Sunday, April 27, 2025

Millan | Last Episode

ایک پل خوف سے کاسل کو ٹھنڈے پسینے آنے لگتے اور دوسرے پل وہ خود کو تسلی دیتی کہ ٹوبی کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ وہ اپنے کمرے میں بے بس پڑا ہوا ہے۔ یہ شاید میرے دماغ کی اختراع ہے۔ شاید میرا دماغ غلط سمت چل پڑا ہے لیکن وہیل چیئر کی آواز قریب سے قریب تر آتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بالکل دروازے کے باہر آکر رک گئی جیسے دروازہ کھلنے کے انتظار میں ہو۔ پھر یکدم ایک شور ہوا جیسے کسی نے دروازے کو کھولنے کے لیے اسے سخت چیز سے ضرب لگائی ہے۔
کاسل لرز گئی۔ وہ سانس روک کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگی لیکن خاموشی گہری ہوگئی پھر کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ لیکن خوف سے کاسل کا حلق خشک ہوگیا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اس نے باقی تمام رات ڈرتے، کانپتے اسی کرسی پر گزار دی۔
پھر صبح ہوئی تو کاسل کو حوصلہ ہوا۔ وہ ہمت کر کے اٹھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ باہر ایک گلدان ٹوٹا پڑا تھا جو ہال کے ایک کونے میں ایک آرائشی میز پر سجا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
اس خوف نے کاسل کی بری حالت کردی تھی۔ اس کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ اسی صبح اس نے ٹوبی کے ڈاکٹر سے بات کی۔ وہ اپنے اندر کے اندیشوں کو دور کرنا چاہتی تھی تاکہ اس خوف کے اثر سے باہر نکل سکے۔
’’کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ دماغ، جسم پر کنٹرول حاصل کرسکے؟‘‘
’’مثلاً۔‘‘
’’مثلاً۔ اگر ٹوبی کی شدید خواہش ہو کہ وہ اپنے بستر سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلا جائے تو کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘
’’نہیں۔ اس حالت میں بالکل نہیں۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔
کاسل کو پھر بھی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ بولی۔ ’’اگر اس کا دماغ اٹل ارادہ کرلے کہ یہ کام کرنا ہے تو کیا وہ کرسکتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ہمارا دماغ جسم کو حکم تو ضرور دے سکتا ہے لیکن اگر جسم کا نظام اس قابل نہ ہو کہ حکم مان سکے تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔‘‘
’’کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ دماغ کی طاقت سے کسی چیز کو حرکت دی جاسکے؟‘‘
’’اس پر تجربات تو ہوئے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔‘‘
کاسل کی شدید خواہش تھی کہ ڈاکٹر کو ان خوابوں کے بارے میں بتائے جو حقیقت معلوم ہوتے تھے اور جو اسے پاگل کررہے تھے۔ اس کے کمرے کے باہر ٹوٹا ہوا گلدان اور ٹوبی کی وہیل چیئر کی آواز جو بالکل حقیقت معلوم ہوتی تھی لیکن پھر اس نے ڈاکٹر کو یہ سب بتانے کا ارادہ ترک کردیا۔ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ نفسیاتی مریض ہے۔
اگلے دن اس کی نگاہ آئینے پر پڑی تو وہ ٹھٹھک گئی۔ وہ اپنے عکس کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ یہ اسے کیا ہوگیا تھا۔ اس کے رخساروں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ اس کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں۔ رنگت بالکل زرد ہوگئی تھی۔ وہ سخت پریشان ہوئی کہ اگر اس کی یہی حالت رہی تو وہ ٹوبی سے پہلے مر جائے گی۔
اس نے فون اٹھایا اور ایک بیوٹی پارلر سے ٹائم لے لیا کہ خود کو اس قابل بنائے کہ ڈیوڈ کی محبت قائم رہے۔ اگلے روز وہ بیوٹی پارلر میں بیٹھی تھی۔ بیوٹیشن نے پہلے اس کے بالوں کی طرف توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
بالوں کو تھوڑا اسٹائل دے کر وہ انہیں ڈرائر سے سکھانے لگی۔ ڈرائر کی نیم گرم ہوا اور آرام دہ کرسی پر کاسل بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگی اور وہ ڈرائونا خواب پھر ایک بار شروع ہوگیا۔ اسے لگا جیسے وہ اپنے بیڈ روم میں ہے اور اس کے باہر ٹوبی کی وہیل چیئر دروازے سے آ لگی ہے۔ وہ دروازے پر کوئی چیز مار کر اسے توڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اپنی وہیل چیئر سے اٹھا۔ عجیب خوفناک ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘
کاسل ایک جھٹکے سے بیدار ہوئی۔ اس نے بیوٹی پارلر کا گائون دُور پھینکا اور چیختی ہوئی بیوٹی پارلر سے نکل آئی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس حالت کی وجہ کیا ہے؟ کہیں ٹوبی کی نفرت اس قدر تو نہیں بڑھ گئی کہ وہ اس کے دماغ پر حملہ کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ وہ اپنے دماغ کی لہروں سے اسے قتل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے کچھ کرنا ہوگا۔ اسے ٹوبی کے پاس جاکر دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔
کاسل نے بیڈ پر پڑے ہوئے ہڈیوں کے ڈھانچے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر احمقانہ مسکراہٹ تھی۔ جسم بالکل بے حس و حرکت تھا لیکن آنکھیں زندہ اور متحرک تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو۔ ’’میں تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘
کاسل بڑی بڑی نیلی آنکھوں کو بغور دیکھ رہی تھی اور اسے اپنے کمرے کے باہر ٹوٹے ہوئے گلدان کے ٹکڑے یاد آرہے تھے۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی آنکھوں کی دھمکیاں محض دھمکیاں نہیں۔ اس کے خواب محض خواب نہیں۔ ٹوبی اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نکال رہا ہے۔
٭…٭…٭
اگلے دن ڈیوڈ کی کال آئی۔ کاسل کو اس تنے ہوئے ماحول میں کچھ فرحت کا احساس ہوا۔ ’’میں اس ہفتے فون نہیں کرسکوں گا۔ میں ٹور پر جارہا ہوں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ کاسل نے تھکی تھکی سی آواز میں کہا۔
’’تم ٹھیک تو ہو کاسل…! تمہاری آواز بہت تھکی تھکی سی لگ رہی ہے؟‘‘
کاسل کے لیے خود کو سنبھالنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ وہ صحیح طور پر کچھ کھا پی رہی تھی نہ ہی اسے نیند آرہی تھی۔ اسی لیے اس کی حالت ابتر تھی۔
’’میں ٹھیک ہوں ڈیوڈ۔‘‘ اس نے بمشکل کہا۔
’’اپنا خیال رکھو۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
’’تم بھی یہ جان لو ڈیوڈ کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ میں تمہاری خاطر اپنا خیال رکھوں گی۔‘‘ اس نے فون رکھا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی اور ٹوبی کے کمرے میں داخل ہوئی۔
نرس، ٹوبی کے بیڈ کے قریب بیٹھی کچھ کام کررہی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی۔ ’’مسٹر ٹوبی بھی آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہیں نا مسٹر ٹوبی…!‘‘ ٹوبی اس وقت تکیوں کے سہارے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں کاسل کو دیکھتے ہی اپنا پیغام پوری شدومد سے دہرانے لگتی تھیں۔ ’’میں تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘
کاسل نے نرس کو مخاطب کیا۔ ’’میں محسوس کررہی ہوں کہ میں اپنے شوہر کو اتنا وقت نہیں دے رہی جتنا دینا چاہیے۔ میں ٹوبی کے ساتھ تنہا رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ نرس نے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا۔ ’’بہت خوب! یہ مسٹر ٹیمپل کے لیے بہت اچھا ہوگا۔‘‘
کاسل خاموش کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ اسے نرس کی گاڑی کے گیٹ سے نکلنے اور گیٹ کے بند ہونے کی آواز سنائی دی تو ٹوبی کی طرف پلٹی۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کاسل اس کی نگاہوں سے نگاہیں ملائے بغیر آگے بڑھی اور اس کے مفلوج جسم پر پڑی ہوئی چادر کو ہٹایا۔ اس کی وہیل چیئر ٹوبی کے بیڈ کے قریب لے آئی اور اسے اس طرح رکھا کہ اسے ٹوبی کو بٹھانے میں آسانی ہو۔ کاسل اسے اٹھانے کے لیے جھکی تو یوں لگا جیسے ٹھنڈی برف جیسی دھند اس کے گرد لپٹ رہی ہے۔ اسے اپنے حصار میں لے رہی ہے۔ وہ کانپ گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے شرارے سے ناچنے لگے۔ اسے یوں لگا جیسے وہ ابھی بے ہوش ہوکر گر پڑے گی لیکن اس نے ہمت کی۔ خود کو سنبھالا اور پورا زور لگا کر ٹوبی کے مفلوج جسم کو بمشکل گھسیٹ کر وہیل چیئر پر ڈالا اور اس کے گرد اسٹریپ کس دیے اور وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی راہداری میں آگئی اور لفٹ میں داخل ہوگئی۔ وہ وہیل چیئر کے عقب میں کھڑی رہی تاکہ ٹوبی کا چہرہ نہ دیکھ سکے لیکن وہ محسوس کررہی تھی کہ ٹھنڈی برف ہوا بھی اس کے ساتھ لفٹ میں داخل ہوگئی ہے جس نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا ہے۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ اسے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا مشکل ہوگیا۔ وہ گھٹنوں کے بل گر پڑی۔ ہانپتے ہوئے وہ خود کو ہوشیار رکھنے کے جتن کرنے لگی۔ وہ لفٹ میں مفلوج ٹوبی کے ساتھ جیسے قید ہوکر رہ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا اور وہ چند سیکنڈ کا وقت کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔
کاسل باہر آئی اور کچھ دیر گہرے سانس لیتی رہی۔ دھوپ اور روشنی نے اسے سہارا دیا۔ ٹوبی وہیل چیئر پر بیٹھا خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا انتظار کررہا تھا۔ کاسل نے جلدی سے آگے بڑھ کر ٹوبی کی وہیل چیئر کو لفٹ سے باہر نکالا اور سوئمنگ پول کی طرف چل پڑی۔
یہ ایک خوبصورت چمکیلا دن تھا۔ آسمان نیلا اور بادلوں سے خالی تھا۔ فضا میں ہلکی سی حدت تھی جو جسم کو اچھی لگ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا سورج پول کے نیلے پانی پر اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔
کاسل وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی پول کے اس طرف آگئی جہاں پانی زیادہ گہرا تھا۔ ٹوبی کی نیلی آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں سوچ اور الجھن تھی۔ کاسل نے ٹوبی کے گرد بندھے ہوئے اسٹریپ اتنے زیادہ کس دیے تھے جتنے وہ کس سکتی تھی۔ ٹوبی کی نیلی آنکھوں کے تاثرات یکدم بدلے جیسے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کیا کرنے جارہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں وحشت، خوف اور پریشانی نے ہلچل مچا دی۔
کاسل نے وہیل چیئر کے بریک کو کھول دیا۔ وہیل چیئر کے ہینڈل پکڑے اور اسے پانی کی طرف دھکیلنے لگی۔ ٹوبی اپنے مفلوج لبوں کو ہلانے کی کوشش کرنے لگا۔ یوں جیسے چیخنا چاہتا ہو۔ شور مچانا چاہتا ہو لیکن اس کے ہونٹوں سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ کاسل اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ کسی بات کو جاننا یا سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کرسی کو دھکیل کر بالکل پول کے کنارے پر لے آئی۔ وہ اسے آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن لگتا تھا جیسے کوئی اَن دیکھی طاقت اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔ کاسل نے اپنا پورا زور لگا دیا مگر وہیل چیئر کو آگے نہیں بڑھا سکی۔
کاسل کو لگ رہا تھا جیسے ٹوبی اٹھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اپنی زندگی بچانے کے لیے وہ آخری حد تک جانا چاہتا ہے۔ وہ خود کو آزاد کرا کر اس کی گردن دبوچ لینا چاہتا ہے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دماغ چیخ رہا ہے۔ ’’نہیں… نہیں… میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
گھبراہٹ میں کاسل نے وہیل چیئر کو زور سے دھکیلا۔ اس کے پہیے اٹکتے، رکتے آگے بڑھے۔ کاسل نے مزید زور لگایا تو یکدم وہیل چیئر پھسلتی ہوئی پول میں جاگری۔ وہ گہرائی میں جاکر پھر اوپر آئی اور پول کی سطح پر تیرنے لگی۔ پھر آہستہ آہستہ پول کی تہہ میں چلی گئی۔ کاسل کو ٹوبی کی آنکھیں نظر آئی تھیں جو اسے تہس نہس کردینا چاہتی تھیں۔
کاسل بہت دیر تک پول کے کنارے کھڑی اپنی ہمت کو یکجا کرتی رہی۔ جب اس میں کچھ طاقت آئی تو وہ سیڑھیاں اتر کر پول میں داخل ہوئی کہ اپنے کپڑوں کو گیلا کرسکے۔ اس کے بعد وہ گھر کے اندر آئی اور پولیس کو ٹیلیفون کردیا۔
٭…٭…٭
ٹوبی ٹیمپل کی موت کی خبر تمام اخباروں میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ ٹوبی اگر اپنے پرستاروں کا ہیرو تھا تو کاسل ہیروئن تھی۔ دونوں کے بارے میں سیکڑوں مضامین شائع ہوئے۔ دونوں کی تصویروں کی اشاعت میڈیا کی سب سے بڑی ترجیح بن گئی تھی۔ ان دونوں کی محبت کی کہانی باربار دہرائی گئی۔ اس پیار بھری کہانی کا المیہ اختتام اس کہانی کو پرتاثیر بنا رہا تھا۔ عوام کی ہمدردیاں کاسل کے ساتھ تھیں۔ ہزاروں کی تعداد میں خطوط، پیغامات اور کارڈ آئے۔ لوگ ٹوبی کی موت کو اپنا ذاتی نقصان سمجھ رہے تھے۔
ایک طرف یہ خراج تحسین تھا۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ جس کی ہر تاریخ پر کمرئہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ سب کاسل کو دیکھنے کے لیے بیتاب ہوتے تھے۔ اس کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹوبی کے پرستار عدالت سے باہر بھی کھڑے رہتے تھے۔
کاسل سادہ سیاہ لباس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئی۔ اس کا دلکش چہرہ میک اَپ سے عاری تھا۔ اس کے باوجود وہ کبھی اتنی حسین نہیں لگی جتنی وہ اس وقت نظر آرہی تھی۔ ٹوبی کے فوت ہونے کے چند ہفتوں بعد ہی وہ پہلے جیسی حسین نظر آنے لگی تھی۔ مہینوں بعد اسے پرسکون نیند آنے لگی تھی۔ اسے بھوک لگنے لگی تھی۔ اس کی بے چینی اور خوف بھی ختم ہوگیا تھا۔ وہ ایک مصیبت جس نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا اب اس سے جان چھوٹ گئی تھی۔
اس کی ڈیوڈ سے ہر روز فون پر بات ہوتی تھی۔ وہ مقدمے کے دوران عدالت میں آنا چاہتا تھا لیکن کاسل نے اسے تنبیہ کی تھی کہ وہ عدالت سے دور رہے۔ ایسا نہ ہو کہ پریس والے کوئی اسکینڈل بنا دیں۔ مقدمے کے بعد ان کے پاس پوری زندگی پڑی تھی جسے انہوں نے ایک ساتھ گزارنا تھا۔
عدالت میں تمام گواہوں کو بلوایا گیا تھا۔ تمام نرسوں نے ٹوبی کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کی حالت کیسی تھی اور اس کے معمولات کیا تھے۔ آخر میں نرس گلبرٹ کی گواہی ہوئی اور اس سے سوالات کیے جانے لگے۔
’’مسز گلبرٹ! کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وقوعہ کے روز آپ معمول سے جلدی کیوں گھر چلی گئی تھیں؟‘‘
’’یہ مسز ٹیمپل کی تجویز تھی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تنہا رہنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے مجھے جلدی چھٹی دے دی تھی۔‘‘
’’شکریہ مسز گلبرٹ!‘‘
اب تھراپسٹ کی باری تھی۔ وہ گواہی کے اسٹینڈ پر کھڑا ہوا اور اس سے سوالات کیے جانے لگے۔ ’’کیا آپ ہر روز مسٹر ٹیمپل کو ورزش کراتے تھے۔‘‘
’’جی ہاں۔ پول کو سو ڈگری تک گرم کیا جاتا تھا۔ اس میں یہ ورزش کرائی جاتی تھی۔‘‘
’’کیا اس روز بھی آپ نے مسٹر ٹیمپل کو یہ ٹریٹمنٹ دیا تھا؟‘‘
’’نہیں۔ مسز ٹیمپل نے مجھے منع کردیا تھا۔‘‘
’’کیا انہوں نے اس کی وجہ بتائی تھی؟‘‘
’’ہاں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر نے فی الحال اس ٹریٹمنٹ کو روک دیا ہے۔‘‘
اس کے بعد ڈاکٹر کو پکارا گیا۔ اس نے سچ بولنے کا حلف لیا تو سوالات شروع ہوئے۔ ’’مسز ٹیمپل نے حادثے کے بعد آپ کو فون پر اطلاع دی تھی۔ کیا آپ فوراً جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے؟ آپ نے مسٹر ٹیمپل کا معائنہ کیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں! پولیس نے مسٹر ٹوبی کی لاش سوئمنگ پول سے نکال لی تھی۔ وہ اس وقت بھی وہیل چیئر کے ساتھ اسٹریپ سے بندھی ہوئی تھی۔ پولیس سرجن اور میں نے لاش کا معائنہ کیا۔ اس وقت تک مسٹر ٹیمپل ختم ہوچکے تھے۔ ان کے دونوں پھیپھڑوں میں پانی بھرا ہوا تھا اور ان میں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔‘‘
’’تو پھر آپ نے وہاں کیا کیا؟‘‘
’’ہمیں مسز ٹیمپل کو بھی بچانا تھا جو اس وقت شدید صدمے کے عالم میں تھیں۔ ان پر ہسٹریا کی کیفیت طاری تھی۔ مجھے ان کی طرف سے بہت تشویش تھی۔‘‘
’’ڈاکٹر! کیا آپ نے مسز ٹیمپل سے سوئمنگ پول کا ٹریٹمنٹ بند کرنے کو کہا تھا؟‘‘
’’جی ہاں! کیونکہ میرا خیال تھا کہ اب یہ وقت کا زیاں تھا کیونکہ مسٹر ٹیمپل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔‘‘
’’مسز ٹیمپل کا اس کے جواب میں کیا ردعمل تھا؟‘‘
ڈاکٹر نے کاسل کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’مسز ٹیمپل کا ردعمل غیر معمولی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔‘‘ پھر وہ کچھ ہچکچایا اور چند لمحے توقف کے بعد بولا۔ ’’چونکہ میں نے سچ بولنے کا حلف لیا ہے۔ جیوری بھی یہی چاہتی ہے کہ انہیں سچ تک رسائی ہو تاکہ وہ بہتر فیصلہ کرسکیں۔ میں ایک بات لازمی طور پر کہنا چاہوں گا۔‘‘
کمرئہ عدالت میں یوں سناٹا چھا گیا جیسے سب نے اپنے سانس روک لیے ہوں۔ اور ڈاکٹر کی بات سننے کے منتظر ہوں۔
ڈاکٹر، جیوری کی طرف مڑا اور بولا۔ ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسز ٹیمپل ایک بہت بہادر اور مضبوط ارادے کی خاتون ہیں۔ میں نے ایسی خاتون کہیں نہیں دیکھی۔‘‘
عدالت میں ہر آنکھ کاسل کی طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ سب کی نظروں کا مرکز بن گئی۔ ’’جب پہلی دفعہ مسٹر ٹیمپل اس بیماری کا شکار ہوئے تھے تو ہم سب ڈاکٹروں کا یہی خیال تھا کہ ان کا تندرست ہونا ممکن نہیں لیکن مسز ٹیمپل نے اپنی محبت، کوشش اور انتھک محنت سے انہیں نئی زندگی دی تھی۔ انہوں نے یہ سب کسی ڈاکٹر کی مدد کے بغیر کیا تھا۔ میں ان کی اپنے شوہر سے محبت، لگائو اور خلوص کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے پھر کاسل کی طرف دیکھا۔ ’’مسز ٹیمپل ہم سب لوگوں کے لیے بہترین مثال ہیں۔ بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے بات ختم کردی۔
جیوری نے کاسل کو انصاف کے کٹہرے میں بلا لیا۔ وہ اٹھی اور کٹہرے میں آن کھڑی ہوئی۔
’’مسز ٹیمپل! ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب آپ کے لیے کتنا تکلیف دہ ہے لیکن ہمیں بہرحال عدالت کی کارروائی پوری کرنی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس میں کم سے کم وقت صرف ہو۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی۔
’’مسز ٹیمپل! جب ڈاکٹر نے آپ کو سوئمنگ پول کا ٹریٹمنٹ بند کرنے کو کہا تھا تو آپ اسے جاری رکھنے پر کیوں مُصر تھیں؟‘‘
اس نے دلکش اداس آنکھوں سے جیوری کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’کیونکہ میں چاہتی تھی کہ مجھے اپنے شوہر کو پھر ٹھیک کرنے کے لیے ہر کوشش کرنی چاہیے۔ ٹوبی کو زندگی سے محبت تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ میں اس کے لیے ٹوبی کا ساتھ دینا چاہتی تھی۔ جس طرح میں نے پچھلی بار کیا تھا۔‘‘ اس کی آواز ڈوبنے لگی۔
’’تو پھر جس روز مسٹر ٹوبی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔ آپ نے تھراپسٹ کو کیوں منع کردیا تھا؟‘‘
’’کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ اس محبت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے جو ہم دونوں کے درمیان تھی۔ محبت ہی ٹوبی کا علاج کرسکتی تھی۔ جس طرح پہلے بھی ہماری محبت نے ٹوبی کو نئی زندگی دی تھی۔‘‘ کاسل کی آواز بھرا گئی۔ وہ چند لمحے خاموش ہوکر خود پر قابو پاتی رہی۔ پھر آنسوئوں میں بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’میں اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ میں اس سے کتنی محبت کرتی ہوں اور میری کتنی شدید خواہش ہے کہ وہ ایک بار پھر بالکل ٹھیک ہوجائے۔‘‘
’’کیا آپ ہمیں بتائیں گی کہ یہ حادثہ کس طرح ہوا؟‘‘
کاسل چند لمحے یوں خاموش رہی جیسے اس المناک حادثے کو بیان کرنے کے لیے اپنی ہمت کو یکجا کررہی ہو۔ سب لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ کاسل گویا ہوئی۔ ’’اس روز میں ٹوبی کے کمرے میں گئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اسے خود پول تک لے کر جائوں گی۔ میں اسے ٹھیک کرنے کے لیے ایک بار پھر اپنی جان لڑا دوں گی۔ جب میں نے اسے اٹھا کر وہیل چیئر پر بٹھایا تو میں تقریباً بے ہوش ہوگئی۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں اس وقت ہی کیوں نہیں سمجھی کہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ کچھ کرسکوں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔ میں ہوشیار ہوئی تو میں اسے پول کی طرف لے کر چلی۔ میں تمام راستے ٹوبی سے باتیں کرتے ہوئے گئی تاکہ اس میں حوصلہ پیدا ہو۔ میں وہیل چیئر دھکیلتی ہوئی آخر تک بڑی آسانی سے لے گئی۔‘‘
کمرئہ عدالت میں سناٹا بہت گہرا ہوگیا۔ حاضرین کے سانس لینے کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ کاسل نے اپنا بیان جاری رکھا۔ ’’میں ٹوبی کے گرد بندھے ہوئے اسٹریپ کھول رہی تھی کہ مجھے چکر سا آیا۔ میں گرنے لگی۔ میں نے سہارے کے لیے وہیل چیئر کو تھاما۔ میں لڑکھڑا گئی۔ جس کی وجہ سے وہیل چیئر کا بریک کھل گیا۔ وہیل چیئر پول کی طرف خودبخود لڑھکنے لگی۔ میں نے اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہیل چیئر میرے روکتے روکتے پول میں جاگری۔ میں نے پول میں چھلانگ لگا دی اور ٹوبی کے اسٹریپ کھولنے کی بہت کوشش کی۔ وہ بھیگ کر سخت ہوچکے تھے۔ میں نے اپنی پوری طاقت سے وہیل چیئر کو اٹھا کر ڈوبنے سے بچانا چاہا لیکن وہ بہت بھاری تھی۔‘‘ کاسل نے آنکھیں بند کرکے سر جھٹکا اور روتے ہوئے بولی۔ ’’اوہ خدایا! یہ میں نے کیا کردیا۔ میں تو ٹوبی کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے اسے مار دیا۔‘‘
جیوری کو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ انہوں نے اسے ایک حادثہ قرار دے کر کیس ختم کردیا۔
٭…٭…٭
ٹوبی کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھا۔ ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں نے کثرت سے شرکت کی۔ انڈسٹری کے تمام لوگ، حکومت کے عہدے دار سبھی وہاں موجود تھے۔ سب افسردہ اور پریشان تھے۔ سب ہی ٹوبی کی تعریف کررہے تھے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ ٹوبی کی موت سے فن کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوگیا وہ کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔
کاسل سیاہ لباس میں غم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ڈیوڈ بھی وہیں موجود تھا۔ کاسل نے اسے منع کیا تھا کہ وہ جنازے میں نہ آئے لیکن اس کا خیال تھا کہ اس کی موجودگی کاسل کے لیے تقویت کا باعث ہوگی۔
کاسل نے سوچا کہ ڈیوڈ کی موجودگی سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ بھی بے فکر ہوگئی۔ ڈیوڈ نے صحیح کہا تھا۔ اسے اپنے قریب دیکھ کر اسے بڑی ڈھارس ہورہی تھی۔ کاسل کو اندازہ تھا کہ اس کی پرفارمنس ختم ہوچکی ہے۔ ڈرامے کا اختتام ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا کردار بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ وہ اندر ہی اندر خوش بھی تھی کہ وہ اس تمام جھمیلے سے صحیح و سالم نکل آئی تھی لیکن وہ بے حد تھک گئی تھی۔ اس کا اعصابی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اس تمام اندوہناک حادثے میں کاسل اپنی تمام تر تلخ یادوں کے ساتھ جل چکی تھی۔ اس کی راکھ سے جوزفین نے نیا جنم لیا تھا۔
اب وہ ایک نئی شخصیت تھی۔ پرسکون اور مطمئن۔ جیسی وہ کبھی اپنی نوخیز عمر میں تھی۔ اس کے اندر نئی مسرت اور شادمانی تھی اور وہ اپنی اس خوشی میں سارے جہان کو شامل کرلینا چاہتی تھی۔ جنازے کی تمام رسومات ختم ہوچکی تھیں۔ کسی نے اس کا بازو پکڑ کر انتظار میں کھڑی ہوئی لیموزین تک لے جانا چاہا لیکن راستے میں ڈیوڈ آگیا۔ وہ کار کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک لگائو اور اپنائیت تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر کاسل کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ دونوں کے درمیان چند الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ ایک پریس فوٹو گرافر نے فوراً ہی ان کی تصویر لے لی۔
کاسل اور ڈیوڈ نے یہی مناسب سمجھا کہ انہیں کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے تاکہ لوگ ٹوبی کی موت کو بھول جائیں اور کاسل کے فوراً ہی شادی کرلینے کو اسکینڈل نہ بنا لیں۔ ڈیوڈ اپنے کاروبار کے سلسلے میں اکثر ملک سے باہر آتا جاتا رہتا تھا لیکن وہ اس سے رابطہ ہمیشہ برقرار رکھتا تھا۔ وہ دونوں ہر روز ہی بات کرتے تھے۔
ٹوبی کی موت کو چار پانچ ماہ گزر گئے تو ڈیوڈ نے کاسل کو فون کیا۔ ’’جوزفین اب مجھ سے مزید انتظار نہیں ہوتا۔ میں اگلے ہفتے ملک سے باہر جارہا ہوں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے۔ میرا خیال ہے کہ تم بھی میرے ساتھ یہ سفر سمندر کے راستے کرو۔ کیپٹن ہماری شادی کی رسومات بخوبی ادا کردے گا۔ کانفرنس میں شرکت کے بعد ہم ہنی مون کے لیے چلے جائیں گے۔ جہاں بھی تم جانا پسند کرو اور جتنی دیر بھی تم چاہو۔ اس طرح ہم پریس کو بھی دور دور رکھیں گے۔ کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘
’’اوہ ڈیوڈ! میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
کاسل نے آخری نگاہ اس شاندار گھر پر ڈالی جو ٹوبی نے اس کے لیے بنایا تھا۔ یہاں خوشیاں اور غم دونوں قدم بقدم چلے تھے۔ ٹوبی کی والہانہ محبت اور اس کی بیماری… وہ ساری جدوجہد جس نے ٹوبی کو پھر اپنے پیروں پر کھڑا کردیا تھا لیکن اس کے بعد یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جسے وہ ہمیشہ کے لیے اپنی یادداشت سے محو کردینا چاہتی تھی۔ وہ خوش تھی کہ وہ اس گھر کو چھوڑ کر جارہی تھی جہاں اب کوئی خوشی اور آسودگی باقی نہیں رہی تھی۔
٭…٭…٭
ڈیوڈ کے ذاتی جہاز نے اسے ایئرپورٹ پہنچایا۔ جہاں ایک شاندار گاڑی اسے ہوٹل پہنچانے کے لیے موجود تھی۔ سب سے مہنگے ہوٹل کے منیجر نے خود کاسل کا استقبال کیا اور خوش اخلاقی سے بولا۔ ’’مسز ٹیمپل! ہوٹل آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ مسٹر ڈیوڈ کی ہدایت ہے کہ آپ کا ہر طرح خیال رکھا جائے۔ ہم نے آپ کے لیے ہوٹل کا سب سے اچھا سوئٹ آراستہ کردیا ہے۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
کاسل کو اپنے سوئٹ میں پہنچے ہوئے ابھی دس منٹ ہی ہوئے تھے کہ ڈیوڈ کا فون آگیا۔ وہ خوش مزاجی سے بولا۔ ’’آرام سے ہو؟‘‘
’’ہاں۔ لیکن اس سوئٹ میں پانچ بیڈ روم ہیں۔ میں تمہارے بغیر ان کا کیا کروں؟‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ مجھے آ لینے دو۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’بس! وعدے ہی نہ کرتے رہنا۔ جلد میرے پاس آجانا۔‘‘ وہ بڑے لگائو سے بولی۔
’’بس! میرا یہاں تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ اب ہماری ملاقات بحری جہاز پر ہوگی۔ میں نے اس میں ہنی مون سوئٹ بک کروا لیا ہے۔ اب خوش ہو ڈارلنگ۔‘‘
’’میں اتنی خوش ہوں کہ اس سے زیادہ میں خوش کبھی نہیں ہوئی۔‘‘ کاسل نے جواب دیا اور یہ حقیقت تھی کہ اب سارے بُرے زمانے گزر گئے تھے۔ خوشی کی
رت آگئی تھی اور یہ سب کسی حسین خواب کی طرح لگ رہا تھا۔
’’صبح تمہیں گاڑی بندرگاہ پر پہنچا دے گی۔ ڈرائیور کے پاس تمہارا ٹکٹ موجود ہوگا۔‘‘
’’میں تیار رہوں گی۔‘‘ کاسل نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں تم سے ملنے کے لیے بیتاب ہوں۔‘‘ ڈیوڈ نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔
اگلی صبح جب وہ بحری جہاز پر پہنچی تو سینئر آفیسر نے اس کا استقبال کیا۔ ’’مسز ٹیمپل! یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ ہمارے ساتھ سفر کررہی ہیں۔ آپ کا سوئٹ تیار ہے۔ میرے ساتھ آیئے۔‘‘
ہنی مون سوئٹ بے حد خوبصورت اور وسیع تھا۔ اس کا اپنا پرائیویٹ ٹیرس تھا۔ تمام بیڈ روم تازہ پھولوں سے سجے ہوئے تھے۔ آفیسر نے کاسل کو مخاطب کیا۔ ’’کیپٹن نے اپنی نیک خواہشات آپ تک پہنچانے کو کہا ہے۔ وہ آج شام ڈنر پر آپ کا استقبال کریں گے۔ وہ بے حد فخر محسوس کررہے ہیں کہ آپ نے ہمارے شپ کو شادی کے لیے چنا ہے۔‘‘
’’کیا مسٹر ڈیوڈ جہاز پر آچکے ہیں؟‘‘ کاسل نے پوچھا۔
’’ان کا سامان تو آگیا ہے۔ وہ جلد ایئرپورٹ سے روانہ ہورہے ہیں۔ آپ کو کسی چیز کی بھی ضرورت ہو تو ہمیں بتایئے۔‘‘
’’نہیں شکریہ!‘‘ کاسل نے کہا اور واقعی اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے پاس سب کچھ تھا۔ وہ دنیا کی سب سے خوش اور مسرور عورت تھی۔
جہاز نے بندرگاہ چھوڑ دی تھی۔ سمندر کی سطح پر رواں دواں تھا۔ کاسل بے چین ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ڈیوڈ جلد سے جلد اس کے پاس آجائے۔ وہ طویل زمانہ جو دونوں کے درمیان حائل تھا۔ ایک پل میں سمٹ جائے اور دونوں پھر ایک بار ایک دوسرے کی محبت میں کھو جائیں۔ وقت گزاری کے لیے کاسل اپنے کیبن میں چلی گئی کہ اپنا سامان کھولے۔ وہ ڈیوڈ کے لیے بڑے اہتمام سے تیار ہونا چاہتی تھی۔
کیبن کے دروازے پر دستک ہوئی۔ کاسل کا دل ناچ اٹھا۔ اس کی دھڑکنیں نغمے گانے لگیں۔ ڈیوڈ آگیا تھا۔ اس کا محبوب آگیا تھا۔ وہ نغمے کی طرح لہرا کر دروازے تک پہنچی۔
’’ڈیوڈ!‘‘ اس نے بیتابی سے دروازہ کھولا تو ٹھٹھک گئی۔
باہر لارنس کھڑا تھا۔
’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ کاسل حیران ہوئی۔
’’میں تمہارے لیے ڈیوڈ کا ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘ وہ بولا۔
’’ڈیوڈ کا پیغام؟‘‘ کاسل نے حیرت سے دہرایا۔
وہ کیبن میں چلا آیا۔ کاسل اسے دیکھ کر پریشان ہورہی تھی۔ ’’ڈیوڈ کہاں ہے؟‘‘
لارنس اس کی طرف پلٹا اور بولا۔ ’’تمہیں یاد ہے کہ پرانے زمانے میں فلمیں کیسی ہوتی تھیں؟ اچھے لوگ سفید ہیٹ پہنتے تھے اور برے لوگ سیاہ ہیٹ پہنتے تھے۔ آخر میں ہمیشہ سفید ہیٹ والے لوگ جیت جاتے تھے۔ ہماری حقیقی زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ سفید ہیٹ والے لوگ ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم یہ کیا بک رہے ہو۔‘‘
وہ شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ’’پرانی فلموں کی طرح ڈیوڈ جا چکا ہے کیونکہ وہ سفید ہیٹ والا ہے۔ اسے سیاہ ہیٹ والے لوگ پسند نہیں۔‘‘
کاسل حیرت اور بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسے جہاز چلتے چلتے رک گیا ہے۔ لارنس کیبن سے باہر نکل کر برآمدے میں آگیا۔ اس نے جھانک کر نیچے دیکھا اور بولا۔ ’’کاسل! یہاں آئو۔‘‘
کاسل کچھ ہچکچائی اور پھر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ آگے بڑھی۔ اس کے دل کو جیسے کوئی مٹھی میں جکڑ رہا تھا۔ اس نے ریلنگ سے دیکھا۔ نیچے سمندر میں ڈیوڈ ایک خاص کشتی میں بیٹھ کر جارہا تھا۔ جہاز سے دور… ہر لحظہ دور۔
’’کیوں؟ کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں جارہا ہے۔‘‘ وہ خود کلامی کے انداز میں جیسے خود سے سوال کررہی تھی۔
لارنس ہنستے ہوئے بولا۔ ’’میں نے تمہاری وہ فلم اسے دکھائی تھی۔ وہی فلم…!‘‘ اس نے معنی خیز انداز میں کہا۔
’’اوہ میرے خدایا! یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے مجھے مار دیا ہے۔‘‘
’’ہم دونوں برابر ہیں۔ تم نے بھی تو مجھے برباد کردیا ہے۔‘‘
’’دفع ہوجائو یہاں سے۔ چلے جائو۔‘‘ کاسل نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ نوچ لیا۔ اس کے لمبے ناخنوں نے لارنس کے رخساروں پر خراشیں ڈال دیں۔ لارنس نے پیچھے ہٹ کر ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا۔ کاسل گھٹنوں کے بل گر پڑی۔ اس نے اذیت سے اپنا سر تھام لیا۔
لارنس وہاں کھڑا چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔ ’’اچھا۔ میں چلتا ہوں جوزفین!‘‘ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔
٭…٭…٭
کاسل اپنے کیبن میں ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے۔ نیم تاریکی میں وہ بے سمت تک رہی تھی۔ اب سے چند گھنٹے پیشتر اس کے پاس دنیا کی ہر شے تھی اور اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ وہ خالی ہاتھ بیٹھی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ارد گرد وہی ٹھنڈک سے بھری ہوئی دھند اچانک نمودار ہوگئی ہے جو ٹوبی کی بیماری کے دوران اس کا پیچھا کرتی تھی۔ اس میں وہ بُو تھی جو ٹوبی کے کمرے سے آتی تھی۔
پھر اسے ایک آواز سنائی دی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جگہ سے اٹھی۔ وہ خنک دھند اس کے گرد کسی لبادے کی طرح لپٹ گئی تھی۔ آواز اب بھی آرہی تھی اور وہ اس کی طرف کھنچ رہی تھی۔ وہ کیبن سے باہر آگئی۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ ڈیک بالکل سنسان تھا۔ کاسل نے نیچے دیکھا۔ سمندر کی لہروں میں رات کی سیاہی گھلی ہوئی تھی۔ وہ باربار جہاز سے ٹکرا رہی تھیں۔ کوئی آواز اس سے کہہ رہی تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ چند لمحوں بعد اس آواز نے کہا۔ ’’نیچے دیکھو۔‘‘
کاسل نے سمندر کی طرف دیکھا۔ اس کی سطح پر کوئی چیز تیر رہی تھی۔ سمندر کی لہروں کے ساتھ۔ کاسل ششدر رہ گئی۔ وہ ہراساں نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ ٹوبی کا چہرہ تھا جو اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ ٹھنڈی دھند اسے ریلنگ کی طرف آہستہ آہستہ دھکیل رہی تھی۔ ٹوبی کا چہرہ اسے اپنے پاس بلا رہا تھا۔ وہ قریب آنے کے اشارے کررہا تھا۔ ہوا اتنی سرد ہوگئی تھی کہ کاسل کا جسم کانپنے لگا تھا۔
’’ڈرو نہیں… ڈرو نہیں۔ پانی گرم ہے۔ ہمیں ہمیشہ ایک ساتھ رہنا ہے کاسل! ہمیشہ ایک ساتھ…! ہمیں کوئی جدا نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ آواز اس کے کانوں میں سرگوشیاں کررہی تھی۔
کاسل ریلنگ پر جھکی کہ ٹوبی کو سمجھا سکے۔ ٹوبی کا چہرہ جہاز کے ساتھ ساتھ سمندر کی سطح پر تیر رہا تھا۔ سرد دھند میں ہوا کا برف جیسا جھونکا کاسل کو دھکیل رہا تھا۔ اچانک کاسل نے محسوس کیا کہ اس کے پائوں ڈیک سے اوپر اٹھ گئے ہیں۔ اور وہ ہوا کے ساتھ تیرتی ہوئی فضا میں آگے بڑھتی جارہی ہے۔ ٹوبی کا مسکراتا چہرہ بلند ہوکر اس کے قریب آرہا تھا۔ اس کے بازو اس کے لیے دراز ہورہے تھے۔ وہ ان میں سما رہی تھی۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے…!
آسمان پر جگمگاتے ستارے اس منظر کو جھک جھک کر دیکھ رہے تھے۔ (ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS