ہم دو بہنیں جڑواں پیدا ہوئی تھیں۔ شکل ایک جیسی ہونے کی وجہ سے ہمیں پہچاننے میں والدین کو دقت پیش آتی تھی۔ ماں مجھے سرخ اور ہما کو ہمیشہ نیلا فراک پہناتیں تاکہ وہ ہم کو الگ الگ ناموں سے پکار سکیں۔ جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو امی نے میرے بال کٹوا دیئے جبکہ ہما کے بال لمبے رکھے۔ یوں ہمارے والدین کو ہمیں پہچاننے میں آسانی ہوتی۔ ہم دونوں بہنوں کی صحت اچھی تھی۔ قد جسامت ایک طرح کی تھی۔ وزن بھی برابر تھا۔ رنگت گوری اور دونوں کے بال سیاہ تھے۔ اتنی مماثلت پر اسکول ٹیچرز حیران ہوتی تھیں۔ ایک سا یونیفارم ہوتا تب ٹیچرز کو پہچاننے میں دشواری ہوتی تو انہوں نے ہم کو الگ الگ سیکشن میں بٹھا دیا۔ میں فرسٹ ایئر میں پہنچی اس وقت میری عمر ستره برس تھی جبکہ ہما بھی فرسٹ ایئر میں تھی۔ اس نے آرٹس میں داخلہ لیا تھا جبکہ میں نے سائنس میں… یوں ہم علیحدہ علیحدہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے لگیں۔ مجھ کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور ہما صرف اس لیے کالج جاتی تھی کہ امی ابو پڑھا رہے تھے وہ خالصتاً گھریلو لڑکی تھی۔ پڑھائی سے زیادہ گھر کے کاموں میں دلچسپی رکھتی تھی۔ کہتی تھی زیادہ پڑھ کر کیا کرنا ہے … بعد میں بھی چولہا بانڈی سے ہی واسطہ ہوگا۔ وہ کالج سے آ کر تھوڑی دیر آرام کرتی، پھر امی کے ساتھ کام میں لگ جاتی۔ گھر کی صفائی، ڈسٹنگ، کپڑوں کی دھلائی استری… یہ سارے کام بہت شوق سے کرتی تھی۔ خاص طور پر نئی نئی ڈشیں بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
ان دنوں ایک رشتہ، میرے لیے آ گیا، ہماری کلاس ٹیچر نے اپنے بھائی کے لیے رشتہ مانگا، جس کا نام انجم تھا اور وہ انجینئر تھا۔ عمر میں مجھ سے دس برس بڑا تھا، بہرحال میں اپنی ٹیچر کو اس قدر بھائی کہ انہوں نے امی جان سے مجھ کو مانگ لیا۔ امی کو بھی ہماری شادی کی فکر تھی۔ انہوں نے انجم کو دو تین بار گھر بلایا۔ دیکها، پرکها … ان کو انجم پسند آ گئے۔ یوں رشتہ طے کر دیا گیا۔ جب میری شادی ہوئی اس وقت میں ایف ایس سی کے پرچے دے چکی تھی۔ رزلٹ کا انتظار تھا، انہی دنوں کمپنی کی طرف سے انجم کی جاب لندن میں ہو گئی وہ پہلے سے ہی ایک فارن کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے امی جان سے وعدہ کیا کہ اگر حنا مزید پڑھنا چاہے گی تو میں اس کو وہاں پڑھنے کا موقع دوں گا۔ آپ شادی کر دیں۔ لندن آ کر میں نے کیا پڑھنا تھا۔ گھر داری سنبھال لی میرے میاں کی ملازمت اچھی تھی۔ سب کچھ کمپنی کی طرف سے ملا تھا۔ مجھے نوکری کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ دیار غیر میں وقت اچھا گزرنے لگا اور جب کمپنی کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو لندن میں ہی ایک اور کمپنی میں ملازمت کی آفر مل گئی۔ اب ہم جلد پاکستان نہیں جاسکتے تھے جبکہ مجھ کو گھر والوں کی بہت یاد آتی تھی۔ خصوصاً بما کی یاد ستاتی تھی۔ میں اکثر اس کے ساتھ فون پر بات کر لیا کرتی تھی۔ایک دن سنا اس کا رشتہ طے ہوگیا ہے۔ امی نے اصرار کیا کہ دو ماہ بعد شادی ہے۔ تیاری باندھو تم نے بہن کی شادی میں ضرور آنا ہے۔ جی تو میرا بھی بہت چاہتا تھا کہ بہن کی شادی میں شرکت کروں لیکن میں پاکستان جانے سے قاصر تھی ہم نے یہاں مزید قیام کے لیے اپلائی کیا ہوا تھا اور اب مقرره مدت تک ہم کو یہاں رہنا تھا۔ میرے شوہر کا جاب جاری رکھنا بھی ضروری امر تھا۔ حنا کی شادی ہو گئی اور میں اپنی بہن کی شادی میں شریک نہ ہوسکی جس کا مجھ کو بہت قلق تھا۔ بہر حال وقت گزرتا رہا۔ اس اُمید پر کہ کبھی تو پاکستان جائوں گی اور اپنی بہن سے ملوں گی۔
ایک روز انجم کے ہمراہ ان کا ایک واقف کار ہمارے گھر آ گیا۔ انجم نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارے پاکستانی بھائی ہیں ان کے لیے پاکستانی کھانا بنائو ، میں نے کھانا بنایا اور وہ شخص جس کا نام شاہد تھا میرے خاوند کے ساتھ گپ شپ میں مصروف رہا۔ رفتہ رفتہ شاہد کی انجم کے ساتھ دوستی گہری ہوتی گئی۔ روز کا آنا معمول ہو گیا۔ رات کا کھانا بھی شاہد ہمارے ساتھ کھانے لگا۔ وه عادات و خصائل کا اچھا تھا۔ جلد ہی اس نے ہمارے درمیان ایک فرد کی صورت اختیار کرلی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے آ جانے سے گھر میں رونق ہو جاتی تھی، میرے بچے شاہد سے مل کر خوش ہوتے وہ بھی ہمارے بچوں سے پیار کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک تنہائی کا احساس ہے جس سے وہ مضطرب رہتا ہے۔ اس کو بہت اچھے اچھے لطیفے یاد تھے۔ وہ ہم کو خوب ہنساتا۔ تاہم شائستہ گفتگو کرتا تو لطف آ جاتا۔ اس کی باتوں میں گویا گلوں کی خوشبو تھی۔ ہمارے بچے ہی فقط اس کے گرویدہ نہ تھے۔ ہم دونوں میاں بیوی بھی شاہد کو پسند کرتے تھے۔ لندن میں ایک دوست کے سوا شاہد کا کوئی واقف کار نہیں تھا۔ وہ ہمارے گھر میں اپنائیت محسوس کرتا تھا اور مجھے اپنی بہن کہتا تھا، میں بھی دیار غیر میں ایک بھائی کی محبت پا کر بہت خوش تھی۔
ایک دن شاہد آیا تو بہت اداس تھا۔ میں نے پوچھا، بھائی کیا بات ہے۔ کیوں اُداس ہو؟ کہنے لگا امی جان کافی بیمار ہیں اور میں ان کی تیمارداری کے لیے پاکستان نہیں جا سکتا۔ انجم بولے۔ کیوں ایسی کیا بات ہے؟ اگر پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لو اور جاب کی پروا ہے تو پروا نہ کرو۔ نوکری تو پھر مل جائے گی لیکن ماں جیسی ہستی پھر نہ ملے گی۔ یہی تو دکھ ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ماں مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں اور میری جدائی میں بیمار ہیں اور میں جا ہی نہیں سکتا۔ کیوں نہیں جا سکتے ، خدانخواستہ قید تو نہیں ہو۔ آخر ایسی کیا مجبوری ہے جو نہیں جا سکتے۔ کہا کہ مجبوری میری بھابھی ہے جس کی شکل ہو بہو میری حنا بہن سے ملتی ہے۔ مجھ سے ملتی ہے؟ میں نے حیرت سے سوال کیا؟ ہاں، اس قدر کہ جب میں نے پہلی بار آپ کو دیکھا تو میں ششدر رہ گیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا طلسم ہے کہ ایک ہما ادھر ہے اور دوسری اُدھر ہے۔ مگر آپ نے جب اپنا نام حنا بتایا تو میں خدا کی قدرت پر اور حیرت زدہ ہوا کہ صورت ایک جیسی ہے اور ساتھ ہی ناموں میں بھی اتنی مماثلت ہے۔
خیر آپ سے میں نے اس موضوع پر کوئی بات نہ کی کیونکہ میں اپنے رستے ہوئے زخموں کو مزید کریدنا نہیں چاہتا تھا۔ رستے ہوئے زخم…؟ جب میں نے حیرت سے ان الفاظ کو دہرایا تو اس نے کہا۔ ہاں … وقت نے ایسا زخم دیا ہے کہ جو کسی صورت بھرتا ہی نہیں ہے، کسی کی یاد کو بھلانے کے لیے میں نے وطن چھوڑا ہے اور یہ مجبوری ہے میری کہ اب میں کبھی اس گھر نہیں جاسکتا جہاں وہ رہتی ہے کیونکہ وہ میرے ہی گھر میں رہتی ہے۔ یہ عجب کہانی ہے شاہد پلیز کیا تم اس بارے میں بتائو گے کیونکہ اب تو مجھے تجسس ہوگیا ہے۔ کل بتائوں گا … کل چھٹی ہے۔ صبح آئوں گا اور پھر بتائوں گا۔ آج دیر ہو جائے گی اور صبح جاب پر بھی جانا ہے، چلو ٹھیک ہے… شاہد نے رات کا کھانا بھی اس دن تھوڑا سا کھایا۔ وہ بہت اداس لگ رہا تها. اگلے روز اتوار تھا، وہ گیارہ بجے کے قریب آ گیا۔ میں نے اسے ناشتہ دیا اور انجم نے چائے لی۔ پھر وہ بولے۔ مجھ کو دو تین گھنٹے کے لیے جانا ہے، کچھ کام ہے، دوپہر کے کھانے تک لوٹ آئوں گا، تب تک تم بھائی بہن آپس میں گپ شپ کرو۔ انجم چلے گئے تو میں نے شاہد کو کل کی بات یاد دلائی، وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر یوں گویا ہوا۔
بات یہ ہے جب میں نے ایف ایس سی کے بعد بی ایس سی میں داخلہ لیا تو پڑھائی میں بہت سنجیدہ تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے کالج کے قریب ہی لڑکیوں کا کالج تھا، اتفاق سے ہماری بھی اسی وقت چھٹی ہوتی کہ جس وقت لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ میرے کلاس فیلو اکثر کچھ دیر اپنے کالج کے باہر کھڑے لڑکیوں کو دیکھتے اور پھر اپنی اپنی راہ لیتے۔ اس سے قبل میں جس کالج میں پڑھتا تھا وہاں لڑکیوں کا کوئی اسکول تھا اور نہ ہی کالج … ہم تمام دوست صبح آتے سارے پیریڈز اٹینڈ کرتے۔ کچھ دیر کرکٹ کھیلتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے اس کے سوا ہمارا کوئی اور مشغلہ نہ تھا۔ نئے کالج میں داخلہ لیتے ہی ذہن کی دنیا بدلنے لگی کیونکہ یہاں کی بات ہی اور تھی۔ ہر طرف رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول اور رنگین فضا میں ایک نوجوان اپنے آپ کو کیسے ان رنگوں سے دور رکھ سکتا ہے۔ کچه دوست ایسے مل گئے جو مجھے اپنے ساتھ رنگین مشاغل میں گھسیٹنے لگے۔ وہ چھٹی کے بعد اپنے ساتھ لے آتے اور ہم نے باقاعدہ کالج کے باہر کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ تاہم یہ شائستہ قسم کے لڑکے تھے۔ کبھی کسی لڑکی پر کوئی فقرہ کسا اور نہ کوئی اوچھی حرکت کی صرف دیکھنے کے لیے ضرور کھڑے ہوتے تھے۔ ایک دن میری نظر ایک لڑکی پر پڑی میں تو بس اس کو دیکھتا ہی رہ گیا وہ جیسے میرے خوابوں کی تعبیر تھی۔ یہ وہی چہرہ تھا کہ برسوں جس کو میں نے اپنے خیالوں میں سجا رکھا تھا۔ اس روز گھر میں میرا دل نہ لگا۔ رات بھر اس کی صورت نگاہوں میں پھرتی رہی تمام شب نیند نہ آئی۔ صبح ہوئی، نہا دھو کر بہترین کپڑے پہنے، موثر سائیکل کو بھی خوب صاف کیا اور بن ٹھن کر کالج روانہ ہو گیا۔
کالج پہنچا مگر دل بے چین تھا کہ کب چھٹی ہو اور میں اپنے محبوب کا ایک بار پهر دیدار کر سکوں۔ چھٹی کے بعد کالج کے باہر جا کھڑا ہوا۔ کافی دیر کے بعد اس کا دیدار نصیب ہوا۔ وہ میری طرف آ رہی تھی اور میں اس کو دیکھ رہا تھا وہ بے نیاز سی میرے پاس سے گزر کر کافی دور نکل گئی مگر میں اس کے خیالوں میں گم تھا۔ بہت دیر بعد ہوش آیا، دوستوں نے مشورہ دیا کہ دیکھنے سے کیا فائده… کچھ بات کرو، اپنے دل کا حال سنائو اور کچھ اس کی سنو۔ روز اراده کرتا مگر ہمت نہ پڑتی، روز میں اپنے آپ سے کہتا کہ آج جی بھر کر دیکھ لوں، بات کل کر لوں گا۔ کافی دن اسی طرح گزر گئے، اس کو بھی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ یہ لڑکا میرے لیے ان راہوں میں کھڑا ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس طرح سڑک پر بات کرنے کا تجربہ تھا اور نہ ہی یہ حرکت پسند تھی۔ میری تو خیر کوئی بات نہیں تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بدنامی ہو۔ کافی دنوں کے بعد دل میں پکا ارادہ کیا کہ آج کچھ بھی ہو جائے، اس سے بات کر کے ہی دم لوں گا۔ اس طرح یکطرفہ الفت کا کیا فائدہ …. اس روز چھٹی کے بعد میں نے بہت انتظار کیا۔ رات بھر الفاظ اور جملے بھی سوچے تھے کہ آج اس سے کس طرح بات کرنی ہے مگر میری ساری محنت بے سود ہوگئی۔ وہ نہ آئی۔ اسی دن ہی نہیں بلکہ کئی دنوں تک نہ آئی۔
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بی اے کی طالبہ تھی اور ان کو کالج سے فری کر دیا گیا ہے۔ اب اس کا کالج آنا مشکل ہی ہے مگر ابھی امید تھی کہ رول نمبر سلپ اور امتحانات کے سلسلے میں ضرور آئے گی، یوں کئی دن بلکہ دو ماه میں نے انتظار کیا۔ اپریل کے مہینے کی بات ہے کہ چھٹی کے بعد اپنے دوستوں سے رخصت ہو کر جب لڑکیوں کے کالج سے گزر رہا تھا کہ لڑکیوں کے ہجوم میں اسے دیکھ ليا بمارا كالج مین روڈ پر واقع تھا۔ میں اکثر مری روڈ کی طرف سے آتا تھا مگر آج اتفاق سے ایک اور روڈ سے آ رہا تھا کہ اسے دیکھ لیا۔ موٹر سائیکل واپس موڑی کیونکہ اس نے مری روڈ کی طرف سے گھر واپس جانا تھا۔ میں کچھ فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ میرے پاس سے گزری مجھے غور سے دیکھا… میری آج بھی بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ میں زیادہ لڑکیوں کے سامنے بات نہ کر سکتا تھا۔ ڈر تھا کہ ان کے سامنے ہو سکتا ہے وہ میری بات کا جواب ہی نہ دے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمام مل کر میری خاطر کر دیں۔ انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ وہ چلی گئی۔ میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر آ گیا۔ آج خوش تھا کہ بڑے دنوں بعد اپنے محبوب کا دیدار نصیب ہوا ہے آپ اندازہ نہیں کر سکتیں کہ محبوب کو ایک نظر دیکھنے پر جو دل کو راحت ملتی ہے وہ دنیا کی تمام چیزوں پر بھاری ہوتی ہے۔
بڑی امید لے کر اگلے دن کالج پہنچا مگر اسے دوبارہ نہ دیکھ سکا۔ اب میں روزانہ موٹر سائیکل پر اندازاً ہی اس علاقے کے چکر لگاتا رہتا کہ شاید وہ کسی گھر سے دروازے یا مکان کی چھت پر یا کسی کھڑکی کے جھروکے سے مجھے نظر آ جائے مگر ناکامی رہی۔ انہی دنوں مجھے ایک پرانا دوست ملا۔ اس کا گھر بھی اسی علاقے میں تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق وہ رہتی تھی، اس دوست نے یقین دلایا کہ وہ اس کا کوئی سراغ ضرور نکالے گا۔ کافی دن گزر گئے مگر اس کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ہم بھی روزانہ کالج کے چکر لگاتے رہتے مگر اس کو نہ ملنا تھا اور نہ وہ ملی۔ اس طرح دن گزرتے گئے اور تقریباً دو ماہ گزر گئے۔ ایک دن میں اور میرا دوست چھٹی کے بعد موٹر سائیکل پر یونہی سڑک پر چکر لگا رہے تھے۔ ہم گھومتے گھامتے اپنے کالج کی روڈ سے ہوتے لڑکیوں کے کالج گیٹ کو کراس کر کے پچھلی روڈ سے گزر رہے تھے کہ میرا دوست کہنے لگا، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو … کون آ رہا ہے۔ میں نے موٹر سائیکل کے شیشے میں دیکها تو وہی پری چہرہ مجھے نظر آ گئی جس کو میں دو ماہ سے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ آج اس کا گھر ضرور دیکھوں گا۔ چنانچہ میں نے موٹر سائیکل اپنے ایک دوست کے گھر کھڑی کی جو وہاں قریب ہی رہتا تھا اور خود میں اور میرا دوست اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ بھی ہم کو مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی جو اس کی کزن تھی۔ چلتے چلتے وہ ایک گھر کے اندر چلی گئیں۔ ہم وہاں سے واپس چلے آئے۔ وہاں قریب ہی میرے دوست کا گھر تھا۔ واپسی پر اس کو بتایا کہ وہ لڑکی تمہارے گھر کے پاس ہی رہتی ہے۔ اس نے تسلی دی کہ اب میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کر کے تم کو بتائوں گا مگر ایک بار مجھے اس کا گھر دکھا دو، خیر اس کو گھر دكهايا. بعد میں ہم اپنے گھر چلے آئے۔
میرا گھر اس کے گھر سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، گھنٹہ پون گھنٹہ … موٹر سائیکل پر رش ہونے کی وجہ سے لگ جاتا تھا۔ دوسرے دن ہم دوست چهٹی کے بعد مری روڈ والے چوک پر بس اسٹاپ کے قریب کھڑے تھے ۔ ہم اپنی بات میں مگن تھے کہ اچانک میری نظر چوک کے دوسری طرف پڑی جس طرف کالج تھا وہ اپنی کزن کے ساتھ آ رہی تھی۔ چوک کراس کیا۔ ہمارے پاس سے گزری، اس نے مجھے دیکھا۔ میں تو دیکھ ہی رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر جا کر واپس مڑی میرے سامنے سے گزر کر چوک کراس کر کے سامنے ایک درخت کی چھائوں میں کھڑی ہوگئی۔ شاید اس نے مجھے بات کرنے کا موقع دیا تھا۔ میں بھی بات کرنے کے لیے جانے لگا تو میرا دوست بولا کہ یار یہاں ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں، لوگوں کا آنا جانا ہے اب تمہیں اس کا گھر بھی پتا ہے اور دوسرا دوست بھی تمہیں اس کے بارے میں بتا دے گا اور اب ان کے محلے میں بھی آنا جانا ہے … خدا اور موقع دے گا، ابھی بات کرنے کی سعی مت کرنا۔ میں یہ سن کر بجھ گیا۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑی رہی پھر گھر واپس چلی گئی۔ اس واقعے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل میں بھی میرے لیے جگہ موجود ہے شاید وہ بھی تنہائی میں میرے بارے میں سوچتی ہوگی۔ اب تو میرا ارادہ اور پکا ہوگیا کہ اس کو حاصل کر کے رہوں گا۔ دن رات اب اسی کا خیال تھا اپنی پڑھائی بھول گیا تھا، یہی انتظار تھا کہ اس کے امتحانات شروع ہوں اور میں اس سے بات کرسکوں اس کو دیکھ سکوں۔ وہ دن آیا، میں نے دوست کے بھائی سے بی اے کی ڈیٹ شیٹ لے لی تاکہ پتا چل سکے کہ لازمی مضامین کے پرچے کس کس تاریخ کو ہیں کیونکہ اختیاری مضامین کا مجھے علم نہ تھا جبکہ لازمی مضامین میں سب کو ہی آنا ہوتا ہے۔ ان دنوں ہمارے کالج میں چھٹیاں تھیں۔ گھر سے نکلنا ذرا مشکل تھا۔ روز کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے نکلنا پڑتا تھا۔
پرچوں کے درمیان میں نے اندازہ لگایا کہ بات کرنا ذرا مشکل ہے، اس کے ساتھ پانچ چھ لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس کی کزن بھی ساتھ ہوتی تھی۔ پس آخری پرچے والے دن میں نے ایک خط لکھا اور اپنے محلے کے ایک چھوٹے لڑکے کو راضی کیا کہ خط تم نے ایک لڑکی کو دینا ہے، وہ مان گیا، اس کو ساتھ لیا اور کالج پہنچ گیا۔ جب وہ اور اس کی ساتھی لڑکیاں باہر آئیں، میں نے خط اس لڑکے کو دیا اور بتایا کہ اس لڑکی کو دے آئو، لڑکا خط لے کر گیا مگر پانچ چھ لڑکیاں دیکھ کر گهبرا گیا اور واپس چلا آیا۔ اس طرح یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد اس کا نظر آنا مشکل تھا۔ بڑا مایوس ہوا وہ بھی مڑ مڑ کر دیکھتی رہی، میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی شاید قسمت کو یہی منظور تھا۔ پھر بھی امید تھی کہ اللہ ضرور مدد کرے گا کیونکہ میرا جذبہ سچا تھا۔ اس دوران امتحان ہو گئے۔ پاس ہونے کی امید نہ تھی۔ پڑھا ہوتا تو پاس ہوتا خیر پرچوں کے بعد ہماری پارٹ ٹو کی کلاسز شروع ہو گئیں۔ اُدھر دسمبر کے مہینے میں بی اے کا رزلٹ آنا تها جس دن رزلٹ آیا، میں سارا دن انتظار کرتا رہا، آج شاید وہ آئے۔ میں چوک کے قریب ہی کھڑا تھا، میرے دوست بھی تھے دور سے دیکھا تو وہ مجھے نظر آئی۔ اکیلی ہی تھی۔ آج موقع اچھا تھا، میں چوک کراس کر کے قریب کھڑا ہو گیا۔ جب وہ میرے قریب سے گزری تو روکنا چاہا مگر وہ نہ رکی میں موٹر سائیکل کھڑی کر کے اس کے پیچھے پیچھے پیدل چل پڑا۔ قریب جا کر سلام کیا۔ اس نے خلاف توقع جواب دیا کچھ باتیں ہوئیں، اپنے دل کی بات بھی کی۔
پہلے تو اس نے پہچاننے سے انکار کر دیا مگر بعد میں ٹھیک ہو گئی، کافی ڈر رہی تھی جب آبادی قریب آئی تو اس نے مجھے کہا کہ اب میں واپس چلا جائوں، کسی نے دیکھ لیا تو برا ہوگا۔ میں نے خدا حافظ کہا اور واپس چلا آیا مگر بعد میں ملاقات کرنے کے لیے ٹائم دیا اور نہ ہی ملنے کا طریقہ کار وضع کیا … خوشی خوشی واپس چلا آیا۔ دوستوں نے مجھے پکڑ لیا کہ ہماری اس خوشی کے موقع پر دعوت کرو۔ ان کو ہوٹل میں کھانا کھلایا اور گھر واپس آ گیا۔ آج میں کافی خوش تھا کہ کچھ بات تو ہوئی، پہلے تو اس کی شکل ہی دیکھی تھی۔ آج اس کی خوبصورت آواز بھی سن لی کئی دن تک چکر لگاتا رہا مگر پھر وہ نظر نہ آئی۔ اندازہ لگایا کہ وہ گھر میں نہیں بلکہ شہر سے ہی چلی گئی ہے۔ اب کافی دن بلکہ مہینے گزر گئے اس کی خبر نہ ملی، اس کو دیکھنے کو آنکھیں ترسنے لگیں شاید اس نے مجھ سے محبت نہ کی ہو مگر میں نے اسے دل کی گہرائیوں سے چاہا تھا۔ جس دن سے اسے دیکھا تھا وہ میرے دل سے ایک لمحے کے لیے بھی دور نہ ہوئی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ کیا ایسی بھی محبت ہوتی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کو کسی کے سچے جذبات کی خبر ہی نہ ہو۔ خدا گواہ ہے کہ سڑکوں پر، محلے کی گلیوں میں اور لڑکیوں کے کالج کے باہر صرف اس کو ایک نظر دیکھنے کے لیے کھڑا ہوتا تھا اور اس کے سوا آج تک کسی اور لڑکی کو میں نے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے صرف اس سے محبت کی کہ جس کا میں ان دنوں نام تک نہیں جانتا تھا۔ کیا وہ پھر تم کو کبھی نہیں ملی۔ کیا اس کی کوئی جھلک بھی نہ دیکھ سکے۔ میرے اس سوال پر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کافی دیر بعد گہرے کنوئیں سے جیسے آواز آئی ہو۔ ہاں ملی بھی اور اسے دیکھا بھی مگر کی ایسے روپ میں ملی کہ پھر اس کو دیکھنے کی آرزو ہی مر گئی اور اس کے بعد میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ گھر وہ شہر وہ جگہ اور وہ ملک ہی چھوڑ دیا۔
وہ تمہیں کہاں ملی تھی آخری بار …؟ میرا تجسس أخرى حد تک پہنچ چکا تھا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی کے لیے امی لڑکیاں دیکھ رہی تھیں، انہیں کوئی لڑکی نہیں جچ رہی تھی۔ آخر کار ایک لڑکی ان کو پسند آ گئی اور ایک ماہ بعد بڑے بھائی کی شادی ہو گئی جب بھابھی آئی اور ان سے ملنے گیا۔ یہ ان کی شادی کا دوسرا دن تھا۔ شام کو ولیمہ تھا امی نے مجھے گھڑی دی کہ بھابھی کا چہرہ پہلی بار دیکھو تو منہ دکھائی میں ان کو گھڑی دینا۔ وہ منہ نیچے کئے بیٹھی تھیں، دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف دکھائی نہ دے رہا تھا … بھابھی منہ تو دکھائو، میں آپ کے لیے گھڑی لایا ہوں۔ اس نے منہ اوپر کیا اور میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ پہلی نظر کے بعد… میں دوسری نظر اس چہرے پر نہ ڈال سکا کیونکہ میری بهابهی وہی لڑکی تھی جس کو میں دیوانہ وار ڈھونڈ رہا تھا۔ تب ہی گھڑی میں نے اس کے قدموں میں رکھ دی اور کمرے سے باہر آ گیا۔ میں نے اپنے کپڑوں کا بیگ بھی نہ اُٹھایا بس جیسے کھڑا تھا ویسے ہی گھر سے نکل گیا … ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ کسی کو پتا نہ تھا، میں کہاں گیا ہوں۔ گھر والے مجھے ڈھونڈتے رہے، وہ سمجھے شاید میں کسی حادثے کا شکار ہوگیا ہوں اور واقعی میں ایک بڑے حادثے کا شکار ہوا تھا … وہ لڑکی جس کو دل کی گہرائیوں سے چاہا میری بهابهی بن چکی تھی۔ یہ حادثہ ہی تو تھا، حادثہ نہیں بلکہ ایک سانحہ تھا۔ جس کی تاب میں نہیں لا سکتا تھا۔ میں اور وہ اب ایک گھر میں نہیں رہ سکتے تھے۔ تب ہی میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے دوست کے پاس چلا گیا۔
اس وقت میں اس قدر ٹوٹا ہوا تھا کہ گر سہیل مجھے سہارا نہ دیتا تو شاید میں مر جاتا۔ وہ میرا رازداں میرا غمگسار بھی تھا۔ اس نے مجھے سہارا دیا۔ میرا غم بھلانے کے لیے سینکڑوں راتیں میرے ساتھ جاگ کر گزاریں اور مجھے یہاں بھی اسی نے پہنچایا۔ انجم سے ملا تو مجھے آپ کے شوہر نے بہت اپنائیت دی اور اس گھر میں آ کر جانے کیوں اتنا سکون ملتا ہے کہ واپس جانے کو جی نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ شاید وہ مماثلت ہے جو اس کی اور آپ کی شکل میں ہے۔ لیکن آپ میری بہن ہو کیونکہ میرے دوست کی بیوی ہو … لیکن چہرے کی مشابہت یقین جانو بالکل وہی ہے ، اتنی مماثلت کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی مگر عقل حیران رہ جاتی ہے آپ کو دیکھ کر میرے بے قرار دل کو قرار آ جاتا ہے۔ وہ میری بہن ہے نادان… جو تمہاری بھابھی ہے اور تم بد قسمت ہو کہ تمہاری ماں نے جس کو تمہارے لیے پسند کرنا تھا اس کو تمہارے بھائی کے لیے پسند کیا … اب آنسو پونچھ لو شاہد… کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ہم اس کو نہیں مٹا سکتے۔
میں نے شاہد کے آنسو پونچھے اور اس کو تسلی دی کیونکہ وہ رو رہا تھا …. شاید کہ اس کے رستے زخم کھل گئے تھے اور اب اس کی تکلیف اسے رُلا رہی تھی۔ کاش میں تم سے تمہاری کہانی نہ سنتی تم کو یہ تکلیف نہ ہوتی۔ میں نے کہا تھا۔ اس کے بعد ہمارا بہن بھائی کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ جو آج بھی گہرا ہے، وه واقعی میرا بھائی ہے کہ میرا کوئی بھائی نہ تھا۔ میں شاہد کا بہت خیال کرتی ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ طالب علم صرف اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ ان بے مقصد کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھیں، ان چیزوں میں نوجوانوں کو بڑی دلکشی نظر آتی ہے مگر یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں بس اپنے والدین کی خواہشوں کے لیے اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے پڑھائی میں دل لگائیں۔ اس قسم کی دل لگی سے بچیں جس کی وجہ سے شاہد کی زندگی برباد ہو گئی۔