یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور ہمارے بزرگ جالندھر سے ہجرت کر کے سر زمین پاک آگئے۔ پہلے پہل لاہور مہاجر کیمپ میں ٹھہرائے گئے، بعد ازیں ہمارے نانا اور والد صاحب کو دو مکان فیصل آباد میں الاٹ ہو گئے۔ نانا اور ابو کا جو تھوڑا بہت سرمایہ تھا جالندھر میں رہ گیا اور اب نئے سرے سے زندگی کے سفر کو جاری و ساری رکھنے کی خاطر کوشش کرنی تھی۔ ہندوستان میں نانا ریلوے میں ملازم تھے۔ کچھ تگ و دو کے بعد پاکستان ریلوے میں ملازمت مل گئی اور زندگی کی گاڑی خوش اسلوبی سے چل پڑی۔ والد صاحب بے روز گار تھے کچھ عرصہ بعد نانا کی کوششوں سے ان کو بھی ریلوے میں ملازمت مل گئی تو ہمیں بھی سکھ چین سے روٹی میسر آنے لگی۔ بہت زیادہ خوشحالی نہ سہی اب گزر بسر تو عزت سے ہو رہی تھی۔ ان دنوں میں دس برس کی اور چھوٹے دو بھائی بہن تھے، کنبہ زیادہ بڑا نہیں تھالیکن دو بن بیاہی پھوپھیاں ساتھ رہتی تھیں۔ یہ جھگڑالو قسم کی تھیں، میری والدہ سے گھریلو کام کاج پر جھگڑا کرتیں۔ دادی بیٹیوں کی طرفداری میں بہو کو مورد الزام ٹھہراتیں، تبھی میری ماں کا دل افسردہ رہتا تھا۔ دراصل پھوپھیاں چاہتی تھیں کہ گھر کا تمام کام امی کریں جبکہ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی انہی پر تھی۔ انہی حالات میں میرے بھائی رمیز نے جنم لیا۔ امی نے اسے نانی جان کو دے دیا اور کہا کہ آپ پرورش کریں مجھے تو گھر کے کام سے ہی فرصت نہیں، بچے کو کیسے پالوں گی۔ یہ قدم انہوں نے نندوں کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے اٹھایا تھا۔ نانی کا گھر ہمارے مکان سے متصل تھا۔ والدہ ننھے کی دیکھ بھال کر لیتی تھیں کیونکہ نانا کے مکان کے بیچ ایک دیوار تھی جس میں دروازہ بنالیا تھا۔ گھر کے اندر سے ہی ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ ممانی نیک خاتون تھیں، ننھے رمیز کی پرورش میں اپنی ساس کی مدد گار ہو گئیں۔ یوں میرے نو مولود بھائی کی پرورش نانی کی گود میں بہت اچھے طریقے سے ہونے لگی، خاص طور پر نانی اس پر جان نچھاور کرتی تھیں۔ کچھ سال بعد ماموں کی ترقی ہو گئی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ پرانے گھر کو ٹھیک کرالوں۔ یہ ایک ہندو کا مکان تھا جو نانا کو الاٹ ہوا تھا اور یہ خاندان قیام پاکستان کے وقت بھارت ہجرت کر گیا تھا۔ مکان کا فرش اب خاصا خراب ہو چکا تھا، درودیوار گرچہ مضبوط بنائے گئے تھے تاہم پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا اور مرمت کی حاجت تھی۔ نانا جان ریٹائر ہو چکے ے تھے ، انہوں نے اپنی نگرانی میں کام شروع کرادیا۔
جب نانا کے کمرے کی دیواروں کا پلستر جو کہ بوسیدہ ہو رہا تھا اکھاڑا گیا تو دیوار کے اندر کچھ دفن محسوس ہوا۔ دراصل یہ ایک تجوری تھی جس کو دیوار میں چن کر اوپر سے پلستر کر دیا گیا تھا۔ پرانا پلستر اترتے ہی لوہے کی الماری نما تجوری برآمد ہو گئی، جو بہت مضبوط تھی اور اس کا کھولنا آسان نہ تھا لیکن کام کتنا ہی مشکل ہو ہمت سے بالآخر تکمیل پا جاتا ہے۔ بہر حال نانا تجوری کو کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔ تجوری کے اندر سونے چاندی کے زیورات، اشرفیاں، جواہر اور ہیرے موتی غرض ہجرت کر جانے والے خاندان کا کل اثاثہ رکھا تھا۔ وہ اس خیال سے اسے دیوار میں چین گئے تھے کہ شاید کبھی واپس آنا ہو گا تو اپنا مال نکال لیں گے لیکن یہ ان کی قسمت میں نہ تھا بلکہ یہ مال غنیمت میرے نانا کی قسمت میں لکھا تھا جو ان کو گھر بیٹھے مل گیا۔ کہتے ہیں اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ نانا تو اپنی قسمت پر نازاں تھے۔ انہوں نے اس بارے میں کسی کو نہ بتا یا حتی کہ میرے والدین کو بھی نہیں، سوائے ماموں کے جوان کے بیٹے تھے۔ اب میرے سفید پوش نانا کروڑ پتی تھے، مگر طرز زندگی میں تبدیلی نہیں لا رہے تھے، کہیں کسی کو شک نہ ہو جائے کہ وہ بیٹھے بٹھائے امیر کبیر کیسے ہو گئے۔ ظاہر ہے انسان کے دوست کم اور حاسد زیادہ ہوتے ہیں، اگر کسی کو مفت کا خزانہ مل جائے تو اس کی جان کے در پہ بھی ہو جاتے ہیں۔ نانا کی شرافت پر کسی کو شبہ نہ تھا، اسی بنا پر بیٹی کا رشتہ ایک اچھے خاندان سے آگیا۔انہوں نے زاہدہ خالہ کو اعلیٰ جہیز دیا۔ یوں کہنا چاہئے کہ سونے چاندی میں تول کر رخصت کیا اور عالی شان طریقہ سے شادی کی تبھی لوگوں کی نگاہیں خیرہ ہو گئیں۔ اب سبھی کے لبوں پر یہ الفاظ تھے کہ بھئی یہ تو خاندانی رئیس معلوم ہوتے ہیں، شاید کہ کسی محفوظ طریقہ سے اپنا زر و اثاثہ منتقل کروایا ہوگا، لیکن پوشیدہ رکھا اور خود کو سفید پوش ظ و سفید پوش ظاہر کرنے کی خاطر سادگی سے زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ لیکن دولت کے تو پر ہوتے ؟ ہیں یہ چھپائے نہیں نہیں چھپتی ، لہٰذا خاندان ندان والوں والوں پر پر بہت بہت جلد جلد ان ان کی کی امیری ظاہر ہوگئی۔ نانا کے گھر میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا، وہ کہتے تھے کہ رمیز کی قسمت سے مجھے اتنی دولت ملی ہے کہ اب سارا خاندان بیٹھ کر کھائے تو بھی عمر بھی ختم نہ ہو گی۔ رمیز کی پیدائش کے دو برس بعد ممانی نے ایک بیٹی کو جنم دیا جس کا نام ربیعہ رکھا گیا۔ دونوں بچوں کی پرورش ممانی نے ناز و نعم سے کی اور جوان ہونے تک رمیز انہی کے پاس رہا۔ ان سے جو لاڈ پیار ملا وہی اس کی اور پورے خاندان کی تباہی کا باعث بنا۔
رمیز کی عمر بیس برس ہو گی، جب نانا اور پھر نانی وفات پاگئے۔ ان کی وفات کے بعد امی جان کو بھی نانا کی وصیت کے مطابق ترکے میں سے کافی رقم ملی، یہ دولت کیا آئی تباہی نے ہمارے گھر میں قدم جمالئے۔ پہلے جو رشتہ دار محبت سے ملتے تھے اب کچھ خوشامدی بنے اور کچھ ہمارے دشمن ہو گئے۔ جب تک پھوپھیوں کی شادیاں نہ ہو گئیں انہوں نے امی کو زندہ در گو کو زندہ در گور رکھا، بعد میں روپے پے در گور رکھا، بعد میں روپے پیسے کی خاطر ابو نے میری والدہ کو ستانا شروع کر دیا۔ دولت تو میری ماں کو نانا کی وصیت کے مطابق ماموں سے ملی، لیکن گھمنڈا بو کو ہو گیا۔ انہوں نے اچھی بھلی نوکری کو خیر آباد کہہ دیا اور گھر بیٹھ رہے کہ گھر میں پڑے دانے تو بلا جائے کھانے۔ کہتے ہیں کہ کمانے سے جی چرا ئو تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جن دنوں میں بی اے کے آخری سال میں تھی، ہمارے معاشی حالات خراب ہو نا شروع ہو گئے۔ والد صاحب نے لڑ جھگڑ کرامی کے نام کاروپیہ اپنی تحویل میں کیا لیا کہ پھر اللے تللوں میں روپیہ اڑانے لگے، یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب وہ خالی جیب رہ گئے۔ گھر کے حالات دیکھ کر میں والدہ سے زیادہ متفکر رہنے لگی۔ والدہ کے زیورات سبکتے تو گھر کا خرچہ چلتا۔ ایسے میں دل احساسات کی آگ میں جل رہا تھا۔ اب بھی امی نے ہمت کی اور گھر کے اخراجات پر کنٹرول کیا۔ بی اے کے بعد میں نے بی ایڈ میں داخلہ لیا اور پھر ملازمت مل گئی۔ کیونکہ رمیز سے تو کوئی امید نہ تھی اور میرے بعد کے بھائی عزیز کا یہ حال تھا کہ میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور معمولی نوکری ڈھونڈنے کے چکر میں رہنے لگا تھا۔ چھوٹی بہن شاہ بانو اسکول جارہی تھی، کیونکہ وہ بھی آنے والے حالات کی سنگینی کا احساس کر چکی تھی۔ رمیز کے لاڈ اٹھانے والے دنیا میں نہ رہے تو ماموں نے اسے کچھ کام کرنے کو کہا۔ وہ برامان کر ہمارے پاس آگیا۔ والدہ بھی چاہتی تھیں کہ وہ ان کے پاس آجائے کیونکہ ماموں کی بیٹی ربیعہ جوان ہو چکی تھی، رشتہ دار باتیں بنانے لگے تھے اور یہ بات ممانی کے لئے باعث پریشانی تھی۔ ہم تو خوش تھے کہ ہمارا بھائی مستقل آگیا ہے۔ کیا جانتے تھے کہ اس بھائی کے روپ میں تباہی نے ہمارے گھر میں قدم جما لئے ہیں۔اب پتہ چلا کہ نانا اور نانی کے لاڈ پیار نے اسے کہیں کا نہیں رکھا، غلط سوسائٹی او باش دوست ۔ نانا، نانی کے ہوتے نوٹوں سے جیبیں بھری ہوتی تھیں۔ جو نہی ماموں ممانی نے ذرا سار و یہ بدلا وہ جھگڑالو مزاج ہو گیا۔ اب انہی کا دشمن تھا جنہوں نے خون پسینہ ایک کر کے پروان چڑھایا تھا اور مفت کی دولت سے عیش کرایا، شہزادوں کی مانند رکھا۔ نانی تو اس پر ہزاروں لٹا دیتی تھیں۔
ماموں ممانی نے ہاتھ روک لیا تور میز امی ابو سے وہی عیش چاہنے لگا۔ یہاں سے تو دولت رخصت ہو چکی تھی،ان میں اسے کیسے عیش کراتے۔ روکھی سوکھی دیکھ کر اس کا مزاج بگڑ جاتا، ایسے چیختا چلاتا کہ سارا گھر کانپ اٹھتا۔ دولت کا مزہ اس کے منہ کو لگ چکا تھا اور اب گوشت خور چیتا گھاس نہیں کھا سکتا تھا۔ رمیز کی بد تمیزیاں رشتہ داروں کو ناگوار گزرنے لگیں۔ سب جانتے تھے یہ نانا کی دولت سے حصہ پائے گا، تبھی ہر رشتہ دار اپنی لڑکی رمیز کے پہلے باندھنے پر تیار تھا۔ خاندان کی اکثر لڑکیاں اس کے قریب آگئی تھیں۔ جب وہ ماموں کے گھر کو چھوڑ کر آگیا تو یہ لوگ چوکنے ہو گئے، سوچا کیا خبر ماموں آئندہ اسے کچھ دے نہ دے، وہ از خود دوری اختیار کرنے لگے ، تاہم رمیز ان کی لڑکیوں سے ابھی تک ناتا جوڑے تھا اور وہ بھی چھپ چھپ کر میرے بھائی سے ملاقاتیں جاری رکھے تھیں۔ مجھے اچانک ہی یہ جان کر صدمہ ہوا کہ میرے بھائی نے ان لڑکیوں کے ایسے ثبوت اکٹھے کر رکھے ہیں کہ اگر بلیک میل کرنا چاہے تو منٹوں میں کئی گھرانوں کی عزت نیلام ہو سکتی تھی۔ عزیز بھائی ہمارے مستقبل کو سنوارنے کی فکر میں گھلا جا رہا تھا اور یہ بھائی تھا کہ اپنے محسن ماموں کی بیٹی ربیعہ تک کو بے وقوف بنا کر لوٹنے کے چکروں میں رہتا تھا، حالانکہ ایک لحاظ سے وہ اس کے لئے بہن جیسی تھی کہ اس ماں نے رمیز کو بیٹے کی مانند پالا تھا۔ ہم تو ان دونوں کو بھائی اور بہن جانتے تھے، معلوم نہیں کہ ان کی آپس میں محبت کس نہج کی تھی۔ ایک روز میں نے فون پر بھائی کی گفتگو سن لی، وہ ربیعہ سے کہہ رہا تھا کہ تم اپنی ماں کی الماری سے پچاس ہزار روپے کسی بہانے سے اڑا لائو، مجھے سخت ضرورت ہے۔ دیکھوا گر تم رقم لے کر نہیں آئیں تو میں تمہارے رازوں کے ثبوت سب کو دکھادوں گا۔ مجھے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا کہ میرا بھائی ایسی گری ہوئی باتیں کر سکتا ہے۔اسے ربیعہ سے محبت تھی تب بھی اور نہیں تھی تب بھی، وہ اس کے ماموں کی بیٹی تو تھی، رمیز کو ایسی بات نہ کہنی چاہئے تھی۔ نہیں جانتی تھی کہ رہ کہ رمیز کے پاس ایسے کیا ثبوت ہیں جن کو ظاہر کرنے کی وہ دھمکی دے رہا تھا۔ تاہم کوئی ایسی بات تھی ضرور کہ جب وہ شام کو پارک سے لوٹا تو اس نے کوئی چیز اپنی الماری میں رکھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر چلا گیا۔ میں نے چھوٹی میز الماری کے پاس رکھی اور اوپر چڑھ کر دیکھا، چابیاں الماری کی چھت پر رکھی ہوئی تھیں۔ رمیز کی عادت تھی کہ وہ چابیاں الماری پر ڈال دیا کرتا تھا۔ ہم میں سے کوئی بھی چابی اٹھاتا اور نہ اس کی الماری کو کھولتا تھا۔
آج حسب عادت اس نے یہی کیا، لیکن میں فون پر اس کی ربیعہ سے گفتگو سن چکی تھی لہذا اس کے جاتے ہی چابیاں اٹھا کر الماری کھول لی، یہ دیکھنے کے لئے کہ اس نے کیا شے الماری میں چھپائی ہے۔ جب سیف کو کھولا تو ایک پوٹلی مل گئی جس میں کنگنوں کی جوڑی تھی۔ یہ قیمتی جڑائو کنگن تھے جنھیں میں نے ربیعہ کو پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ گویا خاندان کی عزت کو بدنامی سے بچانے کی خاطر اس بیچاری نے اپنے کنگنوں کی قربانی دی تھی۔ اب تو اور بھی کرید لگی، ایسی کو نسار از ہے جس کے طشت از بام ہونے سے وہ ڈر رہی ہے۔ وہ اس کی طرف سے لکھے ہوئے محبت نامے ہو سکتے ہیں ؟ لیکن دونوں ایک گھر میں رہتے تھے ان کو محبت نامے لکھنے اور خط و کتابت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ سوال میرے دل میں سانپ کی طرح پلنے لگا جو ہر لمحہ مجھے ڈستا رہتا۔ جب ربیعہ کودیکھتی وہ پہلے سے زیادہ پریشان دکھائی دیتی۔ رفتہ رفتہ وہ سر جھکائے ہوئے سرسوں کا پھول ہو گئی۔ اب مجھے اپنے بھائی سے نفرت اور ربیعہ سے ہمدردی محسوس ہونے لگی۔ جب ماموں کے گھر جاتی اس سے یہی سوال کرتی۔ ربیعہ سچ بتائو تجھے کیا غم لگا ہے۔ کیوں اندر اندر مری جاتی ہو ؟ وہ کہتی کچھ نہیں ہے۔ کوئی غم تو ہے جو تم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اگر اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو تو بتادو۔اس امر میں کوئی مشکل تو نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ وہ ٹال جاتی تھی۔ اصل مسئلہ تو شادی اور محبت کا نہیں خوف کا تھا۔ رمیز نے پہلے اس سے محبت کا کھیل کھیلا اور اغلب تھا کہ دونوں کی شادی ہو جاتی۔ ماموں ممانی بھی یہی چاہ رہے تھے لیکن ماموں پر رفتہ رفتہ بھید کھلنے لگے کہ رمیز نہ صرف شراب پینے لگا ہے بلکہ اس کے مراسم غلط عورتوں سے ہیں۔ وہ آوارہ دوستوں کے ساتھ غلط قسم کی جگہوں پر جانے لگا تھا۔ ماموں نے پہلے پیار سے سمجھایا پھر سختی سے روکا، یہاں تک کہ جیب خرچ بند کر دیا اور گاڑی بھی اپنی تحویل میں لے لی۔ تنبیہ کی کہ پہلے کچھ کام کاج کرو تو ہی کچھ ملے گا۔ انہوں نے ایک دوست سے بات کر کے فرم میں ملازمت بھی دلوادی، لیکن رمیز نه سدهر سکا بلکہ ماموں سے جھگڑ کر ہمارے گھر آگیا اور ملازمت سے انکار کر دیا۔ ماموں کی شرافت کہ انہوں نے امی ابو سے رمیز کی شکایت نہ کی اور خاموش ہو رہے کہ شاید یہ سدھر جائے تو اپنی بیٹی اسی سے بیاہ دیں گے۔ رمیز سدھرنے والوں میں سے نہ تھا۔ ماموں کے احسانات کا احساس کرنے کی بجائے اس نے اور زیادہ بگاڑ پیدا کر دیا۔ وہ ان کے ساتھ بد تمیزی سے گریز نہ کرتا۔ امی ابو نے روکا، ان کے منہ کو آنے لگا اور گھر میں چیخنے چلانے کو معمول بنا لیا۔
اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ روپیہ کھسوٹو اور عیش کرو۔ بیچاری ربیعہ کی یہی خطا تھی کہ وہ رمیز سے پیار کرتی تھی۔ اسے ہماری نانی نے یقین دلایا تھا کہ رمیز کی دلہن ربیعہ ہو گی اور جو کچھ دولت و سر مایہ نانا اور ماموں کا ہے وہ رمیز اور ربیعہ دونوں کا ہے۔ امی اب پچھتاتی تھیں کہ کیوں رمیز کو نانی کی گود میں دیا تھا۔ دولت ان کو اتفاقیہ ہاتھ لگی۔ دولت نے رمیز کو بگاڑ دیا اور اب وہ عیش و آرام کا ایسا عادی ہو گیا کہ تنگی، ترشی کو قبول ہی نہیں کرتا تھا۔ کاش کہ اپنے گھر کی غربت میں پلتا تو ایسا نہ بگڑتا۔ میں نے ٹھان لی کہ ربیعہ کا راز جان کر رہوں گی اور اسے خوف سے نجات دلوائوں گی کہ جس خوف سے وہ مری جاتی تھی لیکن کسی کو کچھ نہ بتاتی تھی۔ اسی ٹوہ میں ایک روز میں نے دوبارہ بھائی کی الماری کی چابیاں چرا لیں جبکہ وہ گھر نہ تھا اور قریبی بازار سے ان چابیوں کی ڈپلی کیٹ بنوالائی۔ اب میں موقع کی تلاش میں تھی کہ کسی دن رمیز کسی دوسرے شہر جائے تو میں اچھی طرح اس کی الماری کی تلاشی لے سکوں۔ یہ موقع بھی مل گیا۔ ایک دوست کی شادی میں دو دن کے لئے وہ لاہور گیا۔ تب رات کو جبکہ سب سور ہے تھے میں نے اس کی الماری کھولی اور خوب اچھی طرح تلاشی لی تو الماری کی تجوری سے مجھے کچھ قابل اعتراض تصاویر مل گئیں۔ یہ پانچ مختلف لڑکیوں کی تھیں اور ان میں ایک ربیعہ بھی تھی جس کی چند تصاویر بھائی کے ہمراہ غلط انداز کی تھیں۔ لگتا تھا کہ اسے دھوکے میں رکھ کر یہ تصاویر لی گئی ہیں۔ مجھے علم ہو گیا کہ رمیز اور ربیعہ آپس میں کس درجہ قریب تھے۔ اگر تصاویر خاندان کے کچھ لوگوں کو دکھادی جاتیں تو ماموں اور ممانی کے لئے مرنے کا مقام تھا۔ سوچا کہ اپنے اس گھٹیا بھائی کو اس کی حرکتوں سے روکنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے لیکن اپنے خاندان کی ان لڑکیوں کی عزت بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے۔ یہی فیصلے کا لمحہ تھا یا تو رمیز سے ڈر کر یہ قابل اعتراض فوٹو واپس اسی جگہ رکھ دیتی یا پھر ان کو تلف کر ڈالتی۔ میں نے سبھی لڑکیوں کے سارے محبت نامے اور قابل اعتراض تصاویر اٹھالیں اور الماری کے سیف کو چابی سے بند کر کے الماری لاک کر دی۔ میں نے امی کو یہ سب فوٹو اور خط دے دیئے اور کہا کہ آپ ہی ان کو تلف کر دیں۔امی نے عزیز بھائی سے تذکرہ کیا تو ہم سب نے مل کر یہی فیصلہ کیا کہ ان سارے ثبوتوں کو جور میز نے محض بلیک میل کر کے لڑکیوں سے رقم بٹورنے کے لئے اکٹھے کر رکھے تھے تلف کر دیں گے۔ چاہے وہ جو ہنگامہ کرے لیکن کسی کی عزت کو یوں ہم نیلام نہ ہونے دیں گے۔
امی نے یہ فوٹو اور خطوط جن کی وجہ سے خاندان کی لڑکیاں اس کے ہاتھوں میں حقیر کھلونے بن چکی تھیں، آگ میں جلا دیئے۔ جب رمیز حیدر آباد سے لوٹا، تین روز بعد اسے علم ہوا کہ اس کی تجوری کسی نے کھولی ہے اور وہ سارے ثبوت اٹھا لئے ہیں جو اس کی بدنیتی کا شاخسانہ تھے۔ بس پھر کیا تھا وہ چیخنے چلانے اور گھر کی قیمتی اشیاء توڑنے لگا۔ اس کا ایک ہی سوال تھا میری الماری کو کس نے کھولا۔ مجھے بتا دوور نہ گھر کو آگ لگادوں گا۔ ابو بیمار تھے اور وہ اسپتال میں داخل تھے ،امی ویسے ہی سخت پریشان تھیں وہ کیا جواب دیتیں اور کیسے بتاتیں کہ تمہاری بہن مینا نے الماری کھول کر یہ بےہودہ چیزیں نکالی ہیں۔ ہودہ جب انہوں نے رمیز کے بہت شور مچانے کے باوجو د لب نہ کھولے اور میر انام زبان پر نہیں لائیں تو عزیز نے ہمت کی اور کہا۔ رمیز خاموش ہو جائو اور اپنی بکواس بند کر دور نہ میں ہی تم کو اور تمہارے غلط ارادوں کو انجام تک پہنچادوں گا۔ تمہاری الماری میں نے کھولی تھی وہ بے ہودہ تصاویر اور خطوط آگ میں جلائے ہیں تا کہ تم شریف گھرانوں کی عزتوں کو بلیک میل کر کے کسی کی زندگی کو اجیرن نہ بناسکو۔ یہ تو میں نے کر دیا ہے۔ اب جو تم کر نا چاہتے ہو کر دو۔ یہ سننا تھا کہ رمیز یہ کہہ کر پائوں پٹختا گھر سے چلا گیا۔ تم مجھے کیا دیکھو گے میں ہی تم کو دیکھوں گا، ایسا سبق دوں گا کہ یادر ہے۔ اس واقعے کے چھ ماہ تک رمیز گھر نہ لوٹا۔ اب امی روتی تھیں کہ ہائے یہ کیا ہو گیا۔ میرا جوان بیٹا نجانے کہاں غائب ہو گیا، کہیں اس نے خود کشی نہ کر لی ہو۔ اس پر عزیز بھائی نے کہا امی اچھا ہے یہ ننگ خاندان خود کشی کرلے ، کم از کم ایسے برے افعال سے تو مزید بیچ رہے گا اور کئی دوسری لڑکیاں بھی اس موذی کے زہر سے بچ جائیں گی۔ رمیز نے خود کشی نہ کی لیکن ہم سب کو خون کے آنسور لا کر چلا گیا۔ اس کے دل میں اپنے ہی سگے بھائی کے لئے انتقام کی نہ بجھنے والی آگ بھڑک گئی تھی۔ ایک روز جبکہ عزیز رزق حلال کی تلاش میں گیا ہوا تھا نجانے کیسے اسے کچھ غنڈوں نے گھیر لیا اور اس پر ہاکیوں سے ٹوٹ پڑے۔ بیس منٹ کے اندر اندر اس کی ہڈی پسلی ایک کر کے فرار ہو گئے۔ میرا پیارا اور حساس بھائی عزیز اسپتال تک جاتے جاتے چند سانسیں لے کر اللہ کو پیارا ہو گیا، لیکن رمیز پھر کبھی گھر واپس نہ آیا۔ ایک دن اخبار میں اس کے بارے میں خبر آگئی کہ وہ کسی ڈکیتی کے الزام میں پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ یوں مفت کی دولت جو نانا کے ہاتھ لگی تھی اس نے ہم کو تباہ و برباد کر دیا۔ کاش کہ ان کو یہ دولت نہ ملتی تو آج ہم سکون کی زندگی جی رہے ہوتے۔