں۔
انہيں لگ رہا تھا ان کی ٹانگوں ميں اب جان نہيں رہی۔
“اے اللہ تو ہی اس آزمائش سے نکال۔ ہم غريبوں کا تجھ سے بڑھ کر کوئ آسرا نہيں۔
اے اللہ ميری بچی کو ان درندوں سے بچا لينا” زير لب وہ آسمان کی جانب ديکھتے۔۔ آسمان کے اور اس کل کائنات کے رب سے مخاطب تھيں۔
وہ تو خاموش دلوں ميں پنہاں ا’ن ان کہی باتوں کو بھی سن ليتا ہے جو ہم کہتے نہيں۔ تو پھر سائرہ کی اس زيرلب دعا کو کيسے نہ سنتا۔
_____________________
اسکی آنکھ موبائل پر آنے والے ميسج کی ٹون سے کھلی۔ مندی آنکھوں سے سرہانے پڑا موبائل اٹھا کر ديکھا۔ دلاور کا ميسج تھا۔
“باجی مجھے کچھ ضروری کام ہے دو تين دن۔ ميں دکان نہيں کھول سکوں گا۔ آپ بھی دو تين دن ريسٹ کرلو۔” وہ حيران ہوئ۔ رات تک تو ايسا کچھ نہيں تھا۔ بلکہ دلاور خود آج جو چيزيں دکان پر بنانی تھيں وہ رات ميں ہی گھر پہنچا کر گيا تھا۔
وہ کچھ حيران سی اٹھ بيٹھی۔
اسی لمحے شہزاد کی کال آنے لگی۔
تيسری بيل پہ اس نے فون اٹھا ليا۔
“کيسی ہو باجی” سلام دعا کے بعد اس نے حال پوچھا۔
“ٹھيک ہوں خيريت شہزاد” ابھی تو دلاور کے ميسج کے معمے سے نہيں نکلی تھی کہ اب شہزاد کا صبح صبح فون آگيا۔
“ہاں باجی وہ سر دارم کا رات کو فون آيا تھا وہ ہميں دکان کی لوکيشن دکھانا چاہتے ہيں۔ دلاور کو بھی ساتھ آنے کو کہا تھا مگر وہ شايد مصروف ہے کہيں” ايک تو يہ سب مل کر اسے اس لمحے حيران کرنے پہ تلے تھے۔
“اب يہ دارم صاحب کو رات ميں کون سا خواب آگيا ہے” وہ يہ بات فقط دل ميں ہی کہہ سکی۔
“ہاں آج دکان بھی نہيں کھولنی تو چلتے ہيں۔ تمہارے ساتھ جاؤں گی؟” اس نے ہامی بھر لی۔
“ہاں باجی۔ سر گاڑی بھجوا رہے ہيں۔ آپ تيار ہوجاؤ۔۔ تو بس ميں تھوڑی دير ميں آتا ہوں”
“ٹھيک ہے ميں ريڈی ہوتی ہوں۔ تم ناشتہ ادھر ہی آکر کر لو۔۔ تمہارا پسنديدہ پراٹھا اور مصالحے والا انڈہ بناتی ہوں” وليہ کی بات پر وہ مسکرايا۔
“اچھا باجی ميں آرہا ہوں” وليہ بھی فون بند کرکے تيار ہونے چل پڑی۔
_____________________
“ہيلو۔۔ ہاں صفی کيسے ہو؟” ابھی کچھ دير پہلے ہی وہ آفس آيا تھا۔ سيٹ سنبھالتے ہی وہ صفی اللہ کو فون ملا چکا تھا۔
“بالکل ٹھيک۔۔ تم کيسے ہو اور يہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے” اس نے دارم کے فون کرنے پر چوٹ کی۔
“يار ميرے تو گھر کے لان سے نکلتا ہے۔ تمہارا کہاں سے نکلتا ہے ميں کچھ کہہ نہيں سکتا” وہ مسکراہٹ دباۓ بڑے مزے سے اس کے طنز سے بچ چکا تھا۔
“اچھا سقراط صاحب کام بتائيں” وہ کہاں کسی سے باتوں ميں ہارنے والا تھا۔
“يار ميرے آفس ميں ايک لڑکا کام کرتا ہے۔ اسکی کزن کو شمس سومرو نے کہيں ديکھ ليا ہے۔ ان فيکٹ اسکے ابو بھی نہيں ہيں اور بھائ بھی چھوٹا ہے۔ تو بس اسی بات پہ سومرو شير بن گيا ہے۔
اور اسکے کزن کو دھمکی بھی دی ہے کہ وہ اسے اٹھوا ليں گے اگر اسے سومرو کے حوالے نہ کيا۔
تم تو جانتے ہو کہ يہ لوگ غريب کی غربت اور بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہيں۔
تو بس اس کے ساتھ بھی يہی ہوا ہے” دارم نے اسے کسی حد تک اصل بات سے آگاہ کيا۔
“تو اب تم مجھے سے کيا فيور چاہتے ہو؟” صفی نے سب بات تحمل سے سنی۔
“اس لڑکی کی حفاظت چاہتا ہوں” دارم نے صاف لہجے ميں کہا۔
“ٹھيک ہے مجھے لوکيشن بتاؤ ميں اپنے کچھ بندے سادہ پوليس کی صورت ميں اسکے گھر کے آس پاس ارينج کروا ديتا ہوں۔”
“ويسے دارم تو لڑکيوں کے لئے کم ہی اتنے کنسرنڈ ہوتے ہيں۔۔۔ کہيں کوئ اور معاملہ تو نہيں” سب کی عادت سے واقف تھے۔۔اسی لئے صفی کی بھی حيرت يقینی تھی۔
“فضول بک بک نہيں” دارم نے بمشلکل لبوں پر کھلتی مسکراہٹ دبائ۔
_______________________
شہزاد اور وليہ دونوں آفس پہنچ چکے تھے۔ شہزاد اسے دارم کے آفس ميں چھوڑ کر خود کچن ميں جا چکا تھا۔
“کيسی ہيں آپ؟” چہرے پر بشاش سی مسکراہٹ جماۓ وہ ہميشہ کی طرح وليہ کو فريش اور مطمئن سا لگا۔ کچھ لوگ ايسے ہی ہوتے ہيں۔ انکی قربت ميں آپ خود بخود زمانے بھر کی پريشانی بھول جاتے ہيں۔ دارم بھی وليہ کے لئے ايسا ہی شخص تھا۔ پتہ نہيں کيوں جب جب وہ سامنے ہوتا وليہ کے ذہن سے ہر بری سوچ اور پريشانی محو ہوجاتی تھی۔ وہ ساحر تھا يا؟ وليہ اس بات سے انجان تھی۔
“آج تو ميں حيران ہوں”وليہ کی صاف گوئ پر وہ مسکرايا۔ وہ اب بہت حد تک اس کے ساتھ پروفيشنل گفتگو سے ہٹ کر بھی بات کرليتی تھی۔ مگر انداز لئے دئيے والا ہی ہوتا تھا۔
“کيوں۔۔ حيرانگی کس بات کی” اس نے اچھنبھے سے پوچھا۔
“کل تک تو آپ نے ايسا کوئ ذکر نہيں کيا تھا۔ پھر رات ميں کيسے ايکدم پلين بن گيآ۔؟” اس کی بات پر وہ بس ہولے سے مسکرائے۔
“پلين ہم نہيں۔۔ اللہ بناتا ہے۔ اور اسکے بنائے گۓ پلين حيران کن ہی ہوتے ہيں۔” وہ بات کو بری خوبصورتی سے کسی اور جانب موڑ گيا۔
“يہ بھی ٹھيک ہے” وليہ نے اس کی بات سے اتفاق کيا۔
“ميں ذرا پتہ کرلوں۔۔ مارکيٹ کھل گئ ہے تو چل کر دکان ديکھ ليتے ہيں” دارم نے کہتے ساتھ ہی موبائل پہ کوئ نمبر ڈائل کيا۔ اپنی کرسی سے اٹھ کر دائيں جانب بنی کھڑکی کے قريب کھڑا ہوگيا۔
پشت وليہ کی جانب تھی۔ وليہ نے بے اختيار اسکی جانب ديکھا۔ اونچا لمبا،کسرتی جسم، اس وفت ڈارک گرے پينٹ کوٹ ميں ملبوس اسکائ بلو شرٹ پہنے نفيس سی ٹائ لگاۓ۔ اپنے تيکھے نقوش سميت وہ واقعی ايک خوبصورت مرد تھا۔ نہ صرف چہرے بلکہ دل کا بھی وہ اتنا ہی خوبصورت تھا۔ اس پر سے نظر ہٹا کر وليہ نے طائرانہ نظر اسکے آفس پہ ڈالی۔ آفس کی سجاوٹ پر خاص توجہ دی گئ تھی۔ چںد انڈور پلانٹس ماحول کو فريش سی لک دے رہے تھے۔ وليہ کا ارتقاز دارم کی آواز سے ختم ہوا۔
“چليں” دارم نے گاڑی کی چابی اٹھاتے اسے نکلنے کے اشارہ کيا۔ بڑھ کر آفس کا دروازہ تغظيما اسکے لئے کھولا۔ وليہ خاموشی سے دروازے سے باہر نکلی پيچھے پيچھے وہ بھی تھا۔ شہزاد کو بھی آنے کا فون کر چکا تھا۔
کچھ دير بغد ہی تينوں دارم کے آفس کے قريب موجود مارکيٹ کی ايک دکان ميں کھڑے تھے۔
تينوں کو لوکيشن بے حد پسند آئ۔ دکان فائنل کرکے وہ کچھ ہی دير ميں وہ آفس کے باہر پارکنگ ميں موجود تھے۔
“شہزاد تم جاؤ ميں وليہ کو ڈراپ کرکے آتا ہوں” دارم کے حکم پر شہزاد تو فورا سے پيشتر اتر گيا۔
وليہ نے چونک کر اسے ديکھا۔
“آپ آگے آجائيں” شہزاد کے اترتے ہی دارم نے بيک ويو مرر سے وليہ کی کچھ حيران اور کسی قدر پريشان آنکھوں ميں ديکھا۔
“آپ مجھے ڈرائيور کے ساتھ واپس بھجوا ديں۔۔” اسکی بات پر دارم نے بھنويں اچکائيں۔
“آپ دوسری بار مجھے بے اعتبار کررہی ہيں” دارم کی خطرناک حد تک سنجيدہ آواز پر وہ گڑبڑائ۔
“ايسا نہيں ہے ميں تو آپ کے قيمتی وقت کی وجہ سے کہہ رہی تھی” اس نے وضاحت کی۔
“مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ ميرا وقت کس چيز ميں اور کہاں قيمتی ہے۔ آپ پريشان مت ہوں۔ پليز آگے آجائيں” دارم کی بات پر اس نے گہری سانس بھری کوئ نا چار اسے آگے اسکے ساتھ والی سيٹ پر بيٹھنا پڑا۔
جيسے ہی اس نے دروازہ بند کيا۔ دارم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
کچھ دير گاڑی ميں خاموشی ہی رہی۔ وليہ کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے نظاروں کو کم اور اپنے دل کی الگ ہی انداز ميں دھڑکنے کی دھن کو زيادہ سن رہی تھی۔ اور اسے ڈپٹنے ميں مصروف تھی۔
“امير لوگوں کے بارے ميں آپکے کيا خيالات ہيں؟” دارم کے سوال پر وہ کچھ حيران ہوئ۔
“کس قسم کے خيالات؟” وہ اس کا سوال سمجھ نہيں سکی۔
“مطلب کے وہ اچھے ہوتے ہيں يا برے ہی ہوتے ہيں” دارم کی بات پر وہ چںد لمحے خاموش ہی رہی جيسے الفاظ ترتيب دے رہی ہو۔
“ميرا خيال ہے لوگوں کے اچھے يا برے ہونے کا تعلق اللہ کی رضا سے ہوتا ہے۔ بہت سے غريب بھی بہت برے ہيں۔ اور بہت سے امير بھی بہت اچھے ہوتے ہيں۔” اسکے جواب پر وہ پھر سے ہولے سے مسکرايا۔ وليہ نے اسکی جانب سے نظر چرائ۔
“جيسے کہ ميں” اسکے بے ساخت جواب پر وليہ بھی مسکراۓ بغير نہ رہ سکی۔ دارم نے چہرہ موڑ کر يہ خوبصورت منظر آنکھوں ميں قيد کيا۔
“آپ ويسے ہی کہہ ديتے کہ آپ اپنی تعريف سننا چاہتے ہيں۔ تو ميں کہہ ديتی کہ ہاں آپ امير ہو کربھی اچھے انسان ہيں” وليہ کی حاضر جوابی پر اب وہ قہقہہ لگاۓ بغير نہيں رہ سکا۔ يہ دوسری بار تھا جب وليہ اسے قہقہہ لگاتے ديکھ رہی تھی۔ وليہ نے ابھی تک اس کے بہت سے روپ ديکھے تھے۔ سنجيدہ، خفا، مسکراتے اور اب قہقہہ لگاتے اور اسے ماننا پڑا کہ وہ ہر روپ ميں وجيہہ ہے۔
“ويل سيڈ” اس نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے وليہ کے جواب کو سراہا۔
“چليں آج آپکے گھر والوں سے بھی مل ليتے ہيں” دارم گاڑی اسکے گھر کے باہر روکتے ہوۓ بولا۔
“امی تو ابھی عدت ميں ہيں شايد مل نہ سکيں۔ ميں بہن اور بھائ سے ملواتی ہوں” وليہ کی بات پر وہ ہولے سے سر ہلا کر گاڑی سے نکلتا لاک کرکے وليہ کے پيچھے گھر ميں داخل ہوا۔
________________________
“آپا بس مجھے نہيں پتہ آپ نيا سوٹ ليں گی” يمنہ پچھلے ايک گھنٹے سے اس کا سر کھا رہی تھی۔ آج رات اسے دارم کے گھر اينول ڈنرکے لئے جانا تھا۔
“گڑيا کيا ضرورت ہے اتنے پيسے ضائع کرنے کی۔ ويسے بھی مين وہاں مہمان نہيں کک بن کے جارہی ہوں” اس کے باور کروانے پر وہ منہ بنا گئ۔
“ہاں تو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اچھے کپڑے پہن کر نہيں جاسکتيں” وہ پھر سے منہ پھلا کر بولی۔
جب سے اس نے دارم کو ديکھا تھا اس کے دل سے دعا نکلی تھی کہ اتنا شاندار انسان اسکی بہن کا مقدر بنے۔
اور اسی لئے وہ چاہتی تھی کہ آج وليہ وہاں اتنا پيارا تيار ہو کر جاۓ کہ دارم کو اسکے علاوہ کوئ اور نہ دکھے۔
جبکہ وہ نہيں جانتی تھی کہ دارم کو اب بھی اس حليے ميں بھی۔۔ اسکے علاوہ کوئ نہيں دکھتا۔
“افوہ يمنہ۔۔ اچھا سنو۔ وہ جو حميرا کی شادی ميں فراک بنوايا تھا وہ پہن لوں گی۔ اب پليز تم چپ کرجاؤ” وہ اسکی باتوں سے پريشان ہوتی جلدی سے بولی۔
“ہاں آپا وہ تو مجھے ياد ہی نہيں تھا۔۔ ڈن” اس سوٹ کا خيال آتے وہ بھی خوشی سے بولی۔
____________________
وہ آفس سے جلد نکل آیا تھا۔ شہزاد اسی کے ساتھ اسکے گھر آيا تھا۔ وليہ کو لينے کے لئے اس نے ڈرائيور کو بھجوا ديا تھا۔ وليہ کے ساتھ دلاور اور دو تين اور لڑکوں نے بھی آنا تھا۔
لہذا وہ سب اکٹھے ہی آرہے تھے۔ دارم گھر آکے چينج کرتے فورا گھر کے پچھلے لان کی جانب گيا۔ گرے ٹراؤذر اور وائٹ ٹی شرٹ ميں رف سے حليے ميں وہ لان کے انتظامات کا جائزہ لے رہا تھا۔ صدف پارلر گئيں ہوئيں تھيں۔ جبکہ ياور بھی دارم کے پاس چلے آۓ تھے۔
“اور بھئ کتنا کام ہوگيا” لان پر ايک طائرانہ نگاہ ڈالے وہ بيٹے سے مخاطب ہوۓ۔
“تقريبا ہو چکا ہے۔۔يار يہ ادھر اس چھتری کے نيچے يہ ٹبيل سيٹ کرو” ياور کو جواب ديتے وہ سامنے کھڑے ايک لڑکے سے بولا۔ اسی اثناء ميں ايک اور ملازم اندرونی حصے کی جانب سے دوڑتا ہوا اسکے پاس آيا۔
“دارم بھائ وہ جنہوں نے کھانا پکانا ہے وہ آگئيں ہيں” اسے اطلاع ديتے وہ لڑکا پھر سے انددونی حصے کی جانب بڑھا۔
“آئيں ڈيڈی آپ کو ولیہ سے ملواتا ہوں” ياور کو لئے وہ بھی اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ مگر لاؤنج ميں داخل ہوتے اسے قدم آگے بڑھانے دوبھر ہوگۓ۔
انہيں اندر آتے ديکھ کر وہ جو صوفے پر بيٹھی انہی کا انتظار کررہی تھی يکدم اپنی جگہ سے کھڑی ہوئ۔ ڈارک بليو پلين شيفون کے لمبے سے خوبصورت فراک پر ہم رنگ دوپٹہ ليا ہوا تھا جس نے سر اور سينے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ميک اپ کے نام پر شايد پہلی بار دارم نے اسکے ہونٹوں پر ہلکے سے پنک کلر کی لپ اسٹک دیکھی تھی۔ فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ تھا۔ مگر اپنی اتنی سی تياری ميں بھی وہ دارم کے ہوش اڑا رہی تھی۔
بمشکل خود پر قابو پاتے وہ آگے بڑھا جہاں ياور اسکے سر پر پيار سے ہاتھ پھيرنے کے بعد حال احوال پوچھ رہے تھے۔ وليہ نے دارم کا ٹھٹھکنا نوٹ کيا تھا۔ مگر چہرے پر کوئ بھی تاثر لاۓ بنا وہ دھيمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے سلام کرنے کے بعد ياور سے باتوں ميں مگن تھی۔
شہزاد، دلاور اور باقی لڑکے بھی وہيں موجود تھے۔ سب خوش اخلاقی سے دارم اور ياور سے باتيں کر رہے تھے۔
“سر کچن کس سائيڈ پر ہے” تھوڑی دير پہلے ہی ملازم انہيں جوس سرو کرکےگيا تھا۔ وہ ختم کرتے ہی وليہ نے پوچھا۔
“عمر”دلاور نے کسی کو آواز دی کچھ ہی دير ميں وہی ملازم دوبارہ نمودار ہوا جو کچھ دير پہلے ہی جوس سرو کرکے گيا تھا۔
“انہيں کچن ميں لے جاؤ” دارم کے کہتے ہی وہ سب اٹھے۔
“اوکے بيٹا جی کچھ دير بعد ملتے ہيں۔” ياور نے خوش دلی نے انہيں اٹھتے ديکھ کر خوش دلی سے کہا۔
“يہ تمہارے باس آپا کو کچھ زيادہ ہی نہيں گھورتے” دلاور کب سے دارم کی وليہ کی جانب بار بار اٹھنے والی نگاہ کو نوٹ کرچکا تھا۔
“فضول بکواس نہ کرو۔ وہ ايسے نہيں ہيں” شہزاد نے اسے گھرکا۔ دلاور خاموش ہوگيا۔ مگر اسے دارم کا يوں وليہ کو ديکھنا کھولا گيا تھا۔
“آپ کو کيا ضرورت تھی اتنا تيار ہو کر آنے کی”کچن ميں داخل ہوتے ہی وہ وليہ کے قريب آکر اس پر بگڑا۔
“کيوں کيا ہوا۔ کيا ميں بہت اوور لگ رہی ہوں۔ اس يمنہ کی بچی نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔۔ بتاؤ دلاور بہت بری لگ رہی ہوں” وليہ يکدم پريشان ہوئ۔ وہ تو تيار ہو کر آنا ہی نہيں چاہتی تھی۔ ابھی بھی اپنی طرف سے سادگی ہی اختيار کی تھی۔
“يہی تو مسئلہ ہے کہ بری ہی نہيں لگ رہيں” دلاور نے گہری سانس کھينچ کر کہا۔
“کيا کہنا چاہ رہے ہو” اسکی بات پر وہ الجھی۔
دلاور اسکی بات کا جواب دئيے بغير اب کام ميں مصروف تھا۔
______________________________
ايونيول ڈنر اپنے عروج پر تھا۔ وليہ اور سب لڑکوں نے بڑی مہارت سے سب سنبھال رکھا تھا۔ جوسز۔۔ سيلڈ۔۔ باربی کيو۔۔ ميٹھا۔۔ اور بھی نجانے کيا کيا وہ بنا چکے تھے اور سب پرفيکٹ تھا۔
صدف جب پارلر سے آئيں تب دارم کو لئے وہ خاص وليہ سے ملنے کچن ميں آئيں۔
“ارے يہ تو بہت پياری بچی ہے” وليہ کو گلے لگانے کے بعد وہ دارم سے مخاطب ہوئيں۔ جس کی نظريں تو نجانے کتنی بار اس کی نظر اتار چکی تھيں۔
“يہی تو مسئلہ ہے کہ بچی بہت پياری ہے۔۔ اور مجھے سب سے پياری لگتی ہے” دارم کی گہری نگاہوں پر نا چاہتے ہوئے بھی وليہ کا چہرہ پل بھر کو سرخ ہوا تھا۔
“ماشاءاللہ” نجانے اس نے ماں کو جواب ديا تھا يا اسے کچھ باور کروايا تھا۔
“بہت خوشی ہوئ آنٹی آپ سے مل کر” وليہ نے اخلاقيات نبھاۓ۔
“مجھے بھی۔۔ چليں کيری آن يور ورک۔۔ سوری تمہيں ڈسٹرب کيا۔” وہ موقع کی نزاکت ديکھتے بوليں۔
“کوئ بات نہيں۔”
اس وقت پورا لان خوشگوار اور بے پرواہ ہنستے بستے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
سب کچھ ريڈی کروا کر دارم نے ان سب کو بھی باہر آنے کا کہہ ديا تھا۔ وليہ اب صرف انہيں سپروائز کر رہی تھی اور باقی کا کام سب لڑکے کر رہے تھے۔
دارم خود بليک ٹو پس ميں بليک ہی شرٹ اور لائننگ والی بليک ٹائ لگاۓ پورے ماحول پر چھايا ہوا تھا۔
سب خوش گپـيوں ميں مصروف تھے۔
وليہ ايک پلر کے ساتھ کھڑی خاموش نظروں سے سب کو ديکھ رہی تھی۔
دارم نے ايک نظر اسے الگ تھلگ ديکھا۔ خاموشی سے چلتا اسکے قريب آيا۔
“کيسی لگی آپ کو ميری فيملی؟” اپنے قريب اسکی خوشبو محسوس کرتے وہ پہلے ہی چوکنا ہوئ اور پھر خود پر حيران بھی۔ وہ کب سے اسکی خوشبو کو پہچاننے لگی۔
“بہت اچھے ہيں۔ آپ کو ديکھ کر لگتا ہی ہے کہ آپ کی تربيت بہت اچھے ہاتھوں نے کی ہے۔ اور آج يقين بھی ہوگيا” وليہ نے اسکی جانب ديکھنے سے گريز کيا۔
“يہ ميری تعريف ہے يا ميری فيملی کی؟” اس نے پھر سے اسے الجھايا۔
“ايٹی پرسنٹ آپکی فيملی کی اور ٹوئنٹی پرسنٹ آپکی” دارم اسکی حاضر جوابی سے پھر سے لطف اندوز ہوا۔
“اور اس فيملی کا جب آپ حصہ بنيں گيں تو يقينا يہ اور بھی اچھی ہوجاۓ گی” دارم کی اس بے موقع بات پر اب کی بار وہ جھٹکے سے اسکی جانب مڑی۔
دارم کا اس لمحے دل کيا وہاں سے سب ہٹ جائيں۔۔ انکے اردگرد کوئ نہ ہو اور وہ فرصت سے ان حيران آنکھوں کو ديکھ سکے۔
“ميں بات گھما پھرا کر نہيں کرتا۔ آپ کو زندگی ميں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ جب وقت ملے اس بات پر ضرور سوچئيے گا” وہ ايسے بات کررہا تھا جيسے کوئ نوکری آفر کرکے پوچھے “ميری آفر پر سوچنا” اور اپنی بات کہہ کر وہ مزے سے اسکے پاس سے ہٹ گيا۔