آخر تم چاہتی کیا ہو؟ اشفاق نے فرحین کے بگڑے مزاج کو دیکھ کر جھنجھلا کر پوچھا۔ہر بار میں ہی کیوں بتاؤں؟ فرحین نے رکھائی سے کہا تو اشفاق نے بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا، دیکھو فرحین! پہلے ہی تمہاری بے جا ضد اور دوسروں سے مقابلہ کرنے کی عادت کی وجہ سے میں مسلسل نقصان اٹھا رہا ہوں۔ اب مہربانی کرو اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا سیکھو!اشفاق کے سخت لہجے پر فرحین نے غصے سے اسے گھور کر کہا، ہاں ہاں، میں ہی غلط ہوں! میں یہ سب کس کے لیے کرتی ہوں؟ آپ کی عزت بنانے کے لیے! میرے سلیقے اور عقل مندی کی وجہ سے پورے خاندان اور محلے میں آپ کی شان و شوکت کے چرچے ہیں، مگر آپ ہمیشہ مجھ ہی کو برا کہتے ہیں۔فرحین نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا تو اشفاق کا دل نرم پڑ گیا۔میں کوشش کر رہا ہوں کہ نئے گھر کی خوشی میں ایک شان دار پارٹی کا بندوبست کر لوں۔۔۔ اشفاق نے بات مکمل کرنے کی کوشش کی مگر فرحین فوراً بول اٹھی، میں نے خاندان میں سب کو بتا دیا ہے کہ ہم ایک شان دار باربی کیو پارٹی کر رہے ہیں۔ تھوڑی بہت آتش بازی بھی کر لیں گے، اور کیا! ہم نے کون سا بینڈ باجا بجانا ہے جو کسی کو اعتراض ہو گا؟ سب مل بیٹھیں گے، کتنا مزہ آئے گا ناں۔ فرحین خیالات میں سب حریفوں کو شکست دیتے دیکھ کر خوشی سے ہوا میں اڑ رہی تھی۔مگر اس سب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پہلے تو ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا! اشفاق نے جھنجھلا کر کہا۔اس لیے کہ پہلے آپ کی والدہ محترمہ کا حکم چلتا تھا۔ وہ اپنی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لینے دیتی تھیں۔فرحین نے منہ بنا کر کہا تو اشفاق چپ ہو کر رہ گیا۔اماں کو گزرے صرف ایک سال ہوا ہے، اور تم کچھ ادب لحاظ سے کام لیا کرو۔ اشفاق نے ناگواری سے کہا۔ یہ مت بھولیں کہ کئی سال میں نے آپ کی ماں کی خدمت کی تھی!فرحین نے فوراً احسان جتایا تو اشفاق نے گہری سانس لے کر رہ جانا مناسب سمجھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی فرحین کو اس کا تلخ رویہ اور زبان درازی یاد نہیں دلا سکا، جس کا دکھ اس کی ماں کو ہمیشہ رہا تھا۔
خدمت تو حسن بھائی اور امبر بھابھی نے کی ہے۔ ہم نے تو بمشکل دو یا تین سال ہی ماں جی کو اپنے پاس رکھا تھا۔اشفاق نے سر جھکا کر کہا تو فرحین کو غصہ آ گیا۔ہاں تو کیا انھوں نے کوئی احسان کیا ہے؟ جب وہ لوگ دبئی میں تھے تو ہم نے ماں جی کی خدمت کی، اور جب وہ واپس آ گئے تو ماں جی اپنی خوشی اور رضا سے ان کے پاس رہنے چلی گئیں۔ ہم نے تو کئی بار کہا تھا کہ کچھ دن ہمارے پاس بھی آ کر رہ لیں، مگر آپ کے والدین کو صرف بڑے بیٹے سے محبت تھی۔ ماں جی کی تم سے بنتی نہیں تھی جبکہ امبر بھابھی سے تو وہ بہت خوش تھیں۔اشفاق نے ایک اور ملال کا ذکر کر کے فرحین کو مزید آگ لگا دی۔اس لیے کہ تمہاری امبر بھابھی انتہا درجے کی مکار اور چالاک عورت ہیں۔ میں ٹھہری ہمیشہ سے صاف گو اور منہ پھٹ… فرحین نے کہا تو اشفاق نے مزید بحث کرنے کے بجائے وہاں سے اٹھ جانے میں عافیت سمجھی۔باربی کیو پارٹی طے ہے ناں؟ فرحین نے جلدی سے پوچھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اشفاق نے اثبات میں سر ہلا دیا۔فرحین خوشی سے اچھل پڑی۔ وہ ہمیشہ ہی لڑ جھگڑ کر اپنی بات منوا لیتی تھی۔ اب آئے گا مزہ! فرحین نے چٹکی بجاتے ہوئے سینٹرل میز پر رکھا اپنا موبائل فون اٹھایا اور جلدی جلدی میسج ٹائپ کرنے لگی۔
☆☆☆
تم نے کس سے اجازت لی ہے؟ فرحین نے کڑے تیوروں سے اپنے بیٹے کو گھورا جو سامنے والے صوفے پر بیٹھاموبائل میں مگن تھا۔ ماں کے سوال پر چونک کر متوجہ ہوا۔ کیا مطلب؟ ہارون نے حیرت سے پوچھا۔میں پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کسی سے اجازت لے کر یہ پروگرام بنایا ہے؟ فرحین نے سختی سے پوچھا۔ تایا ابو کے گھر جانے کے لیے پروگرام بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں وہاں پہلے بھی جاتا رہا ہوں۔ ہارون نے کندھے اچکا کر کہا۔ پہلے تم وہاں اپنی دادی جان کے لیے جاتے تھے۔ اب وہاں جانا ضروری نہیں ہے۔ فرحین نے دوٹوک انداز میں کہا۔ مگر کیوں؟ کیا میں وجہ جان سکتا ہوں؟ ہارون نے سنجیدگی سے سوال کیا۔ماں سے سوال جواب کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی؟ فرحین نے جھنجھلا کر کہا۔اف مما! آج آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا میں وجہ بھی نہیں جان سکتا؟ ہارون نے چڑ کر کہا تو فرحین نے گہری سانس لی۔وجہ بتانے کی ضرورت ہے؟ بس مجھے تمہاری تائی کی عادتیں پسند نہیں ہیں۔ فرحین نے منہ بنا کر کہا تو ہارون ہنس پڑا۔ اچھا، اب سمجھا، خاندانی سیاست۔ ویسے مما! تائی بہت اچھی ہیں۔ ہارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔دیکھا، اسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ وہاں مت جایا کرو۔ تم ان کی طرف داری کرنے لگتے ہو۔ فرحین نے اصل مسئلہ بتایا۔مما! یہ تو ممکن نہیں ہے کہ میں تایا ابو کے گھر جانا چھوڑ دوں۔ آپ بڑوں کے جو بھی مسئلے ہیں، ان سے ہم بچوں کا کیا لینا دینا۔ ہم سے کزنز کی فیملی میں اچھی دوستی اور ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ہارون نے صاف جواب دیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ اگلے دن اپنے بنائے پروگرام کے مطابق وہ تایا ابو کے گھر ویک اینڈ گزارنے چلا گیا۔ جس پر فرحین کو بہت غصہ آیا مگر وہ ضبط کر گئی۔ فرحین کو اندر ہی اندر یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں ہارون، حسن کی چھوٹی بیٹی ماریہ میں دلچسپی نہ لینے لگے۔ ماریہ میں بظاہر تو کوئی خامی یا کمی ایسی نہیں تھی جسے بنیاد بنا کر کوئی بھی اس کے رشتے سے انکار کرتا، مگر فرحین کو اصل مسئلہ امبر سے تھا، جس کے ساتھ اس کا ہمیشہ مقابلہ اور حسد رہا۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے حریف کو اچھے اخلاق، کردار یا ظرف سے شکست نہیں دے سکتے تو پھر ہم دنیاوی چیزوں اور خوبیوں کا سہارا لینے لگتے ہیں، جیسے دولت، رتبہ، رنگ و روپ وغیرہ۔ فرحین بھی، جو ساری زندگی امبر کو اخلاق، بہترین کردار اور اعلیٰ ظرفی میں شکست نہیں دے سکی، اپنے پیسے اور رہن سہن کے بل بوتے پر اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر مقابلے اور حسد کی اس دوڑ میں وہ یہ بات بھول گئی تھی کہ نیچا اسے دکھایا جاتا ہے جو آپ کو اپنے مقابلے میں سمجھتا یا دیکھ رہا ہو۔ جو شخص اپنے ظرف اور کردار کی بلندی پر کھڑا ہو، وہ بھلا نیچے جھک کر کیوں دیکھے گا۔ یہ ہی امبر کا اس کے ساتھ رویہ تھا۔
☆☆☆
فرحین کی خواہش کے مطابق نئے گھر کی دعوت بہت شاندار ہوئی۔ پیسہ پانی کی طرح بہا کر بھی فرحین مطمئن نہیں تھی کیونکہ وہ شکست، جو وہ اپنے خود ساختہ حریفوں کے چہروں پر دیکھنا چاہتی تھی، نظر نہیں آئی۔ وہ تو معمول کے مطابق دعوت میں شامل ہوئے اور مسکراتے ہوئے ہی رخصت ہو گئے۔اونہہ! لوگ جل گئے ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے فرحین نے جلے دل سے شوہر کے سامنے تبصرہ کیا تو اشفاق گہری سانس لے کر رہ گیا۔فرحین کو جواب دینے کا مطلب رات کے اس پہر نئی بحث چھیڑنا تھا اور تھکے ہارے اشفاق کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے وہ خاموشی سے لیٹ گیا۔ فرحین بڑبڑاتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگی تاکہ وہ فون کر کے اپنی گہری سہیلیوں کے سامنے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔
☆☆☆
ماریہ کے لیے اچھے رشتے آئیں یا برے، ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ فرحین نے چڑ کر کہا۔اشفاق آج گھر آیا تو کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ رات کھانے کے بعد جب اس نے اپنی سوچ کی وجہ بتائی تو فرحین طیش میں آ گئی۔ ماریہ میری بچی ہے، مجھے فرق پڑتا ہے۔ اشفاق نے سخت لہجے میں کہا تو فرحین نے منہ بنا لیا۔ فرحین، تم میری بات سمجھنے کی کوشش تو کرو۔ اشفاق نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نرم لہجے میں کہا۔ آپ ہمیشہ اپنے گھر والوں کے لیے مجھے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ فرحین نے ہمیشہ کی طرح جذباتی بلیک میلنگ سے کام لیا۔تم یہ سب ڈرامے چھوڑو اور جو میں کہنے جا رہا ہوں، اسے غور سے سنو۔ اشفاق نے جھنجھلا کر کہا تو فرحین سنبھل گئی کیونکہ اشفاق جب ایسے موڈ میں ہو تو فرحین کے لیے اپنی حد میں رہنا ہی مناسب ہوتا تھا۔جی، بولیں۔ فرحین نے سنجیدگی سے کہا۔فرحین، دیکھو، میں چاہتا ہوں کہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے ہم ماریہ کا ہاتھ مانگ لیں۔ فرحین نے پوری بات سن کر چونک کر اشفاق کی طرف دیکھا۔کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ فرحین نے بھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔اس میں ایسا بھی غلط کیا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ ہارون بھی ماریہ کو پسند کرتا ہے۔ اشفاق نے پر سوچ انداز میں کہا۔فرحین غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔اپنے اندازے اپنے پاس رکھیں۔ میرا ہارون اتنا احمق ہرگز نہیں ہے۔ میں اپنی بہن کی ہی بیٹی کو اپنی بہو بناؤں گی۔ ذہین، خوبصورت اور باصلاحیت لڑکی۔ یہ ماریہ کیا چیز ہے اس کے سامنے؟ فرحین نے ناگواری سے کہا۔اشفاق گہری سانس لے کر رہ گیا۔ تم ہیرے اور پتھر کا موازنہ کر رہی ہو۔ ماریہ کے گھر کے طور طریقے دیکھو اور اپنی بہن کے گھر کے طور طریقے دیکھو، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اشفاق نے نرمی سے سمجھانا چاہا مگر فرحین کچھ بھی سنے بغیر وہاں سے چلی گئی۔اشفاق نے ایک اور گہری سانس لی اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔
☆☆☆
فرحین نے ہارون کو بتائے بغیر اس کے رشتے کی بات اپنی بہن سے کی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی کیونکہ ہارون جیسا رشتہ ملنا، آج کے دور میں بہت بڑی بات تھی۔ دونوں بہنوں کے درمیان تمام معاملات فوراً طے ہو گئے۔ فرحین بہت خوش اور مطمئن تھی۔ وہ جلد از جلد نکاح کا فنکشن منعقد کر کے ہارون اور شفق کا نکاح ایک بڑے سے گیدرنگ میں کر کے سب خاندان والوں کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔ ایک دن فرحین نے خوشی خوشی ہارون کو اس کے ہونے والے نکاح کے بارے میں بتایا تو ہارون سن کر حیران رہ گیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ہارون نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے سر جھکا کر باپ کی طرف دیکھا۔دیکھا، میرا بیٹا کتنا خوش ہوا ہے میرے انتخاب پر۔ فرحین نے فخریہ انداز میں اشفاق کو دیکھا تو وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔
واٹ مما! کیا میں آپ کو خوش نظر آ رہا ہوں؟ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ پاپا نے آپ کو بتایا کیوں نہیں۔ ہارون کے کہنے پر فرحین چونک گئی۔کیا مطلب؟ فرحین نے حیرت سے پوچھا۔ماں، میں ماریہ کو پسند کرتا ہوں اور میں پاپا کو یہ بات پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ ہارون نے دوٹوک انداز میں کہا تو فرحین غصے سے بھر گئی۔ ان لوگوں کے پاس ہے ہی کیا جو وہ ہمارا مقابلہ کریں؟ تم اس گھر سے لڑکی لاؤ گے؟ فرحین نے حقارت سے کہا تو ہارون نے افسوس بھری نگاہ ماں پر ڈالی۔مما! آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ رشتوں میں مقابلہ کرنا ضروری ہے؟فرحین نے حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھا۔مما! تایا اور تائی کے گھر میں کیا نہیں ہے؟ دنیا کی ہر سہولت، عزت، سکون، آپس کا اعتماد، محبت اور احساس۔ ہارون نے ایک ہی سانس میں کہا۔مما! میں آپ کو کیا کیا بتاؤں۔ آپ نے کبھی غور کیوں نہیں کیا کہ میں اپنے گھر کے عیش و آرام چھوڑ کر وہاں کیوں جاتا ہوں؟ اس لیے مما، کہ جو ان کے پاس ہے، وہ آپ پیسے سے نہیں خرید سکتیں۔ وہ ہے بے لوث محبت اور خلوص۔ہارون نے نرمی سے کہا۔ فرحین حیرت سے گنگ اسے دیکھ رہی تھی۔ مما! میں نے دیکھا ہے کہ انھوں نے دادی اماں کی خدمت کتنے خلوص اور محبت سے کی۔ وہ ان کی بیماری اور تکلیف سے بھی نہیں گھبرائے۔ مما! آپ ایسی فیملی سے رشتہ لینے سے انکاری ہیں جن کی مٹی میں اتنی وفا اور محبت ہے۔ کیا آپ کو اپنے گھر اور آنے والے کل کے لیے اس وفا کی ضرورت نہیں پڑے گی؟باقی آپ سوچ لیں۔ اگر اب بھی آپ کا انتخاب آپ کی بھانجی ہے تو میں آپ کے فیصلے کا احترام کروں گا، مگر آنے والے کل میں اس فیصلے کی ذمہ داری نہیں لوں گا۔ ہارون نے سخت لہجے میں مستقبل کا ایک عکس دکھایا اور وہاں سے چلا گیا۔ اشفاق نے ہمدردی بھری نگاہ گم صم بیٹھی فرحین پر ڈالی۔
☆☆☆
میرے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے، کسی چیز کی کمی نہ ہو۔پچھلے کئی مہینوں سے فرحین اس بات کو بار بار دہراتی ہوئی بازاروں اور گھر میں چکر لگاتی رہی۔ کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اللہ اللہ کر کے شادی کا دن آگیا۔ سارے انتظامات بہترین تھے۔ شادی کی ساری رسمیں بہت خوشی سے نبھائی گئیں۔ رخصتی کا وقت آیا تو سب کے دل ایک دم موم کی طرح پگھل گئے۔ رخصتی کے وقت دلہن جب روتے ہوئے اپنے والدین سے گلے ملی تو انھوں نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔بیٹی، اپنے ساس سسر کو اپنے والدین کی طرح سمجھنا، ان کی دل سے خدمت کرنا، اور اپنے والدین کی تربیت اور بھروسے کا مان رکھنا۔حسن نے نرمی سے بیٹی کے ماتھے پر پیار دیا تو اشفاق نے آگے بڑھ کر بھائی کو گلے سے لگا لیا۔وہ ایک باپ کے گھر سے دوسرے باپ کے گھر جا رہی ہے، فکر مت کرو۔ اشفاق نے یقین دلایا اور فرحین کی طرف دیکھا، جو اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتے ہوئے امیر کو دلاسا دینے لگی۔ ماریہ کو پوری شان و شوکت کے ساتھ رخصت کر کے اپنے گھر لے جاتے ہوئے فرحین بہت مطمئن تھی۔ ہارون نے فیصلے کا اختیار اسے دے کر اسے معتبر کر دیا تھا۔اس دن فرحین کو ہارون کی کہی ہوئی ایک بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی تھی کہجس گھر میں بزرگوں اور بڑوں کا احترام اور خدمت کی جاتی ہے، اس زمین کی مٹی میں اتنی خیر ہوتی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔اور ہمیشہ کی طرح نفع نقصان کو دیکھنے والی فرحین نے، اپنے آنے والے کل کے لیے نفع کا سودا ہی کیا تھا۔
☆☆☆