ان دنوں ہم مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش میں رہا کرتے تھے صباحت ، میں اور نیلوفر تینوں ایک ساتھ ایک کالج میں پڑھتے تھے ۔ ہم تینوں کی دوستی بھی اس بنا پر تھی کہ ہمارے گھر قریب قریب تھے۔ صباحت میرا چچا زاد تھا، وہ نیلوفر سے پیار کرتا تھا۔ نیلوفر بھی اسے چاہتی تھی، وہ میری بھی پکی سہیلی تھی اور اپنی کوئی بات مجھ سے نہیں چھپاتی تھی، اسی طرح صباحت اپنے دوست خاور سے کوئی بات نہ چھپاتا تھا بتاتی چلوں کہ خاور میرے ماموں کا بیٹا تھا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ پڑھتا تھا یعنی ایک ہی کالج میں لیکن اس کے مضامین الگ تھے، لہذا وہ دوسری کلاسز میں ہوتا تھا جبکہ ہم تینوں ہمہ وقت ایک ساتھ رہتے تھے کہ ہمارے مضامین ایک تھے مگر چھٹی کے وقت ہم ساتھ ہی گھر آتے تھے۔ ان دنوں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا۔ دلوں میں محبتیں سچی تھیں، آپس میں کدورتیں بھی نہیں تھیں۔ نیلوفر بنگالی تھی جبکہ بنگالی تو ہم بھی تھے مگر ہم اردو بولنے والے بنگالی تھے، گرچہ ہمیں بھی بنگلہ زبان پر عبور حاصل تھا، لیکن ہمارے بڑوں کی زبان اردو تھی تاہم ان باتوں سے تب دوستیوں اور دلوں میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ خاور پر نیلوفر اور صباحت دونوں ہی اعتبار کرتے تھے لہذا وہ اپنے خطوط خاور کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجا کرتے تھے۔ ان دنوں موبائل فون نہیں تھے ، پیغام رسانی کا ذریعہ خطوط ہی ہوا کرتے تھے۔ خاور دوست کی خاطر اس کی ڈاک پہنچانے کا کام کردیا کرتا تھا۔ صباحت کا خط نیلوفر تک پہنچانا اور نیلو کا جواب صباحت تک لانا اس کا روز کا معمول تھا۔ صباحت اور نیلوفر کی دوستی اتنی بڑھی کہ ملاقاتیں کالج سے باہر بھی ہونے لگیں۔ یہ ملاقاتیں تنہائی میں ہوتیں تو بھی خاور ان کا رازداں اور امین ہوتا تھا۔ ہر ملاقات کے بعد ، نیلوفر مجھ سے اور صباحت خاور سے اپنے دلی جذبات بیان کرتا۔ وہ خوشی جو انہیں ایک دوسرے سے مل کر ہوتی تھی، جب تک وہ ہم دونوں سے اس کا اظہار نہ کر دیتے ، ان کو سکون قلب حاصل نہ ہوتا تها صباحت تو ہر بات ہی اپنے دوست کو بتاتا تھا ، گویا اس کی اپنی ذات خاور الگ نہ تھی، بلکہ وہ اس کی ذات کا ایک حصہ تھا۔ صباحت اور نیلو فر کی ملاقاتیں تنہائی میں رنگ لائیں اور آخر انہوں نے وہ حدود پهلانگ لیں جو محبت کی پاکیزگی کو آلودہ کردیتی ہیں۔ نکاح سے قبل ہی انہوں نے شادی کے تقدس کو پامال کر دیا جب نیلو نے مجھے اور صباحت نے خاور کو یہ بات بتائی تو ہم دونوں ہی کو دکھ ہوا کہ اگر یہ دونوں چاہتے تو محبت کی عظمت کو برقرار رکھ سکتے تھے اور شادی ہونے تک ایک دوسرے سے دور رہتے تو اچھا تھا۔ خدا جن باتوں سے نا خوش ہوتا ہے ان سے اجتناب ضروری ہے، ورنہ آدمی کو نجانے بے خبری میں کیسی سزا ملے ۔ خیر، ہمار اکام تو سمجھانا تھا، دوستوں کی دوستی کو گنوانا نہ تھا، لہٰذا میں اور خاور اپنی اپنی جگہ خاموش ہورہے۔ نیلوفر اور صباحت کا یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا ۔ وہ گناہ و ثواب کے تصور سے بے نیاز اپنی اندھی محبت کی دنیا میں گم تھے۔ ان کو اس بات کے سوا کسی بات کا ہوش نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوجے کے بنا نہیں رہ سکتے ۔ آخر ایک دن میں نے نیلو سے کہہ دیا کہ تم لوگ جو کرو مگر مجھے اپنی پرسنل باتیں مت بتایا کرو ۔ مجھے اس سے دکھ ہوتا ہے۔ اسی طرح خاور نے بھی صباحت سے کہا کہ نیلوفر تمہاری محبت ہے مگر میری نظروں میں وہ ایک بہن کی طرح ہے اور کوئی بھائی اپنی بہن کے بارے میں ایسی باتیں سننا پسند نہیں کرتا۔
یہ بات صباحت کی سمجھ میں آ گئی اور اس نے پھر خاور سے اپنے عشق کا تذکره کرنا چھوڑ دیا۔ اتفاق کی بات کہ انہی دنوں جب مشرقی پاکستان، بنگلہ ديش بنا تو صباحت نے مجھ سے کہا کہ وہ نیلوفر کا حال معلوم کرنے دیناج پور جارہا ہے۔ ان دنوں ہم دیناج پور سے ڈھاکہ آ چکے تھے۔ میں نے اس کو منع کیا کہ وہان جانا ان دنوں خطرے سے خالی نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ فی الحال ڈھاکہ میں ہی رہے اور دیناج پور نہ جائے کیونکہ وہاں بنگالیوں کے جذبات بڑے مشتعل ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ سڑکیں خون سے رنگین تھیں۔ اس نے میری بات نہ مانی بلکہ مجھے یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ہم نے تو بنگلہ میڈیم سے تعلیم حاصل کی ہے مجھے بنگالی نہیں ماریں گے۔ میں تو صاف بنگالی بول سکتا ہوں۔ وہ نیلوفر سے ملنے روانہ ہو گیا جونہی وہ دیناج پور ریلوے اسٹیشن پر اترا، اس کی ملاقات اس کے دوست عبدالشکور سے ہوگئی جو میٹرک میں اس کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ اس نے دیکھتے ہی خنجر سے وار کرکے اس کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ صباحت کے مارے جانے پر نیلوفر بہت دکھی ہوگئی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ جس محبوب سے اس کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں، وہ یوں قضا کے ہاتھوں اس سے ہمیشہ کے لئے چھن جائے گا۔ اب بنگلہ دیش میں ہمارا رہنا دو بھر ہو رہا تھا – صباحت کی موت سے اس کی امی بہت غمزدہ رہتی تھیں۔ ایک روز نیلوفر کی والده، صباحت کی امی اور میری ماں کے پاس آئیں اور مشورہ کیا کہ سب پاکستان جارہے ہیں کہ یہاں اب عزت کی خیر ہے اور نہ جان کی امان ہے ۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ؟ امی اور ممانی نے کہا کہ ہمارا تو یہی خیال تھا کہ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے کہ ہمارے بڑے صدیوں سے یہاں رہتے آرہے ہیں مگر اب حالات ایسے ہورہے ہیں کہ سوچ میں ہیں کیا کریں؟ وہ بولیں۔ میری بیٹی تو آپ لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتی ہر وقت آپ لوگوں کے لئے فکرمند اور اداس رہتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اسے بھی آپ کے ساتھ وہاں ہی بھیج دوں جہاں آپ جائیں گے۔ اس پر خاور کی امی نے کہا۔ تو آپ اس کو ہماری بیٹی بنا دیجئے ۔ یا تو ہم یہاں رہ جائیں گے یا پھر وہ ہمارے ساتھ مغربی پاکستان چلی جائے گی۔ جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے ، تو ہم سبھی واپس لوٹ کر آجائیں گے۔ آخر یہ طے پایا کہ نیلوفر کا رشتہ خاور کے ساتھ کردیا جائے ۔ اس طرح ہمارا صدیوں کا تعلق قائم رہے گا اور ہم تینوں گھرانے آپس میں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ امی بولیں ۔ اگر یہ نیک کام کرنا ہے تو جلد کرلیں ۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوجائیں اور پھر ہم آپس مین رشتے ناطے نہ کر سکیں نیلوفر کی والدہ بھی ڈھاکہ آ گئیں اور ہمارے گھر کے پاس گھر لے کر رہنے لگیں۔ اب ہمارے گھروں مین ایک دوسرے کے یہاں آجانے میں کوئی دوری اور دشواری نہ رہی تھی۔ ہمارے درد و غم اور مسائل مشترکہ تھے ۔ ایک روز خاور کی امی نے اسے بتایا کہ بیٹا تمہاری شادی کی بات میں نے طے کردی ہے۔ لڑکی بہت اچھی ہے، تم کو بھی بے حد پسند آئے گی۔ خاور کچھ نہ سمجھا اور پوچھتا رہا کہ مجھے بتائیے تو سہی آخر کون سی لڑکی ہے جو میں نے دیکھی ہوئی بھی ہے اور مجھے پسند بھی ضرور آئے گی۔ اس کی، اماں کچھ دنوں تک تو یونہی مسکرا مسکرا کر پہیلیاں بجھواتی رہیں ۔ آخر جب شادی کی تاریخ طے کرنے لگیں تو بڑے اعتماد سے بتایا کہ نیلوفر سے میں نے تیری شادی طے کردی ہے۔ یہ ہمارے دیکھے بھالے لوگ ہیں ۔ شریف بھی ہیں اور پیار کرنے والے بھی تم بھی تو نیلوفر کی بہت تعریفیں کرتے تھے اور صباحت کے قتل ہوجانے پر دکھی تھے۔ تو اب اس دکھ کا یہی مداوا ہے کہ ہم اس کے زخم کا مرہم بن جائیں میں نے تمہاری تعریفوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نیلوفر کی امی سے اس کا رشتہ مانگ لیا ہے ۔
ممانی کا یہ کہنا تھا کہ خاور کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ ماں کو کیا بتاتا کہ کیسی کیسی باتوں سے وہ آگاہ ہے ، جن سے وہ بے خبر تھیں۔ وہ بہت پریشان رہنے لگا۔ بے خبری میں موت بھی آجائے تو تکلیف ایک پل کی ہوتی ہوگی مگر جان بوجه کون پهانسی چڑھتا ہے۔ اس کا تو اب یہ حال تھا کہ جیتا تھا ، نہ مرتا تھا۔ ادھر نیلوفر بهی گم صم تھی۔ والدین سے کچھ کہنا بھی چاہتی تھی تونہ کہہ سکتی تھی۔ انہوں نے اسے بتادیا تھا کہ اگر تمہاری شادی خاور سے ہوگئی تو اس فیملی کو ہجرت نہ کرنا پڑے گی ۔ ہم ان کو اپنا لیں گے تو سارے لوگ ان کو اپنا لیں ورنہ عین ممکن ہے کہ یہ بیچارے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس بات پر نیلوفر بیچاری گنگ رہ جاتی۔ ادھر شادی کی تیاری اس لئے جلد جلد ہونے لگی کہ ابھی حالات تمام جگہ خراب نہیں ہوئے تھے۔ آگے کیا ہونے جارہا تھا یہ تو خدا جانتا تھا مگر اندیشے تو ڈرا رہے تھے – بری کے جوڑوں پر گوٹا کناری ٹانکی جارہی تھی اور خاور کا یہ عالم کہ سانس لینا بھی دشوار بوربا تھا۔ ماں سے انکار کرتا تھا تو وہ اپنی بیوگی کا واسطہ دے کر کہتی تھیں کہ مغربی پاکستان میں ہمارا کون ہے ؟ ہم یہاں پیدا ہوئے، یہاں رہے، ہم تو یہاں کے
ہی ہیں۔ جبکہ خاور ایک عذاب مین گرفتار تھا اور نیلوفر، وہ بھی ایسی ہورہی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اگر اس کی شادی کسی اور شخص سے ہو جاتی جو اس کے ماضی سے واقف نہ ہوتا تو اس کے ساتھ انصاف ہوجاتا لیکن یہاں تو معاملہ یہ تھا کہ صباحت کا بیان کیا ہوا ایک ایک لفظ اس منظر کو اس کے سامنے کسی زنده تصویر کی طرح کھینچ لاتاتها ، جس کو دیکھنا کوئی بھی غیرت مند شوہر گوارا نہیں کر سکتا ۔ دن رات یونہی تیزی سے گزر گئے اور شادی کا دن سر پر آگیا۔ بینڈ باجوں میں برات کے ساتھ خاور کے ارمانوں کا جنازه نیلوفر کے گھر لے کر جارہے تھے۔ اس کے ذہن پر صباحت اور اس کا ماضی سوار تھا – گھونگھٹ کاڑھے سیج پر بیٹھی دلہن، دراصل اس کی نہیں، صباحت کے ہاتھوں پائمال ہونے والی ایک کلی تھی۔ اس نے اپنے اندر کی تمام قوت کو جمع کیا اور بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹ کر عجلہ عروسی تک گیا، جہاں سرخ کپڑوں کی گٹھڑی بنی سر جھکائے ، وہ بیٹھی تھی۔ خاور نے اپنے ہاتھوں سے اس کا گھونگٹ اٹھانا چاہا مگر ایسا نہ کرسکا۔ اس کی نظروں کے سامنے وہ نظاره گھوم گیا، جب صباحت نے نیلوفر کو دل سے لگایا ہوگا، اس کے جذبات یخ ہوگئے اور وہ ٹھٹھر کر رہ گیا ۔ سارے خطوط اس کی فائل میں اب تک موجود تھے جن میں صباحت سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا گیاتھا اور کچھ خطوں میں تو عجیب غریب قسم کے اندیشے ظاہر کئے گئے تھے ۔ اس کا سر گھومنے لگا اور اس کے قدم کسی ان دیکھی طاقت نے کمرے سے باہر دھکیل دئیے۔ وہ کمرے سے باہر نکل کر ٹھنڈی ٹھنڈی فضا میں سانس لینے لگا، پھر وہ سڑک پر بغیر سوچے سمجھے بغیر دیکھے بھالے چلتا چلا گیا، یہاں تک کہ اذان ہونے لگی اور لوگ مسجدوں میں نماز کو جانے لگے ۔ اس کے قدم پھر بھی نہ رکے، حالانکہ اس کے پاؤں شل ہوگئے تھے ۔
دفعتاً ایک جتھہ نجانے کہاں سے نمودار ہوا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر تیز روشنی ماری۔ اس کے کپڑے جانچے۔ لباس چغلی کھارہا تھا کہ اس کا تعلق بنگلہ باشی سے نہیں ہے، تبھی تڑ تڑ تڑ تین گولیاں کسی بندوق کی نالی سے نکلیں اور اس کے سینے میں اتر گئیں۔ اس کا لباس جو سفید اور گلابی رنگ کا تها ، خون سے سرخ ہو گیا۔ مارنے والے اسے مار کر چلتے بنے لیکن جاتے جاتے خاور کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر گئے۔ وہ جس سر زمین کو اپنا وطن مانتا تھا، جہاں اس کے باپ دادا اور پھر وہ پیدا ہوا تھا اسی سر زمین نے اسے پناہ دے دی اور وہ وہاں دفن ہوا، لیکن اس سر زمین کے سیاسی بٹوارے نے اس کے خاندان کو پھر بھی پناہ نہ دی۔ صباحت اور خاور کی قربانی دینے کے بعد ہمارا خانواده اب وہاں کیونکر رہ سکتا تھا؟ ہم نے بھی کوچ کرنے کی ٹھان لی اور ہم مغربی پاکستان آ گئے ۔ ہمارے اسی وطن نے پھر ہم کو پناہ دی ، ہمیشہ کے لئے ہم غریب الوطنی کا شکار ہوئے اور جس طرح جن حالات میں وہ تو ہمارا دل ہی جانتا ہے ۔ ماموں چچا، خالہ ، تایا اور ہم سب نے اکٹھے ہجرت کی۔ گھربار، فیکٹری کاروبار دو جواں سال بیٹے چھوڑ کر سب کو خدا حافظ کہہ دیا مگر افسوس ، ہم نیلوفر کو خدا حافظ نہ کہہ سکے ، جس کا سجا ہوا مکھڑا دیکھنے کی ہم میں سے کسی میں تاب نہیں تھی۔ نجانے نیلوفر اور اس کے ماں باپ، بہن بھائیوں پر کیا بیتی ؟ مگر میرے دل پر تو آج بھی ایک دن کی دلہن نیلوفر کے دکھ کو سوچ کر قیامت بیت رہی ہے۔