’’پہلے مجھے بتائو کہ تم اب تک کہاں تھے؟‘‘
’’بڑے بھائی! اسی شہر میں تھا، کچھ بزنس میں مصروف تھا۔‘‘
’’مجھے پتا ہے تمہارے بزنس کا… چوری کی چیزیں، منشیات اور قبضہ گروپ! تم صرف اس لئے پکڑ سے بچے ہوئے ہو کہ تمہارا بھائی فیڈرل پراسیکیوٹر ہے۔‘‘
’’تو کیا واقعی تم مجھے اندر نہیں آنے دوگے؟‘‘
’’ابھی تک تمہیں پتا نہیں چلا!‘‘ ایمیلو زور دے کر بولا۔
’’مجھے پتا ہے کہ تم سے مدد کی توقع رکھنا فضول ہے لیکن یہ تو بتا دو کہ ازابیل یہاں کیا کررہی ہے؟ اس نے ملازمہ کا یونیفارم پہنا ہوا ہے۔ آخر یہ تم کس قسم کا کھیل کھیل رہے ہو؟‘‘
اپنا نام سن کر ازابیل ٹھٹھکی۔ تو گویا اسٹیفنو نے اسے پہچان لیا تھا۔ حالانکہ اس کا حلیہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی ایسے پہچان سکتا۔ اس نے کان اسی طرف لگا دیئے کہ ایمیلو اس کی یہاں موجودگی کا کیاجواز پیش کرتا ہے۔
’’تمہارا کیا خیال تھا کہ میں اسے نہیں پہچانوں گا؟‘‘ اسٹیفنو کا انداز طنزیہ تھا۔ ’’ماں کو کچھ پتا ہے کہ یہ تم کیا کرتے پھرتے ہو؟‘‘
ایمیلو کسی وجہ سے نرم پڑگیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور بولا۔ ’’تم صرف پانچ منٹ کے لئے اندر آسکتے ہو۔‘‘
ان کے قدموں کی چاپ کچن کی طرف آئی تو ازابیل نے خود کو جلدی سے کام میں مصروف کرلیا۔ ایمیلو نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ناشتہ نہیں کروں گا۔‘‘
اسٹیفنو نے ایمیلو کے شانے سے اچک کر اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اوہ… ازابیل! تمہیں جیل میں نہیں ہونا چاہئے تھا؟‘‘
’’اس میں تھوڑا ہی وقت باقی ہے، پھر تمہاری یہ آرزو پوری ہوجائے گی۔‘‘ ایمیلو بولا۔
’’یہ تم نے بہت اچھا کیا کہ اس سے اسی طرح کام لے رہے ہو جس طرح یہ لوگ ہماری ماں سے لیتے تھے۔‘‘
ازابیل اس کی بات صاف سن رہی تھی لیکن اب وہ اس ذلت کی عادی ہوچکی تھی۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آچکی تھی کہ جب ایمیلو کی ماں ان کے یہاں ملازمت کرتی تھی تو انہیں اس کا رتی بھر احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ اکیلی عورت دن بھر ان کے اتنے کام کس طرح کرتی ہوگی۔
وہ دونوں لائونج میں چلے گئے لیکن ان کی آوازیں بدستور سنائی دیتی رہیں۔ اسٹیفنو نے پوچھا۔ ’’وہ اس کے بدلے کیا چاہتی ہے؟‘‘
’’وہ بھائی سے اس مقدمے میں رعایت چاہتی ہے تاکہ اپنی ماں کو جیل جانے سے بچا سکے۔‘‘
’’اچھا…! اسے چھوڑو، اب اپنا بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’کچھ لوگوں کو میں نے رقم ادا کرنی ہے۔‘‘ اسٹیفنو نے بتایا۔
’’اسٹیفنو دیکھو! مجھ سے کسی مالی امداد کی توقع…!‘‘
’’فکر مت کرو، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا۔
’’تو پھر…؟‘‘
’’میری وہ رقم کسی کے پاس ہے۔‘‘
’’کس کے پاس…!‘‘
’’ایک بزنس پارٹنر ہے جو کچھ اثاثوں کے بدلے رقم حاصل کرکے مجھے دے گا۔ اسے کچھ دن چاہئیں۔ رقم جنہیں ادا کرنی ہے، وہ ذرا بے صبرے ہورہے ہیں، اس لئے مجھے ایسی جگہ چاہئے جہاں میں کچھ دن قیام کرسکوں اور رقم کا بندوبست ہوجائے۔‘‘
’’اگر وہ تمہیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں آگئے تو؟‘‘
’’نہیں! یہ ایک محفوظ جگہ ہے۔‘‘
’’جب تک تم یہاں ہو، کوئی منشیات، کوئی بدتمیزی نہیں چلے گی۔ سمجھے تم!‘‘
’’اب میں ایسا کچھ نہیں کرتا۔ میں بالکل بدل چکا ہوں۔‘‘
’’اور تم کسی کو نہیں بتائو گے کہ ازابیل یہاں ہے۔‘‘
’’بالکل نہیں… میرا وعدہ ہے۔‘‘
’’ازابیل سے بھی تمہیں کسی طرح کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
٭…٭…٭
اسٹیفنو کسی مصیبت کی طرح آن وارد ہوا تھا۔ ازابیل کو لگتا تھا کہ شاید اس کے اور ایمیلو کے درمیان کچھ خوشگوار لمحے آنے والے ہیں، لیکن اس بن بلائے مہمان نے سب کچھ چوپٹ کردیا تھا۔ ایمیلو نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ ناشتہ اور کھانا ڈائننگ روم میں کھائے گا۔ اسٹیفنو کی وجہ سے وہ محتاط رہے گا تاکہ کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔
ازابیل بہت بددل ہوئی تھی۔ ایمیلو کبھی ناشتہ اور کبھی کھانا کچن میں کھانے لگا تھا۔ اس کی چند لمحوں کی یہ قربت اسے حاصل زندگی معلوم ہوتی تھی، مگر اب اسے اس سے بھی محروم ہونا پڑ رہا تھا۔ وہ اپنے دل کو تسلی دیتی کہ یہ دن جلد گزر جائیں گے اور ایمیلو اس کو یہاں سے چلتا کردے گا۔
ابھی دو تین دن ہی گزرے تھے لیکن ازابیل کو گھر میں اسٹیفنو کی موجودگی ایک عجیب بے چینی میں مبتلا رکھتی تھی۔ وہ کوشش کرتی تھی کہ اس کا سامنا نہ کرے، لیکن جب وہ صفائی کرتی یا جھاڑ پونچھ میں مصروف ہوتی تو وہ لائونج میں ایک صوفے پر براجمان ہوکر یہ ظاہر کرتا کہ جیسے وہ اخبار یا کوئی میگزین پڑھنے میں مشغول ہے، لیکن حقیقت میں وہ دزدیدہ نگاہوں سے اس کا جائزہ لیتا رہتا۔
اس روز بھی جب وہ بیڈ روم میں صفائی کررہی تھی تو وہ چونکی۔ یوں لگا جیسے کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اسٹیفنو کمرے کے دروازے میں کھڑا حسب معمول اس کی جانب تک رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ نشے میں ہے۔ ازابیل نے ویکیوم بند کردیا اور دوسرے کمرے میں جانے کا ارادہ کیا تو وہ بولا۔ ’’تمہارے بڑے عیش ہیں۔ تم یہاں مزے کررہی ہو اور ایمیلو میرے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ مجھے یہاں سے چلتا کرے۔ تم اس کے نزدیک اس کے سگے بھائی سے زیادہ عزیز ہوگئی ہو۔‘‘
’’تم نے جتنے دن یہاں رہنے کے لئے کہا ہے، وہ اس سے پہلے تو تمہیں نہیں نکال رہا۔‘‘
’’تمہیں کیا پتا وہ میرا بھائی ہے، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اسے میری پشت پناہی کرنی چاہئے، میرا سہارا بننا چاہئے لیکن اسے میری بالکل پروا نہیں۔ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ وہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھا کر میرے حق پر ڈاکا مارتا رہا ہے۔ میں تمہیں چاہتا تھا، میں تمہیں حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھا لیکن ایمیلو درمیان میں نہ جانے کہاں سے آگیا اور اس نے تمہیں مجھ سے چرا لیا۔‘‘ اس نے ایک قدم اٹھایا اور اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں لڑکھڑایا۔ ’’میں تنگ آگیا ہوں، چھوٹا ہونا میرے لئے عذاب بن چکا ہے لیکن اب میں کسی کو نہیں بخشوں گا۔ میں اپنا حق لے کر رہوں گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ قدم آگے بڑھاتا، ازابیل کے اندر سے آواز آئی کہ اُُسے بھاگ جانا چاہئے۔ وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تیزی سے دوڑی۔ اسٹیفنو بھی اس کے پیچھے تھا۔
٭…٭…٭
ایمیلو گھر آیا تو اسے زور سے چیخنے اور دروازہ پیٹنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ دوڑ کر اندر آیا۔ اس نے بریف کیس وہیں لائونج میں رکھا اور آواز کی سمت لپکا۔ اس نے دیکھا کہ اسٹیفنو اس کے آفس کا دروازہ پیٹ رہا ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح چیخ رہا تھا۔ ’’میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں… کھولو دروازہ… کھولو!‘‘
’’یہ کیا مصیبت ہے، یہ کیا کررہے ہو تم…؟‘‘ ایمیلو غصے سے دھاڑا۔
اسٹیفنو پلٹا۔ اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی۔ اس کی سرخ آنکھوں میں وحشت تھی، اس کے دائیں گال پر ناخنوں کی خراشیں تھیں، جن سے خون رس رہا تھا۔
’’یہ دیکھو تمہاری اس چہیتی نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘
’’یہ ازابیل نے کیا ہے! لیکن کیوں…؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوا۔ اس نے خوامخواہ مجھ پر حملہ کیا۔‘‘
’’تم پیچھے ہٹو، میں خود اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘ اسٹیفنو بے دلی سے پیچھے ہٹا تو ایمیلو نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’تم چل کر لائونج میں بیٹھو۔‘‘
وہ چلا گیا تو ایمیلو نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ ’’ازابیل…! دروازہ کھولو… میں ایمیلو ہوں۔ پلیز!‘‘
کچھ دیر بعد دروازے کا لاک کھلا۔ وہ اندر داخل ہوا تو ازابیل دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے ہچکیاں لے رہی تھی۔ اس کے یونیفارم کی آستین پھٹی ہوئی تھی، بازو پر گرفت کے نشان تھے۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ ایمیلو نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ اس سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ کیا ہوا ہے۔
’’ازابیل…! تم اوپر میرے بیڈ روم میں چلو۔ دروازہ بند کرلینا، میں اسٹیفنو سے بات کرتا ہوں۔‘‘
وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس نے دوڑ کر سیڑھیاں طے کیں۔ بیڈ روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی تو ایمیلو لائونج میں آیا جہاں اسٹیفنو بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔ ایمیلو نے خود پرقابو پا کر کہا۔ ’’یہ تم نےکیا کیا ہے اسٹیفنو…؟‘‘
’’میں نے کیا کیا ہے؟ تم میرا چہرہ نہیں دیکھتے، یہ اس چڑیل کا کیا دھرا ہے۔‘‘
’’بہت ہوگیا اسٹیفنو…! تم اپنا سامان اٹھائو اور جائو یہاں سے!‘‘
’’تم اپنے بھائی پر اسے ترجیح دے رہے ہو، تمہیں اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ وہ تمہیں استعمال کررہی ہے جیسے اس نے پندرہ سال پہلے کیا تھا۔ وہ تمہیں دھوکا دے رہی ہے۔‘‘
’’فضول باتیں مت کرو اسٹیفنو! تمہیں کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’مجھے ہمیشہ سے سب کچھ پتا ہے۔ اس کے ڈیڈی بھی اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ تم سے چوری چھپے شادی کررہی ہے۔‘‘
’’تم نے انہیں بتایا تھا؟‘‘
’’تمہیں میرا شکرگزار ہونا چاہئے کہ میں نے تمہیں اس مصیبت سے بچا لیا۔‘‘
ایمیلو نے دانت بھینچ کر خود پر قابو پایا۔ وہ مار مار کر اس کا بھرکس نکال دینا چاہتا تھا لیکن اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’اپنی چیزیں اٹھائو اور یہاں سے دفع ہوجائو اور سن لو، اب ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔‘‘
وہ دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ ایمیلو اندر آیا، اس نے بیڈ روم کا دروازہ کھولا۔ ازابیل چونک گئی۔ وہ بیڈ کی پٹی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ایمیلو نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’میں معذرت چاہتا ہوں ازابیل! اگر مجھے پتا ہوتا کہ وہ اس قسم کے رویئے کا مظاہرہ کرے گا تو میں ہرگز اسے یہاں رہنے کی اجازت نہ دیتا۔‘‘
ازابیل نے سر اٹھایا۔ ’’وہ جاکر سب کو بتا دے گا کہ میں یہاں رہ رہی ہوں۔‘‘
’’تم فکر مت کرو، مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کسی کو پتا چل جائے گا کہ تم یہاں ہو۔‘‘
’’مگر…! مگر کیوں!‘‘ ازابیل نے حیرت سے کہا۔
’’کیونکہ تم بے قصور ہو۔‘‘
’’بے قصور…!‘‘
’’اچھا! یہ بتائو تمہارے ڈیڈی نے اس وقت کیا کہا تھا جب انہیں معلوم ہوا تھا کہ ہم خفیہ طور پر شادی کررہے ہیں؟‘‘
وہ ہونٹ کاٹ کر چپ ہوگئی۔
’’ازابیل…! تمہاری یہ خاموشی تمہارے ڈیڈی کے کرتوتوں کو نہیں چھپا سکتی۔ ہمارے پاس تمہارے ڈیڈی کے بارے میں ساری رپورٹ ہے کہ کس طرح تمہارا بازو ٹوٹا تھا، تم پورا دن بے ہوشی کی کیفیت میں رہی تھیں۔ مجھے بتائو کیا ہوا تھا؟ تمہارے ڈیڈی نے تمہیں وہ شادی کرنے پر مجبور کیا تھا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ ازابیل نے اداسی سے کہا۔ ’’انہوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا تھا لیکن میں اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ مجھے ان کی دولت کی ضرورت نہیں، میں شادی کروں گی تو صرف تم سے…! میں ممی کو بھی اپنے ساتھ لے جائوں گی کہ اب ان میں طاقت نہیں تھی کہ روز روز ان کی مار اور تشدد برداشت کرسکتیں۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد وہ ایک آہ بھر کر بولی۔ ’’ڈیڈی نے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے تم سے شادی کی تو ممی کو کوئی خطرناک حادثہ پیش آسکتا ہے۔ میں ڈر گئی تھی۔ ان کی دھمکیاں خالی خولی دھمکیاں نہیں تھیں۔ انہوں نے ممی پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ایک ہفتے تک بستر سے نہیں اٹھ سکیں۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے نیچا دکھانے کے لئے وہ انہیں ہلاک کردیں گے۔ انہوں نے اپنی انیس سالہ بیٹی کو چالیس سالہ شخص سے شادی کرنے پر مجبور کردیا۔‘‘
’’اور اس کے بدلے یقیناً تمہارے ڈیڈی نے کچھ تو حاصل کیا ہوگا؟‘‘
’’ہاں…! انہوں نے اپنے بہت سے قرضے معاف کروائے۔‘‘
’’گویا تمہارے ڈیڈی نے تمہیں بیچ دیا؟‘‘
’’ہاں… شاید!‘‘
’’شاید کیا یقیناً…! کاش! تم نے یہ سب اس وقت بتا دیا ہوتا تو میں تمہیں اور تمہاری ممی کو ان کے چنگل سے چھڑانے کے لئے جان کی بازی لگا دیتا۔ میں انہیں قتل کردیتا۔ اگر اب بھی زندہ ہوتے تو میں انہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔‘‘ وہ دانت پیس کر بولا۔
’’اسی لئے میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا ایمیلو! مجھے معلوم تھا کہ ڈیڈی بہت بارسوخ آدمی ہیں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔ میں تمہیں محفوظ اور زندہ دیکھنا چاہتی تھی۔ مجھ پر خواہ کچھ بھی گزر جاتی!‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔ اس کی بڑی بڑی دلکش آنکھیں آنسوئوں کی نمی سے چمک اٹھیں۔
’’مجھے معاف کردو ازابیل…! میں ان پندرہ سالوں میں ہر روز پچھلے دن سے بڑھ کر نفرت کرتا رہا… میں نے تمہیں کتنے دکھ پہنچائے، تمہاری توہین کی۔ میں کتنا نادان تھا۔ کاش! مجھے پہلے پتا چل جاتا کہ تمہارے ڈیڈی ایک جنونی انسان ہیں۔ وہ کئی بار اسپتال میں زیرعلاج بھی رہے تھے۔ پلیز! مجھے معاف کردو ازابیل…! میں نے تمہیں بہت دکھ پہنچائے ہیں۔‘‘
’’نہیں ایمیلو! ایسا مت کہو۔ بے شک میری شادی تم سے نہیں ہوسکی تھی لیکن میرے دل میں صرف تمہاری محبت تھی۔ میں تمہاری محبت کو اپنے دل سے کبھی نہیں نکال پائی۔‘‘
’’میں نادم ہوں ازابیل! میں نے تمہیں غلط سمجھا۔ ہم اسی وقت اپنی محبت کی تجدید کریں گے۔‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘
’’میں ملازمہ کو واپس بلا رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں… تم ایسا نہیں کرو گے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’مجھے تمہاری دیکھ بھال کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں محبت کی کھنک تھی۔
’’لیکن تم اب یہ یونیفارم نہیں پہنو گی۔ میں تمہارے لئے بہت سے اچھے اچھے لباس خریدوں گا۔ کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو؟‘‘
ازابیل من ہی من میں مسکرائی۔ ہاں اسے بہت سی چیزوں کی ضرورت تھی۔ وہ اسے زندگی کا ساتھی بنانا چاہتی تھی، وہ اس کے ساتھ مل کر ایک پیارا گھر بنانا چاہتی تھی جس کے آنگن میں ننھے بچوں کی کلکاریاں گونجتی ہوں۔ وہ سارے خواب جو ان دونوں نے پندرہ سال پہلے مل کر دیکھے تھے، انہیں حقیقت بنانا چاہتی تھی۔
دروازے کی گھنٹی بجی۔ ’’شاید وہ آگیا ہے۔‘‘ ایمیلو بولا۔
’’کون آگیا ہے؟‘‘ ازابیل نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’میں دیکھتا ہوں، تم لائونج میں چلو۔‘‘ ایمیلو بولا۔
’’میں لباس تو تبدیل کرلوں۔‘‘ ازابیل نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا۔
’’ہاں… ہاں…! جلدی آجائو لباس تبدیل کرکے!‘‘
ازابیل واپس آئی تو کمرے میں ایک خوش لباس شخص بیٹھا تھا۔ وہ ایمیلو کا ہم عمر نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ تعظیماً کھڑا ہوا۔ ایمیلو نے اس کا تعارف کروایا۔ ’’ڈیوڈ سے ملو… یہ تمہارا نیا وکیل ہے۔ اب یہ تمہارا کیس لڑے گا۔‘‘
’’لیکن مسٹر کلفٹن…؟‘‘
’’مس ازابیل! یہ شخص آپ کو غلط مشورے دے رہا ہے۔ آپ نے اسے اپنا وکیل کیوں بنا رکھا ہے؟‘‘
’’یہ میرے شوہر کا وکیل تھا، چونکہ میرے پاس وکیل کو دینے کے لئے فیس نہیں تھی تو مسٹر کلفٹن نے ازراہ ہمدردی میرا کیس لڑنے کی حامی بھرلی تھی اور وہ اس سلسلے میں کافی کام بھی کررہے ہیں۔‘‘
’’لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ محترم فیس کے بغیر مقدمے پر پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘
’’تو کیا آپ مجھے اور ممی کو جیل جانے سے بچا سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں… کیوں نہیں!‘‘ ڈیوڈ نے اس سے وکالت نامے پر دستخط کروائے اور اپنا بریف کیس اٹھا کر چلا گیا۔
٭…٭…٭
کوریئر ایک بڑا پیکٹ لے کر آیا تھا۔ ازابیل نے اس پر نظر ڈالی۔ وہ ایمیلو کی طرف سے تھا۔ اس کے لبوں پر ایک آسودہ مسکراہٹ کھل اٹھی۔ پیکٹ میں بہت سے خوبصورت لباس تھے۔ وہ بہت دیر تک انہیں محبت سے تکتی رہی۔ پھر اس نے انہیں ایک طرف رکھا اور ایمیلو کو فون ملایا اور بولی۔ ’’شکریہ…!‘‘
’’تمہیں سب کچھ پسند آیا ہے ازابیل…؟‘‘
’’بہت… بہت زیادہ!‘‘
’’تو پھر آج ان میں سے سب سے اچھا لباس پہنو… میں گھر آکر تمہیں دیکھنا چاہوں گا کہ تمہارے پہننے سے وہ لباس کتنا خوبصورت لگتا ہے۔‘‘
محبت کا ایک مدھر گیت گنگناتے ہوئے اس نے ملبوسات کو سمیٹا تاکہ اوپر لے جائے۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ اس نے دل ہی دل میں لہکتے ہوئے سوچا کہ ایمیلو نے اسے سرپرائز دینے کے لئے کوئی اور تحفہ بھیجا ہوگا۔ اس نے کپڑوں کا ڈھیر ایک طرف رکھا اور جاکر دروازہ کھولا، لیکن اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ دروازے پر ڈلیوری بوائے کے بجائے ایمیلو کی ماں کھڑی تھی۔
’’مسز سوریز…!‘‘ وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
’’کیا میں اندر آجائوں؟‘‘ ایمیلو کی ماں نے پوچھا۔
’’ضرور… ضرور!‘‘ ازابیل نے ایک طرف ہٹ کر اس کے لئے راستہ چھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’ایمیلو اس وقت گھر پر نہیں ہے۔‘‘
’’میں تم سے ملنے آئی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
اس وقت سے اب ازابیل نے ایمیلو کی ماں کو دیکھا تھا جب ڈیڈی نے اس پر چوری کا الزام لگا کر اسے ملازمت سے نکالا تھا۔ وہ اسے جیل بھی بھیج سکتا تھا لیکن اس نے لحاظ کرلیا تھا۔
وہ اس کے ساتھ اندر آئی اور سب سے پہلے اس کی نگاہ نئے ملبوسات کے ڈھیر پر پڑی۔ اس کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرا لیکن اس نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔
ازابیل نے ایک نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’پلیز! بیٹھیں، میں آپ کے لئے کچھ لائوں؟‘‘
’’نہیں شکریہ…! اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس کی ماں نے بیٹھتے ہو ئے کہا۔ پھر بولی۔ ’’لگتا ہے تم نے خوب شاپنگ کی ہے؟‘‘ بظاہر اس کا لہجہ بے ضرر تھا لیکن اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ اسے اس طرح اپنے بیٹے کا پیسہ برباد ہونے کا دکھ ہے۔
’’یہ ایمیلو نے بھجوائے ہیں۔‘‘ ازابیل نے چور سی بن کر کہا۔
’’ہاں…! مجھے معلوم ہے وہ بہت فراخ دل ہے۔‘‘ وہ بولی۔ لہجے میں تاسف تھا اور فکر تھی کہ کہیں اس کا بیٹا کنگال نہ ہوجائے۔
کمرے میں ایک ناگوار سی خاموشی کا وقفہ کچھ لمبا ہوگیا جسے ایمیلو کی ماں نے ہی توڑا۔ ’’میں اپنے بیٹے اسٹیفنو کے رویئے کی معافی مانگنے آئی ہوں۔ یہ بہت غلط بات تھی جو اس نے کی، حالانکہ میں نے تو اس کی تربیت اس طرح نہیں کی تھی لیکن بری صحبت نے اسے کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘
’’آپ بڑی ہیں، آپ اس طرح نہ کہیں۔ میں اس تلخی کو بھول چکی ہوں، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔‘‘
’’لیکن میں اس کی ماں تو ہوں نا! اچھا اسے چھوڑو۔ وہ پھر ایک لمبے عرصے کے لئے غائب ہوگیا ہے۔ میں تم سے ایمیلو کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ایمیلو…!‘‘ ازابیل نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے دہرایا۔
’’ایمیلو نے تمہاری بہت مدد کی ہے۔ اس کے کہنے پر الیگزینڈر بھی کوشش کررہا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر ایمیلو تمہارے لئے اتنا کچھ کررہا ہے تو تم بھی اس کے لئے کچھ کرو۔‘‘
’’ہاں… ہاں! کیوں نہیں۔ مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’اسے چھوڑ دو۔‘‘ ایمیلو کی ماں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
ازابیل اپنی حسین آنکھوں میں حیرت لئے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے جواب میں کیا کہے۔
’’میرے بیٹے نے اپنی زندگی بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے۔ وہ آج جس مقام پر ہے، یہ اس کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے اور اس محبت کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دے گا۔‘‘ وہ تھوڑے توقف کے بعد براہ راست ازابیل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’تم بھی تو اس سے محبت کرتی ہو، کیا تم چاہتی ہو کہ سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جائے؟‘‘
ازابیل خالی خالی آنکھوں سے اس کی جانب تکتی جارہی تھی، کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔
’’دیکھو وہ جس مشہور کمپنی کا جی ایم ہے، وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرکے خود کو مصیبت میں پھنسالے گا جو ایک بہت بڑے فراڈ میں ملوث ہے اور عنقریب جیل جانے والی ہے۔ جیسے ہی اس بات کے چرچے ہوں گے تو اسے کوئی بھی بہانہ بنا کر ملازمت سے برخاست کردیا جائے گا۔ ایک لمحے میں سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کے دوست، احباب اس سے منہ موڑ لیں گے۔‘‘
ازابیل نے سر ہلایا اور بولی۔ ’’میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں۔‘‘
وہ بظاہر پرسکون تھی لیکن اس کے دل میں طوفان سے اٹھ رہے تھے۔ وہ پھر خواب دیکھنے لگی تھی۔ اس نے کیا کیا نہیں سوچا تھا۔ برسوں کی آرزو پوری ہونے کا وقت آیا تو پھر ایک بار سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ ایمیلو اس کی محبت تھا لیکن وہ اتنی خودغرض نہیں تھی کہ اپنے سکھ کی خاطر اسے دکھوں کے حوالے کردے۔ اس کے معاشرتی مقام کو دائو پر لگا دے۔
ایمیلو کی ماں درست کہہ رہی تھی کہ اسے ایمیلو کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جانا چاہئے۔ اپنی اس محبت کی خاطر جو اس کے دل سے کبھی کم نہیں ہوسکتی تھی۔ ایمیلو کی ماں چلی گئی۔ اس کے دل میں درد اور آنکھوں میں آنسو دے کر…!
ازابیل نے فیصلہ کیا کہ وہ ایمیلو کے آنے سے پہلے گھر چھوڑ دے گی ورنہ وہ اسے جانے نہیں دے گا۔ اس کے آنسو اس کے دل پر گرتے رہے اور اس نے اپنا بیگ تیار کرلیا۔ نئے ملبوسات ایک جانب سلیقے سے رکھ دیئے۔ اسے اندازہ تھا کہ ایمیلو اسے گھر میں نہ پا کر کتنا پریشان ہوگا۔ وہ اس کے لئے سب سے اچھا لباس پہننے والی تھی لیکن تقدیر نے بھی سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔
ازابیل نے اپنا سوٹ کیس نیچے لے جاکر دروازے کے قریب رکھا۔ اپنا پرس، کوٹ لینے اوپر گئی۔ وہ چیزیں اٹھا کر ابھی پہلی سیڑھی پر تھی کہ مرکزی دروازہ کھلا اور ایمیلو نے قدم اندر رکھا۔ دروازے کے قریب رکھے ہوئے ازابیل کے بیگ سے اسے ٹھوکر لگتے لگتے بچی۔ اس نے پہلے بیگ کی طرف دیکھا، پھر اس کی نگاہ زینے پر پڑی جہاں پہلی سیڑھی پر ازابیل کھڑی تھی۔ اس کے شانے پر پرس تھا اور بازو پر کوٹ!
’’میں گھر آگیا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر سوالیہ لہجے میں بولا۔ ’’تم کہاں جارہی ہو…؟‘‘
ازابیل سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ ’’میں تمہارے لئے ایک نوٹ لکھ کر چھوڑنا چاہ رہی تھی۔‘‘
’’کس سلسلے میں…؟‘‘
’’میں جارہی ہوں۔‘‘
’’مگر کہاں…! اور کیوں؟‘‘
’’میرا خیال ہے ہم دونوں کے لئے یہی بہتر ہے… میں تمہارا مستقبل دائو پر نہیں لگانا چاہتی۔‘‘
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو ازابیل!‘‘ وہ پریشان ہوکر بولا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ایمیلو! جب تک میرے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، ہمارے لئے یہی مناسب ہے کہ ہم ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔ اگر میری وجہ سے تمہارا مستقبل خطرے میں پڑگیا تو تمہارا خاندان مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ نہ ہی میں خود کو معاف کر پائوں گی۔‘‘
’’اگر فیصلہ تمہارے خلاف ہوا تو؟‘‘
ازابیل کچھ نہیں کہہ پائی، بس اس کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔
’’میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ازابیل…!‘‘
’’ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’اس کے سوا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔‘‘
ایمیلو اس کے دلکش چہرے پر اس کے عزم کی پختگی کو دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اسے قائل نہیں کر پائے گا لیکن اسے ایک مرتبہ پھر کھو دینے کا خیال اس کے دل میں درد بن کر اتر رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ جو اس کے دل میں بستی تھی، اسے کس طرح اپنی زندگی سے نکل جانے دے۔
’’ٹھک… ٹھک… ٹھک!‘‘
دونوں اس آواز پر چونکے۔ ایمیلو نے پلٹ کر دیکھا۔ الیگزینڈر پورچ میں کھڑا تھا۔ وہ چند قدم اندر آیا۔ سوٹ کیس دیکھ کر اس نے ازابیل سے پوچھا۔ ’’کہیں جارہی ہو؟‘‘
’’نہیں! ازابیل کہیں نہیں جارہی۔‘‘ ازابیل کے بجائے ایمیلو نے جواب دیا۔
’’نہیں! میں جارہی ہوں۔‘‘ ازابیل بولی۔
’’کیا میں اس کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ الیگزینڈر نے سوال کیا۔
’’یہ میرے بارے میں فکرمند ہے کہ کہیں میری شہرت، میرے مستقبل کو اس کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘ ایمیلو نے بتایا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم دونوں سر پھرے میری بات سن لو تو بہتر ہے۔‘‘
’’لیکن!‘‘ ازابیل نے کچھ کہنا چاہا۔
’’محترمہ! پہلے یہ دیکھ لو پھر لیکن ویکن میں پڑنا!‘‘ الیگزینڈر نے ایک لفافہ اسے تھماتے ہوئے کہا۔
ازابیل نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے لفافہ کھول کر میز پر الٹ دیا۔ اس کا پاسپورٹ ان کے سامنے تھا۔
’’کیا تم چاہتے ہو کہ وہ ملک چھوڑ کر چلی جائے؟‘‘ ایمیلو نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
الیگزینڈر ہنس پڑا۔ ’’میں نے سوچا کہ ازابیل اپنا پاسپورٹ واپس لے کر خوش ہوگی۔ حکام نے اس کا پاسپورٹ واپس کردیا ہے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
’’کیونکہ تمہارے
خلاف سارے الزامات ختم ہوچکے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’پھر کہو… پھر بتائو؟‘‘ ایمیلو نے بے یقینی سے کہا۔
’’ازابیل کے خلاف تمام الزامات ختم ہوچکے ہیں۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘ ازابیل سکتے کی سی کیفیت میں بولی۔
’’ہاں… ہاں… بالکل سچ!‘‘ اس نے یقین سے کہا۔
ازابیل نے دل تھام لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جارہے تھے۔ وہ ایمیلو کی طرف پلٹی۔ ’’ایمیلو! او میرے خدا…! وہ سب کچھ ختم ہوگیا، بالآخر ختم ہوگیا۔‘‘
’’مجھے تو یقین نہیں آرہا۔‘‘ ایمیلو نے سر جھٹکا۔
’’یقین کرلو… یقین کرلو…! تم دونوں جاگ رہے ہو اور اپنے کانوں سے میری بات سن رہے ہو۔‘‘ الیگزینڈر ہنستے ہوئے بولا۔
’’میرا تو سر گھوم رہا ہے۔‘‘ ازابیل بولی۔
’’اور میرا دل جھوم رہا ہے۔‘‘ ایمیلو نے اسی لہجے میں کہا تو دونوں ہنس پڑے۔
الیگزینڈر بولا۔ ’’ازابیل! یہ سب کارستانی تمہارے وکیل اسٹون کلفٹن کی تھی۔ گمشدہ رقم اس کے پاس تھی جس کی وجہ سے تمہیں اس مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس رقم پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اسی لئے وہ تمہیں غلط مشورے دے رہا تھا۔‘‘
’’کلفٹن…!‘‘ ازابیل نے حیرت سے کہا۔ ’’میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ میرے شوہر کا ایک عرصے سے قانونی مشیر تھا۔‘‘
’’اسی لئے تو اسے ہر شے کے بارے میں علم تھا۔ جس کا اس نے فائدہ اٹھایا۔ میں نے اسی لئے ایمیلو کو وکیل تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ مجھے اس پر شک تھا کہ وہ مقدمے کو کسی اور سمت میں لے جارہا ہے۔ ہم نے انتظار کیا کہ وہ کہاں غلطی کرتا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ تم سمجھ رہے تھے کہ ازابیل بے قصور ہے؟‘‘
’’اگر ایسی بات نہ ہوتی تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہاری مدد کرنے کا وعدہ کرتا؟ میں تمہارا بھائی سہی لیکن تمہیں علم ہے کہ میں نے کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ تمہاری خاطر میں اپنے اصول کبھی نہیں توڑتا لہٰذا جب ہم نے وکیل بدلا تو اس نے بھی خطرہ محسوس کیا۔ وہ رقم سمیت رفوچکر ہونا چاہتا تھا۔ ہم اس کی نگرانی کررہے تھے۔ اسی لئے ہمیں اس رقم کا سراغ مل گیا۔ جو وہ سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ ہم نے بروقت اسے دھر لیا لہٰذا تمام کیس ختم ہوچکا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی الیگزینڈر اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’بس! میں بھی چلتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں نے آپس میں بہت سی باتیں کرنی ہوں گی۔‘‘
ازابیل اور ایمیلو ایک ساتھ بولے۔ ’’شکریہ… بہت شکریہ!‘‘
الیگزینڈر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’شکریہ تم دونوں میرے گھر آکر ادا کرنا۔‘‘ الیگزینڈر جاتے ہوئے بولا۔
ازابیل نے ایمیلو کی طرف دیکھا۔ ’’اوہ… مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا اف خدایا…! یہ بالکل کسی خواب کی طرح سے لگ رہا ہے۔‘‘
’’اور اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا یہ بھی کوئی خواب ہے؟‘‘وہ ایک گھٹنا فرش پر ٹیک کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔ ’’تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
ازابیل کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ ’’ہاں ایمیلو! ہاں… میں بڑی خوشی سے تم سے شادی کروں گی۔‘‘ آنسو ازابیل کے گلابی رخساروں پر موتیوں کی طرح پھسل رہے تھے۔
(ختم شد)