ازابیل کب سے ایمیلو کے آفس کے دروازے کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی کہ اندر جائے یا نہ جائے۔ اگر وہ ہمت کرکے اندر چلی بھی جاتی ہے تو اس کا سامنا کس طرح سے کرے گی، اس کی نگاہوں کی اجنبیت کو کیسے برداشت کرے گی۔ ایمیلو جو کبھی اس کے خوابوں کا شہزادہ تھا جس سے اس نے ٹوٹ کر محبت کی تھی۔ ہر شے سے بے پروا ہوکر، ہر معاشرتی اونچ نیچ کو بھلا کر صرف اسے چاہا تھا لیکن وقت نے دونوں کے درمیان کتنی بڑی خلیج حائل کردی تھی جسے پاٹنا شاید اب دونوں کے بس میں نہیں رہا تھا۔
دفتر کے باہر بیٹھا ہوا گارڈ مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر جیسے اٹھنے کا ارادہ کررہا تھا۔ ازابیل گھبرائی۔ اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور دل کڑا کرکے سوچا کہ اسے اندر چلے ہی جانا چاہئے۔ ایمیلو کا سامنا کر ہی لینا چاہئے جو ان حالات سے بے خبر جن میں وہ گھر کر رہ گئی تھی، اسے بے وفا، دولت کی پجاری سمجھتا تھا۔ وہ اسے فریب کار اور نہ جانے کیا کچھ کہتا تھا۔
اس نے ہمت کرکے دروازہ کھولا اور اس کے شاندار آفس کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ کوئی کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایمیلو اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوسکتا تھا، اتنے ٹھاٹ سے اتنے شاندار آفس میں بیٹھ سکتا تھا۔ اسے دیکھ کر اس نے مسحور کن سرمئی آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور سوالیہ سے انداز میں بولا۔ ’’اوہ مسز لیوناڈ…!‘‘
ازابیل کچھ جھجکتی ہوئی اس کی تنقیدی نگاہوں کا مرکز بنتی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم رکھتی، اس کی میز کے قریب پہنچی۔ ایمیلو نے اسے بیٹھنے کے لئے نہیں کہا لیکن اس کے اندر اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ کھڑی ہوسکتی اس لئے وہ خود ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’فرمایئے…؟‘‘ وہ بڑے تکلف سے گویا ہوا۔
ازابیل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے اور کیا کہے۔ اسے کیسے بتائے کہ لیوناڈ نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر کس طرح چند دستاویزات پر اس کے دستخط لے لئے تھے جو دراصل ایک بہت بڑا فراڈ تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ اچانک ایک حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔ اس حادثے نے ازابیل کو جیسے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا تھا۔ وہ سارے ٹھاٹ باٹ اور عیش و عشرت جو وہ اپنے شوہر کی زندگی میں بسر کررہی تھی، وہ سب ختم ہوگئے تھے۔ اس پر اتنے قرضے تھے جنہیں چکاتے چکاتے وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئی تھی۔ اسی پر بس نہیں تھا وہ دستاویزات جس پر اس نے ازابیل کے دستخط کروا لئے تھے، وہ محض فراڈ تھا جس کا سارا الزام ازابیل پر آگیا تھا۔ جیل کا دروازہ اس پر کھلنے ہی والا تھا۔
اس کی بپتا سن کر وہ سخت لہجے میں بولا۔ ’’واہ…! تم کمال ڈھٹائی سے اب بھی مجھ سے مدد لینے کے لئے آگئی ہو۔‘‘
اس کے لہجے کی سختی، اس کی آنکھوں کی لاتعلقی اور اس کی بات کی درشتی نے ازابیل کے اندر ایک طوفان سا اٹھا دیا۔ اس کا غصہ بجا تھا جس طرح اس کا دل ٹوٹا تھا، وہ ایسا رویہ رکھنے میں حق بجانب تھا مگر ازابیل کا خیال تھا کہ شاید وہ اس بھولی بسری محبت کی کچھ لاج رکھے گا، اس کی حالت پر اسے کچھ ترس آجائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ بڑے تنقیدی لہجے میں بول رہا تھا۔ ’’تم میرے پاس کیوں آئی ہو، تمہارے وہ امیر کبیر دوست کہاں گئے جن کا سوسائٹی میں بڑا نام تھا؟‘‘
ازابیل نے بے بسی سے سوچا کہ وہ اپنی عزت نفس کو دائو پر لگا کر اس لئے اس کے پاس آئی تھی کہ اس کا کیس اس کے بھائی الیگزینڈر کے پاس تھا۔ اس کے تمام دوست احباب اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے کیونکہ ان میں سے بہت سوں نے لیوناڈ کے کاروبار میں پیسہ لگایا تھا اور کروڑوں گنوا بیٹھے تھے لیکن وہ یہ سب ایمیلو سے نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس نے دھیمے سے لہجے میں اگر کہا تو صرف یہ کہا۔ ’’میں تمہارے پاس اس لئے آئی ہوں کہ صرف تم ہی میری مدد کرسکتے ہو۔‘‘
’’لیکن میں تمہاری مدد کیوں کروں… میں تو چاہتا ہوں کہ تم جیل میں سڑو، اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھو۔‘‘ وہ نہایت بے رحمی سے بولا۔
ازابیل نے بمشکل اس کی بات کو برداشت کیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس سے اتنی زیادہ نفرت کرتا ہے۔ وہ یہ جان کر یقیناً خوش ہوگا کہ اس کے وکیل نے مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ وہ کیس جیت لے گا۔ ساری گواہیاں اس کے خلاف تھیں۔ اب صرف اپیل اور کچھ دے دلا کر ہی وہ جیل جانے سے بچ سکتی تھی۔ وہ یہ سب کچھ برداشت کر بھی لیتی، اگر اس کے مرحوم شوہر نے اس کی ماں کو اس میں ملوث نہ کیا ہوتا۔
ازابیل کو یہ بالکل گوارا نہیں تھا کہ اس کی ماں جو تمام زندگی اس کے باپ کی سختیاں اور مظالم برداشت کرتی رہی تھی، زندگی کے باقی دن جیل میں گزارے اور وہ بھی بے قصور…! یہ اس کی حماقت تھی کہ اس نے دستاویزات کو بغیر پڑھے ان پر دستخط کردیئے تھے اور ماں کو بھی ان میں شامل کرلیا تھا۔
’’اگر تم مجھے جیل میں دیکھ کر خوش ہوگے تو ہوتے رہو۔ مجھے اپنی پروا ہے بھی نہیں، میں تمہارے پاس اپنی ماں کی وجہ سے آئی ہوں کیونکہ وہ بے قصور ہے۔ اس کا لیوناڈ کے فراڈ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
ایمیلو کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، بہترین سوٹ پہنے ہوئے تھا، اس کے بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ وہ اس لڑکے سے کتنا مختلف معلوم ہورہا تھا جس کی محبت میں وہ کبھی ڈوبی ہوئی تھی تب وہ بارہ سال کی تھی اور ایمیلو پندرہ سال کا…! اس کی ماں ان کی گھریلو ملازمہ تھی اور پاپا یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی پیاری بیٹی ان کی ملازمہ کے بیٹے پر مر مٹے گی۔ وہ اچھی طرح اس بے جوڑ محبت کے نتائج سے واقف تھی لیکن پھر بھی عشق کا جنون اس کے سر پر سوار تھا۔ وہ ایمیلو کے ساتھ چھپ کر ملنے سے باز نہیں آسکتی تھی۔
ان کی یہ خفیہ ملاقاتیں جاری رہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی لیکن جب دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا منصوبہ بنایا تو نہ جانے پاپا کو اس کی خبر کیسے ہوگئی۔ انہوں نے ازابیل کی اچھی طرح سے خبر لی اور ایمیلو کی ماں پر چوری کا الزام لگا کر اسے ملازمت سے برخاست کردیا تاکہ وہ کسی اور جگہ بھی ملازمت نہ کرسکے۔
ازابیل کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش! پاپا اس منظر کو دیکھ سکتے کہ ایمیلو کتنی شاندار کرسی پر ڈٹا بیٹھا تھا اور وہ کس کسمپرسی کے عالم میں اس سے مدد مانگنے پر مجبور تھی۔ یقیناً وہ قبر میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہوں گے۔ کاش! وہ ان سے کہہ سکتی کہ امیر کبیر لیوناڈ کے بجائے ایمیلو کتنا مناسب، ایماندار اور قابل اعتماد تھا۔ وہ اس کے لئے کتنا موزوں زندگی کا ساتھی ہوسکتا تھا لیکن اب تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔
’’اچھا! تو تم یہ سب کچھ اپنی ماں کے لئے کررہی ہو؟‘‘ اس نے طنز کا ایک اور تیر چھوڑا۔
ازابیل نے سر ہلایا اور بولی۔ ’’میرے وکیل نے مجھے بتایا ہے کہ میڈیا کی توجہ بھی اسی طرف ہے۔ اب تمہارے بھائی پر منحصر ہے کہ وہ کچھ رعایت کرسکیں تو…!‘‘
’’تمہاری ماں کے لئے بھی بہترین جگہ جیل ہی ہے۔ تم دونوں کو وہیں سڑنا چاہئے۔‘‘
ازابیل نے جھرجھری سی لی۔ اس کی ماں نے کبھی اس کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا تھا سوائے اس کی شادی لیوناڈ کے ساتھ کرنے کے…! لیکن اس کے لئے بھی وہ مجبور تھی کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی تھی۔ مارے طیش کے اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ اسے کیا جواب دے اور وہ تھا کہ ایک کے بعد ایک طنز کے نشتر چلائے جارہا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنا بے رحم بھی ہوسکتا تھا، جو کبھی اس کی محبت میں پاگل تھا۔
’’تم اس طرح پھٹے حالوں یہاں کیوں آئی ہو؟ تمہارا کیا خیال تھا کہ میں تمہارا حال دیکھ کر درو کرب میں ڈوب جائوں گا، تم پر ترس کھائوں گا؟‘‘
ازابیل نے غیر ارادی طور پر ایک نگاہ اپنے حلیئے پر ڈالی۔ وہ ایک پرانا سا بلائوز اور بدرنگ اسکرٹ پہنے ہوئے تھی جس پر درجنوں سلوٹیں تھیں جو اس نے اپنی ماں کے اس بیگ سے نکالا تھا جسے اس نے خیرات میں دینے کے لئے رکھا ہوا تھا کیونکہ اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ اس کی ہر شے منجمد کرلی گئی تھی۔
’’مجھے تمہاری حالت پر کوئی افسوس نہیں ازابیل! تمہارا کیا دھرا تمہارے سامنے آرہا ہے۔ تم نے جو کیا ہے، اسے بھگتو۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔
اس کی ان تلخ باتوں سے ازابیل کو یقین ہوگیا کہ وہ ہرگز اس کی مدد نہیں کرے گا۔ وہ مایوسی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھی اور لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’شکریہ مسٹر ایمیلو…! میں نے آپ کا بہت وقت لیا۔‘‘
’’بیٹھ جائو۔‘‘ وہ تحکمانہ لہجے میں اس کی بات کاٹ کر بولا۔
’’مگر کس لئے جبکہ تم میری مدد نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔‘‘
ازابیل کو اس کی درشت آنکھوں میں ہلکی سی ملائمت کی جھلک نظر آئی۔ اس کی امید پھر بندھی اور وہ دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’ٹھیک ہے۔ میں اپنے بھائی سے اس بارے میں بات کروں گا لیکن اس کے بدلے میں تمہیں بھی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ ازابیل چونک گئی۔
’’تم تیس دن تک اس گھر میں ملازمہ کی طرح رہو گی۔ تم وہ سب کرو گی جو ایک ملازمہ کا فریضہ ہوتا ہے۔ کھانا پکانا، گھر کی صفائی، کپڑے دھونا وغیرہ۔ تمہاری تیس دن کی کارکردگی سے میں مطمئن ہوا تو میں اپنے بھائی سے سفارش کروں گا۔‘‘
ازابیل بھونچکی سی رہ گئی۔ گویا اس سے وہ سب کام کروانا چاہتا تھا جو کبھی اس کی ماں ان کے گھر میں کیا کرتی تھی۔ اپنی ماں کا انتقام لینے کا اچھا موقع ہاتھ آیا تھا۔
اس نرم دل مہربان لڑکے کو کیا ہوا تھا جو کبھی اس کی زندگی میں بہار بن کر آیا تھا۔ وہ اتنا تلخ اور ضدی کیوں ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے دل میں اتنی نفرت کیوں بھر لی تھی؟ لیکن حالات نے اسے اتنا مجبور کردیا تھا کہ اسے ایمیلو کی یہ بات ماننے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کی انا خاک میں مل چکی تھی۔ اب اس کے لئے اپنی عزت نفس کا سودا کرنا اتنا مشکل نہیں رہا تھا۔
’’مگر میں تم پر کس طرح اعتماد کروں کہ تیس دن بعد تم اپنا ارادہ نہیں بدلو گے؟‘‘ ازابیل نے اپنے دل کا اندیشہ اس پر ظاہر کیا۔
وہ میز پر آگے جھکا اور شعلے برساتی آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں ڈال کر بولا۔ ’’کیا میں نے کبھی تمہارے ساتھ بددیانتی کی ہے؟‘‘ پھر پیچھے ہٹ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر کہنے لگا۔ ’’تم سوچ لو۔ جتنا وقت چاہتی ہو، لے لو فیصلہ کرنے کے لئے!‘‘
ازابیل نے بھلا کیا وقت لینا تھا، وقت ہی تو اس کے پاس نہیں تھا۔ اس کے وکیل نے اسے بتایا تھا کہ صرف چھ ہفتے باقی ہیں۔ اس دوران اگر وہ پراسیکیوٹر تک کوئی سفارش پہنچا سکتی تھی تو کام بن سکتا تھا ورنہ دونوں ماں، بیٹی کے لئے جیل کا دروازہ کھلنے میں کوئی دیر نہیں تھی۔ اب اسے اس ذلت کا کڑوا گھونٹ جیسے تیسے پینا ہی تھا۔ یہ تیس دن گزر جاتے تو امید تھی کہ ایمیلو اپنا وعدہ پورا کرے گا اور جیل کا خطرہ ٹل جائے گا، جس نے ان کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔
ازابیل کرسی پر سیدھی ہوکر بیٹھی اور سر اٹھا کر بڑے وقار سے بولی۔ ’’ٹھیک ہے، میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’ہوں…!‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’اس کے لئے ایک شرط ہوگی۔‘‘
’’شرط…؟‘‘ وہ اپنے سنہری بالوں کی ایک گھنگھریالی لٹ کان کے پیچھے سمیٹتی ہوئی فکرمندی سے بولی۔ ’’کیسی شرط؟‘‘
’’اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’کیونکہ میں آئل کمپنی میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہوں۔ یہ بات راز میں رہنی چاہئے کہ میں ایک ایسی عورت کے لئے سفارش کررہا ہوں یا وہ میرے یہاں ملازمت کررہی ہے جو شہر کے سب سے بڑے فراڈ میں ملوث ہے۔ اس لئے اگر یہ بات کسی کو پتا چلی تو نہ صرف یہ معاہدہ ختم ہوجائےگا بلکہ میں کوشش کروں گا کہ تم اور تمہاری ماں کو زیادہ سے زیادہ جیل کی ہوا کھانی پڑے۔‘‘
’’لیکن میں تیس دن مسلسل گھر سے غائب تو نہیں رہ سکتی نا! میری ماں کو فکر ہوگی کہ میں کہاں ہوں۔‘‘
’’تم کہہ دینا کہ تم اپنی کسی دوست کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہو۔‘‘
’’اور وہ حکام جنہوں نے مجھے ضمانت پر چھوڑا ہے، انہیں بھی اس کی تشویش ہوگی کہ میں کہاں ہوں۔ اس طرح میں پھر کہیں جیل نہ چلی جائوں۔‘‘
’’تم اس کی فکر مت کرو، میں سب سنبھال لوں گا۔‘‘
ازابیل کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسے ایمیلو کی تمام شرائط ماننی ہی تھیں۔ اس نے ایمیلو کو یقین دلایا۔ ’’نہیں! میں کسی کو نہیں بتائوں گی۔‘‘
ایمیلو نے رائٹنگ پیڈ آگے بڑھایا۔ ’’یہاں اپنا ایڈریس لکھو جہاں تم رہ رہی ہو۔ آج شام میرا ڈرائیور تمہیں وہاں سے لے آئے گا۔‘‘
ازابیل نے اس چھوٹے سستے سے ہوٹل کا ایڈریس لکھا جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ ایمیلو نے ایڈریس پر نگاہ ڈالی اور اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات نظر آئے۔ شاید وہ اس کی توقع نہیں کررہا تھا کہ وہ اتنی بری جگہ پر رہتی ہوگی۔
’’سات بجے تیار رہنا اور تمہارے تیس دن کل سے شروع ہوں گے۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اپنے سر کو اوپر اٹھایا تاکہ اس کا وقار اور شخصیت کی تکریم قائم رہے۔ ایمیلو بھی جانتا تھا کہ اس نے کبھی تنکا بھی نہیں توڑا تھا۔ اس نے شاہانہ زندگی بسر کی تھی۔ اسی لئے وہ اسے گھر کی ملازمہ بنا کر اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں محظوظ ہونے کی کیفیت محسوس کررہی تھی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
’’تمہیں واپسی کے لئے لفٹ چاہئے؟‘‘ اس نے جیسے بڑا احسان جتایا۔
’’نہیں…! میرے پاس ممی کی گاڑی ہے۔‘‘
’’ہوں! خود گاڑی چلانا تو تمہارے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔ تمہارے پاس تو چار چار ڈرائیور ہوتے تھے، گاڑی چلانے کے لئے…!‘‘ وہ مسلسل طنز کے تیر چلا رہا تھا۔
ازابیل بھی جواباً اسے جلی کٹی سنا سکتی تھی لیکن اس نے بڑی کوشش سے اپنے منہ کو بند رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، ازابیل بھی اٹھی اور دروازے کی طرف چلی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اسے دروازے تک چھوڑنے آئے گا لیکن وہ وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
ایمیلو کا گھر ایک مہنگے رہائشی علاقے میں تھا۔ وہ اسی علاقے میں رہتی تھی۔ مگر اب جیسے محل سے فٹ پاتھ پر آگئی تھی۔ یہ ویسا ہی بہترین علاقہ تھا اور شاندار گھر تھا جیسا گھر لینے کے بارے میں وہ اس کے ساتھ مل کر خواب دیکھا کرتا تھا۔ اس کے خیالات ہمیشہ سے بہت اونچے رہے تھے اور وہ محنت کرنے میں یقین رکھتا تھا۔ اسی لئے اس نے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرلی تھی۔ وہ اس کا مستحق بھی تھا۔ کاش! وہ بھی اس کے ساتھ اس زندگی میں شریک ہوسکتی لیکن وقت گزر چکا تھا۔ پورے پندرہ سال کا فاصلہ دونوں کے درمیان حائل تھا۔
گاڑی رک گئی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا، ازابیل باہر نکلی اور کپکپا کر رہ گئی۔ اس کا ہلکا سا سوئٹر موسم کی خنکی کا مقابلہ کرنے میں ناکام تھا لیکن وہ کیا کرتی۔ اس کی تمام چیزیں منجمد کرلی گئی تھیں۔ تاریکی زمین پر اترنے لگی تھی لیکن ایمیلو کا گھر خوب روشن تھا۔ ڈرائیور نے ڈکی سے اس کا بیگ نکال کر باہر رکھا اور تھوڑا سا جھک کر اپنی ٹوپی کو چھوا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔
ازابیل نے ایک لمبا سانس لیا اور اپنا بیگ اٹھا کر شیشے کے خودکار دروازے کی طرف بڑھی۔ اس کا خیال تھا کہ ایمیلو کو اس کی آمد کے بارے میں معلوم ہوگا اور وہ اس کا استقبال کرنے دروازے تک آجائے گا لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ ازابیل نے گھنٹی بجائی۔ کچھ دیر انتظار کرتی رہی مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
وہ پھر ایک بار گھنٹی بجانے کو تھی کہ اس کے عقب سے آواز آئی۔ ’’میں گھر پر نہیں ہوں۔‘‘
ازابیل چونک گئی۔ اس نے پلٹ کو دیکھا۔ ایمیلو اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس نے جوگنگ ڈریس پہن رکھا تھا۔ اس کی فراخ پیشانی پر جھکے ہوئے گھنگھریالے بال پسینے کے قطروں سے چپک گئے تھے۔ اس کا سانس کچھ تیز چل رہا تھا۔ وہ کالج کے دنوں سے اب تک جوگنگ کررہا تھا۔ اسی لئے اتنا اسمارٹ تھا۔ گزرتے ہوئے وقت کے نشانات اس کی دلکش شخصیت پر نظر نہیں آتے تھے۔ وہ اس کے برابر ہی کھڑا تھا۔ آفٹر شیو کی ہلکی سی خوشبو اس کے اردگرد پھیلی ہوئی تھی۔ ازابیل کا دل چاہ رہا تھا کہ ایک بار وہ پاگلوں کی طرح یہاں سے بھاگ جائے۔ اس کا سامنا کرے، نہ اس کی آنکھوں کا! جن میں ڈوب جانے کو دل چاہتا تھا۔
’’تمہارا سب سامان یہی ہے؟‘‘ وہ اس کے بیگ کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
’’ہاں…! بس اتنا ہی ہے۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔
ایمیلو نے ایک بٹن دبایا۔ دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوگیا۔ ازابیل کو قوی یقین تھا کہ وہ اس کا بیگ نہیں اٹھائے گا۔ اس لئے وہ خود ہی اپنا بیگ اٹھا کر اس کے پیچھے چل پڑی۔
وہ اپنے خوبصورت لائونج میں کھڑا تھا جس کی آرائش قیمتی اور خوش ذوقی کی مظہر تھی۔
’’تمہارا گھر بہت خوبصورت ہے۔‘‘ ازابیل کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’میں تمہیں تمہارا کوارٹر دکھا دیتا ہوں۔ میری ملازمہ نے دن بھر کی ڈیوٹی اور مینو کی لسٹ وہاں لگا دی ہے، جس کے مطابق تمہیں عمل کرنا ہوگا۔‘‘ وہ لاتعلقی سے بولا۔
’’تم نے ملازمہ کو نکال دیا ہے؟‘‘
’’نہیں! کیوں…؟ میں ملازمہ کو کیوں نکالوں گا۔ میں نے اسے ایک ماہ کی چھٹی دے دی ہے۔‘‘ وہ تلخ لہجے میں بولا۔
ازابیل دل ہی دل میں پچھتائی۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے یہ بات کیوں کہہ دی۔ یقیناً اسے اپنی ماں کی ملازمت سے برخاستگی یاد آگئی ہوگی۔
اس کے گھر کی طرح کچن بھی بے حد صاف ستھرا اور خوبصورت تھا۔ مہاگنی کے کیبنٹ، ماربل کے کائونٹر اور دیگر بہترین چیزیں! اس کے ساتھ ہی لانڈری روم اور ملازمہ کا کوارٹر بھی تھا جہاں اسے پورے تیس دن گزارنے تھے۔
’’تمہارا یونیفارم اوپر کی دراز میں ہوگا۔‘‘ ایمیلو نے بتایا۔
ازابیل نے دراز باہر کھینچا اور اسے سفید کالر والا سلیٹی یونیفارم نظر آیا۔ ویسا ہی جیسا اس کی ماں ان کے گھر میں پہنا کرتی تھی۔ گویا ایمیلو نے ہر طرح کی ذلت اس کے لئے تیار کررکھی تھی۔ اس نے اس کا ڈیوٹی چارٹ اس کی طرف بڑھایا۔
پورے آٹھ صفحے…! ازابیل دیکھ کر ٹھٹھکی اور اس کے ورق الٹنے لگی، جس میں تفصیل سے درج تھا کہ کس دن کیا کام کرنا ہے۔ صفائی ہر روز، فرش کی پالش، باتھ روم کی دھلائی، کچن کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی…! اتنے کام، اتنے کام کہ سارا دن میں بھی یہ مکمل نہ ہوپائیں۔ ازابیل تو تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ کوئی اتنے زیادہ کام دن بھر میں کرسکتا ہے۔
’’کوئی مشکل ہے؟‘‘ وہ یوں پوچھ رہا تھا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔
’’نہیں…! کوئی مشکل نہیں۔‘‘ وہ ڈھیٹ بن کر بولی۔
’’بہت خوب!‘‘ ایمیلو نے سر ہلایا۔ ’’اچھا! میں مینو میں کچھ تبدیلی کرنا چاہتا ہوں لیکن تم نے فہرست میں سے پہلے دن کے مطابق کام کرنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم کھانا بنا لیتی ہوگی۔‘‘
وہ صرف فروزن کھانا مائیکروویو میں گرم کرسکتی تھی لیکن اس نے دل کڑا کرکے بڑی جرأت سے جواب دیا۔ ’’ہاں…! میں کرلوں گی۔‘‘
’’گروسری وغیرہ بھی تمہیں ہی لانا ہوگی۔ تمہیں ایک گاڑی مل جائے گی۔ تم جو چاہو اپنے لئے بنا سکتی ہو۔ آئو تمہیں باقی گھر دکھا دوں۔‘‘ وہ کچن سے باہر نکلا۔ ازابیل اس کے پیچھے تھی۔
اس کا پانچ بیڈ روم کا گھر خاصا وسیع تھا۔ بہترین آرائش کے ساتھ وہ قابل ستائش تھا۔
لیکن ازابیل کے دل میں اسے دیکھ دیکھ کر ہول اٹھ رہے تھے کہ اس کی صفائی کرنی کتنی مشکل ہوگی، کس طرح ہوپائے گی۔ وہ ماسٹر بیڈ روم کے دروازے پر رک گیا۔
’’کمرے اور نچلی منزل میں میرے آفس میں جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’مجھے کیا مصیبت پڑی ہے۔ جب باقی کمروں کی صفائی سے فرصت ملے گی تو ادھر جائوں گی۔‘‘ ازابیل منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
’’کیا کہا…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ ازابیل نے سر جھٹکا۔
سارے گھر کا چکر لگا کر وہ کچن میں آگئے۔ ازابیل نے چاہا کہ اپنے کوارٹر کی طرف چلی جائے۔ وہ اس کا ارادہ بھانپ کر بولا۔ ’’تھوڑی دیر ٹھہرو۔‘‘
’’میں تھک گئی ہوں اور میں نے وہ فہرست بھی دیکھنی ہے۔‘‘ ازابیل نے ٹالنے کو کہا۔
وہ کائونٹر سے پشت لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ’’ذرا ٹھہرو، مجھے یہ بتائو کہ گزشتہ پندرہ سال میں تم فراڈ کرنے کے علاوہ اور کیا کرتی رہی ہو؟‘‘
ازابیل نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا اور خاموش رہی۔
’’تمہارے والدین کو اب معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی پیاری بیٹی کے لئے کتنا اچھا زندگی کا ساتھی چنا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اور اس کی ماں جیل کی ہوا کھانے جارہے ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ طنز آمیز تھا۔
ازابیل نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسے اپنے طنز و تشنیع سے بھڑکانا چاہتا تھا لیکن وہ خود پر قابو پا کر اس کی اس کوشش کو کامیاب نہیں بنانا چاہتی تھی۔
’’تم کوئی رائے نہیں دینا چاہتیں؟‘‘ وہ کہنے لگا اور اس پر ایک گہری نگاہ ڈال کر بولا۔ ’’مجھے بھی کچھ کام کرنا ہے۔ تم اپنے کوارٹر میں جائو شاید تم بات کرنا بھول چکی ہو۔‘‘
ازابیل نے اطمینان کا سانس لیا اور ڈیوٹی لسٹ اٹھا کر اپنے کوارٹر کی طرف آگئی۔
٭…٭…٭
’’ازابیل!‘‘ ایمیلو کی آواز پر وہ چونکی۔ اس نے گھبرا کر سر اٹھایا۔ وہ اپنے کمرے میں غالباً ڈیوٹی لسٹ دیکھتے دیکھتے سوگئی تھی، دروازہ بند کرنا بھی بھول گئی تھی۔ اس نے میز سے سر اٹھایا۔ سامنے دروازے میں ایمیلو کھڑا تھا۔
وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اس طرح اٹھی کہ کرسی الٹتے الٹتے بچی۔ ’’کیا وقت ہوا ہے؟‘‘
’’سات بج کر پانچ منٹ!‘‘ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ ’’کیا تم سمجھ رہی تھیں کہ یہاں تمہیں ناشتہ تمہارے بستر میں ملے گا؟‘‘
’’اوہ…!‘‘ وہ پشیمانی سے بولی۔ ’’میں اپنے فون پر الارم لگانا چاہ رہی تھی لیکن تھکن کی وجہ سے اس کا موقع ہی نہیں ملا اور میں سو گئی۔‘‘
’’اور تمہیں اس کا احساس ہے کہ تم نے اپنے فرائض سے پہلوتہی کی ہے؟‘‘
’’ہاں…! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ وہ پریشان ہوکر بولی۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ میں سامان اٹھائوں اور چلی جائوں؟‘‘
’’تم چلی جائو گی تو میرے لئے کافی کون بنائے گا؟ ملازمہ تو چھٹی پر ہے۔‘‘
ازابیل نے دلکش آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پرامید لہجے میں بولی۔ ’’اس کا مطلب ہے تم مجھے ایک اور موقع دے رہے ہو؟‘‘
’’ہاں…! لیکن آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
’’میں پوری کوشش کروں گی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’کیا میں یونیفارم پہن لوں؟‘‘
’’نہیں…! پہلے کافی بنائو۔‘‘
’’اور ناشتہ…؟‘‘
’’نہیں! اب وقت نہیں رہا۔ بیس منٹ میں کمپنی کی گاڑی لینے کے لئے آجائے گی۔‘‘
’’اوہ سوری!‘‘ وہ اتنا کہہ کر اس کے برابر سے گزرتی ہوئی جلدی سے کچن کی طرف دوڑی اور کافی بنانے کی تیاری کرنے لگی۔
چند منٹ بعد وہ واپس آیا تو کافی کا بھاپ اڑاتا مگ کائونٹر پر رکھا تھا۔ ’’میں کافی لا رہی تھی۔‘‘
’’میں یہیں پی لیتا ہوں۔‘‘ اس نے مگ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔
ازابیل نے ایک چور نگاہ اس پر ڈالی۔ اس کے چہرے پر قدرے حیرت کا تاثر تھا اور شاید پسندیدگی کا…! وہ دو تین گھونٹ لے چکا تو ازابیل نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’کافی ٹھیک بنی ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ بے نیازی سے بولا اور مگ خالی کرتے ہوئے بولا۔ ’’میں ساڑھے چھ بجے واپس آجائوں گا۔ ڈنر سات بجے تیار ہوجانا چاہئے۔‘‘
’’یس سر!‘‘ ازابیل نے قدرے خم ہوکر کچھ طنزیہ انداز میں کہا مگر وہ جا چکا تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد ازابیل کا سارا دن گھر کی صفائی میں ہی بیت گیا۔ اسے ترتیب سے کام کرنا آرہا تھا نہ مختلف مشینیں چلانی آتی تھیں جو گھر کی صفائی کرنے میں مدد کے لئے تھیں۔ بہت سا وقت ان کا لٹریچر پڑھنے میں گزر گیا۔ کب شام کے ساڑھے چھ بج گئے، اسے کچھ خبر ہی نہیں ہوئی۔ باہر کا دروازہ کھلا اور ایمیلو اندر آیا۔ ازابیل نے خود کو بالکل بے حس بنا لیا اور کسی نئی ذلت اور ملامت سہنے کے لئے تیار ہوگئی۔
اس نے کچن میں جھانکا۔ اس کے ایک ہاتھ میں بریف کیس تھا اور وہ تھکا تھکا سا لگتا تھا۔ ایمیلو نے ایک اچٹتی ہوئی سی نگاہ اس پر ڈالی۔ ازابیل نے رسمی سے انداز میں پوچھا۔ ’’کیسا رہا دن…؟‘‘
’’ہمیشہ کی طرح مصروف!‘‘ وہ بولا پھر تھوڑے توقف کے بعد اس نے پوچھا۔ ’’اور تمہارا…؟‘‘
’’ٹھیک تھا۔‘‘
ازابیل نے مختصر سا جواب دیا۔
’’چلو شکر ہے کہ تم نے کوئی بڑی گڑبڑ نہیں کی۔‘‘ وہ بولا اور پھر دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ ’’میں لباس بدل لوں، تم نے ڈنر تو تیار کرلیا ہوگا؟‘‘
ازابیل کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے کھانا تیار کرنے کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں تھا نہ اسے وہ کچھ پکانا آتا تھا جو چارٹ میں درج تھا، لیکن پھر بھی وہ ہمت کرکے بولی۔ ’’ہاں… ہاں بالکل!‘‘ لیکن اس کا دل ڈوبا جارہا تھا کہ آدھ گھنٹے میں وہ اس کے لئے ڈنر کیسے تیار کرے گی۔
اس نے جلدی سے مینو دیکھا۔ چکن کی ڈش کیسے بنائی جائے گی، اسے کچھ خبر نہیں تھی۔ اس نے جلدی جلدی نیٹ کھولا اور ترکیب دیکھ دیکھ کر ڈش تیار کرنے لگی اور ٹھیک ساتھ بجے اس نے سفید ساس میں کچا پکا چکن اور تیرتا ہوا سلاد میز پر رکھ دیا۔ اس نے زندگی میں کبھی کچھ نہیں پکایا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ اس نے تھوڑے سے وقت میں یہ سب تیار کرلیا تھا لیکن اس کے نتائج بھگتنے سے فرار اختیار کرنے کے لئے وہ جلدی سے اپنے کمرے میں گھس گئی مگر اس کے کان ایمیلو کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ کب وہ اسے برا بھلا کہنے کے لئے پکارتا ہے۔
تھوڑی دیر میں اس کے قدموں کی آہٹ کچن میں سنائی دی۔ ازابیل نے سانس روک لیا کہ دیکھیں آگے کیا درپیش ہوتا ہے کیونکہ کچن گندے برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ جن میں اس نے کھانا پکایا تھا۔ اسے ڈسٹ بن کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔ گویا اس نے کھانا پھینک دیا تھا، پھر فریج کھلنے کی آواز اور چھری، کانٹا استعمال ہونے کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں، شاید وہ اپنے لئے سینڈوچ بنا رہا تھا۔
’’ازابیل…!‘‘ اس کی آواز سنائی دی۔
ازابیل کانپ گئی۔ وہ مرے ہوئے قدموں سے کچن میں آئی۔ سینڈوچ اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بولا۔ ’’مجھے زندہ دیکھ کر تمہیں حیرت نہیں ہوئی؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ انجان بن کر بولی۔
’’جو کچھ تم نے پکایا تھا، وہ کسی کو بھی ٹھکانے لگانے کے لئے کافی تھا۔‘‘
’’اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تمہارے منہ پر تکیہ رکھ کر…!‘‘ ازابیل نے بات مکمل نہیں کی۔
وہ خود اپنی اس جرأت پر حیران رہ گئی تھی۔ اسے اندیشہ تھا کہ ایمیلو یہ بات سنتے ہی بھڑک اٹھے گا لیکن اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا عکس چمکا۔ پھر وہ فوراً ہی سنجیدہ ہوگیا۔ ’’تم نے یہ نسخہ اپنے پیارے شوہر پر کیوں نہیں آزمایا؟ جس نے تمہیں اور تمہاری ماں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا پورا انتظام کردیا ہے۔‘‘
’’وہ اب اس دنیا میں نہیں، اس کی بات مت کرو۔‘‘
’’تمہیں برا لگا؟‘‘
’’نہیں…! اب برا کیا لگنا۔ اب تو کچھ بھی برا نہیں لگتا۔‘‘ وہ ٹھنڈا سانس لے کر بے چارگی سے بولی۔
ایمیلو نے غور سے اس کی طرف دیکھا لیکن اس کے چہرے کا تاثر نہیں بدلا۔ ’’اچھا…! اب یہ کچن فوراً صاف کرو۔ لگتا ہے جیسے نہ جانے تم نے کتنے لوگوں کا کھانا بنایا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلنے کے لئے پلٹ گیا۔
’’ایمیلو…!‘‘ ازابیل نے پکارا۔
اس نے مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ سچائی سے بولی۔ ’’مجھے ڈنر کے بارے میں افسوس ہے۔‘‘
’’چلو کل کوئی ایسی چیز پکا لینا جو تمہیں پکانی آتی ہو۔‘‘
’’ہاں…! میں کوشش کروں گی۔‘‘
٭…٭…٭
دن گزرتا، رات آتی تو ازابیل اپنے چھوٹے سے کمرے میں سخت بیڈ پر لیٹتی تو اطمینان کا سانس لیتی کہ ایک دن گزر گیا تھا۔ اب اسے سونے کے لئے نیند کی دوا نہیں لینی پڑتی تھی، نہ ہی کوئی کوشش کرنی پڑتی تھی۔ وہ اتنا تھک جاتی تھی کہ تکیے پر سر رکھتے ہی سو جاتی تھی۔ پہلے کی نسبت کام آسان لگنے لگا تھا، اس کی کارکردگی بہتر ہوگئی تھی، اسی لئے اسے کچھ وقت فارغ بھی مل جاتا تھا۔ وہ اطمینان سے چائے کا ایک کپ پی سکتی تھی، خریداری کے لئے جاسکتی تھی یا ممی سے مل کر واپس آسکتی تھی۔ ایمیلو کی ہدایت کے مطابق اس نے ممی سے ایمیلو کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا بلکہ ان پر ظاہر کیا تھا کہ وہ ایک بوڑھی خاتون کے لئے یہ خدمات انجام دے رہی ہے۔
ایمیلو کے رویئے میں بھی کچھ تبدیلی آئی تھی۔ اس کی ہر وقت چڑھی ہوئی تیوریوں میں کچھ نرمی آئی تھی۔ اس کے طنز کے نشتر اب اتنی اذیت نہیں دیتے تھے۔ وہ اب اس کی ہر چیز میں کیڑے نہیں نکالتا تھا۔
ہفتے کو ایمیلو کو چھٹی ہوتی تھی۔ ازابیل کا خیال تھا کہ وہ جلد ناشتہ تیار کرلے تاکہ اس کے نیچے آنے سے پہلے وہ اپنے کمرے میں چلی آئے لیکن ابھی وہ آلو ہی تیار کررہی تھی کہ ایمیلو کے سیڑھیاں اترنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے خود کو کام میں مصروف ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
وہ کچن میں داخل ہوکر بولا۔ ’’گڈ مارننگ!‘‘
’’گڈ مارننگ…!‘‘ ازابیل نے ایک نگاہ اس پر ڈالی۔ وہ شب خوابی کا لباس پہنے ہوئے تھا۔ اس نے شیو نہیں بنائی تھی اور اس کے بال بھی بے ترتیب تھے۔ ازابیل کا دل دھڑکا۔ پندرہ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ ویسا ہی خوبصورت اور اسمارٹ تھا جسے وہ دیکھتے ہی دل دے بیٹھی تھی۔
’’کافی تیار ہے، پیو گے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ چھوٹی ڈائننگ ٹیبل سے ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
ازابیل نے اس کے سامنے کافی کا مگ رکھا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور بولا۔ ’’تم کافی اچھی بنانے لگی ہو۔‘‘ خلاف معمول اس کا لہجہ ملائم تھا۔
’’شکریہ!‘‘ ازابیل نے بظاہر عام سے لہجے میں کہا لیکن اس کے اندر خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ وہ یہاں رکنا نہیں چاہتی تھی جہاں ایمیلو کی نیلی آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔ وہ جلد از جلد ناشتہ بنا کر غائب ہوجانا چاہتی تھی۔
وہ جلدی جلدی مشروم کاٹنے لگی تاکہ اس کے لئے آملیٹ تیار کرسکے لیکن اس کی موجودگی اسے بے چین کررہی تھی، اسی لئے اس نے پوچھا۔ ’’تم کام کے لئے تیار نہیں ہوگے؟‘‘
’’تم مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہو؟‘‘
’’نہیں…! میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔‘‘
’’ہفتے کو میں گھر پر ہی کام کرتا ہوں۔‘‘
تمام دن ایمیلو کا گھر پر رہنے کا تصور، ایک چھوٹی سی خوشی کی طرح اس کے دل میں ہلچل مچانے لگا۔
’’آج تم میرا کمرہ بھی صاف کردینا۔‘‘ اس نے حکم دیا۔
’’تم نے تو بیڈ روم میں جانے سے منع کیا تھا!‘‘ ازابیل نے یاد دلایا۔
’’یہ میرا گھر ہے، یہاں میری مرضی چلے گی۔‘‘ وہ بڑے فخر سے بولا۔ اس کی نگاہ اب بھی ازابیل پر تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اسے پریشان کرنا چاہتا ہے۔
’’اب بس بھی کردو ایمیلو!‘‘آخر ازابیل نے کہا۔
’’کیا…؟‘‘
’’یوں اس طرح مجھے گھورنا۔‘‘ ازابیل نے کٹنگ بورڈ سے نگاہ ہٹائے بغیر کہا۔
’’تم ملازمہ ہو، تم مجھے حکم نہیں دے سکتیں۔‘‘ وہ اسے چڑانے کے لئے بولا۔
ازابیل کچھ کہنے والی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایمیلو نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ ’’میرا خیال ہے یہ کوریئر ہے۔ میرے کچھ ضروری کاغذات آنے تھے، تم جاکر دیکھو۔‘‘
ازابیل نے چاقو ہاتھ سے رکھا اور جاکر دروازہ کھولا۔ کوریئر کی وردی میں ملبوس کسی شخص کے بجائے وہاں کوئی اور کھڑا تھا۔ پھٹی ہوئی بدرنگ جین، فل بوٹ اور چمڑے کی سیاہ جیکٹ پہنے ہوئے۔ شانوں تک لمبے سیاہ بالوں کے ساتھ وہ کچھ جانا پہچانا سا لگتا تھا۔
’’اوہ…! تمہیں یہاں دیکھ کر خوشی بھی ہورہی ہے اور حیرت بھی!‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ ازابیل نے الجھ کر پوچھا۔
’’مس ازابیل! ہائوس کیپر کے یونیفارم میں! واہ کیا خوشگوار اتفاق ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
ازابیل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اسے کیا جواب دے۔ اسے اپنے عقب میں ایمیلو کی آواز سنائی دی۔ ’’تم کچن میں جائو۔‘‘ وہ اس کی آواز سن کر دروازے پر آگیا تھا۔
ازابیل کچن میں آگئی لیکن وہ ایمیلو کی آواز سن سکتی تھی۔ اس کی توجہ اسی طرف تھی کہ معلوم کرے وہ کون تھا جو اسے جانتا تھا مگر وہ اسے نہیں پہچانتی تھی۔
’’ہیلو بڑے بھائی…! بہت دنوں بعد تم سے ملاقات ہورہی ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر ازابیل کو یاد آگیا کہ وہ ایمیلو کا چھوٹا بھائی تھا جس کا نام اسٹیفنو تھا۔
’’اسٹیفنو! تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
’’تم مجھے اندر آنے کے لئے نہیں کہو گے؟‘‘
’’ہمیں بالکل پتا نہیں کہ تم پچھلے تین مہینے سے کہاں غائب تھے اور کیا کررہے تھے۔ ماں تمہارے لئے بہت فکرمند تھیں۔‘‘
’’تم لوگ فکر مت کرو، میں جیل میں نہیں تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ میری بات پر یقین نہیں کرو گے لیکن میں پھر بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے ہاتھ بالکل صاف ہیں۔ میں ایک عرصے سے انتہائی شرافت کی زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘
’’چلو مان لیا لیکن اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اور سنو بھلا مجھے اپنے بڑے بھائی سے ملنے کے لئے بھی کوئی وجہ یا بہانہ چاہئے۔‘‘
’’مجھے بتائو کہ تم یہاں آئے کیوں ہو ورنہ میں دروازہ بند کرلوں گا۔‘‘
’’میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہمارے درمیان کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر بات ہو۔‘‘
’’کچھ تو خیال کرو ایمیلو…! میں تمہارا چھوٹا بھائی ہوں۔‘‘ (جاری ہے)