Thursday, October 10, 2024

Meri Barbadi Ka Noha

اپنی بد نامی کا سہرا میرے ہی سر ہے نہ میں نادانی میں محبت کرتی اور نہ اپنا سب کچھ لٹا کر اپنی زندگی برباد کرتی -یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب کافی دنوں سے ہمارے گھر کے سامنے والا مکان خالی تھا اور مالک مکان کسی مختصر فیملی کی تلاش میں تھا۔ جلد ہی اس کو کرائے دار مل گیا۔ یہ کرائے دار رؤف نامی نوجوان لڑکا تھا۔ وہ نزد یکی گائوں سے شہر پڑھنے کے لئے آیا تھا۔ وہ سارا دن باہر رہتا اور رات کو گھر آکر پڑھائی میں مشغول ہو جاتا۔ جلد ہی پاس پڑوس والوں نے محسوس کیا کہ اس کی صحت خراب ہوتی جاتی ہے ۔ جب وہ گائوں سے آیا تھا، سرخ و سفید اور صحت مند تھا، بعد میں رنگت پیلی پڑنے لگی اور دبلا بھی ہوتا گیا۔ ایک روز والد صاحب کو گلی میں ملا۔ انہوں نے پوچھا۔ اسد بیٹے ! تمہیں کیا ہواہے ؟ کیا شہر کا پانی راس نہیں آیا جوروز بہ روز کمزور ہوتے جاتے ہو۔ انکل ! در اصل میں صبح شام ہوٹل سے کھانالے کر کھاتا ہوں جبکہ مجھ کو باہر کے کھانے کی عادت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیٹ خراب رہتا ہے ۔ والد صاحب بولے ۔اگر تم چاہو تو کھانا ہمارے گھر سے کھا لیا کرو۔ طالب علموں کا بھی معاشرے پر حق ہوتا ہے۔ کھانا توروز ہی پکتا ہے۔ایک آدمی کا اس میں سے نکل جاۓ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے انکل ، جب ضرورت ہوئی بتادوں گا۔ اس گفتگو کے اگلے روز ہی معلوم ہوا کہ اسد اسپتال میں داخل ہے۔ کسی غیر معیاری ہوٹل سے کھانا کھایا تو فوڈ پوائزننگ ہو گئی ۔ کالج میں طبیعت خراب ہو گئی۔ کالج والوں ہی اسپتال لے گئے۔ چپڑاسی کو پیغام دے کر اسد نے ہمارے گھر بھجوایا تھا کہ میں فلاں اسپتال میں داخل ہوں۔میرے گھر سے اگر کوئی آ جاۓ تو ان کو بتادیجئے گا۔ شاید انہی دنوں اس کے گھر سے اس کا بھائی یا کوئی رشتہ دار آنے والا تھا تبھی اس نے یہ سند یہ میرے والد کو بھیجا تھا۔ والد صاحب، اسد کی عیادت کو اسپتال گئے ۔ وہ وہاں پانچ دن داخل رہا۔ اس دن کے بعد سے اس کے لئے ایک ٹائم کا کھانا ہمارے گھر سے جاتا۔ جب وہ کالج سے آ جاتاتو بیل بجاد بتا، ملازم اس کو کھانادے آتا۔ اسد نے بہت اصرار کیا کہ وہ کھانے کی رقم ہر ماہ دیا کرے گا لیکن والد صاحب نے منع کر دیا کہ کوئی بات نہیں ، ہمسایوں کا بھی حق ہوتا ہے۔ کچھ دن بعد ہمارا ملازم چھٹی پر چلا گیا۔ والد صاحب تو دکان پر ہوتے تھے لہذا اب اسد کو کھانا پہنچانے کا مسئلہ تھا۔ میرابھائی دبئی میں تھا اور گھر میں ایک چھوٹی بہن تھی جو مجھ سے صرف دو سال چھوٹی تھی ۔اس نے تو صاف منع کر دیا کہ وہ کھانا پہنچانے اسد کے گھر نہیں جاۓ گی اور والد ہ نہیں چاہتی تھیں کہ اسد روزانہ ہمارے گھر میں کھانا کھانے آۓ کیونکہ اس طرح لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع مل جاتا۔ اب اس کا یہی حال تھا کہ جب وہ کالج سے آتا، بیل دے کر دروازے پر کھڑا رہتا اور کھانالے کر اپنے گھر چلا جاتا۔ کھانا کھانے کے بعد دوبارہ بر تن دینے آتا، بیل دیتا اور ہم برتن لے لیتے۔ بظاہر یہ آسان کام مگر خاصا مشکل تھا۔ کبھی امی فارغ نہ ہو تیں تو یہ فر ض مجھ کو ہی انجام دینا پڑتا۔ ایک روز وہ کھانا لینے نہ آیا، اگلے روز بھی نہ آیا امی برقع اوڑھ اس کے دروازے پر گئیں۔ بیل دی وہ باہر آیا تو پوچھا۔ بیٹا ! کھانا کیوں نہیں لے رہے ؟ کہنے لگا۔ خالہ جی ! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ بخار آ رہا ہے اور مجھ کو اسہال کی بھی تکلیف ہو گئی ہے ۔ اچھا بیٹا ! تو میں کھچڑی بنوا کر بھیج دیتی ہوں۔امی نے مجھ سے کہا کہ کھچڑی بنادو۔ میں نے کھچڑی تیار کر لی تو خالہ کا فون آ گیا کہ ان کے شوہر کی طبیعت خراب ہے اور ان کو اسپتال لے گئے ہیں۔ فور ا آ جائو۔ والدہ نے بر قع سر پر ڈالا اور خالہ کے گھر جانے نکل گئیں۔ان کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ اسد کو کھچڑی دینی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بالآخر میں نے ہی ہمت کی۔ چادر لپیٹ میں کھچڑی لے اس کے دروازے پر پہنچی۔ بیل دی، کوئی جواب نہ آیاسوچا شاید اسد کی طبیعت زیادہ خراب ہے ، سو ہمت کر کے اس کے گھر کے اندر چلی گئی کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ دبے قدموں ڈرتی ڈرتی آگے بڑھی۔ وہ کمرے میں نہ تھا۔ واش روم سے پانی گرنے کی آواز سنی۔ کھچڑی اس کے کمرے میں پڑی ٹیبل پر رکھ کر میں الٹے قدموںلوٹی تو وہ واش روم سے نکل آیا۔ کہنے لگا۔ آپ کو زحمت کرناپڑی شکر یہ ۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں ،اماں کو خالہ کے یہاں جانا پڑ گیا تبھی میں آگئی۔اچھا برتن لیتی جایئے۔اس نے پلیٹ میں کھچڑی نکالی برتن خالی کر دیے۔ میں نے برتن اٹھائے اور گھر کو آگئی۔اس پہلی جرات کے بعد میری جھجک ختم ہو گئی۔ اب جب بھی ہیں فارغ ہوتی ، دروازے سے جھانکتی ، اگر کوئی گلی میں ادھر ادھر نہ ہوتاتو تیزی سے اس کے گھر کے اندر چلی جاتی اور کھانادے کر آ جاتی۔ شروع میں ہم سلام و دعا کے سوا اور کوئی بات نہ کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ حجاب کم ہونے لگا اور میں ٹھہر کر اس کے ساتھ تھوڑی دیر کوئی ادھر ادھر کی باتیں کر لیا کرتی تھی۔ ابھی تک محلے والوں کو علم نہ تھا کہ میں اسے کھانا پہنچاتی ہوں۔ ایک روز بد قسمتی سے محلے کی ایک عورت نے مجھ کو اسد کے گھر سے نکلتے دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا، بات منہ سے نکلی اور کو ٹھوں چڑھی۔ وہ ایک لگائی بجھائی کرنے والی عورت تھی ، ہر طرف اس بات کو پھیلاد یا اور یوں سارے محلے میں بدنام ہو گئی۔ ماں نے اسکول سے اٹھالیا اور اس ڈر سے گھر سے میرا باہر نکلنا بند کرادیا کہ کہیں اس معاملے کی خبر میرے والد کو نہ ہو جاۓ۔اب تک تو ہمارے درمیان کوئی ایسا ویسا معاملہ نہ تھالیکن پابندی لگی تو نجانے کیوں دل کو بے کلی رہنے لگی۔ محسوس ہوا کہ میرے دل میں اس کی جگہ تھی جو اب اس کی جدائی مجھے تڑپانے لگی تھی۔ انسان پر پابندیاں لگ جائیں تو کرب کی شدت بھی دو چند ہو جاتی ہے ۔اب میں اس سے ملنے کی نئی نئی ترکیبیں سوچنے لگی۔ایک بار خط لکھ کر اس کے گھر کے اندر پھینک دیا جس میں لکھا تھا کہ گلی میں نکل کر اپنی صورت دکھادیا کریں کہیں تو پل بھر کو ملو۔ اس نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ مجھ کو اور زیادہ بے قراری لگی۔ ایک اور خط لکھ کر دروازے سے جھانکا۔ دیکھا کہ گلی میں کوئی نہیں ہے تو تیز قدموں سے اس کے گھر کی طرف گئی۔اس کے مکان کی وہ کھڑ کی جو صحن میں کھلتی تھی، وہ کھلی ہوئی تھی۔ ہاتھ آگے کر کے خط صحن میں پھینک کر الٹے قدموں گھر میں گھس آئی۔ اب اسد کو یقین ہو گیا کہ جب تک وہ مجھ کو جواب نہ دے گا، میں اسی طرح احمقانہ حرکتیں کرتی رہوں گی۔ سواگلے روز اس نے دو پہر کے بعد ہماری بیل بجائی۔ امی نماز پڑھ رہی تھیں ، میری چھٹی حس نے کہا، ہو نہ ہو ہے۔ دبے قدموں دروازے پر پہنچی، جھانکا تو وہی تھا۔ کہنے لگا۔ میرے مکان میں میرے کالج کے دوست اور کلاس فیلو بھی آجاتے ہیں لہذا اب تم میرے گھر میں مت آنا۔ تو پھر گلی میں ہی میری بات سن لو۔ آخر تم نے مجھ سے کیا بات کرنی ہے ،ابھی کہہ دو۔ ابھی ابا کے آنے کا وقت ہو رہا ہے ، وہ اچانک آگئے تو ؟ تم مجھ سے دریا پر ملو۔ میری سہیلی کا گھر وہاں قریب ہے ، میں اس کے گھر کا کہہ کر جائوں گی۔ دن کو تو مجھے پڑھائی کرناہوتی ہے ، کل سے امتحان شروع ہیں۔ اچھا تو پھر رات کو مل لو۔ رات کو… ! اس نے حیرانی سے کہا۔ ہاں ! در یاد و چار قدم پر تو ہے۔ رات کوامی ،ا با جلدی سو جاتے ہیں ، میں اندھیرے میں نکل کر دریا پر آ جائوں گی۔ دیکھو آج رات ضرور آنا۔ ایسانہ ہو کہ تم نہ آئو اور میں وہاں تمہارے انتظار میں رات بھر بیٹھی رہ جائوں۔ ایسا کہہ کر میں نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔ اب رکوف کے پاس اس کے سوا چارہ نہ رہ گیا کہ وہ رات کو دریا کنارے جا کر بیٹھ جاۓ اور میرا انتظار کرے۔اتفاق کہ اس روز اماں اور اباد یر تک باتیں کرتے رہے اور کہیں بارہ بجے تک سوۓ۔ جونہی وہ سوۓ ، میں نے دبے قدموں محن عبور کیا اور آہستہ سے کنڈی کھول کلی میں جھانکا۔ آسمان پر ستاروں کی مدھم روشنی تھی۔ گلی سنسان تھی اور وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ جانے دل کی گلی کا کیاز ور اور جذ بہ ہوتا ہے کہ انسان نہ آندھی دیکھتا ہے اور نہ طوفان ،انسانوں کا خوف رہتا ہے اور نہ بھوت پریت کا ! تیز تیز قدم اٹھاتی تقر یبا سات منٹ میں دریا کنارے جا پہنچی ۔اگر چہ مجھے آنے میں دیر ہو گئی تھی تو کبھی یقین تھا کہ وہ وہاں ضر ورہو گا۔ ہزاروں وسوسوں کا خوف دل پر اٹھاۓ جب میں دریا تک پہنچی تو دیکھا کہ وہاں وہ نہ تھا تھوڑ اسا اور آگے بڑھی تو کوئی بیٹھا نظر آ گیا۔ میں سمجھی اسد ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے ۔ جب ذرا اور آگے گئی تو کیادیکھا کہ وہاں وہ تو نہیں، کوئی اور بیٹھا ہے۔ میں ڈر کر واپس پلٹنے لگی تو وہ بولا۔ ڈرو نہیں بہنا، مجھے اسد نے بھیجا ہے۔ اس کو سخت بخار ہے ، وہ میرے گھر میں لیٹا ہے ، تم کو بلا رہا ہے ۔ میں نے کہا۔ رات آدھی ہو چکی ہے ،اب تمہارے گھر گئی تو واپس اپنے گھر کب پہنچو گی ؟ میر اگر زیادہ دور نہیں ہے اب آگئی ہو تو اس کی بات سن لو۔ یہ لواس نے پر چہ لکھ کر مجھے دیا ہے ، خود پڑھ لو، اگر میری بات کا یقین نہیں ہے ۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پر چپے پر ڈالی۔ میں نے پڑھا۔ لکھا تھا، مجھ کو شدید بخار ہے ، دو گھڑی دیکھنے کو آ جائو۔ انداز تحریر اسی کا تھا۔ میں اس کی تکلیف کا سوچ کر تڑپ اٹھی۔ بغیر سوچے سمجھے اس کے دوست کے پیچھے پیچھے چل دی۔ ذرا آگے آۓ تو اسکوٹر نظر آیا۔ وہ بولا۔ اس پر بیٹھ جائو ، بس دومنٹ میں پہنچ جائیں گے ، تم کو واپس بھی اسی سواری پر لے آئوں گا۔ نہ جانے کدھر کس راستے وہ مجھے لے چلا۔ اس وقت میری مت ماری گئی تھی۔ اسد کے بخار کا سن کر اس کے پیچھے چل دی حالانکہ مجھے واپس گھر کو پلٹ جانا چاہئے تھا۔ اسد کی سوچوں میں ایسی ڈوبی ہوئی تھی کہ اندازہ نہ ہوا کتنی دور چلی آئی ہوں۔ جب ایک مکان کے سامنے اسکوٹر روک کر اس نے اترنے کا کہا تو مجھے ہوش آیا۔ اب میں کلی طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی۔ مکان کے اندر پہلا قدم رکھتے ہی دل نے کہا کہ تم نے یہاں آ کر بڑی غلطی کی ہے ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ آدھی رات کو میں ایک انجانے گھر میں داخل ہو گئی۔ تصور میں اسد کا پیار چہرہ تھا اور کچھ سوچ نہ تھی۔ جب اندرگئی وہاں بستر ضرور بچھا تھا مگر اس پر اسد نہ تھا۔ ادھر ادھر دیکھا شاید دوسرے کمرے میں ہو۔ ابھی میں جائزہ لے رہی تھی کہ دروازہ بند کرنے کی آواز آئی۔ وہ شخص جو مجھے لایا تھا، دروازہ بند کر چکا تھا۔ اتنے میں دوسرے کمرے سے دواور آدمی بھی آگئے مگر ان میں کوئی اسد نہ تھا۔ میں نے پوچھا۔ اسد کہاں ہے ؟ان میں سے ایک بولا۔اسے بھول جائو ، وہ دریا میں ڈوب چکا ہے ،اب ہم ہیں تمہارے اسد ۔ اس کے بعد کیا کہوں ، قلم تو خون کے آنسوئوں میں ڈبو کر لکھوں تو سارے بدن کا لہو کام آ جاۓ گا۔ میں کتنی بے بس لڑ کی اور یہ انسان نمادرندے…جو قدم بنا سوچے سمجھے اٹھایا، وہ مجھے کس راہ لے آیا۔ رات سر پر سے ایسے گزری جیسے ڈائن ہو ، ہزاروں گدھ اور چیلیں چلاتی ہوئی کانوں میں محسوس ہورہی تھیں۔ صبح ہوئی بھی تو کتنی سیاہیاں سمٹ کر میرے دامن میں لے آئی ،اجا الا تو پھر ہواہی نہیں۔ میں نے اگر ایک غلطی کر لی تھی تو دوسری نہیں کرنی تھی مگر اگلی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ ابا کے خوف سے صبح گھر پہنچنے کی کوئی تدبیر نہ کی – حالانکہ میں چاہتی تو صبح گھر چلی جاتی۔ جو ہو تا سو ہوتا، بابل کی چھت سے تو نہ جاتی مگر میں تو وہیں بیٹھی روتی رہی۔ اسد کو کوستی رہی کہ اس نے یہ سب کچھ میرے ساتھ جان بوجھ کر کیا تھا یاوہ خود کسی کا شکار ہو گیا تھا۔ بھولپن سے اپنے کسی دوست کو اپناراز دار بنا کر ان کو موقع فراہم کیا تھا۔ یہ عقدہ تو کبھی کھل ہی نہ سکا۔ گھر جاتی تو یہ عقدہ کھلتا لیکن گھر کس منہ سے جاتی ، میری حالت ،میری بر بادی کا نوحہ تھی، بھلا کون مجھے قبول کرتا۔ شاید ابا جان مجھ کو دیکھتے ہی شوٹ کر دیتے۔ دو پہر تک میں روتی رہی۔ وہ لوگ گھر کو تالا گا کر چلے گئے۔ میں نے پاس پڑوس میں جھانکا اور نہ شور مچایا۔ یہی جی چاہا کہ اپنی بد نامی کا سہراگانے سے بہتر ہے کہ یہیں پیاسی دفن ہو جائوں۔ شام کو وہ لوگ آگئے۔ کہا کہ یہاں رکناٹھیک نہیں، کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی ہے۔ ان کے ہتھے چڑھ گئے تو اخباروں میں تصویر آجاۓ گی ، بہتر ہے نکل چلو۔ انہوں نے نہ تو مجھے اسد تک پہنچایا اور نہ میرے گھر تک ، بلکہ ایک کار میں لاہور لے آۓ اور یہاں شاہی محلے میں ایک عورت کے گھر پر چھوڑ کر چلے گئے۔اس عورت نے مجھے ولا ساد یا۔ وہ کہتی کہ مجھے ماں سمجھو مگر وہاں نہیں، ماں کے نام پر دھبہ تھی۔ وہ مجھے ہیرا کہ کر متعارف کراتی تھی۔ نجانے کب تک یہ ہیرا اس گندی جگہ پر بکتا کہ ایک روز ایک شخص جو وہاں اپنادل خوش کرنے آیا تھا۔ میں نے اسے اپنا قصہ سنا کر التجا کی کہ مجھ کو میرے والد ین تک پہنچادو، بے شک وہ مجھے شوٹ کر دیں ، اس جگہ رہنے سے تو باپ کے ہاتھوں مر جانا بہتر ہے۔ اس آدمی کو ترس آیا اور اس نے مجھے میرے گھر تک پہنچادیا وہاں سب بدل چکا تھا ماں میری یاد میں رو رو کر اندھی ہو چکی تھی باپ یہ بے عزتی سہ نہ سکا اور دنیا سے ہی رخصت ہو گیا بھائی نے دروازہ تو کھولا لیکن کوئی بھی تعلق رکھنے سے انکار کر دیا – ووہی آدمی مجھے واپس اپنے ساتھ لے آیا – میرے سے نکاح کیا اور میں اب اس کی بچے کی ماں بننے والی ہوں پر زندگی میں ایک غلطی مجھے گناہ کی ایک ایسی گار میں لے گئی جہاں صرف دلدل ہے دلدل تھی مجھے میرے شوہر نے کوئی بھی طعنہ نہیں دیا لیکن ہر دم یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کے یہ میرا آخری ٹھکانہ ہ بھی کہ نہیں ؟

Latest Posts

Related POSTS