ابے یار تو ابھی تک بیٹھا ہوا ہے تیارنہیں ہوا۔ با سط اور سہیل نے ایک دم سے اس پر دھاوا بول دیا تھا اسکن تو خیر ٹھیک ہے ایک دم سے لشلش کرتی ہوئی گاڑی پر بھی گلاب کے پھول لدے ہیں وہی تیری پسندیدہ کلیاں دیکھنا یار بھابھی خوش ہو جاۓ گی ۔ باسط اس کا پکا یار تھا تو سہیل جگری دوست کہیں کوئی کی تو نہیں تھی پر سہرا باندھے ڈر بھی رہا تھا۔۔ خوشی بھی تھی جیب میں انگوٹی بھی چھپا رکھی تھی بہت ساری با تیں بھی سوچ رکھی تھیں مگر دل کو ایک دھڑ کا سا بھی تھا کہ کہیں روشانہ بھابھی اور اکرم بھائی والا حال نہ ہو جائے ۔ اکرم بھائی کو اس نے ہمیشہ غصے میں ہی دیکھا تھانہ ڈھنگ سے کسی سے بات کی نہ کسی دوسرے کی سنی اور پھر روشانہ بھابھی کو لے کر ان کے میکے اور اپنے سسرال جا بسے ۔اب بھی کبھار ہی ان کی مسکین شکل دکھائی دیا کرتی تھی۔ وہ غصہ ورعب داب سب ہوا ہوۓ اور وہ ایک عام کی شکل ہو کر رہ گئے تھے۔ ” کہیں تو بھی صرف بھابھی کا ہی نہ ہوکر رہ جانا آنٹی اور ماریہ کا بھی خیال رکھنا ہے تجھے ۔ باسط بے لاگ بولا تھا۔ گھر کے سارےقصے سے واقف تھا۔ ماریہ ا بھی سکینڈ ایئر میں تھی ماریہ کا کوئی قصور نہیں تھا مگر امی نے بھی روشانہ بھابھی کے ساتھ بنا کر رکھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی تھی۔ گلاب کے تروتازہ پھولوں کی طرح اس کا دل بھی کسی کی چاہت سے بھرے پیالے جیسا تھا مگر ساتھ سائے کی طرح ایک خوف بھی تھا کہ پتا نہیں اسے اس کی مجبوریوں اور محبتوں سمیت قبول کرتی بھی ہے کہ نہیں گزارے لائق آمدنی چھوٹا سا گھر وہ تو کراۓ کا گھر بھی افورڈ نہیں کر سکتا لینی امی اور ماریہ کو علیحدہ اور صہبا کو علیحدہ دال راشن خرید کر نہیں دے سکتا۔ یہ زندگی کا کون سا موڑ ہے خوب صورت پھولوں بھرا خوشبو دار کہ کانٹوں بھرا جواس کے تھکے پیروں کو زخمی ہی نہ کر ڈالے کمرے میں مد ہم لائٹ روشن تھی ۔ سارے کمرے میں گلاب کے پھول بکھرے پڑے تھے اس کے ارمانوں کی طرح فرش پر پھولوں کا ہی فرش بچھا تھا ۔ روشن قندیلیں خوشبوؤں اور آرزؤں میں ذرا سا بھی فرق نہیں مہکنے پر آئیں تو سونے بھی نہ دیں اور جو اگر پوری نہ ہوں تو مجھا کر دل کے کسی پوشید ہ خانے میں جا بسیں ۔ غائب ہو جانے کا پتا بھی نہ چلے۔ پھول دار سہرا اس نے سر پر رکھا اور باہر کی دنیا دیکھنے کو نکل پڑا کہ جب وہ سہرا سر سےہٹا ئے گا تب دنیا اس کی بدل چکی ہو گی وہ ایک نئی زندگی کی شروعات کرے گا کیا پتا اس میں غم نہ ہوں ۔ وہ اپنی لمبی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہہ سکے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ یہی سوچ کر اس کی نظریں باسط سہیل اور جمشید پر جا ٹکیں بہت سارے لوگ تھے جو بہت اچھا ناچ رہے تھے ۔ باقی تو ساری زندگی اسے اکیلے ہی ناچنا تھا۔ کار کے اندر بھی میوزک چوائس کی داد دینا پڑے گی۔ ایک سے ایک محبت بھرا گیت کچھ اکساتے ہوۓ کچھ لچاتے ہوئے ۔ امی بھی خوش تھیں انہیں بھی صہبا اور احسن سے بہت امید یں تھیں البتہ ماریہ کی تیاری اس وقت عروج پرتھی ۔ وہ آنے والے وقت کی خوب صورتیوں بدصورتیوں سے بے خبر ہلا گلا کرنے میں مصروف تھی۔ اس کی سہیلیوں کا پورا جھنڈ اس کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا تھا یا اللہ سب ایسا ہی خوشگوار اور حسین رہے۔ سفر تھوڑ اسا تھا جلد ہی کٹ بھی گیا۔ وہ نیچے اترا اور ایک نئی سرزمین پر قدم رکھ دیا سامنے ہی صہبا کا گھرتھا صبا مجھے تم سے محبت ہے ۔ اس نے صہبا کی تصویر دیکھ کر پہلے ہی روز کہہ دیا تھا دیکھی نہ بھالی گوری ہے یا کالی اس کے دوستوں نے تو اس کی مسکراہٹ پر بھی پورا گا نا بنا ڈالا تھا۔ اب بندہ مسکرائے بھی ناں ۔ اب وہ مسکراہٹ کہیں دور جا چھپی تھی لڑکیوں نے اس پر پھول پھینکے ادھر بھی لوگ مختصر ہی شامل تھے۔ وہ بھی تھوڑے سے لوگ لے کرآۓ تھے۔ نکاح کے تین بولوں کے بعد اس کے دل کی حالت عجیب ہورہی تھی وہ صبا کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوابیٹھا تھا ۔ کئی محبوب خواہشیں سر اٹھانے لگی تھی۔ جیب میں انگوٹی تھی مگر دل سینے میں میں نہیں رہا تھا ۔ وہ اس بھیڑ کو چیرتا کسی کی تلاش میں کھو چکا تھا۔ اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ سامنے صہبا کی امی رخشندہ تھیں ں۔ ہر ماں کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میری بیٹی خوش رہے ۔ صہبا کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے سلمان انکل کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی بی پی شوٹ کر گیا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھے رہ گئے تھے ان کے گھر کا طوفان اپنے گھر لے کر جارہا تھا اور وہ رخشندہ آنٹی کو دیکھے جا ر ہا تھا ان کی شکل میں سے ایک بھیا نک شکل ظاہر ہورہی تھی ۔ روشانہ بھابھی کی والدہ ماجدہ کوثر آنٹی ہاتھ نچاتی ہوئی روتی ہوئی دیکھتی ہوئی چھپا چھپی کا کھیل تھا جواچانک ہی احسن کے سامنے شروع ہو چکا تھا۔ امتحان کسی ایک فریق سے تو شروع نہیں ہوتا ہے تو دونوں طرف ہی خالی صفحے لے کر فریقین بیٹھ جاتے ہیں کچھ اچھا لکھتے ہیں کچھ برا۔ وہ صرف اپنی بیٹی کا اچھا چاہ رہی تھیں۔صہبا بہت خوب صورت تھی اس پر پہلی نظر پڑی تو وہ سب بھول بھال گیا تھا ۔ دل کی پکڑ دھکڑ ہرتلخی پر حاوی ہوگئی تھی ۔ پتا نہیں اس نے رخشندہ آنٹی سے کیا کہا تھا یا ویسے ہی اٹھ آیا تھا دل میں خوشی اور خدشات کی جنگ چھری اور محبت جیت گئی صہبا جیت گئی۔ صہبا میں چاہتا ہوں کہ ہم سدا اسی طرح مسکراتے رہیں کیا تم ایسا کرسکو گی میرے لیے بنائی ہاتھ دل خود بھی کئی اندیشوں میں گھر اہواتھا۔ پلکیں ذرا سی اٹھیں ۔ جی میں پوری کوشش کروں گی پوری کوشش وہ کرے گی یا نہیں کم بخت یاد ہی کب رہا تھا۔ پھولوں کی مہک خوشبو ئیں زندگی گل و گلزار محسوس ہوئی تھی کل کی کون سوچے ۔ آفس سے لی گئی تھوڑی سی چھٹیاں تمام ہو ئیں تو وہ کچھ حواسوں میں بھی آچکا تھا۔ احسن بیٹا میری دوائیاں ختم ہونے کو ہیں ماریہ بیٹا بھائی کولکھوا دو ذرا – ماریا نے پرچہ اس کے ہاتھ میں دیا اور خود اپنے لیے چکن پیس اور بیف بریانی کی بھی فرمائش کر دی ۔ وہ خاموشی سے پرچہ تھامے باہر نکل رہا تھا پھر لوٹ کر جلدی سے کچن میں چلا آیا جہاں صہبا ناشتے کے برتن سمیٹ رہی تھی ۔ تمہیں بھی کچھ منگوانا ہوتو بتا دو۔ مجھے تو کچھ بھی نہیں چاہیے سوائے آپ کے۔ وہ مسکراتی ہوئی انداز دلربائی سے سرگوشی نما آواز میں کہ رہی تھی۔ اسے روشانہ بھا بھی یاد آنے لگیں۔ کہیں وہ اس پر جال تو نہیں پھینکنا چاہ رہی۔ “اچھا پھر میں چلتا ہوں اللہ حافظ سارے راستے وہ سوچتا رہا کہ اب وہ رخشندہ آنٹی کو فون کرے گی سارے دکھ سکھ بیان ہوں گے اور اس کی زندگی اجیرن بنادی جاۓ گی اس کادل وسوسوں سے بھر چکا تھا وہ مکڑی کے جالے کی سی گھات لگا کر اپنے گمان کے سچا ہونے کا منتظر تھا۔ چھٹی کا دن تھا۔ ناشتے کے بعد وہ اخبار کھنگالنے میں مصروف تھا۔۔ ماریہ امی کو لے کر کسی ہمسائے کے ہاں گئی تھی۔ عیادت پرسی کے لیے صہبا روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھی صفائی ستھرائی ہورہی تھی مگر اس کا ڈسا ہوا دل زنگ آلود ہی رہا تھا۔ اچانک وہ الرٹ ہو بیٹھا تھا صہبا لا ؤنج والے ٹیلی فون سیٹ کے اردگرد گھوم رہی تھی یقینا اس کی ماں کی کال ہوگی عورتیں اورغبتئیں نہ کریں۔ اسے رخشندہ آنٹی بھی پسند نہ آئی تھیں ۔ پتانہیں کون سی کامیابی کا گر مانگتی ہیں ایک دوسرے سے میرے گھر میں جب بھی آگ لگی یہ عورت ہی لگائے گی اس کے مضبوط سینے میں دل دھڑ دھڑا رہاتھا- دوسرے کمرے کا فون سیٹ اس کے کان سے جالگا تھا مگر وہ باہر نکل آئی تھی۔ شاید اسے شک ہو گیا تھا کہ احسن یہیں کہیں موجود نہ ہو ۔ وہ میکے بھی کم کم جاتی تھی اور لڑائی جھگڑے کا تو سوال ہی کیا کوئی فرمائش شکایت بھی نہیں وہ آخر کرنا کیا چاہتی ہے ایک ہی بار اس گھر کو ماچس کی تیلی دکھا کر میکے جا بیٹھنا چاہے گی یقینا وہ دن میں اسے کھو جتا رہا اور رات کو بھول بھال جاتا بڑے دنوں بعد امی اور ماریہ ماموں شاہد کے پاس لاہور گئی ہوئی تھیں وہ آفس سے جلدی لوٹ آیا تیارخشندہ آنٹی کو اس کا چھوٹا سالا امجد چھوڑ گیا تھا اب وہ دونوں جس موقع کی تلاش میں تھیں وہ میسر آ چکا تھا جوراوی چین ہی چین لکھنے میں مصروف تھا۔ اب زہر اگلنے والا تھا۔ ٹی وی لاؤنج میں دونوں ماں بیٹی ان کی دانست میں تنہا چھوڑ کر وہ باہر نکل چکا تھا۔ وہ کیا پٹیاں پڑھانے آئی تھیں ابھی پتا لگ جا تا پھر ہی وہ کوئی دوسری حکمت عملی اختیار کرتا۔ سانس رو کے وہ سننے میں مگن تھا۔ دیکھا میں نے کہا تھا ناں بیٹا ! محبت سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ۔ جو سمجھدار بچیاں اپنے شوہروں سے محبت کرتی ہیں ناں کبھی نا کام نہیں ہوتیں۔ اس کی آمدن کا سوچ کر گزارا کرو۔ بے جا فرمائش قابل نفرت جان کا عذاب بن جاتی ہے صہبا ۔ میں نے اس دن خود کو بڑی مشکل سے قابو کیا امی ۔ پیزا مجھے کتنا پسند ہے آپ کو پتا ہے میں نے وہ بھی نہیں مانگا بس مسکرا کر رخصت کیا۔ شکایت چھوٹی سی- ہاں اب دیکھو اگر تم مہینے کے آخر میں پیزا، برگر کی فرمائش لے کر بیٹھ جاؤ تو اس کے دل میں تمہارا وہ مقام کبھی نہ بن سکے گا جو تم آہستہ آہستہ بنارہی ہو۔ میں ۔ چاہتی ہوں کہ تم اپنا مقام بہت مضبوط بناؤ اس کے دل میں وہ تمہاری قدر کرے گا اور ماریہ تو ہے ہی بھولی بھالی اگر نہیں بھی تو بیٹا وہ تو غیر شادی شدہ ہے بچی ہے لوگ شادی شدہ لڑکیوں سے سمجھ داری کی امید رکھتے ہیں۔ بچیوں سے نہیں اور تم تو میری سب سے سمجھدار بیٹی ہو۔ احسن کو تنگ نہ کرنا نہ اس کے دل کا بوجھ بننا نہ پچھتاوا ۔ یہی تمہاری کامیابی ہوگی ۔ دوسری ماؤں کے برعکس میں تو الٹی بات کہہ رہی ہوں مگر اصل میں سیدھا رستہ یہی ہے میری جان جو ذرا سا کٹھن ہے مگر منزل کی طرف جاتا ہے – صہبا ان کی گود میں لیٹی آرام سے ان کی باتیں سن رہی تھی اور احسن کے قدموں تلے سے زمین کھسک چکی تھی۔ رخشندہ آنٹی ہی وہ عورت ہیں جو اپنی عزت اور اپنی بیٹی کی عزت کروانا جانتی تھیںکتنے مثبت انداز میںبیٹی کو سمجھا کر بھیجا تھا اور سمجھا رہی تھیں اس کے دل سے سارا غبار چٹ گیا تھا۔ شکر ہے کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں تھا ورنہ تو وہ اف ابے کمینے یہ تو کر کیا رہا ہے۔ کچن میں وہ چائے بنارہا تھا بغیر چینی کے اور ایک کپ چینی والی آنٹی شوگر پیشنٹ تھیں ۔ میٹھی چائے صبا کو بنا کر دے رہا تھا۔ باسط اور سہیل اس کے دردل کے منتظر کچن میں ہی موجود تھے۔ وہاں تو سب الٹا ہورہا تھا۔ زن کا مرید ہے اپنا یار … ز ہے نصیب وہ تو میں ہو گیا ہوں۔ سا س کی اتنی خدمتیں ۔ابھی تو اپنی جان من کے لیے پیزا لینے بھی جانا ہے وہ دل سے اپنی ماں جیسی رخشند و آنٹی کی خدمت کر رہا تھا ۔ ” بھول گیا وہ سب تو ۔ وہ چلائے تھے۔ چلو باہر اور چلو میرے ساتھ میں واقعی سب بھول چکا ہوں کیوں؟ کیونکہ رخشندہ آنٹی الٹی باتیں کرتی ہیں۔ ایسی جیسی ہر ماں کو کرنی چاہئیں ۔