نصرت میری چچازاد تھی۔ سب کزنوں سے زیادہ میری اس سے پکی دوستی تھی۔ میں اسے بھابی بنانا چاہتی تھی۔ اماں، ابا کا بھی یہی ارمان تھا لیکن شادی بیاہ، مرنا جینا سب قدرت کے کھیل ہیں۔
بچپن پلک جھپکتے گزر گیا۔ ہم کھیل کود کر بڑے ہوگئے۔ بھائی نے گلی ڈنڈا اور کبڈی چھوڑ کر ابا کے ساتھ کھیتوں کا کام سنبھال لیا۔ کیونکہ ہمارے باپ، دادا کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ میں اور نصرت مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے اکٹھے جایا کرتی تھیں۔
ایک دن دادی نے دوپٹے کی بکل میں ہم کو لپیٹ کر کہا کہ تم دونوں بڑی ہوگئی ہو، اب گھر بیٹھو اور بغیر مقصد گھر سے باہر مت نکلنا اور نہ لڑکوں کے ساتھ میدان میں جاکر کھیلنا۔
ہائے دادی… سارا دن ہمارا گھر میں دل کیسے لگے گا؟ بے اختیار ہم دونوں نے کہا۔ بہت کام کاج ہے گھر میں، کاموں سے فرصت ملے گی نا، تب فارغ بیٹھو گی۔ رات کو نیند جو نہیں آئے گی۔ آجائے گی۔ میں روز رات کو تم لوگوں کو کوہ قاف کی پریوں کی کہانیاں سنائوں گی۔ مجھے بہت کہانیاں یاد ہیں۔
دادی کا رعب تھا سارے گھر پر۔ پانچویں پاس کرنے کے بعد انہوں نے ہم لڑکیوں کو گھر کے باہر قدم نہ رکھنے دیا۔ صحن کی چار دیواری میں قید کردیا۔ صحن بھی تو اتنا بڑا تھا کہ اس میں جھاڑو لگاتے جان نکل جاتی تھی مگر دادی کا حکم تھا کہ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے اٹھ جانا اور سب سے پہلا کام چھڑکائو کر کے صحن کی جھاڑو دینا ہے کیونکہ سورج صبح سات بجے سے ہی آنکھیں نکال کر سروں پر آجاتا ہے اور ہر شے کو جلانا شروع کردیتا ہے۔ دادی کا حکم کون ٹال سکتا تھا۔ پھر بھی جن آزاد پرندوں کا وقت کھلی فضائوں میں پرواز کرتے گزرا ہو، وہ قید میں پھڑپھڑاتے تو ہیں۔
شروع کے کچھ دن ہم دونوں بے قرار اور بے چین رہتی تھیں۔ زیرلب دادی کو کوستی تھیں جو ہمیں کھیتوں میں جانے سے روکتی تھیں جبکہ سارا بچپن ہمارا کھیتوں میں بھاگتے، دوڑتے اور کھیلتے کودتے گزرا تھا۔
بچپن زندگی کا سب سے سنہری زمانہ ہوتا ہے جب کسی بات کی فکر نہیں ہوتی مگر یہ تیزی سے گزرتا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے بھی اس کا ہر لمحہ فلم کی طرح گزرتا رہتا تھا۔ جب میں انور بھائی اور نصرت اکٹھے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ ندی کنارے بیٹھ کر آم کھاتے اور گٹھلیاں ندی کے پانی میں پھینکتے کہ دیکھو کس کی گٹھلی سب سے دور گرتی ہے۔ پانی میں بھنور سے بنتے تو عجب سی خوشی ہوتی تھی ان معمولی معمولی باتوں میں۔ بس ایسے ہی ہمارے کھیل ہوتے تھے۔
ہر روز مقررہ وقت پر ہم آموں کے باغ میں جا پہنچتے جہاں ہمارے ساتھی پہلے سے موجود ہوتے۔ اگر لڑکے کبڈی کھیلتے تو لڑکیاں تماشا دیکھتی تھیں۔ اس وقت نصرت کا حال قابلِ دید ہوتا جب انور بھائی کی حمایت میں وہ شور مچاتی اور آسمان سر پر اٹھا لیتی تھی۔ اگر بھائی کا کسی لڑکے سے جھگڑا ہوجاتا تو وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس پر حملہ آور ہوجاتی اور جب نصرت کی لڑائی کسی لڑکی سے ہوجاتی تو میں اور انور اس کی ڈھال بن جاتے تھے۔ ہم تینوں کو اپنی دوستی پر فخر تھا۔ ہمارے اسی اعتماد کی وجہ سے دوسرے بچے ہم سے ڈرتے تھے۔
نصرت کی خوبصورتی مثالی تھی۔ جب وہ بڑی ہوگئی تو گائوں کے لڑکوں میں اس کی خاطر لڑائی ہونے لگی۔ کوئی کہتا۔ میں ہر حال میں نصرت سے شادی کروں گا۔ کوئی کہتا۔ تمہاری کیا مجال۔ بھوکوں کی اولاد ہو، جائو پہلے دبئی سے مال کما کر لائو۔ تیرے جیسے مفلس کو رشتہ کون دے گا۔ پس ان باتوں پر یہ ایک دوسرے سے لڑ پڑتے تو انور کو غصہ آتا۔ وہ اس ٹولے سے بالکل الگ ہوگیا کیونکہ نصرت اس کی چچازاد تھی۔ کون کزن اپنی چچازاد کے بارے میں ایسی خرافات برداشت کرسکتا ہے۔ انور نے دادی کو بتایا۔ لڑکے ہماری لڑکیوں کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں۔ زارا اور نصرت کو اب گھر سے مت نکلنے دیا کریں اور ان کو پردے میں بٹھا دیں۔
یہ بات ہمیں بہت کھلی مگر کیا کرتے، مجبوری کا نام شکریہ ہے۔ اب جو موقع ملتا، ہم اپنے گھر کے دروازے سے کھیتوں میں جھانک لیتے تھے اور ڈرتے بھی تھے کہیں انور بھائی نہ دیکھ لیں۔ وہ دادی سے شکایت کر کے پٹوانے سے بھی نہ چوکتے تھے۔
حسن کی بھی ایک طاقت ہوتی ہے۔ نصرت سات پردوں میں ضرور چھپ گئی تھی لیکن اس کے حسن کی روشنی گھر کی چاردیواری کے باہر محسوس کی جاسکتی تھی۔ تبھی گائوں کے کچھ منچلوں کے دلوں میں اس کی چاہت جاگ اٹھی اور وہ اکثر رات کو بانسری بجا کر، ماہیے گا کر قدرت کے اس شاہکار کی ثنائی کا حق ادا کرتے تھے مگر ان کو کون روک سکتا تھا۔ موسیقی پر تو ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔ جن کا جی چاہے ماہیے گائے یا بانسری بجائے۔ ان منچلوں کو روکنا، کس کے بس کی بات تھی۔
ہمارے گھر پہلے ایک ہی صحن کے اندر تھے۔ چچا نے جب درمیان میں دیوار اٹھا دی تو ایک گھر کے دو گھر ہوگئے اور صحن بھی آدھا رہ گیا۔ اب بھی ہم مل سکتے تھے کیونکہ ایک ہی دادا کی اولاد تھے۔ ہماری ملاقاتوں میں وہی بچپن والا والہانہ پن اور وہی پیار اور خلوص تھا۔ بے غرض محبت کا دریا دل میں موجزن رہتا تھا اور مسرت کا بھرپور احساس ہمارے رشتوں میں حلاوت گھولتا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب بزرگ ہمارے رشتوں کے بارے میں غوروفکر کررہے تھے کہ ایک روز پتا چلا۔ ساتھ والے گائوں کا ایک نوجوان دبئی سے بہت دولت کما کر لایا ہے۔ دراصل یہ مویشیوں کے ریوڑ پالتے تھے۔ ان کا لڑکا دبئی چلا گیا تو امیر ہوگئے اور گائوں کا طرزِ زندگی دولت نے بدل ڈالا۔ علاقے کے معزز لوگوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ان کے گھر بھی پکے بن گئے۔
اس دبئی پلٹ کا نام صادق تھا اور یہ اکثر ہمارے گائوں اپنے دوست سے ملنے آتا تھا۔ اس کی ایک خالہ بھی ہمارے گائوں میں بیاہی تھی، جہاں یہ آکر ٹھہرتا تھا۔ صادق اونچے قد کا سانولا سا لڑکا تھا جس نے گھنی مونچھیں رکھ لی تھیں تاکہ بارعب نظر آئے۔ وہ جب کبھی بوسکی کی لمبی قمیص اور گھیردار شلوار پہن کر گائوں میں اکڑ کر چلتا تو سبھی اسے رشک سے دیکھتے تھے۔
صادق نے اپنی خالہ کے گھر نصرت کو دیکھا تھا۔ اس کے تو ہوش اُڑ گئے۔ اس نے خالہ کے پائوں پکڑ لئے کہ کسی بھی شرط پر میری شادی اس حسن پری سے کرا دو۔ یہ ایک ٹیڑھا معاملہ تھا۔ کیونکہ ہمارے خاندان میں غیروں میں شادیوں کا رواج نہ تھا مگر وہ ایسا پیچھے پڑا کہ اس کی خالہ اور ماں کو چچا امین کے گھر آتے ہی بنی۔
وہ پہلی بار ملنے نہیں آئی تھیں لیکن اس بار آئیں تو چچی کے لیے قیمتی تحفے بھی لائیں کہ دیکھ کر ہماری چچی کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ انہوں نے بیس تولے سونے کے زیورات دینے کی پیشکش کے ساتھ نصرت کا رشتہ مانگ لیا۔
ان دنوں سونا اتنا مہنگا نہ تھا مگر چچی بیچاری کے پاس بہ مشکل ایک تولہ سونا زیورات کی شکل میں تھا۔ ان کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ یہی نہیں ان عورتوں نے بہت خوشامد کے ساتھ اور بھی بہت کچھ لڑکی کے نام کرنے کا عندیہ دیا۔ چچی نے جواب دیا۔ ضرور میں آپ کی بات پر غور کروں گی، پہلے شوہر کو راضی کرلوں۔ دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔ اصل فیصلہ تو اسی نے کرنا ہے۔ ہم عورتوں کو کب اختیار ہے اولاد کے رشتوں کو طے کرنے کا…!
چچا گھر آئے تو چچی نے صادق کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور بتایا کہ یہ بہت امیر لوگ ہیں، ہمیں بھی مالا مال کردیں گے۔ ہماری لڑکی عیش کرے گی۔ دوسری لڑکیوں کے بھی اچھے گھرانوں میں رشتے ہوجائیں گے۔ تم اپنے غریب رشتے داروں سے جان چھڑائو اور پرانی رسموں کو بدلو۔ اپنے بچوں کی زندگیاں دیکھو۔ ہمارا بیٹا بھی صادق کے ساتھ دبئی جاکر خوب کما کر لائے گا۔ گھر آئی دولت کو مت ٹھکرائو۔
بالآخر چچا، بیوی کی باتوں میں آگئے اور انور بھائی سے نصرت کا رشتہ کرنے کا خیال چھوڑ کر صادق کو داماد بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ حالانکہ وہ انور اور نصرت کی شادی کا پختہ ارادہ کرچکے تھے لیکن چند چمکتے سکوں نے اس بدصورت دبئی پلٹ کے رشتے کو محبت کے رشتے سے افضل کیا اور اپنی چاند جیسی بیٹی کو اس کے حوالے کرنے کا ارادہ کرلیا۔
انور کی دنیا اندھیری ہوگئی اور نصرت جیسی سیماب صفت لڑکی مٹی کا ڈھیر ہوگئی۔ وہ سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کرسکی۔ دادی اس رشتے کے حق میں نہ تھیں مگر بیٹے نے ان کی بھی نہ سنی، وہ دم بخود رہ گئیں۔ شادی میں دو دن باقی رہ گئے تھے جب نصرت کی چھوٹی بہن پیغام لائی کہ وہ انور سے ملنا چاہتی ہے۔ انور نے منع کردیا کہ اب اس مرحلے پر وہ نصرت کو تماشا بنانا چاہتا ہے اور نہ خود تماشا بننا چاہتا ہے۔
یہ دو دن بھی گزر گئے۔ برات شہنائیوں کے ساتھ آپہنچی۔ میرا دل شہنائیوں کی آواز پر رو رہا تھا اور انور صحن میں چارپائی پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ گھر میں مکمل اندھیرا تھا۔ آج اماں نے چراغ جلایا اور نہ دادی نے واویلا کیا کہ سرشام چراغ کیوں نہیں جلایا۔ سورج ڈوبنے سے پہلے دیا روشن کردیا کرو ورنہ گھر میں نحوست اُتر آتی ہے۔
ہم سب اندھیرے میں بیٹھے تھے اور دیوار سے اُدھر روشنی ہی روشنی تھی۔ چہل پہل، گہماگہمی تھی۔ اچانک ہمارے صحن میں بھی روشنی ہوگئی۔ آسمان پر پورے چاند کی روشنی اس روشنی کے سامنے ماند پڑ گئی کہ نیچے زمین پر ہمارے سامنے ایک قیامت سجی کھڑی تھی۔ یہ نصرت تھی جو اپنی بہن کے ساتھ اپنی بوڑھی نانی کا ٹوپی والا برقع اوڑھ کر آگئی تھی۔ وہ کیونکر گھر سے اتنے لوگوں کے بیچ سے نکل کر آئی تھی، یہ اچنبھے والی بات تھی۔ عروسی جوڑے میں ملبوس جبکہ اس کے سراپے سے خوشبوئوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ دادی غم زدہ کوٹھری میں سو رہی تھیں۔ اماں بھی ان کے ساتھ والی چارپائی میں دبکی پڑی تھیں۔ ابا اپنے بھائی کا دل رکھنے کو بادل نخواستہ شادی میں چلے گئے تھے۔ صحن میں، میں اور انور تھے۔
نصرت نے انور کا کندھا ہلایا۔ اب اٹھو! کیا عورتوں کی طرح منہ لپیٹے پڑے ہو۔ میں آگئی ہوں۔ اب لے چلو مجھے جہاں چاہو، چلنے کو تیار ہوں میں… میں اپنی کزن کی اس جرأت پر دم بخود رہ گئی۔ یہ دیہات تھا ،کوئی شہر نہ تھا کہ قانون کو گردانا جاتا۔ یہاں ایسے واقعات پر کلہاڑیوں اور ٹوکوں کی زبان میں فیصلے ہوتے تھے۔ بھائی چارپائی سے اٹھ بیٹھا اور نصرت کی طرف سے منہ پھیر کر بولا۔ بس! اب چلی جائو واپس اور اپنے ماں، باپ کی عزت کا خیال کرو۔ یہ وقت تمہارے یہاں آنے کا نہیں۔ اب وقت گزر چکا ہے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گیا۔
میری کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ دوڑی ہوئی کمرے میں گئی جہاں دادی اور اماں سو نہیں رہی تھیں، بس دم سادھے پڑی تھیں۔
انہیں صورت حال سے آگاہ کیا کہ عروسی جوڑے میں نصرت ہمارے گھر آگئی ہے اور واپس جانے کا نام نہیں لیتی۔ آپ آکر سمجھائیں۔ میں سمجھ رہی تھی کہ دادی اور میری ماں کے سمجھانے پر وہ واپس چلی جائے گی مگر وہ نہیں گئی۔ جب ہم تینوں باہر آئے، وہ صحن میں بھی موجود نہ تھی۔ ہم سمجھے واپس لوٹ گئی ہے مگر عجیب بات ہوگئی کہ دلہن غائب تھی۔ جیسے اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ہو۔ ہم چپ تھے کہ وہ کہاں گئی کیونکہ وہ ہمارے گھر میں بھی نہیں تھی۔ سارا گھر دیکھ کر لب سی لئے تھے۔
بہت شور مچا، طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ انور بھائی گھر سے نکلے تو باراتیوں کے ہمراہ شادی کے پنڈال میں جابیٹھے۔ وہ موجود تھے، ان پر شک کی گنجائش نہ تھی۔ ابا بھی ادھر ہی تھے۔ بارات تھوتھو کرکے واپس ہوگئی اور نصرت نہ ملی۔
دو دن گزر گئے تو اماں اچانک اناج والی کوٹھری میں گئیں۔ وہاں مٹی کی کوندی میں اناج بھرا ہوا تھا۔ وہاں سے خوشبو کی مہک آرہی تھی۔ اماں چارپائی پر چڑھ گئیں، کوندی میں جھانکا۔ نصرت اناج کے اوپر بے ہوش پڑی تھی، بھوکی پیاسی… انہوں نے شور مچایا۔ ابا گھر پر تھے، وہ دوڑے آئے اور انور بھائی کی مدد سے بہ مشکل نصرت کو باہر نکالا۔ کچھ دیر اور گزر جاتی تو شاید رُوح اس کے بدن کا ساتھ چھوڑ دیتی۔
آخری لمحات میں پتا چل گیا شاید اللہ کو اس کی جان بچانا مطلوب تھی۔ جلدی سے اس کے منہ میں پانی ڈالا اور پنکھوں سے ہوا دیتے رہے۔ تب اسے ہوش آگیا۔ اماں نے یخنی کا شوربا چمچہ چمچہ کرکے اس کے منہ میں ڈالا اور نصرت میں زندگی کی رمق لوٹ آئی۔ شکر ہے کہ اسپتال نہیں لے جانا پڑا۔ چچا، چچی کو بلایا۔ انہیں بیٹی کی حالت دیکھ کر احساس ہوا کہ زبردستی کی شادی کتنا بڑا ظلم ہوتا ہے جو وہ اپنی پیاری بیٹی پر رَوا رکھ رہے تھے۔ دادی نے بھی ان کو خوب سنائیں اور کہا کہ تم لوگ مانو یا نہ مانو، میں خود مولوی کو بلائوں گی اور انور سے نصرت کا نکاح کروں گی۔ دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ہے۔
نصرت کی لگن سچی تھی۔ اس نے جان پر کھیل کر بھائی کو پا لیا۔ وہ میرے بھائی سے زیادہ بہادر نکلی۔ اگرچہ سب اسے اس حرکت پر پاگل کہتے ہیں مگر وہ گائوں کی پہلی لڑکی تھی جسے اپنی جرأت سے انور نصیب ہوا۔ واقعی جیسا اس کا نام تھا، ویسی ہی وہ خود نکلی۔
آج اس واقعے کو چالیس برس بیت گئے ہیں۔ نصرت میری بھابی ہے اور میں اس کے بھائی کی بیوی ہوں۔ ہمارے رشتے آج بھی اتنے ہی گہرے اور مضبوط ہیں جتنے ہمارے بچپن میں تھے کیونکہ ہمارا بچپن، جوانی اور بڑھاپا سبھی محبت کی ڈور سے بندھا ہے۔
(ش۔ظ… ڈیرہ غازی خان)