میرے چھوٹے بھائی کو اپنے دوست کی دیکھا دیکھی کبوتر پالنے کا شوق چرایا تھا۔ وہ پیارے پیارے سفید کبوتر خرید لایا اور چھت پر بنے ہوئے ڈربے میں رکھ دیا۔ چند دن صہیب نے ان کی دیکھ بھال کی، دانہ وغیرہ ڈالتا رہا، پھر اس مشقت سے اکتا گیا۔ مجھے تو بھائی کی مستقل مزاجی کا پتا تھا کہ اس کے شوق کی نیا پار نہیں لگنی، تب میں روزانہ باقاعدگی سے ڈربہ صاف کر کے کبوتروں کو دانہ پانی ڈالنے لگی۔ وہ مجھ سے ہل گئے، مجھے بھی ان سے لگاؤ ہو گیا۔ جب تک صبح و شام چھت پر جا کر ان کی خبر گیری نہ کر لیتی، مجھے چین نہ آتا۔ ان دنوں میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ اسکول جانے سے پہلے دانہ پانی ڈالنا ہوتا تھا۔ سچ کہوں، صبح سویرے اٹھنا بہت دشوار لگتا تھا لیکن ان پرندوں کی خاطر اٹھ جاتی تھی۔ یہ اتوار کا دن تھا، اس روز میں ذرا دیر سے چھت پر گئی۔ کبوتروں کو کھولا تو وہ پھڑپھڑا کر ڈربے سے نکلے اور دوڑتے ہوئے میری جانب آ کر دانہ چگنے لگے۔ میں ان کو دانہ چگتے دیکھ کر سرور محسوس کر رہی تھی۔ جب دل کرتا اپنے بازو پر بٹھا کر پیار سے باتیں کرتی، وہ جواب میں غٹرغوں کے سوا کچھ نہ بولتے۔ میں اپنے مشغلے میں مشغول تھی کہ اچانک نظر سامنے کی طرف اٹھ گئی، جہاں ساتھ والی چھت پر ایک لڑکا سیب کھا رہا تھا۔ وہ کافی خوبرو اور ہیرو ٹائپ تھا۔ میں نے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ مسکرایا اور مخصوص آواز منہ سے نکالی تو میرے ہاتھ پر بیٹھا کبوتر فوراً اڑ کر اس کی چھت کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ وہ لڑکا چند منٹ رکا، پھر اپنے گھر کی زیریں منزل میں چلا گیا۔ اگلی صبح وہ پھر وہاں موجود تھا۔ شاید اسے کبوتروں کی خوبصورتی نے بھا لیا تھا۔ اب یہ روز ہونے لگا۔ میں تو چھت پر آتے ہی اپنے کام میں مگن ہو جاتی اور وہ مجھے کام کرتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ مجھے اس کا کھڑا ہونا ناگوار نہ گزرتا تھا، کیونکہ وہ میری طرف نہیں بلکہ کبوتروں کی جانب متوجہ رہتا تھا۔ اس نے کبھی مجھ سے بات نہ کی لیکن ایک روز ایک کبوتر کا سر ڈربے کی جالی میں پھنس گیا، تو اس نے آواز دے کر کہا، کبوتروں کی مالکہ! پیچھے دیکھو۔ میں نے مڑ کر دیکھا، تو ڈربے کی جالی میں ایک کبوتر کی گردن پھنسی ہوئی تھی۔ میں نے جلدی سے اسے نکالا، ورنہ وہ بےچارہ تو مر گیا ہوتا۔ پڑوسی لڑکا پہلی بار مجھ سے براہ راست مخاطب ہوا تھا۔
اگلے دن صبح چھت پر گئی، تو وہ پہلے سے اپنی چھت پر موجود تھا۔ اس نے سلام کیا، میں نے خوش دلی سے جواب دیا، تب اس نے مجھے کبوتر پالنے کے بارے میں ایک معلوماتی کتاب دی اور اس پرندے کی دیکھ بھال کے بارے میں کچھ باتیں بھی بتائیں۔ اب وہ مجھ سے روزانہ کبوتروں کے بارے میں باتیں کرتا اور میں اس سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ دو ماہ ایسے ہی گزر گئے کہ ایک بلا میرے کبوتروں کے پیچھے لگ گیا اور ان کی گھات میں رہنے لگا۔ جب میں دانہ پانی ڈال کر اسکول چلی جاتی اور کبوتر دانہ چگنے میں محو ہوتے، تو وہ کسی ایک کبوتر کو دبوچ لیتا۔ اس طرح وہ آئے دن شکار کرنے لگا اور کبوتر ایک ایک کر کے کم ہونے لگے۔ بالآخر جب صرف دو کبوتر بچ گئے تو پڑوسی لڑکے ارباز نے مجھ سے کہا، اب تم یہ کبوتر مجھے دے دو۔ تم ان کی حفاظت نہیں کر سکتیں۔ میرے دوست نے کبوتر پال رکھے ہیں، یہ میں اس کو دے دوں گا تو ان کی جان بچ جائے گی۔ کبوتر پالنا لڑکوں کا کام ہے، لڑکیوں کا نہیں۔ اگر تم کو ایسا ہی شوق ہے تو اپنے صحن میں طوطا پال لو یا چوزے رکھ لو، تا کہ ان کی دیکھ بھال کر سکو۔ مجھے اس کی بات ٹھیک لگی۔ اب کبوتر نہ رہے تھے، مگر میں پھر بھی اوپر جاتی اور ارباز سے باتیں کرتی تھی، یہاں تک کہ مجھے اس کے خاندان کے تمام افراد کے بارے میں معلومات حاصل ہو گئیں۔ اگرچہ میں اس بات کو صحیح نہیں جانتی تھی، لیکن مجھے اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کسی لڑکے سے باتیں کر رہی ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ارباز لڑکا نہیں بلکہ میری ایک اچھی سہیلی ہے۔ دسویں جماعت پاس کرتے ہی میں نے جانا کہ میں ارباز سے بات چیت کر کے کچھ غلط کر رہی ہوں، تب ہی عہد کر لیا کہ صبح سویرے چھت پر نہیں جایا کروں گی۔ یہیں تین دن چھت پر نہ گئی، لیکن یہ دن میں نے بہت مشکل سے گزارے۔ حد درجہ اداس تھی، کیونکہ ارباز ہی وہ ہستی تھا جس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دیا کرتی تھی۔
چوتھے دن میں اپنے قدموں کو اوپر جانے سے نہیں روک سکی۔ وہ وہاں میرا انتظار کر رہا تھا۔ تم کہاں تھیں راجی! وہ بے اختیار بولا۔ میں تو انتظار کر کر کے مر گیا۔ میں نے بہانا کیا کہ خالہ کے گھر گئی تھی، پھر ہماری باتیں شروع ہو گئیں۔ اب ہم کبوتروں، پرندوں اور دنیا جہان کی نہیں، بلکہ مستقبل کی، آنے والے دنوں کی باتیں کرتے تھے۔ یوں وقت پر لگا کر اڑتا گیا۔ ایک صبح میں اوپر گئی، تو وہ نہیں تھا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ سارا دن کرب میں ٹہل ٹہل کر جیسے سولی پر کاٹا۔ اگلی صبح وہ موجود تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا، تم کہاں تھے؟ اس نے بتایا کہ بخار ہو گیا تھا۔ واقعی، وہ زرد اور کمزور نظر آ رہا تھا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ اس لمحے محسوس ہوا کہ مجھے اس سے گہرا لگاؤ ہو گیا ہے۔ اب رات کو دیر سے نیند آتی، کروٹیں بدلتی رہتی اور وہ مجھے یاد آتا رہتا۔ ایک رات جب نیند نہیں آ رہی تھی، بے چینی پریشان کر رہی تھی، میں نے رونا شروع کر دیا اور پکا ارادہ کر لیا کہ کل صبح ضرور اس سے اپنے دل کی بات کہہ دوں گی۔ اگلے دن اوپر گئی اور اس سے کہا، ایک بات پوچھوں؟ پوچھو۔ اس نے جواب دیا۔ ارباز! پہلے ہم جس گھر میں رہتے تھے، وہاں ایک لڑکا پڑوس میں رہتا تھا، میں اس کو پسند کرتی تھی۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ اس نے سر نیچے کر لیا، جیسے کچھ چھپانا چاہتا ہو۔ میں نے یہ بات صرف اس کا رد عمل دیکھنے کے لیے کہی تھی۔ تب ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے پوچھا، کیا اب بھی اسے پسند کرتی ہو؟ ہاں، پہلے سے بھی زیادہ! اچھا، اب میں کیا کروں؟ یہ کہہ کر وہ جانے لگا۔ ٹھہرو تو، یہ تو پوچھ لو کہ میں پہلے کہاں رہتی تھی۔ تم پہلے کہاں رہتی تھیں؟ جب سے پیدا ہوئی ہوں، اسی گھر میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں ہنسی، تب وہ سمجھ گیا کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں۔ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ آئندہ جھوٹ مت بولنا۔ وہ بے حد سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ میں اب اس روز چھت پر جاتی تھی جب کپڑے دھو کر سکھانے ہوتے تھے، پھر یونیفارم دھو کر الگنی پر ڈالنے کے بہانے اوپر جانے لگی۔ ماں نے ایک دو بار ٹوک دیا کہ کبوتر تو رہے نہیں، پھر اتنی صبح چھت پر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ماں، میں ورزش کرتی ہوں۔ میں سمجھ گئی کہ ماں کو کھٹک گئی ہیں، تب ہی ارباز سے کہا، کیا تم رات کو نہیں آسکتے؟ میں کافی دن سے یہی کہنا چاہتا تھا، لیکن ڈرتا تھا کہ تم ناراض نہ ہو جاؤ۔ میں آج رات ساڑھے بارہ بجے تمہارے گھر کے باہر آؤں گا۔ اب مجھے رات کا انتظار تھا۔ امی ابو ٹھیک ساڑھے دس بجے سو جاتے تھے۔ میں بارہ بجے ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ وہ سوا بارہ بجے آ گیا۔ میں نے فوراً دروازہ کھول کر اس کو اندر بلا لیا اور اوپر بنے کمرے میں لے گئی۔ میں نے پہلے سے کھانے پینے کے لوازمات کمرے میں رکھے ہوئے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ اب ہاسٹل چلا گیا ہے اور رات کو ہاسٹل سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ جو پڑوس میں گھر ہے وہ اس کے چچا کا ہے۔ پھر تم کیسے آئے؟ میں نے پوچھا۔ ہاسٹل کی عقبی دیوار پھلانگ کر۔ اگر چوکیدار تمہیں چور سمجھ کر گولی چلا دیتا تو؟ تو میں مر جاتا۔ وہ بولا، اور ذرا بھی افسوس نہ ہوتا۔ اس بات پر میرا دل اس کی محبت سے لبریز ہو گیا۔ تمام رات ہم باتیں کرتے رہے۔ صبح وہ جانے کے لیے اٹھا۔ اب یہ معمول بن گیا۔ اس طرح وہ رات کو آتا اور ہم صبح تک باتیں کرتے۔ ایک رات ہم باتیں کرتے کرتے سو گئے۔ صبح چھ بجے امی نے آواز دی تو میری آنکھ کھل گئی۔ وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اب کیا کریں؟ اس نے سوال کیا۔ کچھ نہیں، سو جاؤ۔ میں نے جواب دیا۔ میں ہنسنے لگی، وہ پریشان تھا۔ میں نے موقع دیکھ کر اسے باہر نکال دیا۔
ہم کوئی برائی نہیں کرتے تھے، بس باتیں کرتے تھے۔ اس کی باتیں مجھے خوشی اور سکون دیتی تھیں۔ دسمبر کی سردیاں آ گئیں۔ شدید بارش تھی، رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ میں جانتی تھی کہ اتنی تیز بارش میں وہ نہیں آ سکے گا، پھر بھی اس کا انتظار تھا۔ ایک بجے وہ آ گیا۔ حیرت زدہ رہ گئی۔ ہم دونوں تب ہی اوپر چلے گئے۔ رات بھر ہم نے باتیں کیں۔ اس نے پوچھا، تم کس سے شادی کرو گی؟ جو آدھی رات کو میرے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر آتا ہے۔ اور تم؟ میں نے پوچھا۔ جو لڑکی اپنی جان خطرے میں ڈال کر آدھی رات کو مجھے گھر میں آنے کی اجازت دیتی ہے۔ ایسے ہی ہنستے ہنستے خواب دیکھتے رات بیت گئی۔ اس نے کبھی مجھے غلط نظروں سے نہیں دیکھا۔ اس بات نے بھی میرے دل میں اس کی عزت قائم رکھی تھی۔ پیپرز ختم ہو گئے، اب اسے اپنے گاؤں لوٹ کر جانا تھا۔ آخری رات وہ مجھ سے ملنے آیا۔ میں نے تمام رات رو کر گزار دی۔ اب رزلٹ آنے کے بعد ہی آ پاؤں گا۔ اس نے بتایا تھا۔ اب تم جی بھر کر سونا، میری خاطر تم رات بھر جاگتی تھیں نا! جاتے ہوئے مجھے اپنا فون نمبر بھی دیا تھا۔ مجھ پر وہ تین ماہ ایسے گزرے جیسے کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں سانس لیتا ہے۔ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ فون پر بتایا کہ وہ اب لاہور نہیں آ سکے گا۔ اس کی والدہ اکیلی اور بیمار ہیں۔ میں اس کی مجبوری سمجھ گئی۔ کہا، اچھا، ان کا خیال رکھنا، لیکن مجھے فون کرتے رہنا۔ میں اس آس پر رہی کہ وہ کسی دن ضرور آئے گا۔ اسی آس میں ایک سال تمام ہو گیا۔ سیکنڈ ایئر میں تھی کہ ہمارے رشتہ دار میرا رشتہ لے آئے۔ یہ کافی امیر لوگ تھے، امی ابو نے ان کو ہاں کر دی اور میں نے روتے روتے اپنا حال برا کر لیا۔ امی ابو پریشان تھے کہ آخر کیا معاملہ ہے۔ وہ سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ کیا کریں، جو میں رضامند ہو جاؤں۔ ادھر میں ارباز کو فون کرتی تھی کہ جلد اپنی امی کو ہمارے گھر رشتے کے لیے لے کر آؤ، تمہارے چچا ہمارے پرانے پڑوسی ہیں، ضرور بات بن جائے گی۔ اس نے کہا، بڑی مجبوریاں ہیں، ابھی بڑے بھائیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ اپنی شادی کی بات کیسے کروں؟ یوں بھی ابھی میں شادی کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا۔ اگر مجھ سے واقعی محبت کرتی ہو، تو والدین کے سامنے ڈٹ جاؤ۔ میں شادی تم سے ہی کروں گا، مگر جب مناسب وقت آئے گا۔ میں نے اسے سمجھایا، یہ صحیح ہے، لیکن ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی جلد کر دیتے ہیں۔ میں گریجویشن کے بہانے دو سال کی مہلت لے بھی لوں تو رشتہ طے کرنا ضروری ہے۔ تم والدین کو راضی کرو کہ وہ رشتہ طے کر جائیں۔ شادی کی بات بعد میں کر لینا۔ تمہارے والدین کا آنا اس وقت بہت ضروری ہے۔ جانتی تھی، وہ بے وفا نہ تھا۔ اس کی بھی مجبوریاں تھیں۔ بے شک ہم دونوں بے وفا نہ تھے، لیکن حالات نے ہمیں الگ الگ راستوں کا مسافر بنا دیا۔ میں کسی اور کی ہو گئی اور وہ کسی اور کا۔ والدین سے کتنے بہانے کرتی، کتنی بار انکار کرتی؟ آخر ہار کر چپ سادھ لی، کیونکہ جب میں نے ارباز کو بتایا کہ یہ میرا آخری فون ہے، اب بھی تمہارے والدین نہ آئے تو والدین سے انکار نہ کر سکوں گی، لیکن ارباز کا نہ کوئی فون آیا اور نہ وہ خود آیا۔ اس نے جھوٹی تسلی بھی نہ دی۔ جب رشتے والے بار بار آنے لگے تو ایک دن میں نے رو کر امی کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ انہوں نے مجھے گلے لگایا، ابو نے سر چوما اور کہا، بیٹی، ہم تیرے بھلے کی بات سوچتے ہیں۔ ایسے گھر میں تو دلہن بن کر جائے گی کہ عیش کرے گی، ہماری دلی دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔ خدا نے میری عزت رکھی اور میرے والدین کی لاج رکھی۔ شاید اس دن کے لیے ہی تو میں نے اپنے دل کو باغی نہ ہونے دیا تھا۔ کس لیے بغاوت کرتی، اس ارباز کے لیے جو اس قدر مجبور تھا کہ تسلی کے دو بول کہنے اپنے چچا کے گھر بھی نہیں آ پایا، حالانکہ وہ ہمارے پرانے پڑوسی تھے۔ اگر وہ مجبور تھا تو میں بھی مجبور تھی۔ وہ لڑکا ہو کر کچھ نہ کر سکا، تو میں لڑکی ہو کر کیا کر سکتی تھی؟
خدا کا شکر ہے کہ عزت سے اپنے والدین کی دعاؤں میں رخصت ہو گئی۔ اللہ نے میرے والدین کی دعائیں سن لیں۔ مجھے ایک نہایت نیک اور محبت کرنے والا شوہر ملا، جس نے کبھی بھی مجھے تکلیف نہیں دی۔ آج سوچتی ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں ارباز سے کلام ہی نہ کرتی اور نہ بات آگے بڑھتی۔ خدا نے میرے والدین پر رحم کھایا، جو میری عزت سلامت رہی، ورنہ آبرو کے خاک میں ملنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ سنا ہے، کبوتر قاصد ہوتے ہیں۔ کوئی قاصد کبوتر مل جاتا تو اسے ارباز کی طرف بھیجتی اور کہتی، بے شک تم بے وفا نہیں ہو، لیکن بے وفا میں بھی نہیں ہوں۔ تم نے اپنے والدین سے وفا کی، تو میں نے بھی اپنے والدین سے وفا کی، جس کے صلے میں ایک باعزت زندگی، چاہنے والا شوہر، اچھا گھر اور پیارے پیارے بچے نصیب ہوئے۔ مجھے ماں باپ کی دعا لگی۔ امید ہے کہ ارباز کو بھی اس کے والدین کی دعائیں لگی ہوں گی، اچھی شریک حیات اور اچھی زندگی ملی ہوگی۔