ہمارا آبائی گھر سر سبز کھیتوں کے بیچ تھا۔ ان دنوں ہم گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ یہاں شہر جیسی سہولیات میسر تھیں، یعنی ٹیلیفون، اے سی، ریفریجریٹر، سب ہی سہولتوں سے استفادہ کر سکتے تھے۔ تب ہی ہمارے لئے گاؤں کی زندگی جنت جیسی تھی۔ ہم خوشحال لوگ تھے، ہر نعمت میسر تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ معاشی تنگی کیا شے ہوتی ہے۔ ان دنوں میں کالج میں پڑھ رہی تھی اور میری بڑی بہن ایف اے کرنے کے بعد گھر کے کاموں میں مشغول ہو چکی تھی۔ میرا بھائی شہر کے کالج میں پڑھتا تھا اور وہیں ہاسٹل میں رہتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا، اسی لیے والد صاحب نے شہر کے کالج میں داخلہ کرادیا تھا۔ میرے ساتھ گاؤں کی اور بھی لڑکیاں کالج جاتی تھیں۔ ہم سب اکٹھے ہو کر ایک ہی بس میں جایا کرتے تھے۔ ایک دن ہم بس میں چڑھے تو ہمارے بعد ایک نوجوان بھی سوار ہوا۔ وہ سیٹ پر نہ بیٹھا بلکہ دروازے پر کھڑا رہا۔ مجھے اس کا یوں کھڑے رہنا برا لگا۔ اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا۔ وہ بس میں چڑھتا اور دروازے پر کھڑا ہو جاتا۔ کنڈکٹر بھی اسے کچھ نہ کہتا۔ وہ کافی خوبصورت تھا۔ اس کے انداز بتاتے تھے کہ وہ اچھے گھر کا، پڑھا لکھا اور مہذب ہے۔ ایک روز جب میں بس میں چڑھی تو میرے ہاتھ سے چند کتابیں گر گئیں۔ اس نے جلدی سے کتابیں اٹھا کر مجھے دیں۔ تب میں نے نظر بھر کر اس کی جانب دیکھا اور شکریہ کہا تو ہلکی سی مسکراہٹ جواب میں اس کے لبوں پر پھیل گئی۔ وہ مجھے اچھا لگنے لگا تھا، لیکن میں نے اپنے جذبات اس پر ظاہر نہ ہونے دیئے۔ یہ بات بعد میں معلوم ہوئی کہ وہ اس بس کے مالک کا بیٹا ہے۔
ایک دن میری کلاس فیلو فرح نے لیٹی سے کہا، لگتا ہے یہ شہزادے پر فدا ہو گیا ہے۔ جب اس کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی نگاہوں سے کچھ راز ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر دل میں انجانی خوشی ہوئی، مگر ظاہر نہ کیا۔ جلد ہی فرح نے اس نوجوان کے بارے میں بہت سی معلومات اکٹھی کر لیں کہ اس کا نام میر عالم ہے اور وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ وہ بی اے کر چکا ہے۔ دولت مند ہونے کی وجہ سے مزید پڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ والد کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار سنبھال رہا ہے۔ اس کی اپنی بائیک اور کار بھی ہے، مگر کسی لڑکی کی خاطر بس میں روز سفر کرتا ہے۔ اس جملے نے مجھے چونکادیا۔ کہیں میری خاطر تو نہیں؟ جب یہ سوچا تو خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کیا۔ اگلے روز پھر انہوں نے یہی موضوع چھیڑ دیا۔ آج وہ مجھ سے مخاطب تھیں۔ تب مجھے کہنا پڑا، تم یہ سب مجھے کیوں بتا رہی ہو؟ اس بات کا تعلق کچھ نہ کچھ تم سے ضرور ہے۔ وہ کیسے؟ یہ پھر بتادوں گی۔ فرح نے کہا۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تم نے اس کے بارے میں اتنی معلومات کیسے اکٹھی کر لیں؟ یہ باتیں میرے بھائی نے بتائی ہیں کیونکہ میر عالم اس کا دوست ہے۔ اب میرا تجسس بڑھا، میں نے سوال کیا، اچھا تو وہ کس لڑکی کے لئے بس میں سفر کرتا ہے؟ لڑکی کا نام اس نے میرے بھائی کو نہیں بتایا۔ فرح بولی، شاید تمہارے لئے آتا ہو۔ اس بات پر میرا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔ وقت گزرتا گیا۔ امتحان سر پر آگیا۔ میں نے پرچے دیئے اور اچھے نمبروں سے پاس بھی ہو گئی۔ جب انٹر میں آئی تو امی ابو نے فیصلہ کیا کہ مجھے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے، اس طرح میں سفر کی تکلیف سے بچ جاؤں گی اور اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے سکوں گی۔ یوں میں کالج کے ہاسٹل میں رہنے لگی۔ ایک روز امی کا فون آیا کہ پرسوں تمہاری بہن کی منگنی ہے، آجاؤ۔ مجھے غصہ آیا کہ بہن کا رشتہ طے کر دیا اور مجھے بتایا تک نہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ جب پہلے نہیں بتایا تو اب میں کیوں آؤں؟ میں نہیں آرہی۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ اگلے روز شام کو وارڈن نے مجھے بلوایا کہ آپ کے والدین آئے ہیں۔ میں وزٹنگ روم میں گئی۔ امی نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ میرا منہ بنا ہوا تھا، تب ہی بابا جان سمجھانے لگے، بیٹا، اتنا اچھا رشتہ آگیا تھا کہ ہم نے فوراً ہاں کر دی، تم کو نہیں بتا سکے۔ اب ناراضی ختم کرو اور گھر چلو۔ ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ یوں میں ان کے ہمراہ گاؤں آگئی۔ گھر آتے ہی میں نے باجی کو گلے لگا لیا۔ ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے: کیسا ہے؟ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کیا نام ہے؟ کیا تم نے اسے دیکھا؟ بچاری باجی میرے سوالات کی بوچھاڑ سے گھبرا گئیں۔ بھئی مجھے کچھ نہیں معلوم، تم یہ ساری باتیں امی اور ابو سے پوچھو۔ انہوں نے ہی اسے پسند کیا اور رشتہ طے کیا ہے۔ فرح کے ابو اس کے والد کے جاننے والے ہیں، وہی ان کو لے کر ہمارے گھر آئے تھے۔ امی نے مجھے صرف ان کا نام بتایا ہے۔ کیا نام بتایا ہے؟ باجی بولیں، میر عالم۔ یہ نام سنتے ہی مجھے اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوا۔ دل نے کہا، کہیں یہ وہی تو نہیں ہے؟ اگلے لمحے میں نے اس خیال کو جھٹک دیا کہ یہ وہ میر عالم نہیں ہے۔ دنیا میں کئی لوگوں کے ایک جیسے نام ہوتے ہیں۔ خود کو تسلی دے کر میں مطمئن ہو گئی۔
اگلے روز باجی کی منگنی تھی۔ ان کو سجا سنوار کر ہال کے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ باجی نے ہرے رنگ کا جوڑا پہنا ہوا تھا۔ وہ اس میں بہت حسین لگ رہی تھیں۔ امی نے مجھے اشارہ کیا تو میں نے دولہا والوں پر پھول نچھاور کیے اور ان کا استقبال کیا۔ باجی کو کمرے سے ہال میں صوفے پر بٹھایا گیا۔ اچانک میری نظر ایک چہرے پر پڑی۔ سفید شیر وانی اور کلہ پہنے میر عالم کو بابا جان اور بھائی کے ہمراہ اندر لا کر باجی کے ساتھ بٹھایا گیا۔ اسے دیکھ کر میرا دل زور سے دھڑک اٹھا۔ اگلے لمحے میر عالم کی نظریں مجھ سے ملیں اور میرا دل ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ مجھے چاہتا ہے اور میری بہن سے منگنی کر رہا ہے۔ اگر اس نے اسی گھر سے رشتہ کرنا تھا تو مجھ سے کیوں نہیں؟ جس کی خاطر وہ روز بس میں سفر کیا کرتا تھا، میں سمجھتی رہی کہ وہ محض میرے لیے تھا۔ ایک حرف غلط کی سی بات تھی۔ وہ میرے لیے سفر نہیں کرتا تھا، محض اپنی بس میں ڈیوٹی کرتا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اپنے آنسو صاف کیے اور باجی کی طرف دیکھا۔ ان کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔ جب ان کے چہرے سے گھونگھٹ ہٹا، تبھی میر عالم نے پہلے ان کو پھر مجھے دیکھا اور پریشان ہو گیا۔ اب وہ کبھی اپنی ماں کو دیکھتا، کبھی باجی کو، اور پھر مجھے دیکھنے لگتا۔ اس صورت حال سے گھبرا کر میں اندر آگئی۔ انگوٹھی کی رسم ہونے لگی۔ مہمانوں کے سامنے اس کی والدہ نے باجی کو انگوٹھی پہنائی۔ ضیافت ہوئی، مہمان چلے گئے۔ میں رات بھر اپنے کمرے میں روتی رہی اور اگلے روز دل گرفتہ ہو کر ہاسٹل آگئی۔ راستے بھر سوچتی رہی کہ میں اس کو کیسے بھولوں گی؟ جب بھی بھلانا چاہوں گی، وہ میرے سامنے آجائے گا۔ اتنے میں وارڈن آ کر بتاتی ہیں کہ تم سے کوئی میر عالم ملنے آیا ہے۔ کیا تم اس کو جانتی ہو؟ میں نے بتایا کہ وہ میرے ہونے والے بہنوئی ہیں، تب وارڈن نے ملنے کی اجازت دے دی۔ میں نے پوچھا، آپ مجھ سے کیوں ملنے آئے ہیں؟ اس نے کہا، رات بھر سو نہیں سکا، کیونکہ جو کچھ ہوا غلطی سے ہوا۔ تمہاری سہیلی فرح نے امی کو تمہارا نام ماہ روز بتایا تھا۔ میں نے تمہارے رشتے کے لئے امی کو بھیجا تھا۔ ان کو تمہاری بہن پسند آگئی۔ تم ہاسٹل میں ہوتی ہو، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ فرح نے مجھے بھی تمہارا نام ماہ روز ہی بتایا تھا۔ یہ بات کسی نے نہ بتائی کہ تم دو بہنیں ہو اور تمہارا نام شہ روز ہے۔ مجھے تمہارا نام معلوم نہ تھا کہ تم ماہ روز ہو یا شہ روز، جو فرح نے بتایا یقین کر لیا۔ میر عالم بہت پریشان تھا اور اس مسئلے کا حل چاہتا تھا۔ اب بتاؤ، میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟ میں نے پوچھا۔ اس نے کہا، تم اپنی امی کو صاف صاف بتا دو، میں نے بھی اپنی ماں کو بتا دیا ہے کہ جس لڑکی سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں، وہ بڑی بہن نہیں بلکہ چھوٹی شہ روز ہے، لیکن امی یہ منگنی برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ ایک بہن سے منگنی ختم کر کے دوسری بہن سے منگنی کرنا شریفوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اب جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی بہتری شاید اسی میں ہو گی۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا سے کیا ہو گیا ہے لیکن اس میں میر عالم کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جانے فرح نے مجھ سے کون سا غصہ اور کب کا حسد نکالا تھا۔ اگر وہ میرا صحیح نام بتا دیتی تو مجھے میرا محبوب مل جاتا، لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ جہاں تک باجی کا تعلق تھا، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ان کو کوئی اور رشتہ مل جاتا، وہ ادھر سیٹ ہو جاتیں۔ انہوں نے تو میر عالم کو دیکھا تک نہیں تھا۔ میں اپنے دل کا حال باجی کو نہیں بتا سکتی تھی۔ میر عالم کہہ رہا تھا، اپنے والدین کو بتا دو کہ مجھے تم پسند ہو۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ عالم! یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟ اس بات سے میرے والدین کی عزت پر حرف آئے گا۔ ان کو دکھ ہو گا اور میں ان کی نظروں میں گر جاؤں گی۔ میں اپنی بہن کی خوشی نہیں چھین سکتی۔ وہ تمہارے نام کی انگوٹھی پہن چکی ہے۔ تب وہ روہانسا ہو کر بولا، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ جب تم ماہ روز کو بتاؤ گی کہ یہ سب غلط فہمی میں ہوا ہے تو حقیقت کو تسلیم کر کے وہ خود انگوٹھی تمہاری انگلی میں پہنا دے گی۔ مگر میں تمہیں نہیں چاہتی۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اب جاؤ اور میرے والدین کی عزت رکھو۔ ہمارے خاندان کی پگڑی نہ اچھالو۔ اگر تم مجھ سے پیار کرتے ہو، تو تمہیں ان باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ کیونکہ محبت کرنے والے ہر اس بات کا خیال رکھتے ہیں جو ان کے محبوب کو پسند ہوتی ہے۔
میر عالم بھاری قدموں سے چلا گیا۔ اس نے چاہا بھی کہ منگنی توڑ دی جائے، مگر اس بات پر اس کے گھر والے راضی نہ ہوئے۔ وہ بھی خاندانی، شریف لوگ تھے۔ انہوں نے میر عالم کو سمجھایا کہ لڑکی والوں کے دل پر اس امر سے کیا گزرے گی۔ وہ خاندان میں کیا منہ دکھائیں گے؟ وہ کس کس کو جواب دیں گے، کس کس کا منہ بند کریں گے؟ مگر میر عالم کو کوئی حل نہیں سوجھتا تھا۔ ایک طرف والدین کا دباؤ تھا اور دوسری طرف میری باتوں سے وہ مجبور تھا۔ اسی کو قسمت کا لکھا کہتے ہیں۔ وہ چاہنے کے باوجود مجھے حاصل نہ کر سکا اور نہ ہمارے گھر سے رشتہ توڑ سکا۔ اس کے والدین نے اسے اتنا مجبور کیا کہ اسے باجی ماہ روز سے شادی کرنی ہی پڑی۔ ادھر میرے دل کا کیا حال ہوا؟ مت پوچھئے۔ مجھے میر عالم کے سوا کوئی اور نہ بھایا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں دور چلی جاؤں۔ پڑھائی سے جی اچاٹ ہو گیا۔ پہلے پوزیشن لاتی تھی، اب مر مر کر پاس ہوتی تھی، تاہم پڑھائی نہ چھوڑی۔ جب میرے فائنل پیپر تھے، انہی دنوں باجی کی شادی ہوئی۔ میں نے یہ وقت کیسے گزارا، کیسے پرچے دیئے؟ میرا خدا جانتا تھا۔ بہر حال، پرچے تو دینے تھے۔ رات کو چین، نہ دن کو سکون تھا۔ جو پڑھتی، بھول جاتی۔ سامنے کتاب رکھی ہوتی اور خیالات ادھر ادھر بھٹک رہے ہوتے۔ اپنی بہن کی خوشیوں کی خاطر یہ قربانی دی تھی، اپنے دکھ کا کسی پر اظہار نہیں کر سکتی تھی۔ ہر وقت یہی دعا کرتی کہ میر عالم کو میری بہن سے اتنی محبت ہو جائے کہ وہ میرا یا کسی اور کا خیال تک دل میں نہ لا سکے۔ خدا نے میری دعائیں سن لیں۔ شادی کے کچھ عرصے بعد میر عالم کو واقعی میری بہن سے اتنی محبت ہو گئی کہ ایک پل بھی اس سے دور رہنا برداشت نہ کر سکتا تھا۔ باجی کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتا تھا۔ جب ماہ روز میکے آتی، تو ظاہر ہے وہ بھی ساتھ آتا۔ میں کوشش کرتی کہ اس کے سامنے نہ جاؤں۔ پھر میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور شہر کے گرلز ہاسٹل میں رہنے لگی، یوں گاؤں سے دور ہو گئی۔ ایم اے کے بعد اسلام آباد کے ایک کالج میں جاب مل گئی۔ یوں میں مستقل گھر سے دور رہنے لگی۔ میں اب گھر جانا بھی نہ چاہتی تھی۔ میں اپنا سایہ بھی باجی پر پڑنے دینا نہ چاہتی تھی، لیکن خدا جو چاہے وہی ہوتا ہے۔ میری باجی کی زندگی خوشیوں بھری اور رشک جنت تھی، مگر چوتھے بچے کی پیدائش پر وہ دوران زچگی جاں بحق ہو گئیں۔ اب سوال ان چار معصوم جانوں کا تھا، جو نہ ددھیال سے رشتہ توڑ سکتے تھے نہ ننھیال سے جڑ سکتے تھے۔ امی تو جوان بیٹی کے صدمے سے بستر سے جا لگیں۔ ان کی حالت دیکھتے ہوئے بابا جان نے میرا تبادلہ گاؤں سے نزدیکی شہر میں کروالیا تاکہ میں ماں کی آنکھوں کے سامنے رہ سکوں۔ میر عالم کی والدہ چار بچوں کو نہیں سنبھال سکتی تھیں اور نہ ہی امی ان کی دیکھ بھال کے قابل رہی تھیں۔ مجبوراً مجھے کالج سے چھٹیاں لے کر بچوں کی ذمہ داری سنبھالنی پڑ گئی۔ جلد ہی بچے مجھ سے اور میں ان سے اس قدر مانوس ہو گئی کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر ایک پل بھی نہ رہ پاتے تھے۔ میر عالم بچوں سے ملنے روز ہمارے گھر آتا تھا۔ اس کے دل میں میرے لئے سویا ہوا جذبہ پھر سے بیدار ہونے لگا۔ ایک دن اس کی والدہ آئیں اور امی کے آگے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ کہا کہ آپ کے نواسے نواسیوں کی خاطر شہ روز کا رشتہ میر عالم کے لئے مانگتی ہوں۔ میں کسی دوسری عورت کے ہاتھوں میں بچے دینا نہیں چاہتی۔ امی نے کہا کہ آپ شہ روز سے خود بات کر لیں۔ وہ پڑھی لکھی ہے، اگر مان جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ میر عالم صرف میرا بہنوئی ہوتا تو شاید یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا، لیکن وہ میرے چار بھانجے بھانجیوں کا باپ بھی تھا اور یہ بچے مجھے پیارے تھے، جبکہ میر عالم میرے ماضی کی ایک خوشگوار یاد بھی تھا۔ اُسے حق تھا کہ وہ میرا ہاتھ مانگ لیتا۔ اس نے مجھ سے التجا کی کہ میرے لئے نہ سہی، اپنی بہن کے ان بچوں کے لئے میرا ساتھ دو۔ میں نے سوچ سمجھ کر ہاں کر دی۔ ہمارے والدین کی بھی رضا اس میں شامل تھی کیونکہ اس طرح ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جاتا اور سب کو سکون مل جاتا۔ میری شادی میر عالم سے ہونی تھی، ہو گئی۔ اس میں میری خواہش و ارادے کا کوئی دخل نہ تھا۔ یہ اللہ کی مرضی تھی۔ اس کی مصلحتیں وہ ہی جانے، بہر حال مجھے پاکر میر عالم کو کھویا ہوا سکون مل گیا۔
وہ باجی کی وفات سے جتنے اُداس تھے، اب نارمل ہو گئے اور خوش رہنے لگے۔ وہ مرد تھے، جلد پچھلا غم بھلا دیا۔ خدا نے مجھے بھی اولاد دی۔ میں نے دو بچوں کو جنم دیا، یوں چھ بچوں کی چہکاروں سے گھر میں رونق رہنے لگی۔ میں ان بچوں میں ایسی کھوئی کہ ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ ہمہ وقت بچوں کی پرورش میں مگن کچھ اور سوچنے کی فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ گھر بھر ا ہوا ہے ہر نعمت سے، کسی شے کی کمی نہیں ہے، اگر کمی محسوس ہوتی ہے تو باجی ماہ روز کی۔ ان کی تصویر دیکھتی ہوں تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ میں نے اپنے پیار کی قربانی دے کر ان کی خوشیوں کو بچانا چاہا اور انہوں نے جان دے کر مجھے اور میر عالم کو ہماری کھوئی ہوئی خوشی واپس لوٹا دی۔