Saturday, December 14, 2024

Millan | Episode 6

کاسل کے دل میں ڈیوڈ کی محبت نے ہلچل مچا رکھی تھی۔ اس سے محبت کرنے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ وہ بہت تہذیب یافتہ تھا۔ دوسروں کو سمجھنے کا شعور رکھنے والا اور خوبصورت تھا۔ اس نے کبھی اس جیسا بہترین انسان نہیں دیکھا تھا۔ جب کاسل اپنا کام ختم کرلیتی تو وہ کہیں نہ کہیں ضرور ملتے۔ ڈیوڈ دوسرے لڑکوں سے مختلف تھا۔ اس نے کبھی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کاسل اس کی محبت میں کھو گئی تھی۔ جس دن اس سے ملاقات نہیں ہوتی، وہ سارا دن بے چین رہتی۔ وہ تو شاید ازل سے ڈیوڈ کی محبت میں گرفتار تھی۔ لیکن جیسے جیسے ملاقاتیں بڑھ رہی تھیں، کاسل کو یقین آتا جارہا تھا کہ ڈیوڈ وقت نہیں گزار رہا بلکہ اس کے دل میں بھی اس کی محبت ہے۔ وہ اظہار تو نہیں کرتا تھا لیکن کاسل کو اس کا ہر لفظ، ہر ادا بس اظہار ہی لگتی تھی۔ وہ ہر موضوع پر اس سے بات کرتا تھا۔ بعض اوقات وہ اپنے مسائل پر بھی اس سے بات کرتا تھا۔ ’’ماں چاہتی ہے کہ میں اپنا خاندانی کاروبار سنبھال لوں لیکن میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا کہ کیا مجھے اپنی زندگی اسی کاروبار کی نذر کردینی ہے۔‘‘ ان کا خاندانی کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا۔ ان کے پاس تیل کے کنویں، مویشیوں کے فارم، زمینیں، ہوٹل اور بینک بھی تھے۔ ’’ڈیوڈ! کیا تم ماں کو انکار نہیں کرسکتے؟‘‘ کاسل نے پوچھا۔ ڈیوڈ نے سر جھٹکا۔ ’’تم میری ماں کو نہیں جانتیں!‘‘ کاسل، ڈیوڈ کی ماں سے مل چکی تھی۔ وہ ایک دبلی پتلی سی، بیمار عورت تھی۔ اس کے تین بچے تھے۔ جنہیں جنم دینے کے لیے اسے بہت سی بیماریوں سے گزرنا پڑا تھا اور یہی بات اس نے اپنے بچوں کے دل میں بٹھا دی تھی کہ انہیں اس دنیا میں لانے کے لیے اسے اپنی جان پر کھیلنا پڑا تھا۔ اسی لیے اس کا اپنے بچوں پر بہت اثر تھا۔ ’’میں خودمختار زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن میں ماں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا۔ دراصل ڈاکٹر نے ہمیں بتایا ہے کہ ماں زیادہ عرصے ہمارے درمیان نہیں رہے گی۔‘‘ کاسل بھی اسے اپنے خوابوں کے بارے میں بتاتی رہتی تھی۔ ایک روز اس نے ڈیوڈ سے کہا کہ وہ اداکارہ بننا چاہتی ہے۔ فلم انڈسٹری میں بلند مقام حاصل کرنا اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ ’’نہیں! میں تمہیں کبھی فلموں میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔ یوں جیسے اس کی زندگی پر حق رکھتا ہو۔ کاسل کا دل محبت سے بھر گیا۔ اسے ڈیوڈ کا اس طرح کہنا اور اس کی زندگی پر حق جتانا، اسے اچھا لگا تھا۔ ایک روز وہ بڑی سنجیدگی سے بولا۔ ’’کاسل! میں تمہیں کوئی امید تو نہیں دلانا چاہتا لیکن میں تم سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ جب تک ہماری دوستی ہے۔ تم کسی اور لڑکے سے دوستی نہیں کرو گی۔‘‘ اور پھر یہ بات اس کے لیے ایک عجیب سنسنی لے کر آئی۔ ڈیوڈ نے اسے بتایا۔ ’’میں اگلے مہینے چوبیس برس کا ہوجائوں گا۔ یہ ہماری خاندانی روایت ہے کہ چوبیس سال کی عمر میں لڑکے شادی کرلیتے ہیں۔‘‘ کاسل کا دل بڑے زور سے دھڑکا۔ پھر وہ اس کی منتظر ہی رہی کہ آگے کیا کہتا ہے لیکن وہ چپ رہا اور پھر دوسرے موضوع چھڑ گئے۔ اگلے روز وہ تھیٹر کے دو ٹکٹ لے کر آیا مگر تھیٹر کی طرف جاتے ہوئے وہ آدھے راستے میں بولا۔ ’’چھوڑو تھیٹر کو کاسل۔ چلو ہم کچھ اپنے مستقبل کی بات کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات سن کر کاسل کا اَنگ اَنگ خوشی سے جھوم اٹھا۔ اسے یقین آگیا کہ اس نے جو دعائیں مانگی تھیں۔ وہ قبول ہوگئی ہیں۔ اسے ڈیوڈ کی آنکھوں میں محبت نظر آرہی تھی۔ ’’آئو ڈیوڈ! ندی پر چلتے ہیں۔‘‘ کاسل نے اشتیاق سے کہا۔ یہ ایک چھوٹی سی ندی تھی۔ رات بہت خوبصورت تھی۔ چاند ستاروں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا سیاہ رات کی پیشانی پر جھومر کی طرح چمک رہا تھا۔ کاسل اور ڈیوڈ دونوں خاموش گاڑی میں بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کے دل کی باتیں سن رہے تھے۔ کاسل ڈیوڈ کے حسین چہرے پر نگاہ ڈالتی تو وہ اسے کچھ فکرمند دکھائی دیتا تھا۔ وہ اسی طرح بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ ڈیوڈ نے کچھ کہا اور نہ کاسل ہی اپنے جذبوں کو زبان دے سکی۔ رات بھیگتی رہی۔ پھر ڈیوڈ نے گاڑی اسٹارٹ کی اور روز کی طرح اسے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ کاسل ترستی رہ گئی کہ وہ اس سے اظہارِ محبت کرے یا شادی کی پیشکش کرے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مگر کاسل کے دل میں امید کی شمع روشن تھی۔ اسے یقین تھا کہ آج نہیں تو کل، وہ اسے شادی کی پیشکش ضرور کرے گا۔ یہ خیال اس کے تراشیدہ گلابی لبوں پر مسکراہٹ بن کر کھل اٹھا تھا۔ اگلے روز وہ دیر تک سوتی رہی یہاں تک کہ اس کی ماں نے اسے بیدار کیا۔ ’’کاسل۔ اٹھو۔ دن چڑھ آیا ہے۔ تم مسٹر بیکر سے مجھے بارہ گز ریشمی ٹیول لا دو۔ دیکھو مسز ٹاپنگ نے ابھی مجھے یہ لباس لا کر دیا ہے۔ یہ ان کا عروسی لباس ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں اسے ان کی بہو کے لیے تیار کردوں۔‘‘ ’’بہو!‘‘ کاسل کا سانس نیچے کا نیچے اور اوپر کا اوپر رہ گیا۔ ’’ہاں۔ مجھے یہ عروسی لباس ہفتے تک تیار کرنا ہے سِسی کے لیے… سِسی اور ڈیوڈ کی شادی ہورہی ہے نا!‘‘ کاسل سن سی ہوکر رہ گئی۔ اسے اپنی سماعت پر اعتبار نہیں آیا۔ ڈیوڈ اتنا خود غرض ہوسکتا ہے، وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے اسے ہر بات سے لاعلم رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ جھوٹی محبت کا کھیل کھیلتا رہا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی جو پہلا خیال اس کے دل میں آیا وہ یہ تھا کہ اب اسے یہاں نہیں رہنا۔ وہ ڈیوڈ کی شادی کے بارے میں مزید کچھ نہیں سننا چاہتی تھی۔ اسے اپنا سانس گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے کچھ کپڑے بیگ میں ٹھونسے لیکن اس کے ذہن میں کچھ نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔ اس کے دماغ میں بس یہ دھن سمائی تھی کہ اسے ہر حال میں یہاں سے چلے جانا ہے۔ جب وہ اپنے بیڈ روم سے نکل رہی تھی تو اس کی نگاہ دیوار پر لگی ہوئی ان تصویروں پر پڑی جو مشہور اداکاروں کی تھیں تو اس کا ذہن بالکل صاف ہوگیا کہ اسے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ تقریباً دو گھنٹے بعد وہ اس بس پر بیٹھی ہوئی تھی جو اسے رنگ و نور کی دنیا میں لے جانے والی تھی۔ اس کا چھوٹا سا شہر جہاں اس نے زندگی کے کتنے ہی سال گزارے تھے۔ جہاں اس نے ڈیوڈ سے محبت کی تھی۔ اب سب کچھ اس کے ذہن سے نکل گیا تھا۔ اس کی توجہ اب اس منزل کی جانب تھی جہاں اسے ایک بڑی اسٹار بننا تھا۔ ان سب کو دکھانا تھا جو اس کی غربت کی وجہ سے اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑتی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ ڈیوڈ کی آواز نے ایک پل میں ماضی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر حال میں واپس بلا لیا تھا۔ یہ پکارنے والا کون تھا، اسے اچھی طرح علم تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ جادو ایک مرتبہ پھر اسے اپنی گرفت میں لینے لگا۔ ڈیوڈ کیوں اس کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے کاسل!‘‘ کاسل کو لگا جیسے اس کا دل دھڑکتے دھڑکتے رک جائے گا۔ یہ وہ واحد شخص تھا جسے اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ وہ قریب آکر بولا۔ ’’پلیز! کیا تم میرے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھو گی؟‘‘ ’’ہاں!‘‘ کاسل کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ ریسٹورنٹ کافی بڑا تھا جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ لیکن وہ ایک گوشے میں ایک میز تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ پہلا سوال کاسل نے کیا۔ ’’میں یہاں بزنس کے سلسلے میں آیا تھا۔‘‘ وہ بولا۔ تب تک ویٹر آگیا۔ ڈیوڈ نے آرڈر دیا۔ کاسل پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ ’’سِسی کا کیا حال ہے؟‘‘ ڈیوڈ نے سر اٹھایا۔ ’’کچھ سال پہلے ہمارے درمیان طلاق ہوچکی ہے۔‘‘ پھر اس نے جیسے خود ہی موضوع بدل دیا۔ ’’میں تمہارے بارے میں ہمیشہ باخبر رہتا ہوں کہ تم کہاں ہو، کیا کررہی ہو۔ میں بچپن سے ہی ٹوبی ٹیمپل کا پرستار رہا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ وہ صحت یاب ہوگیا ہے۔ جب اسے اسٹروک ہوا تھا تو میں بہت فکرمند ہوگیا تھا۔‘‘ وہ بول رہا تھا اور کاسل دیکھ رہی تھی کہ آج بھی اس کی آنکھوں میں اس کے لیے وہی محبت، وہی طلب اور چاہت تھی۔ ’’ٹوبی نے ان دنوں بہت اچھے شو کیے ہیں۔ زبردست…!‘‘ ’’تم وہاں تھے؟‘‘ کاسل نے استعجاب سے کہا۔ ’’پھر تم ہم سے ملنے اسٹیج کے پیچھے کیوں نہیں آئے؟‘‘ وہ کچھ ہچکچا کر بولا۔ ’’میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر مجھے یہ بھی خیال تھا کہ نہ جانے تم مجھ سے ملنا چاہو گی یا نہیں۔‘‘ ویٹر ایک ٹرے میں ان کا آرڈر لے آیا تھا۔ ڈیوڈ نے ایک گلاس کو اونچا اٹھایا۔ ’’تمہارے اور ٹوبی کے نام…‘‘ اس نے بظاہر خوش دلی سے کہا لیکن اس کی تہہ میں افسردگی تھی۔ ’’تم ہمیشہ اسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہو؟‘‘ ’’نہیں۔ لازمی نہیں لیکن اس بار میں اس لیے یہاں ٹھہر گیا تھا کہ مجھے توقع تھی کہ تم لوگ بھی یہیں ٹھہرو گے اور میں کبھی نہ کبھی تم سے اچانک ہی مل سکوں گا۔ تم جانتی ہو کہ میں یہاں پانچ دن سے ٹھہرا ہوا ہوں تمہارے انتظار میں۔‘‘ ’’مگر کیوں ڈیوڈ؟‘‘ وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔ ’’میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ میں سِسی کے ساتھ شادی کرنے پر کس طرح مجبور ہوا تھا۔ میں اگلے ہی روز تمہارے گھر گیا تھا مگر تمہاری ماں نے مجھے بتایا کہ تم جا چکی ہو اور اس کے بعد کبھی ایسا موقع نہیں ملا کہ میں اپنی صفائی پیش کرسکتا۔ میرے دل میں جو بات مچل رہی تھی۔ میں اسے تم تک پہنچانا چاہتا تھا۔‘‘ کاسل کچھ بھی نہیں کہہ سکی۔ اس کی زندگی تو برباد ہو ہی چکی تھی تو اب اس بات کو جاننے سے کیا حاصل ہوسکتا تھا۔ وہ گہری سانس لے کر بولا۔ ’’جب میں نے تمہارے بارے میں ماں سے بات کی تو وہ بالکل رضامند نہیں ہوئیں۔ ان کا اصرار تھا کہ میں سِسی سے ہی شادی کروں۔ میں نے جب انکار کیا تو شدت جذبات سے ان کی سانس اکھڑ گئی۔ ڈاکٹر کے آجانے سے ان کی حالت تو سنبھل گئی لیکن ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ان کی زندگی کے چند ہفتے باقی ہیں۔ اس لیے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف نہ کی جائے۔ مجھے مجبوراً ماننا پڑا۔ لیکن میں سِسی سے ملا اور اس سے وعدہ لیا کہ یہ شادی صرف دکھاوے کی ہوگی۔ ماں کے بعد اسے مجھ سے علیحدہ ہونا ہوگا۔ وہ بہت آسانی سے مان گئی مگر بعد میں اس نے مجھے دھوکا دیا۔ مجھے خودکشی کرنے کی دھمکی دے کر اس نے الگ ہونے سے انکار کردیا۔ لیکن میری محبت ہمیشہ سے تم ہی ہو۔‘‘ کاسل ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ اس کی گفتگو سن رہی تھی جو ایک سہانے خواب کی تعبیر معلوم ہورہی تھی۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو اس کے دل کی سب سے بڑی تمنا تھی۔ وہ اس کے مقابل بیٹھا تھا۔ سراپا طلب بن کر اپنی آنکھوں میں پیار کی جوت جگائے لیکن ٹوبی اس کا حصہ تھا۔ اس کے وجود کا ایک حصہ…! جسے جدا کرنا ناممکن سا لگتا تھا۔ ایک آواز اس کے برابر سے سنائی دی۔ ’’مسز ٹیمپل۔ ہم آپ کو سارے ہوٹل میں تلاش کررہے تھے۔‘‘ وہ ہوٹل کا منیجر تھا۔ ’’اوہ! میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ڈیوڈ سے بولی۔ ’’مجھے صبح فون کرنا۔‘‘ ٭…٭…٭ ٹوبی کا آخری شو بے حد کامیاب تھا۔ اس میں اتنا جوش و خروش اور خوبصورتی تھی کہ تماشائیوں نے اس پر پھولوں کی بارش کردی۔ داد و تحسین کے نعروں سے تھیٹر کی چھت اڑنے لگی۔ انہوں نے کئی بار کھڑے ہوکر اسے داد دی۔ لوگوں نے پائوں فرش پر جما لیے اور جانے سے انکار کردیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ٹوبی کا شو ہمیشہ جاری رہے لیکن کبھی نہ کبھی تو اس کا اختتام ہونا تھا۔ جب شو ختم ہوا تو انتظامیہ کی طرف سے ٹوبی اور کاسل کے اعزاز میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا گیا۔ ٹوبی بہت تھک چکا تھا۔ وہ کاسل سے بولا۔ ’’سنو! تم پارٹی میں چلی جائو، میں ذرا کمرے میں جاکر آرام کرتا ہوں۔‘‘ کاسل کو اکیلے ہی پارٹی میں جانا پڑا لیکن وہ ڈیوڈ کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس کے ساتھ ہے۔ وہ پارٹی کے میزبانوں سے بات کررہی تھی۔ دوسرے لوگوں کی تعریف و توصیف کا شکریہ ادا کررہی تھی۔ پارٹی میں پوری طرح سے حصہ لے رہی تھی۔ مگر اس کا ذہن ڈیوڈ کے تصور میں کھویا ہوا تھا۔ اس کے مکالمے اس کی سماعت میں گونج رہے تھے۔ ’’میری شادی ایک غلط لڑکی کے ساتھ کردی گئی، بالآخر ہم دونوں میں طلاق ہونی ہی تھی۔ دیکھو میں نے کبھی تمہاری محبت اپنے دل سے نہیں نکالی۔‘‘ رات کے دو بج رہے تھے جب وہ ہوٹل واپس آئی۔ وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور یہ دیکھ کر اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی کہ ٹوبی فرش پر پڑا ہوا تھا۔ وہ بے ہوش تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ فون کی طرف بڑھا ہوا تھا۔ کاسل نے گھبرا کر ہوٹل کی انتظامیہ کو فون کیا۔ فوراً ہی ٹوبی کو ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال روانہ کردیا گیا۔ آدھی رات کو تین بہترین ڈاکٹروں نے ٹوبی کا معائنہ کیا۔ ہر ایک کاسل کے لیے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کررہا تھا۔ اسپتال والوں نے اپنے آفس کے ایک کمرے میں کاسل کو ٹھہرا دیا تھا جہاں وہ کسی اچھی خبر کا انتظار کررہی تھی اور اس کے دل میں وہی اندیشے سر اٹھا رہے تھے جن سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچی تھی۔ ایک طویل اور تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد وہ ٹوبی کو ایک مرتبہ پھر اسی مقام پر لے آئی تھی جہاں وہ شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ مگر اب کیا ہوگا؟ کچھ کہنا مشکل تھا۔ وقت کا ایک ایک لمحہ جیسے صدیوں پر بھاری ہورہا تھا۔ نہ جانے کتنے گھنٹے گزرے۔ پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر اندر داخل ہوا۔ ڈھیلے ڈھالے گائون میں وہ ناکامی کی تصویر نظر آرہا تھا۔ اس نے قریب آکر کاسل کو مخاطب کیا۔ ’’میں آپ کے شوہر کے کیس کا انچارج ہوں۔‘‘ ’’ٹوبی اب کیسا ہے؟‘‘ کاسل بے تابی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’مسز ٹیمپل! بیٹھ جایئے پلیز!‘‘ وہ نرمی سے بولا۔ کاسل کو اس کا احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولی۔ ’’جو کچھ بھی ہے، مجھے بتا دیں۔‘‘ ’’آپ کے شوہر کو اسٹروک ہوا ہے۔‘‘ ’’یہ کتنا شدید ہے؟‘‘ وہ جیسے سانس روک کر بولی۔ ’’یہ کافی خطرناک ہے مسز ٹیمپل! مجھے افسوس ہے۔ اگر وہ زندہ رہتے ہیں۔ جس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا تو وہ کبھی چل سکیں گے، نہ بول سکیں گے۔ ان کا دماغ اچھی حالت میں ہے لیکن جسم معذور ہوچکا ہے۔‘‘ ڈیوڈ کا فون آیا۔ ’’کاسل! میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ مجھے کتنا افسوس ہے۔ خود کو تنہا مت سمجھنا۔ تمہیں جب بھی میری ضرورت ہوگی۔ میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا۔‘‘ صرف یہی وہ جملے تھے جنہوں نے کاسل کو سہارا دیا۔ اس خوفناک خواب کی سی کیفیت میں جو اس پر طاری تھی اور لگتا تھا کہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ گھر تک کا سفر جیسے ایک اذیت ناک سفر تھا۔ ٹوبی تھا اور اس کا بیماری سے بھرا ہوا کمرہ… لیکن اس مرتبہ معاملہ مختلف تھا۔ وہ ایک زندہ لاش کی طرح تھا۔ جس کے جسم کا کوئی عضو کام نہیں کررہا تھا۔ وہ سانس لے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں حرکت تھی۔ اس کے علاوہ سب کچھ خاک ہوچکا تھا۔ کاسل نے گھر پہنچ کر فوری طور پر ٹوبی کے ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ پھر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ٹوبی کا معائنہ کیا۔ مگر نتیجہ وہی تھا۔ ٹوبی کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں تھی اور نہ ہی آنے کی کوئی امید تھی۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے نرسیں چوبیس گھنٹے موجود رہتی تھیں۔ کئی ماہر ڈاکٹر دن میں کئی بار اس کا معائنہ کرتے مگر سب لاحاصل تھا۔ ٹوبی کی رنگت زرد پڑتی جارہی تھی۔ اس کے بال مسلسل گر رہے تھے۔ اس کے چہرے کے کھنچائو کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ مسلسل مسکرا رہا ہے۔ اس کے چہرے میں صرف اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں ہی زندہ تھیں۔ جن میں چمک اور شعور تھا۔ جب بھی کاسل اس کے کمرے میں آتی تو ٹوبی کی آنکھیں اس کا پیچھا کرتی رہتیں۔ اس کی آنکھوں میں منت، طلب، بے چارگی اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔ وہ آنکھیں جیسے اس سے مطالبہ کرتی رہتی تھیں کہ وہ ایک بار پھر اسے چلنے پھرنے اور بولنے کے قابل بنا دے۔ کاسل خاموشی سے ان آنکھوں میں دیکھتی رہتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ دونوں ایک مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ وہ ٹوبی کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتی تھی۔ وہ اس مفلوج زندہ لاش کو نئی زندگی دینا چاہتی تھی لیکن اب شاید یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کردیا تھا اور اس میں اتنی جدوجہد کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ دن بھر فون کی گھنٹی بجتی رہتی تھی۔ اظہارِ ہمدردی کرنے کے لیے ٹوبی کے پرستار فون کرتے تھے۔ سب ایک ہی طرح کی باتیں کرتے تھے لیکن پھر ان سب سے مختلف فون آتا۔ جس کا اسے انتظار رہتا تھا۔ یہ ڈیوڈ تھا جو بڑے خلوص سے کہتا۔ ’’میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کاسل۔ میں تمہارے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ جو بھی تمہیں چاہیے جس کی تمہیں ضرورت ہو۔ مجھ سے کہنا۔ میں منتظر ہوں۔‘‘ کاسل کی نگاہوں میں اس کا سراپا گھوم جاتا۔ اونچا، لمبا، مضبوط، خوبصورت اور اسمارٹ ڈیوڈ اور اگلے کمرے میں لیٹا ہوا انسان جو عجیب الخلقت نظر آتا تھا۔ وہ لرز کر آنکھیں بند کرلیتی اور ڈیوڈ کا شکریہ ادا کرتی۔ ’’نہیں ڈیوڈ شکریہ۔ فی الحال کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ ’’یہاں کچھ اچھے ڈاکٹر بھی ہیں۔ میں انہیں تمہارے پاس لے کر آسکتا ہوں۔ وہ دنیا کے بہترین ڈاکٹر ہیں۔‘‘ کاسل کا حلق جیسے بند ہونے لگتا۔ وہ جو کچھ اس سے کہنا چاہتی تھی، نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ ڈیوڈ سے کہے کہ وہ اسے اس جگہ سے کہیں اور لے جائے۔ ایک پل دیر نہ کرے۔ اس کے پاس آجائے۔ مگر وہ یہ سب کیسے کہہ سکتی تھی۔ وہ تو ٹوبی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ وہ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتی تھی۔ جب تک کہ وہ زندہ تھا۔ ٹوبی کے ڈاکٹر نے پھر اس کا معائنہ کیا تھا۔ وہ کاسل کے پاس آیا تو کاسل نے بیقراری سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’کاسل ٹوبی کے بارے میں دو خبریں ہیں۔ ایک اچھی، ایک بری؟‘‘ ’’پہلے مجھے بری خبر سنائو۔‘‘ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ ٹوبی کے اعصابی نظام کو اتنا نقصان پہنچ چکا ہے کہ اب اس کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں رہا۔ وہ کبھی بول اور چل نہیں سکے گا۔ یہ ہماری حتمی رائے ہے۔‘‘ کاسل بغور اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر گہرا سانس لے کر بولی۔ ’’اور اچھی خبر؟‘‘ ’’ٹوبی کا دل بہت مضبوط ہے۔ اس کے دل کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ اگر اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی گئی تو وہ بیس سال تک بھی زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘ کاسل نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’بیس سال…!‘‘ کیا یہ اچھی خبر ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ ٹوبی جیسے لاچار مریض کے ساتھ کیا بیس سال گزارے جاسکتے تھے؟ کیا اس کے ساتھ بیس سال گزارنے والا زندہ رہ سکتا تھا۔ وہ اسے طلاق نہیں دے سکتی تھی۔ نہ اس سے علیحدہ ہوسکتی تھی۔ جب تک کہ وہ زندہ تھا۔ کوئی اس کی حالت نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کوئی اس کے دل کی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ وہ سب کی آئیڈیل تھی۔ جس نے پہلے بھی ٹوبی کی بیماری کو شکست دی تھی۔ وہ اب بھی اس سے یہی توقع رکھتے تھے۔ اگر وہ اس میں ذرا بھی کوتاہی کرتی تو سب اسے دھوکے باز اور بے وفا کہیں گے۔ اگر وہ اس کو چھوڑ دے گی تو عوام کی نگاہوں سے گر جائے گی۔ ڈیوڈ روز فون کرتا۔ وہ اس کی وفا اور بے غرض محبت کی تعریف کرتا جو اس کے دل میں ٹوبی کے لیے تھی۔ جس طرح وہ ٹوبی کے ساتھ خود کو وابستہ رکھے ہوئے تھی۔ ٹوبی جو ایک بیکار، کھوکھلے جسم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بظاہر دونوں اسی قسم کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ دونوں اس موضوع سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتے تھے۔ لیکن دونوں کے اندر جو ایک جذباتی کشش اور ایک دوسرے کے لیے لگن تھی۔ اس سے دونوں آگاہ تھے۔ ایک بات جسے دونوں میں سے کوئی نہیں کہتا تھا کہ جب ٹوبی مر جائے گا تو… ٭…٭…٭ چوبیس گھنٹوں میں تین مختلف نرسیں ٹوبی کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ وہ اپنے شعبے کی بہترین نرسیں تھیں۔ کاسل ان کی شکر گزار تھی کہ ان کی وجہ سے ٹوبی کی دیکھ بھال ہورہی تھی۔ اسے اس کی ضرورت نہیں تھی کہ ٹوبی کے قریب جائے۔ نہ ہی وہ اس کے قریب جانا چاہتی تھی۔ ٹوبی کے چہرے پر ایک ہولناک مسکراہٹ دیکھنا آسان نہیں تھا۔ اسی لیے وہ اس سے دور رہتی تھی اور نرسیں اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھیں۔ جب کبھی وہ خود کو اس کے کمرے میں جانے کے لیے مجبور کرتی اور ٹوبی کی آنکھیں اس پر مرکوز ہوتیں تو اس کی حالت میں ایک دم تبدیلی محسوس ہوتی جسے ڈیوٹی پر موجود نرس بھی محسوس کرلیتی۔ ٹوبی کی نیلی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی۔ اس کی خاموش آنکھیں بولنے لگتیں۔ کاسل اس کی آنکھوں کے ذریعے آنے والے تمام پیغامات کو سمجھ لیتی۔ یوں لگتا جیسے وہ بلند آواز میں سوچ رہا ہے۔ وہ مسلسل کہتا رہتا۔ ’’مجھے مرنے نہ دینا۔ میری مدد کرو۔ میری مدد کرو۔ اسی طرح جیسے پہلے تم نے مجھے بیماری کی ظالم گرفت سے مجھے چھڑا لیا تھا، اسی طرح ایک بار پھر وہ کرشمہ دکھا کر سب کو حیران کردو۔‘‘ کاسل اس کے بیڈ کے قریب کھڑی دل ہی دل میں اس سے کہتی رہتی۔ ’’میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ تمہیں ایسی مفلوج زندگی گزارنا پسند نہیں۔ پھر ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دو۔‘‘ اخباروں میں ایسی کہانیاں شائع ہونے لگی تھیں۔ جن میں ان بیویوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا جنہوں نے اپنی محبت کی طاقت سے اپنے شوہروں کی بیماریوں کو شکست دی تھی۔ انہیں نئی زندگی میں واپس لے آئی تھیں لیکن کاسل کو اب یہ سب کچھ بہت مشکل لگتا تھا۔ اس کے اندر وہ جذبہ ہی نہیں تھا کہ وہ پہلے کی طرح ٹوبی کی بیماری کے خلاف جدوجہد کرسکتی۔ اس کی اس مشکل میں اس کے ساتھ کھڑی ہوسکتی لیکن اس کے لیے اس احساس سے پیچھا چھڑانا ناممکن نہیں تھا کہ ٹوبی کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں اس کا پیچھا کرتی رہتی تھیں۔ کاسل گھر سے باہر جاسکتی تھی، نہ گھر کے اندر آزادی سے گھوم پھر سکتی تھی۔ وہ زیادہ تر خود کو اپنے بیڈ روم میں بند رکھتی۔ یوں جیسے باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ہی نہ ہو۔ اخباروں میں قیاس آرائیاں ہوتی تھیں کہ کیا اس بار بھی کاسل، ٹوبی کو بیماری سے نجات دلا سکے گی یا نہیں… لیکن کاسل جانتی تھی اب ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔ کوئی کرشمہ، نہ کوئی انہونی… اب ٹوبی کبھی ٹھیک نہیں ہوپائے گا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ٹوبی مزید بیس سال زندہ رہ سکتا ہے۔ اتنی لمبی مدت کیا ڈیوڈ اس کے لیے اتنا انتظار کر پائے گا؟ کیا وہ کوئی راستہ نکال سکے گا کہ کاسل کو اس قید سے رہائی مل سکے…! ٭…٭…٭ پھر ایک روز اچانک ایک عجیب بات ہوئی۔ اتوار کا روز تھا اور مسلسل بارش ہورہی تھی۔ جس کی وجہ سے نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ہر طرف اداسی مسلط تھی۔ مسلسل بارش کا شور۔ کاسل کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ آوازیں اسے پاگل کردیں گی۔ وہ اپنے بیڈ روم میں تھی اور کتاب پڑھنے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ نرس دستک دے کر کمرے میں آئی جو رات کی ڈیوٹی پر تھی۔ اس نے کہا۔ ’’اوپر کمرے کا برنر کام نہیں کررہا۔ مجھے نیچے کچن میں مسٹر ٹوبی کا ڈنر تیار کرنا ہوگا۔ کیا آپ کچھ دیر مسٹر ٹوبی کے کمرے میں جانا پسند کریں گی۔‘‘ کاسل کو نرس کی آنکھوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی کی جھلک صاف نظر آرہی تھی۔ یقیناً وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کیسی بیوی ہے جو اپنے بیمار شوہر کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتی۔ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’ہاں… ضرور… کیوں نہیں۔‘‘ کاسل نے کتاب ہاتھ سے رکھ دی اور ٹوبی کے بیڈ روم میں چلی گئی۔ جیسے ہی وہ بیڈ روم میں داخل ہوئی۔ اسے بُو سارے کمرے میں بھری ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے وہ دن یاد آگئے جب وہ ٹوبی کو تندرست کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ٹوبی کا سر ایک بڑے تکیے پر ٹکا ہوا تھا۔ وہ نیم جان سا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اسے کاسل کی آہٹ محسوس ہوئی۔ یکدم اس کی آنکھیں زندہ ہوگئیں۔ اور ان آنکھوں سے سوالات کی بوچھار سی ہونے لگی۔ ’’تم کہاں تھیں؟ تم میرے قریب کیوں نہیں آتیں؟ مجھ سے دور کیوں رہتی ہو؟ مجھے تمہاری ضرورت ہے کاسل! میری مدد کرو۔ میری مدد کرو۔‘‘ کاسل کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں بولنے لگی ہیں۔ وہ دل ہی دل میں بار بار کہنے لگی۔ ’’نہیں! تم کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ اب تم مرو یا جیو، مجھے تمہاری کوئی
پروا نہیں۔ تمہیں مر جانا چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم جلد مر جائو تاکہ اس قید خانے سے میری جان چھوٹ جائے۔‘‘ وہ بے خیالی میں یہ سب سوچتی ہوئی ٹوبی کی طرف دیکھ رہی تھی کہ یکدم اس کی نیلی آنکھوں کے تاثرات تبدیل ہوگئے۔ ان آنکھوں میں شدید دھچکا اور بے یقینی نظر آنے لگی۔ پھر وہ آنکھیں نفرت سے بھر گئیں۔ اتنی شدید نفرت کہ کاسل غیر ارادی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ یکدم اسے محسوس ہوا کہ ٹوبی کی آنکھوں نے اس کے دلی تاثرات کو پڑھ لیا ہے۔ وہ ان سے واقف ہوچکا ہے۔ کاسل بغیر کچھ کہے دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کہیں صبح جاکر بارش تھمی۔ دن چڑھ آیا تو نرس نے ٹوبی کو وہیل چیئر پر بٹھا کر اس کے بیڈ روم سے نکالا تاکہ باغ میں لے جاکر کچھ دیر اسے دھوپ میں بٹھایا جائے۔ کاسل کو ٹوبی کی وہیل چیئر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ بھی نیچے اتری۔ اور جب وہ اس کے برابر سے گزر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ کاسل نے اندر جاکر فون اٹھایا۔ دوسری طرف ڈیوڈ تھا۔ ’’کیسی ہو تم کاسل۔‘‘ اس نے پوچھا۔ آواز میں اپنائیت اور لگائو تھا۔ کاسل کی ہمت بندھی۔ اسے اس وقت ڈیوڈ کی آواز سن کر جتنی خوشی ہوئی۔ اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ وہ بولی۔ ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ ’’دل چاہتا ہے کہ تم میرے ساتھ ہوتیں۔‘‘ ’’میں بھی یہی چاہتی ہوں۔ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں، یہ تمہیں بتا نہیں سکتی۔ اوہ ڈیوڈ! میں تمہیں… ‘‘ اچانک کاسل کے دل میں مڑ کر دیکھنے کی آرزو پیدا ہوئی اور وہ کانپ گئی۔ ٹوبی کی وہیل چیئر ہال میں تھی۔ وہ اس پر بیٹھا ہوا تھا۔ شاید نرس کسی کام سے گئی تھی اور اس کی وہیل چیئر کو یہاں کھڑا کر گئی تھی۔ ٹوبی کی نیلی آنکھیں اتنی نفرت اور مار ڈالنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ کاسل کو یوں لگا جیسے واقعی ٹوبی نے اسے بڑے زور کی ضرب لگائی ہے۔ ٹوبی آنکھوں کے ذریعے چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔ ’’میں تمہیں قتل کردوں گا۔ میں تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘ یہ سب کچھ اتنا حقیقی تھا کہ کاسل خوف سے لرز گئی۔ وہ ان آنکھوں کے حصار سے نکلنے کے لیے دوڑی۔ بھاگ کر سیڑھیاں چڑھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ ٹوبی کی نفرت کسی شیطانی طاقت کی طرح اس کا پیچھا کررہی ہے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوکر جلدی سے دروازہ بند کرلیا لیکن وہ آوازوں کے اس بھنور سے نہیں نکل سکی۔ وہ تمام دن اپنے کمرے میں بند رہی۔ اسے نہ کھانے کی پروا تھی نہ پینے کی۔ وہ کرسی پر بیٹھی ان لمحوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جب اس کی فون پر ڈیوڈ سے بات ہورہی تھی اور ٹوبی وہیل چیئر پر بیٹھا اس کی تمام باتیں سن رہا تھا۔ اس کے ذہن پر یہ بات سوار تھی کہ ٹوبی، ڈیوڈ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ اس میں اب ٹوبی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ یہی سوچتے سوچتے رات ہوگئی۔ بند کمرے میں کاسل کو گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ اس نے کمرے کی کھڑکیاں کھول دیں کہ تازہ ہوا اندر آئے تو شاید اس کے اندر کی گھٹن دور ہوسکے۔ وہ بہت تھک گئی تھی۔ چاروں طرف گہری خاموش تھی۔ صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔ کاسل اپنے بیڈ پر دراز ہوگئی کہ شاید نیند میں اسے کچھ سکون مل جائے۔ بہت دیر تک کروٹیں بدل بدل کر بالآخر سو گئی۔ نہ جانے کتنی دیر سوئی کہ اسے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔ وہ اور ڈیوڈ جیسے کسی برف سے بھری ہوئی وادی میں تھے۔ جہاں کاٹ دینے والی تند و تیز سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ اس نے ڈیوڈ سے کہنا چاہا کہ انہیں فوراً یہاں سے نکل جانا چاہیے لیکن ڈیوڈ وہاں نہیں تھا۔ وہ نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ وہ برف کی اس وادی میں تنہا رہ گئی تھی۔ وہ ڈیوڈ کو آواز دینے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ کھانسی کی وجہ سے اس کا دم نکلا جارہا تھا۔ عجیب سی آوازوں سے کاسل کی نیند کھل گئی۔ یہ جان کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ یہ ہولناک آوازیں اس کے حلق سے نکل رہی تھیں یوں جیسے کوئی اس کا گلا دبا رہا ہو۔ ایک خنک دھند نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ کمبل کی طرح اس کے چاروں طرف لپٹی ہوئی تھی۔ کاسل کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ اس کے دھڑکنے کی آواز اسے سنائی دے رہی تھی۔ برف جیسی ٹھنڈک اس سے لپٹتی جارہی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کوئی نامعلوم طاقت اسے اٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ کوئی ان دیکھا بوجھ اسے نیچے دبائے ہوئے تھا۔ کاسل کا ذہن سمجھ رہا تھا کہ یہ حقیقت نہیں خواب ہے مگر اس کے پھیپھڑے ہوا کی کمی سے پھٹے جارہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مر رہی ہے۔ لیکن کیا کوئی خواب کی حالت میں بھی مر سکتا ہے۔ وہ سوچ رہی تھی۔ پھر اچانک اس پر یہ منکشف ہوا کہ اس کے آس پاس ٹوبی ہے۔ وہ اس کا گلا گھوٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ اس کی ہر مزاحمت کو بیکار بنا رہا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی اس نے اپنی مزاحمت کو شدید کردیا۔ وہ پورا زور لگا کر اٹھی اور اپنے پیروں پر بمشکل کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف لپکی۔ وہ ٹھنڈک بھری دھند اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ وہ ہال میں پہنچ کر تیزی سے سانس لینے لگی۔ ہال کمرے کے مقابلے میں گرم تھا۔ ہر طرف گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس گرم ماحول میں بھی کاسل کے دانت بری طرح بج رہے تھے اور وہ کوشش کے باوجود ان پر قابو نہیں پا رہی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے کمرے کی طرف دیکھا۔ چوپٹ کھلے ہوئے دروازے سے اسے اپنا کمرہ پرسکون اور پہلے جیسا لگ رہا تھا۔ یقیناً یہ سب ایک ڈرائونا خواب تھا۔ کاسل نے ہمت کی اور اپنے کمرے میں آگئی۔ اب وہاں سردی تھی، نہ خنکی اور نہ دھند… اس کا کمرہ بھی گرم تھا۔ کاسل نے اپنی ہمت بڑھائی کہ اسے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے جو کچھ محسوس کیا، وہ ایک خواب تھا۔ ٹوبی اپنے کمرے میں مفلوج پڑا تھا۔ وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ پھر خوفناک خواب اسے ہر رات نظر آنے لگا۔ وہ گھر کے جس حصے میں بھی جاتی، اسے محسوس ہوتا کہ ٹوبی کہیں قریب ہی موجود ہے۔ جب نرس اسے باہر دھوپ میں لے جاتی تو ٹوبی کی وہیل چیئر کی آواز اتنی بلند ہوجاتی کہ کاسل کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی۔ یہ آواز کاسل کے اعصاب پر سوار ہوجاتی۔ وہ خود کو ٹوبی کے کمرے سے بہت دور رکھتی لیکن اس کے باوجود وہ اس کی موجودگی کو ہر جگہ محسوس کرتی۔ اسے لگتا کہ وہ گھر کے ہر حصے میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا ہے۔ وہ پناہ کی تلاش میں سارے گھر میں کسی روح کی طرح پھرتی، ملازمہ کے کمرے میں جاپہنچی۔ وہ کمرہ رہائش سے کچھ دور تھا۔ کمرہ گرم اور سنسان تھا۔ کاسل غیر ارادی طور پر وہاں بچھے ہوئے بستر پر دراز ہوگئی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اسی لمحے گہری نیند سو گئی۔ نہ جانے وہ کتنی دیر سوئی رہی۔ پھر وہ سرد ہوا کے چاروں طرف سرسرانے سے ہوشیار ہوئی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سرد ہوا باربار اس پر حملہ آور ہورہی ہے۔ کاسل گھبرا کر اٹھی اور دوڑ کر دروازے سے باہر نکل گئی۔ دن جیسے خوف سے بھر گئے تھے۔ راتیں اس سے بدتر تھیں۔ ہر روز ایک ہی خواب اس کا پیچھا کررہا تھا۔ وہ رات کو بستر پر لیٹتی تو کوشش کرتی کہ جاگتی رہے تاکہ وہ خواب اسے نظر نہ آئے۔ اس پر یہ خوف طاری ہوگیا تھا کہ جیسے ہی وہ سوئے گی ٹوبی اس کے کمرے میں آجائے گا۔ سردی کی منجمد کردینے والی کیفیت اسے اپنی گرفت میں لے لے گی۔ وہ بیڈ پر پڑی سردی سے کانپتی، ٹھٹھرتی رہے گی لیکن اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ ایک شیطانی طاقت اسے چاروں طرف سے گھیرے گی۔ وہ خوف میں شرابور ہوکر بمشکل اٹھ کر کمرے سے باہر نکل پائے گی کہ اس خوف سے پیچھا چھڑا سکے۔ یونہی ایک رات وہ کرسی پر بیٹھی، دیر تک پڑھنے میں مصروف رہی۔ وہ بیڈ پر لیٹنے سے ڈرنے لگی تھی۔ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئی۔ رات کے تین بج رہے تھے پھر وہ نیند سے آہستہ آہستہ باہر آئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کے چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا۔ وہ لرز گئی۔ ایسا کیوں تھا۔ اسے یاد تھا کہ جب وہ سوئی تھی تو تمام لائٹیں جل رہی تھیں۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے اپنا حوصلہ بڑھایا کہ اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یقیناً نرس اس طرف سے گزری ہوگی تو اس نے بتیاں بجھا دی ہوں گی۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد اسے ایک آواز سنائی دی۔ کریک… کریک… کریک… یہ ٹوبی کی وہیل چیئر کی آواز تھی جو اس کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کاسل کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ باربار خود کو سمجھانے لگی کہ یہ کسی شاخ کی رگڑ کی آواز ہے جو کھڑکی کے ساتھ ٹکرا رہی ہے مگر وہ اس آواز کو نظرانداز نہیں کرپا رہی تھی۔ یہ موت کے ایک ہولناک نغمے کی طرح اس کے بیڈ روم کی طرف بڑھتی آرہی تھی۔ اس کا گلا دبانے کے لیے، اسے قتل کرنے کے لیے… ٹوبی کی آنکھوں نے جو خوفناک پیغام دیا تھا۔ وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS