Friday, February 14, 2025

Millan | Episode 1

ٹوبی ایک عجیب و غریب بچہ تھا بلکہ اسے عجیب الخلقت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں تو اس کی ماں پر گئی تھیں جبکہ باقی نقوش اور پتلی پتلی ٹانگیں اس کے باپ پر تھیں۔ اس کی ماں فریڈا اس کے بارے میں بہت محتاط تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ٹوبی بھی اپنے باپ کی طرح ناکام انسان ثابت ہو۔ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے تو قصائی تھا لیکن اسے شاعری کا شوق تھا۔ وہ اپنی دکان پر بھی شاعری کرنے میں لگا رہتا تھا جس سے اس کے گاہک فائدہ اٹھاتے اور حساب کتاب سب غلط ہوجاتا۔ اسی لیے فریڈا کو اس کی دکان کا حساب کتاب اپنے ہاتھ میں لینا پڑا تھا۔ وہ دکان پر اس کی سختی سے نگرانی کرتی جس سے کاروبار میں کچھ بہتری پیدا ہوئی تھی اور ان کی گزربسر آسانی سے ہونے لگی تھی۔
ٹوبی کو اپنی ماں سے بہت محبت تھی۔ وہ اس کی گود میں رہنا چاہتا تھا تاکہ وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر لے لیکن ایسا موقع کم ہی آتا تھا۔ فریڈا اتنی مصروف رہتی تھی کہ اسے ان چونچلوں کی فرصت نہیں تھی مگر اپنی مصروفیت کے باوجود وہ اس کی پڑھائی کا بہت خیال رکھتی۔ اسے ہوم ورک کرواتی۔ وہ ایک سخت گیر ماں تھی۔ وہ سزا دینے میں بہت جلدی کرتی لیکن تعریف کرنے میں بڑی کنجوسی کا مظاہرہ کرتی۔ وہ جیسی بھی تھی، ٹوبی اس سے بہت پیار کرتا تھا۔
وہ ماں کی حکم عدولی کرنے سے ڈرتا تھا۔ وہ اس خیال سے ہی کانپ جاتا تھا کہ اس کی ماں اس سے ناراض ہوجائے یا اسے اس کی کوئی حرکت پسند نہ آئے۔ نہ جانے کیوں اس کی ماں اکثر اسے کہتی تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ ایک مشہور آدمی بنے گا۔ ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بجے گا۔ ٹوبی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کہتی ہے۔ لیکن اسے اپنی ماں پر مکمل یقین تھا کہ وہ کبھی کوئی غلط بات نہیں کرے گی۔ اسی لیے وہ بچپن سے ہی یہ سمجھتا تھا کہ وہ بہت جلد مشہور ہونے والا ہے اور اسے ایک بڑا آدمی بننا ہے۔
ٹوبی کے لیے وہ لمحات بہت خوشگوار ہوتے تھے۔ جب وہ کچن میں بیٹھ کر اسکول کا کام کرتا اور اس کی ماں پرانے بڑے سے چولہے پر کھانا پکاتی تو کھانے کی خوشبو اسے جیسے مست کردیتی۔ کھانا بہترین اور مزیدار ہوتا اور وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے بتاتا کہ وہ دنیا کے سب سے مزیدار کھانے تیار کرتی ہے۔
ایک دوپہر ان کی پڑوسن مسز ڈنکن گھر آئی۔ وہ استخوانی چہرے، سیاہ آنکھوں اور کبھی نہ رکنے والی زبان کی مالک تھی۔ وہ فریڈا سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ جب وہ چلی گئی تو ٹوبی نے اس کی ایسی نقل اتاری کہ اس کی ماں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔ ٹوبی کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنی ماں کو اس طرح کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اپنی پریشانیوں میں اس طرح غرق رہتی تھی کہ مسکراتی بھی بہت کم تھی۔ ٹوبی کا دل خوشی سے بھر گیا۔
وہ ہمیشہ سے اپنی ماں کو خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا اور اس کے پاس وسائل بھی کم تھے۔ اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اپنی ماں کے لیے کیا کرے لیکن اب یہ اچھا طریقہ اس کے ہاتھ آیا تھا۔ وہ اکثر اپنے باپ کی دکان پر آنے والے گاہکوں، اپنے استادوں اور اپنے ہم جماعتوں کی نقلیں اتارتا تاکہ اس کی ماں خوش ہوجائے، اس کے ہونٹوں پر بھی ہنسی کھلے۔ وہ اکثر اس میں کامیاب رہتا تھا۔
پھر ٹوبی کے اسکول میں ڈرامہ ہوا۔ یہ ایک مزاحیہ کھیل تھا اور ٹوبی کو مرکزی کردار دیا گیا تھا۔ فریڈا نے اگلی نشست پر بیٹھ کر یہ ڈرامہ دیکھا۔ اس میں ٹوبی کی کامیاب اداکاری دیکھ کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کا بیٹا ایک روز ضرور کامیابی حاصل کرے گا۔
وہ اسے تھیٹر لے جانے لگی جہاں وہ بڑی توجہ سے مختلف اداکاروں کو دیکھتا اور پھر ان کی کامیاب نقل اتارتا۔ جب کبھی اسکول میں ذہانت کے مقابلے ہوتے تو وہ ہمیشہ پہلا انعام حاصل کرتا۔
ٹوبی بڑا ہورہا تھا۔ اس نے قد تو نکال لیا تھا مگر ابھی دبلا پتلا تھا۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں، اس کی چھوٹی ناک اور باریک ہونٹ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے کہانیوں میں معصوم بچوں کی تصویریں بنائی جاتی تھیں جن کے پر ہوتے تھے اور انہیں ننھے فرشتے سمجھا جاتا تھا۔ شاید اسی لیے جو بھی ٹوبی کو دیکھتا تھا اسے اس کے چہرے پر معصومیت نظر آتی تھی۔ ان کا دل چاہتا تھا کہ اسے بازوئوں میں لے کر پیار کریں۔ اپنی کامیابیوں اور انعامات کی کثرت کی وجہ سے ٹوبی کو بھی یقین ہوگیا تھا کہ اس کی ماں سچ کہتی ہے۔ وہ ایک روز ضرور اسٹار اور بڑا آدمی بنے گا۔
وہ پڑھائی میں بھی اچھا تھا اس لیے سب ہی اسے پسند کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سال کا ہوچکا تھا۔ لڑکیاں بھی اس پر بہت مہربان رہتی تھیں۔ وہ انہیں چکر دینے میں طاق تھا۔ وہ بیک وقت کئی لڑکیوں سے دوستی نبھا رہا تھا لیکن انہیں احساس نہیں ہونے دیتا تھا کہ اس کے علاوہ بھی اس کی زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے۔ ہر لڑکی یہی سمجھتی تھی کہ وہ صرف اس سے محبت کرتا ہے۔
اس کا معصوم چہرہ سب کا دل موہ لیتا تھا۔ اس کی باتوں پر سب آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے تھے۔ اس کی باتیں سب کو محظوظ کرتی تھیں۔
ایک روز ٹوبی کو پرنسپل کے آفس سے بلاوا آیا۔ وہ بے نیازی سے گنگناتا ہوا پرنسپل کے آفس پہنچا تو یہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا کہ وہاں اس کی ماں موجود تھی۔ جس کے چہرے پر سنگینی تھی۔ ایک سولہ سالہ لڑکی آلین ایک کرسی پر بیٹھی سسکیاں لے رہی تھی۔ اس کے ساتھ اس کا باپ پولیس سارجنٹ کی وردی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹوبی کا دل بیٹھنے لگا۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک بڑی مصیبت میں پھنس چکا ہے۔
پرنسپل نے ناگواری سے کہا۔ ’’ٹوبی! تم نے اس لڑکی کی ناسمجھی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بولو یہ بات ٹھیک ہے؟‘‘
ٹوبی کو بہت بُرا لگا۔ یہ لڑکی پہلے ہنس ہنس کر اس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھاتی رہی تھی اور اب پرنسپل کے پاس شکایت لے کر آگئی تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ جو پولیس کی وردی کا رعب جما رہا تھا۔
’’جواب دو… احمق کے بچے!‘‘ آلین کا باپ غرایا۔ ’’یہ سب کیا دھرا تمہارا ہے؟‘‘
ٹوبی کا حلق خشک ہوگیا۔ اس نے ایک چور نگاہ اپنی ماں پر ڈالی۔ سب سے زیادہ وہ اس بات سے پریشان تھا کہ اس کی حماقت کی وجہ سے اس کی ماں کو اس شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ اگر کوئی معجزہ اسے اس صورتحال سے نکال دے تو وہ آئندہ کبھی کسی لڑکی کی طرف نہیں دیکھے گا۔
’’ٹوبی…‘‘ اس کی ماں نے درشت لہجے میں پوچھا۔ ’’جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں، درست ہے؟‘‘
ٹوبی نے ندامت سے سرخ چہرے کے ساتھ اثبات میں سر کو جنبش دی۔
’’تو پھر تمہیں اس سے شادی کرنا ہوگی۔‘‘ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولی اور پھر اس لڑکی سے مخاطب ہوئی جس کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ ’’تم یہی چاہتی ہو؟‘‘
’’ہاں… ہاں… بالکل! میں اور ٹوبی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ ٹوبی کی طرف پلٹی۔ ’’ٹوبی…! ان لوگوں نے مجھے مجبور کردیا تھا ورنہ میں تمہارا نام زبان پر نہ لاتی۔‘‘
آلین کے باپ نے اعلان کیا۔ اس کا لہجہ دبنگ تھا۔ ’’میری بیٹی صرف سولہ سال کی ہے۔ یہ لڑکا لمبی مدت کے لیے جیل بھی جاسکتا ہے تاکہ اسے سبق سکھایا جاسکے اور اس کی زندگی برباد ہوجائے لیکن اگر یہ اس کے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہے تو…؟‘‘
سب کی نگاہیں ٹوبی پر تھیں۔ وہ اپنا خشک گلا تر کرتے ہوئے بولا۔ ’’سر! میں شرمندہ ہوں کہ یہ حماقت ہوگئی۔‘‘
واپس آتے ہوئے فریڈا بالکل خاموش تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ٹوبی کی حالت ابتر تھی۔ وہ شرم اور ندامت میں گلے تک ڈوبا ہوا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کی ماں کو اتنا نادم ہونا پڑا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اپنی اس حماقت کی وجہ سے اسے پڑھائی چھوڑنا پڑے گی۔ شادی کے بعد گھر چلانے کے لیے اسے باپ کی دکان پر کام کرنا پڑے گا۔ ایک بڑا اور مشہور اسٹار بننے کے اس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔ اسے بھی بالآخر اپنے باپ کی طرح قصائی بننا پڑے گا۔
وہ گھر پہنچے تو اس کی ماں کا موڈ بدستور خراب تھا۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔ ’’اوپر آئو۔‘‘
ٹوبی چور سا بنا اپنی گردن شانوں میں گھسائے اس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ ماں کی ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ سننے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ فریڈا نے الماری سے سوٹ کیس نکالا اور اس کے کپڑے رکھنے لگی۔ ٹوبی حیرت سے الجھے ہوئے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’ماں! یہ تم کیا کررہی ہو؟‘‘
’’میں۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔ ’’میں کچھ نہیں کررہی۔ اب تم یہاں سے جائو گے۔‘‘ پھر اس نے اپنا ہاتھ روکا اور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔ ’’احمق لڑکے! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہیں اس بے وقوف لڑکی کے لیے یوں تمام زندگی ضائع کرنے دوں گی؟ میں اپنے بیٹے کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں آنے دوں گی۔ تمہاری زندگی کا مقصد کچھ اور ہے۔ خدا نے تمہیں ایک بڑا آدمی بننے کے لیے بنایا ہے۔‘‘ اس نے تھوڑا توقف کیا اور پھر تحکمانہ لہجے میں بولی۔ ’’ٹوبی… تم یہاں سے نکلو اور کسی بڑے شہر چلے جائو۔ محنت کرو، قسمت آزمائو۔ جب تم ایک مشہور اسٹار بن جائو گے تو مجھے بھی وہاں بلا لینا۔‘‘
ٹوبی اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے ماں کے گلے سے لگ گیا۔ وہ پیار سے اسے تھپکنے لگی۔ ٹوبی کے دل میں خوف بھر گیا۔ وہ اپنی ماں کی یہ چھتر چھایہ چھوڑ کر چلا جائے گا۔ وہ اس کی محبت اور اس کے مشوروں کے بغیر کیسے رہ سکے گا لیکن اس خوف کے ساتھ ساتھ اس کے اندر ایک امید بھی جاگ رہی تھی۔ اس کی ماں اسے بار بار یقین دلا رہی تھی کہ ایک روز وہ بہت بڑا اسٹار بنے گا۔ ہر طرف اس کا نام ہوگا۔ لوگ اس کے دیوانے ہوں گے۔ شہرت اس کے قدم چومے گی اور کامیابیاں اس کی زندگی میں شامل ہونے کے لیے بے قرار ہوں گی۔
٭…٭…٭
ٹوبی نے جہاں قدم رکھا۔ وہ ایک بڑا پر رونق اور خوبصورت شہر تھا۔ اس کے حسن اور دل آویزی کا طلسم ہوشربا تھا۔ یہاں تھیٹر کی ایک بڑی انڈسٹری تھی۔ رات کو اس کی رونقیں قابلِ دید ہوتی تھیں۔ لوگ مختلف تھیٹروں کا رخ کرتے اور رات گئے اس کے بارے میں گفتگو کرتے واپس آتے۔
چھوٹے سے شہر سے آنے والے ٹوبی کے لیے ہر شے نئی اور انوکھی تھی۔ وہ اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے چاروں طرف بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی جیب میں سو ڈالر تھے جو ماں نے اسے دیے تھے۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ اکیلا ہوا تھا۔ اسی لیے خود کو بہت غیر محفوظ محسوس کررہا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ جو کچھ اس کی ماں نے کہا ہے وہ سچ ثابت ہوگا۔ وہ بہت جلد مشہور اسٹار بن جائے گا۔ ایک بہت خوبصورت گھر خریدلے گا۔ اپنی ماں کو یہاں بلا لے گا۔ ہر رات اس کی ماں تھیٹر میں اس کی اداکاری دیکھنے کے لیے آئے گی جو دادوتحسین کے نعروں سے گونج رہا ہوگا۔
اس نئے شہر میں سب سے پہلے اسے ملازمت تلاش کرنا تھی تاکہ گزربسر کا کوئی انتظام ہوجائے۔ اس نے تقریباً ہر تھیٹر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہیں اپنی کامیابیوں اور انعامات کے بارے میں بتایا کہ اس میں کتنی صلاحیتیں ہیں لیکن کسی نے بھی اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کوئی اسے موقع نہیں دیتا تھا کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرسکے۔ حالانکہ یہاں اس نے جتنے اداکاروں کو دیکھا تھا وہ ان سے بہتر کام کرسکتا تھا۔
ماں نے اسے جو رقم دی تھی وہ تیزی سے ختم ہوتی جارہی تھی۔ اسی لیے اس نے تھیٹر کا پیچھا چھوڑ کر ایک ہوٹل میں برتن دھونے کی ملازمت کرلی تھی۔ وہ ہر اتوار کو اپنی ماں کو فون کرتا تھا۔ ماں نے اسے بتایا کہ اس نے اسکول والوں کو یہی بتایا ہے کہ وہ گھر سے بھاگ گیا ہے۔ اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی آلین کا باپ اپنی پولیس کی گاڑی میں اکثر ان کے یہاں آکر سوال کرتا کہ وہ کہاں ہے اور اس کی کوئی خبر ملی ہے یا نہیں… وہ ہم سے ایسا برتائو کرتا ہے جیسے ہم کوئی دہشت گرد یا مجرم ہیں۔
’’تو ماں تم اس سے کیا کہتی ہو؟‘‘ ٹوبی پوچھتا۔
’’میں نے اس سے کہا ہے کہ تم جب بھی مجھے مل گئے۔ میں اپنے ہاتھوں سے تمہارا گلا گھونٹ دوں گی۔‘‘ یہ سن کر ٹوبی اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔
برتن دھو دھو کر وہ تنگ آچکا تھا۔ اس لیے اس نے ایک جادوگر کے یہاں ملازمت کرلی۔ جادو کے کرتب دکھانے کے لیے اسے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ اس کی پک اَپ میں رکھتا۔ پھر اسے اسٹیج شو کے مقام پر پہنچاتا اور شو کے دوران اسے تمام چیزیں باری باری دیتا جاتا۔ یہاں بھی آمدنی کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن برتن دھونے سے بہرحال یہ کام بہتر تھا۔
ایک اتوار حسبِ معمول اس نے گھر فون کیا تو اس کے فون کا جواب ٹوبی کے باپ نے دیا۔ ٹوبی نے پوچھا۔ ’’پاپا…! ماما کہاں ہیں؟‘‘
غیر معمولی خاموشی کا وقفہ سردی کی لہر بن کر اس کے وجود میں دوڑنے لگا۔ پھر اس کا باپ بولا۔ ’’کل رات ہم تمہاری ماں کو اسپتال لے گئے تھے۔‘‘
ٹوبی نے اپنے ہاتھ میں دبے ہوئے ریسیور کو اتنی سختی سے دبایا کہ وہ ٹوٹنے لگا۔ اس نے دل تھام کر پوچھا۔ ’’ماں کو کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر کا خیال ہے کہ یہ دل کا دورہ تھا۔‘‘
ٹوبی چیخ اٹھا۔ ’’نہیں… نہیں… ماں کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ پاپا مجھے بتائو کہ وہ بہت جلد بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ نہیں۔‘‘
سیکڑوں میل دور سے بھی وہ اپنے باپ کے رونے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’ٹوبی! تمہاری ماں چند گھنٹے قبل مر چکی ہے۔‘‘
ٹوبی کو محسوس ہوا جیسے یہ لفظ نہیں جلتا ہوا لاوا تھا جو اس کے سارے وجود کو جلا کر راکھ کرگیا تھا۔ وہ سارے خواب جو اس نے ماں کے لیے دیکھے تھے وہ کرچی کرچی ہوگئے تھے۔ وہ پاگلوں کی طرح روتا جارہا تھا۔ اس کی سانس جیسے حلق میں پھنس رہی تھی۔ اس کا باپ ٹیلیفون کے دوسرے سرے پر اسے پکار رہا تھا۔ ’’ٹوبی۔ ٹوبی۔‘‘
’’تدفین کب ہے؟ میں آرہا ہوں۔‘‘ ٹوبی بولا۔
’’تدفین تو کل ہے لیکن ٹوبی اگر تم یہاں آئے تو پولیس تمہیں دھر لے گی۔ وہ لوگ اسی انتظار میں ہیں کہ تم اس موقع پر اپنے شہر میں ضرور آئو گے۔ آلین کا باپ تمہیں جان سے مار دے گا۔‘‘
تو گویا وہ اس ہستی کو الوداع بھی نہیں کہہ سکتا تھا جس سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتا تھا۔ وہ تمام دن بستر پر پڑا ماں کو یاد کرتا رہا۔ اس کی ایک ایک تصویر کو اپنے دل میں اتارتا رہا۔ وہ غم سے مفلوج ہوگیا تھا۔ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے اور بڑا نام بنانے میں جو لگن اس کے اندر تھی وہ جیسے ماں کے ساتھ ہی مر گئی تھی۔ وہ ایک زندہ لاش کی طرح اپنے خوابوں کے مر جانے کا سوگ منا رہا تھا۔
٭…٭…٭
وہ انیس سال کا ہوگیا تھا مگر ابھی تک ناکام تھا۔ ایک روز وہ حسب معمول ایک نائٹ کلب میں گیا۔ جہاں دو بہنیں ڈانس کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام جیری اور دوسری کا میری تھا۔ ٹوبی کافی دنوں سے ان دونوں کا شو دیکھ رہا تھا۔ آخر ایک روز ہمت کرکے اس نے جیری کو مخاطب کرلیا حالانکہ اس کا لباس بہت معمولی اور پرانا تھا۔
’’تمہارا شو بہت اچھا ہے۔‘‘ اس نے عاجزی سے کہا۔
وہ مسکرائی اور یہیں سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ جیری کو یہ معصوم صورت لڑکا اچھا لگا تھا۔ دونوں جلد ہی ایک دوسرے کے بارے میں جان گئے۔ جیری نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے کلب میں ایک موقع دلوائے گی۔ اس سے آگے ٹوبی کی اپنی صلاحیت ہوگی کہ وہ اس کا فائدہ کیسے اٹھاتا ہے اور اپنے لیے کوئی جگہ بنا پاتا ہے یا نہیں۔
چند ہی روز بعد کلب کا کامیڈین اچانک غیر حاضر ہوگیا۔ وہ بغیر بتائے غائب ہوا تھا۔ اس لیے کلب منیجر کے پاس کوئی متبادل انتظام بھی نہیں تھا۔ جیری نے اس کا فائدہ اٹھایا اور پریشان حال منیجر سے بولی۔ ’’یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ ایک بہت اچھا فنکار یہاں موجود ہے۔ وہ حال ہی میں ہمارے شہر آیا ہے۔‘‘
’’کون ہے؟ کہاں ہے؟‘‘ منیجر نے جلدی سے پوچھا۔
جب ٹوبی اس کے سامنے آیا تو وہ بے اعتنائی سے بولا۔ ’’یہ لڑکا اوہ خدایا! یہ تو بالکل بچہ ہے۔ اس کی آیا کہاں ہے؟‘‘
’’تم اسے آزمائو تو سہی۔ یہ ایک زبردست فنکار ہے۔‘‘
منیجر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’او مسٹر… یہ لڑکی کیا کہہ رہی ہے؟‘‘
’’یہ سچ ہے۔ میں کئی شو کرچکا ہوں۔‘‘ ٹوبی مستحکم انداز میں بولا۔
’’تمہاری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس سال۔‘‘ ٹوبی نے جھوٹ بولا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں۔ اگر تم ناکام ہوئے تو شاید تم اپنی عمر کے بائیس سال سے آگے نہیں بڑھ سکو گے۔‘‘ وہ رعونت سے بولا۔
ٹوبی کی زندگی میں وہ فیصلہ کن لمحہ آیا جس کا وہ نہ جانے کب سے انتظار کررہا تھا۔ جس کا انتظار کرتے کرتے اس کی ماں زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔ ٹوبی کو لگ رہا تھا کہ اس کی ماں جہاں کہیں بھی تھی۔ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آواز اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
وہ آگے بڑھ کر روشنی کے اس دائرے میں آن کھڑا ہوا۔ جہاں رک کر اسے اپنے فن کو منوانا تھا۔ بینڈ اس کی آمد پر موسیقی کی شوخ سی دھن بجا رہا تھا۔
موسیقی ختم ہوئی اور ٹوبی نے ایک قدم آگے بڑھایا اور منتظر حاضرین کو مخاطب کیا۔ ’’گڈ ایوننگ۔ خوش قسمت لوگو! میرا نام ٹوبی ٹیمپل ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ سب بھی اپنا نام جانتے ہوں گے۔‘‘
حاضرین بالکل خاموش رہے۔ ٹوبی نے کچھ اور مزاحیہ جملے پے درپے کہے مگر کسی کے چہرے پر نام کی مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔ ٹوبی کا اعتماد چور چور ہوگیا۔ اس کا سارا جسم پسینے میں بھیگ گیا۔
ٹوبی نے یوں ہاتھ، پیر مارے جیسے کوئی ڈوبتے ہوئے تنکے کا سہارا تلاش کررہا ہو لیکن بات نہیں بنی۔ پریشان ہوکر منیجر نے بینڈ کو اشارہ کیا کہ وہ تیز موسیقی بجائیں تاکہ ٹوبی کی آواز اس میں دب جائے۔ ٹوبی کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
اس کے راستے میں ناکامیاں ہی ناکامیاں تھیں۔ اس نے بہت جگہ قسمت آزمائی لیکن قسمت کی دیوی اس پر مہربان نہیں ہوئی۔ وہ مختلف شہروں میں گیا۔ اس نے تھیٹروں میں کام لینے کے لیے لوگوں کی منت سماجت کی، کہیں اپنی استطاعت کے مطابق رشوت بھی دی۔ لیکن اس کے لیے کوئی راستہ نہیں نکلا۔ وہ سستے سے ہوٹل کے گندے، بدبودار کمرے میں دھندلے آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر رونے لگتا۔ اسے لگتا کہ شاید اس کی ماں اپنی ممتا سے مجبور ہوکر اس کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ لیکن جس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔
وہ تنگ آکر سوچتا کہ اگلے دن اس اسٹیج کامیڈی پر لعنت بھیج کر کوئی عام ملازمت تلاش کرلے گا جس طرح دوسرے لوگ دفتروں، اسٹوروں اور دوسری جگہوں پر ملازمت کرتے تھے۔ ہر ہفتے انہیں محنت کا صلہ مل جاتا تھا اور ان کی زندگی سکون کے ساتھ گزرتی تھی۔ انہیں ہر روز ایک نئی بے عزتی ایک اور ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
لیکن اگلے دن پھر وہ اپنی قسم توڑ کر کسی اسٹیج پر منت سماجت کرکے موجود ہوتا۔ اپنی فنکاری کا سکّہ جمانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا۔ اس وقت تک بساط بھر اپنی کوشش میں لگا رہتا ۔یہاں تک کہ حاضرین ہوٹنگ کرنے اور مشروبات کی خالی بوتلیں اسٹیج پر پھینکنے لگتے۔
وہ اس زندگی سے تنگ آچکا تھا لیکن اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔ ایک روز اچانک روشنی کی ایک کرن چمکی۔ تھیٹر میں ایک جاننے والے نے اس سے ایک عجیب بات کہی۔ ’’تم غلط راستے پر بھٹک رہے ہو۔ خود کو اس قابل بنائو کہ یہ لوگ چل کر تمہارے پاس آئیں۔‘‘
حیرت سے ٹوبی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’تم ایکٹنگ اسکول میں داخلہ لو۔‘‘
’’ایکٹنگ اسکول؟‘‘
’’ہاں۔ یہاں جن اداکاروں کو تربیت دی جاتی ہے، ان کے لیے کام بھی تلاش کیا جاتا ہے۔ انہیں باعزت طریقے سے مختلف ڈراموں اور فلموں میں کام لے کر دیا جاتا ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔
ٹوبی کے سارے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کا تو اسے کبھی خیال نہیں آیا تھا۔ اسے یقیناً یہاں قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔ اگلے ہی روز وہ ایکٹنگ اسکول میں جا پہنچا۔
سنہری بالوں والی ریسپشنسٹ سے اس نے تعارف کروایا۔ ’’میرا نام ٹوبی ٹیمپل ہے۔ میں اس ادارے میں داخلہ لینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا تمہیں اداکاری کا کوئی تجربہ ہے؟‘‘
’’ہاں… نہیں… شاید نہیں۔‘‘ وہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ کیا کہے۔
’’مجھے افسوس ہے۔ ہماری انچارج ایسے لوگوں کا انٹرویو نہیں کرتیں جنہیں کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔‘‘
’’کیا تم مذاق کررہی ہو؟‘‘ ٹوبی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… یہ ہمارا قانون ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ کیا تم مجھے نہیں جانتیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’اوہ خدایا! وہ لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ یہاں ایک شہر والے دوسرے شہر والوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تم مجھے جانتی ہوگی۔‘‘
وہ الجھی۔ ’’تمہارا مطلب ہے کہ تمہیں اداکاری کا تجربہ ہے؟‘‘
’’بالکل ہے۔ میں پچھلے دو سال سے یہاں سے دو ہزار کلومیٹر دور تھا۔‘‘
’’اچھا! تو میں انچارج سے بات کرتی ہوں۔‘‘ اس نے ریسیور اٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد بولی۔ ’’انچارج تم سے مل لیں گی۔ جائو۔ گڈ لک!‘‘
ٹوبی لمبا سانس لے کر انچارج کے آفس میں داخل ہوگیا۔ مس ایلس سیاہ بالوں والی ایک پرکشش خاتون تھی۔ وہ تیس سال سے کچھ اوپر کی معلوم ہوتی تھی۔ وہ سنجیدہ اور حسین معلوم ہورہی تھی۔
ٹوبی مسکرایا۔ ’’میں ٹوبی ٹیمپل ہوں۔‘‘
ایلس اپنی جگہ سے اٹھی تو ٹوبی نے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ کے ساتھ بریسز لگے ہوئے تھے۔ وہ لنگڑا کر چلتی تھی۔ اس نے چند قدم اٹھائے اور بولی۔ ’’تم یہاں داخلہ لینا چاہتے ہو؟‘‘
’’میری شدید خواہش ہے۔‘‘
’’کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ کیوں؟‘‘
ٹوبی نے اپنے لہجے میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کیونکہ مس ایلس! میں جہاں بھی گیا ہوں۔ میں نے تمہارے ادارے کی بہت تعریف سنی ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ شاید تمہیں علم بھی نہیں ہوگا کہ تمہارے اس ادارے کی ساکھ اور شہرت کتنی اچھی اور بہترین ہے۔‘‘
’’اپنی اسی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے میں چاہتی ہوں کہ جعلی لوگوں سے ہوشیار رہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو۔ میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘ وہ فیصلہ کن لہجے میں انٹرویو کے اختتام کا اعلان کرکے واپس اپنی نشست کی طرف جانے کے لیے پلٹی۔
’’پلیز…! ایک منٹ میری بات سن لو۔‘‘ اس کے ذہن میں کچھ نہیں تھا کہ وہ اس سے کیا کہے گا یا اسے کیسے قائل کرے گا لیکن وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ اس کے مستقبل کا دارومدار اس خاتون کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر حالت میں اسے ثابت کرکے دکھائے گا کہ وہ اس کے ادارے میں داخلہ لینے کا اہل ہے۔
وہ چلتے چلتے رک گئی اور اس نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ ٹوبی نے جلدی سے کہا۔ ’’مس ایلس۔ تم کسی کی صلاحیتوں کا اندازہ اپنے قوانین کے ساتھ نہیں لگا سکتیں۔ تم نے میری اداکاری تو دیکھی نہیں اور صاف انکار کردیا کہ مجھے کوئی موقع نہیں دیا جائے گا۔ محترمہ…! یہ تو انصاف نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے۔‘‘ اس نے ایک مشہور ایکٹر کی آواز میں کہا۔
ایلس نے اسے روکنے کے لیے منہ کھولا۔ لیکن ٹوبی نے اسے کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ اس نے مختلف مشہور اداکاروں کے لہجوں میں اسے قائل کرنا شروع کیا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اس بچارے بچے کو ایک موقع تو دو۔ دوسرا فنکار اس کی تائید کررہا تھا۔ ایک تیسرا فنکار اصرار کررہا تھا کہ یہ بچہ بہت قابل ہے۔ میں اس کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ اسی طرح ایک کے بعد ایک کی نقل اتارتا رہا۔
وہ اتنی مہارت سے یہ سب کچھ کررہا تھا کہ لگتا تھا کہ یہ تمام فنکار کمرے میں موجود ہیں اور مزاحیہ انداز میں ٹوبی کی سفارش کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس انداز میں ہورہا تھا کہ خود ٹوبی بھی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ اتنی کامیابی کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ مزاحیہ الفاظ، یہ چھوٹے چھوٹے چٹکلے اس کے منہ سے بے اختیار اس طرح نکلتے چلے گئے تھے۔ جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی خود کو بچانے کے لیے سہارا تلاش کررہا ہو۔ وہ پسینے میں بھیگ گیا تھا اور مختلف اداکاروں کی نقل پے درپے کرنے کے بعد ہانپ رہا تھا۔
پھر اس نے ایلس کی آواز سنی۔ ’’بس کرو… بس۔‘‘
وہ رک
گیا۔ جیسے اپنے ہوش و حواس میںآ گیا ہو۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ایلس پر نگاہ ڈالی۔ ہنس ہنس کر اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔ جسے وہ اپنے رومال سے خشک کررہی تھی۔ ’’اوہ…! تم بھی کیا عجیب مسخرے ہو۔‘‘
’’کیا تم میرا مذاق اڑا رہی ہو؟‘‘ ٹوبی نے آزردہ لہجے میں پوچھا۔
’’اوہ نہیں… یہ ایک ایسی اداکاری تھی کہ میں نے آج تک دیکھی نہ سنی… تم ایک فطری فنکار ہو۔ تمہیں کسی کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم ایک پیدائشی مسخرے اور مزاحیہ اداکار ہو۔‘‘
ٹوبی ایک خوشگوار حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی زبان گنگ تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ ایک دن تم بہت اچھے اداکار بنو گے… اگر تم نے محنت اور لگن سے کام کیا تو… کیا تم اس کے لیے تیار ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں… ابھی اور اسی وقت۔‘‘ وہ آستینیں چڑھاتا ہوا بولا۔
٭…٭…٭
ٹوبی کو اداکاری کی کلاسیں بہت دلچسپ لگ رہی تھیں جن میں کچھ سینئر اور کچھ جونیئر تھیں۔ ایلس نے ٹوبی کو جونیئر کلاس میں رکھا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے ایک پختہ ایکٹر بننے کے لیے چھ ماہ کلاسیں لینے کی ضرورت تھی لیکن ٹوبی کی بے چین طبیعت کو یہ گوارا نہیں تھا۔ اس کے اندر چھپا ہوا فن کا سمندر خود کو نمایاں کرنے کے لیے بیتاب تھا مگر اسے اس کا موقع نہیں ملتا تھا۔
سالانہ ڈرامے کے موقع پر ٹوبی کا پریشانی سے برا حال تھا۔ یہ ڈرامہ دیکھنے کے لیے تھیٹر اور فلم کے مشہور اور منجھے ہوئے لوگوں کو بلایا جاتا تھا تاکہ وہ اداکاروں کے بارے میں اپنی رائے دیں اور اگر انہیں کسی کی اداکاری پسند آئے تو اسے اپنی فلم یا ڈرامے میں موقع دیں۔
ٹوبی کو اس بات سے شدید بے بسی کا احساس ہورہا تھا کیونکہ اسے ڈرامے میں کوئی کردار نہیں دیا گیا تھا۔ حاضرین میں بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے ہوئے اس کا رواں رواں بیتاب تھا کہ وہ فلم اور ڈرامے کی معروف شخصیات کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکے۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ دوڑ کر اسٹیج پر چڑھ جاتا اور اپنی بہترین فنکاری کو پیش کرکے سب کو حیران کردیتا۔ تالیوں کے شور اور دادوتحسین کے نعروں سے سارا ہال گونج اٹھتا اور بڑے بڑے ڈائریکٹر اپنی نشستوں سے اٹھ کر اسے داد دیتے۔
لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھا پیچ و تاب کھاتا رہا اور دوسرے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے جن کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ ان سے بہت بہتر کام کرسکتا ہے۔ اگلی صبح وہ ایلس کے آفس میں چلا گیا۔
’’تمہیں ڈرامہ پسند آیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ڈرامہ تو زبردست تھا۔ تمام اداکاروں نے بہت اچھا کام کیا۔‘‘ وہ مسکرا کر بولا۔ ’’میری سمجھ میں آگیا ہے ۔ تم کیوں کہتی ہو کہ میں ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘
’’ان لوگوں کا تجربہ تم سے زیادہ ہے۔ تم کچھ صبر کا مظاہرہ کرو۔ تم بھی ان اچھے اداکاروں میں شامل ہوجائوگے۔‘‘
’’پتا نہیں یہ کب ہوگا۔‘‘ ٹوبی نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’شاید مجھے اداکاری بھول کر انشورنس پالیسی فروخت کرنی چاہیے یا کوئی اور کام کرلینا چاہیے۔‘‘
ایلس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’نہیں۔ تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
ٹوبی نے اپنا سر جھٹکا۔ ’’میرا نہیں خیال کہ کبھی اس کا موقع ملے گا۔‘‘
’’نہیں۔ تمہیں بھی اس کا موقع ضرور ملے گا۔ تمہیں اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔‘‘ اس کی آواز میں جو جذبہ تھا ٹوبی اسی کا انتظار کررہا تھا۔ یہ گفتگو کا وہ موڑ تھا جہاں بات ایک استاد اور شاگرد میں نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ ایک عورت اور مرد کا مکالمہ تھا۔ ایک ایسی عورت جسے اس مرد کا خیال تھا، اس کی پروا تھی۔ ٹوبی کو اس احساس نے ایک خاص طرح کی آسودگی عطا کی۔
اس نے اپنے انداز میں کچھ اور زیادہ بے چارگی پیدا کی۔ ’’میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا ہے؟ میں اس شہر میں بالکل اکیلا ہوں۔ کوئی ایسا نہیں جس سے بات کرسکوں۔‘‘
’’تم مجھ سے بات کرسکتے ہو ٹوبی! تم مجھے اپنا دوست سمجھو۔‘‘ اس کے لہجے کی ملائمت نے ٹوبی کا حوصلہ بڑھایا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں کتنے ہی نئے اور انوکھے جذبے تھے۔ جب اس نے ایلس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔
اس کی نگاہوں نے ٹوبی کو اتنی جرأت بخش دی کہ اس نے آفس کا دروازہ اندر سے لاک کرلیا۔ وہ واپس اس کی میز کے قریب آیا۔ وہ یکایک گھٹنوں کے بل جیسے گر پڑا اور اپنے ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتا ہوا بولا۔ ’’میں بہت اکیلا ہوں۔‘‘
اسی شام وہ اپنا مختصر سا سامان لیکر ایلس کے فلیٹ میں منتقل ہوگیا۔
جب ایلس اس سے ذرا کھلی تو ٹوبی کو محسوس ہوا کہ وہ بھی اس کی طرح بہت تنہا تھی۔ وہ بھی کسی سے بات کرنے کے لیے ترس رہی تھی۔ اس کی بھی خواہش تھی کہ کوئی اس سے محبت کرے۔ کسی کو اس کی چاہت ہو اور وہ بھی اس کو ٹوٹ کر چاہے۔ اس کی زندگی کی کہانی بھی جیسے ناکامیوں کی داستان تھی۔ اس کا باپ ایک امیر آدمی تھا لیکن اس کےپاس ایلس کے لیے صرف دولت ہی تھی۔ وہ بہت کم گھر پر توجہ دیتا تھا۔
ایلس کو تھیٹر اور ڈرامے سے لگائو تھا۔ وہ ایکٹریس بننا چاہتی تھی۔ وہ کالج میں تھیٹر کا مضمون پڑھ رہی تھی کہ اچانک اس پر پولیو کا حملہ ہوا۔ اور اس کی ٹانگ بیکار ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی اداکارہ بننے کا سپنا ادھورا رہ گیا۔ اس کے منگیتر نے منگنی توڑ دی اور وہ بالکل تنہا ہوگئی۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
اپنی تعلیم مکمل کی اور اس ادارے کی بنیاد رکھی جو اس کی دن، رات کی محنت سے ایک ایسا ادارہ بن چکا تھا جس کی قدر کی جاتی تھی۔ فن کی دنیا میں اس کا بڑا نام تھا۔
اگرچہ ٹوبی کے ساتھ ایلس کی اچھی دوستی ہوگئی تھی لیکن جب وہ ادارے میں آیا تو وہ ایلس کے لیے وہی ٹوبی تھا جو ایک جونیئر اداکار تھا۔
ٹوبی کا خیال تھا کہ ایلس کے ساتھ محبت کا کامیاب ڈرامہ کھیلنے کے بعد وہ اسے بطور اداکار اہمیت دے گی۔ وہ ڈرامے میں اہم رول لینے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔ ایلس اپنے اصولوں میں اٹل تھی۔ وہ ان کے مطابق ہی کام کرتی تھی۔ اس نے ٹوبی پر واضح کردیا تھا کہ اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ بڑے کردار کے لیے اصرار نہ کرے۔ پہلا تاثر بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اگر وہ کسی مشہور ڈائریکٹر کو متاثر نہ کرسکا تو وہ اسے ہمیشہ کے لیے رد کردے گا۔
ٹوبی اس کی یہ بات سن کر بظاہر مسکراتا رہا۔ لیکن اس کے دل میں ایلس کی طرف سے گرہ سی پڑ گئی تھی۔ اس کے اندر نفرت بیدار ہوگئی تھی۔ وہ اسے اپنی دشمن معلوم ہونے لگی جو اس کی ترقی کے راستے میں حائل تھی لیکن وہ اس سے تعلقات خراب نہیں کرسکتا تھا۔ اسے مفت کی رہائش ملی ہوئی تھی۔ ایلس اس کے دل کی کیفیات سے بے خبر اس کی ناز برداری کرتے نہ تھکتی تھی۔ یہاں اسے ایک بڑا دھماکا کرنے کا موقع بھی مل سکتا تھا جو اسے اس کی منزل پر پہنچا سکتا تھا۔
کچھ روز بعد اس کا موقع مل گیا۔ ایلس نے جونیئر اداکاروں کو ایک شو منعقد کرنے کے لیے کہا تاکہ سینئر اداکار انہیں تنقیدی نگاہوں سے دیکھ سکیں۔ ہر اداکار کو اجازت تھی کہ وہ اپنا ذاتی شو تیار کرے۔ یہ ادارے کا ایک پرائیویٹ شو تھا جس میں باہر کے مہمانوں کو نہیں بلایا جاتا تھا۔
ٹوبی نے اپنا ون مین شو تیار کیا اور اس کی خوب اچھی طرح سے بار بار ریہرسل کی۔ اس نے اپنی ایک کلاس فیلو کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر ایک بڑے ڈائریکٹر کو اس تقریب میں مدعو کیا۔ سارا وقت وہ ڈرتا ہی رہا کہ وہ اتنا مشہور آدمی اس طرح اچانک بلانے پر آئے گا بھی کہ نہیں۔ لیکن جب شو شروع ہوا تو کچھ ہی دیر بعد ڈائریکٹر لارنس آکر حاضرین میں بیٹھ گیا۔ ٹوبی کا دل دھک دھک کرنے لگا کہ اس نے جو دائو کھیلا تھا، وہ کارگر ہوگا کہ نہیں… جیسے جیسے اس کی باری قریب آرہی تھی۔ اس کا حلق خشک ہوتا جارہا تھا اور وہ پسینے میں بھیگ رہا تھا۔ پہلے ایک ایک لمحہ بھاری ہورہا تھا۔ پھر وقت گزرا تو ٹوبی کو لگا کہ اس کی باری بہت جلدی آگئی ہے۔ وہ ابھی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ ایلس نہ جانے کہاں سے نمودار ہوگئی اور اس کے قریب آکر بولی۔ ’’گڈلک ڈارلنگ۔‘‘ وہ یقیناً یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی گڈلک تو حاضرین کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ ٹوبی نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ دل ہی دل میں دعا مانگی۔ اپنے شانوں کو سیدھا کیا اور قدرے لڑکھڑا کر اسٹیج پر پہنچا۔ اس نے ایک معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ حاضرین کو دیکھا۔
’’حاضرین! میرا نام ٹوبی ٹیمپل ہے۔ جب کسی نے میری ماں سے پوچھا کہ اس نے میرا نام ٹوبی کیوں رکھا ہے تو وہ بولی۔ جب میں نے اس کی مگ ایسی صورت دیکھی تو مجھے اس نام کے علاوہ کوئی اور نام نہیں سوجھا۔‘‘
اس پر کچھ لوگوں نے قہقہہ لگایا۔ ٹوبی کی گھبراہٹ آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی۔ اس نے اپنے اس شو کے لیے جو اسکرپٹ تیار کیا تھا وہ اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کررہا تھا۔ اس کا حاضرین کے ساتھ جیسے ایک رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ وہ اس کی مزاحیہ باتوں پر ہنسنے کے لیے تیار تھے۔ اس کے لطیفوں سے محظوظ ہورہے تھے۔ ہال میں ایک خوشگوار ماحول بن چکا تھا۔ ٹوبی اب زیادہ پُر اعتماد ہوگیا تھا اور اس کی اداکاری میں حقیقت کا رنگ بھرتا جارہا تھا۔
لیکن اچانک کیا ہوا؟ جس نے ٹوبی کو چکرا کر رکھ دیا۔ اس کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ اس کا اعتماد چورچور ہوگیا۔ وہ جس کی نگاہ میں آنے کے لیے یہ سب کچھ کررہا تھا۔ وہی حاضرین میں سے اٹھ کر چلا گیا اور جیسے اپنے ساتھ ٹوبی کا سارا حوصلہ اور اعتماد بھی لے گیا۔ باقی اسکرپٹ اس نے جیسے تیسے پورا کیا لیکن اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔
تقریب ختم ہوگئی تو ایلس نے اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ ’’ٹوبی! آج تو تم نے کمال کردیا۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ تمہیں فطرت نے اداکار بنا کر پیدا کیا۔ وہ سچ ثابت ہوا۔‘‘
ایلس کی زبان سے اتنی ستائش یقیناً بہت اہم تھی لیکن ٹوبی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنی پریشانی میں الجھا ہوا تھا۔ وہ کسی کی بات نہیں سننا چاہتا تھا۔ کسی کی طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ تنہا اپنے غم کے ساتھ اپنی کوتاہی پر خود کو ملامت کرنا چاہتا تھا۔ وہ غم جس نے اس کے سارے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ اس کی دنیا تہہ و بالا ہوگئی۔ تقدیر نے اسے موقع بھی دیا تھا لیکن اس نے اپنے ہی ہاتھوں اس موقع کو ضائع کردیا تھا۔
ڈائریکٹر لارنس اس کے شو کے دوران اٹھ کر چلا گیا تھا۔ اس نے اتنا بھی گوارا نہیں کیا تھا کہ اس کا شو ختم ہونے تک بیٹھا رہتا۔ وہ ایک منجھا ہوا ڈائریکٹر تھا۔ اسے صلاحیتوں کی پہچان تھی۔ اگر لارنس نے اسے کسی قابل نہیں سمجھا تھا تو اس کا مطلب تھا کہ اس کا فن بیکار محض تھا۔ اس کی کیفیت ابتر تھی۔
اس نے ایلس سے کہا۔ ’’میں ذرا چہل قدمی کے لیے جارہا ہوں۔‘‘ اور گھر سے باہر نکل آیا۔
وہ تمام رات بے مقصد سڑکوں پر گھومتا رہا۔ اس کے ذہن میں بار بار یہ سوال ہلچل مچا رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے گا۔ اس کی زندگی کے ستائیس سال ضائع ہوگئے تھے۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS