محبوب نے اس سے دوچار بار پوچھا کہ اس غصے کی وجہ کیا ہے لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا بلکہ گلزار کو گھورتا رہا۔
گلزار مسکراتا ہوا کبھی دائیں اور کبھی بائیں دیکھتا رہا۔
تینوں کو سائرہ نواب محض ایک بار دکھائی دی تھی جب وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے سامنے سے گزر کر چلی گئی تھی۔ گلزار کا دماغ زیادہ کام کرتا تھا اس لئے اس کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا کہ صابر نے وہ سوٹ سائرہ نواب کیلئے خریدا تھا جو اس نے اس کی ماں کو دلوا کر ہی دم لیا تھا اور اب وہ سائرہ نواب کو خوبصورت تحفہ دے کر اسے اپنی طرف مائل کرنا چاہتا تھا۔ گلزار کے دل میں کیا تھا، اس کے دائیں بائیں رہنے والے اس کے دونوں دوست بے خبر تھے۔ گلزار دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ محبوب کو یہ بے چینی تھی کہ اس کے ابا اس کیلئے نئی موٹرسائیکل لے آئے ہوں گے۔ جیسے ہی اس کا کالج ٹائم ختم ہوا، اس نے آئو دیکھا نہ تائو اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ صابر اور گلزار دیکھتے ہی رہ گئے۔
محبوب گھر پہنچا تو شوکت سلطانی کمرے سے باہر نکلتے ہی محبوب کو دیکھ کر رک گیا۔ ’’آگئے تم…؟ میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔‘‘
’’خیریت ہے ابا جی…؟‘‘ محبوب کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔
’’یہ لو چابی!‘‘ شوکت سلطانی نے خوبصورت ’’کی رنگ‘‘ کی مالا کے ساتھ لٹکتی ہوئی چابی محبوب کی طرف بڑھا دی اور ساتھ ہی بولا۔ ’’تمہاری سواری کا انتظام کردیا ہے۔‘‘
محبوب چابی کو بھول گیا اور خوشی سے بولا۔ ’’کہاں ہے؟‘‘
’’پیچھے صحن میں کھڑی ہے۔ میں جارہا ہوں اور دھیان رکھنا اسے خراش نہ آئے اور اب اگر وہ چوری ہوئی تو پیدل چلتے نظر آئو گے مجھے!‘‘
’’شکریہ ابا جی!‘‘
محبوب صحن کی طرف جانے لگا تو شوکت سلطانی نے اسے پھر روک کر جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو تم نے جو پیسے دیئے تھے، ان میں سے بچ گئے تھے۔‘‘ شوکت سلطانی دس کا نوٹ اسے تھما کر چلا گیا اور محبوب پہلے تو نوٹ کو دیکھتے ہوئے سوچتا رہا کہ یہ دس کا نوٹ کیسے بچ گیا۔ پھر اس نے سوچنا ملتوی کیا اور صحن کی طرف بھاگا۔ جونہی وہ صحن میں پہنچا، اس کی نگاہیں سامنے پڑیں۔ اس کے قدم جہاں تھے، وہیں منجمد ہوگئے اور چہرے پر ایسی حیرت برسنے لگی کہ موسلادھار بارش بھی کیا برستی ہوگی۔
محبوب کی نگاہوں کے سامنے بالکل نئی چمچماتی بائیسکل کھڑی تھی۔ محبوب سائیکل کو ایسے دیکھتا رہا جیسے وہ زندگی میں پہلی بار اس ایجاد کو انتہائی قریب سے دیکھ رہا ہو۔ اب اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ ابا جی نے اسے دس کا نوٹ کیوں واپس کیا تھا۔
محبوب کا دل چاہا کہ وہ چلانا شروع کردے۔ اس نے جو سوچا تھا، اس کے برعکس ہوا تھا۔ وہ جونہی پلٹا کہ وہ اپنی ماں کے پاس جاکر ان سے احتجاج کرے، وہ اس کے عقب میں ہی کھڑی تھیں۔
’’امی جی…! یہ کیا ہے؟‘‘
’’اسے سائیکل کہتے ہیں محبوب!‘‘ اس کی ماں نے گویا اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’میں نے موٹرسائیکل کہی تھی اور ابا سائیکل اٹھا لائے۔‘‘ محبوب کا دل چاہا کہ وہ رو دے۔
’’تمہارے ابا کہہ رہے تھے جتنے پیسے محبوب نے دیئے تھے، ان میں یہ سائیکل ہی آسکتی تھی۔‘‘
’’وہ پیسے تو میں نے اس لئے دیئے تھے کہ باقی پیسے ابا اپنے پاس سے ڈال کر مجھے موٹرسائیکل خرید دیں۔‘‘
’’وہ کہہ رہے تھے کہ میرے پاس گنجائش نہیں ہے کہ میں پیسے ڈال کر موٹرسائیکل خرید سکوں۔ اب تم کو اسی پر یونیورسٹی جانا ہوگا۔‘‘ اس کی ماں نے کہا۔
’’میں یونیورسٹی اس سائیکل پر بالکل بھی نہیں جائوں گا۔‘‘ محبوب غصے سے بولا۔
’’یہ بات تم اپنے ابا سے کرنا۔‘‘ اس کی ماں نے کہہ کر وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا اور محبوب سائیکل کے سامنے پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی بات رہ رہ کر آرہی تھی کہ وہ اب سائرہ نواب کو کیسے اپنی طرف مائل کرے گا۔ اس سے بہتر تو وہ کھٹارا موٹرسائیکل تھی جس پر سائرہ نواب کے بیٹھنے کا چانس تو تھا۔ اس سائیکل پر بیٹھنا تو دور کی بات، وہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گی۔
شام کو شوکت سلطانی برآمدے میں براجمان اخبار پڑھنے میں منہمک، اردگرد سے بے نیاز تھا۔ محبوب رینگنے کے انداز میں اپنے ابا کی طرف ایسے بڑھ رہا تھا جیسے اسے کوئی ان دیکھی طاقت دھکیلتے ہوئے لے جارہی ہو اور وہ خود اپنے ابا کا سامنا کرنا نہ چاہتا ہو۔
محبوب قریب جاکر گلا صاف کرکے بولا۔ ’’ابا جی! آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘
شوکت سلطانی نے اخبار سے نظریں ہٹا کر محبوب کی طرف دیکھا۔ اس کا دیکھنا ایسا ہی تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو۔ ’’بولو کیا کہنا ہے؟‘‘
محبوب نے ایک بار پھر اپنے اندر ہمت جمع کی اور بولا۔ ’’آپ نے مجھے سائیکل لے دی۔‘‘
’’اور کیا لے کر دیتا…؟‘‘ شوکت سلطانی نے متانت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔
’’میں نے موٹرسائیکل کا کہا تھا۔‘‘
’’جتنے پیسے دیئے تھے، اتنے میں وہ سائیکل ہی آسکتی تھی۔ دس روپے بقایا بچے تھے، وہ میں نے تم کو دے دیئے ہیں۔‘‘
’’اب میں سائیکل پر یونیورسٹی جائوں گا؟‘‘ محبوب بولا۔
’’اس میں قباحت کیا ہے؟‘‘ شوکت سلطانی نے اسے گھورا۔ محبوب گھبرا گیا۔
’’ابا جی! میرا مطلب ہے کہ اب یونیورسٹی میں سائیکل پر جائوں گا تو بڑا عجیب سا لگے گا۔‘‘ محبوب نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
اتنا سننا تھا کہ شوکت سلطانی ایک دم سے بھڑک اٹھا۔ ’’سائیکل کون چلاتا ہے… کتنی دنیا سائیکل چلاتی ہے، تم نے کبھی دیکھا ہے؟ بیس سال سے تو میں اس محلے کے ڈاکئے کو سائیکل پر دیکھ رہا ہوں۔ وہ تو بڑا خوش خوش آتا ہے اور خوش خوش جاتا ہے۔ کان کھول کر سن لو، اسی سائیکل پر جائو گے اور اسی سائیکل پر آئو گے۔ اگر تم اس سائیکل کو چھوڑ کر بس پر آنے جانے لگے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ تم میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘
شوکت سلطانی کا لب و لہجہ ایسا تھا کہ وہ ان کی بات سن کر گم صم سا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا۔ اب تو باپ کی طرف سے دوٹوک آرڈر موصول ہوگئے تھے اس لئے سائیکل پر جانا اور آنا ہی لازمی تھا۔
محبوب سوچنے لگا کہ وہ تو اس طرح خود ہی پھنس گیا ہے۔ اس نے اپنی بائیک بیچ کر تو اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار دی تھی۔ اس نے سوچا اگر وہ سائیکل پر آئے اور جائے گا تو سائرہ نواب تو اس کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دے گی۔ اب وہ کیا کرے…؟
محبوب کی اب یہ تو جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے ابا جان کی حکم عدولی کرسکے چنانچہ وہ سوچنے لگا کہ کیا کرے۔ اس کی سمجھ میں ایک ہی بات آئی کہ وہ یہاں سے سائیکل پر ہی جائے لیکن سائیکل کو یونیورسٹی میں لے جانے کی بجائے گلزار کے گھر کھڑی کردے کیونکہ گلزار کا گھر یونیورسٹی کے قریب تھا۔ یہ خیال آتے ہی محبوب کے دل کو اطمینان ہوگیا۔
محبوب سائیکل چلا کر گلزار کے گھر تک پہنچ تو گیا لیکن اب اس کے اندر ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ دو قدم چل کر اس کے گھر کی بیل پر اپنی انگلی رکھ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محبوب سائیکل چلا کر اس قدر تھک گیا تھا کہ اس کی سانس بھی پھول گئی تھی۔
جب اس کی سانس بحال ہوئی تو اس نے سائیکل کھڑی کرکے بیل بجائی۔ تھوڑی دیر کے بعد گلزار نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اپنے گھر کے سامنے محبوب کو مع سائیکل کھڑا دیکھ کر متحیر سا رہ گیا۔
’’کیا ہوا…؟ خیریت تو ہے اور یہ سائیکل کس کی ہے؟‘‘ گلزار نے ایک ساتھ کئی سوال کردیئے۔
’’دو منٹ اندر بیٹھ کر بات کرلیں؟‘‘ محبوب نے اجازت چاہی تو گلزار نے سوچنے کے بعد اپنی بیٹھک کا دروازہ کھول دیا۔ اب دونوں آمنے سامنے براجمان تھے۔ گلزار کی نگاہیں ابھی تک اس کے چہرے پر مرکوز تھیں اور وہ اس کے
بولنے کے انتظار میں تھا۔
محبوب نے بتایا کہ اس کے ابا نے سائیکل کیسے خرید کر دی اور اس کے بعد بولا۔ ’’اب میں سائیکل لے کر یونیورسٹی نہیں جاسکتا اس لئے روز سائیکل تمہارے گھر کھڑی کردیا کروں گا اور واپسی پر لے لیا کروں گا۔‘‘
گلزار پہلے ہی سوچ بچار میں بہت ماہر تھا۔ اس نے محبوب کی بات سن کر سوچا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس کو شک تھا کہ محبوب کی نظر سائرہ نواب پر ہے۔ حقیقت جاننے کا اب اس کے پاس بہترین موقع تھا اس لئے اس نے کہا۔’’سائیکل پر کئی لڑکے یونیورسٹی آتے ہیں، ایک پروفیسر صاحب بھی سائیکل پر آتے ہیں۔ اس میں ایسی کوئی ہتک کی بات تو نہیں ہے لیکن مجھے بات کچھ اور لگ رہی ہے۔‘‘ گلزار نے بات کرنے کے بعد اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
محبوب نے جلدی سے نفی میں گردن ہلائی۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تم بس میری سائیکل رکھ لیا کرو۔‘‘
گلزار نے سوچا کہ محبوب سے فوری سچ اگلوانا مناسب نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ وہ وقفے وقفے سے اس سے سوال کرتا رہے، محبوب سچ اگل ہی دے گا۔ چنانچہ اس نے سائیکل رکھنے اور واپسی پر لے جانے کی اجازت دے دی۔ محبوب نے خوشی خوشی سائیکل کھڑی کی اور یونیورسٹی کی طرف چل دیا۔
اس دن گلزار وقفے وقفے سے اس سے سوال کرتا رہا لیکن محبوب نے سچ نہیں اگلا۔ صابر ویسے ہی گلزار سے دور رہا۔ اسے اس بات کا رنج تھا کہ گلزار کی وجہ سے وہ اپنا خریدا ہوا تحفہ سائرہ نواب کو نہیں دے سکا۔
جب گلزار نے محبوب کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی اور وہ اس کے قابو میں نہیں آیا تو گلزار نے ایک تیر چھوڑا۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ سائرہ نواب تجھے چوری چوری دیکھتی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی محبوب کی آنکھیں چمک اٹھیں، چہرے پر ٹپکتی رال کی طرح مسکراہٹ آگئی اور اس نے جلدی سے کہا۔ ’’بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ مجھے چوری چوری دیکھتی ہے اور مجھے پتا بھی چلا ہے کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے اس کیلئے میں نے پرانی کھٹارا موٹرسائیکل بیچی تھی لیکن ابا نے مجھے سائیکل لے دی۔ اب تم ہی بتائو میں سائیکل لے کر کیسے یونیورسٹی آسکتا تھا اس لئے اسے تمہارے گھر کھڑی کرتا ہوں۔‘‘ محبوب ایسا بہکا کہ اس نے سچ اگل دیا اور جب اس کے منہ سے سب کچھ نکل گیا تو اچانک خیال آیا کہ وہ کیا بول گیا ہے، اس لئے وہ فوراً چپ ہوکر گلزار کا منہ دیکھنے لگا۔ گلزار نے بڑی ہوشیاری سے اس سے پوچھ لیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔
’’بے وقوف احمق…! سائرہ نواب کو میں پسند کرتا ہوں۔‘‘ گلزار نے دل ہی دل میں کہا۔
’’میں چلتا ہوں۔‘‘ محبوب کہہ کر چل پڑا۔
محبوب ابھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک طرف سے نکل کر سائرہ نواب اور بلقیس سامنے آگئیں۔ محبوب کے قدم بے جان سے ہوگئے۔ جونہی وہ ان دونوں کے قریب سے گزرنے لگا، سائرہ نواب کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور اس کے قدم تھے کہ اسی جگہ ایسے جم گئے گویا پیروں سے جان نکل گئی ہو۔
سائرہ نواب نے سوال کیا تھا۔ ’’آج کل آپ کی بائیک دکھائی نہیں دے رہی؟‘‘
محبوب نے سائرہ نواب کے منہ سے اپنی بائیک کے بارے میں سوال سنا تو اس کے دل میں جلترنگ سے بجنے لگے۔ پہلا تاثر یہ ابھرا کہ اس کا مطلب ہے سائرہ نواب کی اس پر پوری نگاہ ہے اور اس نے بائیک پر نہ آنے جانے کا نوٹس لیا ہے۔
سائرہ نواب کو محبوب کے پاس کھڑا دیکھ کر گلزار بھی جس جگہ تھا، اسی جگہ منجمد ہوگیا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔ گلزار سے کچھ فاصلے پر صابر کھڑا تھا، اس کی نگاہیں بھی سائرہ نواب اور محبوب پر مرکوز تھیں۔ دونوں کے چہروں پر حیرت برس رہی تھی اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی طرح سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لیں۔ فی الحال وہ ان کو دیکھنے پر ہی اکتفا کررہے تھے۔
محبوب مسکرایا۔ ’’میں نے اپنی بائیک بیچ دی ہے۔‘‘
’’کیوں بیچ دی ہے بائیک…؟‘‘ سائرہ نواب نے اگلا سوال کیا۔
’’دراصل میں گاڑی خرید رہا ہوں۔‘‘ محبوب نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور بے پر کی چھوڑ دی۔
’’اب آپ گاڑی پر آیا جایا کریں گے؟‘‘ سائرہ نواب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’جی ہاں! آپ نے درست سمجھا۔‘‘ محبوب مسکرایا۔
’’کمال ہے۔‘‘ سائرہ نواب نے کندھے اچکائے۔
’’کہیں بیٹھ کر بات کریں…؟ میں آپ کو اپنے بارے میں کچھ اور بھی بتائوں گا کہ میرے فیوچر کے کیا پروگرام ہیں۔‘‘ محبوب نے اپسے پیشکش کردی جیسے وہ بہت بڑی منصوبہ بندی لے کر اس کے سامنے کھڑا ہو۔
’’مجھے آپ کے فیوچر سے کیا لینا دینا۔ میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا کہ جب آپ کی وہ بائیک اسٹارٹ نہیں ہوتی تھی تو ککیں مارمار کر آپ کا عجیب سا منہ ہوجاتا تھا اور آپ کا وہ منہ دیکھ کر ہنسی آجاتی تھی جس سے طبیعت کچھ ہشاش بشاش سی ہوجاتی تھی۔‘‘ سائرہ نواب نے لاپروائی سے کہا۔
سائرہ نواب کی بات سن کر محبوب کو ایک دھچکا سا لگا۔ یعنی کہ وہ ککیں مارمار کر بے حال ہوجاتا تھا اور اس بے حال کیفیت سے سائرہ نواب کی طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی تھی…؟ اس کی بات تو ایسے ہی تھی جیسے کوئی سیڑھی پر چڑھا کر ایک دم نیچے سے سیڑھی کھینچ لے۔
’’آپ کی طبیعت ہشاش بشاش ہوتی تھی تو وہ موٹرسائیکل دوبارہ خرید لوں؟‘‘ محبوب نے اپنے اندر کی کیفیت کو دبا کر پوچھا۔
’’نہیں! ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ سائرہ نواب کہہ کر بلقیس کے ساتھ چل پڑی۔ اس کے چلتے ہی محبوب کا رخ بھی گھوم گیا۔ جونہی اس کا رخ تبدیل ہوا، اس نے دیکھا کہ گلزار اور صابر کھڑے للچائی نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک دم سے محبوب اپنے چہرے پر مسکراہٹ لا کر اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے سائرہ نواب کے عقب سے ذرا بلند آواز میں بولا۔ ’’اوکے بائے… ٹیک کیئر…! پھر ملتے ہیں۔‘‘
سائرہ نواب نے رک کر گردن گھمائی اور گھور کر محبوب کی طرف دیکھا۔ اب گلزار اور صابر، سائرہ نواب کا گھورتا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ محبوب کا چہرہ کیونکہ ان کی طرف تھا اس لئے وہ مسکراتا ہوا ان کو دکھائی دے رہا تھا۔ محبوب نے بھی کمال ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے اپنی مسکراہٹ کو اور بھی جاندار بنا دیا تھا۔
’’چھوڑو، کیا گھور رہی ہو… چلتے ہیں۔‘‘ بلقیس نے سائرہ نواب سے کہا۔
’’جوکر…!‘‘ سائرہ نواب دانت پیس کر بولی اور چلنے کیلئے گھوم گئی۔
جونہی سائرہ نواب اور بلقیس کا رخ دوسری طرف ہوا، محبوب اسی قدر بلند آواز میں بولا۔ ’’ٹھیک ہے، میں کل انتظار کروں گا۔‘‘
محبوب یہ کہتے ہی پلٹا اور چل پڑا جبکہ سائرہ نواب اور بلقیس کے قدم رک گئے تھے۔ اس سے قبل کہ سائرہ نواب گھوم کر کچھ کہتی، بلقیس نے اسے پھر روک دیا اور وہ اس جگہ سے چلی گئیں جبکہ گلزار اور صابر حیرت کی مورتیاں بنے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ دونوں کے پیٹ میں یہ جاننے کی ہلچل مچی ہوئی تھی کہ سائرہ نواب نے ایسا کیا کہا ہے کہ وہ کل مل رہے ہیں۔
گلزار اور صابرنے بھاگ کر محبوب کا راستہ روک لیا۔ محبوب نے دونوں کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ایسی مسکراہٹ عیاں کی جیسے وہ اندر سے بہت خوش ہو۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ محبوب نے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔
’’کیا کہہ رہی تھی وہ سائرہ نواب…؟‘‘ صابر نے پوچھا۔
’’تم دونوں کیوں پریشان ہو؟ تم دونوں کے چہروں پر حیرت کیوں ٹپک رہی ہے؟ معاملہ کیا ہے…؟‘‘ جواب دینے کی بجائے محبوب نے سوال کردیا۔
اب دونوں اس بات کا کیا جواب دیتے کہ وہ کیوں پریشان ہیں اور وہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ دونوں اپنے دل کے اندر چھپی ہوئی سائرہ نواب کی چاہت کو عیاں نہیں کرسکتے تھے۔ صابر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا جواب دے اس لئے وہ دائیں بائیں آنکھیں گھمانے لگا تھا۔
گلزار کیونکہ اپنی کھوپڑی میں دماغ رکھتا تھا
لئے اس نے مسکرا کر کہا۔’’جس لڑکی کو پوری یونیورسٹی کے لڑکے اپنا بنانے کے چکر میں ہیں، اسے تم سے بات کرتے دیکھا تو میرے اندر تجسس ہوا کہ اس نے میرے دوست کو کیا کہا ہے۔ کہیں وہ میرے چاند سے دوست کو پسند تو نہیں کرتی؟‘‘
گلزار کی چکنی چپڑی بات سن کر محبوب پھسلا۔ ’’تمہارا اندازہ بالکل ٹھیک ہے۔ وہ مجھے پسند کرتی ہے۔ پوچھ رہی تھی کہ میں بائیک پر کیوں نہیں آرہا۔ میں نے کہہ دیا کہ میں نے نئی کار بک کروائی ہے۔ کل وہ میرے ساتھ چائے پی رہی ہے۔‘‘
محبوب کی بات سن کر صابر کے پیٹ میں عجیب سا غبار اٹھا اور اس کا دل چاہا کہ وہ محبوب کو اسی جگہ پیٹنا شروع کردے جبکہ گلزار ٹھنڈے دل سے مسکرایا۔
’’اب تو تیری طرف پارٹی بنتی ہے۔ وہ حسینہ تیرے ساتھ چائے پی رہی ہے۔‘‘
’’پارٹی بھی دے دوں گا، ابھی مجھے جانا ہے پھر بات کریں گے۔‘‘ محبوب نے دونوں کی طرف مسکراہٹ نچھاور کی اور چلا گیا۔
گلزار اور صابر اسی طرح کھڑے رہے۔ گلزار نے صابر سے پوچھا۔ ’’تم کیوں پوچھنے آئے تھے محبوب سے…؟ یہ اس کا معاملہ ہے، وہ جانے!‘‘
’’بے چین تو تم بھی ہو۔‘‘
’’میں کب بے چین ہوں… میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ آگیا تھا۔‘‘ گلزار بولا۔ جلا بھنا صابر اس جگہ سے گیا تو گلزار بھی دوسری طرف چل پڑا۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اس تشویش میں مبتلا تھے کہ اچانک سائرہ نواب، محبوب پر مہربان کیسے ہوگئی؟
٭…٭…٭
سائرہ نواب نے ایک ادا سے بلقیس کی طرف دیکھا اور رعونت سے بولی۔ ’’مجھے لگتا ہے جیسے پوری یونیورسٹی میں ایک میں ہی خوبصورت لڑکی ہوں، ہر ایک کی نظر مجھ پر ہے۔‘‘
’’تم جیسی دوسری کوئی نہیں ہے۔‘‘ بلقیس ہنسی۔
’’یہ تو ہے۔‘‘
’’اچھا! ایک بات بتائو، پوری یونیورسٹی میں وہ تین لڑکے تم پر سب سے زیادہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تمہارا ان تینوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ بلقیس نے پوچھا۔
سائرہ نواب مسکرائی۔ ’’سچ بات کروں…؟‘‘
’’مجھ سے سچ بات نہیں کرو گی تو پھر کس سے کروگی!‘‘ بلقیس نے اس کی طرف دیکھا۔
کچھ توقف کے بعد سائرہ نواب نے کہا۔ ’’وہ تینوں ایک دوسرے سے مختلف اور الگ عادات کے مالک ہیں۔ تینوں دوست ہیں لیکن تینوں کے مزاج ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر زندگی کے کسی موڑ پر مجھے ان تینوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو میں کس کا انتخاب کروں گی؟‘‘
بلقیس کو حیرت ہوئی۔ ’’کیا تم ایسا سوچتی ہو…؟ مجھے حیرت ہے۔‘‘
’’میں کچھ ظاہر کروں یا نہ کروں لیکن دیکھتی اور سوچتی سب کچھ ہوں۔‘‘ سائرہ نواب مسکرائی۔
’’مجھے بتائو کیا کیا سوچتی ہو؟اگر ان تینوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو پھر کس کا انتخاب کرو گی؟‘‘ بلقیس نے دلچسپی سے دریافت کیا۔
’’خدا نہ کرے کہ ایسا وقت آئے۔ اگر ایسا وقت آجائے تو پھر مجھے بہت سوچنا پڑے گا۔ ایک لاپروا ہے، دوسرا شاید مجھے متاثر کرنے کے چکر میں اپنی بائیک کی قربانی دے چکا ہے۔ تیسرا کپڑوں کی کریز نہیں ٹوٹنے دیتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ گزارا کرسکوں گی۔‘‘
’’پھر ان کے بارے میں سوچتی کیوں ہو؟‘‘
’’بس ایویں…!‘‘ سائرہ نواب کہہ کر لاپروائی سے ہنسی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن جب محبوب اپنی سائیکل گلزار کے گھر میں کھڑی کرنے کیلئے آیا تو گلزار اس کا بازو پکڑ کر ایک طرف لے گیا۔
’’اب تم سائیکل کھڑی نہیں کرسکتے، ابا ناراض ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روز سائیکل کھڑی کرکے چلا جاتا ہے۔ یہ سائیکل اسٹینڈ ہے؟ تم تو جانتے ہی ہو کہ میرے ابا ذرا غصے کے تیز اور اصول کے پابند ہیں۔‘‘
’’اب میں کیا کروں؟‘‘ محبوب تو یہ سوچ کے ہی پریشان ہوگیا کہ اب اسے سائیکل سمیت یونیورسٹی جانا پڑے گا۔ سائرہ نواب دیکھے گی تو کیا سوچے گی۔ ابھی کل ہی تو اس نے کار کا بتایا ہے۔ کار کی بجائے سائیکل پر دیکھ کر تو وہ اس کے سامنے تماشا بن جائے گا۔ گلزار یہی تو چاہتا تھا اس نے کل ہی سوچ لیا تھا کہ محبوب نے کار کا بتایا ہے، وہ اب سائرہ نواب کو دکھائے گا کہ اس کے پاس کار تو دور کی بات، سائیکل ہے۔
’’اب مجبوری ہے، میں کیا کرسکتا ہوں۔ جتنا تمہارا ساتھ دے سکتا تھا، وہ میں نے دے دیا ہے۔ تم کوئی اور بندوبست کرلو۔‘‘ گلزار نے معصوم سی صورت بنائی۔
’’گلزار! تم جانتے ہو کہ سائرہ نواب مجھ پر مر رہی ہے۔‘‘ محبوب نے بات کو ذرا بلکہ کچھ زیادہ ہی بڑھا دیا۔ ’’وہ مجھے سائیکل پر دیکھے گی تو کیا سوچے گی۔‘‘
’’میرے دوست! یہی تو موقع ہے اس کی محبت آزمانے کا! جب تم کو وہ سائیکل پر دیکھے گی تو سوچے گی کہ کار پر آنے والا بندہ سائیکل پر آرہا ہے، وہ تم سے سوال کرے گی۔ تم کہہ دینا سائیکل پر اس لئے آیا ہوں کہ اگر کار نہ رہے تو سائیکل چلانا میرے لئے مشکل تو نہیں ہوگا۔ اگر اسے سچی محبت ہوئی تو وہ تم پر اور بھی مرے گی۔‘‘ گلزار نے اسے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی۔
محبوب چونکہ خود کم سوچتا تھا اور دوسرے کی کہی ہوئی بات کو فوری اہمیت دے دیتا تھا کہ جو اسے مشورہ دے رہا ہے، وہ اس کے بھلے کی بات کررہا ہے۔ چنانچہ وہ ایک دم تیار ہوگیا۔
’’بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔‘‘
’’مجھے پورا یقین ہے کہ وہ تم سے سچی محبت کرتی ہے اور وہ تم کو اس سادگی میں دیکھ کر تمہارے اور بھی قریب آجائے گی۔‘‘ گلزار نے کہا۔
’’ہاں… ہاں، یہی بات صحیح ہے۔‘‘ محبوب کے اندر جوش آگیا۔
’’تم ابھی سائیکل پر سوار ہوکر یونیورسٹی جائو، دیکھنا سائرہ نواب کی آنکھوں میں تمہارے لئے کیسی محبت جاگتی ہے۔‘‘ گلزار اسے سائرہ نواب کے سامنے گڑھے میں گرانے کا پورا انتظام کررہا تھا۔
محبوب اسی وقت سائیکل پر سوار ہوا اور یونیورسٹی کی طرف چلا گیا۔ جس وقت محبوب یونیورسٹی کے گیٹ میں داخل ہورہا تھا، اس وقت سائرہ نواب اپنی کار میں سے بلقیس کے ساتھ باہر نکل رہی تھی۔ دونوں کی ایک ساتھ محبوب پر نگاہ پڑی تو وہ متحیر دیکھتی ہی رہ گئیں۔ دونوں کے ذہنوں میں جو سب سے پہلا سوال آیا، وہ یہی تھا۔ ’’یہ تو کہہ رہ تھا کہ اس نے کار بک کرائی ہے، یہ سائیکل کو کار کہتا ہے؟‘‘
دونوں حیرت سے سوچتی ہوئی یونیورسٹی میں چلی گئیں۔ سائرہ نواب کے ہاتھ بات آگئی تھی۔ وہ مضطرب تھی کہ اب جیسے ہی اسے موقع ملے، وہ اس سے سوال کرکے رہے کہ تم تو کہتے تھے کہ کار بک کرائی ہے، پھر یہ کیا ہے؟
محبوب اپنے دونوں دوستوں گلزار اور صابر کے ساتھ کلاس روم سے باہر نکل رہا تھا تو اس کا سامنا سائرہ نواب سے ہوگیا جو بلقیس کے ساتھ جارہی تھی۔
’’ہیلو…!‘‘ سائرہ نواب نے مسکرا کر محبوب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ گلزار کو معلوم تھا کہ اب کوئی بم پھٹے گا البتہ صابر کے دل میں ہلچل سی برپا ہوگئی تھی۔ سائرہ نواب کے ہیلو کہنے پر اس کو آگ سی لگ گئی تھی۔
’’ہائے کیسی ہیں آپ…؟‘‘ محبوب اس کی طرف بڑھا۔ اس کے لہجے سے بے تکلفی عیاں تھی۔
’’میں تو بالکل ٹھیک ہوں، آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ سائرہ نواب معنی خیز لہجے میں بولی۔ محبوب اس لہجے کو سمجھ نہیں سکا۔ اس کے چہرے پر خوشی اور بھی گہری ہوگئی۔ اس کی دانست میں سائرہ نواب واقعی اس کی طبیعت کے بارے میں دریافت کررہی تھی۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہم کہیں اور چلیں…؟ میرا مطلب ہے کہ اس شور سے ہٹ کر کسی الگ سی جگہ پر جا کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ محبوب اور بھی سائرہ نواب کے پاس چلا گیا جبکہ گلزار اور صابر پیچھے ہی کھڑے رہے۔ گلزار اس انتظار میں تھا کہ اب کوئی دھماکا ہو اور سائرہ نواب اس سائیکل کے حوالے سے کوئی سوال کرے تاکہ محبوب کے دل میں جھاگ کی طرح دکھائی دینے والا ابہام ایک دم سے معدوم ہوجائے اور اسے پتا چل سکے کہ سائرہ نواب کے دل میں کیا ہے۔ اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں سائرہ
نواب کو اس کے سائیکل پر آنے کی ادا پسند نہ آجائے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سائرہ نواب کا جیسا مزاج ہے، وہ ایسی بات کر نہیں سکتی۔
صابر کی حالت بالکل ایسی تھی جیسے کوئی طویل قطار میں کھڑا اپنی باری کا منتظر ہو۔ اسے یہ بے چینی کھا رہی تھی کہ سائرہ نواب نے محبوب کو ’’ہیلو‘‘ کیوں کہا…؟ وہ اسے ہی مخاطب کیوں کررہی ہے؟ وہ بھی تو خوبصورت اور جاذب نظر تھا۔
سائرہ نواب نے محبوب کی بات سن کر گلزار اور صابر کی طرف دیکھا۔ سائرہ نواب کا مزاج عام لڑکیوں جیسا نہیں تھا۔ وہ معمولی ادھار بھی اپنے سر نہیں رکھتی تھی جبکہ محبوب نے اسے کار بک کرانے کا جھوٹ بولا تھا اور آج سائیکل پر یونیورسٹی آیا تھا۔
وہ مسکرائی۔ ’’مجھے ذرا جلدی ہے پھر بیٹھیں گے۔ ہاں! آپ کہہ رہےتھے کہ آپ نے کار بک کرائی ہے اور آج آپ کی تشریف سائیکل پر ہوئی ہے۔ کیا آپ سائیکل کو کار کہتے ہیں؟‘‘
سائرہ نواب کا سوال سن کر گلزار تو منہ دبا کر مسکرایا اور صابر کو حیرت ہوئی کہ اس نے کب سائرہ نواب کو کہہ دیا کہ اس نے کار بک کرائی ہے اور اب وہ یونیورسٹی کار پر آیا جایا کرے گا۔
محبوب بولا۔ ’’دراصل میرا دل بہت الگ اور نرم ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر کل کو حالات تبدیل ہوجاتے ہیں اور میرے پاس کار نہیں رہتی تو سائیکل پر آنا جانا کیسا رہے گا؟ یہ سوچ کر آج میں نے سائیکل نکال لی۔‘‘
’’اوہ…! تو یہ بات ہے؟‘‘ سائرہ نواب نے طویل سی ’’اوہ!‘‘ کے بعد کہا۔
محبوب مسکرایا۔ ’’جی…! یہ بات ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ اس برے وقت کے بارے میں بہت پہلے سوچنے کے عادی ہیں جو ابھی آیا بھی نہیں ہے…؟ آپ تو بہت منفی سوچتے ہیں۔ انسان کو تو اپنے بارے میں ہر وقت اچھا ہی سوچنا چاہئے۔ آپ کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ایسی باتیں سوچ کر گھر سے پیدل ہی نکل پڑیں کہ کل کو اگر سائیکل بھی نہ رہے تو ٹانگوں سے کام چل سکتا ہے کہ نہیں…! میرے ڈیڈی کے ایک دوست ماہر نفسیات ہیں، میں کل آپ کو ان کا فون نمبر لا کر دوں گی۔‘‘ سائرہ نواب کہہ کر ہاتھ کے اشارے سے ’’بائے‘‘ کہتی ہوئی بلقیس کے ساتھ چل دی۔
گلزار تو یہی چاہتا تھا۔ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔ صابر کو بھی پہلی بار تسلی سی ہوئی اور محبوب کا چہرہ یوں حیرت زدہ تھا جیسے ابھی ایک منٹ قبل اس کی ٹرین نکل گئی ہو اور اس کا سامان ٹرین میں اور وہ خود باہر رہ گیا ہو۔
محبوب ایک دم گلزار کی طرف پلٹا اور ابھی اس نے شہادت کی انگلی اس کی طرف کرکے اتنا ہی کہا تھا کہ ’’تم…!‘‘
لیکن اس کے بعد اس کے حلق سے کوئی لفظ نہیں نکلا کیونکہ گلزار اس جگہ سے ایسے غائب تھا جیسے اس نے غائب ہونے کا علم بالکل تازہ سیکھا ہو اور یہی مناسب موقع تھا کہ وہ اپنے علم کو آزما سکے۔
’’یہ کہاں گیا…؟‘‘
’’ایک دم چلا گیا۔‘‘ صابر بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ اس کی کلاس شروع ہونے والی تھی۔‘‘
’’میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ محبوب کو غصہ آرہا تھا کہ اس نے گلزار کی بات پر عمل ہی کیوں کیا۔
’’گلزار نے کیا کیا ہے، تم اسے زندہ کیوں نہیں چھوڑو گے…؟ بات کیا ہے، مجھے بتائو۔‘‘ صابر کیلئے بات جاننے کا بہترین موقع تھا، اس لئے وہ ہمدردی کے وہ پھول لے کر اس کی طرف بڑھا جو دراصل نقلی تھے۔
پیٹ کا ہلکا محبوب بول پڑا اور سب کچھ اس نے صابر کے گوش گزار کردیا۔ صابر اطمینان اور غور سے سنتا رہا پھر تاسف بھرے لہجے میں بولا۔’’یہ اس نے ٹھیک نہیں کیا… تم نے اس کی بات پر عمل کرکے اور بھی برا کیا ہے۔ سائرہ نواب جیسی لڑکی سائیکل سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔ اب میرا مشورہ ہے کہ تم سائرہ نواب کو نظرانداز کردو، اس کی طرف دیکھو بھی نہیں، اس کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔ تم اپنے خاندان میں کوئی لڑکی دیکھو اور پہلی فرصت میں اس سے منگنی کرکے اس کے لڈو سائرہ نواب کو کھلائو اور اسے بتا دو کہ تم کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔‘‘
صابر نے پوری کوشش کی کہ محبوب، سائرہ نواب کے خیال سے بالکل ہی سبکدوش ہوجائے۔ اس طرح کم ازکم وہ اس کے راستے سے ہٹ جائے گا اور پھر وہ اپنی کوشش کرے گا۔
محبوب اس کی بات سن کر سوچنے لگا کہ صابر جو کہہ رہا ہے، وہ صحیح ہے کیا؟ اسے سائرہ نواب کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے…؟ سوچتے سوچتے جونہی اس نے گھوم کر صابر کی طرف دیکھا، وہ دیکھتا ہی رہ گیا کیونکہ جس جگہ صابر کھڑا اسے تلقین کررہا تھا، وہ جگہ خالی تھی اور صابر غائب تھا۔ محبوب کی متلاشی نگاہیں دور تک گئیں لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔
٭…٭…٭
صابر کو تو موقع مل گیا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا سائرہ نواب کی تلاش میں نکل گیا۔ وہ یونیورسٹی کے فٹ بال گرائونڈ میں ایک طرف اکیلی بیٹھی تھی۔ صابر نے دائیں بائیں دیکھا کہ گلزار کہیں قریب تو نہیں ہے، اب یہ الگ بات تھی کہ صابر کو گلزار دکھائی نہیں دیا ورنہ وہ ایک طرف بیٹھا اس تاک میں تھا کہ وہ سائرہ نواب کے قریب جاکر کوئی بات شروع کرے اور اپنے دل کی بات پر بات کو اختتام دے کر اپنی محبت کا اظہار کردے۔ وہ سوچتا رہ گیا اور صابر اس جگہ آگیا۔ گلزار کے ساتھ کچھ لڑکے بیٹھے تھے، وہ ان لڑکوں کے پیچھے ہو گیا۔ فٹ بال گرائونڈ میں میچ ہورہا تھا۔
صابر نے اپنے اندر ہمت جمع کی اور سائرہ نواب کے پاس چلا گیا۔ گلزار کی نگاہیں مسلسل اس کے تعاقب میں تھیں۔
’’ایکسکیوزمی…!‘‘ صابر نے پاس جاکر شائستہ لہجے میں کہا۔ سائرہ نواب نے اس کی آواز سن کر صابر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو صابر مسکرا کر بولا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں بیٹھ جائوں؟‘‘
’’یہ بلقیس کی سیٹ ہے اور وہ کینٹین تک گئی ہے۔‘‘ سائرہ نواب نے خشک لہجے میں کہا۔
’’کوئی بات نہیں جونہی وہ آئیں گی، میں کرسی چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’کرسی چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘
’’آپ بے فکر رہیں میرے لئے ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ صابر کہتا ہوا اس جگہ بیٹھ گیا اور بولتا رہا۔ ’’میں نے تو ابھی چار دن پہلے ایک امیر ترین گھرانے کا رشتہ ٹھکرا دیا ہے۔ بہت پیسے والے لوگ تھے۔ اس لڑکی سے شادی کرکے میں اپنی ساری زندگی عیش و آرام سے گزار سکتا تھا لیکن میں نے صاف انکار کردیا۔ جانتی ہیں کیوں…؟‘‘
’’مجھے کیا پتا!‘‘ سائرہ نواب نے منہ بنایا۔
’’کیونکہ میرا اپنا خیال ہے انسان کو شادی اسی سے کرنی چاہئے جس سے وہ محبت کرتا ہو۔‘‘ صابر نے کہہ کر اپنی نگاہیں سائرہ نواب کے چہرے پر مرکوز کردیں۔
’’آپ کا مطلب ہے کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ محبت نہ کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زندگی بھر شادی نہ کرے؟‘‘ سائرہ نواب نے کہا۔
’’محبت ایک ایسا پھول ہے جو کسی نہ کسی کے دل میں کھل ہی جاتا ہے، جیسے آپ نے مجھے دیکھا اور میں نے آپ کو دیکھا۔ میرے دل میں ابھی پھول نہیں کھلا اور آپ کے دل میں پھول کھل گیا تو آپ کو چاہئے کہ آپ فوراً مجھ سے اظہار محبت کردیں تاکہ میرے دل کی زمین پر بھی محبت کا پھول اپنی خوشبو بکھیرتا ہوا کھل جائے اور ہماری محبت ایسے مل جائے جیسے صاف شفاف نہروں کا پانی کسی موڑ پر ایک دوسرے سے مل جاتا ہے۔‘‘ صابر رومان بھرے انداز میں بولا۔
سائرہ نواب نے اس کی طرف برا سا منہ بنا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو جب بھی کسی کو دیکھتی ہوں، میرے دل میں کانٹے اگ آتے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ابھی تک آپ نے اپنے دل کی آواز نہیں سنی!‘‘صابر جلدی سے بولا۔
اسی وقت بلقیس آگئی۔ اس کے ہاتھ میں جوس کے دو ڈبے تھے۔ اس نے آتے ہی کہا۔ ’’میری سیٹ چھوڑ دیں پلیز…!‘‘
صابر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بادل نخواستہ اٹھنے سے قبل سائرہ نواب سے بولا۔ ’’اگر آپ مجھے موقع دیں تو میں آپ کو محبت کے اس پھول کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا
ہوں۔‘‘
سائرہ نواب نے جلدی سے بلقیس کے ہاتھ سے اپنا جوس کا ڈبہ لیا اور غیر محسوس انداز میں صابر کے چہرے کے قریب کرکے ڈبہ دبا دیا۔ اندر سے جوس نکلا اور سیدھا صابر کے چہرے پر جا پڑا۔ سائرہ نواب بے نیازی سے جوس پینے لگی اور صابر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ بلقیس اس جگہ پر بیٹھ گئی۔ صابر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بلقیس کے ہاتھ میں پکڑا جوس کا ڈبہ لے کر اپنے دونوں ہاتھوں سے ایسے دبائے کہ سارا جوس بلقیس کے چہرے پر جا پڑے جو غلط موقع پر آئی تھی۔
جونہی صابر کا چہرہ گھوما، گلزار کی نظروں نے دیکھ لیا کہ صابر کے چہرے پر جوس پڑا ہوا ہے۔ وہ ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور فوراً صابر کے پاس پہنچ گیا۔
’’یہ کیا ہوا…! تمہارے چہرے پر جوس کس نے پھینکا ہے؟‘‘
’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
’’تم پر جوس کس نے پھینکا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ سائرہ نواب نے ایسا کیا ہے۔ تم نے کیا بات کہہ دی تھی اسے کہ اس نے ایسا کردیا؟‘‘ گلزار اس کی بات کو نظرانداز کرکے بولا۔
’’پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے؟‘‘ صابر کے منہ سے غصے سے نکلا اور وہ رومال نکال کر چہرہ صاف کرنے لگا۔ پھر ایک دم سے وہ چونکا اور اپنی کہی ہوئی بات میں ردوبدل کی کوشش کرنے لگا۔ ’’میرا مطلب تھا کہ کیا سمجھتی تھی… میں نے ایک بات کی اور اس نے اپنے دل کی بات مجھ سے کرلی… ان مسکراہٹوں میں اس نے خوشی سے تھوڑا سا جوس میرے چہرے پر ڈال دیا۔ یہ محبت کی باتیں ہیں۔‘‘ صابر نے کہہ کر ایک دلفریب سی مسکراہٹ عیاں کی اور اتراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
گلزار سمجھ گیا تھا کہ سائرہ نواب نے اسے بھی اپنی لسٹ سے نکال دیا ہے۔ گلزار یہی تو چاہتا تھا کہ وہ دونوں اپنی اپنی کوشش کرکے ایک بار ناکامی کا منہ دیکھ لیں تو پھر وہ بھرپور انداز میں سائرہ نواب کی طرف اپنی محبت کا جال پھینکے۔ اب اس کے سامنے راستہ صاف تھا۔ وہ دونوں اپنی اپنی باری کھیل چکے تھے اور اب گلزار کی باری تھی۔ گلزار اس جگہ سے چلا گیا۔ وہ اپنی قسمت آزمانے کیلئے تو تیار تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ محبوب اور صابر زخم خوردہ تھے لہٰذا اور بھی شدت سے سائرہ نواب کو متاثر کرنے کیلئے مضطرب تھے۔
٭…٭…٭
گلزار نے اس دن سوٹ پہنا اور ٹائی باندھی۔ اپنا آئینے میں جائزہ لیا۔ خوبصورت تو وہ تھا لیکن اس لباس کو زیب تن کرنے کے بعد وہ اور بھی پرکشش ہوگیا تھا۔ وہ ہمیشہ اچھے لباس میں پڑھنے جایا کرتا تھا لیکن ایسا لباس اس نے پہلی بار پہنا تھا۔
اپنا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد وہ یونیورسٹی کی طرف چل پڑا۔ وہ سارے راستے یہی دعا کرتا رہا کہ جونہی وہ یونیورسٹی کے گیٹ تک پہنچے، عین اس وقت سائرہ نواب کی کار آجائے۔ کار سے اترتے ہی سائرہ نواب کی پہلی نظر اس پر پڑے اور وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوجائے۔
یہی دعا کرتا ہوا جب وہ یونیورسٹی کے گیٹ کے پاس پہنچا تو اس کی چال آہستہ ہوگئی تھی۔ اس نے غیر محسوس انداز میں اپنی متلاشی نگاہیں دائیں بائیں گھما کر دیکھا۔ سائرہ نواب کی کار کس وقت گیٹ کے پاس پہنچتی تھی، اس نے اس کا وقت مسلسل چار پانچ دن نگرانی رکھنے کے بعد نوٹ کیا تھا۔
سائرہ نواب کے آنے کا وقت ہوچکا تھا لیکن کار کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ گلزار نے اپنی چال اور بھی دھیمی کرلی تھی۔ ایسی چال جیسے وہ بیمار اور نقاہت میں ہو پھر اس نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا۔ سائرہ نواب جس وقت آتی تھی، اس سے دس منٹ زیادہ ہوگئے تھے۔ اس نے سوچا کہیں سائرہ نواب اس سے پہلے تو نہیں آگئی۔
یہ سوچتے ہوئے انتہائی سست چال چلتا ہوا گلزار گیٹ کی طرف جارہا تھا اور اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ محبوب جو آج بس پر یونیورسٹی آیا تھا، اس نے گلزار کی ایسی دھیمی اور نپی تلی چال دیکھی تو متحیر سا اسے دیکھتا رہ گیا۔ عین اس وقت صابر بھی آگیا۔ اس کی نظر بھی سب سے پہلے گلزار پر پڑی اور وہ بھی دم بخود سا اسے دیکھتے ہوئے قدم بڑھانے لگا۔
گلزار نے ایک بار پھر گھڑی میں وقت دیکھا۔ وقت زیادہ ہوچکا تھا۔ اس نے تیز تیز قدم بڑھانے شروع کردیئے۔ اس کی دانست میں تھا کہ سائرہ نواب اندر چلی گئی ہے۔ گلزار نے تیز قدم بڑھائے تو محبوب اور صابر کی چال بھی تیز ہوگئی۔
یونیورسٹی میں داخل ہوکر گلزار کا رخ اس کمرے کی طرف تھا جہاں سائرہ نواب اپنا پہلا پیریڈ پڑھتی تھی۔ اس نے اس کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اندر نظر ڈالی۔ ابھی پیریڈ شروع نہیں ہوا تھا۔ وہ اندر چلا گیا۔ اندر سائرہ نواب نہیں تھی۔ وہ کمرے سے نکل کر کچھ فاصلے پر ستون کے پاس کھڑا ہوگیا۔ اس کی نگاہیں کمرے کے دروازے کی طرف تھیں۔ اس سے کچھ فاصلے پر محبوب اور صابر بھی کھڑے تھے جو غیر ارادی طور پر ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی ایک طرف سے بلقیس آتی دکھائی دی۔ اس کے ساتھ سائرہ نواب نہیں تھی۔ گلزار نے حیرت سے بلقیس کی طرف دیکھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بلقیس اکیلی یونیورسٹی آئی ہو۔ دونوں کی دوستی ایسی ہی تھی۔ بلقیس کی نظر گلزار پر پڑی تو اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ عیاں ہوگئی۔
جونہی وہ کلاس روم میں جانے لگی تو گلزار تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور شائستہ لہجے میں بولا۔ ’’ایکسکیوز می…! مجھے پوچھنا تھا کہ یہاں پروفیسر عنایت صاحب پیریڈ لیں گے؟‘‘
’’جی نہیں…!‘‘
’’شکریہ…! مجھے بس یہی پوچھنا تھا۔ دراصل مجھے ان سے ملنا تھا۔ ایک ضروری کام تھا لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کہاں ملیں گے۔‘‘
’’آپ ان کے آفس چلے جائیں۔‘‘ بلقیس بولی۔
’’ہاں… یہ ٹھیک ہے۔ مجھے ان کے آفس چلے جانا چاہئے۔‘‘ گلزار سوچ رہا تھا کہ وہ اب بلقیس سے یہ کیسے پوچھے کہ آج سائرہ نواب دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
’’چلیں میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ بلقیس نے کہا تو گلزار کچھ تذبذب کا شکار ہوگیا۔ اس نے تو ایسے ہی بات چھیڑی تھی۔
’’میں چلا جاتا ہوں، کوئی بات نہیں۔‘‘
’’مجھے بھی ان سے نوٹس لینے ہیں۔‘‘ بلقیس چلنے کو تیار تھی۔ طوعاً کرہاً گلزار چلنے پر رضامند ہوگیا۔ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے محبوب اور صابر کی نگاہیں ان پر ہی مرکوز تھیں۔ محبوب کے منہ سے نکلا۔’’اچھا، تو یہ بلقیس کے چکر میں تھا؟ میں سمجھا یہ سائرہ نواب کے لئے بھاگ دوڑ کررہا ہے۔‘‘
محبوب کی بات سن کر صابر نے ایک نظر محبوب کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اگر یہ سائرہ نواب کے چکر میں ہوتا تو تجھے کیا پرابلم ہوتی…؟‘‘
’’سائرہ نواب مجھے بہت پسند کرتی ہے اور ہم ایک ساتھ چائے بھی پی چکے ہیں۔ کل لنچ بھی ہم ایک ساتھ کرنے والے ہیں۔‘‘ محبوب نے موقع ملتے ہی گپ چھوڑی۔
’’اس نے تو مجھے کہا تھا کہ جو سائیکل پر آتا جاتا ہے، وہ کسی کو کسی ہوٹل میں کھانا کھلانے کیا خاک لے جائے گا۔‘‘ صابر بھی جلدی سے بولا۔
’’ایسا کہا تھا اس نے…؟‘‘ محبوب کو آگ لگ گئی۔
’’پوچھنے نہ چلے جانا کہیں! وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا جوس تمہارے منہ پر نہ گرا دے۔‘‘ صابر روانی میں کہہ کر ایک دم چپ ہوگیا۔ محبوب اسی جگہ پیچ و تاب کھاتا رہ گیا جبکہ گلزار اور بلقیس ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے۔
پروفیسر عنایت کے کمرے کے پاس پہنچ کر گلزار نے اچانک ہی سوال کردیا۔ ’’آج آپ کی سہیلی آپ کے ساتھ دکھائی نہیں دے رہی ہے؟‘‘
’’وہ اب نظر نہیں آئےگی۔‘‘ بلقیس بولی۔
گلزار نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’وہ کیوں… کیا ہوا اسے…؟‘‘
’’آپ پریشان کیوں ہوگئے ہیں؟‘‘
’’آپ نے ایک دم بتایا کہ اب وہ نظر نہیں آئیں گی تو مجھے حیرت ہوئی۔ کیا آپ مذاق کررہی ہیں کہ واقعی کوئی بات ہے؟‘‘ گلزار جاننے کیلئے مضطرب ہوگیا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنے لب و لہجے سے اپنے اندر کی بے چینی کو
ہونے دیا تھا۔
’’دراصل سائرہ نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے۔‘‘
’’کیوں چھوڑ دی ہے؟ کیا وجہ ہوئی؟‘‘ گلزار کی بے چینی دوچند ہوگئی تھی۔
’’آپ شاید جانتے ہیں کہ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی لڑکی ہے۔ وہ اپنی مرضی کرتی ہے اور جو اس کے دل میں آتا ہے، وہ فیصلہ کرلیتی ہے۔ اس کے گھر والوں کی طرف سے بھی اس پر کوئی دبائو نہیں ہوتا۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر دبئی جارہی ہے۔‘‘ بلقیس نے وضاحت کی۔
’’اچانک پڑھائی چھوڑ کے جارہی ہے؟‘‘
’’یہ سب اچانک نہیں ہوا، کئی ہفتوں سے وہ تیاری میں تھی۔ اس کے پپا کا دبئی میں بزنس ہے۔ جس لڑکے کو وہ پسند کرتی ہے، وہ بھی دبئی میں ہے اس لئے وہ آج شام کی فلائٹ سے دبئی جارہی ہے۔‘‘
’’وہ کسی لڑکے کو بھی پسند کرتی ہے؟‘‘ گلزار کیلئےیہ بات تو ایسی ناقابل برداشت تھی کہ اگر اسے اسی وقت پتا چل جاتا کہ وہ کس لڑکے کو پسند کرتی ہے تو شاید وہ اس کا ٹینٹوا دبا کر ہی دم لیتا۔
’’وہ اپنے کزن کو پسند کرتی ہے جو دبئی میں اس کے پپا کے آفس میں کام کرتا ہے۔ سائرہ دبئی میں رہے گی اور پھر وہ دونوں شادی کرلیں گے۔‘‘ بلقیس نے بتایا تو گلزار کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ وہ متحیر نگاہوں سے بلقیس کو ہی دیکھے جارہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ابھی بھاگتا ہوا سائرہ نواب کے گھر چلا جائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روک لے لیکن وہ جس لڑکے کو پسند کرتی تھی، وہ دبئی میں رہتا تھا، اس کا کزن تھا اور اس کے پپا کے آفس میں کام کرتا تھا۔ گلزار نے اسی وقت اپنا جائزہ لیا تو اس کی سمجھ میں آیا وہ تو ابھی کوئی کام ہی نہیں کرتا۔
گلزار مایوس اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ جانے کیلئے گھوما تو عقب سے بلقیس نے کہا۔ ’’آپ جارہے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’پروفیسر صاحب سے نہیں ملنا؟‘‘
’’نہیں…!‘‘
’’کہیں آپ بھی تو سائرہ کو پسند نہیں کرتے تھے؟‘‘ بلقیس نے سوال کیا تو گلزار اسی وقت رک گیا۔ ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کی تیزی سے آیا۔ اس نے سوچا سائرہ نواب کے پیچھے محبوب اور صابر بھی تھے۔ جب ان کو پتا چلے گا کہ سائرہ نواب دبئی چلی گئی ہے تو وہ دونوں بلقیس کے پیچھے ہوجائیں گے۔
گلزار نے گھوم کر بلقیس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی خوبصورت تھی، اس کا چہرہ بھی گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔ سائرہ نواب کی موجودگی میں گلزار نے کبھی غور سے بلقیس کی طرف دیکھا ہی نہیں تھا۔ ا ب بھی یہ بات اپنی جگہ بھاری پتھر کی طرح قائم تھی کہ سائرہ نواب کا حسن بہرحال اس سے کہیں زیادہ پرکشش تھا۔تاہم اب جبکہ سائرہ نواب نے فیصلہ کرلیا تھا اور وہ دبئی جارہی تھی تو اس صورتحال میں بلقیس کو محبوب اور صابر کیلئے چھوڑنا بے وقوفی تھی۔ اس لئے وہ بولا۔’’میں تو ایسے ہی سائرہ نواب کا پوچھ رہا تھا ورنہ تو میں نے جب جب آپ کو دیکھا، میرا دل تب تب دھڑکا!‘‘ (جاری ہے)