میرے دو ہی بھائی تھے عادل اور فاضل … بڑا بھائی عادل ذرا رنگین مزاج تھا جبکہ چھوٹا سنجیدہ اور سمجھ دار تھا۔ ایک روز دونوں بھائی میلہ دیکھنے گئے۔ یہ بیساکھی کے دن تھے اور ہر سال پیر عادل کے پاس یہ میلہ لگتا تھا۔ جہاں لوگ منتیں پوری کرنے آتے تھے۔ زہرہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ چڑھاوا چڑھانے آئی تھی، وہیں میلے میں عادل بھائی کی آنکھیں اس پری وش سے چار ہوئی تھیں۔ اُسے دیکھا تو میرا بھائی میلہ بھول گیا۔ وہ بھی مبہوت ہو کر رہ گئی تھی۔ جیسے من کی مراد دونوں نے پالی ہو۔ تبھی انہوں نے دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھ گرا لئے اور واپس گھر آ گئے۔ زہرہ کا دمکتا چہرہ دیکھ کر میں بھی اُس دن تو مبہوت رہ گئی تھی۔ وہ اتنی موہنی صورت تھی کہ اُس کو دیکھ لینے کے بعد کسی اور کی آرزو کرنا بیکار تھا۔ اتنی سادی اور خوبرو کہ جی چاہتا اک تک اس صورت کو ہی دیکھا کروں تبھی تو عادل بھائی کی نظریں اس کے چہرہ پر سے ہٹتی نہ تھیں۔ میں اپنے ویر کی حالت تاڑ گئی۔ جانتی تھی کہ عادل کا مزاج ایسا ہی ہے۔ کوئی شے بھا جائے تو پھر اس کو حاصل کرنے کو دیوانہ ہو رہتا تھا۔ وہ کسی بات پر اڑ جاتا تو منانا مشکل کوئی اراده کر لیتا تو روکنا محال میں نے چاہا اس کو سمجھا لوں مگر بڑا بھائی ہونے کے ناتے میں اس کے آگے زبان نہیں کھول سکتی تھی۔
زہرہ کے باپ کا کھیت ہمارے کھیتوں کے ساتھ ساتھ تھا بس ایک پتلی پگ ڈنڈی ہمارے اور ان کے کھیتوں کو جدا کرتی تھی۔ ہماری ذات الگ تھی۔ تبھی دوستانہ ہونے کے باوجود ہماری برداری میں رشتوں ناتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس پر یہ کہ زہرہ کی منگنی اپنے سگے چچازاد سے ہو چکی تھی۔ اب موت تو اس کو لے جا سکتی تھی کوئی دوسرا شخص اس لڑکی کا ہاتھ نہیں تھام سکتا تھا۔ مگر بھائی اور زہرہ ان باتوں سے بے پروا ایک دوسرے کی چاہت میں گم ہو چکے تھے۔ فاضل کو عادل کی بہت فکر تھی۔ وہ اپنے بھائی پر نظر رکھے ہوئے تھا کیونکہ اس کو کسی ناگہانی سانحے سے بچانا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رات کو جب سارا جہاں نیند میں ڈوب جاتا، زہرہ اندھیرے میں کھیت پھلانگ کر ہمارے کھیتوں میں آ جاتی اور بنی کے کنارے آگے کھجوروں کے جھنڈ میں یہ دو بے قرار دل ساری دنیا سے چھپ کر چند گھڑیاں پیارے کے ٹھنڈے سایے میں گزار لیتے ہیں۔ فاضل بھائی نے مجھے آگاہ کیا کہ عادل کا دل اب نہ اس کے قابو میں ہے اور نہ پائوں… وہ جس راہ پر چل دیا ہے، وہ کانٹوں سے بھری ہے۔ تم رات کو جاگتی رہا کرو، جب وہ اٹھ کر باہر جانے لگے مجھے جگا دیا کرو۔ یہ سن کر میری راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ رات بھر جاگتی جونہی آدھی رات کو عادل گھر کی دہلیز پار کرتا میں چھوٹے کو جگا دیتی۔ فاضل بھی اپنی چارپائی سے اُٹھ کر سایے کی طرح اس کے پیچھے ہو لیتا، اس کے ساتھ اس کی کلہاڑی بھی ہوتی، کیونکہ ان دنوں جس خطرناک رستے پر عادل جاتا کلہاڑی کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ عادل تو غافل تھا مگر میں اور فاضل، غافل نہ تھے۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ آدھی رات کو اندھیرے میں ایسی ملاقاتوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ یقیناً دیہاتوں میں چوری چھپے کی ایسی ملاقاتیں لہو رنگ عنوان مانگتی ہیں- وہی ہوا جس کا ڈر تھا … ابا کو علم ہوگیا وہ معاملات خراب ہونے سے قبل ہی زہرہ کے والد کے پاس عادل کے لئے رشتہ مانگنے چلے گئے اور بدلے میں زہرہ کے منگیتر کو میرا رشتہ دینے کی پیش کش کی۔ زہرہ کی منگنی تو ان کے خاندان میں پتھر کی لکیر تھی۔ ابا کی جسارت سے ان کے دل میں ناراضگی کا بیج بویا گیا۔ گویا رشتہ مانگنا دوستانہ تعلقات کو ختم کر دینے کی ابتدا تھی۔ اگر ان کو علم ہو جاتا کہ زہرہ اور عادل ملتے بھی ہیں تو یقیناً کھیتوں کی سرحدیں ایک دوسرے کے لہو سے رنگین ہو جاتیں۔ جس رات بھائی عادل اور زہرہ نے باہمی صلاح سے بھاگ جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس سے دوسرے روز یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ اتفاق سے میری چھوٹی بہن وزیراں جس کی عمر تب بمشکل سات برس تھی، گھومتی گھامتی سڑک پر نکل گئی۔ نجانے کیا اس کے جی میں سمائی کہ نادان… سڑک کنارے کھڑی ایک بیل گاڑی پر چڑھ بیٹھی۔ مغرب کا وقت تھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ بیل گاڑی کا مالک قریبی مسجد میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ جب وہ واپس آیا اندھیرا چھا رہا تھا۔ بیل گاڑی میں کماد لدا تھا۔ بچی کو کماد کے گٹھڑے کے پاس ہی بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی اور وہ وہاں ہی گاڑی میں گٹھڑی سی لڑھک گئی۔ یہ بیل گاڑی زہرہ کے باپ کی تھی۔ نماز پڑھ کر واپس آ کر جب گاڑی پر بیٹھا تو بیلوں کو ہانکتا ہوا گھر آ گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کماد کے گٹھے کے سایے میں ایک ذی روح کا اضافہ ہو چکا ہے۔ گھر پہنچ کر وہ گاڑی سے کماد اُتار رہا تھا کہ نظر سوتی ہوئی بچی پر پڑی، اس نے لالٹین کی روشنی میں پہچان کر کہا کہ ارے یہ تو مٹھو چاچا کی بیٹی وزیراں ہے۔ مگر یہ یہاں میری بیل گاڑی میں کیسے آ گئی۔ اس نے بیوی کو اطلاع دی۔ وہ بولی۔ اب تو رات ہوگئی ہے۔ بچی کو یہیں سلا دیتے ہیں۔ صبح اس کو پہنچا دینا ٹھیک ہے۔ مگر اکبر کو اس کے گھر بھیج کر اطلاع تو کرادو ورنہ لڑکی کے گھر والے پریشان ہوں گے۔
ہاں یہ مناسب ہے ورنہ وہ لوگ اس کو ڈھونڈنے نکل پڑیں گے۔ ماں نے اکبر کو آواز دی۔ وہ بولا ۔ ماں اس وقت پیدل تو نہ جائوں گا۔ بھائی کی سائیکل دو تو چلا جاتا ہوں۔ ماں نے کہا۔ لے جائو سائیکل وہ کون سا منع کرے گا… اس کا بھائی گھر پر موجود نہ تھا۔ اکبر نے اس کی سائیکل نکالی اور ہمارے گھر کی راه لی لیکن کچھ راستہ طے کرنے کے بعد اس کی سائیکل پنکچر ہوگئی، وه بد دل ہوگیا کیونکہ اس کو ہماری طرف کے کتوں سے ڈر تھا۔ اس نے آگے کا رستہ طے کئے بغیر لوٹ جانے کی ٹھانی مگر والدین کو یہی بتایا کہ اطلاع کر آیا ہوں تاکہ یہ سر نہ کھائیں اور خاموشی سے اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کی عمر بھی سولہ برس تھی اور اتنی سمجھ بوجھ نہ تھی کہ واقعے کی اہمیت کا اندازہ کر سکتا۔ سوچا کہ صبح ان لوگوں کو بتا دیں گے۔ ایک رات بچی ادھر سو جائے گی تو کون سی آفت آ جائے گی- اس رات جب زہرہ بھائی سے ملنے آئی تو ان کے فرار ہونے کا منصوبہ پگا تھا۔ زہرہ نے کہا کہ کل کا انتظار کیوں… آج ہی بھاگ چلتے ہیں کیونکہ تمہاری بہن غلطی سے ابا کی بیل گاڑی پر چڑھ بیٹھی تھی۔ وہ اب ہمارے گھر ہے، کل تک واپس تمہارے یہاں پہنچ جائے گی۔ آج ہی سب طرف شور مچوا دو کہ زہرہ کے بھائیوں نے ہماری بہن وزیراں کو دشمنی کی وجہ سے اغوا کر لیا ہے اسی سبب حساب برابر کرنے کو ہم نے بھی ان کی لڑکی اٹھائی ہے۔ یہ بات بھی پھیلا دینا کہ تمہارے باپ نے تمہارے لئے میرا ہاتھ میرے باپ سے مانگا تھا، اور اس بات کو انہوں نے بے عزتی خیال کیا کیونکہ میری منگنی ہو چکی تھی، یہ جان کر بھی کیوں وہ رشتہ طلب کرنے کو آئے جبکہ گائوں میں یہ ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک عورت کا دیا ہوا مشورہ تھا اور دیہات والوں کا کہنا تھا کہ مردوں کو عورتوں کے مشورے نہ ماننے چاہئیں کیونکہ وہ کم عقل ہوتی ہیں۔ مگر میرے بھائی کی عقل پر تو زہرہ کی محبت پرده بن کر چھا چکی تھی۔ وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحيت کھو بیٹھا تھا تو گویا اندھا تھا۔ زہرہ اس کی دید ین چکی تھی۔ وہ بہرہ تھا کہ زہرہ ہی اس کی سماعت تھی۔ اس نے زہرہ کی بات مان لی اور اپنی معصوم بہن کے بارے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کیا بنے گا۔ اگر زہرہ کے باپ نے انتقاماً وزیراں کو نہ لوٹایا … ماں تو جیتے جی مر جائے گی۔ فاضل نے آ کر بتایا کہ زہرہ اور عادل اب ہماری دنیا سے دُور نکل گئے ہیں۔ وہ گائوں پار کر کے کسی دوست کے گائوں چلے گئے ہیں۔ جس نے یہ خبر فاضل کو دی اس نے گائوں کا نام نہیں بتایا کہ جدھر وہ گئے تھے، اس لئے وہ ان کے تعاقب میں نہیں جا سکا۔
صبح یہ بات بر طرف پھیل گئی کہ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کی لڑکیاں اغوا کر لی ہیں۔ کچھ سوچ بچار اور صلاح مشورے کے بعد میرا باپ زہرہ کے باوا کے پاس گیا اور کہا کہ اپنی لڑکی کے بدلے تم ایک نہیں بلکہ اپنے دونوں لڑکوں کے لئے میری دونوں بیٹیاں لے لو مگر دشمنی ختم کر دو۔ مگر زہرہ کا باپ اور بھائی اس بدلے پر بھی راضی نہ ہوئے۔ کیونکہ وہی نہیں …. ان کی اغوا شدہ بیٹی کا منگیتر، اُس کا باپ اور بھائی بھی عادل کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے کہ انہوں نے اس امر کو اپنی بے عزتی خیال کیا تھا۔ عادل ان کی ہونے والی بہو اور منگیتر کو اُٹھا لے گیا تھا۔ زہرہ کا باپ تو شاید مان بھی جاتا مگر اس کا بھائی اور بھتیجے زہریلے ناگوں کی طرح پھنکار رہے تھے۔ زہرہ کے باپ نے اس الزام کو بھی رد کر دیا تھا کہ اس نے وزیراں کو اغوا کیا ہے، یہ تو خود اس کی بیل گاڑی میں گھس بیٹھی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ ایک تو ہماری لڑکی کو اغوا کیا ہے، اوپر سے وزیراں کو اغوا کرنے کا جھوٹا الزام بھی یہ ہم ہی پر دھر رہے ہیں جبکہ ہم نے تو ان کو رات ہی کو اطلاع کرا دی تھی کہ بچی ہمارے پاس ہے۔ ابا کہتے کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے کوئی اطلاع نہیں دی۔ اکبر مگر لب سیئے تھا کیونکہ اس نے واقعی اطلاع نہ پہنچائی اور بیچ رستے سے لوٹ آیا اور اب اس معاملہ پر لب کشائی سے گریزاں تھا۔ تبھی معاملہ اور بھی گھمبیر ہو گیا۔ عادل اور زہرہ تو نجانے دنیا کے کس پوشیدہ کونے میں جا چھپے تھے مگر ادھر کہرام مچا ہوا تھا۔ زہرہ کے باپ نے دھمکی دی اگر اس کی لڑکی کو واپس نہ کیا گیا تو وہ قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں گے۔ فاضل بھائی ، اس شخص کے پاس گیا جس کو اس سارے معاملے کا علم تھا۔ میرے بھائی نے اس کے پیر پکڑ لئے اور کہا کہ بے شک تم عادل کے دوست ہو مگر میرے بھی تو دوست ہو۔ تم کو رَبّ کا واسطہ اتنا بتا دو کہ یہ دونوں کہاں چھپے ہیں، ورنہ جانتے ہو کہ کیا نتیجہ ہوگا۔ دونوں طرف کے مرد مریں گے، خون خرابہ ہوا تو پھر اس کی حد نہ رہے گی۔ اس نے بھائی کو بتا دیا کہ وہ لوگ کہاں چھپے ہیں۔ فاضل بھائی وہاں گیا۔ عادل اور زہرہ کی منت کی کہ واپس چلو تاکہ مسئلہ صلح صفائی سے حل ہو ورنہ… وہاں کلہاڑیاں چل پڑیں گی اور معصوم وزیراں بھی واپس نہ کی جائے گی۔ عادل نے کہا۔ فاضل عقل کے ناخن لو، وہ تو یوں بھی قتل و غارت پر تلے ہیں، وہ بپھرے ہوئے ہیں۔ جو مرنے مارنے پر تلے ہوں تو ہم ان زخمی شیروں کی کچھار میں کیوں جائیں۔ میں ان کو جانتا ہوں کہ اب خون خرابہ ہوگا ہی یہ زہرہ کو بھی واپس لے جائیں گے اور ہماری بہن کو بھی نہیں لوٹائیں گے۔ منت سماجت سے کوئی بات نہ بنی اور فاضل مایوس لوٹ آیا۔ ابا نے پولیس انسپکٹر سے رابطہ کیا کہ ہماری کم سن بچی انہوں نے اغوا کی ہے اور اب ہماری جانوں کے درپے ہیں جبکہ ان کی لڑکی بالغ ہے اور اپنی مرضی اور خوشی سے ہمارے لڑکے کے ساتھ گھر سے گئی ہے۔ ان کو برآمد کر کے لڑکی کا بیان لیا جائے تاکہ ہماری کم سن بچی ہم کو واپس مل جائے۔ پولیس حرکت میں آ گئی۔ زہرہ کو برآمد کر کے عدالت میں پیش کیا گیا، اس نے بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے عادل کے ساتھ گئی تھی، اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا۔ مجھے میرے ورثا کے حوالے نہ کیا جائے ورنہ وہ مجھ کو مار دیں گے۔ بہتر ہے کہ پھر یہاں مجھے عدالت میں ہی مار دیا جائے۔ ہم شادی کی نیت سے گھر سے نکلے تھے اور اب ہم نے نکاح بھی پڑھوا یا ہے۔ عادل میرا شوہر ہے اور میں اس کی بیوی ہوں، سو ہمیں ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے اور تحفظ بھی دیا جائے۔ نکاح نامہ دیکھنے کے بعد عدالت نے ان کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ وہ میرے والد اور فاضل بھائی کے ہمراہ عدالت سے نکلے اور گھر کی طرف چلے مگر راستے میں ہی زہرہ اور اس کے منگیتر کے بھائیوں نے ان کو آ لیا۔ یہ تین تھے، تینوں میں سے ایک یعنی زہرہ تو مقابلہ نہ کر سکتی تھی، گویا دو کے مقابلے میں اُس طرف سے پانچ مرد تھے۔ انہوں نے ان کو گھیرے میں لے لیا اور عادل سے کہا۔ سیدھے سبھائو لڑکی ہم کو واپس کردو۔ تم گھر لے جا کر بھی مار دو گے مجھے یہیں مار دو۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی۔ اس پر اس کے دونوں بھائی آگے بڑھے اور زبردستی اس کو لے جانا چاہا۔ وہ عادل سے یوں لپٹ گئی کہ جُدا کرنا مشکل ہوگیا۔ تب غضب ناک ہو کر اس کے بھائی اور منگیتر کے بھائی مل کر ان پر ٹوٹ پڑے اور کلہاڑیوں کے وار سے ان کو ٹھنڈا کر دیا۔ فاضل کو مردہ جان کر وہ چھوڑ گئے جبکہ وہ بیہوش پڑا تھا۔
زہرہ کے بھائیوں اور دیگر اس کا ساتھ دینے والوں کو عمر قید ہوگئی مگر اس قصے میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے میری بہن وزیراں کو نہ لوٹایا۔ ابا نے بھی آئندہ کی دشمنی اور خون خرابے سے بچنے کو چُپ سادھ لی۔ یوں چھ سالہ معصوم کا نکاح انہوں نے بعد میں زہرہ کے اُسی چالیس سالہ قاتل بھائی سے کر دیا جس نے میرے ویر عادل اور اپنی بہن زہرہ کا کام تمام کیا تھا۔ وزیراں اب بھی اسی قاتل کی بیوی ہے اور باپ دشمنی ختم کرنے کو جب تک جیا خاموش رہا۔ اس محبت کے خونی کھیل میں سب سے بڑی سزا وزیراں کو ملی جو اس داستان میں سب سے زیادہ معصوم اور بے قصور تھی۔ سچ ہے کہ کھیتوں میں اگر سبز پتّے اور سرخ پھول ہوں تو داستانیں لہو رنگ ہوتی ہیں۔