Thursday, February 13, 2025

Mohabbat Ki Qeemat | Complete Urdu Story

رب ایسے بھی من چاہی خواہش پوری کرتا، وہ اپنے ناخنوں پر بنے دلکش ڈیزائن کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ دراز گردن میں فکس سسرال سے آئی چنے برابر ہیروں کی مالا کسی بے آرامی کے بغیر اس کی کھال کے ساتھ چپکی تھی۔  میسرہ راضی تھی۔ رضی الٰہی کی تیسری بیٹی  ، جسے ماں باپ کے بقول سب سے ضدی کہا جاتا تھا۔ اس نے اپنے لیے آئے ہر رشتے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے کوئی عملی مسلمان چاہیے۔ وہ خود بھی کچھ عرصہ قبل ہی ایک مقامی دینی تنظیم سے جڑنے کے بعد عملی مسلمان بنی تھی۔جب اسے فہم آیا تو اس نے اپنے سارے ملبوسات نئے سرے سے بنوائے اور زندگی کا طرزِ عمل تبدیل کیا۔ حلال کا نظریہ اس گھر میں خاصا واضح تھا، اس لیے سب نے اس کی اس تبدیلی کو نوٹ تو کیا لیکن کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ کسی کی ذاتی پسند یا نا پسند پر رائے دینا مداخلت گردانا جاتا تھا۔ چنانچہ جب میسرہ نے باب کٹ بالوں پر اسکارف لیا، تو گھر میں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اور پھر جب دو سول سروس سے جڑے دامادوں کے بعد میسرہ کے لیے میجر صاحب کے بیٹے کا رشتہ آیا، تو اس نے فوراً انکار کر دیا۔چلو، اچھا ہوا میسرہ نے خود ہی منع کر دیا، اس لڑکے کے بارے میں سنا ہے کہ اسے پینے پلانے کا شوق ہے۔سلیمہ رضی نے صبح سویرے لان سے توڑے ہوئے موتیا کے پھولوں کو پیالے میں بھرتے ہوئے اپنے میاں سے کہا، جو راکنگ چیئر پر بیٹھے  تسبیح کے دانے گرا رہے تھے اور بیوی کی بات سن کر خاموش رہے۔وہ شہری ہوابازی کے ایک ایماندار افسر کے طور پر نوکری کر رہے تھے اور پچھلے دو برس سے عدالتی مقدمے کا سامنا کر رہے تھے۔ مصالحت ہر وقت سامنے تھی: یا تو عہدہ چھوڑ دیں یا اپنی ایمانداری۔ دونوں میں سے کسی پر رضی الٰہی کے انکار نے معاملے کو لٹکا رکھا تھا۔ یہ سال خاصا نازک تھا۔ کیس اچانک جج  تبدیل کر دیا گیا، اور اس بار ان کا لہجہ اور تاثر دونوں پچھلے جج  سے مختلف اور تیکھے تھے۔ایسے میں میسرہ کی شوہر کے حوالے سے فرمائش بھی ان کے لیے درد سر بن رہی تھی۔ اس کی پسند کا لڑکا ان کے ارد گرد موجود نہیں تھا۔چار بیٹیاں وہ پہلے ہی بیاہ چکے تھے اور ان کی ایسی کوئی خاص پسند نہیں تھی، مگر میسرہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کی شادی کے بعد بھی نیک مرد کے تصور سے دستبردار نہیں ہوئی۔ نیک مرد ایسا تھا کہ غائب تھا۔ بظاہر اچھے رشتے وہ اس لیے مسترد کر دیتی کہ ان کے ہاں دین داری نہیں تھی۔ سلیمہ رضی کو میسرہ کی عمر کے ستائیسویں برس میں بڑی جدوجہد کے بعد اس کی شرائط پر پورا اترنے والا رشتہ مل ہی گیا۔ لڑکا شہر کے مشہور ہسپتال میں ڈاکٹر تھا اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کا ناک نقشہ بھی بہت اچھا تھا، اتنا اچھا کہ میسرہ رضی اس کے سامنے دب سی گئی۔ میسرہ نے ہر وقت “الحمد للہ” کی تسبیح جاری رکھی۔ اس کا خیال تھا کہ ہر اچھی چیز پر نظر لگتی ہے، اور اس کا ہونے والا شوہر حمزہ بھی کئی پہلوؤں سے بہت اچھا تھا۔نسبت طے ہونے کے بعد شادی کے دوران ایک ماہ کا وقفہ تیزی سے گزرا اور نکاح و رخصتی تک پہنچ گیا۔ میسرہ نے گھونگھٹ تو نہیں نکالا تھا، لیکن عروسی کمرے میں پہنچ کر نگاہیں ضرور جھکائے رکھیں۔ حمزہ کی پہلی بات سنتے ہی جس تیزی سے اس کی خوشیوں پر پانی پھرا، دیکھنے والا اس میں بے یقینی صاف دیکھ سکتا تھا۔ میری چار بہنیں ہیں اور ایک ماں، تم مجھے اپنی پانچویں نند اور دوسری ساس ہی سمجھنا۔ یہ تھا وہ پہلا جملہ جو نئے دولہا نے اپنی نئی دلہن سے رونمائی کرتے ہی بے حد سنجیدگی سے کہا۔ میسرہ رضی کی گزشتہ دو ماہ سے جاری تسبیح کو اس جملے نے جھٹکا دیا اور وہ گنگ ہو گئی۔ اسے فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ یہ شوخی ہے یا سنجیدگی۔ وہ خود بہت سنجیدہ مزاج تھی، اس کے باوجود وہ اس کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ کوئی میٹھی بات، کوئی شوخ جملہ نہ سہی، کم از کم ایک توصیفی نظر ہی ۔ اس کے دل کو شدید چوٹ لگی۔پھر بھی وہ حمزہ کی بات کا مطلب نہیں سمجھ پائی۔ انہی سوچوں میں الجھتے ہوئے اس کی پوری رات گزر گئی۔ حمزہ کا کھردرا رویہ اسے بہت برا لگا۔
☆☆☆

بڑی بیٹی پابندی کے ساتھ باپ کو ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے لے کر جاتی، وقت پر سواری، میڈیکل رپورٹس، اور تمام انتظامات و دیکھ بھال میں اس کے شوہر کا پورا تعاون ہوتا تھا۔ دوسری بیٹی روزانہ دو بار آتی تاکہ امی ابو کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ اس کے شوہر نے اپنے گھر کی اس عارضی بے ترتیبی پر کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ لیکن یہ ان دونوں کے لیے ممکن تھا کیونکہ وہ مکمل طور پر خود مختار تھے۔ دونوں چھوٹیاں اس حد تک نہ کر رہی تھیں اور نہ کر سکتی تھیں۔ میسرہ کا تو ہر ہفتے آنا ہی بہت تھا۔ جب وہ آتی تو اکیلی ہی آتی، کیونکہ حمزہ شادی کی رسومات کے بعد ساس سسر سے ملا ہی نہیں تھا۔ میکے میں میسرہ کو کوئی طعنے تو نہیں دیتا تھا، لیکن جب بھی کوئی یہ کہتا کہ عمل نہ کرنے والا (نان پریکٹسنگ) مسلمان گھرانہ تو بہتر ہے، تو وہ کٹ کر رہ جاتی۔ سب جانتے تھے کہ حمزہ اور اس کے گھر والوں کا اپنا قصور تھا۔ دین کا نہیں، لیکن اخلاق کا علم تھامنے والوں میں بھی ان کے رویے نے دوسروں کے عقیدے کو متاثر کر دیا تھا۔میسرہ، اپنے گھر کے ماحول کی وجہ سے کھانے پکانے میں خاصی ماہر نہ تھی۔ بچپن سے ہی اس نے تمام کاموں کے لیے مددگار دیکھے تھے۔شادی کے بعد، جب اس نے نئے ماحول میں ضم ہونے کے لیے کھانا پکانے کی کوشش کی، تو کم ذائقے والے کھانے کی وجہ سے اس کا کچن میں جانا ممنوع کر دیا گیا۔بی بی! چیزوں کا ستیا ناس نہ کیا کرو، رزق ضائع مت کرو۔ساس نے مہنگے ٹماٹروں کی پتیلا بھر چٹنی کو زبان پر رکھتے ہی سخت تیور سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ گھبرا گئی۔ چٹنی واقعی عجیب ذائقے کی بنی تھی۔میسرہ کو حیرت ہوئی کہ امی کے گھر میں وہی ترکیب استعمال کرتے ہوئے چٹنی کیسے مزیدار بنتی تھی، جو فوراً ختم ہو جاتی تھی۔میسرہ نے دکھ بھرے دل کے ساتھ چولھے پر رکھی ٹماٹر کی چٹنی پر افسردہ نگاہ ڈالی۔ ساس کی ڈانٹ نے اس کے حوصلے توڑ دیے تھے۔ تعریف کی امید پر شروع کیا گیا کام سرزنش پر ختم ہو گیا۔جب شام کو حمزہ کام سے لوٹا اور سینڈوچ کے ساتھ ٹماٹر کی طلب ہوئی، تو ٹماٹر کی چٹنی اور رزق کے ضیاع کا قصہ دوبارہ چھڑ گیا۔بہو بیگم سے کہہ دیا ہے میں نے کہ آئندہ کچن جانے کی ضرورت نہیں کچھ پکانے کے لیے۔امی کی بات سن کر حمزہ نے سینڈوچ پر ہی توجہ مرکوز رکھی اور سامنے بیٹھی میسرہ کے دل میں اس رویے سے مزید دکھ بھر گیا۔ اس نے بھرائی ہوئی نگاہ سے حمزہ کی طرف دیکھا، کہ شاید وہ اس کے لیے کوئی حمایت کرے، لیکن حمزہ کی بے تاثر کیفیت دیکھ کر میسرہ کے دل میں اس کے لیے بددلی پیدا ہوگئی۔ اسے بھی تعجب ہوتا کہ میسرہ رضی کو کیا اس کی قیمت صرف اتنی ہے کہ اس کی ہر مرضی چھین کر اسے بس منکوحہ کا لیبل دیا جائے؟ لیکن اس کی ان باتوں کا جو جواب اس کے میکے کے پاس تھا، وہ دراصل اس کے انتخاب پر ہی اعتراض تھا۔ سوئیٹ ہارٹ، یہ جو نیک دکھتے ہیں نا، یہ ہی سب سے زیادہ فیک نکلتے ہیں۔ بڑی بہن نے اسے اپنی محبت سے چمٹاتے ہوئے سرگوشی کی تھی، اور وہ بس اسے دیکھتی رہی۔ کچھ عرصہ اور دیکھ لو، لیکن کوئی فیملی بنانے کی حماقت مت کرنا۔ تم سمجھ رہی ہو نا، میں کیا کہہ رہی ہوں؟ بہن نے میسرہ کے سرد ہاتھ تھامے۔رات آئی لیکن راحت نہ لائی۔ عورت کو قربت سے پہلے محبت مطلوب ہوتی ہے، جو حمزہ سے روز بروز کم ہوتی جا رہی تھی۔اسے لگتا تھا کہ وہ ایک خریدی ہوئی شے کے مانند اس گھر میں ہے، جس پر ہر کوئی اپنی مرضی سے حاکمیت جتا رہا ہے۔ کسی نے بھی اس کی کسی بھی بات کو سراہا نہیں، اسے محبت سے نوازا نہیں۔حمزہ واحد شخص تھا جو اس کی باتوں پر نہ تو توجہ دیتا تھا، نہ اسے کسی قسم کی حمایت فراہم کرتا تھا، اور نہ ہی اسے دوسروں کی بدسلوکی سے محفوظ رکھتا تھا۔ ایسے میں میسرہ کا رنگ و روپ کیا سنورتا، وہ زرد پڑنے لگی تھی۔جذبات کی شدت کے دوران میسرہ کا غصہ حمزہ پر کھل کر واضح ہونے لگا تھا۔ حمزہ چڑ کر اس کے ساتھ تکلیف دہ رویہ اپناتا، جس سے میسرہ کی کھال پر خون کے نشانات جگہ جگہ دکھائی دینے لگے تھے۔میسرہ تکلیف سے جب ہوش میں آتی تو اس کا دل چاہتا کہ وہ حمزہ پر تمام غم و غصہ نکال دے، لیکن ایسا نہ ہو سکا، اور فیملی بڑھنے کے آثار شروع ہونے لگے۔ اسے بہن کی محبت بھری نصیحت یاد تھی، سو اس نے زندگی کو بہتر دیکھنے سے قبل اس معاملے کو ختم کرنا مناسب سمجھا۔ وہ اپنے ہونے والے بچے کو زندگی افزا ماحول میں پروان چڑھانا چاہتی تھی، لیکن اس کے ساتھ نہ تو کوئی گل پاشی ہوئی تھی اور نہ ہی اس کے بچے کے لیے کوئی خوشی منائی گئی تھی۔ بس ذرا سی ہی چوک ہوئی، اور رپورٹ کی ہارڈ کاپی حمزہ کے ہاتھ لگ گئی۔
☆☆☆

وہ میکے گئی ہوئی تھی۔ ہاں امی ابو کے پاس بیٹھی پورے چھ ماہ بعد ہنس رہی تھی ۔ شاید دل میں کیے فیصلے نے اسے اتنا شانت کر دیا تھا کہ چہچہاہٹ اس کی آواز میں در آئی تھی-تمہارا انتخاب کیسا رہا مسیره؟ ابو نے اتنے اچانک غیر متوقع سوال کیا کہ وہ سوال کا پس منظر سمجھےبغیر ہی سرعت سے بولی۔ ابو، وال ڈیزائن اچھا نہ بنا-میں تمہارے پینٹ کا نہیں، تمہارے ہمسفر کا پوچھ رہا ہوں۔ وہ چپ کی چپ رہ گئی۔ابو، زندگی بہت ٹف ہے، اور ٹف نیس کا آخری سرا کدھر ہے، مجھے دکھائی نہیں دیتا۔اس کی آواز میں آزردگی تھی-باپ نے اپنی بیٹی کو بے قرار نگاہوں سے دیکھا جس نے انسان کی نیکی چاہی تھی ، اور اب وہ غمگین تھی۔ میسرہ ! تم کیا چاہتی ہو اب ؟ وہ چپ رہی۔ٹھیک ہے، میں حمزہ سے بات کرتا ہوں، ہو سکتا ہے، بہتری کی کوئی راہ نکل آئے ، والدین کی نگاہ بیٹیوں کے حالات پر پنی بہتر رہتی ہے۔ میسرہ نے ستے ہوئے چہرے سے باپ کو دیکھا، اسے کہیں موہوم سی امید تھی کہ ابو حمزہ سے اس کی علیحدگی پر سوچیں گے لیکن یہ تو گفتگو کا سوچ رہے ہیں۔
☆☆☆

اسے آئے تیسرا دن تھا ، رضی صاحب نے حمزہ کو بڑی محبت سے کھانے کی دعوت دی، جسے وہ کچھ پس و پیش بعد مان گیا۔حمزہ آیا ، کھانا اچھے ، ماحول میں کھایا گیا، میسرہ ، سرخ لپ اسٹک کے ساتھ سرخ آویزوں میں بہت لکش لگ رہی تھی، میاں کی نگاہیں اس پر گا ہے گا ہے اٹھیں مگر وہ بے نیازی سے کھانے اور پھر کام میں مصروف رہی۔ وہ اپنی پسند کے حساب سے تیار ہوئی تھی، حمزہ کی موجودگی سے اسے کوئی فرق نہ پڑ رہا تھا، اس کا دل بہت زخمی تھا۔ ہاں تو بیٹا میسرہ آپ کو کیسی بیوی لگیں ؟ ابو نے قہوہ پیتے سرسری انداز میں حمزہ کو مخاطب کیا۔ میسرہ اچھی بیوی نہیں ہیں انکل ۔ اس کے اتنے سپاٹ جواب نے کمرے میں یک دم سناٹا طاری کر دیا، سلیمہ رضی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن میاں کے تاثرات پہچان کر خاموش رہیں۔ رضی صاحب نے لمحہ بھر کے سکوت کے بعد قہقہہ لگاتے داماد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میر و بیٹی تو بہت اچھی ہے، بیوی اچھی اگر نہیں تو مطلب ہے کہ میاں سے شکایت ہوگی اسے بھی۔ اور بیٹا! مجھے ان ساری شکایتوں کا علم ہے۔ حمزہ نے پہلو بدل کر میسرہ پر نظر ڈالی اور کھڑاہو گیا۔ٹھیک ہے جب ان کو شکایتیں نہ رہیں تو بھیج دیجیے گا اس کو میرے گھر -رضی اللہ صاحب نے چھڑی کے سہارے کھڑے ہوتے بیٹی پر نگاہ ڈالی جس کے چہرے پر جالا سا بن رہا تھا – حمزہ میری بیٹی نے نیک مرد چاہا تھا، اور نیک مرد بیوی کو مار جن دیتے ہیں ، ان کی کمزوریوں کے باوجود -ہماری بیٹی میسرہ بھی اچھی انسان ہے۔ کچھ توقف کے بعد وہ مضبوط لہجے میں بولے تو حمزہ نے گردن گھما کر بے اختیار بیوی کو دیکھا۔پر فیوم کی بھینی بھینی خوشبو اس کے وجود کو سحر انگیز کر رہی تھی۔ چلو اس نے یک دم میسرہ کی کلائی پکڑ لی – ماں باپ دونوں ہی خاموش تھے، وہ چاہتی تھی کہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لے لیکن ابو نے مداخلت کی۔ تم باہر چلو، یہ اپنا ہینڈ بیگ لے کر آرہی ہے۔رضی صاحب کی بات سن کر وہ لب بھینچتا باہر کی جانب روانہ ہوا تو وہ بے اختیار ماں کے گلے لگ کر سکیاں لینے لگی۔ماما! میرا وہاں دم گھٹتا ہے، وہ لوگ مجھے بلیڈ جیسے لگتے ہیں ۔ میری بیٹی! میری میسرہ! مجھے امید ہے تمہاری زندگی میں بہتری کے آثار نظر آنے شروع ہونے والے ہیں ان شاء اللہ – ہم تمہارے ساتھ ہیں بیٹا۔ باپ نے اسے کندھے سے لگا کر ماتھا چوما اور گیٹ کے باہر کھڑی گاڑی میں اس کو بیٹھتا دیکھ کر آسمان کی جانب دیکھا جو بہت روشن تھا۔ لگتا تھا کہ پچھلی رات تہجد میں میسرہ کی آسانیوں کے لیے مانگی دعا رب تک پہنچ چکی ہے۔
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS