Sunday, September 15, 2024

Mohabbat Kay Zakham

میرا کزن عامر الیکٹرانک کا کام جانتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا بال سنوار رہا تھا کہ سامنے والے گھر سے ایک لڑکی نے آواز دے کر بلایا۔ یہ انور صاحب کی بیٹی سونیا تھی۔ اس کے والد فوت ہو چکے تھے، کوئی بڑا بھائی نہ تھا۔ اس نے عامر کو بلا کر کہا کہ ہمارا ٹی وی خراب ہے ، آپ ٹھیک کر دیجئے۔ وہ اپنا سامان لے کر اس کے گھر چلا گیا۔ معمولی سا نقص تھا، درست کر دیا، کام کی اجرت بھی نہیں لی۔ سونیا اور اس کی ماں عامر کی مشکور ہو ئیں۔ کچھ دنوں بعد سو نیا دوبارہ آئی۔ آج پھر ٹی وی خراب ہو گیا تھا۔ عامر نے جا کر اسے دوبارہ ٹھیک کر دیا۔ اس طرح دونوں کی جان پہچان ہو گئی۔ ایک دن سونیا کی امی خالہ جمیلہ نے عامر کو اپنے گھر سے نکلتے دیکھ لیا۔ اس نے بیٹی سے باز پرس کی وہ مکر گئی لیکن ماں کو شک پڑ گیا لہذاوہ عامر کے گھر گئی اس کی ماں کو جا کر بتا دیا۔ ماں نے عامر کو سمجھایا لیکن اس نے ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا کہ جوانی دیوانی کہی جاتی ہے۔ لڑکی کو بھی ماں کی بیوگی کا پاس نہ رہا تھا۔ جب عامر کہتا آئو گھومنے چلیں ، وہ اس کے ساتھ چلی جاتی اور دونوں شہر سے دور پارکوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہ تھاروز کی بات تھی۔ عامر روز ہی دکان سے غائب ہو جاتا تھا۔ ایک دن چچا اصغر نے ان کو بازار میں گھومتے دیکھ لیا تو آکر  چچا آصف کو بتادیا۔ چچا آصف نے بیٹے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسے اتنا مارا کہ حد کر دی۔ یہ منظر سونیا اپنے گھر کی بالکونی سے دیکھ رہی تھی۔ چچا کا خوشیوں بھرا گھر تھا لیکن اب جیسے کسی کی نظر لگ گئی تھی ۔ ان کے گھر کا سکون سونیا کی وجہ سے برباد ہو گیا، پریشانی کا عالم رہنے لگا تھا۔ خاص طور پر بہنیں اپنے بھائی کی فکر میں گھلنے لگیں مگر یہ دونوں باز نہ آئے۔ جب موقعہ ملتا باہر ملنے چلے جاتے۔ اتفاق یہ کہ بھی چچا کے کوئی جاننے والے دیکھ لیتے اور کبھی سونیا کا کوئی رشتہ دار اس کی ماں کو خبر دار کرنے آجاتا۔ سونیا کی ماں بھی اس وجہ سے بے حد دکھی ہو گئی تھی کہ خاوند کا سایہ سر پر نہ تھا، لڑکی کو کون سنبھالتا ؟ ایک دن سونیا کے رشتے کے ماموں نے اسے عامر کے ساتھ دیکھا تو آکر اس کی ماں کو بتایا۔ ماں بچاری سوائے شر مندہ ہونے کے کیا کر سکتی تھی۔ وہ کوئی بہانہ بھی نہ بنا سکی ، اس نے کہا۔ بھائی صاحب آپ فکر نہ کریں۔ آج کے بعد میں اپنی لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا ہی بند کر دوں گی۔ سونیا گھر آئی تو ماں مرنے مارنے کو تلی ہوئی تھی۔ پہلے تو اس نے لکڑی اٹھالی اور لڑکی کو دھنک کر رکھ دیا۔ جب وہ رونے سسکنے لگی تو ماں بھی رونے لگی اور جھولی پھیلا کر فریاد کناں ہوئی کہ اے بیٹی خدا کے لئے میری بیوگی کی لاج رکھ لے اور میری عزت کا خیال کر ، یوں عزت کو سر بازار نیلام نہ کر۔ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اور تمہیں تمہارے مرے ہوئے باپ کا واسطہ دیتی ہوں مجھے جینے دو، ورنہ ہم بد نامی کے اندھے کنویں میں گر جائیں گے۔ لوگ ہمیں یہاں رہنے نہ دیں گے۔ جب ماں رو کر بیٹی کے آگے آہ وزاری کر رہی تھی۔ ناعاقبت اندیش بیٹی آنکھیں بند کر کے عامر کے ساتھ مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ماں کی باتوں کا دل پر بس اتنا اثر لیا کہ اگلے دن چھت پر عامر سے ملی اور کہا کہ اب ہمارا اس طرح ملنا محال ہو گیا ہے۔ کیوں نہ ہم کسی اور جگہ چلے جائیں اور وہاں جا کر شادی کر لیں۔ یہ ٹھیک نہ ہو گا۔ تمہاری بیوہ ماں کو بہت صدمہ ہو گا۔ سونیا ہم ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں گے  ، تم صبر کرو۔ ان شاء اللہ میں ایک دن تم کو بیاہ کر لے جائوں گا۔ اس دن صبح چار بجے جب چچا آصف نماز کے لئے اٹھے ، انہوں نے دیکھا کہ عامر گھر میں نہیں ہے۔ تب وہ اس کے لئے دروازے پر کھڑے ہو گئے کہ دیکھوں کدھر سے آتا ہے۔ اس وقت سامنے والے گھر کا در کھلا اور عامر ان کی سیڑھی والے راستے سے باہر آیا تو چچا نے اسے اپنے گھر کی دہلیز پر پکڑ لیا۔ اسے گھر میں لے گئے اور پیار سے سمجھانے لگے کہ بیٹے رات کے وقت کسی بیوہ کے گھر میں جانا بہت غلط بات ہے۔ میرے بعد تم ہی تو میرے گھر کے سر براہ ہو۔ تم میرے سب سے بڑے بیٹے ہو۔ میری تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اس حرکت سے باز آ جائو۔ آخر میں تم کو کیسے سمجھائوں۔ ہمت کر کے پہلی بار عامر نے زبان کھولی اور کہا۔ اباجان ! میری سونیا کے ساتھ شادی کروادیجئے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ وہ ایک غریب بیوہ کی لڑکی ہے۔ یہ بات نہیں ہے بیٹے، بات یہ ہے کہ وہ ہماری برادری کی نہیں ہے۔ خاندان والے میرے ساتھ کیا کریں گے ، یہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ تم پر تو اس لڑکی کی محبت کا بھوت سوار ہے۔ بیٹے میں تم کو ایک باپ کی حیثیت سے سمجھا رہا ہوں کہ اس شادی کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ تیری چھوٹی بہنوں کی شادیاں بھی ہم کو غیروں میں کرنا پڑیں گی۔ میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ آج ایک سخت گیر باپ اپنے بیٹے کے سامنے منت سماجت سے بات کر رہا تھا۔ باپ کو مجبور دیکھ کر عامر کا دل بیٹھ گیا۔ بجھی ہوئی آواز میں کہا۔ اچھا ابا جان اگر آپ کی اتنی ہی مجبوریاں ہیں تو ہیں آپ کو مجبور نہیں دیکھ سکتا۔ ایک بیٹے کا بھی اپنے باپ کے لئے کوئی فرض بنتا ہے۔ یہ بات دل پر پتھر رکھ کر اس نے اپنے باپ سے کہی تھی۔ بیٹے کی سعادت مندی پر باپ خوش ہو گیا۔  کچھ دنوں تک دونوں نے بہت صبر و ضبط سے کام لیا۔ سونیا چھت سے عامر کے صحن کو دیکھتی تھی اور عامر اسے دیکھے کر نظریں نیچی کر لیتا تھا۔ دونوں کے دلوں میں ایک طوفان بند تھا جو تباہی کی علامت تھا۔ انہی دنوں عامر کے والد نے اس کے لئے لڑکی تلاش کر لی جو ان کے اپنے خاندان سے تھی۔ گھر والے سمجھ رہے تھے کہ وہ منگنی کرا کے سب کچھ بھول جائے گا مگر ایسا نہیں تھا۔ عامر نے سوچا اس شورش سے نمٹنے کے لئے کیوں نہ منگنی کر لوں۔ ان کی پریشانی تو ختم ہو جائے، باقی بعد میں دیکھی جائے گی۔ عامر کی منگنی دھوم دھام سے ہو گئی۔ جب سونیا کو پتا چلا تو اس نے ماچس کی تیلیوں سے اپنے بازو اور ہاتھوں کو جلایا اور رات بھر سسکتی رہی۔ جب عامر کو پتا چلا کہ سونیا نے خود کو جلایا ہے تو وہ اس سے ملا اور یقین دلایا کہ یہ منگنی عارضی ہے، میں نے اپنے گھر والوں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کیا ہے تاکہ گھر میں پریشانی ختم ہو۔ میں بعد میں منگنی توڑ دوں گا اور شادی تم ہی سے کروں گا۔ عامر کے یقین دلانے پر سونیا کی پریشانی کچھ کم ہوئی۔ سونیا کی ماں نے انہیں ملاقات کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے بھی دل میں ٹھان لی کہ اب سونیا کو اس کے گھر کا کرنا ہے۔ وہ اس مشن پر نواب شاہ چلی گئی جہاں اس کی بہن کا گھر تھا اور اس کا بیٹا  کبھی کبھی آتا تھا۔ اسے بھی سونیا پسند تھی۔ وہ بہن سے منگنی کی تاریخ لے آئی اور سونیا کو بتایا۔ وہ رونے لگی، کہا۔ امی جان جب آپ جانتی ہیں میں عامر سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو آپ میری منگنی کی تاریخ کیوں طے کر آئی ہیں ؟ میں بھی آپ کے بھانجے سے شادی نہ کروں گی۔ پگلی جب عامر نے منگنی کرالی ہے تو تو کس آس پر بیٹھی ہے ؟ وہ لوگ ہمیں کم تر جانتے ہیں۔ آصف صاحب کبھی اپنے بیٹے کارشتہ تم سے نہ کریں گے۔ ان خیالات سے اپنا دل و دماغ صاف کر لے۔ اپنی زندگی اور میری مجبوریوں کے بار ے میں سوچ کہ ہم نے بھی جینا ہے۔ یوں ماں نے کہہ سن کر اسے قائل کر لیا ۔ ان دنوں سونیا کے گھر کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ ایک بہن شادی شدہ تھی۔ گھر میں بیوہ ماں سلائی کرتی اور دوسرا کوئی کمانے والا موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود سونیا نے عامر کو کبھی اپنی مالی مشکلات نہ بتائیں۔ ایک بار عامر نے خود کچھ رقم دینی چاہی کیونکہ وہ ان کے حالات جانتا تھا لیکن سونیا نے لینے سے انکار کر دیا۔ بولی۔ مجھے پیسوں کا لالچ نہیں، تم مجھے مالی امداد دے کر میری نظروں سے نہ گرائو۔ غرض بہت اصرار پر بھی اس نے رقم نہ لی۔ جب گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تو مجبور اس نے ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کر لی۔ عامر کو پتا چلا تو وہ فیکٹری گیا اور کہا کہ تم نے یہاں کیوں ملازمت کی ہے جبکہ میں ہوں تمہارے ساتھ ۔ جو ضرورت ہے مجھ سے کہو، میں پوری کر دوں گا۔ یہ بہت نامناسب بات ہے عامر ۔ تم نے میرے گھر والوں کا ٹھیکہ تو نہیں لیا۔ جب لوگوں کو پتا چلے گا کہ ہمارے گھر کا خرچہ تم چلاتے ہو تو ہم کتنے رسوا اور بدنام ہو جائیں گے۔ لوگ ہمیں جینے نہیں دیں گے۔ سونیا غریب ضرور تھی مگر بہت خود دار تھی۔ فیکٹری میں ملازمت کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ اب عامر اسے وہاں جا کر مل لیتا تھا اور روز چھٹی کے وقت اسے اپنے ساتھ لے آتا تھا۔ ایک روز جبکہ سونیا کی ماں نواب شاہ گئی ہوئی تھی۔ رات کے وقت سونیا نے اسے بلالیا۔ ماں جاتے ہوئے اپنی شادی شدہ بیٹی عرفانہ کو سونیا کے پاس رہنے کا کہہ گئی تھی۔ رات کے دو بجے اتفاقاً عرفانہ کی آنکھ کھلی تو اس نے عامر کو چھت پر سونیا کے ساتھ باتیں کرتے پایا۔ اسے عرفانہ نے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ جاتے ہوئے عامر نے سونیا کو قسم دی کہ تمہاری باجی تم پر غصہ کریں اور جو بھی غصے میں کہیں تم جواب نہیں دینا بلکہ چپ رہنا، کیونکہ تم لوگوں کو آواز اونچی ہوئی تو ہمارے گھر تک باتیں سنائی دیں گی۔ والد صاحب کی آنکھ کھل جائے گی۔ وہ اٹھ گئے تو وہ کچھ ہو جائے گا جو ابھی تک نہیں ہوا۔ ابھی عامر سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا کہ دونوں بہنوں میں زبر دست لڑائی ہو گئی۔ عرفانہ نے عامر کو بددعائیں دیں تو سونیا اس سے لڑ پڑی۔ چونکہ دونوں اپنی چھت پر لڑ رہی تھیں اس لئے ان کی آواز میں صحن اور گلی میں تو کیا پاس پڑوس کے گھروں میں بھی یہ شور شراباسنائی دے رہا تھا۔ جب لوگوں نے خالہ جمیلہ کے گھر سے شور کی آواز سنی تو سارا محلہ جاگ اٹھا۔ اسی وقت عامر گھر میں داخل ہوا۔ اس کے والد بھی جاگ گئے تھے کہا۔ عامر آج تم نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ محلے والوں نے آدھی رات کو خالہ جمیلہ کا دروازہ بجایا اور پوچھا۔ بہن جی ! کیا بات ہے؟ تبھی عرفانہ آگے بڑھی اور محلے داروں سے کہا کہ وہ جو سامنے آصف صاحب رہتے ہیں ان کا لڑکا عامر ہمارے گھر کودا تو ہم ڈر گئے۔ امی بھی نواب شاہ گئی ہوئی ہیں اس لئے ہم نے شور مچایا ہے۔ اس وقت سونیا چپ کھڑی رہی ، لوگ چچا آصف کی طرف آئے۔ صبح تک ایسے ہی شور و غوغاں رہا اور دیر تک یہ معاملہ چلتا رہا۔ سونیا کے دل میں اس الزام پر اپنی بہن کے خلاف غصہ بھرا ہوا تھا۔ وہ صبح سویرے بہن کی سسرال چلی گئی اور اپنے بہنوئی سے کہا۔ دولہا بھائی !رات باجی سے ملنے کوئی شخص آیا تھا۔ میں نے اسے صرف جاتے ہوئے دیکھا تھا، شکل نہیں دیکھ سکی۔ جب میں نے عرفانہ باجی سے پوچھا کہ کون آیا تھا ؟ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ میں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ اپنی بیوی کا دھیان رکھیں۔ یہ کہہ کر وہ گھر آگئی۔ سونیا بد لہ کی آگ ہیں اندھی ہو کر اپنی بہن کا گھر اجاڑنے کے درپے ہوئی۔ کون سا شوہر اپنی بیوی کے بارے میں ایسی بات برداشت کر سکتا ہے۔ دولہا بھائی صاحب تو غصے میں آپے سے باہر ہو گئے اور اسی وقت عرفانہ سے باز پرس کو پہنچ گئے۔ آتے ہی بیوی کے بال پکڑ لئے اور کہا۔ بتا کون آیا تھا آدھی رات کو تجھ سے ملنے ؟ مجھ سے کوئی ملنے نہیں آیا۔ عرفانہ نے روتے ہوئے کہا لیکن وہ کہاں ماننے والا تھا۔ اس قدر چیخ و پکار ہوئی کہ محلے والے پھر سے جمع ہو گئے۔ وہ عامر کے گھر گئے اور کہا کہ ایک عورت کو تمہاری وجہ سے طلاق ہو رہی ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کا گھر اجڑنے سے بچا سکتے ہو۔ تم بھی بہنوں والے ہو۔ کسی پر ناحق ظلم ہو رہا ہے جبکہ قصور وار تم اور سونیا ہو۔ تم جا کر بتا دو کہ تم اس کی بیوی سے نہیں بلکہ اس کی چھوٹی بہن سے ملنے گئے تھے۔ محلے والے عرفانہ اور اس کے شوہر کو چچا آصف کے گھر لے آئے ، تب عامر نے کہا۔ بھائی ! تمہاری بیوی میری بہن ہے۔ میرا اس کے ساتھ تعلق ایک بھائی جیسا ہے۔ میں سونیا سے ملنے گیا تھا کیونکہ ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کیوں اس بے چاری پر ظلم کر رہے ہیں ؟ آپ سے کسی نے غلط بیانی کی ہے۔ اتنے میں سونیا بھی وہاں آگئی۔ عامر نے اس سے کہا۔ سونیا میں تم کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ اگر عرفانہ باجی نے تم کو ڈانٹا تو صحیح کیا۔ ان کی جگہ تمہاری امی ہو تیں تو وہ بھی تم کو ڈانٹتیں۔ تم نے اپنی بہن پر خواہ مخواہ الزام دھر دیا۔ اگر انہوں نے تم کو سمجھایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم جھوٹ بول کر ان کا گھر برباد کر و۔ اب اپنے دولہا بھائی کو بتادو کہ میں تم سے ملنے آیا تھا۔ جب عامر نے اسے اپنی قسم دی تو اس نے زبان کھولی اور محلے والوں کے سامنے اقرار کیا کہ عامر اس کی باجی سے نہیں بلکہ اس سے ملنے آیا تھا۔ اب اس کا بہنوئی شیر ہو گیا کہ میں عرفانہ یعنی اپنی بیوی کو صرف اس شرط پر طلاق نہیں دوں گا کہ سونیا قسم کھائے اور وعدہ کرے کہ وہ پھر کبھی عامر سے نہیں ملے گی اور عامر بھی ہمیشہ کے لئے اس سے ناتا توڑے گا۔ اس پر عامر کو غصہ آگیا۔ اس نے محلے والوں سے کہا کہ اس شخص کو یہاں سے لے جائو۔ سونیا اور میرا مسئلہ ہمارے والدین کا ہے ، وہی حل کریں گے ۔ محلے والے سونیا عرفانہ اور اس کے شوہر کو لے گئے۔ عامر اور سونیا، علاقے میں بدنام ہو چکے تھے۔ ان کے گھروں میں کہرام مچا ہوا تھا۔ ماں اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لائی تھی۔ چچا آصف گلی میں کھڑے تھے۔ انہوں نے دیکھا بہت سے لوگ سونیا کے گھر جارہے ہیں تو چچا نے عامر سے کہا۔ بہتر ہے کہ تم کہیں چلے جائو۔ مجھے آثار اچھے نظر نہیں آرہے۔ غالبا یہ لوگ ہم سے لڑائی جھگڑے کے لئے آرہے ہیں اور یہ ان کو گائوں سے ساتھ لائی ہے یہ اس کے رشتہ دار لگتے ہیں۔ عامر نہیں جانا چاہتا تھا لیکن جب گھر والوں نے سمجھایا کہ خدا کے لئے کچھ دنوں کے لئے چلے جائو یہاں سے ، ورنہ یہاں کسی کا خون ہو جائے گا۔ ماں بچاری بیمار تھی۔ جب اسے پتا چلا کہ کچھ لوگ اس کے بیٹے سے لڑنے کے لئے آئے ہوئے ہیں تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ ہاتھ جوڑنے لگی کہ بیٹا خدا کے لئے تم کہیں چلے جائو۔ عامر نے سوچا کہ ماں باپ کا دل دکھانا اچھا نہیں۔ کہیں واقعی جھگڑا نہ ہو جائے۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے، میں لاہو ر ماموں کے گھر چلا جاتا ہوں۔ جب یہاں کے حالات سنبھل جائیں گے تو مجھے فون کر دینا۔ آجائوں گا۔ عامر چلا گیا۔ پیچھے سونیا کے ساتھ یہ ہوا کہ اس کا نکاح اس کی ماں نے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر زبردستی اپنے بھانجے سے کروا دیا۔ وہ روتی رہی، کسی نے اس کی نہ سنی۔ اسے زبر دستی پکڑ کر گاڑی میں چڑھایا اور سسرالی ساتھ لے گئے۔ لڑکی کی چیخ پکار سے دولہا کو بھی پتا چل گیا کہ وہ کسی اور سے شادی کی آرزو مند ہے تبھی شادی پر راضی نہیں ہو رہی ہے لیکن وہ شریف خاندان کا لڑکا اس وقت اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بچانے کو خاموش رہا۔ سونیا کے بہنوئی نے بڑھ چڑھ کر اس معرکے میں حصہ لیا تھا۔ جب عامر گھر واپس آیا تو پوچھا۔ معاملے کا کیا ہوا؟ کیا وہ لوگ چلے گئے ؟ چچا جان بولے۔ بس بیٹے وہ لوگ چلے گئے۔ وہ بیاہنے آئے تھے لڑکی کو ، دراصل ہم ہی غلط سمجھے ۔ یہ سن کر عامر جہاں کھڑا تھا، وہیں بیٹھ گیا۔ وہ کئی دنوں تک ایک ہی حالت میں ایک جگہ پڑا رہا۔ ماں اور بہنیں تسلیاں دیتی رہیں لیکن چچا ہی کہتے تھے تھوڑے دنوں کا غم ہے وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ عامر ٹھیک ہوا کہ نہیں، بس اتنا پتا چلا کہ وہ گھر والوں سے لا تعلق ہو گیا۔ شاید اس کے لئے یہ غم تھوڑے دنوں کا نہیں بلکہ عمر بھر کا تھا۔ سونیا کیسی زندگی جی رہی ہے ؟ خوش ہے کہ ناخوش، نہیں معلوم لیکن میں یہ سوچتی ہوں کہ اگر چچا یہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا اور سونیا ایک دوسروے کو اتنا چاہتے ہیں تو بیٹے کی خوشی کے لئے سہی، ایک بیوہ کی بیٹی کو بہو بنا لیتے۔ اس میں حرج ہی کیا تھا؟ دونوں کی شادی ہو جاتی تو ممکن ہے ان کی زندگی خوشی سے گزرتی۔ اب تک عامر نے شادی نہیں کی، اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے ابھی تک سونیا کو بھلایا نہیں ہے۔

Latest Posts

Related POSTS