Monday, February 17, 2025

Millan | Episode 2

اس نے زندگی میں کوئی اور کام سیکھا بھی تو نہیں تھا۔ نہ ہی اس نے کوئی اور کام کرنے کا تصور ہی کیا تھا۔ اب وہ زندگی میں کچھ بھی کرتا رہے۔ کسی کو علم نہیں ہوگا کہ وہ کون ہے؟ اس طرح وہ ہزاروں لوگوں کی طرح ایک گمنام زندگی گزار کر مر جائے گا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ اپنی ناکام زندگی اور گمنام موت پر آنسو بہا رہا تھا۔
صبح ہونے والی تھی۔ جب وہ گھر واپس آیا، ایلس اپنے بیڈ روم میں سو رہی تھی۔ اب اس کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ یہاں سے چلا جائے گا۔ اس جادونگری میں اس کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ کہاں جائے گا؟ ابھی یہ بھی اس کے ذہن میں واضح نہیں تھا۔
اس نے ایک صوفے پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور زندگی کے جاگنے کی آوازیں سننے لگا۔ اسے اپنی ماں کی یاد آرہی تھی جو کچن میں اس کے لیے مزے مزے کے کھانے تیار کرتی تھی اور اسے یقین دلاتی رہتی تھی کہ وہ ایک روز ضرور بڑا آدمی بنے گا لیکن وہ ماں کا یہ خواب پورا کرنے میں ناکام رہا تھا۔
پھر شاید وہ سو گیا یا یونہی کوئی تصور اس پر حاوی ہوگیا جیسے وہ ہزاروں تماشائیوں کے سامنے اسٹیج پر اپنا شو کررہا ہے۔ اسٹیج روشنیوں سے نہایا ہوا ہے۔ لیکن اچانک وہ اپنا اسکرپٹ بھول گیا۔ ہزار کوشش کے باوجود اسے ایک لفظ یاد نہیں آرہا۔ لوگ ہوٹنگ کررہے ہیں۔ اس پر انڈے اور ٹماٹر پھینک رہے ہیں۔ خوف سے اس کا حلق خشک ہے۔ وہ پسینے میں نہایا ہوا ہے۔ اس کا سارا جسم لرز رہا ہے۔
’’ٹوبی… ٹوبی… ٹوبی!‘‘ کوئی اسے پکار رہا تھا، کوئی اس کا شانہ ہلا رہا تھا۔
اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ ایلس اس پر جھکی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا۔ ’’ٹوبی! تمہارا فون ہے۔ ڈائریکٹر کلفٹن لارنس تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
ڈائریکٹر لارنس کا آفس اتنا خوبصورت اور خوش ذوقی کا آئینہ دار تھا کہ ٹوبی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس کی سنہری بالوں والی دلکش سیکرٹری نے اس کے لیے چائے بنائی جو بہت ہی خوش ذائقہ اور خوشبودار تھی۔ اس آفس کی ہر بات ہی اسے مسحور کر رہی تھی۔ خاص طور پر چھوٹے قد کا وہ آدمی جو ایک آرام کرسی پر بیٹھا بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ ٹوبی سے قد میں چھوٹا تھا۔ اس کی شخصیت میں رعب اور متاثر کن عنصر تھا۔
ٹوبی نے قدرے عاجزی سے کہا۔ ’’میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کو اس تقریب میں بلانے کے لیے تھوڑی چالاکی کی تھی۔‘‘
لارنس اپنی گردن پیچھے جھکا کر ہنسا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ میں بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ تمہاری صلاحیتیں تمہارے اعصاب کا کتنا ساتھ دیتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تم اس میں کامیاب ہو۔‘‘
’’لیکن آپ تو اُٹھ کر چلے گئے تھے؟‘‘
’’تمہاری صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ساٹھ سیکنڈ کافی تھے۔‘‘
ٹوبی کو یوں لگا جیسے رات بھر کی اذیت کے بعد اس کی زندگی اسے پھر واپس مل گئی ہے۔ اس کے جذبات میں ایسی ہلچل مچی کہ اسے ایک لفظ بولنا بھی محال ہوگیا۔
لارنس کو اس کی کیفیت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر بولا۔ ’’دیکھو ٹوبی۔ میں نے تمہارے بارے میں سوچا ہے کہ تمہیں ٹریننگ دوں اور تمہارا مستقبل بنائوں۔‘‘
ٹوبی پر تو جیسے شادیِ مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ لارنس جیسا عظیم ڈائریکٹر اسے تربیت دینا چاہتا تھا۔ اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اس کے لیے کیا ہوسکتی تھی۔ ٹوبی کا دل چاہ رہا تھا کہ کھڑا ہوجائے اور چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ لارنس جیسا ڈائریکٹر اسے ٹریننگ دینا چاہتا ہے۔
وہ حیران سا لارنس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ٹوبی۔ یہ بات ذہن نشین کرلو کہ تمہیں وہی کچھ کرنا ہوگا جو میں تمہیں بتائوں گا۔ میں کسی کے مزاج کی پروا نہیں کیا کرتا۔ تم نے ایک مرتبہ بھی حد سے تجاوز کیا تو وہ تمہارا آخری دن ہوگا۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا؟‘‘
ٹوبی نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’سر! میں سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’ہاں تو سب سے پہلے تم سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ خود میں پیدا کرو۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’تمہارا تمام شو نہایت بودا اور گھٹیا تھا۔‘‘
ٹوبی ٹھٹھک گیا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے پیٹ میں زور دار ٹھوکر ماری ہے۔ وہ ساکت سا حیران پریشان ہوکر اس کی طرف تکنے لگا۔
لارنس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’وہ ایک ناپختہ شو تھا اور تم بھی ابھی ناپختہ ہو۔ میں تمہیں بتائوں گا کہ تمہیں اسٹار بننے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔‘‘
ٹوبی مبہوت سا ہوکر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’تمہارا اسکرپٹ بالکل ناکارہ تھا۔ تمہارا کوئی مخصوص اسٹائل نہیں۔ تمہاری حرکات و سکنات اور تمہارا فٹ ورک سب بیکار تھا۔‘‘ وہ اٹھ کر اس کے قریب آیا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’تم سوچ رہے ہو گے کہ اگر تم اتنے ہی بیکار ہو تو میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا ہے؟ تو اس کی وجہ بھی سن لو۔ میں نے تمہیں یہاں اس لیے بلایا ہے کہ تمہاری شخصیت ایسی ہے کہ کوئی رقم تمہیں نہیں خرید سکتی۔ جب تم اسٹیج پر آتے ہو تو تمہارے معصوم چہرے کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ لوگ تم سے محبت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور تم جانتے ہو کہ تمہاری یہ خوبی تمہارے کتنے کام آسکتی ہے۔‘‘
’’نہیں؟ یہ تو آپ مجھے بتائیں گے۔‘‘ ٹوبی نے گہرا سانس لے کر کہا۔
’’سنو۔ اپنی معصومیت، اچھے اسکرپٹ اور بہترین اداکاری کے ساتھ تم بہت جلد ایک اسٹار بن سکتے ہو۔‘‘
ٹوبی جیسے لارنس کے لفظوں میں کھو کر رہ گیا تھا۔ اس کا ایک ایک لفظ اسے نئی زندگی بخش رہا تھا۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اس کی ماں کا خواب پورا ہونے کا وقت آگیا تھا۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوگی۔ اس کی کامیابی دیکھ کر خوشی سے نہال ہوجائے گی۔ اس نے اپنی زندگی کے اتنے سال اس ایک لمحے کے انتظار میں گزار دیے تھے جو اس کی زندگی میں آنے والا تھا۔
’’کسی بھی مزاحیہ اداکار کے لیے اس کی شخصیت کامیابی کی چابی ہوتی ہے جو نہ خریدی جاسکتی ہے نہ اسے بنایا جاسکتا ہے۔ تم ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہو جو اس شخصیت کے ساتھ پیدا ہوئے ہو۔‘‘ اس نے اپنی قیمتی طلائی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ ’’میں نے آج دو بجے ہولان اور ریگن کو تم سے ملنے کے لیے بلوایا ہے۔ یہ دونوں مزاحیہ اسکرپٹ لکھنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وہ تمام بڑے مزاحیہ اداکاروں کے لیے اسکرپٹ لکھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میرے پاس تو انہیں دینے کے لیے…!‘‘
لارنس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ ’’فکر مت کرو۔ تم بعد میں اسے لوٹا دینا۔‘‘
٭…٭…٭
وہ دو بجے ہولان اور ریگن سے ملنے گیا تو اسے مایوسی ہوئی۔ اس کا خیال تھا کہ ان کا آفس بھی لارنس جیسا صاف ستھرا اور شاندار ہوگا لیکن یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ اتنے مشہور لکھنے والوں کا آفس ایک لکڑی کے کیبن میں تھا۔ جہاں صفائی کی حالت خاصی مخدوش تھی۔
ان دونوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج صفائی کرنے والی کی چھٹی ہے۔ وہ دونوں ہم عمر تھے اور تیس کے پیٹے میں معلوم ہوتے تھے۔ لارنس نے انہیں ٹوبی کے بارے میں بتا دیا تھا اسی لیے انہوں نے تعارف کے بغیر ہی اس سے فرمائش کی کہ وہ انہیں محظوظ کرے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ اس کے لیے کس قسم کا اسکرپٹ لکھنا ہوگا۔
ٹوبی نے اپنا سب سے اچھا اسکرپٹ پیش کرنا شروع کیا۔ تو چند ہی منٹ بعد وہ دونوں آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ وہ اس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ اس کی اداکاری میں کیڑے نکال رہے تھے۔ ’’اس بچے کو تو کھڑا ہونا بھی نہیں آتا۔‘‘
’’یہ اپنے ہاتھوں کو اس طرح استعمال کررہا ہے جیسے لکڑی کاٹ رہا ہے۔‘‘
’’اس کے لیے تو ایسا اسکرپٹ لکھنا پڑے گا جس میں لکڑی کاٹنے کا کوئی سین ہو۔‘‘
’’ایسا کرنا تو بہت مشکل ہے۔‘‘
ٹوبی بہت دیر تک ان کی یہ فقرے بازی برداشت کرتا رہا مگر کتنی دیر…! بالآخر وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ اس نے پیر پٹخ کر انہیں مخاطب کیا۔ اس کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔ ’’ذلیل انسانوں…! مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ تمہاری اس مہربانی کا شکریہ۔ میں جارہا ہوں۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھا۔
ریگن نے اسے پکڑ لیا۔ ’’یار ٹھہرو تو سہی۔ تمہیں علم نہیں کہ یہاں تمہارے ساتھ کیا کچھ ہوگا۔‘‘
دونوں نے ایسی باتیں کیں کہ ٹوبی کا غصے فرو ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی ان سے دوستی ہوگئی۔ وہ روزانہ ان کے ساتھ لنچ کرتا اور اسکرپٹ پر بات ہوتی۔ وہاں ٹوبی کو ہر روز بڑے بڑے مشہور اداکار بھی نظر آتے۔ جن کا اس نے صرف نام ہی سنا تھا لیکن یہاں وہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کے لیے ایسی جادو بھری دنیا تھی جس میں وہ کھو کر رہ گیا تھا۔
تقریباً تین ہفتے میں انہوں نے ٹوبی کے لیے اسکرپٹ تیار کرلیا۔ جب ٹوبی نے اسے پڑھا تو اس کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ اس کی توقع سے کہیں اچھا تھا۔ ان دونوں کے ساتھ مل کر اس نے ریہرسل کی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اسے بہترین انداز میں اسٹیج پر پیش کرسکتا ہے۔ اس کا رواں رواں اس کے لیے بیتاب تھا۔
پھر اسے لارنس نے بلا بھیجا اور بولا۔ ’’تم اس ہفتے کی رات بولن کلب میں اپنا شو کرو گے۔‘‘
’’بولن کلب!‘‘ ٹوبی نے دہرایا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کسی بہت مشہور جگہ اپنا شو پیش کرے گا۔ اس نے مایوس سے لہجے میں کہا۔ ’’میں نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا۔‘‘
’’اور ان لوگوں نے بھی کبھی تمہارا نام نہیں سنا۔ اگر تم اچھی پرفارمنس نہ دے سکے تو کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہیں ہوگی۔‘‘
٭…٭…٭
بولن کلب ایک تیسرے درجے کا سستا سا کلب تھا۔ جہاں زیادہ تر عام کارکن تھے۔ جو مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے تھے اور یہاں آکر اپنی دن بھر کی تھکن اتارتے تھے۔ ایک طرف چھوٹا سا اسٹیج تھا ۔جہاں تین افراد پر مشتمل بینڈ شوخ دھنیں بجا رہا تھا۔ کچھ گلوکار، کچھ ڈانسر باری باری اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے۔ لوگوں کے باتیں کرنے اور قہقہے لگانے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
ٹوبی پچھلے کمرے میں لارنس، ہولان اور ریگن کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ تماشائیوں کے موڈ کا اندازہ لگا رہا تھا۔ اس کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی۔
’’یہ تو بہت ہی عجیب تماشائی ہیں۔‘‘ اس نے پریشانی سے کہا۔
’’یقیناً وہ عجیب ہیں لیکن اگر تم نے ان لوگوں کو متاثر کرلیا جو دن بھر محنت کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ شام کو اس لیے یہاں آتے ہیں کہ تھوڑی سی تفریح حاصل کرسکیں۔ پھر تم کسی کو بھی ہنسا سکتے ہو۔‘‘
چند ہی لمحوں بعد ٹوبی کا نام پکارا گیا۔ تماشائیوں کے انداز دیکھ کر وہ کچھ گھبرا گیا تھا۔ لیکن لارنس اور دونوں ساتھیوں پر کچھ ظاہر کیے بغیر وہ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس کی طرف دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے تھے۔
ٹوبی کا حلق خشک ہوگیا۔ اسے منہ سے کوئی لفظ نکالنا محال ہوگیا۔ لیکن اس نے ہمت کرکے اپنے اسکرپٹ کی ادائیگی شروع کردی۔ لوگوں کے بولنے کا شور اس کی آواز پر حاوی ہو رہا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی بولتا رہا۔ ان بے تاثر چہروں اور لاتعلق رویّے کی پروا کیے بغیر کہ اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
اسے دور سے لارنس، ہولان اور ریگن کے فکرمند چہرے نظر آرہے تھے جو اسے مزید مایوس کررہے تھے لیکن وہ پھر بھی اپنی زندگی کے لیے ہاتھ، پائوں مار رہا تھا۔ اپنی آنکھ کے ایک گوشے سے اس نے دیکھا کہ منیجر بینڈ کی طرف بڑھ رہا ہے کہ انہیں موسیقی شروع کرنے کے لیے کہے تاکہ ٹوبی کا ناکام شو ختم ہوجائے۔
ٹوبی اتنا گھبرا گیا کہ اس کے منہ سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکلنے لگے۔ کبھی وہ آپس میں گڈمڈ ہوجاتے اور کبھی کسی لفظ کے بجائے کوئی دوسرا لفظ اس کے منہ سے نکل جاتا۔ اس میں لارنس اور دونوں لکھاریوں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ وہ ندامت کے پسینے میں غرق ہوتا جارہا تھا۔ منیجر بینڈ والوں سے کوئی بات کر رہا تھا۔ وہ اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔
ٹوبی نے خود کو بچانے کے لیے پورا زور لگا دیا۔ وہ پاگلوں کی طرح بولتا جارہا تھا۔ اپنی پوری طاقت کے ساتھ کہ اگر بینڈ اپنی موسیقی شروع کردیتا تو بھی اس کی آواز ان پر حاوی ہوتی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ یہاں سے بھاگ کر کہیں چھپ جائے۔
اچانک اس نے دیکھا کہ ایک درمیانی عمر کی عورت جو اسٹیج کے بالکل سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے کسی لطیفے پر زور سے ہنس پڑی۔ اس کے ساتھی نے اسٹیج کی طرف دیکھا اور غور کیا کہ اس کی ساتھی کیوں کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔
چند لمحے ٹوبی کی مزاحیہ گفتگو سننے کے بعد اسے بھی ہنسی آگئی۔ ان کے ساتھ والی میز پر بیٹھا ہوا جوڑا انہیں ہنستے دیکھ کر ٹوبی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی گفتگو، اس کے ہونق چہرے کو دیکھ کر وہ بھی ہنس پڑے۔
پھر اس کے ساتھ والی میز پر بیٹھے ہوئے لوگ ہنسے پھر کچھ اور تماشائیوں کی ہنسی ان میں شامل ہوئی۔ باتوں کا شور ختم ہوگیا اور لوگ ٹوبی کی باتیں غور سے سننے لگے۔
پھر ہال میں لگاتار قہقہے سنائی دینے لگے۔ اپنی باتوں میں مگن لوگ باقاعدہ تماشائی بن گئے۔ اب ٹوبی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ لوگ معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے لیے ان کے قہقہوں کی اہمیت تھی جو سارے ہال میں سمندر کی لہروں کی طرح بڑھتے، پھیلتے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ پہلے پریشانی کے مارے اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ اب خوشی اور جوش کی وجہ سے وہ ہانپ رہا تھا۔ تماشائی پہلے قہقہے لگا رہے تھے۔ پھر وہ چیخنے لگے خوشی کے مارے۔ انہوں نے کبھی ایسا شو نہیں دیکھا تھا۔ ایسے لطیفے اور ایسے مزاحیہ فقرے نہیں سنے تھے۔ ان کے شور سے چھت اڑنے لگی اور ان کی پسندیدگی اور محبت ان کی آنکھوں میں نظر آنے لگی۔
لارنس اور دونوں لکھنے والوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ٹوبی کو محسوس ہورہا تھا جیسے اس کی قسمت کے دروازے کھل گئے ہیں۔
٭…٭…٭
لارنس نے ٹوبی کا اگلا شو بھی ایک گمنام ہوٹل میں کیا تھا لیکن اس نے اس شو میں ایک مشہور ڈائریکٹر ڈک کو بھی مدعو کیا تھا۔ ٹوبی اونچی ہوائوں میں اڑ رہا تھا۔ اسے ہوٹل کا نام سن کر مایوسی ہوئی۔ ’’میں نے اس ہوٹل کا نام کبھی نہیں سنا۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ لارنس مسکرایا۔ ’’انہوں نے بھی تمہارے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ وہ تمہیں بک نہیں کررہے۔ دراصل وہ مجھے بک کررہے ہیں۔ انہوں نے مجھ پر اعتبار کیا ہے کہ تم بہت اچھے کامیڈین ہو۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں۔ میں آپ کے لفظوں کی لاج رکھوں گا۔‘‘
ٹوبی نے جب یہ خبر ایلس کو سنائی تو وہ بے حد خوش ہوئی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ تم ایک روز بہت بڑے اسٹار بنو گے۔ تمہارا وقت آگیا ہے۔ لوگ تمہارے کام کو پسند کریں گے۔ وہ تم سے محبت کریں گے ڈارلنگ!‘‘ پھر وہ تھوڑے توقف کے بعد بولی۔ ’’مجھے بتائو کہ جانا کب ہے اور میں اس تقریب میں کون سا لباس پہنوں۔ جہاں ایک نوجوان مزاحیہ فنکار اپنی بہترین پرفارمنس دے گا۔‘‘
ٹوبی گڑبڑایا۔ ’’اوہ ایلس! میں تمہیں نہیں بتا سکتا کہ میری کتنی خواہش تھی کہ تم بھی میرے ساتھ چلتیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے تمام رات اور تمام دن اپنے اسکرپٹ پر کام اور ریہرسل کرنا ہے۔‘‘
وہ اپنی مایوسی چھپاتے ہوئے بولی۔ ’’ہاں۔ میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں۔ لیکن تم کتنے دنوں کے لیے جارہے ہو؟‘‘
’’ابھی میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ یہ تو مسٹر لارنس کو پتا ہوگا۔‘‘
’’اچھا۔ پھر فون تو کرو گے نا… جب بھی تمہیں فرصت ملے گی۔‘‘
’’یقیناً… یقیناً۔‘‘ وہ بولا اور اس کی طرف ہاتھ ہلاتا ہوا بلکہ ناچتا ہوا دروازے سے نکل گیا۔
نئے شہر کو دیکھ کر اسے لگا کہ اس کی فضا اس کے اندر ایک خاص قوت پیدا کر رہی ہے۔ اس کے اندر سلگتا ہوا شعلہ جیسے بھڑک کر ایک الائو بن گیا تھا۔ ٹوبی کے ساتھ دونوں لکھاری بھی تھے۔ وہ ایئرپورٹ پر پہنچے تو ہوٹل والوں کی لیموزین ان کے انتظار میں تھی۔ ٹوبی پہلی بار اس جادو نگری کی شان و شوکت کا لطف اٹھا رہا تھا جو اپنی بانہیں کھولے اس کے انتظار میں تھی۔
وہ اس گاڑی کی دبیز سیٹ میں دھنس گیا۔ شوفر نے بڑی عزت کے ساتھ اس سے پوچھا۔ ’’مسٹر ٹوبی! کیا آپ کا سفر خوشگوار رہا؟‘‘
’’ہمیشہ کی طرح بور!‘‘ ٹوبی نے بے نیازی سے جواب دیا اور دونوں لکھاریوں کے ساتھ مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ وہ تینوں ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے۔
یہ ہوٹل دوسرے معروف ہوٹلوں سے کچھ دور واقع تھا لیکن اس کی بلڈنگ خوبصورت اور شاندار تھی اور سب سے بڑی یہ بات جسے دیکھ کر ٹوبی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا کہ ہوٹل کے سامنے کے حصے میں بڑا سا ہال تھا۔ جس کے باہر ایک بڑے بورڈ پر لکھا تھا۔
’’مس للی ویلس اور مسٹر ٹوبی ٹیمپل‘‘
ٹوبی کا نام بڑے بڑے لفظوں میں چمک رہا تھا اور بورڈ کئی سو فٹ کی بلندی پر آویزاں تھا۔ ٹوبی کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی چیز حسین نہیں تھی۔
ہوٹل کا منیجر بہ نفس نفیس ٹوبی کو اس کا سوئٹ دکھانے کے لیے آیا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’مسٹر ٹوبی!
میں بتا نہیں سکتا کہ یہ ہمارے لیے کتنی عزت کی بات ہے کہ آپ ہمارے ہوٹل میں آئے ہیں۔ آپ کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو۔ مجھے کال کرلیں۔‘‘
ٹوبی کو اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ سب عزت افزائی لارنس کی وجہ سے ہے۔ یقیناً منیجر سوچ رہا تھا کہ لارنس کی وجہ سے بڑے بڑے اسٹار ان کے ہوٹل میں آتے رہیں گے۔ جو ان کے بزنس کی ترقی میں معاون ہوں گے۔ سوئٹ اتنا بہترین تھا کہ ٹوبی نے کبھی خواب میں بھی کسی ایسی شاندار جگہ رہنے کا تصور نہیں کیا تھا۔ تین بیڈ روم، ایک بڑا لائونج، کچن اور بہت کچھ…! لائونج میں موجود بڑی میز پر پھولوں کا ایک تروتازہ گلدستہ اور خوش رنگ تازہ پھلوں کی ایک ٹوکری رکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ فریج میں بھی بہت کچھ بھرا ہوا تھا جو انتظامیہ کی طرف سے تھا۔
’’امید ہے آپ کو یہ سب پسند آئے گا۔‘‘ منیجر نے انکساری سے کہا۔
ٹوبی نے چاروں طرف ان بہترین چیزوں کو دیکھا۔ اسے وہ سستے ہوٹل اور ان کے گندے کمرے یاد آئے جن میں وہ اب تک قیام کرتا آیا تھا۔ پھر اس نے بے نیازی سے سر ہلایا۔ ’’ہاں۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’کوئی بھی چیز چاہیے ہو۔ مجھے کال کرلیں۔‘‘ منیجر نے جھک کر تعظیم دی اور چلا گیا۔
ٹوبی بہت دیر تک اس خوبصورت جگہ اور پُرلطف آسائشوں کو دیکھ دیکھ کر لطف لیتا رہا۔ یہ خیال اسے خوشی سے سرشار کر رہا تھا کہ اب اسے ایسے ہی عمدہ اور شاندار ماحول میں رہنا ہے۔ یہی اس کی دنیا ہوگی۔ جہاں وہ ایک ہیرو کی طرح بڑی شان سے رہے گا۔ لوگوں کی چاہتیں، ان کی محبتیں، ان کی داد و تحسین، ان کی ستائش، ان کے قہقہے سبھی کچھ اس کے لیے ہوگا۔ یہی داد و عیش اس کی غذا تھی۔ اس کے لیے تازہ ہوا اور آکسیجن تھی جس کے بغیر وہ جی نہیں سکتا تھا۔
ڈائریکٹر ڈک سے مل کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسٹیج کی دنیا میں خاص مہارت رکھتا تھا۔ لارنس کے کہنے پر وہ اپنی کچھ مصروفیات ترک کر کے یہاں آیا تھا۔ اس نے ٹوبی پر خاص توجہ دی۔ اس کے لیے نئے اسکرپٹ لکھوائے، اسے گانا اور ناچنا سکھایا۔ وہ اس کے لیے گانے بھی تیار کروا رہا تھا۔
ٹوبی نے گلوکاری کے اسباق بھی باقاعدگی سے لیے تھے۔ وہ اتنا سُر میں نہیں تھا۔ ڈک کا خیال تھا کہ اسے گلوکاروں کی طرح بہترین گانا نہیں گانا ہوگا۔ اسے اپنے شو کے درمیان اسکرپٹ سے مطابقت رکھتے ہوئے مزاحیہ اور بے سُرے گانے ہی گانے تھے۔ اس کی تیاری زوروشور سے جاری تھی۔
تقریباً ہر روز ایلس کی طرف سے پیغام آتا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ اس کی ٹیلیفون کال کے بارے میں بھی اطلاع دیتی تھی۔ لیکن ٹوبی کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ اس کی راہ میں حائل رہی تھی۔ اگر وہ خود کوشش نہ کرتا تو یہاں تک کبھی نہیں پہنچتا۔ اب اسے ایلس کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے ایلس کی کسی کال کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ اس کی کال اور پیغامات آنے بند ہوگئے۔
٭…٭…٭
ٹوبی کی ریہرسلز جاری رہیں اور پھر اچانک ہی شو کی رات آگئی۔ جب ایک نئے ستارے کا جنم ہونے والا تھا۔ سب سے انوکھی بات یہ تھی کہ کسی غیر محسوس طریقے سے یہ خبر اردگرد کے شہروں میں پھیل گئی تھی۔ اکثر تھیٹروں میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ جب ٹوبی اسٹیج پر آیا تو سارا ہال مشتاق چہروں سے بھرا ہوا تھا۔ اتنے عرصے کی تیاری کے بعد ٹوبی پُراعتماد تھا۔ اس کے پہلے پانچ منٹ کی ادائیگی نے ہی یہ اعلان کردیا کہ فن کے افق پر ایک نیا روشن ستارہ طلوع ہوگیا ہے۔
لارنس خاص طور پر ٹوبی کے شو کے لیے آیا تھا جس نے ٹوبی کو بڑی تقویت دی تھی۔ وہ لارنس کے روبرو اپنی کامیابی پر بہت مسرور تھا۔ شو ختم کرکے جب ٹوبی اس کے ساتھ کافی شاپ میں بیٹھا تو اس نے خوشی کے لہجے میں کہا۔ ’’میں حیران تھا کہ اتنے بڑے بڑے لوگ میرا شو دیکھنے آئے ہیں۔ جب وہ بعد میں میرے ڈریسنگ روم میں مجھے مبارکباد دینے کے لیے آئے تو میں بس مرنے والا ہی ہوگیا تھا۔‘‘
لارنس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’لوگ سچے فن کی قدر کرتے ہیں۔ وہ فطری صلاحیت کو بہت جلد پہچان جاتے ہیں۔ یہ ہوٹل والے بھی تمہارے فن کے معترف ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ نیا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں تمہارے معاوضے میں پُرکشش اضافہ کیا جارہا ہے۔‘‘
معاوضے کا سن کر ٹوبی کے ہاتھ سے چمچ گر گیا۔ ’’یہ تو بہت زبردست خبر ہے لارنس۔‘‘
’’میں دو اور ہوٹلوں میں بھی تمہارے لیے معاہدہ کررہا ہوں۔‘‘
’’دو اور ہوٹل…‘‘ ٹوبی کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں مزید پھیل گئیں۔
’’گھبرائو نہیں۔ مجھے علم ہے کہ تم یہ سب کرسکتے ہو۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’اچھا میں چلتا ہوں۔ مجھے آدھے گھنٹے بعد فلائٹ پکڑنی ہے۔‘‘
’’تم پھر کب آئو گے۔‘‘ ٹوبی نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’چند ہفتوں بعد۔‘‘ وہ تھوڑا اس کی جانب جھک کر بولا۔ ’’سنو۔ ٹوبی۔ یہاں تمہارے پاس دو ہفتے ہیں۔ اس عرصے کو تم ایک اسکول کے طالب علم کی طرح گزارو۔ ہر رات جب تم اسٹیج پر جائو تو پہلے سے بہتر پرفارمنس دو۔ میں نے ہولان اور ریگن کو منا لیا ہے کہ وہ تمہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ وہ تمہارے ساتھ کام کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ڈک سے بھی رابطہ رکھنا تاکہ وہ وقتاً فوقتاً آکر تمہیں ہدایات دیتا رہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں اس کا خیال رکھوں گا۔ لارنس تم نے میرے لیے جو کیا ہے۔ اس کے لیے شکریہ کا لفظ بہت چھوٹا ہے۔‘‘
’’اوہ۔ کوئی بات نہیں۔ اسے تم بھول جائو۔‘‘ لارنس نے بے نیازی سے کہا۔ پھر اس نے اپنی جیب سے ایک پیکٹ نکال کر ٹوبی کو دیا۔ اس نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی نفیس ہیرے کے کف لنکس تھے جو ستارے کی شکل کے تھے۔
٭…٭…٭
ٹوبی فارغ وقت میں عموماً سوئمنگ پول پر چلا جاتا جو ہوٹل کے عقب میں تھا۔ وہ چیئر پر بیٹھ کر اپنے اعصاب کو آرام پہنچاتا اور خود کو آسودہ کرنے کی سعی کرتا تھا۔
ہوٹل میں مختلف شوز میں کام کرنے والی پچیس لڑکیوں میں سے عموماً درجن بھر لڑکیاں ضرور یہاں موجود ہوتی تھیں جو دھوپ سینکتی اور تالاب میں جل پریوں کی طرح اٹکھیلیاں کرتی نظر آتی تھیں۔ وہ سب ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں۔ کھلے ہوئے رنگ برنگے پھولوں کی طرح…!
ٹوبی کو ان سے راہ و رسم بڑھانے میں کبھی دقت نہیں ہوئی تھی۔ یہ اس کے لیے ایک نیا خوشگوار تجربہ تھا۔ وہ ایک اسٹار تھا اور اس کا نام اونچے بورڈ پر لکھا ہوا، رنگ برنگی روشنیوں میں جگمگاتا تھا۔ یہی اسے اہم بنانے کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے یہ خوبصورت حسینائیں اس کی نگاہِ التفات حاصل کرنے کے لیے بیتاب رہتی تھیں۔
ٹوبی کے یہ دو ہفتے بہت ہی عیش میں گزرے۔ اس کے شو بہت کامیاب تھے اور وہ ان حسینائوں کے درمیان راجہ اِندر بنا رہتا تھا۔ ہر لڑکی یہی سمجھتی تھی کہ وہ اسے سب سے زیادہ چاہتا ہے۔ حالانکہ اس نے کبھی ان کے نام معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی۔ وہ ان کو مختلف ناموں سے پکارتا تھا۔ کبھی بے بی، کبھی ہنی، کبھی ڈارلنگ تو کبھی سوئٹ ہارٹ اور وہ سب اسی میں خوش اور نہال رہتی تھیں کہ انہیں اتنے بڑے اسٹار کی قربت حاصل تھی۔
ٹوبی کا آخری ہفتہ قریب الاختتام تھا۔ وہ شو کے بعد ڈریسنگ روم میں اپنا میک اَپ اتار رہا تھا کہ اسٹوڈیو کا دروزہ کھلا اور ایک پیغام ملا۔ ’’مسٹر ٹوبی! کراسکو ڈائننگ روم
میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
ٹوبی چونکا۔ اس کے اندر ہلچل سی مچ گئی۔ اتنے دنوں میں اسے شہر کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوچکی تھیں۔ کراسکو شہر کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ ایک بڑے شاندار ہوٹل کا مالک تھا۔ باقی ہوٹلوں میں بھی اس کے حصص تھے۔ اس کے بارے میں یہ افواہ بھی مختلف حلقوں میں گردش کرتی رہتی تھی کہ اس کا زیرِ زمین دنیا سے بھی رابطہ ہے۔ ٹوبی کو امید تھی کہ اتنے بڑے بزنس مین کے ساتھ اگر اس کا کوئی معاہدہ ہوجاتا ہے تو وہ برسوں اس شہر میں رہ سکتا ہے۔ اس نے جلدی جلدی میک اَپ اتارا، لباس بدلا اور تیز قدموں سے ہوٹل کے ڈائننگ روم کی طرف بڑھا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
کراسکو اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا۔ وہ پچاس سال کے پیٹے میں گرے بالوں اور چمکتی ہوئی آنکھوں والا ایک تیز طرار انسان تھا۔ اس نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ ’’میں کراسکو ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ میری تمہارے بارے میں کیا سوچ اور کیا رائے ہے۔‘‘
اس کی میز پر دو اور لوگ بھی تھے۔ جنہوں نے گہرے رنگوں کے سوٹ پہن رکھے تھے۔ دونوں کے بال گھنگھریالے تھے۔ وہ دونوں تمام ملاقات کے دوران بالکل خاموش بیٹھے مشروب پیتے رہے۔ انہوں نے گفتگو میں بالکل حصہ نہیں لیا۔
’’نوجوان…! میں تمہاری کارکردگی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔‘‘ کراسکو بولا۔ ’’واقعی بہت متاثر کن۔‘‘ وہ برائون شریر آنکھوں سے ٹوبی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
’’شکریہ مسٹر کراسکو! آپ کی حوصلہ افزائی کا۔‘‘ ٹوبی ممنون لہجے میں بولا۔
’’تمہارا مستقبل بہت روشن ہے… میں نے بہت سے فنکاروں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے۔ لیکن ایک حقیقی اور فطری فن کی زندگی دیرپا ہوتی ہے اور تمہارے پاس وہ فن ہے۔‘‘
ٹوبی نے ممنون انداز میں سر ہلایا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اسے لارنس کو اس کی خبر کرنی چاہیے یا نہیں لیکن پھر اس نے یہی فیصلہ کیا کہ اسے یہ تمام بات چیت خود ہی کرنی چاہیے کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ کراسکو اس کا بہت گرویدہ ہے۔
کراسکو نے پہلی پیشکش کی جسے ٹوبی نے درخور اعتنا نہیں سمجھا تو وہ مزید کاروباری انداز میں آیا اور اپنا آپ دکھانے لگا۔ ’’میں تو حیران رہ گیا ہوں کہ تمہاری یہ بندر ایسی نقالی ایسی زبردست چیز ہے۔ جسے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ تم میرے بارے میں اس طرح سوچتے ہو۔‘‘ ٹوبی نے انکساری سے جواب دیا۔
وہ یکدم زور سے ہنس پڑا اور اتنا ہنسا کہ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں پانی آگیا۔ اس نے جیب سے سفید رومال نکال کر اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے ان دونوں ساتھیوں سے کہا۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ وہ بہت مزاحیہ آدمی ہے۔‘‘
ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر وہ ٹوبی کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟‘‘
یہ وہ جادو بھرا لمحہ تھا جو ٹوبی کے سامنے اچانک آکھڑا ہوا تھا۔ لارنس اس وقت نہ جانے کہاں مصروف تھا۔ اگر اس وقت وہ یہاں ہوتا تو بہت اچھی بات ہوتی۔ لیکن اب تو سب کچھ ٹوبی کو ہی کرنا تھا۔
لیکن اسے یقین تھا کہ جب وہ آئے گا تو یہ سب اس کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث ہوگا۔ وہ اس کے اعتماد اور معاملہ فہمی کی داد دے گا۔ ٹوبی اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔‘‘
’’میں اس لیے آیا ہوں کہ مائیلو تم سے محبت کرتی ہے۔‘‘
ٹوبی ٹھٹھک گیا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کو کئی بار جھپکا کہ کہیں اس نے کچھ غلط تو نہیں سن لیا۔ کراسکو بڑے غور سے اس کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا ہو۔
آخر ٹوبی نے معذرت کرتے ہوئے دوبارہ پوچھ لیا۔ ’’میں سمجھا نہیں۔ آپ نے کیا کہا۔‘‘
کراسکو نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’مائیلو تم سے پیار کرتی ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے۔‘‘
ٹوبی سوچ میں پڑ گیا کہ مائیلو کون ہوسکتی تھی۔ اس کی بیوی یا اس کی بیٹی؟ وہ اس سے سوال کرنا چاہتا تھا کہ کراسکو نے خود ہی اسے بتا دیا۔
’’وہ ایک زبردست لڑکی ہے۔ میرے ساتھ تین چار سال سے ہے۔‘‘ وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پوچھنے لگا۔ ’’چار سال؟‘‘
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
کراسکو پھر اس کی طرف پلٹا۔ ’’مجھے اس لڑکی سے محبت ہے۔ ٹوبی! میں اس کے لیے پاگل ہوں۔‘‘
ٹوبی کچھ گھبرایا۔ وہ کیا کہہ سکتا تھا۔ اس لیے خاموش رہا۔
کراسکو بولا۔ ’’بیوی سے طلاق کے بعد وہ میری زندگی میں آئی ہے۔ ہم شادی کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہتے مگر اس دوران ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کبھی دھوکا نہیں دیں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بے وفائی نہیں کریں گے۔‘‘ اس نے مسکرا کر ٹوبی کی طرف دیکھا۔
نہ جانے کیوں ٹوبی کے اندر سردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے کہنا چاہا۔ ’’مسٹر کراسکو…!‘‘
کراسکو اس کی بات کاٹ کر بولا۔ ’’تم جانتے ہو کہ تم وہ پہلے مرد ہو جس کی خاطر اس نے مجھے دھوکے میں رکھا ہے۔‘‘ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹ کر بولا۔ ’’کیوں یہ سچ ہے نا…؟‘‘
انہوں نے بغیر کچھ کہے۔ پھر اثبات میں سر ہلا کر اس کی تائید کی۔
جب ٹوبی نے ہمت کر کے بات کی تو اس کی آواز لرز رہی تھی۔ ’’میں قسم کھاتا ہوں کہ مجھے ایسی کسی لڑکی کے بارے میں علم نہیں… کچھ لڑکیوں کے ساتھ میری دوستی ہے۔ مگر مجھے نہیں معلوم کہ مائیلو کون ہے؟‘‘
کراسکو مسلسل کڑی نگاہ سے اس کی جانب تکتا ہوا بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ تم میری بات دھیان سے نہیں سن رہے۔‘‘
’’نہیں… نہیں!‘‘ ٹوبی خشک حلق تر کر کے بمشکل بولا۔ ’’میں تمہاری بات سن رہا ہوں۔ ایک ایک حرف اور تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئندہ میں کبھی اس کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔‘‘
کراسکو فیصلہ کن لہجے میں بولا۔ ’’میں نے تمہیں بتایا ہے نا کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ اگر وہ تمہیں حاصل کرنا چاہتی ہے تو میں اس کی یہ خواہش یقیناً پوری کروں گا۔ میں اسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں اس سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتا ہوں۔‘‘
ٹوبی کا دماغ چکرا رہا تھا۔ یہ سوچ کر ہی اس کی گھگھی بندھ گئی تھی کہ یہ شخص اور اس کے یہ غلام اس سے انتقام لینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن کراسکو کی بات سن کر اسے حوصلہ ہوا۔ اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’کراسکو…! جس طرح تم چاہو۔‘‘
’’نہیں۔ جو مائیلو چاہے گی۔‘‘
’’ہاں۔ جو مائیلو چاہے۔‘‘ ٹوبی اس کی بات دہرانے پر مجبور تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔‘‘ کراسکو بولا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’کیا میں نے صحیح کہا ہے کہ ٹوبی ایک اچھا انسان ہے۔‘‘
دونوں نے مستعدی سے سر ہلایا اور مشروب پیتے رہے۔
کراسکو اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کے ساتھی بھی پلک جھپکتے میں اٹھے اور اس کے دونوں جانب کھڑے ہوگئے۔ ’’میں یہ شادی خود اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ ہم سب سے بڑا ہال کرائے پر حاصل کریں گے۔ تمہیں کسی بات کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں سارے انتظامات کروں گا۔‘‘
ٹوبی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی آواز بہت دور سے آرہی تھی۔ اس نے ہمت کر کے کہا۔ ’’ایک منٹ… لیکن میں یہ…‘‘
کراسکو نے اپنا بھاری ہاتھ یوں زور سے ٹوبی کے شانے پر رکھا کہ ٹوبی کو لگا جیسے اس کا شانہ نکل گیا ہے۔ ’’سنو ٹوبی! تم بہت خوش قسمت انسان ہو۔ اگر مائیلو مجھے قائل نہ کرلیتی کہ تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو اور مجھے پتا چلا کہ تم صرف اس کے ساتھ فریب کر رہے تھے تو میرا خیال ہے کہ اس بات کا انجام اس سے بہت مختلف ہوگا۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا…‘‘
ٹوبی کی نگاہ غیر ارادی طور پر ان دونوں پر پڑی جو کراسکو کی ہر بات کی تائید کر رہے تھے۔ وہ کانپ گیا۔ اسے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
’’تم ہفتے کی رات کا شو ختم کرلو۔‘‘ کراسکو قطعی لہجے میں بولا۔ ’’ہم اتوار کو شادی رکھ لیتے ہیں۔‘‘
ٹوبی ہکلایا۔ ’’کراسکو۔ بات یہ ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ابھی میری کچھ بکنگ…!‘‘ وہ اپنی بات پوری نہیں کرسکا اور اس کا حلق خشک ہوگیا۔
’’کوئی بات نہیں۔ انتظار کرلیں گے۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میں مائیلو کا عروسی جوڑا خود لینے جائوں گا۔ اچھا ٹوبی! گڈ نائٹ…!‘‘
ٹوبی بت بنا دیر تک اس طرف دیکھتا رہا جس طرف وہ تینوں گئے تھے۔ اس میں ہلنے کی سکت بھی نہیں تھی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ جانتا تک نہیں تھا کہ مائیلو کون تھی۔
٭…٭…٭
صبح تک ٹوبی کافی سنبھل چکا تھا۔ اس اچانک افتاد نے اسے پریشان تو بہت کیا تھا لیکن صبح اس نے ہمت باندھ لی تھی۔ بھلا کوئی اسے زبردستی شادی کرنے پر کس طرح مجبور کرسکتا تھا۔ کراسکو کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ وہ ایک بڑے ہوٹل کا مالک تھا اور معاشرے میں معزز سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال سخت مضحکہ خیز تھی۔
ٹوبی جیسے جیسے اس کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کی مضحکہ خیزی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ اس کے ذہن میں ایک نئے اسکرپٹ کی بنیاد بن رہی تھی۔ یہ اسکرپٹ تماشائیوں کے لیے مسلسل قہقہوں کا سامان فراہم کرسکتا تھا۔
اگلے تمام ہفتے ٹوبی سوئمنگ پول سے دور ہی رہا اور ان لڑکیوں سے بھی جو یہاں وہاں اس کے اردگرد منڈلاتی رہتی تھیں۔ اسے کراسکو ڈرا نہیں سکتا تھا لیکن اسے خواہ مخواہ خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے دل ہی دل میں پوری منصوبہ بندی کرلی تھی۔
وہ دوپہر کی فلائٹ سے اس شہر سے نکل جائے گا۔ اس نے کرائے کی گاڑی کا انتظام کرلیا تھا جو ہوٹل کے پچھلے دروازے سے اسے لے جائے گی۔ اس نے اپنا سامان بھی باندھ لیا تھا کہ شو ختم کرتے ہی وہ ہوٹل سے نکل جائے۔ وہ کچھ عرصے اس شہر سے کوسوں دور رہے گا۔ اگر کراسکو نے کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو اسے امید تھی کہ لارنس معاملہ سنبھال لے گا۔
ٹوبی کا یہ آخری شو اتنا زبردست ثابت ہوا کہ آخر میں تماشائیوں نے کھڑے ہوکر اسے داد دی۔ وہ اسٹیج پر کھڑا تماشائیوں کی اس داد و تحسین اور محبت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس نے خم ہوکر ان سے رخصت لی اور تیز قدموں سے زینہ طے کر کے اوپر پہنچا۔
یہ اس کی زندگی کے کامیاب ترین تین ہفتے تھے جن میں وہ ایک گمنام، مفلس اور پریشان حال انسان سے ایک اسٹار بن چکا تھا۔ خوبصورت ترین لڑکیاں اس پر مرتی تھیں۔ تماشائی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور بڑے بڑے ہوٹل اس سے معاہدہ کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ یہ ابھی اس کی ابتدا تھی۔
اس کی کامیابیوں کا سفر شاندار انداز میں شروع ہوچکا تھا۔ اس نے جیب سے چابی نکال کر دروازے کا تالا کھولا جیسے ہی اس نے دروازے کو اندر دھکیلا۔ اسے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
’’آجائو… آجائو اندر…!‘‘
ٹوبی کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ پائوں گھسیٹتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ کراسکو اور اس کے دونوں آدمی اندر موجود تھے۔ ٹوبی کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS