جب میں لڑکیوں کے پاس موبائل فون دیکھتی تو حسرت کرتی کہ کاش، میرے پاس بھی فون ہو۔ اس مقصد کے لئے میں نے اپنے جیب خرچ سے رقم بھی جمع کی مگر میں نہ لے سکی کہ امی ابو نے اجازت نہیں دی۔ ایک سال بعد جب میں نے آٹھویں جماعت اعزازی نمبروں سے پاس کر لی تو والد صاحب نے پوچھا، بولونینی تم کو کیا تحفہ چاہئے؟ میں نے فورا کہا۔ ابو جان مجھ کو موبائل فون لے دیجئے۔ وہ یک بارگی سوچ میں پڑگئے لیکن پھر میرے شوق کو دیکھتے ہوئے انہوں نے میری خواہش پوری کر دی اور مجھے کو موبائل لے کر دیا تا کہ میں اپنی سہیلیوں سے بات کر سکوں۔ بہت خوش تھی چونکہ یہ چیز میری من پسند تھی۔ اس تحفے کو پا کر گویا میں ہواؤں میں اُڑ رہی تھی۔ انہی دنوں اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں، تبھی ہم سب نے پھوپھی کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ ہم پہلی بار جا رہے تھے کیونکہ اس سے پہلے ہمارا کوئی خاص آنا جانا نہیں تھا۔ امی، ابو اور چھوٹی بہن کے ساتھ میں کراچی پہنچی۔ وہاں سارے عزیز بہت خوش ہو کر ملے۔ انہی میں عامر بھی تھا، جو میرا سب سے خوبصورت اور خوش گفتار کزن تھا۔ ہم وہاں دو ماہ رہے، اپنی اثنا میں میری اور عامر کی اچھی خاصی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی۔ ہم گھنٹوں باتیں کرتے اور وہ روز ہم لوگوں کو اپنی گاڑی پر سیر کرانے لے جاتا۔ ہاکس بے، کلفٹن اور کئی پارکوں میں گئے۔اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت کس قدر حسین تھا۔ ان لمحات کو میں بھی بھلا نہیں سکتی۔
جب ہم کراچی سے رخصت ہو رہے تھے، وہ بہت اُداس تھا۔ جیسے اسے ہم سے بچھڑنے کا بے حد غم ہو۔ جب گاڑی چلنے لگی۔ وہ کہنے لگا، عکاشہ مجھ کو اپنا موبائل نمبر دے دو اور میرا نمبر لے لوتا کہ ہم ایک دوسرے سے بات کر سکیں۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے تبھی اس کو نمبر دے دیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ میرا نمبر کیوں مانگ رہا ہے جب واپس اپنے شہر آگئی تو یوں لگا جیسے دل خالی خالی ہے، جیسے اپنی کوئی بہت قیمتی چیز کراچی بھول آئی ہوں۔ یہ در اصل عامر کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی یاد تھی ، جو مجھ کو چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ اب دن رات مجھ کو اس کی یاد ستانے لگی ۔ فون پر بات ہوتی تو کچھ چین ملتا ورنہ کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا تھا ۔ ایک ماہ تک ہم یونہی گاہے گاہے بات کرتے رہے مگر اس کے بعد ایک روز اچانک ہی عامر نے اپنا فون بند کر دیا ، میں بہت پریشان تھی۔ ہر وقت فکرمند اور اُداس رہتی کہ خدا جانے کیوں عامر نے فون بند کیا ہے جبکہ ایک دن بات نہ ہوتی تو وہ شکوے کرنے لگتا تھا۔ خدا خیر کرے۔ میں دل ہی دل میں دعا کرتی رہی۔ ایک ہفتہ گزر گیا کہ میں نیم مردہ سی ہو گئی مگر شکر کہ پھر اس کا ایس ایم ایس آگیا۔ عکاشہ کیسی ہو؟ میں نے جواب دیا۔ تمہارے بغیر میں کیسی ہو سکتی ہوں۔ اس نے کہا۔ کیا مطلب؟ چھوڑو تم سناؤ کہ تم کیسے ہو؟ میں نے ٹالتے ہوئے کہا۔ اتنے دن سے فون کیوں بند کیا ہوا تھا؟ میرا موبائل خراب ہو گیا تھا۔ اس نے بتایا۔ پھر اچانک ہی ایک انوکھی بات کہہ دی۔ کیا تم مجھے سے شادی کرو گی؟ میں نے بے ساختہ کہا۔ ہاں۔ اور پھر خود ہی شرمسار ہو گئی۔ عکاشہ یہ دن میں نے کیسے گزارے، کیا بتاؤں؟ میں بھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی عامر بے اختیار منہ سے نکل گیا لیکن عامر پھوپھی تمہاری شادی کہیں اور نہ کر دیں، تبھی اس نے کہا۔ ہاں عکاشہ گھر والے میرا رشتہ کہیں اور کرنا چاہتے ہیں لیکن تم فکر نہ کرنا، میں شادی صرف تم سے ہی کروں گا۔ میں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیا۔ دھیرے دھیرے اس کا خیال میرے دل میں گھر کرتا گیا۔ پھر میرا یہ حال ہوا کہ جس روز اس سے بات نہ ہوتی، خوب روتی ، کھاتی اور نہ کچھ پیتی، بس سسکتی ہی رہتی۔ میں اس کے لئے جان تک دینے کا سوچنے لگی۔ اکثر اس سے بس ایک ہی سوال کرتی ۔ عامر ہماری شادی کب ہوگی؟ کیا تم نے پھوپھی سے میرے بارے میں کچھ کہا ؟ وہ کہتا۔ کہہ دوں گا پہلے تم تعلیم تو مکمل کر لو اور میں بھی تعلیم مکمل کر کے جاب پر لگ جاؤں غرض اس طرح کی باتوں میں ایک سال گزر گیا۔ اس بار اسکول میں دس دنوں کی چھٹیاں ہو گئیں تو میں نے فورا پھوپھی کے گھر جانے کا پروگرام بنا لیا اور امی سے ضد کر کے وہاں جا کر ہی دم لیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے ایک بہت ہی بڑی خبر سننے کو ملی کہ عامر کی شادی اچانک ہی اپنی خالہ زاد سے ہوگئی ہے۔ امی نے پوچھا، ہمیں بلایا کیوں نہیں، تو پھوپھی وضاحت کرنے لگیں کہ بس لڑکی والوں کی وجہ سے جلدی میں شادی کرنی پڑی اور ہم کسی کو نہ بلا سکے لیکن کچھ دنوں بعد دھوم دھام سے ولیمہ کریں گے اور سب کو بلائیں گے۔ یہ خبر سن کر میں بے حال ہو گئی۔ امی نے پوچھا۔ دولہا دلہن کدھر ہیں؟ پھوپھی نے بتایا کہ وہ ہنی مون منانے مری گئے ہیں۔ یہ سن کر میں کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر کے خوب روئی۔اگلے روز عامر اور ثوبیہ آگئے ۔ میں نے موقع پا کر اس سے پوچھا۔ یہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ کہنے لگا۔ میں بے قصور ہوں عکاشہ کیونکہ دو سال پہلے امی نے ثوبیہ کو پسند کر لیا تھا۔ جب میں نے تمہارے لئے ان سے کہا تو وہ بہت ناراض ہوئیں، تبھی امی کی خوشی کے خاطر مجھے کو ان کا حکم بجا لانا پڑا، کیا کرتا ، ماں کو ناراض کیسے کرتا؟
یہ عامر کی تاویلیں تھیں۔ رات کو تھوڑی دیر کے لئے وہ باہر چلا گیا تو میں ثوبیہ کے پاس جا بیٹھی اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ دونوں کی پسند کی شادی ہے۔ تبھی اس نے نخوت سے فرمایا ہم پانچ سانوں سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ہماری منگنی کو بھی تین برس ہوچکے ہیں۔ جہاں تک تمہارا معاملہ ہے تو مجھے علم تھا کہ عامر سے تم فون پر باتیں کرتی ہو۔ اس بات پر میرا عامر سے جھگڑا بھی ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں موبائل پر چاہے لاکھ لڑکیوں سے باتیں کروں لیکن شادی تم سے ہی کروں گا۔ بھلا… فون پر باتیں کرنے والی لڑکیوں کا کیا بھروسا۔ جب مجھ سے چیٹ کر سکتی ہیں تو دوسرے لڑکوں سے تعلق رکھنے میں کیا شرم کرتی ہوں گی۔ اس لئے تم سوچنا بھی مت کہ میں ایسی ویسی لڑکی سے شادی کروں گا۔ ثوبیہ نے حقارت سے کہا۔ تو مجھ کو ایسا لگا کہ وہ مجھ کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتی ہے۔ دل اور بھی خون ہوا اس سے بات کر کے ناحق خود کو مزید اس کی نظروں میں گرایا کہ وہ تو اس کی دلہن تھی اور میں؟ میں ایک سوالیہ نشان تھی؟ اس کی باتوں پر میں خجالت سے گڑھ کی گئی تھی۔ یقین نہ آتا تھا کہ عامر نے کزن ہوتے ہوئے کیوں مجھے دھوکا دیا؟ جب دل ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا اور زندگی فضول شے نظر آنے لگی ، تب ابو کی بات یاد آئی کہ بیٹی کوئی اور تحفہ لے لو مگر موبائل نہ لو، لڑکیوں کے لئے یہ تحفہ اچھا نہیں ہوتا کیونکہ ابھی تم کم عمر ہو۔ سوچتی تھی میرے پاس نہ موبائل ہوتا اور نہ میں اس تباہی میں پڑتی۔ بے شک یہ کام کی چیز سہی لیکن اس کا غلط استعمال زندگی برباد کر سکتا ہے، خصوصاً لڑکیوں کے لئے٠
اس بار ہم چھ دن وہاں ٹھہرے تھے مگر یہ چھ دن میرے لئے چھ صدیوں کے برابر ہو گئے۔ اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی دلہن کے ساتھ ہنستے بولتے دیکھنا کسی طرح بھی میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ سوچتی تھی ناحق کراچی کا سفر کیا، پھوپھی کے گھر سے کیا ملا۔ دامن میں انگارے ہی بھر کر لائی۔ اپنے شہر واپس آ تو گئی مگر کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ یار بار موبائل اٹھاتی تھی اور بغیر نمبر ملائے رکھ دیتی تھی۔ انگلیوں کو عامر کا نمبر ملانے کی عادت جو پڑ گئی تھی مگر اس بے وفا نے تو ایک بار بھی پلٹ کر فون نہ کیا کہ تم کیسی ہو اور کس حال میں ہو ؟ جوکسی سے پیار نہیں کرتے وہ اس کا خیال بھی نہیں کرتے۔ وہ ثوبیہ کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی خوشیوں میں مگن تھا کیونکہ اس کی بیوی اس کی پسند بھی تھی ۔ میرے ساتھ موبائل پر باتیں محض دل لگی تھی۔ یہ نہیں سوچا کہ اس کی دل لگی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ جس شخص سے دھوکے کی توقع نہ تھی، اس نے دھوکا دے دیا۔ اب تو دوستی کے لفظ سے بھی مجھ کو خوف سا آنے لگا تھا جبکہ دل کی ایسی کیفیت ہو تو انسان کو اس وقت سب سے زیادہ دوست کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے دوستی سے احتیاط برتی۔ پھر بھی ایک لڑکی سے دوستی ہو گئی جس کا نام بانو تھا اور وہ ہمارے برابر والے مکان میں آکر سکونت پذیر ہوئی تھی ، جو عرصے سے خالی پڑا تھا۔ پہلے یہ لوگ گاؤں میں رہا کرتے تھے مگر پنڈی آنا جانا رہتا تھا۔ بانو کے تین بھائی تھے اور وہ ان کی اکلوتی بہن تھی۔ شروع میں وہ کم آتی جاتی۔ مجھے کو بہت دل گرفتہ پایا تو زیادہ آنے جانے لگی۔ کچھ لوگوں کا خدا کی طرف سے کسی کی غمگساری کرنے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے، بانو بھی ان ہی لوگوں میں سے تھی۔ اس نے نہایت توجہ اور طریقے سے میرے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا اور میں نے اس کو اپنا غمگسار ہی نہیں، راز دار بھی بنالیا۔ اس نے مجھے کو تسلی دی اور پیار دیا تو دل سے منوں بوجھ ہلکا ہو گیا اور پھر میں بانو سے اس قدر مانوس ہوگئی کہ اس کے بغیر وقت کاٹنے لگا۔ جب وہ آجاتی اور میں بے وفا عامر کی باتیں کرتی ، یادیں دہرا لیتی تو مجھے سکون مل جاتا۔ پہلے تو مجھے صرف اپنا دکھ ہی سب سے گراں لگتا تھا، کسی اور کو بھی کوئی دکھ ہوگا، یہ جاننے کی سعی نہ کی لیکن جب بانو سے خوب قربت ہوگئی تو ایک روز اسے رنجیدہ پا کر میں نے توجہ کی اور پوچھا۔ بانو تم بھی چپ رہتی ہو، بتاؤ تو سہی تمہیں کیا دکھ ہے؟ پہلے تو اس نے ٹالنا چاہا مگر میرے اصرار پر بتایا۔ جن دنوں میں اسکول میں پڑھتی تھی، اکرام بھی ساتھ پڑھتا تھا۔ وہ ہمارے پڑوسی چاچا انعام کا بیٹا تھا اور ہم بچپن میں اکٹھے کھیل کر بڑے ہوئے تھے چونکہ ہم دونوں کا بچپن تھا، اس لئے زندگی کی اونچ نیچ کے بارے میں اتنا نہیں جانتے تھے، یوں کہئے کہ بس ہماری دوستی معصوم سی تھی۔ میں نے میٹرک پاس کیا تو خالہ انگلینڈ سے آگئیں اور انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کے لئے میرا رشتہ مانگ لیا۔ امی ابو نے فورا ہاں کر دی۔ میں عاصم سے شادی کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن امی کی شدید خواہش تھی کہ میں خالہ کی بہو بنوں اور انگلینڈ جاؤں، لہذا ان کے آگے میری ایک نہ چلی۔ یوں میری شادی عاصم سے ہو گئی۔ میری شادی سے اکرام کو دھچکا لگا لیکن کیا کرتا ، وہ بس دیکھتا رہ گیا۔ انگلینڈ جا کر میں اور زیادہ پریشان ہوگئی۔ نیا ماحول، نیا ملک تھا، پھر عاصم بھی مجھ سے راضی نہ تھا، یہاں اس کی کئی گرل فرینڈز تھیں، وہ سارا وقت ان کے ساتھ گزارتا اور میں مشرقی ماحول کی پروردہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی چپ رہتی تھی ۔ ان حالات میں کیا کوئی لڑکی خوش رہ سکتی ہے؟ مجھے عاصم کے ساتھ زندگی گزارنے پر کوئی خوشی نہ ملی۔ میں بے حد نا خوش رہنے لگی۔ یوں ایک دن جب دل بہت افسردہ اور گھٹا ہوا تھا۔ میں نے اکرام کو فون کر دیا کیونکہ اس نے مجھے شادی میں موبائل تحفے میں بھیجا تھا، جس کا مطلب تھا کہ مجھے کو فون کرتا۔ اب جب میں تنہا ہوتی ، اکرام سے فون پر باتیں کر لیتی ، جس سے دل ہلکا ہو جاتا تھا۔ ایسی باتیں نہیں چھپتیں ۔ ایک روز میں رو رو کر اکرام کو اپنے دل کا حال سنا رہی تھی کہ میرے شوہر نے وہ باتیں سن لیں۔ بس پھر کیا تھا، اُس نے خوب جھگڑا کیا۔ دراصل وہ مجھ کو طلاق دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا اور کوئی بہانہ اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ میں اس کی ماں کی پسند تھی اور خالہ مجھے بیاہ کر لائی تھیں۔ عاصم تو مجھ سے شادی کا آرزو مند تھا ہی نہیں۔ پس اس بات پر کہ میں اکرام سے فون پر بات کر رہی تھی ۔ شوہر نے مجھے کو طلاق دے دی۔
جب مجھے طلاق دی گئی، میری شادی کو آٹھ ماہ ہوئے تھے، انہوں نے مجھے پاکستان بھیج دیا۔ جب طلاق کی وجہ بتائی گئی تو میرے والدین بھی چپ ہو گئے ، وہ کیا کرتے۔ طلاق کی وجہ سے ہر کوئی افسردہ تھا اور کوئی خوش تھا تو وہ اکرام تھا۔ تاہم میرے گھر والے اب اکرام کو سخت نا پسند کرنے لگے کہ جس کی وجہ سے مجھے کو طلاق ہوئی تھی ۔ اکرام میں ایک بہت بڑی خرابی تھی کہ اس کو میری عزت کی کوئی پروانہ تھی۔ وہ ہر جگہ بیٹھ کر میری اور اپنی باتیں کرتا رہتا تھا۔ تاہم مجھے کو اس کی کوئی خامی نظر نہیں آتی تھی۔ بس ایک بات سوچتی تھی اب تو مطلقہ ہو چکی ہوں ، وہ جیسا بھی ہے، اس سے پیار کروں گی شاید اس کے ساتھ شادی ہو جانے سے زندگی سنور جائے اور میں پچھلا دکھ بھلا دوں۔ میرے لئے دو چار رشتے آئے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اکرام کی والدہ بھی آئیں مگر میرے والدین نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ کوئی کام نہیں کرتا، لہذا ہم اس بے روز گار لڑکے کو بھی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیں گے جبکہ یہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں ہے۔ اکرام اور میں کبھی کبھی ملتے تھے ۔ ان کے گھر کی چھت سے ہمارے مکان کی چھت بلکل جڑی ہوئی تھی- لہٰذا جب سب سو جاتے ، ہم دونوں اپنی اپنی چھت پر چلے جاتے اور باتیں کرتے۔ میں کہتی تھی، اکرام مجھے نہیں لگتا کبھی ہمارے گھر والے مان جائیں گے۔ وہ ہرگز میری تم سے شادی نہ کریں گے کہ تمہاری وجہ سے میری طلاق ہوئی ہے۔ تب وہ کہتا بانو تو پھر ایسا کرو کہ ہم گھر سے نکل کر شادی کر لیتے ہیں۔
بالآخر والدین نے اکرام کے گھر سے دوری کی خاطر وہ گھر بیچ دیا اور ہم لوگ یہاں آگئے ہیں۔ سارا دن بانو ہمارے گھر رہتی تھی۔ وہ مجھے کو اپنی ساری باتیں بتائی۔ بانو کا ایک کزن پنڈی میں رہتا تھا، جس کا نام ارسلان تھا۔ وہ بھی ان کے گاؤں کا تھا لیکن بعد میں وہ شہر آ گیا اپنی نانی نانا کے پاس کیونکہ اس کے والدین ایک حادثے میں فوت ہو گئے تھے۔ ارسلان کافی خوبصورت اور بانو سے عمر میں پانچ برس چھوٹا تھا تا ہم دونوں کزن آپس میں خوب گھل مل گئے اور ان کی دوستی ہو گئی۔ ارسلان چونکہ اکرام کا بھی دوست تھا، لہذا وہ بانو کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کو یہی ہدایت کرتا تھا کہ بے شک تم مطلقہ ہو اور افسردہ بھی رہتی ہو، تاہم عقل سے کام لینا اور کوئی غلط قدم مت اٹھانا۔ جو بھی قدم اٹھاؤ اپنے والدین کی رضامندی اور مرضی سے اٹھانا۔ ارسلان کا یہ اخلاص، دوستی کے اور محبت کے جزبے میں تبدیل ہو گیا مگر وہ اس سے پانچ برس بڑی تھی، اس لئے ارسلان نے اس جذبہ کو دل میں دبا لیا اور اس کے سامنے اظہار کی جرات نہ کر سکا۔ ایک دن ارسلان ہمارے گھر بھی آیا تب اس نے مجھے بتا دیا کہ وہ بانو کو پسند کرتا ہے مگر تاکید کی کہ یہ بات بانو کو نہ بتانا تبھی میں نے سوچا کہ یہ کیسا بزدل ہے، پیار بھی کرتا ہے اور بانو پر ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتا کیسی عجیب سوچ تھی اس کی۔ ۔ ادھر اکرام کی امی مسلسل بانو کے والدین کو منا رہی تھیں اور منتیں کرتی تھیں کہ بانو کا رشتہ دے دو۔ جب وہ نہیں مانے تو اکرام مایوس ہو گیا اور اس نے بانو کو اکسایا کہ تم میرے ساتھ نکل چلو، ہم کورٹ میرج کرلیں گے ۔ اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا اور بانو سے کہا کہ فلاں وقت فلاں جگہ آجانا۔ بے وقوف بانو اس کی باتوں میں آکر مقررہ وقت وہاں گئی مگر اکرام نہیں آیا۔ جب وہ کافی دیر تک نہ لوٹی تو اس کے گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے سن گن لی تو اکرام کے ایک دوست نے راز فاش کر دیا اور بتایا کہ بانو ریلوے اسٹیشن گئی ہے۔ وہ بھاگے بھاگے گئے شکر ہے کہ وہ کسی گاڑی میں سوار نہ ہوئی تھی ، وہ خواتین کی انتظار گاہ میں بیٹھی مل گئی۔ بھائی اُس کو پکڑ کر لے آئے ۔ باپ نے گھر میں چار دن بند رکھا کہ بھائی اس کو مارنہ دیں ۔ بھائیوں کا ارادہ اس کو مار ڈالنے کا ہی تھا۔ آخری بار وہ مجھ سے اس وقت ملی، جب وہ گھر سے جارہی تھی مگر اس نے مجھے بھی نہ بتایا تھا کہ کہاں جارہی ہے کیونکہ اس کو تو جانے کی جلدی تھی۔ بہر حال بھائیوں کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور موقع ملتے ہی انہوں نے بانو کو مارنا چاہا۔ پستول کی دو گولیاں اس کی ٹانگوں پر لگیں اور وہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہو گئی۔ والدین اس کو اسپتال لے گئے ۔ جب ہم کو پتا چلا ، ہم سب بھی کافی پریشان ہوئے ، میں نے اس کے لئے بہت دعائیں کیں ۔ دعا قبول ہوئی، بانو کو ہوش آگیا اور ڈاکٹروں نے اس کی زندگی بچائی لیکن اب وہ بہت شرمندہ تھی، اپنے گھر والوں سے کسی سے آنکھ نہ مل سکتی تھی ، تاہم اس نے ہوش میں آکر پولیس والوں کو یہ بیان دیا کہ مجھے اکرام نے مارا ہے کیونکہ وہ اب اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔ تب اکرام کہیں بھاگ گیا اور روپوش ہو گیا۔ بعد میں وہ واپس آگیا کیونکہ سارا محلہ جانتا تھا کہ اس لڑکی کو اس کے بھائی نے مارا تھا۔
اب بانو تنہا ہوگئی، وہ جو پہلے میری غمگسار تھی، اس کو میری غمگساری کی ضرورت تھی۔ میں گھر والوں کے خوف کی وجہ سے زیادہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی۔ اکرام نے بے وفائی کی ۔ گھر والے بھی اس سے نفرت آمیز باتیں کرنے لگے۔ وہ بہت زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہوگئی۔ ایسے میں ارسلان کے والدین آگئے اور کہا کہ ہم اپنے بیٹے کے لئے آپ کی بیٹی کا رشتہ لینا چاہتے ہیں۔ سبھی حیران رہ گئے کہ ایک گھر سے بھاگی ہوئی مطلقہ اور مضروب لڑکی سے ارسلان جو کہ عمر میں بھی چھوٹا تھا، اپنے سے زیادہ عمر کی خاتون کو اپنانا چاہتا تھا۔ آخر کیوں؟ کیا محض ہمدردی کی وجہ سے یا واقعی اس کو بانو سے محبت تھی۔ ارسلان نے بہت یقین دلایا مگر بانو نے یہی سوچا کہ یہ نادانی کر رہا ہے کیونکہ مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے، اس کو زندگی کا اتنا پتا نہیں۔ اس نے انکار کر دیا، تاہم بانو کے والدین نے اس رشتے پر ہاں کر دی۔ ارسلان بہت خوش تھا۔ کہتا تھا کہ میں بانو کو اتنا خوش رکھوں گا کہ وہ ماضی کے سارے دُکھ بھلا دے گی۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگی تھیں کہ کچھ دنوں بعد ہی سب کچھ اُلٹ ہو گیا۔ انگلینڈ سے بانو کی خالہ آگئی اور کہنے لگی کہ ہم اپنی بہو کو لینے آۓ ہیں کہ عاصم نے طلاق ایک بار دی تھی، تین بار نہیں دی تھی۔ بہر حال پھر نکاح ہو گیا اور بانو کے گھر والوں نے یہی سوچا کہ اپنے گھر چلی جائے تو اچھا ہے۔ لڑکی پر ایک بار گھر سے بھاگی ہوئی کا لیبل لگ جائے تو لڑکی کے اس جرم کو کوئی معاف نہیں کرتا۔ بانو کو واپس بھیجنے کی تیاریاں ہونے لگیں ، تو وہ کافی پریشان تھی۔ ارسلان بھی بے حد افسردہ تھا۔ وہ میرے گھر آئی تو کہنے لگی۔ میں اپنے سے زیادہ ارسلان کے لئے دکھی ہوں کیونکہ وہ بے حد پریشان ہے، کہتا ہے تم مجھ سے کتنی دور چلی جاؤ گی- اے کاش! تمہاری خالہ نہ آتی اور ہماری شادی ہو جاتی۔ بانو کے جانے سے پہلے ارسلان نے اس کو موبائل لا کر دیا کہ مجھ سے کبھی کبھی بات کر لیا کرنا لیکن بانو نے یہ کہہ کر قبول نہیں کیا کہ موبائل ایک ایسا تحفہ ہے جس سے اکثر لڑکیوں کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ پس اگر کسی لڑکی سے سچا پیار ہے تو اس کی عزت بھی بہت عزیز ہونی چاہئے کہ وہ آپ کی وجہ سے معاشرے میں بدنام نہ ہو۔ بانو چلی گئی اور میں آج بھی سوچتی ہوں کہ اس کا غم مجھ سے بڑا تھا لیکن وہ مجھ سے زیادہ حوصلے والی تھی۔ دعا کرتی ہوں کہ میری دوست بانو جہاں بھی ہو، خوش ہو۔