Friday, February 14, 2025

Muhabbat Ka Savera

شاہد کی پہلی بیوی نجمہ فوت ہو چکی تھی۔ ان دونوں میں بہت محبت تھی ، پھر کسی بات پر نجمہ خاوند سے لڑ جھگڑ کر اپنے والدین کے پاس دبئی چلی گئی ، جہاں رضائے الہی سے اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ صدمہ شاہد کے لئے جان لیوا تھا وہ کافی عرصہ دکھی اور بیمار رہے۔ وہ رشتے میں میرے کزن ہوتے تھے ان کی والدہ میری سگی خالہ تھیں۔ وہ کہتی تھی کہ بیٹا تم دوسری شادی کر لو کیونکہ مرنے والی تو واپس نہیں آ سکتی ، مگر شاہد کہتے کہ میرے دل پر ابھی تک نجمہ کا راج ہے ، اس کی جگہ کوئی اور عورت نہیں لے سکتی کیوں تم کسی کی زندگی خراب کرنا چاہتی ہو۔ جب میں یہ سنتی تو دل بہت دکھتا ۔ ان دنوں شاہد خود سے بے گانہ ہو گئے تھے۔ کپڑوں کا ہوش تھا، نہ کھانے پینے کا، بس بیٹھے منہ تکتے رہتے۔ ان کی حالت پر خالہ بہت زودرنج رہتی تھیں ۔ شاہد اکلوتے بیٹے تھے اور گھر کا دار و مدار انہی پر تھا جبکہ انہوں نے دفتر سے ایک سال کی چھٹی لے لی تھی اور ہر وقت کمرے میں لیٹے رہتے ، جہاں سامنے دیوار پر نجمہ کی تصویر لگی تھی، بس اس کو دیکھ دیکھ وقت کاٹتے سال ہونے کو تھا ، شاہد کی چھٹی ختم ہو رہی تھی اور یہ ابھی تک آفس جانے کے موڈ میں نہیں تھے، اس وجہ سے خالہ بہت پریشان تھیں۔ ایک دن خالہ امی سے کہنے لگیں کہ شاہد کا دل تو نجمہ کی یادوں میں اٹکا ہوا ہے ۔ اس نے اپنی ہر ذمہ داری کو بھلا دیا ہے۔ امی نے کہا۔ تم اس پر ذمہ داری ڈالوگی تو وہ احساس کرے گانا تم ہی کوئی راه بتاؤ آیا، کیا کروں؟ خالہ نے سوال کیا۔ ارے بھئی اس کی دوسری شادی کر دو امی نے سمجھایا۔ آپا ! میں نے بہت کہا ہے، گھنٹوں سمجھاتی ہوں ، مگر وہ مانتا ہی نہیں۔ پھر کیسے کسی لڑکی کی زندگی خراب کروں تب امی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ نورین ماشاء الله سمجھ دار ہے اور تم سے پیار کرتی ہے ۔ وہ تمہارا دکھ درد اچهی طرح سمجھتی ہے۔ اگر تم کسی طرح شاہد کو راضی کرلو تو نورین سے اس کا نکاح کرا دیتے ہیں ۔ یہ خود اُسے سنبھال لے گی۔ عورت سمجھ دار اور محبت کرنے والی ہو تو کیا نہیں کر سکتی۔ خالہ بولیں اچھی طرح سوچ لو بہن! تم بیوه ہو ، اس بچی کا باپ ہے ، نہ کوئی بھائی۔ ایسا نہ ہو کہ کل یہ دکھی ہو اور تم ہمیں کوسو۔ تب امی نے کہا ۔ دکھ میں اپنے کام آتے ہیں ۔ شاہد کوئی غیر نہیں، تم سب اپنے ہو، اس لئے اس بات کی فکر مت کرو، بس بیٹے کو راضی کر لو۔ اسے زندگی کی طرف لانا نورین کا کام ہو گا۔ کیوں بیٹی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ؟ جی اماں ۔ میں نے انکار کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ شروع سے میںامی کی ہر بات مانتی تھی۔ ماں نے بچپن سے مجھے فرماں برداری سکھائی تھی ۔

خالہ نے گھر جاکر شاہد کو سمجھایا جب اس نے انکار کیا تو خالہ اتنا روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں ماں کو بے سدھ دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور ان کے اندر کا انسان جاگ گیا وہ بھاگے بھاگے ڈاکٹر کو بلا لائے۔ ڈاکٹر نے بھی شاہد کو سمجھایا کہ یہ صدمے سے بے ہوش ہوگئی ہیں۔ ایسی حالت میں لوگ اکثر کومے میں چلے جاتے ہیں تو بے ہوشی میں ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ والدہ تمہاری شادی کرنا چاہتی ہیں ، تو تم ان کی خوشی پوری کردو اور خدا سے اچھائی کی امید رکھو ۔ شاہد نے اس حقیقت کو قبول کرلیا اورماں کی طبیعت بہتر ہونے پر کہا کہ آپ جو چاہیں کریں ، مجھے اعتراض نہیں، مگر لڑکی کو سمجھا دیں کہ میں اسے وہ پیار نہ دے پاؤں گا جو نجمہ کو ملا – ماں نے کہا ۔ وہ لڑکی کوئی غیر نہیں جس کو کچھ سمجھانے کی ضرورت پڑے گی ۔ وہ ہر بات پہلے سے ہی سمجھتی ہے ۔ شاہد بولے ۔ وہ کوئی بھی ہو، میرے لئے سب برابر ہیں۔ بس اس کو کہہ دینا کہ وہ مجھے ڈسٹرب کرنے کی کوشش نہ کرے گی ، ورنہ میں اسے چھوڑ کرچلا جاؤں گا۔ خالہ کے لئے تو یہی غنیمت تھا کہ اس نے ہاں کردی تھی، آگے سنبھالنا بیوی کا کام تھا۔ مجھے انہوں نے اچھی طرح سمجھا دیا کہ تمہیں پہلے پہل تو کوئی توقع نہیں کرنی شاہد کو اس کے حال پر چھوڑنا ہے، رفتہ رفتہ وہ خود تمہاری قربانی محسوس کرکے ، تمہاری طرف مائل ہو جائے گا اور نجمہ کی یاد اس کے دل سے مٹ جائے گی۔ میں کلی طور پر تمہارے ساتھ ہوں۔ اب ساس اور میں ایک ہو گئے، مگر شاید الگ تھلگ ، چپ چپ رہتے ، سارا دن نجمہ کی تصویر دیکھتے رہتے۔ ایک دن خالہ نے مجھ سے کہا۔ بیٹی کسی طرح اس تصویر کو تم اس کی آنکھوں سے دور کر دو تو یہ تمہاری طرف دیکھنا شروع کر دے گا۔ تم کو نجمہ بن کر اس کی کمزوری دور کرنا ہوگی۔ میں نے کہا۔ خالہ جان اس کے لئے مجھے نجمہ جیسی عادتیں اپنائی ہونگی۔ آپ بتائیں کہ اس کی عادتیں کیسی تھیں ؟ خالہ نے مجھے کافی باتیں بتائیں اور اس کے سوٹ کیس بھی دئیے ، جن میں اس کے نئے جوڑے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک جوڑا نکالا نہا دهوکر بناؤ سنگھار کیا اور وہ جوڑا پہن کر کمرے میں داخل ہوگئی۔ جونہی انہوں نے مجھے دیکھا ، ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ وہ وہ مجھے نجمہ کے روپ میں دیکھ کر خوش ہونگے مگر نہایت ناگواری سے انہوں نے مجھے دیکھا اور ڈانٹ کر کہا – نورين! کیا تمہارا دماغ خراب ہے؟ میں تم کو ایک عقل مند لڑکی سمجھ رہاتها اور تم اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئیں۔ کیا ایسی حرکتوں سے  کسی کا دل جیتا جا سکتا ہے؟ اللے میرے زخم ہرے کر دیئے ہیں میں بولی میں نے آپ کو خوش دیکھنے کے لئے یہ سوانگ بھرا تھا ، ورنہ آپ تم سمجھ سکتے ہینکہ ایسا کرتے ہوئے مجھ پر کیا بیتی ہوگی۔ وہ کہنے لگے۔ ایسے سوانگ بھرنے سے تم میرا دل نہیں جیت سکتیں۔ اب تم میرا دل مت جلاؤ اور چلی جاؤ میرے کمرے سے آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔ ان کے لہجے کی کرختگی نے میرا دل چھلنی کردیا اور میں روتی ہوئی اپنے کمرے میں آکر بستر پر گر کر خوب روئی یہاں تک کہ دل کا بوجھ آنسوؤں میں بہہ گیا۔ کچھ دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ دیکھا تو دروازے پر شاہد کھڑے تھے۔ میری سرخ آنکھیں دیکھ کر انہیں احساس ندامت ہوا ۔ وہ کہنے لگے۔ آؤ ، میرے کمرے میں بیٹھو اور مجھے معاف کردو ۔ میں نے جذبات میں نجانے تم کو کیا کچھ کہہ دیا ۔ آؤ ، آج سے نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، بس تم نجمہ کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا۔ میں نے کہا۔ آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔ میں نے بالکل بھی برا نہیں منایا۔ مجھے پتا ہے کہ آپ نجمہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ میں آئندہ ایسا کبھی نہ کروں گی۔ غلطی میری تھی، معافی آپ مانگ رہے ہیں۔ اس دن کے بعد سے شاہد مجھ سے پیار سے بات کرنے لگے اور آفس بھی جانے لگے ۔ یوں ہماری زندگی معمول کے مطابق گزرنے لگی۔ گرچہ شاہد کے پیار میں بناوٹ اور رکھ رکھاؤ ہوتا، پھر بھی غنیمت تھا کہ میری جیت ہوگئی تھی۔

ایک دن جب شاہد دفتر گئے ہوئے تھے ، دروازے پر دستک ہوئی۔ ملازمہ نے آکر بتایا کہ ایک صاحب آئے ہیں، کہتے ہیں شاہد کی بیگم سے ملنا ہے۔ میں حیران ہوگئی کہ یہ کون ہوسکتا ہے ، میں نے کہا۔ تم ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ، میں دیکھتی ہوں کون ہے، پھر میں دوپٹہ سر پر لے کر ڈرائنگ روم میں گئی ۔ اس شخص نے کہا کہ مجھے شاہد کی بیوی نجمہ سے ملنا ہے، آپ ان کو بلا دیں۔ میں نے بتایا کہ نجمہ تو فوت ہوچکی ہیں، میں شاہد کی دوسری بیوی ہوں۔ بتائیے، کیا کام ہے؟ وہ کہنے لگا کام تو مجھے انہی سے تھا۔ ان کے کچھ خطوط میرے پاس تھے۔ میں ملک سے باہر تھا تب اس نے مجھ سے بے وفائی کی اور شاہد سے شادی کرلی۔ میں نے سوچا کہ اس کی امانت لوٹا دوں، لیکن افسوس کہ وہ مرگئی ہے۔ اب مینیہ خطوط شاہد صاحب کو دے دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ یہ خطوط مجھ سے ضرور خرید لیں گے تاکہ اپنی عزت بچا سکیں۔ اس آدمی کی باتیں سن کر حیران رہ گئی۔ سوچا کیسا گھٹیا اور گرا ہوا شخص ہے یہ؟ مرنے کے بعد بھی نجمہ کو نہیں بخش رہا ۔ بہر حال اپنے شوہر کو مزید دکھ سے بچائے اور ان کی عزت کی خاطر میں نے استدعا کی کہ کیا آپ یہ خطوط مجھے نہیں دے سکتے ؟ کیوں نہیں، جو بھی ان کی قیمت دے دے، مجھے تو انہیں بیچنا ہی ہے۔ اس کا کیا ثبوت کہ یہ خط نجمہ کے ہی ہیں؟ بڑی ساده سی بات ہے اگر آپ سمجھ سکیں ۔ اس کے لہجے کے یقین سے میں نے اندازه کرلیا کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے، تبھی میں نے کہا ۔ دیکھئے مسٹر ثاقب میں آپ کو نہیں جانتی مگر آپ ایک اچھے انسان نظر آتے ہیں براه کرام اس راز کو راز ہی رہنے دیجئے ۔ آپ اگر ضرورت مند اور مجبور ہیں تو ان کی قیمت دینے پر تیار ہوں۔ آپ رقم بتا دیجئے۔ اس نے کہا۔ ایک لاکھ روپے ۔ اس وقت ایک لاکھ کی رقم بہت ہوتی تھی سوچا ، کہاں سے لاؤں گی ایک لاکھ روپے ؟ خالہ بھی گھر پر نہیں تھیں مجھے متذبذ ب دیکھ کر وہ بولا۔ میں چلتا ہوں ، پھر آجاؤں گا اور شاہد صاحب سے بات کرلوں گا۔ میں نے کہا ۔ نہیں نہیں، آپ پھر مت آئیے گا۔ میں آپ کو نقد رقم تو نہیں دے سکتی البتہ میرا  زیور ہے ، وہ لے لیں اور یہ خطوط مجھے دے دیجئے۔ میںنے جلدی جلدی اپنا زیور نکالا اور اس کے سامنے رکھ دیا ۔ اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے زیور سمیت کر بریف کیس میں رکھا اور خطوط کا پلنده میرے حوالے کر کے چلتا بنا۔خطوط کھول کر پڑھنے لگی۔ ایک دو خط پڑھے ، پھر ان کو لفافے میں واپس ڈال لیا۔ خطوط میں والہانہ محبت کا اظہار تھا۔ نجمہ کی تحریر میں دیکھ چکی تھی، یہ اسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اصلی خطوط تھے۔ ایک تصویر بھی اس شخص نے لفافے میں ڈال دی تھی، جس میںنجمہ اس کے بہت قریب بیٹھی ہنس رہی تھی۔ یہ خطوط میںنے شاہد کی عزت بچانے کی خاطر خریدے تھے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اگر وہ شخص گھٹیا اور بلیک میلر ہے، تو دوباره کچھ نہ کچھ لے کر آجائے گا، پھر میں کہاں سے پیسے لاؤں گی۔ میں نے اس واقعہ کا ذکر خالہ اور شاہد سے اس لئے نہیں کیا کہ خالہ کو زیور جانے کا صدمہ ہوتا اور شاہد کو نجمہ کے کھوٹے عشق کا دکھ ۔ دونوں ہی مجھے عزیز تھے اور ان کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ اب میں ان خطوط کی وجہ سے سخت پریشان تھی کہ ان کو کہاں چھپاؤں ؟ کئی جگہیں بدلیں لیکن کوئی بھی محفوظ نہ لگی۔ میں بہت پریشان ہوگئی کہ کہیں یہ میرے شوہر کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔تنگ آکر میںنے ان کو جلانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن میں انہیں جلا رہی تھی کہ اچانک شاہد آ گئے۔ میں تصویر جلا چکی تھی اور خط بهى بس آخرى جل رہا تھا۔ شاہد نے پوچھا کہ کیا جلا رہی ہو؟ میں نے گھبرا کر کہا کچھ نہیں۔ ان کو شک پڑ گیا اور خط کا جو ٹکڑا ابھی جل رہاتھا، انہوں نے اٹھالیا اور بجھا کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا ، میرے پیارے ثاقب ان کو بہت غصہ آیا۔ مجھ سے پوچھا کون ہے یہ ثاقب اور یہ کس نے لکھا ہے؟ میں نے کہا۔ مجھے نہیں معلوم کاغذ جلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے تحریر پر غور نہیں کیا ، ورنہ وہ نجمہ کی تحریر پہچانتے تھے ۔ انہوں نے بہت اصرار کیا، لیکن میں نہ بتاسکی کہ ثاقب کون ہے ؟ اور کیسے بتاتی جبکہ میں خود نہیں جانتی تھی۔ لیکن ان کا اصرار تھا مجھے اس شخص کا پتا بتاؤ۔ اسی ضد میں بالآخر انہوںنے مجھے گھر سے نکال دیا ۔

میں حواس باختہ ہوگئی کہ ایک پل میں کیا سے کیا ہوگیا تھا۔بہت روئی کہ اب میں کہاں جاؤں گی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیونکہ میری شادی کے چار ماہ بعد امی کا انتقال ہوگیا تھا۔ اب میرا کوئی میکہ نہ تھا۔ سڑکوں پر روتے، پھرتے، اندھیرا چھا گیا۔ اچانک کمزوری محسوس ہوئی۔ یاد آیا ، صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ میں بھوک سے نڈھال سڑکوں پر پھرتے پھرتے ایک مزار کے سامنے پہنچ گئی۔ وہاں لنگر کے لئے لوگ قطار بنائے ہوئے تھے ، میں بھی ان میں کھڑی ہوگئی جب میری باری آئی اور میں نے باتھ آگے کیا تو یہ دیکھ کر حیران ره گئی کہ لنگر ہمارا پرانا ملازم توقير بابا تقسيم كرربا تها. بابا نے مجھے پہچان لیا اور بولا۔ بی بی آپ یہاں ؟ میں نے مختصراً اپنا حال بتایا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئے اور اپنی بیوی کو ہدایت کی کہ ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی چاہیے۔ بابا نے بتایا کہ شاہد صاحب نے پیسے دئیے تھے کہ نجمہ بی بی کی روح کے ثواب کی خاطر ہر جمعرات کو غریبوں میں کھانا تقسیم کیا کروں میں اسی لئے یہاں آیا تھا۔ میں نے کہا۔ بابا فی الحال آپ ان سے ذکر نہ کریں کہ میں کہاں ہوں۔ ایک دن وہ ضرور پشیمان ہونگے۔ وہی دن میری جیت اور مرحومہ نجمہ کی ہار کا ہو گا۔ بابا نے میری اس یقین دہانی پر کہ میں تب تک ان کے گھر رہوں گی، وعدہ کرلیا کہ وہ میرے متعلق شاہد کو کچھ نہ بتائیں گے۔ ان دنوں میں امید سے تھی، مگر مجھے ابھی اس کا علم نہیں تھا۔ طبیعت خراب ہونے پر بابا کی بیوی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس نے بتایا کہ میں امید سے ہوں۔ ادھر دو ماہ بعد وہ شخص یعنی ثاقب ، ایک بار پھر گھر آیا۔ اس باراس کی ملاقات شاہد سے ہوگئی ۔ اس نے کہا کہ میں ایک امانت آپ کی بیوی کو دے گیا تھا ، مگر چند تصویریں میرے پاس رہ گئی تھیں۔ وہ دینے آیا ہوں ، پھر اس نے اپنی اور نجمہ کی تصاویر شاہد کو دیں اور کہا کہ یہ آپ کو مفت نہیں ملیں گی۔ خریدنا چاہتے ہیں تو خرید لیں کیونکہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں اور مجھے ٹکٹ خریدنے کے لئے رقم درکار ہے ۔شاہد نے نجمہ اور ثاقب کی تصاویر دیکھیں تو سارا معاملہ ان کی سمجھ میں آ گیا ، لیکن اپنی محبت کو موت کے بعد کی رسوائی سے بچانے کی خاطر انہوں نے منہ مانگی قیمت ادا کرکے تصاویر لے لیں اور کہا کہ اگر اور کچھ بھی اس ضمن میں تمہارے پاس ہے، تو ابھی لے آؤ اور قیمت لے لو، مگر بار بار یہ خریداری نہیں چلے گی۔ اس کے بعد اگر تم آئے تو پھر یادرکھنا مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ اس شخص نے کہا مجبوری آدمی سے ایسا کام کرواتی ہے، ورنہ میں اتنا برا نہیں تھا۔ نجمہ مجھ سے بے وفائی نہ کرتی ، تو یہ نہ ہوتا۔ رقم لینے کے بعد واقعی وہ پھر نہیں آیا ، مگر اس کا دوبارہ آنا مجھ پر ایک احسان تھا، کیونکہ سارا معاملہ میرے خاوند کی سمجھ میں آ گیا تھا ، بلکہ انہیں میری قدر بھی ہو گئی۔ انہوں نے کمرے کی دیوار پر لگی نجمہ کی تصویر اتار کر توقیر بابا کو دی اور کہا کہ اس کو دریا میں بہا دینا۔ خالہ سے کہا کہ نجمہ کی ہرنشانی مٹا دیں، گھر میں اس کی کوئی یاد باقی نہ رہنی چاہیے۔ اب وہ اپنے کئے پر پچھتائے اور میرے لئے تڑپنے لگے۔

وقت کے ساتھ ان کی تڑپ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور میری قدر اور محبت بھی اسی شدت سے بڑھتی جاتی تھی۔ توقیر بابا آ کر مجھے ان کی حالت بتاتے رہتے تھے، پھر بابا نے اور ان کی بیوی نے مجھے سمجھایا کہ ایسا نہ ہو وہ بیمار ہوجائیں ۔ ہم آپ کی خالہ کو بلالاتے ہیں۔ میری آمادگی پر بابا نے خالہ کو بتادیا کہ آپ کی بہو میرے گھر میں ہے۔ جس دن صاحب نے ان کو نکالا تھا، اسی دن میں نے ان کو اپنے گھر پناہ دے دی تھی ہم حالات کا انتظار کر رہے تھے کہ خدا کوئی سبیل نکالے تو بی بی واپس اپنے گھر چلی جائیں ۔ خالہ نے توقیر بابا کو دعائیں دیں اور کہا۔ خدا تمہارا بھلا کرے ، تم نے میری بھانجی کو اس بے رحم دنیا میں گم ہونے اور ہمیں بڑی بدنامی سے بچالیا، پھر آکر بیٹے کی طرف سے معافی مانگی اور گھر چلنے کو کہا میں نے کہا۔ خالہ آپ مجھے لے جارہی ہیں ۔ اگر شاہد نے قبول نہ کیا اور پھر سے گھر سے نکال دیا ، تو آپ کیا کریں گی ؟ خالہ بولیں۔ بیٹی ایسا نہیں ہوگا شاید خود تمہارے لئے بہت پریشان ہے۔ اس کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ تمہاری غلطی ہے کہ جب ثاقب نامراد آیا تها تو تم میرا انتظار کرتیں۔ میں جب واپس آتی تو مجھے نجمہ کے خطوط دے دیتیں اور سارا حال بتا دیتیں تو آج یوں در بدر نہ ہوتیں۔ ہمیشہ بزرگوں سے مشورہ کرنا چاہئے ۔ اگر وہ بدبخت شخص دوبارہ نہ آتا تو کبھی شاہد کے دل سے غلط فہمی دور نہ ہوتی ۔ مرد کے دل میں ایک بار شک آ جائے تو سمجھو شیشے میں بال آ گیا۔ خیر ، خالہ مجھے گھر لے گئیں۔ شاہد کو بھی برابھلا کہا کہ اس کا کون ایسا رشته دارتها جو اس کو سنبھالتا وه تو شکر کرو کہ توقیر بابا نے ہم پر احساس کیا وه کافی بوڑھے آدمی تھے اور میرے سسر صاحب کے وقت سے ملازم تھے خدا نے میرا گھر آباد کرنا تھا، سو اس نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ سچ ہے وہ جو چاہے ہو جاتا ہے۔ میں اپنے رب کی مشکور ہوں کہ اپنے گھر آباد ہوں۔ نجمہ کی حقیقت کھلنے کے بعد اس کی یاد خود بخود شاہد کے دل سے محو ہوگئی۔ بھلا برجائی کو کون یاد رکھتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS