ہماری کلاس میں دو لڑکے اور تقریباً دس لڑکیاں تھیں۔ سب کی ہی آپس میں اچھی دعا سلام ہوگئی تھی۔ ہم میں سے کچھ لڑکیاں ایک ہی اسکول سے آئی تھیں، وہ پہلے سے آپس میں دوست تھیں لیکن میری اور فرحانہ کی کسی سابقہ ہم جماعت نے یہاں داخلہ نہ لیا تھا۔ یہ ایک قدر مشترک ہونے کی وجہ سے ہم دونوں پہلے ہم نشست ہوئیں اور پھر سہیلیاں بن گئیں ۔ یہی معاملہ فرحان اور صفدر کا تھا، یہ دونوں لڑکے الگ الگ اسکولوں سے آئے تھے، لہذا آپس میں دوستی کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ظاہر ہے. کہ انسان تنہا نہیں رہ سکتا ، ہر جگہ اسے کسی دوست یا ساتھی کی ضرورت تو ہوتی ہے۔ فرحان بہت سنجیدہ اور شریف سا لڑکا تها وه کم گو بھی تھا جبکہ صفدر شرارتی اور شوخ تھا۔ وہ لڑکیوں سے بھی گپ شپ کرنے کی کوشش کرتا جبکہ فرحان کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ مجھے اس کی یہی بات پسند تھی۔ اس کی اچھی عادات کی وجہ سے اساتذہ بھی اسے پسند کرتے تھے اور وہ اسٹاف میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ایک روزوہ فری پیریڈ میں گرائونڈ میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ میں نے اس کے قریب جاکر ازخود کلام کیا۔ کیا آپ کے پاس کل کے نوٹس ہیں؟ جواب میں اس نے مجھے اپنی ڈائری دے دی۔ اس روز وہ جب کلاس میں داخل ہوا تو بہت خوش لگ رہا تھا۔ پہلی بار میں نے اسے چہکتے ہوئے دیکھا۔ اگلے روز وہ کالج کی راہ داری میں کھڑا تھا۔ میں قریب سے گزری تو بات نہیں کی لیکن لیکچر سے پہلے جب کلاس میں جانے لگی تو اس نے مجھے پکارا ندا سنو! میں ٹھہر گئی۔ وہ کچھ جھجکا ہواسا تھا پھر اس نے کہا۔ بات کچھ نامناسب ہے لیکن پلیز آپ برا مت مانیے گا جی کہیے، میں برا نہیں مانوں گی۔ کیا آپ کا فون نمبر مل سکتا ہے ؟سوری، میں نمبر نہیں دے سکتی۔ اس جواب پر وہ مایوس سا ہو گیا۔ تب ہی مجھے ترس آ گیا اور میں نے یہ سوچ کر نمبر دے دیا کہ یہ ایک شریف لڑکا ہے، کسی غلط بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ گھر جاکر اس کو ایس ایم ایس کیا اور تھوڑی خفگی جتلائی۔ اس نے وضاحت کی کہ وہ کچھ سوالات کے بارے بات کرنا چاہتا تھا، تب ہی نمبر لیا ہے۔ خیر، اس کے بعد وہ گاہے گاہے فون پر مختصر بات کرتا، یوں ہماری اچھی خاصی جان پہچان ہو گئی ۔ ابھی ہماری جان پہچان کو ایک ہفتہ ہوا تھا کہ اس نے کالج سے چھٹی لی اور لاہور چلا گیا۔ وہ بہت اچھی گفتگو کرتا تھا ۔ جی چاہتا تھا کہ اس کی باتیں سنتے ہی رہو۔ ایک دن میں اپنی فیملی کے ہمراہ ہوٹل میں کھانا کھانے گئی، وہاں وه مجھے نظر آگیا۔ وہ ایک خوب صورت لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا ، بہت خوش گوار موڈ میں ہنس ہنس کر باتیں کررہا تھا۔ تب ہی میں نے اسے ایس ایم ایس کیا کہ کہاں ہو؟ میں ایک ہوٹل میں ہوں، اپنی کزن کے ساتھ، ہم یہاں کھانا کھانے آئے ہیں۔ اس نے سچ سچ بتا دیا ۔ ابھی تک اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا ۔ مجھے بہت جلن ہوئی کہ یہ کیوں کسی لڑکی کے ساتھ ہے۔ اس دن کے بعد میں اس کے ساتھ اکھڑے اکھڑے انداز سے بات کرنے لگی۔ اس باعث وہ کچھ پریشان سا رہنے لگا لیکن مجھ سے ناراضی کی وجہ دریافت نہ کی، جبکہ میں اسی انتظار میں تھی کہ وہ کچھ پوچھے تو بات کروں کہ وہ كون تھی جس کے ساتھ تم ہوٹل میں اس طرح ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے، یہاں تو تم مسکراتے تک نہیں ہو۔ جب اس نے ایک بار بھی نہ پوچھا کہ تم کیوں روٹھی روٹھی ہو، تب یقین ہوگیا کہ اس کا معاملہ اسی لڑکی کے ساتھ ہے۔ ایک روز جب صبر کرنا میری برداشت سے باہر ہوگیا تو میں اس سے جھگڑ پڑی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن میں نے ایک نہ سنی ۔ کہہ دیا کہ تم جس کے ساتھ ہو، اسی کے ساتھ رہو اور اب کبھی مجھ سے رابطہ نہ کرنا۔ اس نے مجھے کئی بار فون کیا، لیکن نجانے مجھ کو کیا ہوگیا تھا ، میں ہر بار بغیر سنے فون بند کردیتی مجھے یہ سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ ہے۔ اس طرح دوستی کا ناتاخود میں نے ہی توڑا۔ اسے بات کرنے کی مہلت ہی نہ دی جو وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا – وہ لاہور سے واپس آگیا تھا مگر پہلے جیسا نہ رہا تھا وہ بہت بدل گیا تھا، سب سے الگ تھلگ، بیزار سا اکھڑا اکھڑا رہتا ۔ مسکرانا تو کجا کسی سے بات تک نہ کرتا۔ ان ہی دنوں ضمنی امتحان میں اس کی اول پوزیشن آ گئی۔ ہماری کلاس کی چند طالبات نے اس سے ٹیوشن لینے کی استدعا کی تو وہ ان کو فارغ وقت میں پڑھانے لگا۔ ان لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ اس کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تو مجھ کو جلن ہونے لگی۔ جب وہ اس لڑکی ربیعہ سے بات کرتا تو مجھ پر قیامت گزر جاتی، کسی پل چین نہ آتا۔ میں نے پھر سے اسے ایس ایم ایس کرنے شروع کردیے۔ فون پر بھی رابطہ کیا لیکن فرحان نے ٹھیک طرح بات نہ کی۔ یقین ہوگیا کہ اس نے کسی اور سے دل لگا رکھا ہے۔ مین بجھی بجھی رہنے لگی، پڑھائی میں بھی دل نہ لگتا تھا۔ وقت بهاری قدموں ، سے مجھ کو روندتا جاتا تھا ۔ دن کاٹے نہیں کٹتے تھے۔ پڑھائی سے بھی دل ہٹ گیا۔ ایک روز میری دوست فرحانہ نے بتایا کہ فرحان کی کزن ہماری لیکچرار سے ملنے آئی ہے۔ یہ وہی کزن تھی، جس کو میں نے اس کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھے دیکھا تھا۔ باتوں باتوں میں میڈم سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ان کی بچپن کی دوست ہے اور فرحان کے بڑے بھائی کی بیوی ہے۔ شوہر عرصے سے قطر میں ہے اور اب یہ بھی وہاں جارہی ہے، تب ہی ملنے آئی تھی ۔ یہ دو بچوں کی ماں اور فرحان کے چچا کی بیٹی ہے۔ اتنی تفصیل جان کر میری آنکھیں کھل گئیں۔ خود پر غصہ آنے لگا کہ بغیر سوچے سمجھے کیوں دوستی کا رشتہ ختم کردیا گھر پہنچ کر فرحان کو فون کیا اور معافی مانگی مگر اس نے کوئی بات نہ کی ۔ کچھ تو بولو! میں نے منت سماجت کی، تب وہ گویا ہوا مجھے افسوس ہے۔ میں تم کو ایسے ذہن کی لڑکی نہیں سمجھتا تھا، تب ہی پسند کیا اور تم سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر تمہاری شکی طبیعت نے ہماری دوستی کے خوب صورت رشتے کو توڑ دیا۔ میں نے کئی بار تم کو منانے کی کوشش کی ، یہ بتانا چاہا کہ وہ میری بھابھی ہیں جن کے بارے تم غلط سوچ رہی ہو، لیکن تم نے میری کوئی بات بھی سننا گوارا نہ کی۔ تب میں نے فیصلہ کرلیا کہ کسی شکی مزاج لڑکی کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا اور تمہارے لیے بھی، تو ہم کو اپنی اپنی زندگیاں اور خوشیاں دائو پر نہیں لگانا چاہئیں۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ کالج نہیں آیا۔ اس کی تلاش میں، میں نے سر دھن لیا، مگر بے سود۔ اس کا نمبر بھی بند ملتا تھا۔ رابطہ کرنا چاہا، نہ کرسکی۔ آخر کب تک جبکہ میری پکار اس تک پہنچ ہی نہ سکتی تھی۔ دعائیں کرتی، کاش ایک بار وہ مجھے فون کرلے تو اس سے معافی مانگ لوں کہ فرحان خدا کے لیے مجھے معاف کردو۔ میں تم جیسے انسان کو کھونا نہیں چاہتی لیکن میں نے اسے کھو دیا تھا کیونکہ میں نے دیور ، بهابهی جیسے مقدس رشتے پر شک کیا تھا۔ اس کی یہ سزا ملی کہ مجھ کو اپنی محبت سے دائمی جدائی مل گئی میں کافی عرصہ پریشان ربی امتحان بھی نہ دے سکی۔ فرحان کو بھلانا چاہا مگر نہیں بھلا سکی۔ ایک پھانس تھی جو دل میں کھب گئی تھی جو پھر نہ نکل سکی۔ اس کے بعد زندگی کے جتنے بھی دن گزارے ، ایک مردے کی مانند گزارے۔
وقت کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں، کسی کا انتظار نہیں کرتا، بس تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ ہم کو اس کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ کئی رشتے آئے لیکن میں شادی سے انکار کرتی چلی گئی۔ بالآخر امی ابو اس قدر خفا ہوئے کہ ان کی خاطر سرتسلیم خم کرنا ہی پڑا میرے نصیب میں جو شخص جیون ساتھی کے طور پر لکھا گیا تھا، اس کے ساتھ شادی ہوگئی اور نئی زندگی کی شروعات ہوگئیں۔ نثار بہت اچھے انسان تھے۔ مجھ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں بھی بظاہر خوش نظر آنے کی کوشش کرتی مگر دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے اور دل ایسی چیز ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ شادی کے چند سال بعد میرے شوہر کا تبادلہ ہوگیا، جہاں ہم گئے وہاں بھی دل نہ لگا۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ ان ہی دنوں جبکہ میں ذہنی طور پر اضطراب میں تھی، میری ایک لڑکی سے ملاقات ہوگئی جس کا نام ثمینہ تھا۔یہ ایک مقامی لڑکی تھی اور ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ بہت اچھی عادات کی مالک تھی۔ جلد ہی میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ اس کی باتیں بہت ساده و معصومانہ ہوتی تھیں۔ میرے دل کی اداسی کو اس نے بھانپ لیا۔ ایک دن کہنے لگی۔ باجی! مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی بے سکونی ہے۔ برا نہ مانو تو پوچھوں؟ کیوں اداس رہتی ہو؟ کیا کسی کی یاد ستاتی ہے۔ ہاں ایک دوست کی کیا کروں بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا سکتی۔ تب ہی اپنے شوہر کو بھی نظر انداز کرتی ہوں، ان کی طرف توجہ نہیں کر سکتی۔ اس کا ایک حل ہے میرے پاس، آپ میرے دادا کے گائوں چلیں۔ وہاں ایک شخص ہے، نام نہیں معلوم، مگرلوگ اس کو الله والا کہتے ہیں۔ وہ عجیب آدمی ہے، بس ایک بار آپ کو غور سے دیکھ کر پھونک مارے گا تو آپ کی ذہنی پریشانی دور ہوجائے گی اور آپ بھلی چنگی ہوجائیں گی – کیا کہہ رہی ہو ثمینہ ! یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں ایسے پیروں فقیروں پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ پیر فقیر نہیں باجی بس نیک آدمی ہے، بزرگ ہے۔ تم اور کیا جانتی ہو اس کے بارے میں؟ میں نے ثمینہ سے پوچھا۔ کچھ ایسا حال سنا ہے کہ آپ سنیں گی تو حیران رہ جائیں گی ۔ اس دنیا میں اللہ تعالی کے بنائے کئی طرح کے انسان اور مخلوقات اور رنگ کا ہے۔ کب علاقے میں وارد ہوا، اس کے بارے مجھ کو زیادہ معلوم نہیں – مگر ہمارے گائوں میں وہ لوگوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اُس وقت شروع میں ، وہ گائوں کے بازار میں دکان داروں اور علاقے کے لوگوں کا بوجھ اجرت پر اٹھانے کا کام کرتا تھا۔ اسی پر اس کی گزر بسر تھی۔ اس نے شادی نہیں کی، مزدوری کی اجرت سے وہ اپنا خرچہ پورا کرتا تھا۔ ایک بار کسی کو اس نے اپنا نام لطیف بتایا تھا، لہذا لوگ اسے بابا لطیف کہا کرتے تھے۔ اس بندے کو سوائے عیدین کے ، کبھی کسی نے اچھے لباس میں نہیں دیکھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اچھے اور اجلے لباس زیب تن کروں گا توکون مزدوری دے گا۔ وہ دو من سے زیادہ وزن اٹھالیتا تھا اگر وزن کم ہوتا تو وہ اس بوجھ کے ساتھ کوئی بھاری پتھر باندھ لیتا اور پھر بوجھ کو بڑھا کر لوگوں کا سامان منزل مقصود پر پہنچا دیتا۔ اس کا یہ بھی اصول تھا کہ وہ طے شدہ اجرت سے زیادہ برگز نہ لیتا تھا۔ کوئی اگر اپنی خوشی سے کچھ زیادہ رقم دیتا تو وہ لوٹا دیتا اور اصرار کے باوجود قبول نہ کرتا پہلے تو کسی کو علم نہ تھا کہ یہ شخص کہاں سے آتا ہے اور رات کو کہاں چلا جاتا ہے- بعد میں اس نے بازار میں کوئی دکان جو رقبے میں چھوٹی سی کوٹھری کے جیسی تھی، کرائے پر حاصل کر لی – وہ اسے بطور رہائش اور گودام کے استعمال کرتا تھا – اسی رہائش گاہ میں اس کا راشن مثلا گندم، مکئی اور دالوں کا سٹاک ہوتا تھا-
یہ اجناس وہ اجناس کی منڈی سے چن چن کر جمع کرتا رہتا تھا- لطیف کو بڑے گوشت سے پرہیز تھا البتہ چھوٹا گوشت بکرے وغیرہ کا خرید کر لاتا اور ایک برتن میں کئی کئی دن رکھتا خدا جانے وہ اسے کیا لگاتا کہ وہ ہفتہ بھر بھی خراب نہ ہوتا- کبھی کسی نے اسے یہ گوشت آگ پر پکاتے دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے گودام نما رہائش گاہ میں پکانے کی سہولت میسر تھی – زیادہ تر وہ خالص دودھ اور دہی کا استعمال کرتا جو کئی دن پڑے رہنے کے باوجود نہ خراب ہوتے کسی نے کبھی اسے بیمار پڑتے نہیں دیکھا اگر کوئی بیمار اس کے پاس آجاتا تو وہ اس کی ہتھیلی پر پھونک مار دیتا، بیمار ٹھیک ہوجاتا۔ اس وجہ سے اس کی کرامت کی دھوم اب دور دور تک پھیل گئی ہے۔ لوگ اکثر جا کر اس کے پاس اپنی تکلیف بیان کرتے ہیں اور وہ صرف پھونک مارکر ان کو مطمئن کر دیتا ہے اور وہ جلد ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں – ثمینہ ایک معقول لڑکی لگتی تھی مگر جب اس نے یہ کہانی سنائی تو مجھے لگا کہ وہ کوئی افسانہ گھڑ کر سنا رہی ہے۔ تب ہی میں نے پوچھا۔ ثمینہ تم کو یہ سب باتیں کس نے بتائیں ؟ وہ بولی میرے تایا اور چچا نے ، یوں بھی جب کوئی رشتہ دار ہمارے آبائی گائوں سے آتا ہے، لطیف بابا کے بارے ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔ خیر میں تو تمہارے دادا کے گائوں جانے سے رہی اور نہ ہی میں ایسے عجیب و غریب انسان سے ملنا چاہوں گی کیونکہ مجھے ان کرامات کا یقین نہیں ہے چند ہفتے گزرے ، ثمینہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔ افسوس باجی آپ ہمارے ساتھ گائوں نہیں گئیں۔ بابا اللہ والا، اس جہان سے گزر گیا ہے ، ورنہ آپ کی ہتھلی پر پھونک مارکر آپ کی پریشانی دور کر دیتا ۔ میں نے کہا کہ اس عجیب انسان سے دنیا خالی ہوگئی ہے لیکن واقعہ کیا ہوا، بتائو باجی یقین کریں کبھی کسی نے اس کو بخار میں یا بیمار ہوتے نہیں دیکھا تھا، سوائے آخری دن کے، جب وہ مرض الموت میں گرفتار ہوا۔ موت کے بارے اس کا کہنا تھا کہ وہ مقامی ندی میں نہانے نہیں جائے گا، ورنہ پانی میں ڈوب کر مر جائے گا، کبھی کسی درخت پر نہیں چڑھے گا کہ جہاں سے گرکر مرنے کا اندیشہ ہے اور نہ کسی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھے گا کہ جہاں سے گرکر مرنے کا احتمال ہو۔ دیکھئے اتنا طاقت ور اور صحت مند انسان، جو اس قدر احتیاط سے کام لیتا تھا ، آخر کار موت سے ہار گیا۔ تب ہی میں نے کہا سچ ہے، موت ایک طاقت ور حقیقت ہے، جب یہ کسی زندہ پر غالب آنا چاہتی ہے تو اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہے۔ کیا تم نے کبھی اس آدمی کو دیکھا تھا؟ میں نے تو نہیں مگر میری ماں، باپ اور چچا نے دیکھا تھا، بھائی بھی ملے تھے۔ وہ کافی اونچا لمبا چوڑا اور بھاری بھرکم تھا۔ چچا نے بتایا تھا کہ اللہ والا بابا اپنی جمع پونجی تاجروں کے پاس بطور امانت رکھوا دیتا تھا جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی جمع شدہ رقم کسی جگہ زمین میں دبا دیتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ پاکستان وجود میں آنے کے بعد جب ہندو تاجروں کو گائوں چھوڑنا پڑا تو انہوں نے لطیف بابا کو اس کی رقم لوٹانے کی پیش کش کی تھی، جو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ ان سے یہ رقم ہرگز نہ لے گا۔ البتہ جب وہ دوبارہ وطن واپس آئیں گے اور اس کی رقم لوٹانا چاہیں گے، تب وہ لے لے گا مگر اس کی نوبت نہ آسکی کہ وہ پھر لوٹ کر اپنے آبائی گائوں نہیں آئے۔ تاہم بابا کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی تو آئیں گے۔ وفات کے وقت اس بزرگ کی عمر ستر برس سے اوپر تھی۔ گائوں کے لوگ چاہتے تھے کہ بابا کی تجہیز و تدفینمیں اس کے عزیز واقارب کی شمولیت ہو، لہذا وہ اس کو گاڑی میں ڈال کر اس کے علاقے کی طرف ایک تابوت میں رکھ کر لے گئے۔ جب وہ اس پہاڑی کے پاس پہنچے جس کی پرلی جانب لطیف بابا کا گائوں تھا، انہوں نے تابوت کو گاڑی سے نکال کر کندھوں پر اٹھا لیا کیونکہ آگے چڑھائی پر گاڑی لے جانا ممکن نہ تھا اور دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ تابوت کافی بھاری تھا کیونکہ تابوت کے وزن کے علاوہ بابا خود بھی ایک لحیم شحیم جسم والا آدمی تھا۔ تابوت کو چڑھائی پر لے جاکر دوسری سمت گائوں تک پہنچانا ایک دشوار کام تھا۔ لہذا چار افراد سے زیادہ میت کو لوگوں نے اٹھا رکھا تھا، بہرحال جب وہ پہاڑی کی چوٹی تک پہنچے ، انہیں احساس ہوا کہ تابوت اچانک بلکا ہو گیا ہے۔ انہیں لگا جیسے یہ خالی ہو اور انہوں نے کوئی بلکا پھلکا تبا اٹھا رکھا ہو۔ بس وہ ڈر گئے۔ انہوں نے تابوت کندھوں سے اتارکر پہاڑی پر رکھ دیا اور یہ سوچ کر الٹے قدموں لوٹ آئے کہ اس کے گائوں کے لوگ جو یہاں سے گزرتے رہتے تھے ، جب ادھر سے گزریں گے تابوت کو لے جائیں گے کیونکہ انہوں نے اس پر لطیف الله والا لکھ دیا تھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس طرح کی چونکا دینے والی باتیں گھڑنا ثمینہ کا مشغلہ ہے۔ اسے کچھ نہ کہا اور خاموش ہو رہی ۔ اگلی بار ثمینہ ماں کے ساتھ آئی تو اس کی والدہ نے بھی باتوں باتوں میں یہی قصہ سنایا جو اس کی بیٹی چند دن قبل مجھے سنا گئی تھی ۔ تب ہی میں نے پوچھا کہ وہ تھا کون اور کہاں آیا تھا؟ اس کی ماں بولی۔ وہ ہمارے آبائی گائوں سے چند میل دور ایک پہاڑی کے ادھر سے آیا تھا، وہی اس کا گائوں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوا تھا کہ اس کے چند قریبی رشتہ دار، وراثتی زمین کی وجہ سے اس کی جان کے دشمن ہوگئے تھے کیونکہ وہ اس کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ وراثتی زمین کی دشمنی کے باعث جب رشتے داروں نے اس کو تنگ کیا تووہ سالہا سال اپنے گائوں نہیں گیا۔ ثمینہ کی والدہ سے یہ عجیب باتیں سن کر میرا دماغ پریشان رہنے لگاکہ کیا وہ واقعی دیوانہ تھا جو گوشت کو کئی کئی دن بعد کھاتا تھا جبکہ اتنی مدت میں تو کچا گوشت گل سڑ جاتا ہے اور اس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ تب ہی اس تصور سے مجھے وحشت ہونے لگتی کہ اگر وہ پرانے گوشت کو پکاتا نہیں تھا تو کھاتا کیسے ہوگا، وہ جوہلکا وزن اٹھانے کی جگہ اسے بھاری بھرکم کرکے اٹھاتا تھا تو اس میں کیا حکمت تھی؟ ایسے خیالات مسلسل میرے ذہن کو پراگندہ رکھتے تو میرے ذہن سے خود بخود فرحان کا خیال محو رہنے لگا۔
ایک دن میں اپنے شوہر کے ساتھ بازار گئی، وہاں سڑک کنارے ایک جانب ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا جو بھاری پتھر ڈھو کر ایک جانب رکھ رہا تھا، جیسے کوئی دیوار بنا رہا ہو۔ وہ اونچا، لمبا ، مضبوط بدن کا تھا۔ا گرچہ عمر ستر برس سے اوپر ہوگی لیکن سر تنا ہوا اور گردن میں جھکائو تھا اور نہ کمرمیں خم تھا۔ حیرت کی بات کہ اس کے بال بھی سفید نہ تھے بلکہ گرے یعنی سرمئی تھے۔ میرے خاوند گاڑی اسٹارٹ کرنے میں محو تھے، سو میں نے پاس جاکر اسے تجسس بھری نگاہوں سے دیکھا، تب ہی اس نے اپنی بتهیلی پھیلا کر اشارہ کیا، جیسے کہتا ہو کہ اپنی ہتھیلی پھیلائو، میں نے اپنا باتھ اس درویش کی طرف بڑھا کر ہتھیلی پھیلا دی اور اس نے اس پر پھونک مار دی، اس کے بعد وہ فوراً مڑا اورکھائی کی طرف چلا گیا اور اترائی میں گم ہو گیا۔ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ یہ عجیب و غریب واقعہ ہوا تھا۔ میں فوراً اپنی گاڑی کی طرف پلٹی، نثار اسے اسٹارٹ کرنے کے بعد اس میں بیٹھ چکے تھے اور ہارن دے رہے تھے۔ میں تمام راستہ خاموش رہی کیونکہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی جبکہ پہاڑی علاقے میں جب سردیوں کی آمد آمد ہو تو بھی موسم میں کافی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ گھر آئی بہت پریشان تھی جیسے کوئی غیر معمولی بات ہوگئی ہو۔ مجھے ثمینہ کی باتیں یاد آئیں، سوچا شاید اسی کی باتوں کا اثر ہے یا میرا وہم ، بہر حال میں نے اس واقعہ کا تذکرہ نثار سے نہیں کیا، وہ بھی کہتے کہ تمہارا واہمہ ہے۔ اگلے دن ثمینہ کو بلا بھیجا، وہ ماں کے ساتھ آ گئی۔ میں نے یہ واقعہ ان کو بتایا۔ وہ پوچھنے لگی۔ وہ آدمی کیسا تھا؟ اونچا لمبا، لحیم شحیم اور بھاری ۔ وہ کہنے لگی۔ یہ تو لطیف بابا جیسا حلیہ ہے، لیکن وہ تو مر چکا ہے، پھر وہ کیسے زندہ دکھائی دیا اور یہ بتھیلی پر پھونک مارنے والی بات…؟ پتا نہیں، میں نے گم صم ہوتے ہوئے جواب دیا، تب ہی اس کی بیٹی بولی۔ اماں تو پھر یہ اللہ والے بابا کی روح ہوگی۔ مجھے غصہ آگیا اور میں نے اسے ڈانٹا کہ چپ رہو، پہلے ہی تم نے عجیب و غریب کہانیاں سناکر مجھے کافی پریشان کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد میں بالکل بی فرحان کی یاد سے غافل ہوگئی، یہاں تک کہ میرے دل نے اسے بالکل بی فراموش کر دیا۔ میرے شوہر نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ تم چپ چپ رہنے لگی ہو، تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں؟ تب میں نے ثمینہ والی باتیں اور بابا والا واقعہ جو میرے ساتھ سڑک کنارے پیش آیا تھا ان کو بتا دیا۔ انہوں نے مجھے بہت پیار کیا، تسلی دی اور اس طرح گلے لگا لیا جیسے کسی ڈرے ہوئے بچے کو تحفظ کا احساس دلایاجاتا ہے ۔اس روز مجھے اپنی پریشانی اپنے جیون ساتھی سے کہہ کر اتنا سکون ملا کہ میں دلی طور پراپنے شوہر کی ہوکر رہ گئی اور ان سے حقیقتاً پیار کرنے لگی وہ تو پہلے ہی مجھے اپنا سب کچھ سمجھتے تھے، میں ہی ان کو اپنا نہیں رہی تھی اور خیالوں میں فرحان کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ خدا کا شکر کہ حقیقت کی دنیا میں آگئی اور حقیقی زندگی جینے لگی اور خیالی پریشانی سے نجات مل گئی۔ ایک پریشانی سے نجات تو مل گئی مگر ایک اور پریشانی آج بھی لاحق ہے کہ اگر لطیف بابا کوئی تھا اور وہ مر بھی گیا تھا تو اس جیسا بوڑھا آدمی مجھے کیوں نظر آیا؟ کیا وہ لطیف بابا ہی تھا یا اس کی روح تھی یا اس جیسا کوئی اور تھا؟ یہ ایسا سوال ہے کہ جب تک جیوں گی، یہ سوال مجھے پریشان کرتا رہے گا کیونکہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔