Sunday, April 27, 2025

Muqaddar | Episode 3

کالج میں شیریں کا دم گھٹتا تھا۔ اسے ایک انجانا سا خوف رہتا تھا کہ کوئی ہم جماعت بے قابو نہ ہوجائے۔ اس نے ماحول قدرے پراگندہ پایا تھا کیونکہ یہ اپر کلاس کے لڑکے، لڑکیاں امریکا یورپ کے ماحول میں برسوں رہ کر آئے ہوئے تھے۔ وہ ہر وقت کسی ہرنی کی طرح چوکنا، ہوشیار اور خوف زدہ سی رہتی تھی لیکن ایسی کسی حرکت کی نوبت نہیں آئی جو نازیباہ، ناشائستہ یا معیوب ہوتی۔ اس کا دامن صاف ستھرا رہا۔
گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ارشاد بیگ کی اہلیہ پرنسپل تھیں۔ وہ ایک شریف، لائق فائق خاتون تھیں مگر کلاس روم تو وہی تھے… شکستہ ہلتی بنچوں والے نیم تاریک کمرے جن میں پچاس کی جگہ سو لڑکیاں ٹھونس دی جاتی تھیں۔
وہ بہت چیخی چلائی، روئی پیٹی مگر باپ کا دماغ پلٹ گیا تھا کیونکہ وہ مغرب کی آزادی اور بے حیائی والے ماحول میں بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ روز محشر ان کے اعمال کی ذمے داری پرورش کرنے والوں پر بھی عائد ہوگی۔
وہ بڑے تحمل سے بات کرتے تھے۔ ’’بیٹا! ہم مسلمان ہیں، اس معاشرے میں جینا، مرنا ہے اور عزت سے رہنا ہے۔ اللہ نے تمہیں میرے گھر میں پیدا کیا، جتنا ناز کرو اس خوش نصیبی پر کم ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ لندن کے کسی انگریز کی بیٹی نہیں بنایا۔‘‘
دونوں بھائیوں کا شدید احتجاج بھی رائیگاں گیا۔ بالغ ہوجانے کے بعد خودمختاری صرف قانون کی کتاب تک محدود تھی۔ شیریں نے وہ سب کچھ کیا جو اس کا ردعمل تھا یعنی ممنوع سے گریز نہیں کیا تھا۔ ڈرائیور سے ہر بات کرکے ذلیل ہونے کے بعد شیریں نے بند راستوں میں سرنگ خود بنائی، کسی سے کوئی مدد نہیں لی اور نہ کسی کی محتاج ہوئی۔ آہستہ آہستہ اس نے وہ سب کچھ سیکھ لیا جو ایک عام اور کند ذہن لڑکی نہیں سیکھ سکتی۔ پھر اس نے ایک عبایا بنوا لیا جو وقت ضرورت ایک سہیلی لے آئی تھی۔ اسے پتا چلا کہ یہ بڑے کام کی چیز ہے، اس کی افادیت تھی۔ اس میں ہمت تھی اتنی زیادہ جو لندن کے ماحول کی عطا کردہ تھی۔ وہاں کی لڑکیوں میں اس نے کبھی کسی بات میں جھجک، تذبذب اور شرم و حیا نہیں پائی تھی اور وہ جس لباس اور جس حالت میں بھی گھر سے نکلتی تھی، کیا مجال کہ کوئی لڑکا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ ان پر کوئی دھبہ یا آنچ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جبکہ وہاں کا ماحول آزادانہ نوعیت کا تھا۔
یکے بعد دیگرے کئی خوشحال گھرانوں کے لڑکوں سے دوستی، آزادانہ میل جول اور معاشقے میں شیریں نے کبھی کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ اسے ہوٹلوں میں لے گئے اور دوستوں کے گھر بھی…! مگر کیا مجال کہ خلوت میں کوئی فائدہ اٹھا سکا اور نہ اسے بلیک میل کرسکا۔ اسے اپنے آپ پر پورا اعتماد تھا۔ جہاں اس نے خطرے کی بو سونگھی، اس نے فوراً دھمکی دی کہ کسی خودفریبی میں نہ رہنا، میں ابھی شور مچاتی ہوں۔ تمہیں اندر کروا دوں گی۔ نتیجے میں حالات فوراً قابو میں آجاتے۔ حفاظتی طریقے وہ یہاں کے لڑکوں سے زیادہ بہتر جانتی تھی۔
اسے ڈرائیور ایک آنکھ نہ بھاتا۔ وہ کوئی باریش اور ساٹھ برس کا نہ تھا۔ چھتیس برس کا جوان اور شریف فرد تھا۔ وہ اسے نظر بھر کے بھی نہ دیکھتا تھا لیکن وہ اسے مہذبانہ انداز سے ٹوکتا اور نصیحت کا دفتر کھول دیتا تھا۔ وہ اس کے دقیانوسی خیالات سے تنگ اور بے راز ہوچکی تھی کہ نجی معاملات سے سروکار کیوں رکھتا ہے۔ اس کی مرضی، وہ جو چاہے پہنے۔ بالآخر اس نے ایک دن موقع پا کر اپنے منصوبے پر عمل کیا۔ ڈرائیور پر دست درازی کا الزام تھوپ کر اسے نوکری سے نکلوا دیا۔ دوسرے آنے والے ڈرائیور سے نمٹنا آسان ثابت ہوا۔ وہ بے چارا ایک غریب، ضرورت مند شخص تھا۔ پیسہ اور دھمکی دونوں کام کرگئے۔ دیر سویر کی صورت میں وہ شیریں کو مطلوبہ جگہ سے لے لیتا تھا اور گاڑی خراب ہونے کا عذر پیش کردیتا۔ اسے تنخواہ سے زیادہ بونس مل رہا تھا۔ تنخواہ گھر سے ملتی اور تنخواہ سے زیادہ بونس وہ خود دیا کرتی تھی جس کی گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ تھی۔ اس نے ڈرائیور کی زبان پر پیسے کی مہر لگا دی تھی۔
کروڑ پتی ابا جیب خرچ کے معاملے میں بڑے فراخ دل تھے اور انہیں کبھی شک نہ ہوا کہ تعلیم کے ساتھ ان کی لاڈلی کیا تجربات حاصل کررہی ہے۔ اس کی رپورٹس بہترین ہوتی تھیں۔ اس نے ایک پرانی کہاوت کو غلط ثابت کردیا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ اس کے بی اے کرنے تک درجن بھر عشق چھپے رہے۔
بجلی اس روز گری جب بی اے کے بعد اس کی تعلیم کا سلسلہ اچانک روک دیا گیا۔ آبگینوں پر جیسے ایک نوکیلا پتھر آکر لگا تو اس کی کرچیاں سپنوں کو لہولہان کرگئیں۔ اس کا لاہور جاکر ہاسٹل میں رہنے اور ایم اے کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ ماں نے اسے خوشخبری سنائی تھی کہ اس کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہے۔
’’بھاڑ میں جائے اچھا رشتہ…! میں ایم اے کروں گی، شادی نہیں… کان کھول کر سن لیں۔‘‘ وہ ہسٹریائی انداز میں چیخی۔
’’ایم اے تو تم شادی کے بعد بھی کرسکتی ہو؟‘‘ ابا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ’’ہم رشتے سے انکار نہیں کرسکتے۔‘‘
’’مت کریں… میں خود کردوں گی… ذرا آئے تو سہی وہ میرے سامنے!‘‘ وہ ضدی لہجے میں بولی۔
اور پھر اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کا ایک ہفتہ سخت ٹینشن میں گزرا اور اس دوران اس نے ایک حکمت عملی طے کرلی تھی۔ دونوں طرف سے سرد جنگ میں چند دن کی خاموشی کے بعد ماں نے اسے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’یہاں اچھے رشتوں کی کمی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شادی کی عمر گزر جانے کے بعد پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔‘‘
وہ خاموشی سے سب سنتی رہی، درمیان میں کچھ نہیں بولی۔ بحث و تکرار نہیں کی تو اسے نیم رضامند مان لیا گیا۔ مقررہ تاریخ پر لڑکا اپنے ماں، باپ اور بہنوں کے ساتھ آیا تو اسے منظوری کی کارروائی کے لئے پیش کیا گیا۔
لڑکا واقعی اچھا اور وجیہ تھا۔ دراز قد نے اسے پرکشش شخصیت کا مالک بنا دیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم اور اچھا بزنس مین…! اسے شیریں پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ایک تھی مگر شیریں نے جیسے خودکش حملہ کردیا۔
’’آپ نے تو مجھے قبول کرلیا لیکن مجھ سے بھی تو پوچھئے کیا میں سامان برائے فروخت ہوں؟‘‘ اس نے کہا۔
اک دم جیسے بم پھٹا اور لگا کہ زلزلہ آگیا ہو۔ کس نے کس سے کیا کہا، شیریں نے نہیں سنا۔ وہ ہذیانی انداز میں چلاتی رہی، احتجاج کرتی رہی۔ ’’مجھے یہ قانونی حق حاصل ہے، میں کوئی بچی نہیں ہوں، بالغ ہوں۔ زبردستی کی گئی تو میں بھاگ جائوں گی… نکاح کے بعد بھاگ جائوں گی۔‘‘
اسے ہوش آیا تو گھر پر قبرستان کا سکوت مسلط تھا۔ اس پر نقاہت اور غنودگی طاری تھی۔ اس کی ماں ایک ڈاکٹر کے ساتھ آئی تھی۔ ڈاکٹر نے مسکرا کے بڑی شائستگی سے اس کا حال پوچھا، نبض دیکھی، بلڈ پریشر چیک کیا۔ اس کی ماں سوگوار سی چپ بیٹھی رہی۔ ڈاکٹر انجکشن لگا کر چلا گیا۔ ماں خود اسے کھانا دینے آتی رہی مگر ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ دہرے عذاب میں تھی۔ ماں ایک طرف، ماں کو بیٹی کی فکر تھی۔ دوسری طرف اس دنیا کی جس میں وہ سب رہتے تھے۔ اس دنیا سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔
طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد بھی کوئی اس سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ہی پرسان حال تھا۔ واقعی اس نے سنگین اور ناقابل معافی جرم کیا تھا۔ خاندان کی عزت، وقار کو داغدار کردیا تھا۔ باپ جس کی وہ بڑی چہیتی اور لاڈلی بیٹی تھی، وہ باپ اسے بھول گیا تھا کہ اس کی کوئی بیٹی بھی تھی۔ طارق یا خورشید سے تو یوں بھی کوئی امید نہ تھی۔ وہ اپنے کئے پر نادم ضرور تھی، مگر اسے بغاوت پر مجبور کرنے والے تووہ سب تھے جو اس کے ساتھ زبردستی کرنے پر تل گئے تھے۔ مانا ہمارے ملک میں لڑکیوں کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو امریکا یورپ میں تھی مگر ان کے اپنے طبقے میں لڑکیاں خودمختار تھیں۔ وہ گاڑی لے کر گھومتی تھیں، فیشن کرتی تھیں، شاپنگ کرنے جاتی تھیں۔ ڈاکٹر اور ٹیچرز تھیں اور ایسا بھی نہیں تھا کہ شادی بیاہ کے معاملے میں ان کی مرضی بالکل نہ چلتی ہو۔
ایسے واقعات ایک دو نہیں بلکہ ان گنت تھے، جب انہوں نے اپنی مرضی بتائی اور ماں، باپ مان گئے۔ اس سے تو کسی نے پوچھا تک نہیں تھا، ورنہ وہ ایک نام ضرور بتا سکتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ کسی دن وہ اسے ضرور پرپوز کرے گا۔ ابھی وہ انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا اور ان کا تعلق ایک برس سے زیادہ پرانا ہوچکا تھا۔
وہ کوئی ایک برس سے مل ضرور رہے تھے لیکن ابھی تک اس نے وہ رسمی پیش قدمی نہیں کی تھی جو اس سے پہلے چند لڑکے کرچکے تھے لیکن اس نے انہیں بہکنے ہرگز نہیں دیا تھا۔ وہ اکٹھے گھومتے تھے، آپس میں بے حد بے تکلف تھے۔ وہ اسے اپنے گھر اور ماں، باپ کے بارے میں بتا چکا تھا اور اپنی سالگرہ کی تقریب میں ان سے ملوا بھی چکا تھا۔ اس نے شیریں کو اپنی یونیورسٹی کا ہم جماعت بتایا تھا۔ اس کے والدین فراخ دل لوگ تھے۔
وہ اپنی پسند اور محبت کا اظہار کرچکا تھا، مگر شادی کی بات غالباً اس نے اس لئے نہیں کی تھی کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے پہلے لڑکے ایسا نہیں کرتے تھے۔ وہ بھی اسے پسند کرتی تھی اور اس بات کی شدت سے منتظر تھی کہ وہ کوئی بات کرے تو اسے کہے کہ اپنے والدین کو اس کے ہاں بھیجے۔
اس وقت گھر میں دو فون تھے۔ ایک پاپا کی اسٹڈی میں جو ان کا آفس اور کلینک سب کچھ تھا۔ دوسرا گھر کے لوگوں کے استعمال کے لئے! وہ لائونج میں رکھا رہتا تھا۔ پہلے کوئی دھیان نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنی کالج کی فرینڈز کے ساتھ ان سے بھی بات کرلیتی تھی مگر اب حالات مختلف تھے۔ کالج چھوڑنے کے بعد اس کے احتجاجی رویئے اور اب شادی کے معاملے پر بغاوت نے اس کی حیثیت ایک مجرم کی سی بنا دی تھی۔ اسے اس بات کا شدید دُکھ تھا کہ اس کا ردعمل مناسب نہیں تھا اور اس نے اپنے گھر والوں کی جیسے ناک کٹوا دی تھی۔ اگر وہ اپنے ماں، باپ کو خبردار کردیتی کہ زبردستی کا نتیجہ برا نکلے گا یا اس کا رشتہ مانگنے کے لئے آنے والوں کے سامنے تہذیب اور بردباری سے کام لیتی تو نتیجہ اس کے حق میں ہی نکلتا۔ سانپ بھی مر جاتا، لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی… لیکن اس نے طیش میں آکر آداب محفل کا خیال نہیں رکھا جو پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ اسے گھر، زندان لگنے لگا تھا جس میں اسے زبردستی قید کردیا گیا ہو۔
ایک ہفتے بعد اس نے بڑے بھائی سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ حیلے بہانے کرکے نکل گیا تھا۔ ماں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جو تمہارا دل چاہے کرو، جو کچھ پوچھنا ہے اپنے باپ سے پوچھو۔ اب شیریں کا دل واقعی چاہتا تھا کہ اس گھر سے بھاگ جائے۔ پھر جو ہو سو ہو، مگر بھاگ کر وہ جائے گی کہاں؟ یہ سوال اس کے پیروں میں بیڑیاں پہنا دیتا تھا۔ جتنا وقت اس نے یہاں گزارہ تھا، اس سے وہ اندازہ کرچکی تھی کہ یہاں اکیلی عورت کتنی غیر محفوظ، بے بس اور مجبور ہے۔ اسے ایک گھر اور ایک مرد کا سہارا چاہئے تھا خواہ وہ باپ ہو، بھائی ہو یا شوہر…! پاپا کے پاس واقعی وقت نہ تھا۔ وہ صبح نکل جاتے تھے اور نہ جانے کہاں مصروف رہتے تھے۔ شام کو وہ ایک مشہور اسپتال میں بیٹھنے لگے تھے تاکہ ان کا اپنے پیشے سے تعلق نہ ٹوٹے اور مریضوں سے رابطہ رہے۔ یہ ان کے پروفیشن کےلئے ضروری بھی تھا۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج ہوجاتے تھے۔ ایک طرف ان کے تجربے اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا تو دوسری طرف ان کا بینک بیلنس بڑھتا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد اس کے چھوٹے بھائی کو اتنا تیز بخار ہوا کہ وہ کالج نہ جا سکا تو وہ اس کی طبیعت پوچھنے چلی گئی۔ اس کی حالت میں افاقہ ہوگیا تھا، بخار بھی اتر چکا تھا۔ کمرے میں اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ اس نے موقع پا کر پوچھا۔ ’’طارق! یہ کیا رویہ اختیار کرلیا ہے سب نے میرے ساتھ جیسے میں کوڑھی ہوں؟‘‘
’’آپا…! اس کی ذمہ دار آپ خود ہیں۔ آپ سب کو دوش نہ دو۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا اتنا سنگین جرم کیا ہے میں نے؟‘‘ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’یہ آپ خود سے پوچھ لیں…؟ وہ بات کہاں کہاں ہورہی ہے۔ کتنی بے عزتی ہوئی ہے پاپا کی! ماں بھی پریشان ہیں کہ آخر آپ کا ہوگا کیا…؟ اب کون لے کر آئے آپ کے لئے رشتہ…؟‘‘
’’تو نہ آئے میری بلا سے… نہیں کرنی مجھے شادی… اگر کرنی ہوگی تو میں خود کرلوں گی۔ میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں جو اس فکر میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہوں۔ کتنے لڑکے میرے امیدوار ہیں۔‘‘ وہ برہمی سے بولی۔ ’’پورے خاندان میں میری جیسی کوئی حسین ہے؟‘‘
’’بہتر ہے کرلو… ہماری جتنی بے عزتی اور رسوائی ہونی ہے، ایک بار ہوجائے۔‘‘
’’ساری غلطی پاپا کی ہے جو ہمیں لندن سے اٹھا کے اس جہنم میں لے آئے۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ ’’وہاں کیسی خواب ناک اور آزادانہ زندگی تھی… کیسے مزے سے کٹ رہی تھی۔‘‘
’’پاپا کی اس غلطی کو میں تسلیم کرتا ہوں۔ وہاں اٹھارہ برس کی عمر میں بچے گھر چھوڑ دیتے ہیں ورنہ ماں، باپ کہہ دیتے ہیں کہ اب جائو، اپنی زندگی اور مستقبل خود اپنی کوشش سے بنائو۔ یہاں وہ ہمیشہ ذمہ دار رہتے ہیں خصوصاً لڑکیوں کے معاملے میں کہ اس کی زندگی، عزت اور آبرو محفوظ رہے، شوہر سے اختلاف نہ ہو، کوئی مالی پریشانی نہ ہو۔ ایسا کم ہوتا ہے مگر ڈر ہمیشہ رہتا ہے کہ داماد دوسری شادی نہ کرلے، طلاق دے کر واپس اس کے میکے نہ بھیج دے۔ یہاں کا قانون برطانیہ والا نہیں… عورت کو کہیں سہارا نہیں ملتا۔ قصور ہو نہ ہو، بدنامی، رسوائی اور ذلت اسی کی ہوتی ہے۔ کوئی اس سے دوسری شادی نہیں کرتا۔‘‘
وہ حیرت اور خوف سے طارق کی باتیں سنتی رہی جو ہمیشہ کڑوا ہی بولتا تھا۔
٭…٭…٭
شیریں کی زندگی دو متضاد قوتوں کے درمیان تقسیم ہوکر رہ گئی تھی۔ وہ اپنی زندگی جینے کا رسک لے جو غیر یقینی و بے مقصد اور غیر محفوظ ہے یا حالات سے سمجھوتہ کرلے؟ اس صورت میں وقت کے فیصلے کے سامنے سر جھکا دے۔ کیا ایسا کرنا دانشمندی، دور اندیشی اور حقیقت ہوگی؟ کیوں نہ وہ اس سے پوچھ لے کہ وہ انجینئر بن جائے گا مستقبل میں…! کیونکہ بیگ گرائونڈ مضبوط ہے اور پھر وہ خودمختار بھی ہے۔ بے شک ایک لڑکی کے لئے خود پوچھنا کہ تم مجھ سے شادی کرو گے، اپنی اہمیت کم کرنے والی بات ہے مگر اسے اب ایک واضح فیصلہ کرنا ہے۔ مستقبل کو دیکھے یا اہمیت کو! اگر اس نے ایک برس بعد شادی کرنے کا کہہ دیا تو…؟ ایک برس بعد تو اس کے جذبات بدل بھی تو سکتے ہیں؟ وہ ایک برس اس زندان میں کیسے گزارے گی…؟
وہ کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو اک دم ایک خیال اس کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ قسمت کا فیصلہ ٹاس پر چھوڑ دیا جائے۔ فون کروں یا نہیں…؟ ٹاس فون کے حق میں آیا۔
وہ بے آواز دروازہ کھول کر باہر آئی۔ اس کا سینہ بری طرح دھڑک رہا تھا جس کی صدا کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ کمرے کی روشنی اس نے پہلے ہی گل کردی تھی۔ لائونج میں باہر سے آنے والا تھوڑا سا اجالا تھا، اس میں وہ ٹیلیفون تک اپنا راستہ دیکھ سکتی تھی۔ اس کی ممی، پاپا کے بیڈ روم کا دروازہ بند نہیں تھا۔ اندر تاریکی تھی۔ فون تک پہنچنے سے پہلے اس نے مما کی سرگوشی سنی۔ ’’کتنی مہنگی پڑ رہی ہے تمہاری غلطی! کیا تمہیں اندازہ نہیں ہوا تھا؟‘‘
پاپا نے لمحاتی خاموشی کے بعد سرگوشی میں ہی جواب دیا۔ ’’مجھے اندازہ ہے لیکن حقیقت کا اندازہ تو مجھے یہاں آکر ہوا۔‘‘
’’تم نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے معلوم کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’دھوکا کھا گیا میں… حب الوطنی کے پرجوش اور جذبوں سے بھرے بیانات سے… یہاں جیسی منافقت میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ لوگ جو کہتے ہیں، اس کا الٹ کرتے ہیں۔‘‘
’’ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا اب ہم واپس نہیں جاسکتے؟ ‘‘ وہ تیزی سے بولیں۔
’’ نہیں۔ اب ممکن نہیں۔‘‘
’’سوال ہمارے مستقبل کا نہیں… میں بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند اور پریشان ہوں۔ مجھےشیریں کی بہت فکر ہے۔‘‘
’’اللہ بہتر کرے گا۔ وقت بڑا مرہم ہے، وہ نہ صرف زخم مندمل کردے گا بلکہ سمجھا بھی دے گا۔ ہمارا فیصلہ غلط نہیں تھا۔‘‘
دوسرے لمحے دروازہ بند ہوگیا اور اس کے ساتھ آوازیں بھی…! شیریں بے حس و حرکت بیٹھی رہی جیسے اس پر کوئی سکتہ طاری ہوگیا ہو۔ وہ اسٹول پر ساکت بیٹھی رہی۔ ایسے کچھ بدلنے والا نہیں۔ یہ لوگ وقت گزار رہے ہیں مجھے بریک کرنے کے لئے، میری مزاحمت ختم کرنے کے لئے…! ان کا یہ خیال ہے کہ میں اپنی زندگی ان کے قدموں میں ڈال دوں گی۔ آخر یہ اس قدر خود غرض کیوں ہوگئے ہیں؟
اس نے نمبر گھمایا۔ اسے معلوم تھا کہ فون اس کے بیڈ روم میں ہے۔ چار بار گھنٹی بجنے کے بعد دوسری طرف سے ریسیور اٹھایا گیا۔ اس نے خوابیدہ لہجے میں ’’ہیلو‘‘ کہا۔
’’شہزاد…!‘‘ اس نے بڑی آہستگی سے کہا کہ کوئی اس کی آواز نہ سن لے۔
’’شیریں تم…؟‘‘ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ ’’اس وقت…! خیریت تو ہے نا؟‘‘
’’مجھے تم سے ایک سوال کرنا ہے۔ تم ہاں یا نا میں جواب دو گے۔ اس پر میری زندگی کا انحصار ہے۔‘‘
’’شیریں! ہوش میں تو ہو؟ کیا ہوا، مجھے بتائو…؟‘‘ اس نے تجسس سے سوال کیا۔
’’شہزاد…! شادی کرو گے مجھ سے…؟‘‘ وہ ایک سانس میں بول گئی۔
’’بھلا یہ کیا احمقانہ سوال ہے… تم اس کا جواب جانتی ہو… بالکل کروں گا۔ تم سے کہہ چکا ہوں۔‘‘
’’فوراً اور میرے ماں، باپ کی مرضی کے بغیر…؟ کورٹ میں یا جہاں تم چاہو… ہاں یا نہیں؟‘‘
اس نے جواب دینے میں چند لمحے توقف کیا۔ غالباً وہ سمجھ گیا تھا کہ شیریں ہسٹریا کا شکار ہے۔ ’’ہاں!‘‘
’’تو مجھے نکال کر لے جائو گھر سے… میں خود ہی نکل آتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے… لیکن اس وقت آدھی رات کو نہیں… مجھے وقت تو دو۔‘‘
’’وقت نہیں ہے میرے پاس… میں تو بات بھی نہیں کرسکتی تم سے…!‘‘
’’میں خود رابطہ کروں گا کل… میں کوئی راستہ نکال لوں گا… تمہارے والدین سے بات کروں گا۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں… تمہارا بات کرنا لاحاصل ہوگا۔ تم بے عزت ہوکر جائو گے۔‘‘
’’لیکن تمہارے والدین تعلیم یافتہ، مہذب اور سمجھدار ہیں۔‘‘
’’تم ان کے مزاج، طبیعت اور ذہنیت سے واقف نہیں ہو۔‘‘
’’میں اکیلا نہیں بلکہ اپنے والدین کے ساتھ آئوں گا۔ وہ اپنی بات منوا کر ہی دم لیں گے۔ مجھے صرف دو دن چاہئیں۔ کل نہیں تو پرسوں…! پھر میں اپنی جان کو لے آئوں گا، مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ اس نے دلاسا دیا۔
’’اچھا! پھر کھائو میری قسم!‘‘ اس نے دھڑکتے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’او میرے خدا…! تم قسم پر اعتبار کروگی، میری زبان پر نہیں جو تمہارے ہونٹوں کی مہر سے بندھی ہوئی ہے…؟ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں کیسا ہوں، کیا ہوں، پھر بھی تم مجھے…!‘‘
’’معلوم نہیں کیوں انجانے خوف کے پھنکارتے ناگ مجھے ڈستے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔‘‘
بس اس کے بعد وہ ہوا، جو نہ ہوتا تو اچھا تھا۔
شہزاد کا اپنے والدین پر اندھا اعتماد پارہ پارہ ہوگیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے ماں، باپ جو اسے حد سے زیادہ چاہتے ہیں، انکار کردیں گے۔ تیسرے دن اس کی ایک ہم جماعت جو اس کی ہمراز تھی، شہزاد کا خط دے گئی۔
ایک ہفتے کے بعد شیریں آدھی رات کو گھر سے نکلی اور شہزاد کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ان کی شادی دوست کے گھر پر انجام پائی۔ انہوں نے اپنے اپنے گھر فون کرکے اطلاع دی اور ہنی مون کے لئے مری چلے گئے۔ شادی کی خبر سے صدمے سے وفات پانے والے والد کی اطلاع اسے ان کے چہلم کے بعد ملی۔
گھر کے دروازے اس پر ہمیشہ کے لئے بند کردیئے گئے۔ شہزاد کی ماں کو بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے لیکن گھر میں ساس، بہو بالکل دشمنوں کی طرح تھے۔ مسئلے کا حل شہزاد کے باپ نے نکالا۔ انہوں نے بیٹے کی نوکری کا بندوبست بیرون ملک کردیا۔ وہ ملازمت بری نہ تھی مگر شہزاد وہاں بھی خالی ہاتھ نہیں اترا تھا۔ باپ نے اسے معاشی طور پر مستحکم کردیا تھا۔ شیریں ماں بنی تو دادا، دادی آنے پر مجبور ہوئے۔
کسی دشواری کے بغیر اس نے اپنے بیٹے وسیم کو لندن کے اسی اسکول اور بورڈنگ ہائوس میں داخل کرا دیا جہاں وہ خود پڑھتی رہی تھی۔ اب ایک ٹیچر، پرنسپل بن گئی تھی، اس لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ چند پرانی ہم جماعتوں سے بھی ملی تھی۔
زندگی نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اب ایک ڈگر پر آگئی تھی۔ تقدیر نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا تھا۔ اس کے اندیشے جو شاید اس کے دشمنوں یعنی بہن، بھائی اور ماں، باپ کی دلی آرزو ہوں گے، غلط ثابت ہوئے۔ شہزاد دھوکے باز اور مطلب پرست ثابت ہوا نہ اسے مالی خوشحالی سے محروم ہونا پڑا جو اس کے والدین کی طرف سے حاصل تھی۔ یہاں سب ایک دوسرے سے لاتعلق اپنی اپنی زندگی جی رہے تھے اور اس وقت کو بھول چکے تھے جو انہوں نے ایک فیملی کی حیثیت سے ساتھ گزارہ تھا۔ شیریں کے لئے اب فیملی کا مطلب سرے سے بدل چکا تھا۔
پھر یہ پرسکون، خوش و خرم اور مطمئن زندگی کا شیش محل ایک دن اچانک ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔ شہزاد ایک امریکی فرم میں ملازم تھا۔ وہ انجینئر تھا۔ اپنی ذہانت سے اس نے بہت کم وقت میں نمایاں ترقی کی۔ وہ کمپنی کے کیمپس میں رہتے تھے جو ایک طرح سے ’’منی امریکا‘‘ تھا جہاں وہ سب دستیاب تھا جو مملکت میں ممنوع تھا اور قابل گردن زنی…! شہزاد کا پروڈکشن پلانٹ اس کی رہائشگاہ اور تفریح گاہیں سب چند کلومیٹر کے اندر تھیں۔ ایک صبح وہ معمول کے مطابق گھر سے گیا مگر لوٹ کے نہیں آیا۔ وہ باتھ ٹب میں لیٹی بیڈ ٹی کے نام پر بلیک کافی پی رہی تھی کہ شب گزشتہ کا خمار اتر جائے۔ اس وقت ان کے بیڈ روم کے پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی تو وہ بلاتکلف باتھ ٹب سے نکل کر کال ریسیو کرنے چلی گئی۔ کسی اجنبی نے رسمی الفاظ کے بعد اسے مطلع کیا کہ شہزاد ایک حادثے کے نتیجے میں ایک الیکٹرک بیلٹ میں الجھ کر فرنس یعنی بھٹی میں پہنچ گیا تھا اور نکلا تو کوئلہ تھا۔
اس کوئلے کو شیریں نے نہیں دیکھا کیونکہ فوری طور پر وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ شہزاد کے والدین کو اس کے بعد مطلع کیا گیا۔ وسیم کو بتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ شیریں نے یہ کام بہت بعد میں لندن جانے کے بعد کیا۔ اب شیریں کے لئے عذاب کا نیا دور شروع ہوا۔
شہزاد کے سارے اثاثے اور واجبات سمیٹ کر دوسری بار وطن لوٹی۔ وہ پراعتماد تھی اور طے کرچکی تھی کہ آنے والی زندگی کا انداز کیا ہوگا۔ رسماً اس نے سسرال میں قیام کیا۔ سارے کوسنے، بددعائیں اور خطابات اس نے خندہ پیشانی سے ایک کان سے سنے اور دوسرے سے اڑا دیئے۔ ماں کے بیٹے پر ہر دعوے کو مسترد کردیا۔ اب وہ صرف اس کا مرحوم شوہر تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ بیرون ملک قیام کے دوران اس نے تعلیم کو وقت گزاری کا ذریعہ بنا لیا تھا، تعلیم پوری کی۔ اب وہ بہتر طور پر کوالیفائیڈ تھی۔ اسے ہر طرح کی زندگی کا تجربہ اور اعتماد حاصل ہوچکا تھا۔
پہلی ضرورت رہائش تھی جس کا ہر قیمت پر انتظام ضروری تھا۔ سسرال کے بک بک خانے میں رہنا اب بہت دشوار تھا۔ دوسرے اکیلے رہنے کا چیلنج سب سے بڑا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ اس کا حل اسلام آباد میں نکل آیا۔ یہاں ایک نہیں لاتعداد گرلز ہاسٹل تھے، ورکنگ ویمن ہاسٹل تھے اور ماہانہ بنیاد پر دستیاب گیسٹ ہائوس تھے جہاں اندرون ملک کی لڑکیاں، عورتیں اور طالبات استفادہ کررہی تھیں۔
ابھی رہائش کی تلاش سرگرمی سے جاری تھی کہ شیریں کو ماں کا فون موصول ہوا۔
گھر سے فرار ہونے کے بعد اس کا برسوں بعد چوری چھپے ماں سے رابطہ ہوا تھا۔ اس پر ناک کٹوانے والی کے ساتھ باپ کی قاتل کا لیبل اب بھی چسپاں تھا مگر دھندلا پڑ گیا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ ماں اکیلی ہے۔ خورشید اور طارق کو ماں نے گستاخ بہوئوں کے جرم میں نکال دیا تھا۔
وہ ماں سے ملی۔ ماں کی ممتا جو اولاد کے لئے ایک بے کراں سمندر ہوتی ہے، وہ ماں کے گھر منتقل ہوگئی جہاں ایک بور، بیکار اور بے مقصد زندگی کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ اسے بہت جلد لیکچرر شپ مل گئی اور پھر وہ لاہور منتقل ہوگئی۔
حیرت انگیز طور پر اس نے شوہر کھو دینے کے غم کو اتنی ہی آسانی سے بھلا دیا، جتنی آسانی سے باپ کا غم بھلا دیا تھا۔ وہ زندگی کے اوپر اتنا اختیار رکھتی تھی کہ ہر قسم کے حالات، حادثات اور نشیب و فراز سہ سکے۔ وہ کوئی لاوارث، بیکار، فالتو پرزہ اور کسی قابل نہ رہنے والی عام عورت کی طرح نہیں تھی۔ اسےباعزت ملازمت مل گئی تھی۔ کوئی پوچھنے اور
انگلیاں اٹھانے والا نہ تھا، جیسا کہ معاشرے میں ایک پرکشش عورت کو آزاد زندگی گزارتے دیکھ کر لوگ سماج کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ اسے خون اور غصے کے گھونٹ پینا نہیں پڑے تھے۔
کالج کے بعد ہاسٹل کے کمرے کو مقفل کرکے وہ ہر شام گاڑی میں کہاں جاتی ہے، کس سے ملتی ہے اور کب واپس آتی ہے؟ کسی کو معلوم نہ تھا۔ اس کی غیر نصابی سرگرمیوں کے چرچے شروع ہوئے تو پرنسپل نے بڑے دوستانہ انداز میں تفتیش کی اور اسے محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ خود کو باکردار ثابت کرنے کے لئے اس نے گرلز ہاسٹل کی وارڈن کا عہدہ قبول کرلیا۔
رات کو جب سونے کے لئے بستر پر دراز ہوتی اور دیر تک نیند نہ آتی اور سنسان راتیں اسے ناگوں کی طرح ڈسنے لگتیں تو اسے بہت جلد ایک گھر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک ایسا گھر جو اپنااور ایک عورت کے خوابوں کی طرح ہو۔
زندگی کا آدھا راستہ طے ہوا تھا۔ وہ ایک چوراہے پر کھڑی تھی، پیچھے کی زندگی کے مقابلے میں آگے کی زندگی زیادہ مشکل اور کٹھن تھی۔ جب وہ ماں کی عمر کو پہنچ جائے گی تو دولت سے اکیلے پن یا بڑھاپے کے عوارض کا علاج نہیں ہوگا۔ قسمت نے ٹانگ اڑائی اور اس کے سامنے رستم خان کو پیش کردیا۔ اس نے اسے قبول کرلیا۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا۔
٭…٭…٭
تیسری بے سدھ پڑی لڑکی اسپیئر وہیل کی طرح تھی۔ پانچواں پہیہ جو کسی کی جگہ بھی استعمال ہوجاتا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی تھکن کے احساس سے دوچار تھیں۔ یہ ایک اور سنسنی سے بھرپور شب کی سحر تھی جو سورج کے حساب سے تو بہت پہلے شروع ہوچکی تھی مگر ان کے لئے ویک اینڈ کی صبح اس اینٹی کلائمکس کا نام تھا۔ وقتی طور پر صرف تھکن اور بیزاری …اندر کی آگ کے سرد پڑ جانے کے بعد راکھ کی طرح…! اب رفتہ رفتہ آنے والے چند روز میں حرارت پھر جاگے گی، خواہشوں کی سنسنی خیزی دوبارہ بڑھے گی اور پھر پانچ دن کام اور کام…! اس کے بعد تفریح کے دو وقفے…!
دو لڑکیاں اور ان کے بوائے فرینڈ تیسری کے ون بیڈ اپارٹمنٹ میں تھے۔ تیسری کا پارٹنر گم ہوگیا تھا۔ اس کا فون بند تھا اور یہ فرض کرنا مشکل تھا کہ وہ کسی اسپتال میں ہے یا مردہ خانے میں! باقی دو لڑکیوں نے تھوڑی سی بد مزگی محسوس کی تھی مگر اپارٹمنٹ کی مالک کو آؤٹ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
پرنس گولڈ نے بدمزگی اور بے نیازی سے اپنی گرل فرینڈ کو دیکھا اور بولا۔ ’’چھ مہینے بہت ہوتے ہیں۔ کیا تم بھی وہی سوچ رہے تھے جو میں سوچ رہا ہوں؟‘‘
’’تم کیا سوچ رہے تھے؟‘‘ شامی نے تلخ کافی کا تلخ گھونٹ حلق سے اتار کر سگریٹ کا کش لیا۔
’’ایک تبدیلی… کار کے ٹائروں کو بدلتے رہنا چاہئے۔ آگے والے پیچھے، پیچھے والے آگے…!‘‘
’’میں ایسا بالکل نہیں سوچ رہا تھا۔ مجھے نئے ٹائروں کی فوری ضرورت ہے۔‘‘ وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔
’’میرا کام بہت سخت ہے اور وہ کمینہ مجھے ایک لمحہ بھی فراغت کا نہیں دیتا… یہ فی گھنٹہ اجرت والا کام ہمارے ملک میں دو دن کا ہے اور یہ اجرت بھی…! کیا کروں مجھے نئی جاب نہیں مل رہی۔‘‘
ابھی چلائو… گرمیوں کی چھٹیوں تک… لیکن پرنس! میری تو مجبوری ہے… تم تو پرنس ہو۔‘‘
وسیم عرف پرنس گولڈ نے تلخی سے کہا۔ ’’صرف نام کا پرنس ہوں… میرے پاس کچھ بھی تو نہیں ہے… کیا پرنس مجھ جیسے ہوتے ہیں؟ میں اک دم کنگلا ہوں… واپس میں جانا نہیں چاہتا… میں دیکھ چکا ہوں ماں کا انجام…! وہ مجھ سے ایک زینہ اوپر ہے امیدواروں کی فہرست میں… جیسے تمہارے ملک میں بادشاہت کے امیدواروں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کہ کس کا نمبر کس کے بعد ہے۔ یہ سو سالہ بڑھیا مرے تو ستر برس سے زیادہ کا پرنس بادشاہ بنے۔‘‘
’’یہ لوگ جلدی نہیں مرتے۔‘‘ شامی نے اتفاق کیا۔ ’’کیونکہ انہیں بچانے کے لئے ہمہ وقت ماہرین موجود رہتے ہیں۔‘‘
’’ان کی کیا بات کریں، میری گرینڈ ما کوئن ہے۔ اس کا ابھی مرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘
شامی ایک سرد آہ بھر کر بولا۔ ’’ساری دنیا میں نوجوانوں پر بڑا ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے۔ ان کے بوڑھے دولت مند ماں، باپ اپنی عمر دراز کرتے جارہے ہیں۔‘‘
’’یار…! قانون ہونا چاہئے جیسے بوڑھے گھوڑے کو گولی مار دیتے ہیں کہ اب کوئی کام نہیں تمہارا، اس دنیا میں!‘‘
’’ہاں! کام نہیں تو پھر جینے کی کیا ضرورت ہے… کیا تم مرنا چاہو گے کہ ان کی عمر کو پہنچنے کے بعد…؟‘‘
وسیم ہنس پڑا۔ ’’کیا کوئی الیکٹرک چیئر پر بیٹھنا پسند کرتا ہے یا زہریلا انجکشن لگوانا…؟‘‘
’’مگر پھر چوائس تمہاری نہیں ہوگی۔ تم سمجھتے ہو کہ نانی نے اپنی زندگی جی لی۔ اب ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں تو وہ مر جائیں اور اپنا سب کچھ تمہیں سونپ جائیں تاکہ تم اپنی زندگی سکھی بنا سکو۔‘‘
’’دولت تو نانا نے دن، رات کی کوشش، جدوجہد اور اپنی خداداد صلاحیت سے بنائی اور نانی تو اب اس کا استعمال بھی نہیں کررہیں۔ وہی پرانا گھر، پرانی گاڑی، پرانا سامان اور ملازم بھی پرانا…! نہ کھانوں سے لطف اندوز اور نہ ہی لباس کا ذوق شوق! اس عمر کی دولت مند خواتین کیا کیا لباس پہنتی ہیں، اپنی ہر شام کسی فائیو اسٹارز ہوٹل میں گزارتی ہیں، غیر ممالک کی سیر و سیاحت کرتی ہیں لیکن وہ تو بس بیٹھی ہوئی ہیں خزانے پر سانپ بن کر…! نہ کسی کو دولت کے مزے اٹھانے دیتی ہیں اور نہ خود اٹھاتی ہیں۔‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولا۔
’’مار دے اس سانپ کو… کچل دے اس کا پھن…! لیکن پھر بھی تجھے کیا ملے گا شاید وہی الیکٹرک چیئر۔ جو اس کا ہے، وہ تو جائے گا تیری ماں کی تحویل میں اور تیرے انکل اس سے دگنا لے جائیں گے پھر تو انتظار کرنا کہ ماں مرے اور تب تک تو خود بوڑھا ہوجائے گا۔ تو خاک لطف اور مزے اڑائے گا۔‘‘
وسیم نے ایک لمبی سرد سانس لے کر افسردگی سے سر ہلایا اور بولا۔ ’’میں نہ صرف دکھی ہوں بلکہ قابل رحم بھی! میں پھکڑ پرنس ہوں۔‘‘
’’اچھا یار! یہ بتا کہ تو پڑھ کیوں رہا ہے؟ کیا کرے گا ڈگری لے کر…!‘‘
’’میں خود نہیں جانتا ہوں۔ ماں اور اس کی ماں سارے فیصلے کرتی ہیں۔ نہ مانوں ان کی بات تو یہ جو تھوڑا بہت خرچ ملتا ہے، وہ بھی بند ہوجائے گا۔ شاید مجھے کہیں کھڑے ہوکر بھیک مانگنا پڑ جائے۔‘‘
’’یہ آنے والا پیسہ اس سے زیادہ ہے جو میں کماتا ہوں۔‘‘
’’مگر میرے لئے کم ہے، میں کیا کروں یار! جو میری ساری خواہشات پوری ہوسکیں؟‘‘ وسیم نے سوال کیا۔
’’جوا کھیل… وہ کیسینو والا نہیں، زندگی کا جوا! اپنے آس پاس دیکھ ،کیا لوگ کسی ڈگری سے دولت مند ہوئے ہیں؟‘‘
وسیم نے جھلا کر تیز و تند لہجے میں کہا۔ ’’پاگل کے بچے! مجھے راستہ دکھا۔‘‘
’’بتا تو رہا ہوں کہ جوا کھیل، زندگی کو دائو پر لگا۔ ناجائز، غیرقانونی کام کر۔ منشیات، اسلحہ، کرنسی کی اسمگلنگ، ڈاکے ڈال، جعلی نوٹ چھاپ، تخت یا تختہ!‘‘
پرنس وسیم کی گرل فرینڈ اٹھ بیٹھی۔ اس نے کہا۔ ’’میں کام دلا سکتی ہوں تمہیں… میں بہت دیر سے تمہاری بک بک سن رہی تھی۔ ہمت ہے کام کی ۔بہت کمائو گے۔ اتنا کہ خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘
’’کام کیا ہے…!‘‘ وسیم نے اس کے بشرے سے اندازہ کیا کہ وہ سنجیدہ ہے، نشے میں یا غنودگی میں نہیں ہے۔
’’کیریئر بننے کا… مجھے مل جاتا لیکن میرے پاس باعزت حوالے نہیں تھے۔ دو برس پہلے کی بات ہے۔ ایک کمینے دغاباز نے شادی کا چکر دے کر مجھے ماں بنا دیا تھا۔ اس میں میری اپنی بھی لغزش تھی۔ مجھ جیسی لڑکیاں جو بڑے سہانے سپنے دیکھتی ہیں، وہ محبت میں فریب کھا جاتی ہیں اور اندھا دھند دوڑتی ہیں تو انہیں ٹھوکر لگتی ہے، وہ داغ دار ہوجاتی ہیں۔ اب کیا پوری کہانی سنائوں…؟ اسے شارٹ کئے دیتی ہوں۔ وہ مجھے ملا تھا۔ اس کی شاندار گاڑی اور اس کا رہن سہن دیکھ کر میں مسحور ہوکر رہ گئی تھی۔ اس کے پاس اچھے حوالے تھے، وہ کیریئر بن گیا۔ کوئی ایئرہوسٹس اس کے ساتھ تھی۔ میں تمہارا ہر طرح سے ساتھ دے سکتی ہوں۔‘‘
وسیم بڑی خاموشی سے سنتا رہا پھر بولا۔ ’’کیریئر…؟‘‘
’’ایک ٹرپ میں دس ہزار امریکی ڈالر، اخراجات الگ… خرچہ آمدورفت، رہائش…! اگر واپسی میں قسمت سے کام مل جائے تو رقم ڈبل!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’کیا لانا لے جانا ہوگا؟‘‘ وسیم کے لہجے میں دلچسپی اور تجسس تھا۔
’’جو بھی ہو، یہ جاننا ضروری نہیں… آم کھانے سے مطلب، پیڑ گننے کا کیا فائدہ!‘‘ اتنا کہہ کر وہ واش روم میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ موٹرسائیکل پر گرم گرم پیزا پہنچانے کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ اس نے دونوں طرف کی بکواس خندہ پیشانی سے سنی۔ یہ اس کی مجبوری تھی۔ بہت کچھ سننا اور برداشت کرنا پڑتا تھا کیونکہ ملازمت غلامی ہی ہوتی ہے۔
’’ بیس منٹ کہا تھا… پچیس منٹ بعد آئے ہو، دو آرڈر بک نہیں ہوئے محض تمہاری وجہ سے… کیا نقصان تمہارا باپ پورا کرے گا؟‘‘
اگلے دن دو باتیں ہوئیں۔ پہلے ٹریفک جام میں راستہ بناتے ہوئے اسے ڈلیوری میں پندرہ منٹ کی تاخیر ہوئی۔ اس آرڈر دینے والی نے پیزا لینے سے انکار کے بعد اسے گالیاں بھی دیں کہ تم کالے لوگ ہوتے ہی حرام خور ہو… وہ بددل ہوکر واپس گیا تو مالک نے پیزے کا نقصان اس کے حساب میں ڈال دیا۔
’’اس کی قیمت اب تم دو گے… خود کھائو یا میرے کتے کو کھلائو۔‘‘
’’لیکن یہ مائیکروویو گرم کرکے کام آسکتا ہے… تازہ ہوجائے گا۔‘‘
’’شٹ اَپ…! مجھے عقل مت سکھائو۔ کیا تم گاہک کو بے وقوف سمجھتے ہو۔ وہ جان لیتا ہے کہ یہ دوبارہ گرم کیا گیا ہے۔ میری گڈول خراب ہوتی ہے۔‘‘
اس ہفتے میں تیسری بار اس نے پیزا نگلا۔ شام کو اس کی چھٹی کی درخواست مسترد ہوگئی۔ ’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو؟ ویک اینڈ پر چھٹی!‘‘
وسیم کے لئے جولی سے نہ ملنا ایک سنہری موقع سے انکار کے مترادف تھا۔ اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ بولا۔ ’’اوکے! میں اس جاب پر لعنت بھیجتا ہوں، میرا حساب کردو۔‘‘
’’تم کو نوٹس دینا ہوگا۔‘‘ مالک دہاڑا۔ اس کا انکار سن کر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
’’وہ تو میں نے کل ہی دے دیا تھا۔ اب تم سیدھی طرح رقم نکالو گے یا پھر میں نسلی امتیاز اور استحصال کا معاملہ اٹھائوں؟‘‘ وسیم نے بڑے جارحانہ انداز میں دھمکی دی۔
پھر اس کے مالک نے کوئی پس و پیش نہیں کیا۔ رقم جیب میں ڈال کر وہ جولی کے پاس بڑی مشکل سے پہنچا۔
’’تھینکس کہ تم نے انتظار کیا۔ میں کچھ لیٹ ہوگیا تھا۔‘‘
’’کیا کہا کچھ…! آدھا گھنٹہ کچھ نہیں؟ بہت ہوتا ہے۔‘‘
’’سوری! مجھے تمہارے لئے جاب کو لات مارنا پڑی ہے۔‘‘
’’میرے لئے نہیں بلکہ حرص نے تمہیں مجبور کیا… خیر! میں نے بات کی تھی تمہارے لئے… باس ٹھیک آٹھ بجے ملے گا۔ اس دوران میں ہم کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ کھانے پینے کے لئے وقت ہے، دوپہر کو کھانے کی فرصت ہی نہیں ملی۔‘‘
باس تقریباً پچاس برس کا صحت مند اور صورت سے کاہل نظر آنے والا شخص تھا۔ دو بیڈ کے اپارٹمنٹ میں سخت بے ترتیبی تھی۔
’’جگہ بنائو، بیٹھ جائو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ملازمہ نہیں آئی ورنہ جگہ کا مسئلہ نہ ہوتا۔‘‘ ان دونوں نے مل کر تیزی سے ایک بڑے صوفے سے کتابیں، رسالے اور اخبار ہٹائے اور بیٹھ گئے۔
’’جولی نے تمہیں بتایا ہوگا؟‘‘ وسیم نے بغیر کسی تمہید کے کہا۔
’’جولی کو چھوڑو… تم بتائو کہ تمہارے ملک میں تمہارا کون ہے؟‘‘
’’ڈیڈی…!‘‘ جولی نے اس کی بجائے جواب دیا۔ ’’اس کے بہت معتبر حوالے ہیں۔‘‘
باس مسکرادیا اور خوش دلی سے بولا۔ ’’ذرا مجھے بھی امپریس ہولینے دو۔‘‘
’’میں تمہیں بتاتا ہوں۔‘‘ وسیم نے جلدی سے کہا۔ ’’میرا نانا یہاں کا نامور ڈاکٹر سرجن تھا… مجھے یقین ہے آج بھی اسے بہت لوگ جانتے ہوں گے۔ وہ ماہر امراض قلب تھا۔ وہ یہاں سے سعودی عرب چلا گیا جہاں وہ بیس برس رہا اور وہ ماہر ہارٹ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے شیوخ اور حکمراں فیملی کے ساتھ رہا۔‘‘
’’بیس برس ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے، یقیناً اسے آج بھی سب جانتے ہوں گے۔‘‘
وسیم نے اپنا سر ہلا دیا اور بولا۔ ’’اس کے بعد میرا باپ انجینئر رہا۔ ایک المناک حادثے نے ان کی زندگی ختم کردی۔ میری ماں اور ان کے دو بھائی یہاں پڑھتے رہے تھے۔ اس اسکول میں اب میں پڑھ رہا ہوں۔ وہاں کا پرانا اسٹاف میری ماں کو جانتا ہے۔ آج کل وہ پاکستان کے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔‘‘
’’تمہارے نانا اور ماں نے برطانوی شہریت کیوں نہیں لی؟‘‘
’’نانا اپنے وطن عزیز کے لئے جذباتی ہوگئے تھے جیسا کہ بڑھاپے میں سب ہوجاتے ہیں۔‘‘
وسیم نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا جب کسی نے نانا کی عمر کے بارے میں سوال نہیں کیا۔
’’تمہاری ماں کیوں چلی گئی، جبکہ یہاں آنے کے بعد واپسی کا کوئی سوچتا نہیں۔‘‘
وسیم نے دوسرے جھوٹ کا سہارا لیا جو مطمئن کردینے والا تھا۔ ’’اس لئے کہ نانا کے مرنے کے بعد نانی کی دیکھ بھال کرنے کے لئے… ان کے سوا بھلا کون دیکھ بھال کرتا؟‘‘
’’اُن کے پاکستان میں بھی اچھے تعلقات ہوں گے؟‘‘ وہ سوچتے ہوئے بولا۔
’’وہاں انہیں غیر معمولی شہرت ملی۔ اسلام آباد میں ان کی بہت زیادہ شہرت تھی۔ مریضوں کو وقت لینے کے لئے دن نہیں، ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ نانی اب بھی وہیں مقیم ہیں۔‘‘
وسیم نے دانستہ وہاں کا نقشہ کھینچنے سے گریز کیا جو ایک پرشور عام سی آبادی تھی، جہاں اس کی نانی کو دوچار پرانے بڈھوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS