Monday, April 28, 2025

Meray Naseeb Ka Andhera

میری ماں بچپن می مر گئی تھی میں کمسن تھی کہ ابّا نے دوسری شادی کر لی – سوتیلی ماں کے بارے میں جو سنا تھا اس سے بھی بڑھ کر ظالم نکلی – اسکول چھڑوا دیا کیونکہ وہ خود آرام پسند تھیں بھی میرا چھوٹا تھا اس کوبھی باپ کے ساتھ زمینوں پر بھیج دیتیں – میرے لئے جب بھی کوئی رشتہ آتا اور ان کو ہمارے دگرگوں حالات کا علم ہوتا تو کہتے کہ دو کپڑوں میں کون لڑکی بیاہ کر لے جاتا ہے۔ ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں۔ رشتہ خراب کرنے میں میری سوتیلی ماں کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ہوتا تھا۔ وہ رشتہ لانے والوں کے سامنے میرے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرنے بیٹھ جاتی تھیں۔ دراصل وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میرارشتہ ددھیال میں ہو یامیری سگی ماں کے رشتہ دار مجھ کو بیاہ کر لے جائیں۔ ان کی اس چال سے ابا اور بھائی دونوں بہت پریشان رہنے لگے۔ گائوں میں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ اس روز بھائی میلے میں گیا ہوا تھا کہ وہاں اس کا ٹکرائو میرے سابقہ منگیتر ساجد سے ہو گیا۔ ساجد کے ساتھ اس کے کچھ دوست بھی تھے ۔ انہوں نے بھائی کو دیکھ کر کہا۔ دیکھو ساجد ! وہ تمہارا سالا جا رہا ہے۔ اس پر میرے بھائی کو طیش آ گیا۔ اس نے ساجد کو گریبان سے پکڑ لیا اور کہا۔ جب تم نے خود رشتہ سے انکار کیا، تم لوگوں نے خود منگنی توڑ کر رشتہ ختم کیا تواب تمہارے دوستوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھ کو تمہارا سالا کہیں ۔ یہ لفظ اب میرے لئے گالی ہے ۔ تم نے صرف اس وجہ سے میری بہن سے شادی سے انکار کیا کہ جہیز چور لے گئے تھے۔ تم کس قدرلالچی ہو۔ اس پر ساجد بولا۔ تم لوگ جہیز سے بچناچاہتے تھے ،اسی وجہ سے بہانہ کیا تھا کہ جہیز چور لے گئے ہیں۔ ہم خوب سمجھتے ہیں۔ تم جھوٹی عزت بناۓ رکھنے کو ایسی باتیں پھیلاتے ہو۔ تمہاری بہن میں ہی کوئی کمی ہے تبھی تو اب تک اس کارشتہ نہیں ہوا۔ یہ سنتے ہی سلیم غصے میں بھڑک اٹھا۔ اس نے ساجد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ لوگ تماشادیکھ رہے تھے ۔دونوں گھتم گتھا ہو گئے تھے۔ایک بار ساجد کا دائو چل گیا ، اس نے اینٹ اٹھا کر میرے بھائی کے سر پر دے ماری جس سے سلیم زخمی ہو گیا۔ لوگ اس کو اٹھا کر اسپتال لے گئے۔ اپنے بھائی کو زخمی حالت میں دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں ، اور میں رونے لگی۔اس کا سر خون سے بھر اہوا تھا۔ مرہم پٹی کروا کر بھائی کو گھر لے آۓ۔ کچھ دن وہ چار پائی پر پڑا رہا اور رفتہ رفتہ ٹھیک ہوا۔ اس واقعہ کے بعد سلیم کا دل ساجد کے لئے غصے سے بھرارہتا تھا۔ وہ اس وجہ سے بھی پریشان رہتا تھا کہ چور میرا جہیز چرا کر لے گئے تھے ، جس کے سبب منگنی ٹوٹی اور میرے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے۔ بھائی اور ابو نے محنت مشقت کر کے بڑی دقتوں سے یہ جہیز بنایا تھا، جانے وہ کون گھر کا بھیدی تھا جس نے لنکا ڈھائی اور اس کی مخبری پر کوئی چور بن کر آیا اور ہماری خوشیاں لوٹ کر لے گیا۔ سلیم اب ہر وقت ابا سے کہتا کہ میں دن رات محنت کروں گا اور جہیز دوبارہ سے بنائوں گا۔ بھائی کو پریشان دیکھ کر میں کہتی بھائی جی تم ہر گز میری فکر میں پر یشان نہ رہا کرو۔ میں ایسے ہی جی لوں گی۔ یہ سن کر وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتا۔ کہتا۔ بھائی تو بہنوں کامان ہوتے ہیں ۔ میں تمہارا یہ مان پورا کروں گا۔ پہلے سے بھی اچھا جہیز بنائوں گا۔ کیا ہواجو مجھ سے تین سال بڑی ہو ، مجھے چھوٹا بھائی نہ سمجھو۔ میری ہمت بہت بڑی ہے۔ میں خود کو فروخت کر کے بھی تمہارا جہیز بنادوں گا تا کہ تمہاری شادی اچھے گھر ہو سکے۔ ماں، دراصل مجھ کو اتنا پریشان رکھتی تھی کہ میں گھر میں بائولی سی پھرا کرتی۔ صبح چھ بجے سے رات بارہ بجے تک وہ مجھ پر حکم چلاتی اور ایک منٹ کو بھی بیٹھنے نہ دیتی۔ ایک دن ماں کے دل میں خیال آیا کہ انڈے خوبصورتی دو چند کر تے ہیں۔ مجھ سے کہا کہ مجھے انڈے ابال کر کھانے ہیں ، خالہ کے گھر سے جا کر انڈے لے آ۔ اگر اس کے پاس موجود نہ ہوں تو کسی اور گھر سے لے آنا، جہاں مرغیاں ہیں لیکن لانا ضر ور اور بغیر انڈے لاۓ گھر میں داخل مت ہونا ۔ میں انڈے لینے گھر سے نکلی تو گائوں کا ایک بد معاش میرے پیچھے لگ گیا۔ یہ گائوں کا بد معاش ترین آدمی تھا جس کو تھانے دار کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہ گائوں کی ہر لڑ کی پر میلی نظر رکھتا تھا۔ ادھر کم بخت انڈے تھے کہ کسی گھر سے نہیں مل رہے تھے ،ادھر جگو قماش پیچھا کر رہا تھا۔ گائوں کے آخری گھر میں گھسنے لگی تو خیال آیا کہ اب تو جگو نے میرا تعاقب ختم کر دیا ہو گا لیکن وہ دیوار کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ شام سر پر تھی اور مجھے گھر جانے کی جلدی تھی ، مگر صرف دو ہی انڈے مل سکے تھے کیونکہ یہ وہ موسم تھاجب مرغیوں کو انڈوں پر بٹھا یاجاتا تھا تا کہ بچے نکال سکیں۔اکثر گھروں میں انہوں نے اپنی مرغیاں انڈوں پر بٹھار کھی تھیں۔ میں دوانڈے پلو میں ڈال کر جلدی سے اس آخری گھر سے نکلی۔ خبر نہ تھی کہ جگودیوار کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے ، اس نے دوڑ کر مجھ کو پکڑ لیا۔ تھانے دار کا وہ رشتہ دار تھا۔ بھلا اس کو کس کا خوف تھا۔ قریب ہی اس کا ڈیرہ تھا، وہ مجھ کو ڈیرہ پر لے آیا۔ اس نے میر امنہ اپنے مضبوط ہاتھ سے دبا رکھا تھا۔ ڈیرے پر میں نے شور مچا یاتو میرا بھائی جو قریب ہی زمیندار کے کھیتوں میں پانی لگا رہا تھا، دوڑ کر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ اس نے وار کر کے جگو کو شدید زخمی کر ڈالا اور بعد میں اس کی موت ہو گئی۔ بھائی سلیم کو عمر قید ہو گئی اور میرا باپ اس دکھ کی تاب نہ لاتے ہوۓ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی اور ادھر سوتیلی ماں کو ظلم ڈھانے کا وسیع موقع ہاتھ آگیا۔ اب کون تھا جو مجھ کو اس کے ستم گر ہاتھوں سے بچاتا۔ گائوں میں بن قصور بد نام ہو گئی تھی اوراس بدنامی میں میری ماں گو ہر کاہی ہاتھ تھا، جو طرح طرح کے قصے میرے بارے میں گھڑ کر گائوں والوں کو سناتی ایک دن تنور پر روٹیاں لگاتے ہوئے مجھے سخت پیاس لگی۔ میں نے گھڑے سے پانی نکال کر پیا۔ اتنے میں ساری روٹیاں جل گئیں۔ ماں کو روٹی جلنے کی بو آئی ، وہ دوڑی آئی۔ جب دیکھا کہ چار روٹیاں ایک ساتھ جل گئی ہیں تو اس نے پاس پڑی لکڑی اٹھا کر مجھ کو پیٹنا شروع کر دیا۔ بولی۔ کیا یہ آٹا تیرے خصم کے گھر سے آتا ہے جو انہیں بے دردی سے ساری روٹیاں جلادی ہیں۔ جاد فع ہو جا اور شہر میں جا کر ڈوب مر ۔ تو ہی غلط تھی جو جگو نے تجھ کو اٹھا یا ورنہ کون ایسے کسی کی بیٹی کو کھینچ کر ڈیرے لے جاتا ہے۔ تیرے کارن میرا سہاگ اور تیرا بھائی جان سے چلے گئے۔ اب نکل میرے گھر سے اور لوٹ کر ہر گز ادھر مت آنا۔ جب میں گھر سے نکلی ، کڑ کڑاتی دھوپ کا وقت اور ہو کا عالم تھا۔ ۔ جانور بھی زبانیں نکالے گرمی سے پنا ما نگتے تھے ۔ میں نے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ لیا۔ ماں نے قریب آکر مجھ کو باہر گلی میں دھکادیا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ تھوڑی دیر تو میں دروازے پر کھڑی سوچتی رہی کہ کہاں جائوں۔ کئی بار در وازہ دھکے دے دے کر ہلایا، مگر اماں گوہر ان کا غصہ عروج پر تھا۔ وہ ٹھنڈا ہوا اور اٹھ کر دروازہ کھولا۔ تبھی اس دن میرے دل کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا اور میں نے بابل کے گھر کی طرف سے پیٹھ کر لی کیونکہ اس چار دیواری کے اندر سوتیلی ماں ایک زخمی ناگن کی طرح پھنکار رہی تھی اور مجھ سے پیار کرنے والے اس پناہ گاہ سے دور جا چکے تھے۔ میں تھکے تھکے قدموں سے آڑھی ترچھی اور لمبی پگڈنڈی پر چلنے گئی۔ پسینے میں نہا جانے کی وجہ سے دھوپ کا احساس کم ہو گیا تھا۔ کچھ ہوا لگی تو گرمی میں راحت ملنے لگی۔ درختوں کے ساتھ ساتھ چلتی ایسی جگہ آگئی جہاں سامنےنہر بہ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ جینے مجھے کا کوئی حق نہیں، مجھے ڈوب مرنا چاہیے۔ میں منحوس ہوں۔ واقعی میری وجہ سے باپ اور بھائی گئے اور میں در بدر ہوئی۔ گائوں میں کسی رشتہ دار کادر کھٹکھٹاتی ، جبکہ مشہور ہو گیا تھا کہ اس کو جگو اٹھا لے گیا تھا اپنے ڈیرے پر ، نہ جانے اس کے ساتھ کیا ہوا کہ اس کارن سلیم نے عمر قید پائی۔اسی سبب کسی نے اپنادر مجھ پر نہ کھولنا تھا۔ جانتی تھی سب رشتہ داروں کو، سو میں نے یہ سب سوچ کر نہر میں چھلانگ لگادی۔ گائوں کے محکمہ جنگلات کے آفیسر کا بیٹا جو امتحان کی تیاری کر رہا تھا، ان دنوں شہر سے گائوں آیا ہوا تھا۔ اس کی رہائش گاہ شہر کے قریب تھی۔ اس کا نام حسن تھااور شہر کنارے آ نکلنا اس کا مشغلہ تھا۔ آج بھی دو پہر کو اسے جانے کیا سوجھی جو گھر سے نکل کر شہر کی طرف آیا۔ یہ سیر کا وقت نہ تھا۔ شاید قدرت نے مجھے کو بچانا تھا جو بھری دوپہر میں شہر کی طرف جانے کا خیال اس کے دل میں ڈال دیا۔ گرمی کی دوپہر میں تو ہر سو ہو کا عالم ہوتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ ایک لڑکی نے نہر میں چھلانگ لگادی ہے ۔ پہلی نظر میں سمجھا کہ شاید مجھ کو تیر نا آتا ہو گا ور نہ ایسے کون اتنی بڑی نہر میں چھلانگ لگاتا ہے۔ اگلے ہی لمحے اس کو اندازہ ہو گیا کہ مجھ کو تیر نانہیں آتا، مجھ کوڈبکیاں لگاتے دیکھ کر اس نے نہر میں چھلانگ لگادی۔ وہ بہت اچھا تیراک تھا۔ مجھ کو مرنے سے بچا لیا۔ اگر حسن اچھا تیراک نہ ہوتاتو میراڈوب جانا یقینی تھا کیونکہ تیر نا تو دور کی بات ، میں تو پانی سے بھی ڈرتی تھی۔ وہ کسی صورت مجھے کنارے لایا۔ اتنے میں اس کا ڈرائیور آ گیا۔ ان دونوں نے پہلے میرے پیٹ سے پانی نکالا پھر مجھے کو اسپتال لے آئے۔ اس وقت میں بے ہوش تھی۔ اپنے گھر لا کر مجھ سے احوال پوچھا۔ میں نے صاف صاف سوتیلی ماں کے ہاتھوں جو مجھ پر بیتی تھی ،ان کو بتادیا۔ حسن کی ماں شہر میں اور اس کے والد نوکروں کے ساتھ یہاں رہتے تھے۔ انہوں نے اس کی ماں کو بلوا لیا۔ اس بی بی نے دل کے کانوں سے میری روداد سنی، جب میں احوال بتارہی تھی ، ہچکیوں سے رو بھی رہی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس واقعہ کی گونج گائوں میں بھی سنائی دی مگر میرا کوئی وارث بنے کو تیار نہ ہوا۔ ایک سال تک حسن کی امی کے پاس رہنے کے بعد انہوں نے پرکھ لیا کہ میں ایک اچھی فطرت کی لڑکی ہوں۔ میں نے اس عرصہ میں آنٹی کو بہت آرام بھی دیا تھا۔ میری خدمت گزاری نے ان کا دل جیت لیا۔ انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے مجھ کو بہو بنانے کا ارادہ کر لیا اور حسن نے بھی اعتراض نہ کیا۔ یوں بے سہارالٹر کی کواللہ تعالی نے ایک خوشحال گھرانے کی بہو بنا کر وہ خوشیاں دیں جس کا میں نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ میرے نصیب میں ایک بڑے گھر کی بہو بنا اور راج کرنا لکھا تھا۔ ۔ سچ ہے جب ظلم حد سے بڑھ جاۓ تو سکون کی صبح بھی ضر ور طلوع ہوتی ہے۔ میری خوش قسمتی کا سورج میرے نصیب کے اندھیرے ہی سے نکلا اور دیکھتے دیکھتے ، میری زندگی منور ہو گئی۔ میرے تو نصیب اچھے تھے جو حسن میری زندگی میں فرشتہ بن کر آ گیا – ورنہ تو ساری زندگی پچھتاتے گزرتی اور میں حرام موت بھی مرتی –

Latest Posts

Related POSTS