والد صاحب کا کار و بار وسیع نہ تھا، لیکن بعد میں کام چل نکلا، جب ابا جان نے دونوں بیٹوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا لیا۔ میرے دو بھائی ان دنوں میٹرک کر چکے تھے۔ دونوں فرمانبردار تھے۔ ابا جان جو حکم دیتے، وہ سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔ میری امی والد صاحب کی دوسری بیوی تھیں۔ پہلی بیوی سے اولاد نہ ہوئی تو اس خاتون نے اولاد کی خاطر اپنے شوہر کی دوسری شادی کروادی، تبھی خاندان بھر ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ تھیں بھی قابل تکریم ، شریف النفس اور والد صاحب کی اطاعت گزار۔ والد صاحب بھی اپنی پہلی بیوی کی بہت قدر کرتے تھے۔ انہوں نے میری امی اور بچوں سے کہہ دیا تھا کہ آپ لوگوں نے میری پہلی شریک حیات کی عزت کرنی ہے۔
سارا گھر حتی کہ ان کی موت تک سبھی ان کے قدم چھوتے کہ وہ تھیں ہی اتنی محبت کرنے والی ، امی کے سب بچوں کو ماں بن کر پالا۔ مجھ سے تو وہ بے حد محبت کرتی تھیں۔ میں بھی اپنی سگی ماں سے زیادہ ان پر نچھاور تھی۔ خدا کی قدرت میری کم سنی میں ہی میری سنگی امی کا انتقال ہو گیا۔ میں تو پہلے سے ہی بڑی امی کے ساتھ چپکی رہتی تھی۔ انہوں نے مجھے اتنا پیار دیا کہ سگی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہمارے گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ بھائی بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ جب گھر آتے ، میرے لئے کچھ نہ کچھ لے کر ہی آتے تھے۔ میٹرک کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لیا تو بہت خوش تھی۔ یہاں میری کئی سہیلیاں بن گئی تھیں۔ ہم پشاور میں رہتے تھے ، وہاں کا لج نہیں تھا تو والد صاحب ہم کو اسلام آباد لے آئے ، جہاں ان کا کار و بار تھا جواب ترقی پر تھا۔ کالج داخلے کے بعد ، میں نے جانا کہ زندگی کتنی مسرت بھری ہوتی ہے۔ تھوڑی سی آزادی، کچھ پڑھائی پھر سہیلیوں سے گپ شپ، یوں تو کئی سہیلیاں بن گئی تھیں لیکن مکرمہ سے میری زیادہ دوستی تھی۔ وہ مجھ کو بتاتی کہ دنیا بہت حسین پ کیوں ہو ہے۔ وہ ملکوں ملکوں گھوم چکی تھی۔ اس کے والد ایسے محکمے میں تھے کہ اس کا ان کے ساتھ کئی ملکوں میں جا میں جاتا ہوا تھا۔ اس کی باتیں سن کر مجھے حیرت ہوتی کہ میں تو ایک پس ماند و علاقے سے آئی تھی۔ مکرمہ کہتی، اگر تم گھوم پھر نہیں سکتی ہو تو کم از کم موبائل فون ہی لے لو ، جس پر گھر بیٹھے دنیا کے حسین نظارے دیکھ سکو۔
تب میری بھی خواہش ہوتی کہ کاش میرے پاس موبائل فون ہوتا لیکن میں تو بس اس کی آرزو ہی کر سکتی تھی۔ والد صاحب یوں تو مجھے بہت چاہتے تھے لیکن فون مجھ کو دینے کے حق میں نہیں تھے۔ ہمارے گھر ٹی وی تک نہ تھا۔ میرے بھائیوں کے پاس فون تھے مگر وہ میری دسترس سے باہر تھے۔ میں اپنی امی کے ساتھ گائوں میں اور اور وہ اکثر کاروبار کے سلسلے میں باہر ہوتے۔ ان دنوں ہفتے میں صرف ایک دن گھر آیا کرتے تھے۔ کالج جاتی تو لڑکیوں کے پاس فون دیکھ کر سوچتی کہ یہ کوئی انوکھی چیز ہے ، جس تک سب کی پہنچ ہے لیکن میری نہیں۔ میں خود کو اپنی دوستوں میں کم تر سمجھنے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ میرا شوق بڑھنے لگا۔ ایک دن مکرمہ کے گھر گئی تو اس نے مجھے مو بائل فون پر بہت سی چیزیں دکھائیں جو میرے لئے نئی تھیں، یہ سب میرے لئے باعث دلچسپی ہوا۔ گھر آکر بڑے بھائی سے کہا کہ میری ساری سہیلیوں کے پاس موبائل فون ہیں، ایک میرے پاس نہیں ہے۔ جب وہ اس میں سے تعلیم کے حوالے سے معلومات لیتی ہیں تو میں ان کو منہ اٹھائے دیکھتی رہتی ہوں۔ بھائی پلیز مجھے بھی موبائل فون لا دو۔ ابو نہیں مانیں گے جان بی بی۔ بھائی نے کہا، پھر جب مجھے اداس دیکھا تو کسی طرح ابو کو منا کر مجھے فون لا دیا اور وعدہ لیا کہ میں صرف اس کو تعلیم کے لئے استعمال کروں گی اور دیگر فضول قسم کی چیزیں دیکھنے میں وقت برباد نہ کروں گی۔ انہوں نے میری چند سہیلیوں کے نمبر بھی اس میں محفوظ کر دیئے اور بولے۔ بس ضروری نمبر ہی اس میں ڈالنا اور ضرورت کے وقت ہی استعمال کرنا۔ جب کوئی ایسی چیز ہاتھ میں آجائے جو دلچسپ بھی ہو اور اپنے اختیار میں بھی، تب کب رہا جاتا ہے۔
اب تو کسی بات میں دل ہی نہ لگتا تھا، پڑھائی میں بھی نہیں کہ جس کے بہانے فون لیا تھا۔ بھائی باہر ہوتے ، ابو اپنے کمرے میں سو جاتے تو میں رات بھر موبائل میں لگی رہتی۔ رات آنکھوں میں بیت جاتی اور مجھے پتا بھی نہ چلتا۔ میں بڑی امی کے ساتھ ان کے کمرے میں سوتی تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو رات بھر موبائل پر لگی رہتی ہے ، تو انہوں نے مجھ سے موبائل لے کر تالے میں رکھ دیا ۔ اب میں بے چین رہنے لگی، جیسے میری قیمتی چیز چھن گئی ہو۔ یہاں تک کہ ڈپریشن رہنے لگا۔ میں امی سے لڑتی اور رونے لگتی۔ میری حالت دیکھ کر انہوں نے اس وعدے پر فون واپس کیا کہ میں رات کو نہ دیکھوں گی اور دن کو بھی بس دو تین گھنٹے ہی دیکھوں گی۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ فون ہاتھ میں آیا تو پھر خود پر اختیار نہ رہا اور دوبارہ سے اسے دیکھنے میں جت گئی۔ کل اس کے اندر تو فون کھولنے کی اجازت نہ تھی لیکن آف پیریڈ یا کلاس سے باہر فون کھول سکتے تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ موبائل فون سے لطف اٹھانے کے لئے اپنے گھرسے بہتر جگہ اور کوئی نہ تھی۔ ایک پروز کسی نے مجھے از خود جوائن کر لیا۔ نہ جانے میرا نمبر کہاں سے لیا تھا اس نے۔ میں نے بھی تجسس کے مارے اسے کنٹیکٹس میں شامل کر لیا۔ دیکھنا چاہتی تھی کو شاید میری کوئی کلاس فیلو یا کالج کی سہیلی ہو گی۔ پہلے لڑکی بولی۔ پہچانا نہیں ؟ آواز سے تو نہیں پہچانا۔ اچھا تو پھر ویڈیو کال کرتی ہوں۔ دیکھو گی تو پہچان لو گی ۔ اس نے ویڈیو کال کی۔ کوئی انجان چہرہ تھا۔ میں نے اب بھی نہیں پہچانا۔ وہ بولی۔ ہم تمہارے محلے میں نئے آئے ہیں۔ میں نے تمہارے کالج میں داخلہ لیا ہے۔ تم مجھے نہیں پہچانتیں، لیکن میں اور میر ابھائی تم کو پہچانتے ہیں اور روز تم کو کالج جاتے دیکھتے ہیں۔ بھائی ؟ میں نے حیرت سے کہا۔ ہاں ، جو مجھے کالج چھوڑنے اور لینے آتا ہے۔ لو ان سے بات کر لو۔ اچانک وہ ایک طرف ہو گئی اور سامنے ایک نوجوان کی صورت دیکنے لگی۔ نہایت وجیہ ، خوبرو، ایسے خوبصورت چہرے میں نے کم ہی دیکھے تھے۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ واہ ! تم تو کوئی ہیر و معلوم ہوتے ہو۔ ہیرو کہو یا ولن، لیکن مابدولت کی کوئی ہیروئن نہیں ہے ، ابھی تک۔ تو کوئی ہیروئن ڈھونڈ لو۔ اسی لئے تو تم کو فون کیا ہے۔ میں نے شٹ آپ کہہ کر فون رکھ دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کیا جو کسی اجنبی نمبر کو جوائن کر لیا۔ ابھی میں سوچ رہی تھی کہ پھر فون آگیا۔ میں نے کہا۔ تم بہت ڈھیٹ ہو۔ میں نمبر ڈیلیٹ کرنے کا سوچ رہی تھی کہ تم نے فون کر دیا۔ نمبر ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم نے کہہ دیا فون نہ کرنا، تو بس کافی ہے۔ اب میں فون نہ کروں گا اور یہ نمبر میری بہن کا ہے ، جو تمہاری محلے دار ہے اور محلے دار کبھی نہ کبھی کام آجاتے ہیں۔ دراصل اسے کالج لے جانے والا کوئی نہیں ہے تب مجھ کو فون کرتی ہے تو میں اپنی موٹر بائیک پر اسے کالج چھوڑ آتا ہوں اور لے بھی آتا ہوں۔ تم اس کے کیا لگتے ہو ؟ کزن ، میرا گھر بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ اگر اسے تمہار ا ساتھ مل جائے گا، تو میری اس خواہ مخواہ کی ڈیوٹی سے جان چھوٹ جائے گی۔ یہ میرے مرحوم چا کی بیٹی ہے، تبھی ترس کھا کر یہ ڈیوٹی ادا کر نا پڑ رہی ہے۔ اس چکر میں اپنے دفتر میں بھی لیٹ ہو جاتا ہوں۔ تم نے تو مجھے پو ے پوری کہانی سنادی، اپنی کزن کا نام اور کلاس بھی بتادو، میں اسے ڈھونڈ لوں گی ے ڈھونڈ لوں گی مگر برائے مہربانی دوبارہ مجھے فون مت کرنا۔ اس نے فون بند کر دیا۔
جانے کیوں میں نے اس کا نمبر ڈیلیٹ نہ کیا ، تاہم دو ہفتے گزر گئے ، اس نے فون نہ کیا۔ واقعی اس میں غیرت ہے تبھی تو مجھے فون نہیں کیا۔ میرے دل کی خلش بڑھتی گئی۔ دل کو انتظار سارہنے لگا کہ اے کاش! وہ ایک بار فون کرلے۔ کم از کم اس کی کزن کا نام تو معلوم ہو ، جو میرے کالج میں پڑھتی ہے پھر بے شک اس نمبر کو ڈیلیٹ کردوں گی۔ میں اس لڑکی سے پوچھنا چاہتی تھی کہ آخر اس کو میرا نمبر کس نے دیا ہے۔ انسان کے اپنے دل کے اندر چور چھپا ہو تو ایسی خشیں تنگ کرتی ہیں۔ در اصل اب موبائل سے بھی دل بھر جاتا، اوپر سے امی کا بار بار ٹوکنا اور بھائیوں کا ڈر۔ جب وہ گھر میں ہوتے میں فون کو ہاتھ بھی نہ لگاتی امی کے پاس رکھوادیتی۔ بابا جان امی سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دن امی نے ان سے کہا کہ میں چاہتی ہوں ، آپ اپنی زندگی میں اس کا حصہ اس کے نام کر دیں۔ لڑکی ہے ، ہمارے بعد کسی کی محتاج نہ ہو۔ والد نے امی کا کہا مان لیا اور میرے نام پچاس لاکھ روپے جمع کر وادیئے۔ میں بہت خوش ہوئی۔ چیک بک انہوں نے اپنی الماری میں رکھ دی کہ جب ضرورت پڑی، نکلوالیں گے۔ بھائیوں کو تو انہوں نے ٹرک لے کر دیئے ہوئے تھے جو بار برداری کے لئے چلتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی جائیداد دونوں بھائیوں کو ملنی تھی ، اس لئے والد نے میرا حصہ نقد روپے کی صورت میں بینک میں ڈلواد یا کہ منافع بھی جمع ہوتا رہے گا۔ والدین کو بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ بابا جان کو بھی میری شادی کی فکر تھی۔ جب رشتہ آیا، میں نے رونا شروع کر دیا کہ ابھی پڑھنا چاہتی ہوں ۔ اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے روتے دیکھ ماں باپ دونوں چپ ہو گئے۔ بابا جان نے میرے دونوں بڑے بھائیوں کی شادیاں کر دیں۔ ان دنوں میں سیکنڈ ایئر میں تھی ، جب ابو کا انتقال ہو گیا۔ ماں گئی تو ان کی کمی محسوس نہ ہوئی کہ بڑی ماں موجود تھیں، مگر باپ کے جانے سے تو بالکل ادھوری ہو گئی۔ سوچتی تھی کہ اب کیسے رہوں گی ؟ میرے دماغ پر اس صدمے کا بہت اثر ہوا، میں بیمار پڑ گئی، ایک ماہ اسپتال میں رہی۔
ایک ماہ بعد کالج جانا شروع کیا تو اسی رات کو فون کی گھنٹی بجی۔ بھائی بھابیوں کے ساتھ اپنے کمروں میں تھے ، امی سو گئی تھیں۔ میں نے فون اٹھایا۔ آواز جانی پہچانی تھی۔ کیا بات ہے ، اتنے دنوں سے کالج نہیں گئیں ؟ تم سے کہا تھا فون نہیں کروں گا، لیکن آج تم کو کالج جاتے دیکھا تو رہ نہ سکا۔ تمہاری خیریت معلوم کرنے کو فون کیا ہے۔ مجھے معاف کرنا، میر اوعدہ آئندہ فون نہیں کروں گا بس خیریت بتا دو۔ بابا جان فوت ہو گئے ہیں اور میں بیمار تھی۔ بے اختیار یہ جملے میرے منہ سے نکل گئے جیسے وہ میرا کوئی غمگسار ہو۔ مجھے افسوس ہے زیب ! اس نے دکھ سے کہا۔ گویا میرا نام بھی معلوم ہے۔ کس نے میرا نام بتا یا تم کو ؟ جس نے نمبر دیا ہے۔ کس نے نمبر دیا ہے ؟ اس نے جس نے نام بتایا ہے۔ مذاق مت کرو میں نے کہا۔ مذاق کی بات نہیں لیکن جس نے نام بتایا اور نمبر دیا، اس نے وعدہ لیا تھا کہ میں تم کو اس کا نام نہیں بتائوں گا۔ اچھی بات ہے۔ انسان وعدہ کرے، تو اسے وعدہ نبھانا چاہئے۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا پھر بولا۔ اگر اجازت دو تو کبھی کبھی فون کر لیا کروں؟ اجازت ہے، یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔ بعد میں سوچا کہ میں نے ایسا کیوں کہا؟ شاید ان دنوں میں بہت ٹوٹی ہوئی تھی اور واقعی مجھے کسی غمگسار ، کسی باتیں کرنے والے کی ضرورت تھی۔ کوئی دس دن بعد پھر اس کا فون آگیا۔ اس بار جب میں نے پوچھا۔ کون ؟ تو جواب ملا۔ احمر ! اس نے اپنا نام بتادیا، لیکن اپنی کزن کا نام نہیں بتایا۔ اب تو میں دن رات پریشان رہنے لگی۔ میں نے مکرمہ کو بتایا اور کہا کہ جانے کون ہے ؟ اس نے تو میری زندگی اجیرن بنادی ہے۔ فون کرتا ہے تو پریشان ہوتی ہوں ، نہیں کرتا تو بھی پریشان رہنے لگتی ہوں۔ کیا کروں آخر ؟ وہ بولی۔ بس اتنی سی بات ہے۔ دل بڑا کرو اور اس سے بات کر لیا کرو۔ وہ تم کو کھا تو نہیں جائے گا۔ گویا مکرمہ نے حوصلہ بڑھا کر میری مشکل حل کر دی۔ پہلے صرف آڈیو کال ہوتی تھی ، پھر ویڈیو کال ہونے لگیں۔ وہ اس طرح بات کرتا، جیسے واقعی کوئی سچا دوست یا غمگسار ہو، پھر باتوں کا سلسلہ دراز ہونے لگا۔ دومنٹ کی گفتگو گھنٹوں چلنے لگی۔ بڑی امی نے محسوس کیا تو کہا۔ بیٹی ! زمانہ خراب ہے۔ تم اتنی دیر تک سہیلی سے باتیں نہ کیا کرو۔ تمہارے بھائی بر امنائیں گے۔ ایک دن اس نے کہا کہ تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگر پہچانتے ہو تو جب میں چھٹی کے وقت کالج سے نکلوں تو بات کر لینا۔ اس طرح اس نے ایک روز کالج سے گھر آتے ہوئے مجھ سے بات کی اور زیب کہہ کر مخاطب کیا تو میں ٹھہر گئی۔ ہم نے ویڈیو پر ایک دوسرے کو دیکھا ہوا تھا ، اس لئے پہچاننے میں دقت نہ ہوئی۔ وہ اپنے فوٹو سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا، اونچالمباقد اور سرخ و سفید رنگت میں تو اسے دیکھ کر مبہوت ہو گئی تھی۔ یہ ایک جادوئی ملاقات تھی کہ اس کے بعد میں آ اکثر اس سے ملنے ملنے لگی لگی اور او اس کے بغیر بے قرار رہنے لگی۔ ایک دن باتوں باتوں میں ، میں نے اسے بتایا کہ بابا میرے نام پچاس لاکھ روپے کر گئے ہیں اور میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ اس پر وہ بولا۔ زیب ، بھئی میں تو بہت غریب ہوں۔ لگتا ہے تم مجھ سے دل لگی کر رہی ہو۔ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں کر کے وہ سچ مچ رونے لگا۔ مجھے اس کے رونے کا بڑاد کھ پہنچا۔ تبھی میں نے کہا۔ تم مجھ سے میری محبت کا کیسا ثبوت چاہتے ہو ؟ وہ بولا۔ دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالتے۔ مجھ کو تم سے کچھ بھی نہیں چاہئے۔ میں صرف تم کو چاہتا ہوں، کاش تم امیر نہ ہو تیں۔ اب مجھے تم کو حاصل کرنا کس قدر مشکل ہو گیا ہے۔ بھلا تمہارے خاندان میں مجھ مفلس کو کون پوچھے گا۔ ایک رات اس نے فون کیا۔ بولا۔ صبح تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے۔ اس کے اصرار پر میں نے امی سے کہا کہ صبح میں اپنی ایک ہم جماعت سہیلی کے نکاح میں جائوں گی۔ امی نے اجازت دے دی۔ مجھے خبر تھی کہ بھائی لاری پر گئے ہیں، اتنی جلد آنے والے نہیں۔ وہ دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ میں کالج کے رستے سے احمر کے موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی ۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا۔ تنہائی میں بڑے بڑے پارسائوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جائے، تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ میں رونے لگی تو اس نے تسلی دی کہ ہر مشکل وقت میں وہ میرا ساتھ دے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ اب میں گھر نہیں جائوں گی۔ اس نے سمجھایا کہ ابھی گھر واپس جانا ہو گا کیونکہ اس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں وقت لگے گا۔ دیکھو زیب ! میرے پاس نہ تو تمہارے لئے دولت ہے کہ تمہارا ہاتھ مانگ لوں اور نہ ہی وہ مجھ مفلس کو اس حالت میں قبول کریں گے۔ ہاں ، اگر تم کچھ سرمایہ لا سکتی ہو تو ہم اپنی جنت بھی آباد کر لیں گے پھر میں تم کو دنیا جہان کی خوشیاں دوں گا۔ میں پہلے ہی اس کے فریب میں آچکی تھی۔ اس کی ہر بات پر یقین کرتی گئی۔
گھر آکر افسردہ سی پڑ گئی ، اگلے دن کالج بھی نہ گئی۔ رات کو احمر کا فون آیا کہ اگر تمہیں میر ا ذرا بھی پاس ہے، تو کل شب گھر کے پچھلے دروازے پر میرا انتظار کرنا اور ساتھ میں کچھ رقم بھی لے لینا۔ اس فون کے بعد میں سو نہ سکی کہ کیا کروں ؟ اگر بھائیوں کو پتا چلا وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ پتا نہیں کسی طرح دن نکالا اور کس طرح گزر گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے کچھ زیورات اور چیک بک بیگ میں رکھ لی۔ رات تین بجے اس کے موٹر سائیکل کی مخصوص آواز سنی تو بستر سے اٹھ بیٹھی۔ ایک نظر سوئی ہوئی ماں پر ڈالی۔ پہلے تو خیال آیا کہ نہ جائوں پھر رسوائی پر ، جدائی کا خوف غالب آگیا اور میں جلدی سے عقبی دروازے سے باہر نکل آئی۔ وہ سامنے ہی میرا منتظر تھا۔ مجھے کسی اجنبی ایک مکان میں لے آیا۔ بولا ۔ تم یہیں رکو، میں جارہا ہوں، صبح آئوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہارے اغوا کا پرچہ مجھ پر ہو کیونکہ تمہاری سہیلی مکرمہ کو معلوم ہے کہ تم مجھ سے ملتی ہو۔ صبح میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہوں گا تو بہتر ہو گا۔ وہ چلا گیا۔ رات میں نے اس خالی مکان میں تنہا گزاری۔ اگلے دن وہ بارہ بجے آیا، ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لایا۔ ہم دونوں نے مل کر کھانا کھایا اس کے بعد وہ چلا گیا اور پھر شام پانچ بجے آیا۔ رات کیسے گزری پتا ہی نہ چلا۔ میں گھبراتی رہی اور وہ ڈھارس دیتا رہا۔ صبح پھر وہ ڈیوٹی پر چلا گیا اور گھر کو باہر سے تالا لگا گیا۔ اکیلے ویران گھر میں دن میں بھی مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ اگلے دن اس نے بتایا کہ تمہارے بھائیوں نے پرچہ نہیں کروایا ہے۔ پولیس تمہاری سہیلی مکرمہ سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی تھی، مگر وہ امیر باپ کی بیٹی ہے۔ اس کے باپ کی بڑی پوزیشن ہے ، اسی وجہ سے انہوں نے تفتیش روک دی ہے۔ کسی مرد پر تمہارے بھائیوں نے شک ظاہر نہیں کیا۔ میں نے احمر سے کہا۔ ہم عدالت میں جا کر نکاح کر لیتے ہیں، مگر وہ راضی نہیں ہوا۔ کہنے لگا۔ چند دن ٹھہر وہ اس معاملے کو ٹھنڈا ہونے دو۔ اس طرح کرتے کرتے مہینہ گزر گیا۔ وہ روز کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بات ٹال دیتا تھا۔ ایک روز اس نے کہا۔ زیب ! کیوں نہ ہم بیرون ملک چلے جائیں۔ مجھ سے نکاح کر لوگے تو باہر چلے جائیں گے ۔ ٹھیک ہے ، یہ دونوں کام کر لیتے ہیں مگر باہر جانے کے لئے کافی رقم درکار ہو گی۔ ایک بار ہم نے رقم نکلوائی تھی اب دوبارہ اس کے ساتھ بینک جانے سے ڈر رہی تھی، کیونکہ اس طرح پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔ اس کام میں اس کے دوست نے مدد کی جو اس کے ساتھ بینک میں ہی کام کرتا تھا۔ یوں جس قدر اس کو فائدہ ہو سکتا تھا اس نے لے لیا۔ تب اس نے کہا کہ زیب آج تیار رہنا، آج میرے ایک دوست کے گھر پر ہمارے نکاح کا انتظام ہے۔ میں خوشی خوشی تیار ہو گئی کہ چلو اب اس کی بیوی بن جائوں گی تو محفوظ ہو جائوں گی۔ وہ مجھے لاہور لے آیا۔ کہنے لگا کہ یہاں ہم زیادہ محفوظ ہیں۔ میں نے کہا۔ جیسی تمہاری مرضی۔ وہ مجھے جس گھر میں لایا ، یہاں کوئی عورت نہ تھی۔
وہ اور اس کا دوست ایک اور شخص کو لائے، جس کو وہ راجہ پکار رہے تھے۔ مجھے بتایا کہ راجہ ہمارے نکاح کا انتظام کرے گا۔ راجہ نے احمد سے کہا۔ شادی کرنے چلے ہو، اپنا اور دلہن کا نیا جوڑا تو خرید لو، کچھ پھول بھی لے لیتے ہیں۔ میں قاضی کا انتظام کرتا ہوں۔ تب احمر بولا۔ ہم بھی تمہارے ساتھ چلتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس گاڑی نہیں ہے۔ راجہ نے جواب دیا ، ٹھیک ہے۔ مجھے گھر میں چھوڑ کر وہ چلے گئے اور دروازے کو باہر سے تالا لگا گئے۔ صبح کے گئے شام ہو گئی ، ہیں انتظار کرتے تھک گئی، وہ نہیں آئے ۔ خدا خدا کر کے شام کو بیرونی دروازے کا تالا کھلنے کی آواز آئی تو میری میری جان میں جان آئی، مگر یہ کیا ؟ راجہ تو اکیلا آیا تھا۔ اس کے ساتھ احمر تھا اور نہ اس دوست۔ وہ کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر میں پریشان ہو گئی۔ اس نے کہا۔ احمر نکاح کے لئے وکیل کے پاس بیٹھا ہے۔ مجھے تم کو لانے کے لئے بھیجا ہے۔ تم پہلے کھانا کھالو۔ مجھے بھوک نہیں ہے ، مجھے احمر کے پاس جانا ہے۔ ہاں ہاں ، وہاں ہی تو چلنا ہے۔ عدالت میں نکاح ہو گا۔ تم تھوڑا سا کھالو، میں بہت اچھے ہوٹل سے کھانا لایا ہوں۔ صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ ناچار ہیں نے تھوڑا سا کھایا۔ احمر کے بغیر راجہ کو دیکھ کر مجھے وحشت ہو رہی تھی۔ یہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا اور حلیے سے بھی کچھ ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ میں جب میں نے کھانا کھا لیا اس نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور رستے میں بتایا کہ دراصل احمر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ، وہ اسپتال ہا ہے۔ ہم اسپتال جارے رہے ہیں۔ میں نے تم کو اس لئے فوراً نہیں بتایا کہ تم کھانا بھی نہیں کھائو گی جبکہ صبح سے تم بھوکی تھیں۔ گھبراگو نہ گھبرائو نہیں ، ابھی وہ بے ہوش وش ہے، کل صبح تک ہوش میں آجائے گا ،ڈا جائے گا، ڈاکٹر نے تسلی دی ہے۔ اسپتال میں واقعی وہ بے ہوش پڑا تھا۔ پڑا تھا۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں اسے اس حال میں دیکھ کر رونے لگی۔ روکومت یہاں سب کی نظروں میں آجائو گی۔ اسپتال کا عملہ پوچھے گا کہ یہ کون ہے۔ ابھی گھر چلو، کل صبح پھر آجائیں گے۔ رات کو تمہیں گھر میں اکیلے رہنا ہو گا کیونکہ میں تو احمر کے پاس رہوں گا۔ میں اکیلی نہیں رہ سکتی، مجھے ڈر لگتا ہے۔ ٹھیک ہے میں تم کو اپنی خالہ کے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ اور ان کی بیٹیاں تمہارا خیال رکھیں گی۔ مرتا کیا نہ کرتا میں اس کے ساتھ چل دی۔ اب میں اس کے اختیار میں تھی۔ وہ مجھے جس گھر میں لایا، یہاں کی تو فضاہی کچھ اور تھی۔ مجھ سی کئی لڑکیاں بنی سنوری بیٹھی تھیں۔ احمر کی پریشانی میں میں تو حواس کھوئے ہوئے تھی یہ تک نہیں پوچھا کہ یہ سب کیا ہے۔ راجہ نے ادھیڑ عمر عورت کو اشارہ کیا اور کہا۔ میرے دوست کی امانت ہے خالہ ، اس کا خیال رکھنا۔ میں صبح آئوں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ وہ عورت جس کو راجہ نے خالہ کہا تھا سب لڑکیاں اس طرح اس سے باتیں کر رہی تھیں جیسے وہ ان کی ماں ہو۔ اس نے ان لڑکیوں میں سے ایک کو کہا کہ اس کو بھی اپنے ساتھ لے جائو ، وہ مجھے اپنے ساتھ دوسرے کمرے میں لے آئیں۔ پہلے دن میں وہاں ایسے رہی جیسے کوئی مہمان ہوتا ہے۔ جب ر ات تک راجہ نہ لوٹا، مجھے احمر کی فکر ستانے لگی کیونکہ اسپتال میں بے ہوشی میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ میں نے ان میں سے ایک لڑکی سے پوچھا کہ راجہ کب آئے گا ؟ تو وہ بولی۔ اری نادان ! یہ نادانی بھی ہمارے ماں نے بھی کی تھی اور کسی چاہنے والے کے ہاتھوں وہ یہاں پہنچادی گئی تو پھر کبھی لوٹ کر نہ جاسکی۔ تم کیسے جا سکتی ہو ؟ اس بات سن کر میر اسر گھوم گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ لیکن میں تو احمر کے ساتھ آئی تھی۔ راجہ ہے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ تو ہمارے نکاح کا انتظام کر رہا تھا کہ احمر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ اسپتال میں ہے اور یہ شخص مجھے یہاں چھوڑ گیا ہے۔ چھوڑ نہیں گیا، بلکہ مالکہ ہاتھ بچ گیا ہے۔ ہم کو احمر کا حصہ نہیں پتا، ہم تو بس یہی سیدھی سی بات جانتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرائی، جیسے میں نے کوئی فضول سی بات کہہ دی ہو۔ تبھی دوسری بولی۔ یہ لڑکی یا تو واقعی معصوم ہے یا پھر پاگل ہے۔ اری بے وقوف جس کو تو نے اپنا سب کچھ جان رکھا ہے وہ تو مکر گیا ہے۔ نہیں نہیں، ایسا نہ کہو۔ میں کہاں ہوں؟ اتنا تو بتادوں میں نے روتے ہوئے کہا۔ یہ وہ جگہ ہے، جہاں دن میں سوگ اور رات کو رونق ہوتی ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یا الہی ! یہ سچ کہہ رہی ہیں یا مجھے زندگی سے مایوس کر رہی ہیں ہمتا کہ میں یہاں سے جانے کا نہ سوچوں اور احمر کیسے مگر سکتا ہے ؟ یہی یقینا جھوٹ بول رہی ہیں۔
ممکن ہے، یہ سب راجہ ان کو سکھا کر گیا ہو مجھے تو وہ آدمی براہی لگا تھا۔ پہلی نظر میں مجھے اس سے خوف آیا تھا۔ میں ہر وقت رویا کرتی اسی طرح پندرہ دن گزر گئے۔ خالہ جس کو سب خانم کہتے تھے ، اس نے مجھے کچھ نہ کہا۔ میں بس اس کمرے میں پڑی رہتی تھی۔ کوئی لڑکی آتی ، کچھ میٹھے بول بول کر زبردستی دو چار لقمے کھلا جاتی۔ میں نے تو نہانا ہاتھ منہ دھونا تک چھوڑ دیا تھا، البتہ صبح شام نماز پڑھتی اور دعا کرتی کہ میرے لئے کوئی اچھی راہ نکال دے کیونکہ گھر کا رستہ تو میں کھو بیٹھی تھی۔ میرے بھائی وہاں گھر کے راستے پر میرے لئے بندوقیں سنبھالے ہوئے تھے۔ ایک دن خانم بولی بیٹی آخر تم کب تک غم کرو گی اور جائو گی بھی تو کہاں ؟ بہتر ہے میری بیٹی بن کر رہو۔ دیکھو یہ میری دوسری کتنی خوش ہیں میرے ساتھ ۔ جب یہ یہاں آئی تھیں تا تمہاری طرح روتی تھیں اور اداس تھیں مگر اب میرے بیٹیاں میرے بھا۔ بغیر نہیں رہ سکتیں۔ میں تم کو کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گی۔ بے فکر ہو جائو، ہمارے پاس بڑے بڑے اثر ورسوخ والے لوگ آتے ہیں پھر بھی تم نے گھر لوٹ کر جانا ہے تم مجھے بتائوں میں تم پر ظلم نہیں کرنا چاہتی۔ میرا اصول ہے کہ میں ہر لڑکی کی مرضی کے مطابق اس سے کام کرواتی ہوں۔ تم سے بھی کوئی ایسا کام نہیں لیا جائے گا جس میں تمہاری مرضی شامل نہ ہو۔ اس نے اتنی نرمی اور پیار کے ساتھ بات کی کہ میں اس کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تب اس نے مجھے بہت پیار کیا اور کافی دیر دل سے لگائے رہی۔ میں نے سوچنے کا وقت مانگا، اس نے دیا۔ میرا دل اکثر درد سے بھر آتا۔ وہ مجھے کچھ نہ کہتیں اور میرے ساتھ میری زندگی کی داستان چھیڑنے کی کوشش بھی نہ کر تیں۔ ایک دن استاد صاحب نے مجھے اخبار لا کر دکھایا جس میں میرے بھائیوں کے جیل جانے کی خبر چھپی تھی کیونکہ انہوں نے احمر نامی نوجوان کو قتل کر دیا تھا۔ اس خبر میں میرا کوئی ذکر نہ تھا، بلکہ وجہ پرانی دشمنی بتائی گئی تھی۔ مائیوں اور ماموں نے میرا معاملہ نہیں اج اچھالا تھا، لیکن کسی طور ان کو علم ہو گیا تھا کہ ان کی بہن کو بھگا لے جانے والا احمر ہی ہے اور یہ بات ان کو بینک سے پتا چلی تھی، جہاں میں احمر کے ساتھ تین بار روپیہ نکلوانے گئی تھی۔ خانم نے ابھی مجھے جسم فروشی پر مجبور نہ کیا تھا بلکہ میں اس کے گھر کو سنبھالتی اور کچن کا کام دیکھتی تھی لیکن میری خوبصورتی میرے لئے عذاب بن گئی۔ لوگ خانم سے میرے وجود کی فرمائش کرتے اور منہ مانگے دام دینے کو تیار ہو ہے کہ جولڑ کی چاہتی ہے، میں ہو جاتے مگر خانم انکار کر دیتیں۔ کہتیں۔ میرا اصول ہے کہ جو لڑ کی شریفانہ زندگی گزارنا چاہتی ہے ، اس کو برائی میں دھکیلنے کی بجائے عزت کی زندگی گزارنے کا ایک موقع ضرور دیتی ہوں۔ بے شک وہ کسی گھر کی مالک بن جائے۔ اس کے لئے چاہنے والے کو نکاح سے قبل میری مرضی کی قیمت مجھے بہر حال ادا کر نا پڑتی ہے۔ ایک دن خانم نے پوچھا ۔ کیا تم نکاح کر کے شرافت کی زندگی جینا چاہتی ہو ؟ کیونکہ تم ایک نوابزادے کو پسند آگئی ہو اور وہ تمہارے بدلے مجھے منہ مانگی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے، البتہ یہ اکثر ہوا ہے کہ لڑکی کو کسی نے پسند کر کے خریدا، نکاح کیا مگر سال دو سال بعد اس کا دل بھر گیا تو واپس یہاں چھوڑ گیا۔ ایسی لڑکیاں پھر ہماری ہو جاتی ہیں اور رو دھو کر یہاں ہی رہ جاتی ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ پھر ان کو قبول نہیں کرتا۔ تب میں نے خانم سے کہا۔ جس نے مجھے پسند کیا ہے بہتر ہے آپ میری اس سے شادی کرادیں اور میرے بدلے اپنے دام کھرے کر لیں، آگے میری قسمت کیونکہ اب میں گھر نہیں جا سکتی۔ ہماری مرادری گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو پھر قبول نہیں کرتی۔ خانم نے ایسا ہی کیا۔ اس شخص سے میر انکاح کرواکر ، مجھے اس کے ساتھ رخصت کر دیا۔ اللہ کو میری عزت کی زندگی ایساہی مطلوب تھی کہ راشد نے مجھ کو اپنی عزت بنایا تو عمر بھر ساتھ نبھایا اور مجھے کوئی تکلیف نہیں دی۔ میں نے ان نہیں دی۔ میں نے ان کے ساتھ اچھی زندگی گزاری۔ اب میرے بچے جوان ہیں ، راشد کی وفات ہو چکی ہے۔ سسرال میں میری عزت کی جاتی ہے۔ میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھ بھٹکی ہوئی کو مزید بھٹکنے سے بچالیا۔