وہ بھی دن تھے جب میں خوشیوں کے باغ میں کسی رنگین تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی، دنیا کس قدر حسین نظرآتی تھی، سوچابھی نہ تھا کہ کبھی کانٹوںکے بستر پر زندگی کی گھڑیاں گنتے ہوئے وقت گزاروں گی۔ ہمارا گھرانہ چھ افراد پر مشتمل تھا۔ بڑے بھائی الیکٹریشن تھے اور انہیں بیرون ملک جانے کا شوق تھا، جبکہ ان سے چھوٹے بھائی کی کڑھائی کی دکان تھی، میں تیسرے نمبر پر تھی اور مجھ سے چھوٹا بھائی ابھی تعلیم حاصل کر رہاتھا۔ والد صاحب نوکری پیشہ تھے اور گھریلو ذمہ داریاں ان پر ہونے کی وجہ سے وہ اولاد کو بہت کم وقت دے پاتے تھے۔ والدہ تعلیم یافتہ نہ تھیں، ہمہ وقت گھریلو امور میں مصروف رہتیں، وہ مجھ پر بالکل توجہ نہ دیتی تھیں۔ میری کوئی بہن نہ تھی، اس وجہ سے احساس محرومی کی لپیٹ میں آگئی۔ لڑکوں کے بیچ پلی بڑھی۔ بھائیوں کو دیکھ دیکھ کر میری چال ڈھال بھی لڑکوں جیسی ہوگئی۔ بلند آواز میں بات کرنا، چھلانگیں لگانا، جو چیز راستے میں پڑی ہو اس کو ٹھوکر مار دینا، کھلونے توڑنا اور برتن ہوا میں اچھال دینا، مردانہ چال چلنا حتیٰ کہ کپڑے بھی لڑکوں جیسے پہننا، دوستی بھی لڑکوں سے تھی، لڑکیاں تو مجھ سے بات کرتے گھبراتیں، جب ذرا سمجھدار ہوئی والدہ نے گھر سے باہر نکلنے اور گلیوں میں پھرنے پر پابندی لگادی۔ بس یہیں سے ذہنی کشمکش اور احساس محرومی کی ابتدا ہوئی کہ بھائیوں پر کوئی روک ٹوک نہ تھی، مگر میں والدین کی نظروں میں ایسا قیمتی ہیرا تھی جس کوکوئی چرا کر لے جانے والا تھا۔ میری عمر دس بارہ برس تھی، سماج میں مرد و زن کے مرتبے میں تفریق کابالکل ادراک نہ تھا۔ اسی سبب میرے طور اطوار پر والدہ کو بار بار ٹوکناپڑتا تھا، یہ بات مجھ کو سخت ناپسند تھی، تبھی ماں سے برگشتہ رہنے لگی۔ بھائی صبح کام پر نکل جاتے، بات کرنے والا کوئی نہ ہوتا، اب میں تنہائی کی وجہ سے بہن کی کمی شدت سے محسوس کرنے لگی۔ کبھی کسی لڑکی کو سہیلی نہیں بنایا، اسکول میں بھی لڑکیوں سے دوستی نہ ہوسکی۔ اکثر لڑکیاں میری چال ڈھال دیکھ کر مذاقاً ماہی منڈا کہا کرتی تھیں، جبکہ مجھ کو اس لفظ سے چڑ تھی۔ شروع سے مجھے زیادہ جیب خرچ ملتا تھا۔ ابو دیتے اور امی سے الگ لے لیتی۔ پھر ہاتھ کھلا تھا، اس عادت کی وجہ سے کلاس فیلوز میرے پاس آجاتیں، انہیں کھلاتی پلاتی، ان کو پیسوں اور چیزوں سے چاہت تھی، مطلب پورا ہوتے ہی کنارہ کرلیتی تھیں۔ ان دنوں میں زمانے کے چلن کو نہیں سمجھ پائی تھی، مجھے کسی ایسی مخلص دوست کی چاہت تھی جو بہن جیسا پیار اور اپنائیت دے۔ آٹھویں جماعت تک میں تنہائی کا دکھ سہتی رہی۔ نویں کلاس میں ایک لڑکی صائمہ سے دوستی ہوگئی۔ وہ اکثر مجھ سے کہتی… ثمینہ تم اپنا طرز زندگی یعنی طور طریقے، چال ڈھال بدلو۔ تمہاری لڑکوں والی چھب کے باعث لڑکیاں تم سے دور رہتی ہیں۔ انہیں تم مخالف لگتی ہو۔ لڑکی کوئی بھی روپ اختیار کرلے لڑکی ہی رہتی ہے، میں خود بھی چاہتی تھی کہ اپنے آپ کو بدلوں… انہی لڑکیوں جیسی لگوں جو میرے اردگرد رہتی ہیں، مگر یہ بات میرے لئے مشکل تھی، کہتے ہیں جب ارادہ ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے، صائمہ نے مجھے انداز گفتگو چال ڈھال اور مردانہ عادتوں کے بدلنے میں مدد دی، پھر خود میں بڑی تبدیلی محسوس کرنے لگی، لباس بھی لڑکیوں والے اور شوخ رنگوں کے پسند کرنے لگی۔ بوائے کٹ چھوڑ دیا اور بال بڑھالیے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے صائمہ کے ساتھ کالج میں داخلہ لے لیا، مستقبل میں بہت کچھ کرنے کا ارداہ رکھتی تھی، کالج میں ہوم اکنامکس میں ٹاپ کیا۔گھریلو امور میں مہارت حاصل کرلی۔ سارے خاندان میں ایک قابل لڑکی مشہور ہوگئی۔ شادی سے دلچسپی نہ تھی، پڑھنا چاہتی تھی، والد کے مجبور کرنے پر چچازاد سے منگنی کرالی۔ وہ میڈیکل کا طالب علم تھا اور میں مطالعے میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتی تھی، طب کی انہی دنوں ایک کتاب ہاتھ لگی، جس میں دس جڑی بوٹیوں سے روزمرہ کی تکالیف کے نسخے درج تھے۔ امی کے پاس خواتین اپنی تکالیف بیان کرتیں تو میں کتاب سے یہ نسخے نقل کرکے ان کو دینے لگی، تاکہ کسی کا بھلا ہو۔ یہ نسخے بے ضرر تھے، لہٰذا خواتین کو شفا ہوجاتی تو وہ مجھے دعائیں دیتیں، یوں میں سارے خاندان میں مشہور ہوگئی۔ عورتیں میرے پاس آنے لگیں، جب چچا کو علم ہوا تو انہوں نے سخت اعتراض کیا۔ چچی نے تو مجھے طبیبہ اور جادوگرنی کہناشروع کردیا۔ ان کے اس جاہلانہ رویے پر دکھ ہوا۔ چاہتی تھی کہ منگیتر میرا ہم خیال ہوجائے، مگراس نے منگنی قائم رکھنے کے لئے عجیب وغریب شرط رکھ دی۔ والد صاحب سے کہا اس صورت میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا، اگر یہ اپنے حصے کی جائداد میرے نام لکھ دے… یہ بات جان کر سخت غصہ آیا، اپنی اہانت محسوس کی اور منگنی کی انگوٹھی انگلی سے اتارکر منگیتر کے منہ پر ماردی، یوں ہمارا رشتہ ختم ہوگیا۔ اس وقت صائمہ میری واحد دوست تھی، جس نے سہارا دیا… اس نے میرا داخلہ بی اے میں کرادیا اور ٹوٹا ہوا تعلیمی سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ بی اے کے بعد صائمہ کی شادی ہوگئی اور وہ پشاور چلی گئی، میرا روحانی اور اخلاقی سہارا جاتا رہا۔ انہی دنوں بڑے بھائی کی شادی کی تاریخ رکھی گئی، سوچا بھابی آجائے گی تو بہن کی کمی پوری ہوجائے گی اور تنہائی بھی دور ہوجائے گی۔ افسوس بھابی کے آتے ہی خواب ٹوٹ گیا۔ وہ تنگ دل نکلی، مجھ سے مزاج نہ ملا، اس نے اور بھی مجھے تنہا کردیا، بڑے بھائی بیوی کے ساتھ اپنی خوشیوں بھری زندگی میں مگن ہوگئے، جوجان چھڑکتے تھے اب وہی بھائی سیدھے منہ بات نہ کرتے، بلکہ بیوی کی طرفداری میں طعنہ زنی کرنے لگے، جس سے دل پر گہری چوٹ لگتی۔ بالآخر صدمے سے بیمار پڑگئی، پہلے بخار ہوا پھر بگڑکر ٹائیفائیڈ ہوگیا، مختلف ڈاکٹروں سے علاج کرایا، بہت زیادہ دوائیں لینے کی وجہ سے گردے متاثر ہوگئے۔ بیماری کی وجہ سے تعلیم ادھوری رہ گئی، سارے عزائم خاک میں مل گئے، سوچ کی دنیا درہم برہم ہوگئی، کبھی طبیعت اتنی خراب ہوجاتی فوراً اسپتال لے جانا پڑتا۔ تصور بھی نہ کیاتھا کہ زندگی میں ایسا پرخار موڑ بھی آجائے گا کہ تکالیف سے دل بیزار ہوجائے گا۔ دوسرے نمبر والے بھائی ناظر کو میرے دکھ کا احساس تھا، وہی مجھ میں دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ نائلہ تمہاری بہت اچھی دیکھ بھال کرتی ہے، چاہتاہوں کہ اس کو تمہاری بھابی بنالوں۔ یہ گھر پر بھی تمہارا خیال رکھے گی، مجھے بھی وہ اچھی لگتی تھی، بھائی کے فیصلے پر خوش ہوگئی۔ انہوں نے والد سے اپنی خواہش کااظہار کیا۔ ابو نے مجھ سے رائے لی تو میں نے کہا کہ یہ بہت ہمدرد اور اچھے اخلاق والی ہے، آپ بھائی کی بات مان لیں، والد نے نائلہ کے گھروالوں سے ملاقات کی اور وہ میری بھابی بن کر ہمارے گھر آگئی۔ وہ واقعی اچھی لڑکی تھی۔ اس نے بیماری میں میرا ساتھ دیا۔ امی ابو کا بھی خیال رکھتی تھی۔ خوش تھی کہ اللہ نے بہن کی کمی پوری کردی ہے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ دراصل امی جان نے نائلہ کو دل سے قبول نہ کیا تھا، اس میں روز ہی کوئی نہ کوئی عیب نکالتی تھیں۔ جب نائلہ بھابی کو پہلی اولاد ہوئی تو گھر والوں نے منہ بنالیا، کیونکہ بیٹی کو جنم دیاتھا، اسی وجہ سے ہرکسی کامنہ پھولا ہوا تھا، ان کے دل کو سخت ٹھیس پہنچی۔ بھلا اس میں ان کا کیا دوش، لیکن میرے گھر والوں کی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے ناظر بھائی اوران کی بیوی ہم سے علیحدہ ہوکر ایک دوسرے گھر میں رہائش پذیر ہوگئے اور میں پھر سے تنہا ہوگئی۔ ایک لمبا عرصہ بیماری کی لپیٹ میں گزرا تھا، اب ہرکوئی مجھ سے بیزار تھا۔ گھر والے تغافل برتنے لگے۔ اکیلی سب تکلیفیں برداشت کررہی تھی۔ میرے گردے ناکارہ ہورہے تھے اور یہ بھیانک حقیقت جاننے کی کسی کو فرصت نہ تھی۔ اسپتال لے جانے والے بھائی بھابی نے بھی میری فکر کرنی چھوڑ دی تھی۔ سب کہتے تھے اتنا علاج کرا دیا ہے، اس کی بیماری نے تو ہم کو تھکا ڈالاہے۔ اللہ نے چاہا تو خود ٹھیک ہوجائے گی، وہ بروقت مجھے اسپتال نہ لے گئے اور میرے گردے ناکارہ ہوگئے۔ ایک طویل عرصہ بیماری سے لڑتے لڑتے میں زندگی سے تنگ آچکی تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی نے لفظ محبت اور دوستی سے دور کردیا تھا۔ یہ الفاظ اب میرے لئے کوئی معنی نہ رکھتے تھے۔ میرا دل ٹوٹ چکاتھا، بھابیوں سے اتنی چوٹ کھائی کہ اس رشتے سے بھی نفرت ہوگئی۔ جن دنوں اسپتال میں تھی ایک نرس صنوبر سے ملاقات ہوئی۔ نائلہ کی طرح وہ بھی بہت اچھی تھی اور میرا خیال کرنے والی تھی۔ ایک روز صنوبر گھر ملنے آئی تو اس نے میری حالت دیکھ کر امی سے کہا۔ آپ فوراً اسپتال لائیے مجھ کو ان کی حالت ٹھیک نہیں لگتی۔ صنوبر کو لوگ سخت مزاج کہتے تھے، کیونکہ وہ اپنے اسٹاف سے سختی سے پیش آتی تھی، لیکن مجھ سے نرمی سے پیش آتی تھی۔ صنوبر کے اصرار پر امی ابو اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کروائے اور رپورٹس دیکھ کر اسپتال میں داخل کرلیا۔ کوئی انسان کتنابھی سخت دل ہو جب اس کے دل میں کسی کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوجائیں تو اس کو اللہ کی طرف سے رحمت کا انعام سمجھنا چاہئے۔ یہ میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ میرا ڈائیلائیسس ہوتا اور صنوبر مجھے ایک بڑی بہن جیسی محبت دیتی، میرا خیال ماں سے بڑھ کر کرتی، ایسے وقت میں جب اپنے بیگانے بن جاتے ہیں اور انسان اپنوں کی محبت سے مایوس ہوجاتاہے توکسی غیرکی تھوڑی سی توجہ اور محبت سے لگتاہے کہ دوبارہ زندگی مل گئی ہے۔ صنوبر دیر تک میرے پاس رہتی، مجھے ٹائم دیتی اور ہربات توجہ سے سنتی تو میرا دکھ اور تکلیف آدھے رہ جاتے۔ وہ میرے دل سے قریب ہوگئی اور میں اس کو چاہنے لگی۔ برسوں سے جس بہن جیسی دوست کی تلاش تھی، اسے پاکر روح کی تشنگی مٹ گئی۔ صنوبر کی محبت نے اس وقت سہارا دیا جب میرے اپنے مجھ کو چھوڑ چکے تھے۔ میں نے بیماری کی سنگینی کو بھی فراموش کردیا تھا۔ اب تو یہ عالم ہواکہ جب تنہائی اور اکیلے پن سے اکتا جاتی تو اس کے ساتھ گزارے لمحات پر شاعری شروع کردیتی تھی اور اپنے دل کی بے شمار باتیں خط کی صورت میں اس کو لکھ کردیتی۔ وہ مسکراکر لے لیتی اور پھر شاعری کی تعریف کرتی، اس نے میری برسوں کی بکھری زندگی کو اپنی محبت اور توجہ سے لمحوں میں سمیٹ دیا۔ مجھے اپنی یہ ادھوری زندگی اچھی لگنے لگی۔ میرا اس کے ساتھ ایسا روحانی رشتہ قائم تھا جو سگے خون کے رشتوں سے بڑھ کر تھا۔ بھابی نائلہ اور صنوبر نے برسوں اکٹھے کام کیا تھا، بھابی ملنے آتی، میں ان کو بتاتی کہ صنوبر نے محبت دے کر نئی زندگی دے دی ہے، اب تو میں بس اسی کی توجہ اور محبت کے سہارے زندہ ہوں۔ میری بھابی کو یہ باتیں پسند نہ آئیں کہ اس نے الٹی سیدھی باتیں میری طرف سے صنوبر سے جالگائیں اور اس کا دل برا کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب جب میں اسپتال ڈائیلائیسس کے لئے جاتی، صنوبر کا رویہ پہلے جیسا نہ ہوتا، مجھے دیکھ کر اِدھر اُدھر ہوجانے کی کوشش کرتی۔ اس رویے پر سخت تکلیف ہوئی۔ تڑپ کر رہ گئی کہ اتنی محبت کرنے والی بالآخر کیوں مجھ سے دور ہوگئی۔ میں نے بھابی سے شکوہ کیاتواس نے جواب دیا کہ تمہاری حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے دل میں تمہارے لئے وقتی ہمدردی آئی ہوگی، مگر وہ کسی سے بہنوں جیسی محبت نہیں کرسکتی۔ وہ تو ایک پیشہ ور نرس ہے، تم اس سے محبت میں زیادہ امیدیں مت باندھو وہ کب تک تمہارا دل رکھنے کو تمہاری باتیں برداشت کرے گی، بالآخر ایک روز اکتاجائے گی۔ میں ایک بیمار انسان تھی بستر پر پڑی تھی، اب محبت میں کسی کی بے رخی اور نئی چوٹ برداشت کرنے کی سکت کہاں تھی، ایک روز اسی پریشانی میں اپنی بھابی کی کہی باتیں خط میں لکھ کر صنوبر کو دے دیں، شاید اس کو برا لگاکہ اس کا رویہ میرے ساتھ بہت بے رخی کاہوگیا اور وہ پیار، محبت، توجہ، اعتبار اور سہارا جو چند مہینوں میں ملاتھا وہ چند لمحوں میں چھن گیا تھا۔ یہ پہلی ہستی تھی، دل نے جس سے بے پناہ رشتے قائم کرلئے تھے، اس نے ہر احساس کو یہ کہہ کر توڑ دیا کہ تم مریض ہو یہاں علاج کرانے آتی ہو اور میں ڈیوٹی کرنے آتی ہوں، اس کے سوا تمہارا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ میرے دل پر بجلی بن کر گرے۔ صنوبر کو پیغام بھجوایا آکر بات کرجائو۔ میں معافی مانگنا چاہتی ہوںکہ اگر میری کوئی بات بری لگی ہے تو درگزر کردے، لیکن بات کرنا بھی اس کو گوارا نہیں تھا۔ میری وجہ سے اس نے اسپتال بھی بدل لیا اور ایک دوسرے اسپتال چلی گئی۔ میں آج بھی اپنی بیماری کی وجہ سے زیرعلاج ہوں اور صنوبر کی منتظر ہوں، شاید اس کو میرا خیال آجائے، کیونکہ اپنوں کی بے رخی ملے یا غیروں کی بے وفائی، مجھ سے انسان کو جوبستر مرگ پر سانسیں گنتا ہو۔ زندگی کے باقی ماندہ دن کسی سہارے کی آس میں گزارنے پڑتے ہیں۔ صنوبر کو میں کبھی بھلا نہیں سکتی۔ بے شک میرا دل رکھنے کو سہی کچھ وقت کے لئے میری مایوس روح کوسہارا تو دیا تھا، جب اپنے بیگانے بن گئے، تبھی غیرکی طرف میں نے دیکھا تھا۔ آج جب مایوسی کے بادل گہرے ہوجاتے ہیں، خود کو سمجھاتی ہوں کہ اس دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کوکوئی چاہنے والا نہیں۔آخر وہ بھی کسی طرح جی لیتے ہیں۔ میرے نزدیک خوش نصیب وہی لوگ ہیں جواس خود غرض دنیا میں کسی دکھی انسان کا دکھ بانٹتے ہیں اور کوئی رشتہ نہ ہونے کے باوجود محروم لوگوں کو بے لوث اور بے غرض محبت کا احساس دلاتے ہیں۔ محبت خود بری نہیں، محبت سے دنیا قائم ہے، محبت زندگی کی نوید اور حیات نو کی امید ہے۔ ایک ایساچراغ ہے جس کے جلنے سے اندھیری زندگی روشن ہوجاتی ہے۔ میں نے بھی اپنی بیمار زندگی کوکسی کی محبت سے روشن کرنے کی آرزو کی تھی۔ صنوبر کوایک بہن جیسا مانا تھا، مگر انسان جو چاہے سوچے، ہوتا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔کسی بھی انسان کے بدلتے ہوئے رویوں کو سمجھنا بڑا مشکل ہے، بلکہ انسان کو ہی کلی طور پر سمجھنا ناممکن ہے۔ یہ ایک بہت پیچیدہ مخلوق ہے۔ سب سے بڑھ کر مجھ کو نائلہ بھابی پرمان تھا، زندگی کی ڈوبتی نائو کوسہارا دینے کی بجائے میری کشتی کے لنگر کاٹے، جس ہستی کو بڑی بہن جیسے پیار اور تقدس سے دیکھا اسی کو گِری پڑی، باتیں، میرے بارے میں جا لگائیں۔ اے کاش میری زندگی کے یہ باقی ماندہ دن بھی صنوبر کی محبت کے سائے میں بسر ہوجاتے تو میری گھٹتی عمر اور بڑھ جاتی یاپھر سفرِزندگی کا آخری حصہ طے کرناآسان ہوجاتا۔ (ثمینہ…کراچی)