موسم سرما نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تھا۔ سورج کی سنہری کرنیں سرسوں کی فصل کو عجب تاب ناکی بخش رہی تھیں۔ سڑک کنارے کھیت میں فاطمہ گھاس کاٹنے میں مصروف تھی ۔ اماں، ابا اور بھائی قریبی شہر گئے تھے اور سارے کاموں کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آپڑی تھی۔ ہاتھ میں درانتی لیے وہ تیزی سے چارا کاٹ رہی تھی۔ سڑک پر معمول کی ٹریفک رواں دواں تھی مگر وہ یکسوئی سے اپنا کام نمٹانے میں مگن تھی۔ اچانک اسے کچھ انہونی کا حساس ہوا، نئی نکور بس وہیں رک گئی تھی ۔ موسیقی کی دلفریب دھنیں ہوا کے دوش پر سفر کرتی اس تک پہنچیں تو درانتی ہاتھ میں لیے کام روک کر وہ دلچسپی سے دیکھنے لگی ، یقیناً برات ہے۔ ایک ایک کر کے مسافر اترنے لگے۔ فاطمہ کو کچھ چہرے مانوس سے لگے اور اچانک اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ ارے یہ تو اسی کے سسرال والے ہیں اور یہ آج؟ یہاں کیسے؟ آج جمعرات ہے، اس کی برات تو اگلی جمعرات آنا تھی۔ درانتی ہاتھ سے چھوٹی ، اس کی چپلیں و ہیں کہیں گارے میں پھنس گئیں۔ ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی فاطمہ یہ جا وہ جا۔ لیہ کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں۔ یہاں کے مکین بھائی چارے کی لڑی میں پروئے ایک دوجے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھی ۔ کنیز بکریوں کا ریوڑ لے کر جارہی تھی ، رکی اور ناک پر انگلی رکھ لی۔ پنڈ میں تو کسی کا ویاہ نہیں۔ شوکت سر پر گھاس کا گٹھر لادے جا رہا تھا۔ ٹھنکا۔ لگتا ہے راستہ بھول گئے ہیں ۔ مای نصیراں اپنے بیٹوں کا کھانا لے کر نکلی تھی، براتیوں سے اس کی شناسائی تھی ۔ خواتین سے ملی اور پوچھا۔ کس کی برات ہے؟ جواب ملا۔ قاسم کی اور کس کی ؟ ماسی فوراً الٹے قدموں دوڑتی نمبردار کے گھر گئی ہے اور رام کہانی کہہ سنائی۔ چوہدری محمد علی نے داڑھی کھجائی، فاطمہ کی برات۔ آج تو نظام دین ٹبر سمیت جہیز کا سیامان لینے گیا ہے۔
اقصیٰ اور طوبی کو گاؤں بے حد پسند تھا۔ وہ دولہا کی بہن عائشہ کی سہیلیاں تھیں، بڑی چاہت سے شادی میں شرکت کرنے آئی تھیں۔ وہ الجھن کا شکار تھیں کہ چکر کیا ہے؟ یہاں تو شادی والا ماحول ہی نہیں ہے۔
انسانی زندگی تنوع کا شاہکار ہے، قدم قدم پر نئے مناظر حیرت انگیز واقعات اور تجربات کا سامنا ہے بصیرت کی ضرورت ہے۔ فطرت میں موجود یہ تغییر ہمارا بہترین استاد ہے۔ ماسی منظوراں کے بیٹے کی شادی تھی۔ بہو! کل منظوراں کام پر آئے گی، تو مجھے یاد دلانا، سلامی کے پیسے دے دوں گی۔ اماں جی نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا تو کہا، یقیناً نماز میں یاد آئی ہوگی بات۔ مگر اماں وہ تو بڑی منت کر رہی تھی کہ آپ شریک ہوں شادی میں ۔ لیکن اماں بی کے نزدیک شرکت ضروری نہ تھی- ہر گھر میں ایک نادر نمونہ ہوا کرتا ہے۔ احتشام الحق صاحب کے گھر میں ان کی بیٹی صائمہ احتشام کچھ ایسی ہی سر پھری تھی ۔ مگر ماما ! مجھے تو شرکت کرنی ہے شادی میں۔ بلکہ برات کے ساتھ جانا ہے۔ نوشین کی ہنسی چھوٹ گئی- برات کے ساتھ جاؤ گی ، کارٹون لگو گی ۔ کیوں بھلا ؟ پتا ہے، برات تو ٹریکٹر ٹرالی پر جائے گی۔ ہیں، یہ تو اور بھی مزے کی بات ہے۔ ماما پلیز مجھے جانے دیجیے گا۔
زندگی کا سفر رکتا نہیں۔ اس واقعے کو سالوں گزر گئے۔ صائمہ کے اپنے بیٹے کی شادی ہے۔ انتظامات ہیں کہ بندہ دنگ رہ جائے ۔ برات کے لیے گاڑیوں کے ماڈل، رنگوں تک کو سوچا جا رہا ہے۔ مگر صائمہ کے چہرے پر جو مسکراہٹ آئی ہے وہ ٹرالی پر جانے والی یاد ہے۔ وہ سادگی ، محبت، علاقائی گیت، تصنع اور بناوٹ سے پاک لوگ، صائمہ کی یادوں کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ۔ گڑ کے چاول کی پلیٹ ، اس کے لیے خاص طور پر چمچے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ کیا بات ہے۔ اس نے اپنی زبان پر ان چاولوں کی لذت کو محسوس کیا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ، پتا نہیں یہ کون سا جذبہ تھا۔ زندگی کتنی مشکل ہوگئی ہے یا شاید ہم نے مشکل بنا دیا ہے۔
جو مہینوں پلان کیا جاتا ہے اور جس کے وقوع پذیر ہونے میں گھنٹے لگتے ہیں، وہ منٹوں میں ہوا۔ چوہدری محمد علی کے ڈیرے پر ٹاہلیوں کی چھدری چھاؤں میں نئی نکور چارپائیاں لگا دی گئیں، پائنتی کی طرف کھیسں اور کڑھائی والے تکیے لگ گئے۔ بزرگوں کے لیے تازہ دم حقے ۔ خواتین کے بیٹھنے کا انتظام نمبردار کے وسیع و عریض صحن میں کر دیا گیا۔ مولوی صاحب نے کہا۔ ہر گھر میں جو کچھ پکا ہے، مہمانوں کے لیے پیش کر دیا جائے۔ میزبان خواتین کو منہ دھونا تو شاید یاد نہ رہا البتہ سب نے سرخی سے ہونٹ رنگ لیے تھے اور بھرکیلئے رنگوں کے دوپٹے لے کر مہمانوں کی آؤ بھگت میں مشغول ہوئیں۔ گندم کی روٹیاں، مکئی کی روٹیاں، سالن کے ڈونگے ، مکھن، شکر، لسی ، بچوں کے لیے گرما گرم خالص دودھ۔ ہر طرف لذیذ اور تازہ کھانوں کی مہک پھیل گئی۔ گویا اپنی قسمت پر نازاں مہمانوں کے واری صدقے جارہی ہو ۔ گاؤں کا ہر فرد میزبان تھا اور وہ اپنے اس اعزاز پر پھولے نہیں سما رہا تھا۔
یہ بات اس زمانے کی ہے، جب ذرائع مواصلات کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ لینڈ لائن ٹیلی فون کی عیاشی بھی شہروں تک محدود تھی۔ رابطے محدودہ محبتیں لامحدود۔ بیاہ کے دن رکھنے ہیں، بزرگ جمع ہیں۔ سیاست، فصلوں کی پیداوار، منڈیوں کے بھاؤ پر بحث جاری ہے۔ چائے کے دور چل رہے ہیں۔
ہاں جی، اب کام کی بات ہو جائے بزرگو! بسم اللہ کرو ۔ چوہدری کرم دین، دولہا کے ابا نے دلہن کے والد کو مخاطب کیا۔ باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ آج سے پانچویں جمعرات برات لے آئیے گا۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی اس روز بھی جمعرات کا دن تھا۔ لڑکے والوں نے اس دن کو پہلی جمعرات شمار کیا اور لڑکی والوں کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ آج کا دن بھی اس گنتی میں آ جائے گا۔ یہیں سے مغالطہ ہوا اور برات پورے سات دن پہلے پہنچ گئی۔ اب کیا ہوگا ؟ چوہدری محمد علی نے تسلی دی۔ فکر کی کوئی بات نہیں، بھائی کرم دین! فاطمہ ہماری بیٹی ہے۔ اس کے والدین پہنچنے والے ہوں گے ۔ لڑکیاں بالیاں دلہن کو تیار کر چکی ہیں۔ دلہن کے والدین جیسے ہی پہنچے ، نکاح ہو گیا۔ فاطمہ بڑے نصیبوں والی ہے۔ اس کی ماں حیرت سے اتنے بے تحاشا تحفوں کو دیکھ کر حیران تھی اور آنکھوں میں آنسو، آواز بھرائی ہوئی … برات کھانا کھا چکی تھی- رخصتی کا مرحلہ آیا۔ دلہن کے ابا نے بیٹی کو گلے لگایا۔ اچانک فاطمہ ٹھکٹی۔ ابا! درانتی کھیت میں پڑی ہے، وہ یاد سے اٹھا لینا- ابا نے فاطمہ کی پیشانی پر بوسہ دیا- اچھا، میری دھی۔ سدا سہاگن رہو۔