محب عالم کا گھر ہمارے ہی محلے میں تھا۔ کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ ہم محلے میں کسی کے گھر نہیں جاتے تھے، کیونکہ والد صاحب کی اجازت نہ تھی۔ اس روز میں چھت پر سے ریچھ کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ ریچھ والا ڈگڈگی بجا رہا تھا اور بستی کے سب لڑکے بالے اور جوان دائرہ بنا کر اس جنگلی جانور کا ناچ دیکھ رہے تھے۔ محب بھی نوجوانوں کے اسی ہجوم میں کھڑا تھا۔ اچانک اس کی نظریں ہمارے مکان کی جانب اٹھ گئیں۔ جب مجھے جھانکتے پایا تو خفیف سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی ۔ تبھی یوں لگا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
اس دن کے بعد وہ ایک لمحے کو مجھے فراموش نہ کرسکا۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میرے اور اس کے دن اضطراب اور بے چینی میں گزرنے لگے، لیکن ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی تھی۔ کافی سوچ بچار کے بعد محب عالم نے ایک ترکیب نکالی۔
ہمارے گھر جو عورت کام کرنے آتی تھی اسے سب ہی جانتے تھے۔ محب نے اماں تاباںکو جا پکڑا۔ اس کی منت سماجت کی کہ کس طرح مجھ سے رابطہ کرادے۔ وہ نہیں مانی تو پھر کافی روپے اس کی مٹھی میں دیئے۔ اور ایک خط لکھ کر بھی دیا کہ سمیرا کو دینا ہے۔
اماں تاباں غریب عورت تھی۔ ان دنوں اس کا بیٹا بیمار تھا۔ وہ کینسر کا مریض تھا۔ اسے روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ ممتا کی ماری نے نہ چاہتے ہوئے بھی محب سے خط لے لیا۔
وقت کسی طور کٹتا نہ تھا۔ محب کو دھڑکتے دل کے ساتھ جواب کا انتظار تھا۔ پل پل گنتے دن گزارا۔ اگلے روز صبح گیارہ بجے اماں تاباں جو آتی دکھائی دی، تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ فوراً نزدیکی گلابوں کے باغ میں چلاگیا۔ اماں گلاب توڑنے کے بہانے ادھر گئی، اس کی مٹھی بند تھی جس میں رقعہ دبا ہوا تھا۔
جواب امید افزا ملا تو وہ خوشی سے نہال ہوگیا، کہنے لگا… اماں تاباں… تو فکر نہ کر، میں شہر جاکر تیرے بیٹے کا مفت علاج کرادوں گا۔ وہاں میرے تایا کے دوست کا بیٹا بڑے اسپتال میں لگا ہوا ہے۔ یہ سن کر بیچاری عورت کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اماں تاباں کے ذریعے باقاعدگی سے ہم دونوں میں خط و کتابت شروع ہوگئی۔ اس کی ہتھیلی پر ہر بار چند روپے ضرور رکھنے پڑتے تھے۔ کافی دنوں یہ سلسلہ چلا لیکن اب صرف خطوط سے تسلی نہ ہوتی۔ مجھ سے ملاقات کے لئے محب عالم کی بے چینی دوچند ہوگئی تھی۔
خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا ہے۔ ادھوری ملاقات تو پھر ادھوری ہوتی ہے۔ میرا بھی جی چاہتا تھا اسے دیکھوں، اس سے باتیں کروں۔ ہم دونوں کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا رہا۔ مجبوری یہ تھی کہ میں گھر سے اکیلی نہیں نکل سکتی تھی اور وہ ہمارے گھر نہیں آسکتا تھا۔ ملاقات ہوتی تو کیسے؟
میری مجبوری جانتے ہوئے بھی محب ہر بار خط میں لکھتا تھا کہ اگر مجھ سے محبت ہے تو کسی طرح ملو۔ میری جان کی قسم ہے ملو۔ وہ ہر رقعہ میں اتنی قسمیں دیتا کہ میں پریشان ہوجاتی۔
کیسے اسے سمجھاتی کہ گھر سے باہر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ حالانکہ میری اس مجبوری کو وہ خود بھی جانتا تھا۔ مگر کیا کیجئے کہ عشق برُی بلا ہے۔ عشق پر زور نہیں چلتا۔ آخر تنگ آکر ایک روز میں نے اسے خط میں لکھ دیا کہ اگر ہمت ہے تو آج رات گیارہ بجے میرے گھر آجانا۔ آج رات ابا جان اور بھائی دونوں ہی گھر پر نہ ہوں گے۔
مشکل یہ تھی کہ ہمارا مکان ایسی جگہ تھا جہاں کھلم کھلا جایا نہ جاسکتا تھا۔ آس پڑوس والے سب ہی محب عالم کو جانتے تھے۔ بڑا مسئلہ عزت کا تھا۔ اگر کوئی اسے دیکھ لیتا تو؟ بدنامی ایک بار ہوجائے، پھر اس داغ کو دھونا محال ہوتا ہے اور چھوٹے علاقوں میں تو محبت کا کھیل موت کا کھیل ہی ہوتا ہے۔
جوں جوں وقت ملاقات قریب آرہا تھا، پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ گھبراہٹ میں محب نے دوست سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا یار ہماری بستی میں بجلی تو برائے نام آتی ہے ، ہر وقت بجلی گئی رہتی ہے، پس جب لوڈشیڈنگ ہو تب ہی گھر سے نکل پڑنا… گھپ اندھیرے میں تم کو کون پہچانے گا۔
ہماری بستی میں چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے ہی بجلی آتی تھی، باقی وقت سارا گائوں اندھیرے میں ڈوبا رہتا تھا۔ اس دن بھی مغرب ہوتے ہی سارا گائوں تاریکی میں ڈوب گیا۔ محب نے ایک چھوٹی سی ٹارچ جیب میں ڈالی اور ہماری گلی میں آگیا۔ آدھ گھنٹہ پہلے میں نے دبے قدموں دروازہ کھول دیا تھا۔
اس نے اِدھر اُدھر دیکھا… گلی سنسان تھی۔ جھپاک سے ڈیوڑھی میں آگیا۔ میں دروازے کے قریب کھڑی تھی اور کان ادھر ہی لگے تھے۔ تبھی اس کا بازو تھام کر دبے قدموں چلتی اس کو بیٹھک میں لے گئی۔
اب خوف نہ تھا۔ ابا اور بھائی دوسرے گائوں شادی میں گئے ہوئے تھے۔ گھر میں ماں اور چھوٹی بہن تھی۔ یہ دونوں بھی اس وقت بستر پر دراز خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔ اماں کو تو صبح کاذب کے وقت بیدار ہونے کی عادت تھی۔ تبھی نو دس بجے تک سوجاتی تھی۔
یہ ہماری زندگی کی پہلی ملاقات تھی اور آخری بھی۔ بیٹھک میں مکمل اندھیرا تھا اور میں کہہ رہی تھی۔ محب تم کو یہاں آنے سے ڈر نہیں لگا؟ اس نے کوئی جواب نہ دیا… میں بھی چپ ہوگئی ۔ گمبھیر خاموشی میں صرف ہماری سانسوں کی آواز سنائی دے رہی تھی، جیسے کہ ہمارے سانس ہی سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پیار کی باتیں کررہے ہوں۔
چند لمحوں بعد میں نے اسے دوبارہ پکارا… محب کچھ بات کرو! مگر وہ تو اس وقت کسی دوسری دنیا میں کھویا ہوا تھا جو خوابوں کی دنیا سے بھی زیادہ مسحور کن تھی۔ میں گلے شکوے کرنے لگی کہ بار بار خط میں ملنے کا لکھتے ہو… جانتے بھی ہو کہ میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔ تم سے ملاقات آسان نہیں پھر بھی قسمیں دیتے ہو… تمہاری قسموں سے پریشان ہوجاتی ہوں۔
جانے میں کیا کہہ رہی تھی۔ جانے وہ کیا سن رہا تھا۔ ہم دونوں پر بس ایک مدہوشی کی سی کیفیت تھی جو محبوب کے قرب سے ہوتی ہے اور آدمی اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ بس ایک بات وہ بار بار دہرا رہا تھا۔ وعدہ کرو… عمر بعد ساتھ دوگی کبھی بے وفائی نہ کروگی، تبھی میں نے قسم کھائی کہ جان دے دوں گی، تم سے بے وفائی نہ کروں گی۔ تم بھی وفا کرنا۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کھٹکا ہوا۔ شاید ماں نیند سے بیدار ہوگئی تھی۔ اس نے مجھے بستر پر نہ پایا تو صحن میں دیکھا پھر بیٹھک کی طرف چلی آئی۔ تبھی بیٹھک سے آتی سرگوشیوں پر اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے دم سادھے دیوار کے ساتھ کان لگادیئے۔
جب ماں کو یقین ہوگیا کہ میں تنہا نہیں ہوں، کوئی دوسرا بھی ہے۔ اس نے جلدی سے بیٹھک کے دروازے کی باہر سے کنڈی لگادی۔ اور ہم دونوں قید ہوگئے اب فرار کا کوئی رستہ نہ رہ گیا۔
میری ماں سوتیلی تھی وہ پہلے ہی مجھ سے بہت خار کھاتی تھی۔ آج تو میں کم عقل رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔ سوتیلی بیٹی سے خار نکالنے کا اس سے اچھا اور کون سا موقع آتا۔ وہ دروازے کے پاس چارپائی ڈال کر بیٹھ گئی اور دھیمی آواز میں مجھے کوسنے دینے لگی۔ کہتی تھی آج ان دونوں کو مزہ چکھائوں گی… یار کے ساتھ اندر بند ہے کم بخت… پتہ نہیں کون مردود ہے۔ دیکھتی ہوں کیسے بچ کر جاتا ہے۔ زندہ نہ چھوٹے گا۔ صبح آجائیں گے شیری کے ابا… دکھادوں گی ان کو ان کی بیٹی کے کرتوت… رات کے اندھیرے میں کیا گل کھلا رہی ہے۔ باپ اور بھائی کی عزت سے کھیلنے کی سزا تو ملے گی۔
رات کے دو بجے تھے۔ ماں نے چارپائی سے اٹھنے کا نام نہ لیا، ساری رات کوسنے اور گالیاں دیتے گزار دی ۔ ادھر ہمارا بیٹھک میں قید برُا حال تھا، کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ آج تو موت یقینی نظر آرہی تھی۔
اب محبت کا نشہ ہرن ہوگیا تھا۔ ذلت، رسوائی اور اجل سامنے نظر آرہی تھی۔ اس وقت جان پر ایسی بنی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ دل خوف سے کانپ رہا تھا۔ دن نکلنے کے آثار ہوئے، ماں سگی ہوتی تو ڈانٹ ڈپٹ کر محب کو کوٹھری سے نکال دیتی اور بیٹی کا عیب ڈھک لیتی۔ یہاں تو ماں سوتیلی تھی۔ جانے کب سے موقع کی تاک میں تھی کہ لڑکی کی کمزوری ہاتھ آئے اور وہ ابا کو مجھ سے بدظن کردے۔ اور ابا کا مزاج گائوں کے ایسے لوگوں میں سے تھا کہ جو عزت کی خاطر زبان سے نہیں کلہاڑی سے کام لیتے ہیں۔
صبح نو بجے بیرونی دروازے پر دستک سنائی دی۔ میں نے محب سے کہا۔ لو ابا اور بھائی آگئے ہیں، تم پیچھے ہوجائو اور مجھے دروازے کے سامنے بیٹھنے دو، تاکہ وہ پہلے مجھے ماریں… بعد میں تمہاری باری آئے۔ میں تم کو اپنے سے پہلے مرتے نہ دیکھ سکوں گی۔ میں لڑکی تھی پھر بھی حوصلے سے کام لے رہی تھی مگر اس کو تو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ ہم دونوں ہی سانس روکے موت کے انتظار میں تھے۔ سوچ رہی تھی کہ اب ماں شور مچا کر ابا کی غیرت کو للکارے گی۔ شور مچے گا تو رسوائی ہوگی، نجانے کتنے لوگ محلے بھر کے ہماری موت کا خونی تماشہ دیکھیں گے۔
ماں نے دروازہ کھولا۔ وہ نہیں تھے جو اجل کے روپ میں آنے والے تھے۔ یہ گوالا تھا، جو دودھ دینے آیا تھا۔ ماں نے دودھ لیا اور پھر اس کا خالی برتن لوٹایا۔ وہ چلا گیا۔ دو گھنٹے مزید اسی جاں کنی کے عالم میں گزر گئے۔ اب تو سانس لینا بھی دشوار ہورہا تھا۔ محب دعا کررہا تھا یا اللہ … اس چھت میں دروازہ بنادے تاکہ مجھے عزت سے رہائی مل جائے۔ توبہ کرتا ہوں پھر کبھی، ایسی غلطی نہ کروں گا۔
قطعی امید نہ تھی، ان حالات میں عزت سے رہائی مل جاتی مگر اللہ بڑا کریم ہے۔ بے شک وہ خطا کار بندوں کی خطائیں معاف کرتا ہے۔ اس نے ہماری بھی دعا سن لی۔ اس وقت جب ماں ذرا دیر کو غسل خانے کی طرف گئی، میری چھوٹی بہن زہرا کو موقع مل گیا… اس نے بھاگ کر بیٹھک کے بیرونی دروازے کی کنڈی کھول دی۔ شاید کہ اس کو ہم بے کسوں پر ترس آگیا یا اس میں اپنی آنکھوں سے خون خرابہ دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ وہ دوڑتی ہوئی ہماری جانب آئی اور بولی فوراً نکل بھاگو۔ پل بھر میں محب قلانچیں بھرتا ڈیوڑھی میں تھا۔ وہ چشم زدن گلی میں نکل گیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے گھر سے زندہ چلاگیا ہے۔ اس نے تو گھر جاکر شکرانے کے نفل ادا کئے ہوں گے۔ مگر میں عتاب کے شکنجے میں ابھی تک کسی ہوئی تھی۔
ماں ادھر آئی تو بیٹھک کا در کھلا دیکھ کر اس نے اپنی بیٹی زہرا کے بال پکڑلئے… بولی تجھے اس منحوس سے کب سے ہمدردی ہوگئی ہے… بیٹھک کا در تونے ہی کھولا ہے نا؟
اماں … بال چھوڑ، زہرا نے جھنجھلا کرکہا۔ ذرا سوچ… اگر اس کی جگہ میں ہوتی… تیری اپنی کوکھ جائی۔ تو کیا تب بھی تو ایسا کرتی؟
بڑی آئی… اس آوارہ بدچلن کی ہمدرد… وہ اس کو دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگی۔ تو بھی اس سے ملی ہوئی ہے مجھے تو ایسا لگتا ہے۔
وہ مجھ سے ملی ہوئی نہ تھی۔ بے شک میری سوتیلی بہن تھی مگر ہم دونوں کا باپ ایک ہی تھا۔ ہم میں خون کا رشتہ تھا۔ اس نے چپ کرکے مار کھالی مگر ماں کو قسمیں دیتی رہی۔ اماں خبردار ابا کو یہ نہ بتانا کہ کوئی اس کے ساتھ بیٹھک میں تھا۔ بے شک کوئی دوسری شکایت لگا کر پٹوادینا۔
محب کو تو نئی زندگی مل گئی۔ اس کی عزت بھی بچ گئی، مگر ماں نے مجھے نہ بخشا۔ اس نے اپنی بیٹی زہرا کے قسم دینے پر اتنی نرمی ضرور برتی کہ بیٹھک میں میرے ساتھ کسی مرد کے ہونے کی بات گول کرگئی۔ مگر ابا سے یہ ضرور کہا کہ تیری بیٹی ڈیوڑھی میں کھڑی تھی شاید یہ گلی میں کھڑے کسی مرد سے بات کررہی تھی۔ اس کو منع کردے آئندہ یہ دروازے پر کسی سے بات نہ کرے گی۔
والد کی نظروں میں تو میرا اتنا جرم بھی ناقابل معافی تھا۔ انہوں نے اس قدر مارا کہ چارپائی پر پڑگئی۔ ابا مجھ سے پوچھ پوچھ کر تھک گیا کہ وہ کون تھا جو ہمارے دروازے پر کھڑا تھا اور تو جس کے ساتھ ڈیوڑھی میں کھڑی بات کررہی تھی۔ اس کا نام بتادے تاکہ میں اس کی خبرلوں… ورنہ تو میں تجھے جان سے مار دوں گا۔
میں نے بھی بے تحاشا مار سہہ لی۔ بدن پر نیل تھے اور ہڈی پسلی درد کررہی تھی، مگر یہی کہتی رہی… وہاں کوئی نہ تھا ابا… مجھے اپنے سر کی قسم ماں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ شام کو میں نے ڈیوڑھی سے جھانکا ضرور تھا۔ کسی بچے کو آواز دینے کو… میٹھی گجک منگوانی تھی، مگر گلی میں اس دم کوئی بچہ نہ تھا۔ ماں بولی۔
جھوٹ بولتی ہے یہ… رات کو عشاء کے بعد کون سی گجک منگوانی تھی اسے۔ یہ کوئی گجک منگوانے نہیں گئی۔ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ ہماری عزت کی نیلامی کرنے کا منصوبہ بنارہی تھی۔
جو مجھ پر بیتی سو بیت گئی۔ ابا نے آناً فاناً رشتہ اپنے نکمے اور اوباش بھتیجے سے کرکے مجھ کو گھر سے رخصت کردیا۔ یہ وہی جمالا تھا کہ ابا جس کی صورت بھی دیکھنے کے روا دار نہ تھے نکما ، بدزبان اور چرسی، جو سارا دن بستی میں آوارہ پھرتا تھا اورکبوتر بازی کرتا تھا۔ آج وہی ابا کے کام آیا اور ترنت میرا بوجھ کندھوں سے اتار پھینکا۔
جب سے شادی ہوئی ہے ، چکی پیستی ہوں۔ محنت مشقت کرتی ہوں پھر بھی فاقے کرتی ہوں۔ جمال کا جب من کرتا ہے دھڑ دھڑ پیٹنے لگتا ہے۔ ابا کا گھر برابر میں ہے۔ میری فریادیں اور چیخیں سنتا ہے مگر وہ جمال کا ہاتھ پکڑنے کو نہیں آتا اور نہ میری داد رسی کرتا ہے۔ تب میں سوچتی ہوں کہ اس سے تو بہتر تھا میری بہن بیٹھک کی کنڈی کھول کر مجھے نہ بچاتی۔ روز روز کے مرنے سے ایک بار ہی قتل ہوجانا اچھا تھا۔
(س … جام پور)