یہ چھٹی کا دن تھا۔ ناز یہ اپنے مکان کی چھت پر چند سہیلیوں کے ہمراہ گلی میں جھانک رہی تھی کہ اچانک وہاں سے گزرتے ہوئے ظفر کی نظر سامنے والے مکان کی چھت پر گئی اور نازیہ سے نگاہیں مل گئیں۔ اسے یوں محسوس ہوا، جیسے وہ مدتوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس کی صورت دل پر ایسے نقش ہو گئی کہ ایک لمحے کو بھی وہ اسے فراموش نہ کر سکا۔ کافی دن سوچ بچار میں گزر گئے ، مگر ملاقات کی کوئی صورت نہ نکل سکی، آخر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ ظفر نے اپنے گھر کی ملازمہ سے کام لینے کے لئے پہلے اسے چرب زبانی سے شیشے میں اتارا، پھر مٹھی گرم کر کے خط لکھ کر دیا کہ یہ سامنے والے گھر جا کر نازیہ کو دے دینا۔ ملازمہ جس کا نام بالی تھا، نازیہ کے گھر صفائی کا کام کرنے جاتی تھی۔ ظفر دھڑکتے دل کے ساتھ جواب کا منتظر تھا۔ وقت کسی طور کٹتا نہ تھا۔ پل پل کر کے دن گزارا۔ اگلے روز دس بجے صبح بالی آتی دکھائی دی تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اس کی مٹھی بند تھی، جس میں رقعہ دبا ہوا تھا، جواب امید افزا ملا تو بالی کے ذریعہ باقاعد ہ دونوں میں خط و کتابت شروع ہو گئی۔ بالی کی ہتھیلی پر ہر بار چند روپے ضرور رکھنے پڑتے تھے۔ کافی دنوں تک یہ سلسلہ چلا، لیکن اب صرف خطوط سے تسلی نہ ہوتی تھی۔ ظفر کی بے چینی دو چند ہو گئی تھی۔ اب اس کا جی چاہتا تھا کہ نازیہ کو دیکھے ، اس سے باتیں کرے۔ اس کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مجبوری یہ تھی کہ نازیہ گھر سے اکیلی نکل نہیں سکتی تھی اور اس کے گھر وہ جانہ سکتا تھا۔ پھر ملاقات ہو تو کیسے ؟ اس بار خط میں نازیہ نے لکھا تھا کہ اگر ملنا ہے تو رات گیارہ بجے میرے گھر آجانا۔ آج رات اباجان اور بھائی گھر پہ نہ ہوں گے۔ ہماری ملاقات ہو سکتی ہے۔ مشکل یہ تھی کہ نازیہ کا گھر ایسی جگہ پر تھا، جہاں کھلم کھلا نہیں جا سکتا تھا۔ پاس پڑوس والے سب ظفر کو جانتے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ عزت کا تھا۔ بد نامی ایک بار ہو جائے پھر اس داغ کا دھویا جانا محال ہوتا ہے۔ جوں جوں وقت ملاقات قریب آتا جار ہا تھا پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ اگر اس علاقے کی بجلی چلی جائے تو تم آسانی سے اندھیرے میں اپنی محبوبہ کے گھر جا سکتے ہو۔
ان دنوں لوڈ شیڈ نگ زوروں پر تھی۔ خوش قسمتی سے رات کے ٹھیک گیارہ بجے سارا علاقہ تاریکی میں ڈوب گیا اور وہ ننھی منی ٹارچ کی روشنی میں نازیہ کے گھر کی ڈیوڑھی کے اندر داخل ہو گیا۔ نازیہ دروازے پر ملی۔ بلاشبہ وہ انتظار میں کھڑی تھی، اسے اندر لے گئی۔ گھر کے مرد دوسرے گاؤں شادی میں گئے ہوئے تھے۔ نازیہ کی ماں اور سوتیلی بہن اس وقت بستر پر دراز ، خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں کیونکہ انہیں صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت تھی تبھی شب کو دس گیارہ بجے تک سو جاتی تھیں۔ یہ زندگی کی پہلی یاد گار ملا قارت تھی۔ نازیہ اندھیرے میں ظفر کے بہت قریب بیٹھی ، باتیں کر رہی تھی۔ یوں بھی دو جوان دل اگر سرگوشیوں میں گفتگو کریں تو وہ پیار بھری باتیں ہی ہوتی ہیں۔ ظفر اس وقت کسی دوسری دنیا میں کھویا ہوا تھا جو خوابوں کی دنیا سے زیادہ حیران کن تھی۔ اسے وقت کے گزرنے کا ذرا سا بھی احساس نہ ہوا۔ وہ وعدے کر رہے تھے اور یوں گلے شکوے ہو رہے تھے جیسے دونوں جنم جنم سے ملتے رہے ہوں۔ جانے وہ کیا کہہ رہی تھی، نجانے ظفر کیا سن رہا تھا؟ بس اک مدہوشی کی سی کیفیت تھی، جو محبوب کے قرب سے ہوتی ہے اور آدمی اپنا آپ تک بھول جاتا ہے۔ ظفر کو اسی قدر سنائی دیا کہ وہ قسمیں کھارہی تھی۔ میں جان دے دوں گی، مگر تم سے بے وفائی نہ کروں گی۔ تم بھی مجھ سے وفا کرنا۔ ابھی وہ انہی باتوں میں گم تھے کہ کچھ کھٹکا سا ہوا۔ شاید ماں نیند سے بیدار ہو گئی تھی اور نازیہ کو بستر پر نہ پا کر ادھر آگئی تھی۔ سر گوشیوں پر اس کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ دم سادھے بیٹھک کے دروازے کے ساتھ لگ کر کھوج لگانے کی سعی کرنے لگی۔ جب ماں کو یقین ہو گیا کہ بیٹھک میں نازیہ تنہا نہیں ہے، کوئی دوسرا بھی ساتھ ہے تو اس نے جلدی سے باہر سے بیٹھک کے دروازے کی بیرونی کنڈی لگا دی۔ اب یہ دونوں قید ہو گئے اور فرار کا کوئی رستہ نہ رہ گیا۔ ماں سوتیلی تھی، پہلے ہی اس سے بہت خار رکھتی تھی۔ آج تو بچاری لڑکی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی، اس لئے سوتیلی بیٹی سے خار نکالنے کا اس سے اچھا اور کون سا موقعہ تھا۔ وہ دروازے کے باہر چار پائی ڈال کر بیٹھ گئی اور دھیمی آواز میں نازیہ کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔ کہتی تھی کہ آج میں ان دونوں کو زندہ نہ چھوڑوں گی۔ دیکھوں تو اند رکون مردود ہے ؟ اور کیسے یہاں سے بچ کر جاتا ہے ؟ آ لینے دو گھر کے مردوں کو ، دکھادوں گی دنیا کو اس لڑکی کے کرتوت۔ رات کے اندھیرے میں کیا گل کھلائے ہیں۔ باپ بھائی کی عزت سے کھیلنے کی جرات کی ہے، تو سزا تو ملے گی۔ یہ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ ساری رات انہوں نے بیٹھک میں قید گالیاں اور کو سنے سنتے گزار دی۔ دونوں کو اپنی موت یقینی نظر آرہی تھی ، بس نازیہ کے باپ اور بھائی کے آنے کی دیر تھی۔ محبت کا نشہ اتر چکا تھا اور ذلت و رسوائی اور اجل سامنے نظر آرہی تھی۔ اس وقت جان پر ایسی بنی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ اب دن نکلنے کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ نازیہ کا دل کانپ کانپ جاتا تھا۔ ماں سگی ہوتی تو شاید ڈانٹ ڈپٹ کر ظفر کو نکال دیتی اور بیٹی کا عیب ڈھک لیتی۔ یہاں تو سوتیلی ماں ، جانے کب سے موقع کی تاک میں تھی کہ لڑکی کی کمزوری ہاتھ آئے اور وہ شوہر کو بد ظن کر دے۔ نازیہ کا باپ اس قبیلے سے تھا، جہاں ایسے موقعوں پر زبان سے نہیں کلہاڑی سے کام لیتے تھے۔
صبح ہو گئی ، نو بجے تک کوئی نہ آیا۔ کچھ دیر بعد دستک سنائی دی۔ نازیہ دروازے کے سامنے ہو بیٹھی اور ظفر کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ بولی۔ ابا اور بھائی آگئے ہیں۔ وہ پہلے مجھے ماریں گے ، بعد میں تم تک پہنچیں گے۔ میں تمہیں اپنے سے پہلے مرنے نہ دوں گی۔ ظفر سمجھ گیا کہ وہ بڑی حوصلے والی ہے۔ اسے خود تو ٹھنڈ سے پینے آنے لگے تھے۔ ذرادیر کو سانس رو کے دونوں موت کے انتظار میں رہے۔ پتا چلا کہ وہ لوگ نہیں آئے جو ان کے لئے اجل کے روپ میں آنے والے تھے۔ پڑوس کا بچہ کسی کام سے آیا تھا۔ مزید دو گھنٹے اس جان کنی کے عالم میں بیت گئے۔ سانس لینا دشوار تھا، مگر خطرہ تو اپنی جگہ موجود تھا۔ گیارہ بجے پھر دستک ہوئی۔ یقین ہو گیا کہ اب شور مچے گا، محلے بھر میں پرسوائی ہو گی۔ نجانے کتنے لوگ موت کا یہ خونی کھیل دیکھیں گے ، کس قدر بے عزتی ہو گی۔ دروازہ کھلنے کی آہٹ ہوئی۔ یہ کسی مرد کی آواز تھی، جس کو ناز یہ کی ماں نے بھائی جی کہہ کر بلایا تھا۔ یہ شفیق چاچا تھا، باپ کارشتہ دار ، جو ماں کو اصلی گھی دینے آیا تھا۔ ماں اسے صحن تک لائی اور گھی کا بر تن خالی کر کے دیا مگر اسے بیٹھنے کو نہ کہا، شاید اس لئے کہ شوہر اور بیٹا گھر پر موجود نہ تھے ، ایسے میں دور پرے کے رشتہ داروں کو وہ گھر کے اندر نہیں بٹھاتی تھی۔ ظفر دعا کرنے لگا۔ یا اللہ ! اس چھت میں دروازہ بنادے تا کہ مجھ کو عزت سے رہائی مل جائے۔ وہ دل ہی دل میں تو یہ کر رہا تھا کہ آج رب العزت بچالے تو کبھی آئندہ ایسی غلطی نہ کرے گا۔ قطعی امید نہ تھی ان حالات میں عزت سے رہائی مل جاتی، مگر اللہ تعالی بڑا کریم ہے۔ بے شک وہ اپنے خطا کار بندوں پر نظر کرم رکھتا ہے۔ اس نے ظفر کی دعائیں سن لی۔ اس وقت ، جب ماں ، شفیق چاچا کا گھی کا برتن خالی کر رہی تھی ، نازیہ کی بہن کو موقعہ مل گیا۔ اس کو ان کے حال پر ترس آگیا یا شاید گھر میں خون خرابہ دیکھنے کا حوصلہ اس میں نہ تھا۔ وہ جلدی سے بیٹھک کی جانب لپکی اور بیرونی کنڈی کھول کر بولی۔ فورا نکل بھا گو ، اس سے پہلے کہ ماں ادھر آجائے۔ موقع ملنے کی دیر تھی، ظفر چھپاک سے ڈیوڑھی میں تھا۔ اللہ کالاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ عزت کے ساتھ جان بھی بچ گئی تھی۔ گھر آکر اس نے شکرانے کے نوافل ادا کئے ۔ کسی نے اسے دیکھ نہ تھا۔ گلی بھی سنسان تھی ، وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ ظفر کو تو نئی زندگی مل گئی مگر ماں نے نازیہ کو نہ بخشا۔ جب شوہر اور بیٹا آئے تو اس نے شکایت لگائی کہ یہ بیٹھک میں جانے کس کے ساتھ بات کر رہی تھی۔ بس پھر کیا تھا، نازیہ کو اتنی مار پڑی کہ وہ چار پائی پر پڑ گئی۔ باپ اور بھائی پوچھ پوچھ کر تھک گئے کہ وہ کون شخص تھا جو رات کی تاریکی میں اس سے ملنے آیا تھا۔ وہ بس یہی کہتی رہی۔ کوئی نہ تھا ماں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ماں نے اپنی بیٹی کا نام نہ لیا کہ کنڈی اس نے کھولی ہے۔ اگر یہ بھی بتادیتی تو یقینا باپ اور بھائی یہی سمجھتے کہ وہ بھی بڑی بہن سے ملی ہوئی ہے۔ سچ ہے عورت وفا کرنے پر آئے تو اپنی جان کی پروا نہیں کرتی۔ ظفر کے سر سے عشق کا بھوت اس کو ٹھڑی میں چند گھنٹے بند رہنے پر اتر گیا تھا لیکن نازیہ ، اس وفا کی دیوی نے جان دے دی مگر اس کا نام لبوں پر نہ آیا۔ اگلے روز سارے گاؤں نے سن لیا کہ نازیہ کی فوتگی ہو گئی ہے۔ باپ اور بھائی کچھ قریبی عزیزوں کے ساتھ اس کو دفنانے جارہے تھے۔ سارے گاؤں والے تعزیت کرنے گئے ، مگر ظفر نہ گیا کہ وہ بیمار پڑ گیا تھا۔