وہ چند لمحے توقف کے بعد بولی۔ ’’ہاں۔ میں بدھ کو فارغ ہوں۔ شکریہ ٹوبی!‘‘ اس نے اتنا کہہ کر فون رکھ دیا۔
ٹوبی کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔ وہ بالآخر اسے راہ پر لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
ڈنر کا بہترین انتظام تھا۔ ٹیرس پر آرکسٹرا خوبصورت دھنیں چھیڑ رہا تھا۔ باوردی بیرے مشروبات کی ٹرے اٹھائے مہمانوں کی تواضع میں مشغول تھے۔ زیادہ تر مہمان آچکے تھے لیکن کاسل کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ جس کی خاطر یہ بزم سجائی گئی تھی، وہی اب تک نہیں آئی تھی۔ ٹوبی کی مشتاق نگاہیں باربار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
پورے پینتالیس منٹ کے بعد اس کا دلکش چہرہ نظر آیا۔ ٹوبی اس کے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے ایک سادہ سا ریشمی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے چمکیلے سیاہ بال شانے پر لہرا رہے تھے۔ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ ٹوبی ایک لمحے کو بھی اپنی نگاہیں اس کے سراپے سے علیحدہ نہیں کر پا رہا تھا۔ کاسل بھی جانتی تھی کہ وہ حسین لگ رہی ہے اور اس کے لیے اس نے خاص اہتمام کیا تھا کہ وہ سادہ لیکن دلکش نظر آئے۔
’’یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے میں چاہتا ہوں کہ تم ملو۔‘‘ ٹوبی اسے ہمراہ لے کر اپنے شاندار ڈرائنگ روم میں داخل ہوا لیکن کاسل دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رک گئی۔ اس نے اتنے بڑے اور مشہور لوگوں کو کبھی اس طرح ایک ساتھ اکٹھے نہیں دیکھا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی تصویریں مشہور رسالوں کے ٹائٹل اور اخبارات میں عموماً چھپتی رہتی تھیں۔ کاسل کے دل میں ان مشہور لوگوں سے ملنے کی حسرت ہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی بڑے لوگوں سے ملنے والی ہے۔ یہ سب اسے ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا مگر یہ حقیقت تھی۔ ٹوبی اسے ان عظیم لوگوں سے بذات خود ملوا رہا تھا۔
جب ڈنر شروع ہوا تو ٹوبی نے اسے اپنے دائیں جانب جگہ دی۔ کاسل جیسے خواب کی سی کیفیت میں ان سب لوگوں کی گفتگو سنتی رہی۔ وہ ایک ایک چہرے کو دیکھ رہی تھی جنہوں نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی تھی۔ کبھی اس سے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ ہر موقع پر اسے دھتکار دیا گیا تھا مگر اب وہ عظیم لوگ اس کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آرہے تھے کیونکہ اس کے ساتھ مشہور مزاحیہ اداکار ٹوبی تھا۔ کاسل سوچ رہی تھی کہ ان لوگوں کو بالآخر اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کی اداکاری کی صلاحیت سے استفادہ کرنا ہوگا۔
کھانا بہت اچھا تھا لیکن کاسل اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ اسے احساس نہیں تھا کہ اس نے کیا کھایا ہے اور کب ڈنر ختم ہوگیا۔ وہ اس وقت چونکی جب ٹوبی تمام مہمانوں کو ایک نئی فلم دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اس ہال میں پہنچی جہاں ساٹھ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے صوفے اور آرام دہ کرسیاں موجود تھیں۔ دروازے کے ایک طرف ایک کھلا شو کیس چاکلیٹوں سے بھرا ہوا تھا اور دوسری طرف پاپ کارن کی مشین موجود تھی۔
ٹوبی، کاسل کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں اسکرین کے بجائے کاسل پر مرکوز تھیں۔ فلم ختم ہوئی، ہال ایک مرتبہ پھر روشن ہوگیا۔ مہمانوں کو کافی اور کیک پیش کیے جانے لگے۔
آدھے گھنٹے کے بعد مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگے۔ ٹوبی مرکزی دروازے پر کھڑا سب کا شکریہ ادا کررہا تھا۔ کاسل بھی اپنا کوٹ پہنے ہوئے آئی۔ ٹوبی اسے دیکھ کر بولا۔ ’’محترمہ آپ کہاں چلی ہیں؟ آپ کو جانے کی اجازت نہیں ابھی!‘‘
’’نہیں… بہت دیر ہوگئی ہے۔ مجھے جانا ہے۔‘‘ کاسل دلکش ادا کے ساتھ بولی۔ ’’ٹوبی! اس شاندار ڈنر کے لیے شکریہ۔‘‘
ٹوبی بے یقینی سے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کا دل مایوسی میں ڈوبنے لگا۔ اس کے دل میں کیسے کیسے ارمان تھے۔ اس نے کیسے کیسے رنگین منصوبے بنائے تھے لیکن وہ سب خاک میں ملا کر چلی گئی تھی۔ وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ کاسل نے اتنی بے مروتی سے کام کیوں لیا تھا جبکہ ٹوبی نے اسے آج جتنی عزت دی تھی، وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اتنے بڑے لوگ اس جیسی اداکارہ کو منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے لیکن وہ اس کی وجہ سے کاسل کو اہمیت دے رہے تھے۔ ٹوبی کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے طے کرلیا کہ وہ آئندہ کاسل سے بات نہیں کرے گا۔ کبھی اس سے رابطہ نہیں کرے گا۔
لیکن یہ سارے ارادے خاک میں مل گئے۔ ٹوبی اگلی ہی صبح کاسل کا نمبر ڈائل کررہا تھا لیکن اُدھر ایک ریکارڈ شدہ ٹیپ چل رہا تھا کہ کاسل گھر پر نہیں۔ فون کرنے والا اپنا نمبر یا پیغام چھوڑ دے۔ ٹوبی نے کوئی پیغام چھوڑے بغیر زور سے فون پٹخ دیا اور خود سے ایک مرتبہ پھر وعدہ کیا کہ وہ کاسل سے بات کرے گا نہ اس سے کوئی تعلق رکھے گا۔ مگر چند ہی لمحے بعد یہ عہد پھر ٹوٹ گیا۔ اس نے کاسل کا نمبر ڈائل کیا۔ ادھر سے کاسل کی آواز میں اس کے گھر نہ ہونے کا پیغام دہرایا جارہا تھا۔
ٹوبی نے اپنا پیغام ریکارڈ کروانا شروع کیا۔ ’’ہیلو کاسل! اس شہر میں تمہاری آواز سب سے پیاری ہے۔ میں عموماً لڑکیوں کو فون نہیں کیا کرتا لیکن تمہارے معاملے میں، میں کچھ مختلف روّیے کا مظاہرہ کررہا ہوں۔ ہاں! آج تم ڈنر کا کیا کررہی ہو؟‘‘
فون بند ہوگیا۔ اس نے مقررہ وقت سے زیادہ بات کی تھی۔ وہ وہیں ساکت کھڑا کا کھڑا رہ گیا تھا۔ وہ خود کو عجیب بے وقوف سا محسوس کررہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے لیکن اس کی انگلیاں تیسری مرتبہ کاسل کا نمبر ملانے لگیں کیونکہ اس کا دل یہی چاہتا تھا۔
’’ہیلو کاسل…! شاید میرا مکمل پیغام تم تک نہ پہنچا ہو۔ اس لیے پھر تمہارا نمبر ڈائل کیا۔ مجھے فون کرکے بتانا کہ کیا آج رات تم میرے ساتھ ڈنر کرو گی۔ میں تمہاری کال کا انتظار کروں گا۔‘‘
اس کے بعد وہ کاسل کی کال کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ بے قرار لمحے گزرنے لگے اور شام کے سات بج گئے۔ کاسل کا فون نہیں آیا۔ ٹوبی چڑ گیا۔ جہنم میں جائو تم کاسل کی بچی! آخر تم خود کو سمجھتی کیا ہو… یہ تمہارا آخری موقع تھا۔ اب کوئی تمہیں فون کرے گا اور نہ تم سے بات کرے گا۔ دنیا میں صرف تمہی ایک لڑکی نہیں ہو۔ یہ جہان تم سے زیادہ حسین لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے اپنی ڈائری نکالی اور مختلف نمبروں کو دیکھنے لگا کہ کس سے رابطہ کرکے اپنا غم غلط کرے لیکن کوئی بھی اس کی نگاہ میں نہیں جچی۔
اگلا ہفتہ اس نے تقریباً ہر روز کاسل کو فون کیا تب کہیں جاکر وہ اس کے ساتھ ڈنر کرنے پر رضامند ہوئی لیکن اس نے شہر کے مہنگے ترین ریسٹورنٹ کے بجائے ایک بہت سستے سے ہوٹل میں جانے کی فرمائش کی۔ جہاں اپنی مدد آپ کے تحت انہیں بیس منٹ تک قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ تب کہیں جاکر وہ اپنی ٹرے میں کھانا لینے میں کامیاب ہوئے۔ ٹوبی کو برا نہیں لگا۔ یہ اس کے لیے ایک نیا تجربہ تھا اور سب سے زیادہ امید افزا یہ بات تھی کہ اب کاسل بڑی آسانی سے اس کے ساتھ ڈنر کرنے پر تیار ہوجاتی تھی۔ وہ تقریباً ہر رات ڈنر پر اکٹھے جانے لگے تھے لیکن اس نے ایک بار بھی ٹوبی کو اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو نہیں کیا تھا۔ نہ ہی وہ اس کے شاندار گھر میں آنے کے لیے رضامند ہوئی تھی۔
ٹوبی اسے دن میں درجنوں مرتبہ فون کرتا تھا۔ وہ اسے مہنگے ترین ہوٹلوں، کلبوں اور ریستورانوں میں لے جاتا۔ جواباً وہ اسے سستے ہوٹلوں میں لے جاتی تھی۔ جہاں وہ جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن جب کاسل اس کے ساتھ ہوتی تھی تو اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی تھی کہ وہ کہاں جارہا ہے اور اس جیسے نامور اداکار کے لیے وہاں جانا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ یہ بات ٹوبی کے لیے حیرت انگیز تھی کہ اس کے اندر کی تنہائی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی تھی۔ اس کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اس کے اندر پھیلتے تنہائی کے صحرا کو گلستان میں بدل دیا تھا۔
ٹوبی کے دل میں اس کی چاہت ہر روز بڑھتی جارہی تھی۔ وہ ہر وقت اسے اپنے قریب دیکھنا چاہتا تھا۔ ایک رات جب کاسل اس سے رخصت ہورہی تھی تو ٹوبی کے جذبات میں ایسی ہلچل مچی کہ اس نے جذبات سے بوجھل لہجے میں کہا۔ ’’اوہ۔ کاسل! میں تمہارے لیے دیوانہ ہوچکا ہوں۔ اگر میں تمہیں…‘‘
کاسل نے خود کو فوراً اس سے علیحدہ کرلیا اور ناگواری سے بولی۔ ’’اگر تمہاری سوچ اتنی ہی گری ہوئی ہے تو شہر میں بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جو تمہیں سستے داموں مل جائیں گی۔‘‘ اس نے گھر کے اندر داخل ہوکر دروازہ اس کے منہ پر مار دیا۔
ٹوبی خود کو کوستا ہوا واپس آگیا لیکن یہ خیال اسے ستاتا رہا کہ کہیں کاسل اس سے ناراض نہ ہوگئی ہو۔ کہیں وہ اس سے قطع تعلق نہ کرلے۔ کہیں وہ ملنے سے انکار نہ کردے۔ اسی لیے اس نے اگلے دن اسے منانے کے لیے ہیرے کا قیمتی بریسلیٹ بھیجا اور اس کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کاسل نے وہ قیمتی بریسلیٹ اسے واپس کردیا۔ جس نے ٹوبی کا دل توڑ دیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ خودکشی کرلے لیکن اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا پرچہ بھی تھا۔
ٹوبی نے دھڑکتے دل سے اسے کھولا اور ایک ہی نظر میں اسے پڑھ لیا۔ اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ اس میں جینے کی امنگ جاگ اٹھی۔ اسے زندگی سے پیار ہوگیا۔ کاسل نے لکھا تھا۔ ’’شکریہ! تم نے مجھ میں حسین ہونے کا احساس پیدا کردیا ہے۔‘‘
اس کے دل میں کاسل کی عزت مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ اسے ان تمام لڑکیوں سے مختلف لگی جو اس کی زندگی میں سیکڑوں کی تعداد میں آچکی تھیں۔ وہ ایک معمولی سی اداکارہ تھی جو تیسرے درجے کی زندگی گزار رہی تھی لیکن اس نے اتنا قیمتی بریسلیٹ واپس کردیا تھا۔ یقیناً وہ محبت پر یقین رکھتی تھی۔ اسے مادیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس پر فخر کیا جاسکتا تھا۔
کاسل کی شخصیت ٹوبی پر چھا گئی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں اس طرح داخل ہوگئی تھی کہ وہ ہر بات میں اس کی رائے کو اہمیت دیتا تھا۔ دنیا میں کسی کی بات کو وقعت نہیں دیتا تھا سوائے اپنی ماں اور اب اس کی زندگی میں کاسل وہ شخصیت تھی جس کی بات اس کے نزدیک اہمیت کی حامل تھی۔ وہ اس کی پسند کے رنگ پہنتا تھا۔ وہ کاسل کے کہنے پر کئی بار اپنا درزی بدل چکا تھا۔ وہ اگر اپنے کسی پرستار کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا تو کاسل اسے فوراً ٹوک دیتی۔ اس کے روّیے پر اعتراض کرتی تو ٹوبی اپنے اس پرستار سے معذرت کرنے پر مجبور ہوجاتا۔
کاسل نے کبھی اس سے کسی رقم کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی قیمتی تحفہ قبول کیا تھا۔ ٹوبی اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی زندگی کو آسان اور پرکشش بنانا چاہتا تھا لیکن کاسل اسے اس کا موقع نہیں دیتی تھی۔ ٹوبی کی کوشش تھی کہ وہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو پوری کرے اور اسے ایک کامیاب اداکارہ بنانے میں اس کی مدد کرے۔ اسی سلسلے میں اس نے ایک بڑے ڈائریکٹر سے بات کی کہ وہ کاسل کا ٹیسٹ لے تاکہ اسے فلم میں کوئی اچھا کردار دیا جاسکے۔ کاسل یہ ٹیسٹ دینے کے لیے فوراً راضی ہوگئی۔
کاسل کا اسکرین ٹیسٹ لینے کے لیے بہترین کیمرہ مین کو منتخب کیا گیا۔ ڈائریکٹر نے ذاتی طور پر اس کی نگرانی کی۔ دوسرے روز ڈائریکٹر نے ٹوبی کو فون کیا جس کا وہ بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔
’’ٹوبی! میں نے کاسل کی تصویریں دیکھی ہیں۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ وہ مکالمے بھی ادا کرسکتی ہے۔ لیکن اس میں اس کشش کی کمی ہے جو ایک عام ایکٹریس کو ہیروئن بناتی ہے۔ وہ چھوٹے موٹے رول تو کرسکتی ہے جیسا کہ وہ آج کل کررہی ہے لیکن شاید ہی کوئی ڈائریکٹر اسے مرکزی کردار دے۔‘‘
ٹوبی کو بڑی مایوسی ہوئی۔ اس کا سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا تھا۔ ایسی خبر کاسل کو سنانا مزید پریشانی کا باعث تھا لیکن وہ ہمت کرکے کاسل کے اپارٹمنٹ چلا گیا۔ اس نے دروازہ کھول کر اسے اندر بلا لیا جو خلاف معمول تھا۔ ٹوبی کو بھی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ نتیجہ جاننے کے لیے بیتاب ہے۔ ٹوبی کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے پوچھا۔ ’’میرے اسکرین ٹیسٹ کے بارے میں کچھ پتا چلا؟‘‘
ٹوبی نے اسے صحیح بات بتانے میں ہی عافیت سمجھی۔ جیسے جیسے وہ سنتی گئی۔ مایوسی میں ڈوبتی گئی۔ ٹوبی نے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے کہا۔ ’’پریشان نہ ہو کاسل… ملک میں وہی ایک تو ڈائریکٹر نہیں رہ گیا ہے اور بھی لوگ ہیں جن کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
لیکن کاسل کی مایوسی اور غم کم نہیں ہوا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب کرب کی سی کیفیت چھا رہی تھی۔ اس کی دلکش سیاہ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ وہ اپنے ملائم ہاتھوں کی مخروطی انگلیاں ایک دوسرے میں الجھائے خود پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔
زندگی بھر وہ جس خواب کو سینے سے لگائے ہوئے تھی۔ اس کے ٹوٹنے کی اذیت اس کے سارے وجود پر برس رہی تھی۔ وہ سسکیاں لینے لگی۔
’’کاسل! کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ٹوبی نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تو اس کی سسکیاں، ہچکیوں میں بدلیں اور ہچکیوں کے زور سے اسے جھٹکے لگنے لگے۔ اس کی دلکش سیاہ آنکھوں سے آنسوئوں کا تار سا بندھ گیا۔ وہ اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کے اندر شکست کا غبار، مایوسی کا کرب، آنسوئوں کا سیلاب بن کر اس کے گلابی گالوں پر بہتا چلا جارہا تھا۔ ٹوبی وقفے وقفے سے اسے پرسکون کرنے کے لیے محبت بھرے لفظ کہہ رہا تھا جنہوں نے اس کے ضبط کے بندھن توڑ دیے۔
وہ جیسے خود کلامی کی سی کیفیت میں اپنے دل کی باتیں کہتی گئی کہ کس طرح اس کی پیدائش کے دن اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس نے کبھی کسی کی محبت نہیں پائی تھی۔ چرچ والے کہتے تھے کہ اس کے اندر کوئی شیطانی روح حلول کرگئی ہے۔ وہ فادر کو چیختے ہوئے سنتی تھی۔ ’’دیکھو۔ اس چھوٹی سی لڑکی کو۔ یہ خدا سے بغاوت کرنا چاہتی ہے۔ اسے اس کے گناہوں کا بدلہ ضرور ملے گا۔‘‘
اس نے ایک بڑی اداکارہ بننے کے لیے جو جدوجہد کی تھی اور جس طرح بھوکے رہ کر اپنی کوشش کو جاری رکھا تھا۔ وہ بڑے سہانے خواب لے کر اپنے چھوٹے سے شہر سے اس پوری دنیا پر محیط ایک بڑے اور نرالے شہر میں آئی تھی لیکن اب تک وہیں کھڑی تھی جہاں سے چلی تھی۔ ٹوبی کے دل میں کسی کے لیے کبھی ایسے ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوئے تھے جیسے اس وقت اس کے دل سے کسی شفاف چشمے کی طرح اچانک اُبلنے لگے تھے۔ جنہوں نے اس کے سارے وجود میں جل تھل کی سی کیفیت پیدا کردی تھی۔
اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔ ’’اے لڑکی! یہ سب کچھ صرف تمہارے ساتھ ہی نہیں گزرا۔ اکثر فنکاروں کو اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تم میری کہانی سنو گی تو وہ تمہیں اپنی لگے گی۔ تمہیں معلوم ہے کہ میرا باپ ایک قصائی تھا۔‘‘
وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ اپنے دل کی باتیں، اپنی روحوں کے راز ایک دوسرے سے کہتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح کے تین بج گئے۔ یہ ٹوبی کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ اس نے کسی حسین لڑکی کو بطور انسان دیکھا تھا۔ اسے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے دکھ درد کو بانٹا تھا۔ اپنی محرومیوں کا تذکرہ اس سے کیا تھا۔ اور کیوں نہ کرتا۔ وہ اس کی اپنی تھی۔ دونوں کے درمیان جیسے کوئی اجنبیت نہیں رہی تھی۔ ٹوبی کے روئیں روئیں میں یہ احساس جاگ رہا تھا کہ یہی محبت ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ انہیں کبھی جدا نہیں ہونا۔ انہیں ہمیشہ ساتھ رہنا ہے۔ اسی لیے ٹوبی نے بڑے ارمان سے کہا۔ ’’کاسل! میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھو انکار نہ کرنا۔‘‘
وہ یوں بولی جیسے اسی انتظار میں تھی۔ اتنے والہانہ انداز میں کہ ٹوبی کو یوں لگا جیسے اسے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ مل گیا ہے۔ ’’ہاں۔ ٹوبی! ہاں۔‘‘
٭…٭…٭
یہ جان کر کہ ٹوبی، کاسل سے شادی کرنے والا ہے، لارنس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس شیطان کی خالہ نے کس طرح ٹوبی کے دل و دماغ پر قبضہ کرکے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ لارنس جانتا تھا کہ جیسے ہی اس شادی کی خبر عام ہوگی۔ لوگ کیڑوں کی طرح کونوں کھدروں سے نکل آئیں گے، طرح طرح کی باتیں بنانے کے لیے۔ اور اگر ٹوبی کو پتا چل گیا کہ یہ لڑکی انڈسٹری میں ہر ایک کے ساتھ کیا جھک مارتی رہی ہے تو وہ ان کا جینا حرام کردے گا۔
وہ ٹوبی کے جذباتی پن سے واقف تھا۔ اس لیے لارنس نے ٹوبی کے بجائے کاسل سے بات کرنے کی ٹھانی۔ اپنے تمام غرور اور ضدی پن کے باوجود ٹوبی ایک معصوم آدمی تھا۔ لارنس اسے اپنے بچوں کی طرح چاہتا تھا۔ وہ کاسل جیسی گھاگ اور بے راہ رو لڑکی سے اسے بچانا چاہتا تھا جس نے اپنے کارڈ بڑی ہوشیاری سے استعمال کرکے ٹوبی کو شیشے میں اتارا تھا۔ لارنس نے فون کرکے کاسل کو اپنے آفس بلایا۔ وہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ لیٹ آئی اور آکر صوفے کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی اور بڑے مستحکم لہجے میں بولی۔ ’’میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے، مجھے ٹوبی سے ملنا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔‘‘ لارنس نے جواب دیا اور بغور کاسل کی طرف دیکھا۔ وہ اسے بالکل مختلف نظر آئی۔ اسے اپنے آپ پر اعتماد اور ایسا بھروسہ تھا جو اس سے پہلے کبھی اس کی شخصیت میں نظر نہیں آیا تھا۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی۔ لارنس نے اس سے پہلے ایسی بہت سی شاطر لڑکیوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔
’’کاسل! میں تم سے صاف انداز میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ تم جیسی لڑکی ٹوبی کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس انڈسٹری سے ہمیشہ کے لیے دور چلی جائو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک لفافہ میز پر رکھا اور پھر بولا۔ ’’اس میں اتنی رقم ہے کہ جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ یہ تمہارے لیے ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لیے بہت ہے۔‘‘
اس نے لارنس کی طرف دیکھا۔ اس کے دلکش چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے۔ پھر اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی اور ہنسنا شروع کردیا۔
لارنس چند لمحے اس کی طرف دیکھ کر اپنا غصہ ضبط کرتا رہا۔ پھر اسے مخاطب کیا۔ ’’کاسل! میں مذاق نہیں کررہا… تم کیا سمجھتی ہو کہ ٹوبی پھر بھی تم سے شادی کرے گا۔ جب اسے پتا چلے گا کہ انڈسٹری میں تم ہر ایک کے ہاتھ کا کھلونا رہی ہو؟‘‘
وہ چند لمحے بغور لارنس کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی دلکش سیاہ آنکھوں میں ہزاروں شکوے تھے۔ وہ بولی تو اس کے لہجے میں ناقابل بیان کرب اور اذیت تھی۔ ’’اگر میں نے یہ سب کیا ہے تو اس کے ذمہ دار تم ہو اور تم جیسے خودغرض لوگ جو ہم جیسی نئی لڑکیوں کو ان کی صلاحیتیں دیکھ کر چانس نہیں دیتے بلکہ وہ ان کی روح، ان کی انا اور ان کے وقار کا سودا کرتے ہیں اور پھر ہمارے کردار پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی پلکیں بھیگ گئی تھیں لیکن وہ آنسو ضبط کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
لارنس سکتے کے عالم میں اس دروازے کی طرف دیکھتا رہ گیا جسے وہ ابھی بند کرکے گئی تھی۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد فون کی گھنٹی بجی۔ لارنس نے دیکھا۔ وہ ٹوبی کی کال تھی۔ اس نے چونک کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ٹوبی خوشی سے نہال کہہ رہا تھا۔ ’’لارنس! تم نے کاسل سے کیا کہہ دیا ہے کہ وہ انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ابھی اور اسی وقت شادی کرنے جارہے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
یہ ایک ایسا ہنی مون تھا جس میں دنیا کی ہر انہونی شے موجود ہوتی ہے۔ ٹوبی اور کاسل اپنے پرائیویٹ جہاز پر ایسی جگہ گئے جہاں ساحل سمندر اور جنگل دونوں موجود تھے۔ انہیں ایک خوبصورت بنگلے میں ٹھہرایا گیا۔ جہاں پھولوں سے لدی بیلیں، خوشبو سے مہکتے پودے، سریلی بولیاں بولنے والے پرندے اور رنگ برنگی تتلیاں تھیں۔ انہوں نے دس دن محبت کے اس آشیانے میں گزارے۔
جنگل میں نئے راستے تلاش کرتے، ساحل پر ریت کے محل بناتے، کشتی رانی کرتے اور شفاف پانی کے پول میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے بِتائے۔ ٹوبی، کاسل کے لیے دنیا کی ہر نعمت مہیا کردینا چاہتا تھا۔ خاص شیف ان کے لیے بڑے اہتمام سے ملک ملک کے لذیذ کھانے تیار کرتے اور وہ بڑے بڑے شاپنگ مال میں قیمتی بوتیک میں کاسل کے لیے ہر چیز خریدنے پر تیار نظر آتا۔
اپنے پرائیویٹ جہاز میں وہ ایک جزیرے پر گئے جو ہنی مون منانے والے جوڑوں کے لیے ایک حیران کن جنت تھا۔ وہ اس محل میں ٹھہرے جو ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لیے بڑے ارمان سے تعمیر کروایا تھا جسے اب ہوٹل کی شکل دے دی گئی تھی۔ یہاں دنیا کی ہر تفریح موجود تھی۔
ان کی اگلی منزل ایک اور مشہور جگہ تھی جہاں انہوں نے پہاڑوں کے درمیان نیچی پرواز کا لطف اٹھایا۔ یہ لمحات بہت ہی سنسنی خیز تھے۔ انہوں نے سفید چمکتی برف پر دیر تک اسکیٹنگ کی سلیج پر سواری کی۔ میلے دیکھے اور بڑی بڑی پارٹیوں میں شرکت کی۔ ٹوبی نے کبھی ایسی خوشی محسوس نہیں کی تھی۔ کاسل ایک ایسی لڑکی تھی جس نے اس کی زندگی مکمل کردی تھی۔ اب اس کے اندر تنہائی کا کوئی احساس نہیں تھا۔
ٹوبی کا دل چاہتا تھا کہ یہ ہنی مون کبھی ختم نہ ہو لیکن کاسل اب واپس جانا چاہتی تھی۔ اسے ان سب انوکھی اور نرالی جگہوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی ملکہ کی طرح تھی جس کی ابھی تاج پوشی ہوئی تھی اور وہ اپنے لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے بیتاب تھی۔ وہ واپس اس انڈسٹری میں لوٹنا چاہتی تھی جہاں بطور کاسل اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن اب وہ مسز ٹوبی ٹیمپل تھی۔ وہ اپنی نئی اور بلند حیثیت سے لطف اٹھانا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
نہ جانے کیوں لارنس کے اندر ایک عجیب سا احساس سر اٹھا رہا تھا۔ جیسے بعض اوقات خطرے سے پہلے اس کے پیش آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جب سے ٹوبی، کاسل سے شادی کے بعد ہنی مون پر گیا تھا، اس نے کوئی رابطہ نہیں رکھا تھا۔ لارنس نے ایک بہت قیمتی تحفہ اور تین پیغامات اسے بھیجے تھے جن کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کاسل اس سے انتقام لینے کے لیے ٹوبی کو اس کے خلاف بھڑکا دے گی۔ ٹوبی اس کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔ دونوں میں بہت اچھے تعلقات تھے۔ لارنس نہیں چاہتا تھا کہ کاسل ان کے درمیان آئے۔
ٹوبی اور کاسل واپس آچکے تھے لیکن انہوں نے اسے کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ لارنس یہ سوچ کر کہ اسے خود ہی کچھ کرنا ہوگا، صبح ٹوبی کے گھر چلا گیا۔ اسے معلوم تھا کہ ٹوبی اس وقت اسٹوڈیو میں ہوگا۔ وہ کاسل سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ گھر کا مرکزی دروازہ اس کے لیے کاسل نے کھولا۔ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
اس کا رویہ دوستانہ تھا۔ اس نے کافی منگوائی اور باغیچے میں بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے وہ اسے اپنے ہنی مون کے بارے میں بتانے لگی کہ وہ کن کن جگہوں پر گئے تھے۔ پھر وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولی۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ ٹوبی تمہارے پیغامات کا جواب نہیں دے سکا۔‘‘
لارنس کو اطمینان ہوا کہ اس نے وہ بات دل میں نہیں رکھی تھی۔ لارنس نے خود بات شروع کرنے کی ٹھانی۔ ’’مجھے امید ہے کہ ہم لوگ دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔‘‘
’’یقیناً… یقیناً!‘‘ اس نے فراخدلی سے کہا۔
’’میں اس لیے آیا تھا کہ تمہارے اور ٹوبی کے اعزاز میں ایک شاندار ڈنر دوں۔ جس میں تمام مشہور لوگوں کو مدعو کروں۔ ایسا ڈنر جو یادگاربن جائے۔ کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘
’’بہت خوب…! ٹوبی سنے گا تو بہت خوش ہوگا۔‘‘
دوپہر کو لارنس کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف کاسل تھی۔ ’’لارنس! بہت افسوس ہے کہ شاید میں ڈنر پر نہ آسکوں۔ میں کچھ تھکن سی محسوس کررہی ہوں۔ ٹوبی بھی کہہ رہا ہے کہ میں گھر پر آرام کروں۔‘‘
لارنس کا دل ڈوبنے لگا لیکن اس نے اپنے تاثرات ظاہر کیے بغیر کہا۔ ’’اوہ! بہت افسوس ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا مگر ٹوبی تو آئے گا نا؟‘‘
’’نہیں… شاید نہیں… وہ میرے بغیر کہیں نہیں جاتا۔ مجھے امید ہے کہ تمہارا ڈنر بہت کامیاب ہوگا۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔
اس وقت تک اتنی دیر ہوچکی تھی کہ ڈنر ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سب لوگ وقت پر پہنچ گئے لیکن جس کے اعزاز میں یہ ڈنر دیا گیا تھا۔ وہ مہمان خصوصی غیر حاضر تھے۔ لارنس کا لاکھوں روپے کا بل بن گیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اسے باربار ہر ایک کو عذر پیش کرنا پڑا کہ مسز ٹوبی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اس لیے وہ ڈنر پر نہیں آپائے۔ لیکن اگلے ہی دن کچھ مشہور اخباروں میں مسٹر اور مسز ٹوبی کی تصویر چھپی۔ وہ اسی دن ایک مشہور ہوٹل میں مزے سے ڈنر کررہے تھے۔
لارنس کو صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا کہ اگر ٹوبی نے اسے چھوڑ دیا تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا۔ اس عمر میں وہ اس قابل نہیں تھا کہ نئے سرے سے کام کا آغاز
کرسکے۔ اور جب انڈسٹری میں پتا چلے گا کہ ٹوبی نے اسے دھتکار دیا ہے تو کوئی بھی اسے منہ نہیں لگائے گا۔
اسے یقیناً کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا تھا کہ کاسل کے ساتھ اس کے تعلقات ٹھیک ہوجائیں۔ اپنی زندگی کے لیے اسے ہاتھ، پائوں مارنے تھے۔ اس نے پھر کاسل کو ٹیلیفون کیا کہ وہ گھر آکر اس سے ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔
’’ہاں… ہاں۔ ضرور!‘‘ وہ بڑی خوش مزاجی سے بولی۔
’’میں ابھی پندرہ منٹ میں پہنچتا ہوں۔‘‘ لارنس نے اطمینان کا گہرا سانس لے کر جواب دیا۔
وہ واقعی پندرہ منٹ میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ کاسل ٹیرس پر بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی۔ ’’تمہیں دیکھ کر خوشی ہوئی لارنس…! آئو بیٹھو۔‘‘
’’شکریہ کاسل…!‘‘ وہ اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے بولا۔
وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھی۔ جس پر اس کے ریشمیں سیاہ بال اور سنہری رنگت غضب ڈھا رہی تھی۔ وہ اپنی عمر سے بہت کم اور معصوم سی نظر آرہی تھی لیکن لارنس جانتا تھا کہ وہ اندر سے کتنی چالاک اور شاطر ہے۔ ڈنر کے واقعے کے بعد اسے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے اپنے دل میں بہت کچھ پالا ہوا ہے۔ اگر اس نے کاسل کو راضی نہیں کیا تو وہ اسے شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ وہ اس کی تباہی کا سامان بڑی آسانی سے کرسکتی ہے۔
کاسل بظاہر بڑے دوستانہ انداز میں اپنی خوبصورت برائون آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم ناشتہ کرو گے لارنس…‘‘
’’نہیں شکریہ! میں ناشتہ کرکے آیا ہوں۔‘‘
’’ٹوبی اس وقت گھر پر نہیں ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ میں تم سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میں تمہارے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘ وہ اس کی جانب متوجہ تھی۔
’’میری معذرت قبول کرو کاسل!‘‘ لارنس نے کہا۔ اس نے تمام زندگی کسی سے معافی نہیں مانگی تھی لیکن وقت نے اسے مجبور کردیا تھا کہ کاسل جیسی عورت سے معافی مانگے۔ ’’شاید یہ میری غلطی تھی کہ میں حالات کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا تھا۔ ٹوبی اور میرا ساتھ بہت پرانا ہے… میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے کوئی صدمہ یا نقصان پہنچے۔ تم میری بات سمجھ رہی ہو نا کاسل…‘‘
’’ہاں… ہاں۔ بالکل سمجھ رہی ہوں۔‘‘ اس کی برائون دلکش آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔
لارنس نے گہرا سانس لیا۔ ’’پتا نہیں ٹوبی نے تم سے اس کا ذکر کیا ہے یا نہیں کہ میں ہی ٹوبی کو اسٹار بنانے والا ہوں۔ میں بہت سے لوگوں کے ساتھ کام کررہا تھا مگر میں نے ان سب کو چھوڑ دیا تاکہ ٹوبی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھوں۔‘‘
’’ہاں۔ ٹوبی نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے اس کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔‘‘
لارنس کو قدرے اطمینان ہوا۔ وہ کرسی پر تھوڑا سا آگے جھک کر بولا۔ ’’میں نہیں چاہتا میرے اور ٹوبی کے درمیان جو تعلق ہے، اس میں کوئی جھول آئے۔ اس لیے میں تم سے پھر ایک بار معذرت کرتا ہوں۔ اب تک ہمارے درمیان جو کچھ ہوا، اسے بھول جائو۔ ٹوبی مجھے بہت عزیز ہے۔ میں اسے ہر نقصان سے بچانا چاہتا تھا مگر شاید میرا اندازہ درست نہیں تھا۔ وہ شادی کے بعد جتنا خوش ہے، یقیناً تم اس کے لیے بہترین ہو۔‘‘
’’ہاں! میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ اس کی بہترین ساتھی ثابت ہوسکوں۔‘‘
’’اگر ٹوبی مجھ سے علیحدہ ہوجاتا ہے تو یہ میری موت ہوگی۔ مالی اور روحانی طور پر بھی… وہ میرے نزدیک میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ میں دل سے اسے چاہتا ہوں۔‘‘ وہ کاسل سے اتنی عاجزی کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی منت کررہا تھا۔ ’’پلیز کاسل! دیکھو خدا کے لیے۔ کچھ ایسا نہ کرنا کہ…‘‘ اس کی آواز بھرا گئی اور اسے خاموش ہوجانا پڑا۔
کاسل چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔ ’’میں اپنے اندر بغض نہیں پالا کرتی۔ کیا تم کل رات ڈنر پر آسکتے ہو؟‘‘
لارنس ایک گہرا سانس لے کر بولا۔ ’’شکریہ!‘‘ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے دھندلا سی رہی ہیں۔ ’’میں اس بات کو کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘
اگلی صبح جب لارنس اپنے آفس میں آیا تو اس کی میز پر ایک رجسٹرڈ لفافہ پڑا ہوا تھا۔ اس نے کھول کر دیکھا اور ساکت رہ گیا۔ اسے اطلاع دی گئی تھی کہ اسے برطرف کردیا گیا ہے۔ اب وہ ٹوبی ٹیمپل کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام نہیں کرے گا۔
٭…٭…٭
تمام انڈسٹری میں کاسل کا بول بالا تھا۔ ٹوبی سب کے لیے ایک بلینک چیک تھا۔ اس کے ٹی وی شو کامیاب تھے۔ اس کی فلموں کا بزنس سب کو پیچھے چھوڑ جاتا تھا۔ وہ جہاں کہیں شو کرتا، ہجوم وہاں ٹوٹ پڑتا۔ ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا۔ ہر کوئی اسے چاہتا تھا۔ اسی لیے کوئی کاسل کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ سب کو علم تھا کہ کاسل کو خوش رکھنے میں ہی ان کی بھلائی تھی کیونکہ ٹوبی صرف کاسل کا ہوکر رہ گیا تھا۔
کاسل بڑی حکمت عملی سے ہر اس شخص سے انتقام لے رہی تھی جس نے کبھی اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا تھا۔ لارنس کی طرح اس نے ایسے تمام لوگوں کو فارغ کروا دیا تھا۔ ٹوبی کے دل کو ہاتھ میں لینے کے لیے وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ جو ایک معمولی سی غریب لڑکی تھی، اب ہر طرف اس کی حکمرانی تھی۔ کل معمولی لوگ بھی اس سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے، آج بڑے بڑے نامور لوگ اس سے جھک کر ملتے تھے۔ اس شہر میں اس نے دردر کی ٹھوکریں کھائی تھیں لیکن اب کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکے۔ ٹوبی ٹیمپل اس کے ساتھ کھڑا تھا جو ہر دل کی دھڑکن تھا۔
دنیا کا سب سے بڑا فلمی میلہ جس میں شرکت کرنے کی کاسل کو حسرت تھی، اس کا دعوت نامہ ان دونوں کے نام آیا تھا۔ کاسل کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دونوں جب وہاں پہنچے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہاں رنگ رنگ کے لوگ، مختلف زبانیں اور مختلف ثقافتیں تھیں جو ایک بہت ہی دلچسپ اور قابل دید نظارہ تھا۔ یہ ایک ایسا میلہ تھا جس میں ایوارڈ پانے والے کی قسمت کھل جاتی تھی۔ ہر طرف سے اس پر ہُن برسنے لگتا تھا۔ وہ ہر ایک کی پہلی پسند بن جاتا تھا۔
ہر ہوٹل مہینوں پہلے سے بک تھا۔ اسی لیے مقامی لوگ بھی اپنے یہاں مہمانوں کو ٹھہرا کر خوب فائدہ حاصل کررہے تھے۔ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر وہ سب جانے پہچانے چہرے نظر آتے تھے جو عموماً لوگ پردئہ سیمیں اور ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے۔ اکثر لوگوں کو ہوٹلوں میں کمرے لینے میں دشواری ہورہی تھی لیکن ٹوبی کے لیے کوئی مشکل نہیں تھی۔ اس کو ایک مشہور ہوٹل میں پورا سوئٹ بڑی آسانی سے مل گیا تھا۔ ٹوبی اور کاسل جہاں کہیں بھی جاتے تھے، ان کا گرمجوشی سے استقبال ہوتا۔ فوٹو گرافر انہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے تھے۔ مشہور اخباروں، رسالوں اور ٹی وی پروگراموں میں ان کی تصویریں بھیجی جارہی تھیں۔ وہ انڈسٹری کا ایک قیمتی جوڑا تھا۔ کسی بادشاہ اور ملکہ کی طرح ہر جگہ ان کا خیر مقدم کیا جاتا تھا۔ کاسل سب کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ اس سے مختلف سوالات کیے جاتے تھے۔ وہ بھی ان کے دلچسپ جوابات دینے کی مشتاق رہتی تھی۔
ٹوبی کی جو فلم اس مقابلے میں شریک تھی، اسے کوئی ایوارڈ نہیں ملا تھا لیکن جیوری نے ٹوبی کو ایک اسپیشل ایوارڈ دینے کی سفارش کی تھی کہ اس کی خدمات تفریح کے میدان میں بے مثال تھیں۔ ایوارڈ کی تقریب ایک مشہور ہوٹل کے وسیع ہال میں منعقد کی گئی تھی جو حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پھر میئر اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے بہت اچھے لفظوں میں ٹوبی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس نے گولڈ میڈل اور ربن کو بلند کرکے تمام ہال کو دکھایا پھر ٹوبی کے سامنے تھوڑا سا خم ہوا۔
تمام ہال داد و تحسین کے نعرے بلند کرتا اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر طرف ایک خوشی اور جوش سے بھرا ہوا شور تھا۔ ٹوبی اپنی کرسی پر بیٹھا رہا، وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔
’’ٹوبی اٹھو۔‘‘ کاسل نے سرگوشی کی۔
ٹوبی بہت آہستگی کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر زرد ہورہا تھا۔ وہ ہجوم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور مائیکروفون لینے کے لیے آگے بڑھا لیکن اس کی چال میں توازن نہیں تھا۔ حاضرین کے شور سے ہال کی چھت اُڑنے لگی۔ وہ اس کی اداکاری پر زبردست داد دے رہے تھے۔ ٹوبی لڑکھڑایا اور سنبھلنے کی کوشش کرتے کرتے فرش پر گر پڑا۔ اسٹیج پر موجود لوگ اس کی طرف دوڑے کہ اٹھنے میں اس کی مدد کریں لیکن وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
ٹوبی کو فوراً ایک خصوصی طیارے سے بہترین اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کی ایک ماہر ٹیم اس کے معائنے کے لیے موجود تھی۔ کاسل اسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں پریشان حال آنے والے وقت کا انتظار کررہی تھی۔ چھتیس گھنٹے گزر گئے اس نے کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کردیا۔ وہ کوئی فون نہیں سن رہی تھی جبکہ ٹوبی کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے تمام دنیا سے کالوں کا ایک سیلاب سا رواں دواں تھا۔ وہ اکیلی بیٹھی دیواروں کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن درحقیقت اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا، نہ سنائی دے رہا تھا۔ اس کا ذہن بس اسی پر لگا ہوا تھا کہ ٹوبی جلد سے جلد صحت یاب ہوجائے۔ ٹوبی اس کا سورج تھا۔ اگر سورج ہی زندگی سے نکل جائے گا تو سایہ خودبخود مر جائے گا۔ وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی کہ اس کی زندگی میں اندھیرا چھا جائے۔
صبح کے پانچ بجے تھے جب ڈاکٹر اس کمرے میں آیا۔ وہ ہمدردانہ لہجے میں بولا۔ ’’مسز ٹیمپل…! میں آپ کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ آپ کے شوہر پر بیماری کا شدید حملہ ہوا ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ وہ چلنے اور بولنے کے قابل نہ رہیں۔‘‘
کاسل دل تھام کر رہ گئی۔ بالآخر جب ڈاکٹروں نے اسے ٹوبی کو دیکھنے کی اجازت دی تو وہ یہ دیکھ کر سخت پریشان ہوئی کہ ٹوبی کو اس بیماری نے بوڑھا اور کمزور کردیا تھا۔ اس کا جسم مفلوج تھا اور اس کے منہ سے غیر انسانی آوازیں نکل رہی تھیں۔
تقریباً چھ ہفتے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت ملی۔ ایئرپورٹ پر ٹوبی کے ہزاروں پرستار موجود تھے۔ میڈیا کے بہت سے لوگ وہاں جمع تھے۔ ٹیلی ویژن کا عملہ بھی موجود تھا۔ ہر کوئی ٹوبی کی صحت کے بارے میں فکرمند تھا۔ صدر سے لے کر ہر شعبۂ زندگی سے پیغامات آرہے تھے۔ خطوط، کارڈ اور پھول اتنے تھے کہ ڈھیر لگ گئے تھے۔ اس کے پرستار اس کے لیے دعائوں میں مشغول تھے۔ لیکن اب دعوت نامے آنے بند ہوگئے تھے۔ شاید کسی کو بھی اس کی پروا نہیں تھی کہ اس پر کیا گزر رہی تھی۔ اس نے دنیا کے دوسرے قابل اور نامور ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے ٹوبی کا معائنہ کرنے کے بعد وہی رائے دی تھی جو پہلے بورڈ نے دی تھی کہ ٹوبی کے دماغ کو اتنا نقصان پہنچ چکا ہے کہ وہ سن سکتا ہے، ہر بات کو سمجھ سکتا ہے لیکن بول سکتا ہے اور نہ کسی ردعمل کا اظہار کرسکتا ہے۔
’’کیا ٹوبی۔ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا؟‘‘ کاسل نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’اس بارے میں کوئی یقینی بات کہنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی ہماری رائے یہ ہے کہ اس کا نروس سسٹم اتنا خراب ہوچکا ہے کہ کوئی علاج یا ورزش اسے درست کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔‘‘
’’کیا یہ حتمی رائے ہے؟‘‘
’’ہاں… تقریباً…! کوئی معجزہ یا کرامت ہی اسے تبدیل کرسکتی ہے۔‘‘
کاسل کسی گہری سوچ میں تھی۔ اس نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
٭…٭…٭
ٹوبی کے لیے تین نرسیں ملازم رکھی گئی تھیں جو چوبیس گھنٹے اس کا خیال رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ کاسل نے ایک سائیکو تھراپسٹ کی خدمات بھی حاصل کررکھی تھیں جو ہر صبح آتا۔ وہ ٹوبی کو سوئمنگ پول پر لے جاتا۔ اسے اپنے بازوئوں میں تھام لیتا اور اس سے کہتا کہ وہ اپنی ٹانگوں اور بازوئوں کو گرم پانی میں حرکت دے لیکن لاحاصل… ٹوبی کی حالت میں ذرّہ برابر بہتری نہیں تھی۔
اس کے علاوہ زبان کو سدھارنے کی تربیت دینے کے لیے بھی ایک ماہر ہر روز آتا تھا۔ کاسل خود بھی اس کی مدد کرتی اور ٹوبی کو مائل کرتی کہ وہ کوئی لفظ اپنی زبان سے ادا کرسکے۔ لیکن اس میں بھی ناکامی ہی ناکامی تھی۔ اسی طرح دو مہینے گزر گئے۔ کاسل نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ ’’پلیز۔ ڈاکٹر! تمہیں کچھ تو کرنا ہوگا۔ وہ اس حال میں کب تک رہے گا پلیز۔ کچھ تو اس کی مدد کرو۔‘‘
ڈاکٹر نے بے بسی سے کہا۔ ’’سوری مسز ٹیمپل! میں نے پہلے بھی آپ کو…!‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
کاسل سخت پریشان ہوئی تھی۔ وہ لائبریری میں بیٹھی دیر تک سوچتی رہی۔ پھر اٹھی اور سیڑھیاں چڑھ کر ٹوبی کے کمرے میں آئی۔ وہ بیڈ پر پڑا ہوا خالی نگاہوں سے بے سمت دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی کاسل اس کے بیڈ کے قریب آئی۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ وہ اسے چمکتی ہوئی زندہ آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس کے لب ہلے اور ایک ناقابلِ فہم آواز نکلی۔ پھر اس کی آنکھیں بے بسی کے آنسوئوں سے بھرنے لگیں۔
کاسل کو ڈاکٹر کی بات یاد تھی کہ ٹوبی کا دماغ سب کچھ سمجھنے پر قادر ہے البتہ وہ کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرسکتا۔ وہ پلنگ کی پٹی پر اس کے نزدیک بیٹھ گئی اور اس سے مخاطب ہوئی۔ ’’ٹوبی! میں چاہتی ہوں کہ تم میری بات بہت غور سے سنو۔ تم نے اس بیڈ کی قید سے نکلنا ہے۔ تم چلو گے، تم باتیں کرو گے۔‘‘
ٹوبی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کاسل بڑے یقین سے کہہ رہی تھی۔ ’’تم یہ سب کرو گے۔ میری خاطر… میرے لیے…‘‘ (جاری ہے)