Friday, March 29, 2024

Muhabbat Aik Wasilah Hai

ثومیہ …ثومی… پلیز میری بات تو سنو- نگار گھر بھر میں اس کے آگے پیچھے پھرتی ہار گئیں تو تھک کر کوچ پر جا بیٹھیں۔
اوہو-امی میں نے کہہ دیا تا کہ نہیں ….. تو بس نہیں۔ جواباً ثومی کا وہی اک انکار۔
مگر کوئی وجہ بھی تو ہو ۔ وہ ہفتہ بھر سے اس کا گھیراؤ کیے تھیں ۔ ان کی کولیگ ، آسیہ درانی کا اکلوتا بیٹا شارق ….. اوریہ رشتہ اتنا پرفیکٹ تھا کہ دل کسی طور انکار پر آمادہ نہ تھا۔۔
بتایا تو ہے مجھے ماسٹرز کرنا ہے۔۔۔ اور بس- اس کا لہجہ تھا۔
نگار آخر کار ہار گئیں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئیں…… ماسٹرز کا کیڑا اس کے دماغ میں اسلام آباد سے لوٹ کر ہی کلبلایا تھا …… ورنہ اس سے پہلے تو ایسے کوئی ۔ ارادے سامنے نہ آئے تھے۔ وہ بی اے کے بعد سے ہی اس کے بیاہ کے لیے کوشاں تھیں۔
نگار بیٹھ کر اس گھڑی کو کوستیں جب ان کی بھولی بسری نند صولت کو جانے کیسے ان کی یاد آستائی- صولت کا اکلوتا بیٹا معیز ، بہن کی شادی کا دعوت نامہ لایا تو ساتھ نگار کے لیے ریٹرن ٹکٹ بھی تھا۔ نگار کی لیکچرر شپ ، گھر بھر کی ذمہ داری کا بار اور پھر جوڑوں کی تکلیف کو اسلام آباد کی کھلی آب و ہوا کہاں راس آتی…. سب سے بڑھ کر صولت سے ان کی ان بن رہی تھی۔
سچ تو یہ تھا کہ اس بھولے بھٹکے بلاوے پر لبیک کہہ اٹھنے کو ان کا دل ہی نہ آمادہ تھا …… انہوں نے بیوگی کی کڑی دھوپ سہتے یہ اولاد پروان چڑھائی تھی ….. تب کون تھا جو اس کڑی مسافت میں ان کا ساتھ دیتا ۔ سارے نام نہاد رشتے غفلت کی نیند پڑے سوتے رہے۔ اب جب وقت سکھ کی چھاؤں میں ستانے کا تھا تو یہ بھولا ہوا رشتہ جاگ پڑا تھا۔اب ان سے کون پوچھتا ؟ کہ اپنے مقدر کے آزار ، دوسرے کہاں سمیٹتے ہیں …… اپنا دکھ تو بس اپنا ہی دکھ ہوتا ہے۔ خودانہوں نے بھی تو ہر رابطہ، واسطہ اپنی خودداری کے نام پرختم کیے رکھا اور ان سب کے لیے گھمنڈی کہلا ئیں۔
تب ہی انہوں نے معیز کے ہمراہ ثومی کو بھیج دیا تھا- جوان دنوں بی اے کے پیپرز دے کر تقریبا فارغ ہی تھی اور شاید یہیں آ کر وہ مات کھا گئیں …..ثومیہ نے وہاں سے لوٹ کر جو ماسٹرز کی ضد پکڑی تھی تو اس سے ایک انچ ہٹنے کو آمادہ نہ تھی۔
اور یہ تو ….ثومیہ کے بعد اس کی عزیز ازجان سہیلی … تابندہ ہی جانتی تھی کہ اس کے انکار کی اصل وجہ کیا ہے؟
نگار جب ہار جاتیں تو تابندہ کا گھیراؤ کرتیں۔
یا تو اسے آمادہ کرو …… یا انکار کی وجہ معلوم
کرو۔ اور تابندہ یہ جانتی تھی کہ اس کے انکار کی وجہ ہے معیز اور صرف معیز ….. جس کے پاس اس کے لیے بس ایک ہی جملہ تھا۔
تم سراب کے تعاقب میں اپنی زندگی داؤ پر لگا رہی ہو۔
تابندہ کم ازکم تم تو ایسانہ کہو ۔ ثومیہ پلیز- آنٹی کے لیے سوچو…… انہوں نے اپنی اولاد کے لیے کچھ خواب دیکھے ہیں اب ان کی تعبیر پانے کا وقت ہے۔ تو تم دیوار کھڑی کر رہی ہو؟
اور اپنے دل کا کیا کروں جو کسی اور کے لیے آمادہ ہی نہیں ہے؟
*********
تابندہ سے بڑھ کر کون واقف تھا۔ کہ اس کی زندگی کن کڑے حالات کی تصویر تھی۔ باپ سے محروی ۔۔۔ ماں کی لیکچررشپ کی بدولت گھر میں بھی کالج جیسا لگا بندھا ماحول ……. انہوں نے ایسا کڑا مزاج نہ پایا ہوتا تو الگ بات تھی مگر معاشرہ میں تنہا ، تین بچوں کے ساتھ ، سروائیو کرنا ، یہی کڑا پن ذاتی زندگی کا بھی جزوتھا، سواس نے اب تک کی زندگی میں اس محبت کا لمس پایا ہی کب تھا۔
ایسے میں کسی کا معمولی سا التفات ،توجہ واہمیت دیے جانا اس کے دل کی دنیا بدل گیا تھا تو کیا عجب تھا۔ خیر یہاں تک بھی درست تھا مگر معیز نے اگر اسے آس کا کوئی جگنو، محبت کا کوئی پھول تھمایا ہوتا ، تب تو بات بنتی تھی۔ مگر اس یک طرفہ محبت کی لا حاصل مسافت، بنا کسی امید کے اس شاندار رشتے کو مسترد کرنا ….. حماقت نہیں تو اور کیا کہلاتی ۔
مگراک یقین تھا جواس کے اندر پنجے گاڑ کر بیٹھ
گیا تھا۔ جس نے راہ دکھا کر…. اس کی محبت بخشی … اس نے اس کا ساتھ بھی کہیں نہ کہیں ضرور لکھ رکھا ہوگا-
تم تو بس اک کونا سنبھالواور بیٹھی معیز کے نام کی مالا جپتی رہو۔ میری بات لکھ کے رکھ لو۔ یہ یک طرفہ محبت تمہیں کچھ نہیں دینے والی ۔۔۔ تابندہ بھڑک اٹھی۔
اور اسے اس سب سے بڑھ کر اپنے جذبے کی راستی پر یقین تھا۔ بھلا کہاں اسلام آ با د اور وہاں بسنے والی صولت پھپھو کا گھر…..اب تک ہر رشتے سے بس نام تک واقفیت تھی۔ کچھ تو وجہ تھی ، یونہی تو نہیں ، بھولی بسری ، پھپھو کے دل میں اس کی یاد نے انگڑائی لی۔ یا شاید رب نے عطا کا کوئی محرک بنایا تھا۔ جواک بھولا بسرا……راہی ادھر آن بھٹکا۔
تا بندہ جھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ثومی مسکرا کر آنکھیں موند گئی ۔محبت کا اک دلکش خواب ….دل تھا کہ اس خیال سے ہٹ کر کہیں اور بھٹکنے پر آمادہ ہی نہ تھا معیز کی چاہت کا نقش …… اور اسلام آباد کی کھلی آب و ہوا۔
وہاں گزارے ہوۓ وقت نے ہی اسے احساس دلایا کہ زندگی کا ایک رخ یہ بھی ہے۔ اسے لگتا وہ تازہ کھلی ہوا میں سانس لے رہی ہے۔کیا صاف شفاف … ہلکا پھلکا ماحول تھا صولت پھپو کے گھر کا ، اور وہاں کے مکین ۔۔۔۔ جیسے سارے جہاں کی نرمی ٹہراو ….. حلاوت اس گھرانے کے رویے میں آن بسی ہو۔ اک دوسرے کا خیال ، سب سے بڑھ کر پیسے کی فراوانی…. اور وہ معیز ۔ آہ! شاید کبھی وہ آئیڈیل تراشتی تو ایسا ہی ہوتا ۔ کیسی نرمی ، تہذیب و حلاوت بھرے لہجے میں بات کرتا ، اک بڑے بھیا تھے ، ان سب کا دل ان کی تیوری کے بل میں ہی پڑا ر ہتا۔۔۔۔۔ امی کا ہر خواب ان سے وابستہ تھا۔ ان کی بینکنگ کی اعلا تعلیم کے لیے ان کی انکم کا بڑا حصہ جاتا اور ان کا کڑا لہجہ و رویہ۔
مگر پھپو کیسی سوبرباوقار اور دریا دل تھیں ….نہ بجٹ میں ٹین رکھنے کے لیے خواہشات کا قتل عام ، نہ گھر بھر میں کالج کا سا لگا بندھا ماحول ۔ اس کی کزن … فرحین اب تک پھوپھا جان کے کندھے سے لٹک کر فرمائشیں گنواتی اور وہ دونوں اولاد کی ایک پکار پر لبیک کہا اٹھتے …… پھوپھا جان ہر ویک اینڈ پر گھربھر کو آؤٹنگ کے لیے لے کر جاتے …… فرحین میں تو ان کی جان تھی۔ صولت پھپو نے فرحین کو اس کے جہیز کی ہرچیز … اس کی پسند سے دلوائی تھی- ۔اس نے بھی دل بھر کے شاپنگ کی تھی۔
ان سب کو کہاں میسر تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ دل داریاں……
بھیا تک تو خیرتھی، ثومیہ اور رانیہ ہزار بار دل کو مارتیں اور اب معاملہ زندگی کے فیصلے کا تھا۔ تو وہی امی کا کڑا رویہ اور مزاج کا کرارا پن ۔ ان کی کولیگ ، آسیہ درانی نے کس چاہ اور مان سے ثومیہ کا ہاتھ اپنے لائق فائق ،اکلوتے بیٹے شارق کے لیے مانگا تھا۔ جوایم بی اے کے بعد کسی غیر ملکی فرم میں اکاؤنٹینٹ تھا- ثومیہ کو بیاہ کر وہیں سدھارنا تھا۔ انہیں اور کیا درکار تھا؟ شارق کا رشتہ اتنا پرفیکٹ تھا کہ انکار کے لیے جواز میسر تھا، نہ دل آمادہ تھا۔
وہ ثومیہ کو آمادہ کرتے ہار گئیں تو روہانسی ہو گیں-
ثومیہ…. کچھ تو میری مشکلات کا خیال کرو۔ تمہارے بعد مجھے رانیہ کے لیے بھی تو سوچنا ہے۔
تب ہی اس نے برملا کہا۔ تو آپ رانیہ کی کر دیں نا۔ اسے بھی تو آ خر آپ نے بیاہنا ہی ہے۔ اور نگار اسے تکتی رہ گئیں۔ اس کی بات دل کو لگتی تھی۔
رانیہ نے انٹر بھی بمشکل کیا تھا۔ فیشن زمانے بھر کے کروالو…..اور جب طے تھا کہ کچھ اور کرنا ہی نہ تھا تو پھر اک شادی ہی رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔ اور رانی کو بھی تو آخر انہوں نے بیاہنا ہی تھا ….. وہ جانے کس طرح آسیہ درانی کو اس تک لے آئیں …… اور راشیہ بھی جھٹ پٹ مان گئی۔
اور تابندہ نے ثومیہ کو فون پر کیا رکھ رکھ کر سنائی تھیں ….مگر وہ مسکراتی ہی رہی دل کو معیز کا نام الاپتے رہنے کی عادت ہو گئی تھی زندگی جیسے ان چند دنوں میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ جب معیز نے رفتہ رفتہ دل کے ایوانوں میں قدم رکھا تھا۔
*********
وہ فرحین کی رسم کے لیے زرد ، گھیر دار لمبی فراک، سرخ پاجامہ پر گھنیرے بال پشت پر پھیلاۓ، کانوں میں جھمکیاں ڈالتی عجلت میں کوریڈور عبور کرتی ہوئی بے اختیار معیز سے ٹکرائی تو شوخی و شرارت سے بھرا اس کا بس اک جملہ ثومیہ کے دل کی دنیا اتھل پتھل کر گیا تھا۔
کے ارے ۔۔۔ یہ تم ہو یا کوئی آسان سے اتری حور-
شاید اس رات ، اس نے خود کو پہلی بار آئینہ میں بغور دیکھا تھا۔ بلاشبہ وہ خوب صورت تھی …. مگر کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں اور سراہنا کس کو کہتے ہیں ۔۔ پہلی بار ہی پتا چلا تھا۔ پھر وہ اکثر یونہی آتے جاتے اس پر فقرے کستا-
تم سچ مچ آسمان سے اتری کوئی مخلوق ہو ، جو بھٹک کرارم پیلس آ گئی ہے۔
کبھی کہتا اے پرنسیز خبردار جوتم اپنی دنیا میں لوٹیں کہیں کوئی ظالم دیو تمہیں نہ لے اڑے۔
اگر چہ وہ خود چھا جانے والی دلکش شخصیت کا ملک تھا-
شاید یہ تبسم و تکلم اس کی عادت ہی رہا ہو، وہ جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھی تھی۔ مگر صولت پھپو کے گھر کا ہلکا پھلکا ماحول …… اس کے اندر اتر گیا ہو جیسے ۔۔۔ سب مل کر ہنستے گاتے …… موج میلہ کرتے، محفل جماتے۔ جاتے اور کبھی جوگھر کو یاد کر کے اس کی پلکیں بھیگنے لگتیں تو معیز کی گردان ۔
ٹکٹ منگاؤ ….. میں کراچی جاؤں گا۔ ٹکٹ منگاؤ، کراچی جاؤں گا۔ اور فرحین اسے چڑاتی۔ کیوں ، کراچی تمہارا سسرال لگتا ہے کیا ؟ وہ روانی میں کہی گئی تھی اور ثومیہ کا دل دھک دھک کرنے لگا…..تب صولت نے محبت سے اسے سمیٹ لیا تھا۔
اے معیز- میری بیٹی کو تنگ نہ کیا کرو۔ اور وہ سوچتی کہ اتنا عرصہ ان محبتوں سے دور رہ کر انہوں نے کیا خسارہ اٹھایا تھا۔ کیوں وہ سب ان لوگوں کوامی کے دکھاۓ گئے آئینہ میں دیکھتے رہے۔ پھوپھوتھیں تو وہ جان وارنے کوتیار… پھوپھا جان نری وشفقت کا پیکر اور معیز وفرحین کا تو ذکر ہی کیا۔ وہ سب پل پل اس کی خبر گیری کرتے۔ اس کی فیلنگز کی پروا کرتے ….. سب سے بڑھ کر معیز جو ساتھ چلتا تو دل کہتا کہ یا تو وقت تھم جائے یا مسافت طویل ہو جائے-
وہ اپنے خول میں بند ، لیے دیے رہنے والی حساس لڑکی تھی ، جو اس اہمیت و اپنائیت پر سچ مچ اپنا آپ بھول بیٹھی تھی۔
*******
رانیہ کے سدھارنے کے بعد اس نے ماسٹرز کے لیے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اور وہی ہر رشتے پر اس کا انکار۔ اور یہ کہاں ممکن تھا کہ تپش محبت کی ہو۔ اور آنچ معیز تک نہ پہنچتی ….. بلاشبہ وہ اک بھرپورلڑکی تھی جس کا ساتھ اس کی زندگی کو مکل کر دیتا…..سو اس بار شادی کے ذکر پر اس نے ثومیہ کا نام ماں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ اور شاید یہیں سے سارابگاڑ پیدا ہوا۔ نگار نے کبھی سسرال کو منہ نہ لگایا تو ان پر گھمنڈی کی مہرتھی …. نند بھاوج کے مزاج کہاں ملتے تھے …یہ رشتہ اک عذاب بن جاتا۔ نگار کو سسرال کو چھو کر آتی ہوا تک سے بیر تھا ، تو صولت بھی کون سا ان کے سامنے جھولی پھیلانے پر آمادہ تھیں ……سو ہاراس کا مقدرتھی- صولت نے اس کے لیے من پسند بہو کے خواب سجارکھے تھے۔ وہ چھانٹ کر معیز کے لیے ہم پلہ گھرانے سے بہو لے کر آئی تھی …… اور ثومیہ کے اندر دور دور تک کچھ ٹوٹ کر بکھرتا چلا گیا تھا…..اس کے خواب ، خواہش ۔ اور معیز کی سنگت …… اس کی محبّت … جیسے ہر احساس پر حاوی ہو کر رہ گئی تھی-
اس کے لبوں پر اک چپ کی مہر لگ گئی تھی ….. اور پھر ہر رشتے پر بلاجواز اس کا انکار ….. جب وہ نہیں تو کوئی نہیں۔۔۔۔۔ یہ اس کے دل کا اٹل فیصلہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھیا ، امی کے ہر خواب کو کچل کر اپنی کولیگ صائمہ سے شادی پر تلے تھے- امی کی ریٹائرمنٹ سر پر کھڑی تھی۔ گھر گھر کی ذمہ داری کا بار اب بھیا کو ہی اٹھانا تھا۔سونگار کو ماننا ہی پڑا اور صائمہ کا مزاج…..الامان الحفیظ۔
بہت کم وقتوں میں اس نے سبطین کو سب سے دور کر دیا تھا۔
پر سبطین کے سدھارنے کے بعد ہی اس نے لیکچررشپ کے لیے اپلائی کیا تھا۔مگر نگار کواک چپ لگ گئی تھی سبطین نے ان کا ہر خواب تو ڑ دیا تھا ۔
انہوں نے ہر اولاد کے لیے کچھ خواب دیکھے تھے۔ جو سب منہ چڑا گئے….وہ سرال کے لیے گھمنڈی تھیں تو دنیا کے لیے سائیکو بن گئیں۔ رفتہ رفتہ انہوں نے خودکو گوش نشین کرلیا۔ سب کچھ اک تواتر سے ہوتا چلا گیا تو مانوثومیہ کے انکار کواک جواز مل گیا۔ امی کی دیکھ بھال گھر کی ذمہ داری کا بار …… وہ خود کی جانب بڑھنے والا ہر ہاتھ ….. ہر سوال رد کرتی چلی گئی دل تھا کہ اپنی ڈگر بھولتا ہی نہ تھا۔ معیز کی چاہت کے رنگ اتنے انمٹ تھے کہ کبھی مدھم تک نہ پڑ کے دیے ۔
********
جانے کتنا وقت بیتا ۔۔۔ کتنے موسم گزرے ۔ اک اس کی نہ … ہاں میں نہ بدلی ۔اک زمانہ اس کی عظمت کو سلام کرتا۔ اس کا صاف و شفاف کردار….کوئی معمولی بات تھی۔ زندگی کسی کے نام کر دینا- وقت کا پہیہ چل رہا تھا کچھ گزر گئی تھی، کچھ گزر جانی تھی۔ یہی اس کا فیصلہ تھا اور شاید یہیں آ کر وقت کی روش بدلنی درج تھی۔ یہ اس کے جذبے کی راستی ، محبت کی انتہا نہیں تھی ، تو اور کیا تھی ۔ وہ زندگی کے انہی گھٹتے بڑھتے دنوں میں سے اک دن تھا۔ جب صولت ، ثومیہ کے لیے دامن پھیلاۓ چلی آئیں …. وقت نے ان کی آن کا بت توڑ دیا تھا، ان کی من پسند بہونے انہیں تگنی کا ناچ نچایا۔آخر کار شکست ان کا مقدرتھی ….. ثومیہ ان کے لیے بہترین بہو ثابت ہوگی۔ یہ بات آخر کاران کی سمجھ میں آ ہی گئی۔
ثومیہ اور معیز کا ملن اک کڑی مسافت کی بعد ہی ممکن ہو سکا تھا۔ یہ سب یوں ہی ہونا لکھا تھا۔ سو یوں ہی ہوکر رہا۔ شاید یہ فیصلے بہت پہلے کہیں ہو چکے ہوتے ہیں۔ محبت اک وسیلہ ہے۔ قدرت جب کسی کا ساتھ لکھ دیتی ہے تو اس کا ایک وقت بھی مقرر ہوتا ہے اور تب تک کوئی نہ کوئی وجہ بن کر سامنے کھڑی رہتی ہے… اور یہ بات کافی دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS