تحریم ان دنوں بہت پریشان رہنے لگی تھی وہ اکثر ایسے جملے دوہراتی تھی۔ میں مر جاؤں گی۔ ایک دن آپ کی ناراضی مجھے مار دے گی اور زارون کا جواب ہوتا۔ پاگل ، ناراضی تو محبت کی علامت ہے۔ خفگی وہیں ہوتی ہے ے جو جہاں محبت ہو ۔ یہ جذبہ نہ ہو تو محبت کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن انسان اگر بغیر وجہ کی ناراضی کا دکھ سہے تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ کم از کم کوئی میرا قصور تو بتادیا کرے۔ بار بار دل توڑو گے تو میں بھی زندہ نہ رہوں گی۔ دیکھو تحریم ! میں دل توڑتا ہوں تو پھر جوڑتا بھی تو میں ہی ہوں۔ ناراضی کے بعد صلح ہوتی ہے، پیار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ گھر میں یہ جملے اکثر دوہرائے جاتے ، تاہم وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی تھی کہ اسے اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا۔ ایسا شوہر جس نے آج تک کسی دوسری عورت سے بات کرنا تو کجا کسی کو نظر بھر کر دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ اپنی بہنوں سے بھی مختصر بات کرتا تھا ۔ اکثر تو اسے ان سے کلام کی ضرورت ہی نہ پڑتی تھی۔ خدا کا شکر کہ اسے اپنی نئی نویلی بیوی تحریم پسند آگئی تھی، جس کو اس نے شادی سے پہلے دیکھا تک نہیں تھا مگر اب لگتا جیسے اس کے بغیر ایک لمحہ گزار نا مشکل ہو۔ اس کا پیار بھی کچھ عجیب تھا۔ شدت لئے ہوئے ، دھیمے دھیمے رم جھم کی طرح برستے ہوئے اچانک کالے بادل لہرا جاتے خفگی کی بارش برسنے لگتی۔ ایسے عالم میں تحریم ان کہی باتوں سے بے خبر ، اس الجھن میں رہتی کہ زارون کو ہوا کیا ہے؟ وہ کیوں اس سے بات نہیں کر رہا؟ کیونکہ من چاہا انسان ہی اگر آپ کو نظر انداز کرے ، اجنبیوں جیسا سلوک کرے تو پھر سکون کہاں ملتا ہے۔ رات رات بھر جاگ کر وہ سوچتی ، روتی لیکن کوئی سرا ہاتھ نہ لگتا۔ وہ کتنے دن ایسے تڑپتے ہوئے گزار دیتی اور پھر اچانک بادل برسنا بند کر دیتے۔ محبت کی پھوار پڑنا شروع ہو جاتی۔ اس کے گلے ہونٹوں میں ہی دب کر رہ جاتے۔ وہ ان دنوں کی اذیت کو تلخ یاد سمجھ کر بھول جاتی کہ پھر سے وہی سب شروع ہو جاتا۔ اس کا جیون ساتھی، پیار بھری باتیں کرنے لگتا۔ کیا بات ہے آپ کیوں چپ ہیں؟ کچھ نہیں۔ مجھے بتائیں کیا ہوا ہے ؟ کہا ناں، کچھ نہیں۔ کچھ تو ہے راز ، میں پتا کر کے رہوں گی کہ آخر آپ کو ہوا کیا ہے۔ صبح آپ آفس گئے تو بالکل ٹھیک تھے اور واپسی پر خراب موڈ، آخر کوئی تو وجہ ہو گی نا! بلاوجہ تو کچھ نہیں ہوتا۔ تحریم بو جھل لہجے میں پوچھتی رہ جاتی۔ وہی ایسے ہی ایک دن پھر بالآخر اسے جواب مل گیا۔ زارون نے کہا۔ آج تم بازار گئی تھیں مجھ سے پوچھیں بغیر؟ نہیں، میں تو گھر پر ہی تھی آج، کہیں بھی نہیں گئی۔ میں نے دیکھا تھا، وہ تم ہی تھیں۔ وہ تمہاری ہی سفید چادر تھی۔ قسم لے لیں زارون ! میں گھر پر ہی تھی۔ آپ امی سے پوچھ لیں۔ تحریم نے نم آنکھوں سے جواب دیا تو اچھا کہہ کر شوہر صاحب کا موڈ خوشگوار ہو گیا۔ گو یا زارون کو اندر سے شک کا روگ لگا ہوا تھا۔ یہ زہریلا سانپ اسے رہ رہ کر ڈستا تھا۔ تحریم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ ایک عورت کے لئے ایسی زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے ، جہاں چو ہیں گھنٹے وہ کاموں میں لگی رہے اور رات کو جب تھکی ہاری کمرے میں پہنچے تو خاوند کا ایسا رویہ منتظر ہو۔ ایسے حالات میں عورت زیادہ دیر گزارہ نہیں کر سکتی مگر اولاد کی وجہ سے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک دن ڈرائنگ روم میں سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ تحریم بھی اپنے بیٹے کو اٹھائے موجود تھی۔ سب کے ساتھ وہ بھی ہنس بول رہی تھی۔ دن بہت مصروف گزرا، شام کو تمام مہمانوں کو رخصت کر کے اپنے کمرے میں گئی تو زارون خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنس بول رہا تھا اور نہ گنگنا رہا تھا۔ بیوی کو اس طرح نظر انداز کر رہا تھا جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہیں تھی۔ اس کو منانے کی تحریم کی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ اس نے زارون کو لاکھ منایا، اس سے ناراضی کی وجہ پوچھی مگر اس نے تو جیسے نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ گھر میں موجود تمام لوگوں کو بھی پتا چل گیا کہ میاں بیوی میں کوئی ناراضی چل رہی ہے اور اس بات کی وجہ کیا ہے ؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا، یہاں تک کہ خود تحریم کو بھی نہیں، تو پھر وہ کس منہ سے کسی کے سوال کا جواب دیتی۔
اس نے یہ وقت کیسے گزارا، یہ وہی جانتی تھی۔ ایک ہی کمرے میں ہونے کے باوجود دونوں اجنبیوں کی سی زندگی گزار رہے تھے۔ زارون نے تحریم کے ساتھ ساتھ سب گھر والوں سے بھی بات چیت بند کی ہوئی تھی۔ اس کی تو حالت ان دنوں نہ گفتہ بہ ہو رہی تھی۔ جب اتنی محبت کرنے والا شخص اچانک اجنبی بن جائے تو یہ اذیت وہی جان سکتا ہے جس نے اسے جھیلا ہو، جس پر گزری ہو۔ آخر کار خدا خدا کر کے ایک ہفتے کی سرد مہری کے بعد اس کے لبوں کا قفل ٹوٹ گیا لیکن اس نے کہا بھی تو کیا کہ میری بہن کا شوہر تمہیں دیکھ رہا تھا۔ بس مجھے اس بات کا غصہ ہے کہ تم وہاں سے ہٹ کیوں نہ گئیں۔ یہ الزام سن کر وہ تڑپ گئی۔ خدا کے لئے ایسے الزام نہ لگاؤ۔ میں نے تو تمہارے بہنوئی کی طرف ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ اس نے سسکتے ہوئے جواب دیا۔ ٹھیک ہے تم بے قصور ثابت ہو گئیں لیکن وہ نہیں ہوا۔ آئندہ جب میری بہنیں آئیں تو تم ان کے خاوندوں کے سامنے نہیں آنا۔ لیکن زارون ! گھر آئے مہمانوں کے ساتھ یہ سلوک تو نہیں کیا جاتا۔ میں کیسے سامنے نہیں جاؤں گی۔ آپ کی والدہ اور بہنیں کتنا برا مانیں گی۔ وہ تو میری جان کو آجائیں گی۔ اچھا، تو پھر سوچ لو۔ یا تو انہیں خوش رکھو یا پھر مجھے۔ اس نے بیوی کو درشت لہجے میں جواب دیا اور پھر اگلی دفعہ ویسا ہی ہوا جیسا وہ چاہتا تھا۔ اس بار جب اس کی بہنیں اور ان کے خاوند آئے تو تحریم اپنے کمرے میں بند رہی۔ اس نے اپنی ساس کو بھی ان کے بیٹے کی اس پابندی کے بارے میں بتادیا تھا۔ زارون خود بھی تحریم کے ساتھ کمرے میں بند ہو گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کی بیوی نے اس کی بات مانی ہے اور کسی سے ملنے نہیں گئی۔ تم صرف میری ہو اور میرا دل چاہتا کہ میری چیز پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس نے مسکراتے ہوئے بیوی کا ہاتھ تھاما۔ وہ جواب میں بس مسکرا کر رہ گئی تھی، لیکن جیون ساتھی کو یہ پتا بھی نہ چل سکا کہ تحریم کے دل میں کہ کیا ٹوٹ کر رہ گیا ہے۔ اب وہ ہر لمحہ ایک خوفزدہ کرنے والے حصار میں قید رہنے لگی۔ پتا نہیں اس کے شوہر کو کب کسی سے بات کرنے پر غصہ آجائے، کیا بر الگ جائے۔ وہ بازار نہ جاتی کہ کہیں خاوند کا ذہن اس کے بارے ہیں کوئی منفی کہانی نہ گھڑ لے۔ اسے اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی کہ اس کا شوہر اس کے بارے میں ایسے خیالات رکھتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی کہ میری زندگی کا ساتھی مجھ سے پیار بھی تو کرتا ہے۔ وہ میکے جانے کے لئے جب کہتی زارون مان جاتا۔ چاہے رات ہو یا دن لیکن وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جاتا اور ساتھ ہی واپس لے آتا۔ اگر وہ رات وہاں گزارنے کی ضد کرتی تو اسے ، ایسے ایسے جملے سننے کو ملتے کہ وہ اپنی قسمت پر رشک کرنے لگتی۔ زارون کہتا۔ میں جب گھر میں داخل ہوتا ہوں اور تمہاری صورت نظر نہ آئے تو میراگھر میں آنے کو دل نہیں چاہتا۔ وہ رات میرے لئے کانٹوں کا بستر بن جاتی ہے جب تم میرے ساتھ نہ ہو۔ تحریم نے تبھی میکے جانا ہی چھوڑ دیا۔ مہینوں بعد اسے ماں باپ کی یاد آتی بھی تو دل کو تھپک تھپک کر سلا دیتی کہ میرے شوہر کی خوشی اور میرا سکون میرا گھر ہے۔ میرا خلوص میری خوشی سب میری بیوی سے ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس پر کسی کی نظر بھی پڑے۔ اگر کوئی اس کی طرف دیکھے، تو میر ادل شک سے بھر جاتا ہے کہ کہیں وہ میری بیوی کے لئے کچھ سوچ تو نہیں رہا۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ عورت شادی کے بعد بھی بے وفا ہو سکتی ہے ، اس لئے میں اسے بے وفائی کا موقع ہی نہیں دیتا۔ میں اسے گھر سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا۔ میں اسے کبھی موبائل فون لے کر نہیں دوں گا کہ وہ کسی سے رابطہ کر سکے۔ میں اسے اپنے حصار میں جکڑ کر رکھوں گا۔ یہ تمام سوچیں زارون کی تھیں، لیکن اسے یہ پتا نہیں تھا کہ عورت بہت نازک ہوتی ہے، کانچ سے بنی ہوتی ہے۔ اسے پیار، محبت چاہیے اور ساتھ تحفظ اور اعتماد بھی۔ اگر شوہر اس پر محبت کے ساتھ اعتماد کی دولت بھی دامن میں ڈال دے تو عورت عمر بھر اس کی باندی بن کر رہ سکتی ہے۔ کاش، زارون کو پتا ہوتا کہ اس کی بیوی، صرف اسی کو سوچتی ، اسی کو پوجتی ہے تو وہ یوں شک کے ناگ کو پھن نہ پھیلانے دیتا مگر اس نے کبھی اس نازک دل کے نازک جذبات اور اس کی سوچ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
شوہر کی شکی طبیعت نے تمام زندگی اس شخص کو سکون سے رہنے دیا اور نہ اس کی بیوی کو۔ اس ناروا سلوک کی وجہ سے تحریم کی شخصیت کو گھن لگ گیا اور اس کا اعتماد بالکل ختم ہو کر رہ گیا۔ ذہنی اذیت نے اسے بیمار کر ڈالا۔ شوہر اپنی طرف سے دی گئی بیماریوں کا علاج بھی خود ہی تن دہی سے کروا رہا تھا کہ بقول اس کے ، اسے اپنی بیوی بہت ہی پیاری تھی۔ اس کی جدائی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ تحریم نے حالات سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا، وہ بچوں سے باپ کی ناراضی چھپاتی تھی تاکہ وہ اس کا غلط اثر نہ لے لیں۔ اس کے والدین نے تو بہت سوچ سمجھ کر یہ رشتہ طے کیا تھا، لیکن کہتے ہیں ناں کہ ماں باپ اپنی بیٹی کو سب کچھ دے سکتے ہیں سوائے نصیب کے۔ یہ بھی شاید اس کا نصیب ہی تھا کہ اس کے دل سے خواہشات کے پینچھی اڑ گئے تھے، اسے اب کسی چیز کی چاہ نہیں رہی تھی۔ اب جب بھی زارون اپنی خفگی کے اظہار کے لئے خاموش ہو جاتا تو وہ بھی چپ کر کے انتظار کرتی کہ کب یہ پتھر پگھلے گا، وہ پتھر جو اس کا دلدار بھی ہے اور قاتل بھی۔ اب وہ اپنے دل کو سمجھا چکی تھی کہ اس کی زندگی ایسی ہی گزرے گی۔ پس اس نے شوہر کی منفی سوچوں کے بارے میں فیصلہ کر لیا کہ وہ ان پر کڑھنا چھوڑ دے گی اور اس سے لگائی ہوئی توقعات سے کنارہ کش ہو جائے گی۔ اس نے خود کو سمجھا لیا کہ دنیا میں انسان اکیلا آیا ہے ، اکیلا ہی رہتا ہے اور پھر اکیلا ہی چلا جاتا ہے تو پھر کون اپنا اور کون پر آیا۔ ہم تو خود بھی اپنے نہیں ہیں، کوئی دوسرا قالب کیا ہمارا اپنا ہو سکتا ہے۔ اب اگر جینے کو سہل کرنا ہے تو اس ایک سوچ کے ساتھ کہ اپنے بچوں کے لئے جینا ہے۔ ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش میں جینا ہے۔ انہی کے لئے شاید یہ زندگی ملی تھی اور انہی پر توجہ مذکور رکھتی ہے۔ عورت، اپنی ذات سے کب تک پیار کر سکتی ہے۔ وہ اپنی ذات سے کچھ عرصے کے لئے ہی پیار کر سکتی ہے ، پھر اسے ان پھولوں سے پیار کرنا ہوتا ہے ، ان کی آب یاری کرنا ہوتی ہے جو خدا نے اس کے دامن میں ڈالے ہیں اور جب یہ فرئضہ ختم ہو جاتا ہے تو عورت کی زندگی کا مقصد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس جاتی ہے تو سرخرو ہو کر کہ اس نے ایک اچھی ماں کا کردار بخوبی ادا کرنے کی کوشش تو کی تھی۔ اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے ، میں اپنی حیات واری تھی ، اسی لئے اللہ نے جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھا ہے۔