’’اماں…! میں خبردار کررہا ہوں کہ آپ کو کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی لاڈلی بیٹی کا ہونہار سپوت جو امریکا گیا تھا پڑھنے، ایئرپورٹ پر گرفتار ہوا ہے۔ کسی غیرملکی بیوی کے ساتھ!‘‘
زیب النساء کا ہاتھ اس طرح کانپنے لگا جیسے وہ رعشہ کی مریضہ ہوں۔ انہوں نے پوچھا۔ ’’کس جرم میں…؟ اسے آج آنا تھا۔‘‘
’’اب اس نے بتا دیا ہوگا کہ وہ یہاں آپ سے ملنے آیا تھا۔ اس پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام ہے۔‘‘
زیب النساء اک دم غصے سے کھڑی ہوگئیں۔ ’’یہ جھوٹ ہے… ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’جھوٹ، سچ کا پتا چلانے ہی پولیس آپ کی خدمت میں حاضر ہوگی۔‘‘
زیب النساء کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو وہ فون بند کرکے اندر کی جانب تیزی سے چلی گئیں۔ ٹی وی کا اسکرین روشن ہونے تک وہ صوفے پر کسی کٹی شاخ کی طرح گر چکی تھیں۔ ان کی ٹانگوں میں جیسے جان نہیں رہی تھی، رگوں میں خون برف کی طرح منجمد ہونے لگا تھا۔ انہوں نے خبر سنی تو ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ انہوں نے شیریں کو بھی دیکھا اور اس کے دوسرے شوہر کو بھی…! اچانک جیسے ٹی وی آف ہوگیا، کمرے کا ہر بلب فیوز ہوگیا، کمرے میں اندھیرا پھیل گیا، ہر آواز معدوم ہوگئی۔
ان کی آنکھ کھلی تو وہ کسی اسپتال کے کمرے میں تھیں۔ پرائیویٹ روم میں ایک اجلی چادر پر سیدھی دراز تھیں۔ ان کے بائیں بازو میں پیوست سوئی سرہانے کی طرف اسٹینڈ پر لٹکی گلوکوز کی ڈرپ سے جڑی ہوئی تھی۔ مستعد نرس قطرہ قطرہ گرنے والے توانائی بخش محلول کی رفتار کو ایڈجسٹ کررہی تھی۔ سر گھمانے پر ان کی نظروں کے سامنے ڈاکٹر چوہدری نوازش کا چہرہ آگیا جس پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔
’’ڈاکٹر چوہدری! کیا آپ مجھے یہاں لائے ہیں؟‘‘
’’فکر کی کوئی بات نہیں… شاک کا معمولی اثر تھا۔ اکمل نے مجھے بتایا۔‘‘ انہوں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
’’کیا آپ کو وسیم کی گرفتاری کا علم ہے؟ وہ پولیس کی حراست میں ہے۔‘‘
’’یہ تو کل کی بات ہے، پولیس آئی تھی آپ کا بیان لینے… ڈاکٹروں نے اجازت نہیں دی۔‘‘ ڈاکٹر چوہدری بتانے لگے۔ ’’فکر میں مبتلا نہ ہوں، آج آپ کا وکیل بھی آجائے گا۔ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست اس نے کل ہی منظور کروا لی تھی۔‘‘
’’اور وہ دونوں… خورشید اور طارق؟‘‘
’’پولیس نے ان سے تفتیش کی ہے، آج وہ بھی ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جو بھی سچ ہے، وہ پولیس کو صاف صاف بتا دیں۔ وہ سارے خاندان کو ایک شخص کے جرم کی پاداش میں نہیں پکڑیں گے۔‘‘
’’شیریں کا کچھ پتا چلا…؟ اس کی کوئی خبر ہے ڈاکٹر!‘‘
ڈاکٹر چوہدری نوازش نے نفی میں سر ہلایا اور بولے۔ ’’میں نے لاہور میں ایک دوست کے بیٹے کو اس کام پر لگایا ہے۔ وہ کرائم رپورٹر ہے لیکن وہ دونوں بھی رہا ہوجائیں گے ضمانت پر… دونوں ہی لیکچرر ہیں۔‘‘
زیب النساء کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر تکیے میں جذب ہونے لگے۔ انہوں نے سسکتے ہوئے کہا۔ ’’کتنی مبارک ہے میری بیٹی کی یہ شادی…! نہ ماں کو پتا چلا اور نہ بھائیوں کو…! اور جو پتا چلا، وہ یہ تھا کہ سہاگ رات کی صبح اس کی حوالات میں ہوئی۔‘‘
’’دیکھو… یہ وقتی پریشانی ہے جو جلد دور ہوجائے گی۔ اگر وسیم امریکا میں رہ کر غلط کاموں میں پڑ گیا ہے تو وہ خود بھگتے گا۔ اسے نہ تم بچا سکتی ہو اور نہ اس کی ماں…! بہتر ہے کہ خود کو سنبھالو۔‘‘ ڈاکٹر چوہدری نے اپنی بات ختم کی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک ڈاکٹر دوسری نرس کے ساتھ اندر آیا۔ اس نے زیب النساء کے بازو میں ایک انجکشن لگایا۔ چند لمحوں کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔
٭…٭…٭
خورشید بہت دلبراشتہ، پریشان اور دلگرفتہ تھا۔ ایک سنہری موقع جو اس کی زندگی بدل سکتا تھا، ہاتھ سے نکل چکا تھا اور ایسا اس لئے ہوا تھا کہ ماں نے اس کے مستقبل سے زیادہ اپنے ماضی کو اہم سمجھا تھا۔ اماں کچھ بدلنے کے لئے تیار نہ تھیں کیونکہ ان کی زندگی گھر میں موجود انہی چیزوں سے وابستہ تھی۔ کون سا ڈیکوریشن پیس انہوں نے کب اور کہاں سے لیا تھا؟ انہیں نہ صرف تاریخ بلکہ قیمت تک اس طرح یاد تھی جیسے کل کی بات ہو۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ پورے گھر سے دستبردار ہوجائیں جو ان کے ماضی کا مزار تھا اور کسی جدید گھر میں جا بسیں جہاں یہ سب نہ ہو۔
زیب النساء کے اندازے کے مطابق ان کے دونوں بیٹے خوشحال اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ اس سے زیادہ کی خواہش کرنا لالچ اور ہوس تھی۔ وہ کامیابی کے بدل جانے والے تصور سے قائل ہونے والی نہ تھیں۔ وہ برملا کہتی تھیں۔ ’’تمہارے باپ نے محنت اور قابلیت سے یہ سب حاصل کیا تھا، باپ کے ترکے سے نہیں! وہ نامور امراض قلب کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔ تمہاری طرح ایک ایم بی اے کی ڈگری لے کر بیٹھ نہیں گئے تھے جو اب ہر یونیورسٹی کسی بھی ایرے غیرے کو تھما دیتی ہے۔‘‘
خورشید نے اس دن کا کرب ناک انتظار چھوڑ دیا تھا جو اس کی راتوں کو روح فرسا بنا دیتا تھا۔ ذہنی دبائو نے دن کا سکون اور راتوں کی نیند غارت کردی تھی۔ وہ راتوں کو دیر تک جاگتے ہوئے یہ سوچتا تھا کہ ماں بالآخر یہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دو گز کے گھر میں منتقل ہوجائیں گی جس کے لئے انہوں نے شوہر کے پہلو میں زمین خرید کر محفوظ کرلی تھی، انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی اور نہ اس جگہ کو اپنی آخری آرام گاہ بنا لے۔ ویسے ان کی صحت سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں اس دنیا سے کوچ کرنے میں پانچ سے دس برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ یوں تو موت کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب آجائے۔ اس کے حصے میں آنے والے آج کے دو کروڑ تب تک چار کروڑ ضرور ہوچکے ہوں گے۔
طارق نے اس صورتحال کو قبول کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے اس منصوبے میں بھائی کو شریک کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسے دو ماہ کی غیر متوقع مہلت مل گئی تھی۔ ایک خوشحال مستقبل کے خواب کی تعبیر ابھی اس کی دسترس میں تھی۔ اس کے پلان کو دیگر عوامل نے قابل عمل بنا دیا تھا لہٰذا وہ عجلت سے کام لینا چاہتا تھا۔
اس کی باغی بہن جس نے ایک دن پہلے رستم سے دوسری شادی کی تھی، ضمانت پر چھوٹ گئی تھی کیونکہ بیٹے کے جرم میں اس کی شراکت کسی طرح ثابت نہیں ہوئی تھی، تاہم نام ایف آئی آر میں آنے کی وجہ سے میاں، بیوی عدالتی فیصلے کی وجہ سے باعزت بری ہونے تک معطل تھے۔ زیب النساء کا نام ایف آئی آر میں نہ تھا اور ایک سینئر آفیسر نے جو طارق کے والد کو جانتا تھا، خود ان کا بیان لے کر بات ختم کردی تھی۔ اس افسر کے والد پر حج کے فرائض کی ادائیگی کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا اور طارق کے والد نے آپریشن کرکے انہیں بچا لیا تھا۔ اب ان کے انتقال کو کئی برس ہوچکے تھے، مگر وہ اس احسان کو نہیں بھولا تھا۔
اصل مشکلات رستم کے شوہر بننے کے بعد شروع ہوئیں، جس کے دونوں بیٹے شریک جرم ثابت ہوچکے تھے۔ اگرچہ ان کے جرم کی نوعیت مختلف تھی۔ وہ وسیم کے ساتھی نہیں تھے۔ ان کا منصوبہ وسیم کو ایئرپورٹ سے اغوا کرکے لے جانے کا تھا جسے وہ ایک دوست کے گودام میں قید رکھتے اور رہائی کے لئے ایک کروڑ تاوان طلب کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ وسیم کے تعلیمی اخراجات اٹھانے والی نانی یہ رقم ادا کردے گی۔ جب پولیس نے چھاپہ مارا تو گودام سے غیر قانونی سامان پکڑا گیا۔ گودام کے مالک تو دوسرے لوگ تھے مگر وہاں سے ان کا بیٹا بہادر گرفتار ہوا تھا جسے باپ اور چچا کے اثرورسوخ نے وعدہ معاف گواہ کی حیثیت دے دی تھی۔ بہادر نے جبار اور نذیر کے وسیم کی نانی سے ایک کروڑ بطور تاوان وصول کرنے کے سارے منصوبے کو طشت از بام کردیا تھا۔
معاملہ نہ صرف بے حد نازک بلکہ سنگین ہوگیاتھا کیونکہ معاملے کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گیا تھا۔ وہ دونوں ایک معمولی لیکچرر کے بیٹے تھے، چنانچہ امید یہ تھی کہ انہیں عمر قید نہ کاٹنا پڑتی، تب بھی اگلے چند برس وہ جیل کی ہوا ضرور کھاتے۔ بہادر کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ اس کے لئے ایک بڑے وکیل کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جس نے پولیس کی تفتیش کے نتائج کو تشدد کا نتیجہ قرار دیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اول تو یہ جبار اور نذیر کا منصوبہ تھا اور اس منصوبے پر عمل بھی نہیں ہوا۔ بہادر نے محض دوستی نبھائی تھی، وہ شریک جرم نہ تھا۔
کسی انتقامی جذبے یا کسی کے اکسانے پر وسیم نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ نذیر اور جبار اس کے پارٹنر تھے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ پکڑا گیا اسلحہ وصول کرکے وہ کہاں لے جاتے، شاید بہادر کے گودام میں رکھتے۔ اغوا برائے تاوان کی کہانی جھوٹ تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ان دونوں لڑکوں کا باپ ضرور لیکچرر ہے مگر ان کا دادا اسلحہ بناتا تھا اور یہ اسلحہ ہی دولت مندی کا باعث تھا۔ اس دولت سے رستم نے کوٹھی کھڑی کی اور کار خریدی تھی جو اس کی دوسری بیوی کے زیراستعمال تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جبار اور نذیر کا تایا سے اب بھی تعلق تھا جو کچھ عرصہ پہلے ان کے گھر بھی آچکا تھا۔ وہ دونوں غیر ملکی اسلحہ اپنے تایا کے ذریعے ہی آگے تک پہنچاتے تھے۔
وسیم کے اس بیان نے رستم کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ غصے سے پاگل ہوگیا۔
اس کے گھر کے کاغذات اب پولیس کی تحویل میں تھے اور اس کی گاڑی بھی ضبط ہوچکی تھی۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک وہ کنگال تھا۔ نہ جانے یہ ثابت کرنے میں کتنا وقت اور کتنا پیسہ خرچ ہوگا کہ غیر قانونی ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے والا اس کا باپ تھا، وہ نہیں جو محض ایک لیکچرر تھا۔ قانون اس کے باپ کے اثاثوں کو ضبط کرتا تو غلط نہ ہوتا مگر اس کے مر جانے کے بعد وارثوں کے اثاثے ضبط کرنا، کس قانون کے تحت جائز تھا۔ وہ گھر میں رہ تو سکتا تھا لیکن اسے فروخت نہیں کرسکتا تھا۔ گاڑی عدالتی تحویل میں تھی اور اگرچہ وکیل نے یقین دلایا تھا کہ اسے واپس مل جائے گی لیکن سردست وہ پیدل تھا۔
شیریں نسبتاً محفوظ رہی تھی۔ وسیم کی ماں ہونے کے سوا اب تک اس پر کوئی اور الزام ثابت نہ ہوسکا تھا۔ اس نے وسیم کو امریکا بھیجنے اور اس کے تعلیمی اخراجات دینے سے بھی اپنی لاتعلقی ظاہر کردی تھی۔ وہ امریکا میں کیا کرتا ہے، کیا پڑھتا ہے، کہاں رہتا ہے، اسے کچھ نہیں معلوم… اسے تو وسیم کے بارے میں یہ علم بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان اپنی بیوی کے ساتھ آرہا ہے۔ اسے شادی کا علم تھا اور نہ یہ معلوم تھا کہ وہ پاکستان میں کہاں قیام کرے گا۔ ایک نام اس کے باپ کا تھا جس کی گڈول کام آئی۔ اس کا پیشہ عزت والا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کے بہت سے شاگرد تھے جو اب حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر تھے، چنانچہ وہ خاصی پرامید تھی کہ معطلی کا زمانہ چھ ماہ گزرنے سے پہلے ختم ہوجائے گا۔ یہ ہوسکتا تھا کہ اب وہ ہاسٹل کی نگراں نہ رہے یا پھر اس کا ٹرانسفر ہوجائے لیکن قانونی معاملات کے مقابلے میں ان مسائل کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
یہ ساری خرابی ان رشتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ایک رشتہ خون کا تھا جو اس کی غلطی نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ وسیم اب بالغ تھا اور اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار تھا۔ وکیلوں نے اسے واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وسیم کے بیانات اور تفتیشی نتائج کے پیش نظر کوئی بڑے سے بڑا وکیل اسے سزا سے نہیں بچا سکے گا۔ وسیم کی مدد کرنے کی کوشش کرنا بھی بیس پچیس لاکھ کا نسخہ تھا۔
افسوس اسے باربار تقدیر کے ناگہانی فیصلے پر تھا۔ کیا تھا اگر وہ رستم کے ساتھ جاری پیار کے کھیل کو کچھ عرصے یونہی جاری رکھتی تو کس کو پتا چلتا، کون تھا جو اس کے کردار کا ٹھیکے دار بن کر سامنے کھڑا ہوتا اور کیا تھا اگر ایک دن صرف ایک دن اور گزر جاتا جس طرح دو برس گزر گئے تھے تو وہ عروسی سوٹ میں اپنے دولہا کے ساتھ گرفتار نہ ہوتی۔ منہ تو کالا ہی ہوا تھا مگر سیاہی نہ چھٹنے والی تھی۔ اب وہ رستم کی بیوی تھی، اس حقیقت کے اعتراف سے پیچھے ہٹنا ناممکن تھا۔ اب لاتعلقی حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی گناہ کے کھلے مین ہول میں جا گرے اور پھر باہر نکل کر پاک دامنی کا دعویٰ کرے۔
مجبوراً رستم کی پہلی بیوی کی مخالفت کے باوجود اسے رستم کے گھر منتقل ہونا پڑا۔ رستم کا الگ گھر لے کر دینے کا وعدہ ایک حادثاتی لہر نے ریت کی دیوار کی طرح گرا دیا تھا۔ اب وہ خود قلاش تھا۔ اسے دو بیویوں کا خرچ اٹھانا تھا۔ ان کی پرعداوت محاذ آرائی کے درمیان رہنا تھا۔ وہ گھر بھی میدان کارزار بن گیا تھا جس میں اسے صرف رہنے کا حق حاصل تھا۔ رستم کے پاس جو بھی پس انداز کی ہوئی رقم تھی اور جتنا شیریں کا اندوختہ تھا، اسے احتیاط سے آنے والے وقت کے لئے بچانا ضروری اور لازمی تھا۔
ان کے درمیان قانونی زلزلے سے پڑنے والی دراڑ گہری ہوتی گئی۔ قانونی اور جذباتی معاملات کی تان بالآخر معاشی معاملات پر آکر ٹوٹی۔ رستم نے دبے الفاظ اور پھر دوٹوک انداز میں مطالبہ کیا کہ اس بحران کے حل کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی کروڑ پتی ماں سے مالی مدد کا مطالبہ کرے کیونکہ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق ہے۔ وارث کی حیثیت سے اسے ایک کروڑ آج نہ ملے تو کس کام کے! وسیم کے ساتھ جبار اور نذیر کو جیل جانے سے بچانے کے لئے ہم ایک اچھا وکیل بھی نہ کرسکے تو ہمارے ماں، باپ کہلانے کا فائدہ…؟ کیا ہم غیروں کی طرح لاتعلق ہوکر صرف تماشا دیکھتے رہیں، اپنی رسوائی اور اپنے بچوں کی اذیت کا…! بے شک وہ بڑے ہوگئے ہیں مگر ہمارے لئے تو بچے ہی ہیں۔ اگر ہم دونوں کو سزائے موت سے نہ بچا سکے تو خود کیسے جئیں گے۔ ہماری کوشش سے اتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ انہیں سزا کم سے کم ملے۔
شیریں اس کی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتی تھی اور نہ ہی کسی حقیقت کو جھٹلا سکتی تھی۔ اندر سے اس کا دل ہر دلیل کو مسترد کرتا جاتا تھا۔ جو نہیں ہونا تھا، وہ ہوچکا تھا۔ اب اس سے اور زیادہ کیا برا ہوگا۔
جب شیریں، رستم کے ہاں آئی تھی، اس کے تیسرے دن ایک کہانی چل پڑی۔ رستم کے ہاں ایک پرانی ملازمہ مہراں تھی۔ وہ چالیس برس کی تھی۔ وہ نورجہاں کے جہیز میں آئی تھی۔ شادی شدہ تھی اور دو جوان لڑکیوں کی ماں تھی۔ اس نے لڑکیوں کے سیانی ہوتے ہی ان کی شادی کردی تھی۔ مہراں اپنی مالکن کی نوکرانی ہی نہیں تھی بلکہ ایک طرح سے وہ اس کی ہمراز سہیلی تھی۔
جب شیریں سوکن بن کر اس گھر میں آئی تو اپنی مالکن کا رونا دیکھا نہیں گیا۔ اس نے مالکن کو سمجھایا کہ رونے سے اپنی صحت کیوں خراب کرتی ہو؟ تم اس جادو کا توڑ کرسکتی ہو۔ تمہارا حسن آتشیں بن سکتا ہے۔ مرد کشش پر مرتا ہے۔ میرے پاس ایسا نسخہ ہے کہ تم میری جیسی پرکشش بن سکتی ہو، شوہر کو پھر سے اپنے سحر میں جکڑ سکتی ہو۔ اس نے جدید قسم کے لوشن لا کر دیئے اور اس کی روز مالش کرنے لگی۔
شیریں کو اندازہ ہوگیا اس کے خلاف مہراں کیا سازش کررہی ہے لیکن اسے کوئی پروا نہ تھی۔ اس نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ تمام معاملات میں صرف اپنا مفاد دیکھے۔ محبت گئی بھاڑ میں…! اگر ازدواجی رشتہ قائم نہیں رہے گا تو قیامت تو نہیں آجائے گی لیکن یہ خوش نصیبی کی بات ہوگی کہ رستم کی غلامی سے آزادی مل جائے گی۔ وہ صرف وسیم کے معاملات کی ذمہ دار ہوگی۔ اس کے پاس ملازمت ہے جو جلد بحال ہوجائے گی تو وہ ایک کمرا کرائے پر لے کر رہ لے گی۔ کسی کی محتاج ہوکر تو نہیں رہے گی۔ آزادی بھی ایک نعمت ہے۔ وہ اپنا تبادلہ کروا کر کسی اور شہر چلی جائے گی۔
٭…٭…٭
شیریں نے اپنی ماں سے مدد مانگی۔ روئی، پیٹی، اسے خون کے رشتے کا نام لے کر متاثر کرنے کی کوشش کی، ذلیل بھی ہوئی، بھائیوں کے سامنے بے حیا بنی لیکن دنیا جو پہلے ہی بدلی ہوئی تھی، اب ہر پہچان کھو چکی تھی۔ کوئی اس کی مدد تو درکنار اس سے ہمدردی کرنے پر تیار نہ تھا۔ جو ایک نام کا رشتہ رہ گیا تھا، اب وہ بھی نہ رہا تھا۔ ایک کروڑ کیا خاک ملتے؟
٭…٭…٭
شیریں کی واپسی کے بعد طارق کے ذہن میں ایک خیال نے جنم لیا تھا جسے اس نے اپنی ذات تک محدود رکھ کر اس طرح چھپایا تھا جیسے کوئی خزانہ ہو۔ وہ اس خیال کو کسی پر آشکار کرنا چاہتا تھا اور نہ کوئی ایسا تھا جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ وہ اپنے منصوبے کا ہر پہلو سے جائزہ لیتا گیا کہ اس میں کوئی جھول اور خامی نہ رہ جائے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے بعد کہ اس کی صرف ایک زندگی ہے جس کی اہمیت خود اس کے لئے سب سے زیادہ ہونی چاہئے، کسی اور کی زندگی کو اہمیت کیوں دے جب کسی کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
بے شک شیریں نے سب کے سامنے چلا چلا کر کہا تھا۔ وہ سب اس کی جان کے دشمن اور خون کے پیاسے ہیں اور وہ کسی کو کسی قیمت پر نہیں بخشے گی۔ وہ خودکشی کرکے ان سب کے لئے راستہ صاف نہیں کرے گی بلکہ انہیں چن چن کر مارے گی۔ اس وقت وہ ہسٹریائی انداز میں چیخ رہی تھی۔ وہ پاگل ہورہی تھی، تاہم یہ الفاظ اس کے جذبات کی عکاسی کرتے تھے۔ گو کہ وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ اگر کرتی تو الفاظ کی گواہی شیریں کے خلاف جاتی۔ وہ جنون میں بکتی چلی گئی۔ اسے کسی بات کا ہوش کہاں تھا۔
دوسری بات خورشید نے کی تھی جو اسے زیب نہیں دیتی تھی۔
شیریں کے قصے میں ڈاکٹر چوہدری نوازش نے زیب النساء کے محافظ کا کردار ادا کیا تھا، وہ عملاً اس گھر کا مالک بن گیا تھا۔ کون زیب النساء سے ملے گا، کس وقت ملے گا یا نہیں ملے گا، یہ سارے فیصلے ڈاکٹر چوہدری کررہے تھے۔ انہوں نے زیب النساء کے گھر میں ڈیرا جما لیا تھا اور اپنا ذاتی محافظ دروازے پر کھڑا کردیا تھا۔ پھر انہیں بتا دیا گیا تھا کہ وہ محتاط رہیں، ان کی گفتگو کا ہر لفظ ریکارڈ ہورہا ہے لہٰذا وہ اپنی ماں کو بلیک میل کرکے پریشان نہ کریں۔ ایک گواہ وہ خود تھے، دوسرا زیب النساء کا دائمی غلام اکمل…!
یہ بات خورشید نے کہی تھی کہ بڑھیا ضد، ہٹ دھرمی اور اکڑ میں آگئی ہے اور ڈاکٹر چوہدری نوازش اسے سمجھانے کی بجائے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے لئے اکساتے ہیں۔ اولاد کے مقابلے میں وہ ڈاکٹر چوہدری کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ شوہر کے نام سے منسوب گھر کے ساتھ محبت تو محض بہانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی دوستی حد سے تجاوز کر گئی ہے، وہ کسی بھی دن نکاح پڑھوا لے گی۔ اس طرح ڈاکٹر چوہدری قانونی اور شرعی طور پر شوہر بن جائے گا۔ بالفرض محال اگر ایسا ہوا تو سمجھو کہ سب کچھ ہاتھ سے گیا۔ وہ کف افسوس ملتے رہ جائیں گے اور سب کچھ نئے باپ کی ملکیت ہوجائے گا۔
طارق نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ایسا وہ کسی قیمت پر نہیں ہونے دے گا۔
٭…٭…٭
قبرستان سے آگے جو چوراہا تھا، اس نے گاڑی کو ایک زیرتعمیر عمارت کی تاریکی میں چھوڑ دیا تھا۔ آگے کا راستہ محفوظ تھا۔ تقریباً دو سو گز کی مسافت کے بعد سڑک بائیں طرف مڑتی تھی، اس نے سڑک چھوڑ کر میدان کو عبور کیا۔ اس طرح وہ غیر متوقع طور پر آجانے والی کسی گاڑی اور پولیس کی گشتی وین سے محفوظ رہا اور مسافت بھی کم ہوگئی تھی۔
اس نے تیز قدم اٹھاتے ہوئے سڑک عبور کی اور ساتھ والے خالی پلاٹ پر دیوار کے ساتھ چلنے لگا۔ بنگلوں کے بند گیٹ کے اندر کسی کیبن میں کوئی سیکورٹی گارڈ اپنا اسلحہ لئے اونگھ رہا تھا۔ وہ آہٹ کئے بغیر چلتا گیا۔
آخری دنوں کے چاند کا مدھم سا اجالا اسے راستہ دکھانے کے لئے کافی تھا۔ اس کی رہنمائی میں وہ گھر کے عقبی حصے میں آگیا۔ ایک جست میں اس نے آہٹ کے بغیر دیوار کو عبور کیا اور پچھلی گلی میں اتر گیا جہاں ایک مختصر سا پائیں باغ موجود تھا۔ کچن کا فلائی پروف دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس نے اوپر کی جالی کو دبایا تو وہ چوکھٹے سے الگ ہوگئی۔ زنگ نے اسے پاپڑ کی طرح خستہ بنا دیا تھا۔ اوپر کی کنڈی کھولنے کے لئے اسے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
کچن میں سنک کے نیچے ایک کونے میں پرانے لوہے کے پائپ پڑے تھے۔ اس نے ایک انچ موٹا اور تین فٹ لمبا لوہے کا پائپ اٹھانے سے پہلے ہاتھوں پر دستانے چڑھا لئے تھے۔ جوتے بھی وہ اپنے اصل سائز سے بڑے پہن کر آیا تھا، جنہیں واپسی میں پھر گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے زیرتعمیر کوٹھی میں ڈال جاتا۔
اس نے دل اور اعصاب کو چٹان کی طرح سخت بنا لیا۔ پھر اس نے قدم اٹھائے۔ راستہ اس کے سامنے کھلا تھا۔ کوئی رکاوٹ، زنجیر اور دیوار نہ تھی جو اس کی راہ میں حائل ہوتی۔ اکمل کے کمرے میں تاریکی اور گہری خاموشی تھی۔ اس سے اگلا کمرا زیب النساء کا تھا۔ اس کا دروازہ اندر سے بند نہیں ہوتا تھا، تاکہ اکمل ان کی ایک آواز پر اندر پہنچ سکے۔ اس نے دروازے کو بڑی احتیاط سے بے آواز اندر کی طرف دھکیلا لیکن اندر نائٹ بلب کی ملگجی روشنی میں اسے زیب النساء کا بستر خالی نظر آیا۔
وہ ہیں کہاں…؟ کیا ڈاکٹر کی کوٹھی میں…؟ یہ سب کچھ اس کے لئے قطعی غیر متوقع تھا، ورنہ زیب النساء کے فرشتوں کو بھی پتا نہ چلتا کہ رات کو فرشتہ اجل کے بھیس میں ان کی کمزور ہڈی والی کھوپڑی کو پاش پاش کرنے والا کون تھا۔ ایک ہی ضرب انہیں اس دنیا اور اس قدیم گھر سے شوہر کے بغل والی خالی قبر میں پہنچا دیتی۔
اس نے ملحق واش روم میں آہٹ سنی تو فوری طور پر بیڈ کے ساتھ ہی لگے ہوئے پرانے صوفے کے پیچھے چھپ جانے کا فیصلہ کیا مگر اس کے روپوش ہونے سے پہلے واش روم کا دروازہ کھلا اور اندر سے روشنی کے ساتھ زیب النساء برآمد ہوئیں۔ ان کی نظریں ملیں۔ ماں کی نظر میں بے یقینی تھی اور بیٹے کی نظر میں خوف…!
’’طارق تو…! یہاں…؟‘‘ زیب النساء نے اس کے قاتلانہ عزائم کو بھانپ کر پھنسی آواز میں کہا۔
طارق نے جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ وہ کسی درندے کی طرح ان پر جھپٹا۔ اس کی ایک ہی ٹکر سے بوڑھی ماں فرش پر ڈھیر ہوگئی مگر گرتے گرتے بھی انہوں نے چلا کر اکمل کو آواز دے ڈالی تھی۔ طارق نے مزید غضب ناک ہوکر ان پر دو تین وار کئے۔ دوسرا ان کی گردن پر پڑا۔ تیسرے وار سے ان کی کھوپڑی زخمی ہوگئی تھی۔ اسی وقت اکمل یوں نمودار ہوا جیسے پہلے ہی سے دروازے پر موجود تھا۔
’’طارق صاحب…!‘‘ وہ دہشت زدہ ہوکر چلایا۔
طارق پر اب خون اور جنون سوار تھا۔ اس نے ایک ہی جست میں اکمل کو جا لیا۔ لوہے کے پائپ کے بھرپور وار نے اکمل کو چت کردیا۔
اس اچانک اور غیر متوقع صورتحال نے طارق کو بری طرح نروس کردیا۔ زیب النساء کو خود اپنے وارث کے ہاتھوں مرنا تھا۔ ملازم کی موت بھی مالکن کے ساتھ ہی لکھی تھی تو وہ کیا کرسکتا تھا۔ وہ ایک منصوبے کے تحت اپنا حق وراثت لینے آیا تھا۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت اس نے محسوس نہیں کی کہ اسے زندگی دینے والی کو موت مل چکی ہے۔ ان کی گردن ٹوٹ چکی تھی اور عجیب مضحکہ خیز انداز میں مڑی ہوئی تھی۔ ان کا نمک خوار بھی ساکت تھا۔ عمر کے آخری حصے کے لوگوں میں مزاحمت کی قوت کہاں باقی رہتی ہے۔
منصوبے کے مطابق اس نے الماری کھولی اور سارے قدیم زیورات نکالے۔ یہ قدیم طرز کے بھاری بھرکم خالص سونے کے تھے، ان میں رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔
طارق نے زیورات کے ڈبوں کو خالی کرکے ادھر ادھر پھینک دیا۔ پھر الماری سے کپڑے نکال کر فرش پر ادھر ادھر ڈال دیئے یوں جیسے کسی نے کپڑوں میں چھپے ہوئے زیورات یا رقم تلاش کی ہو۔ الماری اور سنگھار میز کی درازیں بھی اس نے باہر نکال دیں اور تمام زیورات کو ایک شاپر میں ڈالا۔ یہ بھی اس کے اندازے کے مطابق لاکھوں کے تھے۔ شاید کروڑ کے لگ بھگ ہوں۔ یہ زیورات اس وقت کسی خزانے سے کم نہیں تھے، جو ماضی میں کوڑیوں کے مول خریدے گئے ہوں گے۔
دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے بے ہنگم طریقے پر ٹانگیں پھیلائے اکمل کو دیکھا۔ بڈھے میں زندگی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ اس نے فوراً پائپ کو وہیں پھینکا اور جس راستے سے آیا تھا، اس سے باہر نکل گیا۔ دستانوں کا مقصد بھی پورا ہوگیا تھا۔ اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ پولیس کو اس کا کوئی ثبوت نہ ملے۔ اس نے میدان پار کرتے ہوئے جھاڑیوں میں دستانے اچھال دیئے۔ وہ ان جھاڑیوں میں چھپ گئے۔ اب باہر سے نظر نہیں آسکتے تھے۔
اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد جیسے ہی اس کی نگاہ اپنے جوتوں پر پڑی تو چونکا۔ اس نے بڑے سائز کے جوتے اتار کے کھڑکی سے باہر پھینک دیئے اور پھر اپنے جوتے پہن کر گاڑی نکالی اور گھڑی میں وقت دیکھا۔ تین بجنے میں تین منٹ باقی تھے۔ اس وقت تقریباً ہر سڑک خالی، ویران اور سنسان تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے میں وہ بڑے آرام سے مری پہنچ سکتا تھا جہاں وہ دو دن سے فیملی کے ساتھ ٹھہرا ہوا
تھا۔ طارق نے دو بیڈ والا لاج لیا تھا۔ وہاں قیام کرنے والے اپنی گاڑیاں گیٹ کے اندر ایک کنارے پر کھڑی کرتے تھے۔
طارق نے فجر کی اذان کا انتظار کیا جو تھوڑی دیر بعد ہونے والی تھی۔ چوکیدار باجماعت نماز پڑھتا تھا۔ اذان ہونے لگی تو چوکیدار نماز پڑھنے چلا گیا۔ اس نے گاڑی اندر لے جاکر گاڑیوں کے درمیان پارک کردی۔ جاتے وقت بھی اس نے بڑی احتیاط کی تھی۔ چوکیدار عشاء کی نماز کے لئے چلا جائے تو گاڑی نکالے۔ باقی لاجز کے مکین ابھی سوئے پڑے تھے۔ نازنین گاڑی کی آواز پر اٹھ کے باہر آگئی اور بولی۔ ’’سب ٹھیک رہا نا…؟ کہیں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی نا… مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا تھا۔‘‘ طارق اسے بتا کر گیا تھا کہ وہ اپنی ماں کے گھر میں چوروں کی طرح عقبی راستے سے گھس کر پہلے تو کلوروفارم میں بھیگے رومال سے ماں اور اکمل کو بے ہوش کردے گا۔ پھر بے ہوشی کے انجکشن لگا کر دونوں کو موت کی نیند سلا دے گا اور پھر ڈکیتی کرکے واپس آئے گا۔
’’ایوری تھنگ از فائن ڈارلنگ! انڈر کنٹرول…!‘‘ اس نے انگوٹھا بلند کیا۔ ’’اچھا! اب جلدی سے مجھے کریم کافی پلا دو۔ میں کافی تھک گیا ہوں۔ یہ سب تمہارا ہے۔‘‘
نازنین نے ساس کے زیورات دیکھے تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’میں کل ہی انہیں نئے ڈیزائن کے مطابق بنانے کے لئے دے دوں گی، اب ان کا فیشن کہاں رہا۔‘‘
طارق نے اسے تنبیہ کی۔ ’’یہ حماقت نہیں کرنا کہ ایک ساتھ لے جاکر دے دو تاکہ اسے شک ہوجائے۔‘‘ پھر اس نے خبردار کیا۔ ’’اور ہاں! اپنے خاندانی سنار کو بالکل نہیں۔ یہ خالص سونا ہے، وہ ڈنڈی مار لے گا۔‘‘
نازنین بہت خوش تھی کہ اسے ظالم اور لالچی ساس سے نجات مل گئی جو ان زیورات پر کسی ناگن کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے غم کی بجائے خوشی ہورہی تھی۔ اس کے شوہر نے اس کی خاطر یہ سب کچھ کیا تھا۔ اب وہ ہر تقریب میں ان زیورات کو پہن کر شرکت کرے گی۔ عورتیں دیکھتی رہ جائیں گی اور ان کے سینوں پر حسد کے سانپ لوٹ جائیں گے۔ وہ ان کے بشرے دیکھ کر فاتحانہ انداز سے مسکرا دیا کرے گی۔
اسے اس وقت تک جاگنا تھا جب تک بریکنگ نیوز نہیں آجاتی۔ اس کے آنے میں ابھی خاصی دیر تھی کیونکہ اس وحشیانہ قتل کی اطلاع اتنی جلدی نہیں مل سکتی تھی۔ اس نے نازنین کو جو منصوبہ بتایا تھا، اس کے برعکس یہ واردات کی تھی۔ وہ اس ضمن میں کوئی سوال اور پولیس کی طرح جرح اور باز پرس کرنے سے رہی کہ اس نے قتل کیوں کئے… وہ اس کی ماں تھی اور نہ ملازم، کوئی سگا رشتے دار…! ہر عورت کی طرح زیورات اس کی بھی کمزوری تھے۔ یہ زیورات کروڑ سے زیادہ رقم کے تھے۔ اس کے علاوہ جو دو تین لاکھ کی رقم ملی تھی، وہ بھی اس نے شاپر میں زیورات کے ساتھ رکھ لی تھی۔ نازنین کسی کو بھی اس واردات کے بارے میں اعتماد میں لینے سے رہی۔ وہ نہ صرف جیل جاتا بلکہ نازنین بھی ان زیورات سے محروم ہوجاتی۔
کافی اور درد کا احساس مٹانے والی گولیاں اس کے اندرونی اضطراب کو دور کرنے سے قاصر تھیں۔ ابھی تک اس کی نظروں کے سامنے ایک پرانے گھر کے کشادہ بیڈروم کی فلم چل رہی تھی۔ یہ اس کا اپنا گھر تھا جہاں اس نے اپنا بچپن اور جوانی کے دن گزارے تھے۔ فرش پر بے ہنگم طریقے سے پڑی ایک بوڑھی عورت کی لاش اس کے تصور میں یوں ٹھہر گئی تھی جیسے کبھی ٹی وی اسکرین پر چلنے والی کسی فلم کا ایک فریم دیوار پر لگی تصویر کی طرح منجمد ہوجاتا ہے۔ ان گنت سوال کرتی آوازیں تھیں جو اس کے اندر سے اٹھ کر پریشان کررہی تھیں۔ ’’مجھے خود کو پرسکون اور پراعتماد رکھنا ہوگا۔‘‘ اس نے خود سے بہ آواز بلند کہا۔
نازنین جو تصور کے آئینے میں نئے ڈیزائن کے زیورات کو اپنے تن پر دیکھنے میں محو تھی، اس کی آواز سنتے ہی اک دم چونک پڑی اور بولی۔ ’’میں تو کب سے کہہ رہی ہوں کہ سونے کی کوشش کریں۔ میں سر دبا دیتی ہوں۔‘‘
’’کیا تم نے ڈاکٹر کو فون کیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’دو بجے کیا تھا۔‘‘ نازنین نے جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر تو موجود نہیں تھا، کائونٹر کلرک سے رابطہ ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس وقت تو ڈاکٹر صاحب کا آنا مشکل ہے۔ اس نے مجھے ایک نمبر دیا تھا لیکن کسی نے کال ریسیو نہیں کی۔‘‘
’’تم نے کائونٹر کلرک سے کیا کہا تھا؟‘‘
’’یہی کہ آپ کو الٹیاں اور موشن آرہے ہیں، فوڈ پوائزنگ لگتی ہے۔‘‘
طارق سینٹرل ٹیبل پر رکھے فون کو دیکھتا رہا جو ابھی تک خاموش تھا۔ اس کی نگاہ پھر گھڑی کی طرف گئی جو صبح کے ساڑھے سات بجا رہی تھی۔ اس کی بے چینی، اضطراب اور انتظار کو ختم کرنے والی کال نو بجے آئی۔ نمبر اس کے بھائی خورشید کا تھا۔ گھنٹی بجتی رہی اور پھر بند ہوگئی۔ دوسری اور تیسری کال کو اس نے نظرانداز کیا۔ چوتھی کال پر اس نے ریسیور اٹھا کر نقاہت بھری خوابیدہ آواز میں کہا۔ ’’ہیلو… بھائی…!‘‘
’’تم کہاں ہو طارق…! اتنی دیر سے فون کررہا تھا، خیریت تو ہے؟‘‘
’’میں تو مری میں ہوں۔ ایک سیمینار تھا اس لئے نازنین اور بچوں کو بھی ساتھ لے آیا لیکن کل رات فوڈپوائزنگ ہوگئی۔‘‘
’’طارق…! اماں کا قتل ہوگیا ہے۔‘‘ خورشید نے تشویش بھرے لہجے میں بتایا۔
’’کیا…؟‘‘ طارق نے اپنے تحیر زدہ لہجے سے یہ تاثر دیا جیسے اسے برقی جھٹکا لگا ہو۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم…؟‘‘
’’وہی جو دیکھ رہا ہوں۔ کچھ دیر پہلے ڈاکٹر چوہدری نوازش نے مجھے فون کرکے بتایا۔‘‘
’’پوری بات بتائو۔ کس نے قتل کیا اور کیوں…؟‘‘
’’قتل اس نمک حرام اکمل نے کیا ہے۔ اماں کی الماری سے تمام زیورات غائب ہیں۔ شاید الماری میں رقم بھی ہوگی۔ لاکھ دو لاکھ وہ ہر وقت رکھتی تھیں اور وہ کمینہ اکمل بھی غائب ہے۔‘‘
طارق بے اختیار ہذیانی لہجے میں چلایا۔ ’’کیا اکمل غائب ہے؟‘‘
’’ہاں…! پولیس نے سب دیکھ لیا ہے۔ میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ اندازاً زیورات کی کتنی مالیت تھی۔ اس لالچی نمک حرام نے اماں کے سر پر کوئی بھاری چیز ماری تو سر پھٹ گیا، ان کی گردن بھی ٹوٹ گئی۔ تم فوراً آجائو۔‘‘
اس کے حلق میں جیسے گولہ اٹک گیا۔ وہ بمشکل کہہ پایا۔ ’’ہاں… میں…! میں آرہا ہوں۔‘‘
٭…٭…٭
طارق کی نظر اب حقیقت میں وہ سارے مناظر دیکھ رہی تھی جو اس نے تصور میں دیکھے تھے لیکن بہت کچھ اس منظر سے غائب تھا۔ وہاں نظر آنے والے سارے چہرے جانے پہچانے تھے۔ شیریں کو انہوں نے مطلع نہیں کیا تھا۔ طارق نے جو منصوبہ بنایا تھا کہ قتل کی ساری ذمہ داری اس پر اور اس کے نئے شوہر پر ڈالنے کا ارادہ تھا۔ قاتل وہ بن گیا تھا جو خود مقتول تھا۔ تدفین میں شریک لوگ اور ڈاکٹر چوہدری نوازش اور اس کا بھائی خورشید یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اکمل مر گیا تھا۔ وہ خود اس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ یہ بات اس سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ اماں کا سارا زیور نازنین نے اپنے گھر کے باتھ روم کے فلیش ٹینک میں چھپا رکھا تھا جہاں سے وہ اسے کسی بہتر اور محفوظ جگہ منتقل کردینا چاہتا تھا۔
اس کے لئے یہ بات کسی بھی طرح باعث سکون اور اطمینان بخش نہیں تھی کہ قتل کا الزام کسی تفتیش کے بغیر اکمل پر آیا، اس کی طرف کوئی انگلی اٹھی اور نہ ہی اسے شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ طارق کے وجود میں زلزلہ آیا ہوا تھا۔ آخر کیسے…؟ اس نے خود دیکھا تھا کہ وہ مر چکا تھا، وہ پھر زندہ کیسے ہوگیا؟ کیا جلدی میں ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا تھا؟ اکمل پر الزام آنا، طارق کی گردن میں پھانسی کا پھندا بن رہا تھا، کیونکہ مردہ اکمل زندہ ہوکر ایک چشم دید گواہ بن گیا تھا اور نمک خوار کا خون قرض ادا کرنے کے لئے تیاری کررہا تھا۔
رفتہ رفتہ آخر دن ڈھل گیا۔ سوگ کا رسمی اظہار کرنے والے بھی ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ اس نے خورشید کے سوچ میں ڈوبے چہرے کو دیکھا جس پر دکھ یا ملال کی لکیر تک نہ تھی۔ وہاں نظر آنے والوں میں واحد رنجیدہ شخص ڈاکٹر چوہدری نوازش تھے جو کسی سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ وہ ہاتھ پیچھے باندھے گم صم نظروں سے زیب النساء کو اس ظاہری قبر میں روپوش ہوتا دیکھتے رہے جو ایک احاطے میں شوہر کی حقیقی قبر کے ساتھ برسوں سے موجود تھی۔ انہیں اب بھی یقین نہیں آیا تھا کہ زیب النساء کا قاتل اکمل تھا۔ پھر اس وقت جب لوگ الگ الگ قبرستان سے نکل رہے تھے، کسی نے اس کی عدم موجودگی کو محسوس نہیں کیا تھا۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ اس کے کان میں سرگوشی میں کیا کہا تھا جس پر وہ چند سیکنڈ دم بخود کھڑا رہنے کے بعد خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا اور قبر پر دو مٹھی، مٹی ڈالنے کا ثواب چھوڑ کر جھاڑیوں میں روپوش ہوکر گیٹ سے باہر نکل گیا تھا۔ دعائے مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھانے والوں میں وہ شامل نہیں تھا۔
عشاء کی اذان کے بعد جب وہ ایک پڑوسی کے گھر سے آنے والی بریانی کھا رہے تھے، کسی نے اطلاعی گھنٹی بجائی۔ پھر وہ اندر گھس آئے۔ وہ پولیس کی یونیفارم میں ایک انسپکٹر اور ایک سب انسپکٹر تھے۔ ڈاکٹر چوہدری ان کے پیچھے تھا۔
’’تم میں طارق کون ہے…؟‘‘ انسپکٹر نے غرا کر پوچھا۔
طارق کے کھڑا ہونے سے پہلے ڈاکٹر چوہدری نے اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’جس کے ہاتھ میں مرغی کی ٹانگ ہے۔‘‘
انہوں نے کالر سے کھینچ کر طارق کو بے رحمی سے پکڑا اور اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جانے لگے۔
طارق نے مزاحمت کی اور تیز لہجے میں بولا۔ ’’یہ کیا بدتمیزی ہے…؟ یہ تم مجھے زبردستی کہاں لے جارہے ہو…؟‘‘
سب انسپکٹر یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے پیچھے سے ایک لات رسید کی اور بولا۔ ’’سیدھا تختہ دار پر پھانسی دینے کے لئے!‘‘
انہوں نے طارق کو کسی گٹھڑی کی طرح اٹھا کر پولیس وین میں پھینک دیا۔ وہ فرش پر گرا تو آمنے سامنے لگی سیٹوں پر بیٹھے سپاہیوں نے اس پر پائوں رکھ کر اسے جوتوں تلے دبا لیا اور اپنی رائفلیں اس کی کمر پر رکھ دیں۔ وین جتنی دیر تک چلتی رہی، اتنی دیر تک رائفلوں کے بٹ اور بھاری جوتوں سے اس کی تواضع ہوتی رہی اور ایک نے اس کے منہ پر تھوک کر کہا کہ کیا ایسی اولاد بھی ہوتی ہے۔
پولیس کی پوری ٹیم نے اسے اسپتال کے احاطے میں ہر طرف سے گھیر لیا۔ انہوں نے اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑ دیئے اور اس کے چہرے پر کوئی بدبودار چادر ڈال دی تھی اور پھر وہ اسے ہنکاتے ہوئے اسپتال کے اندر لے گئے۔ اس پر ایک نفرت بھری اور پرتجسس نظر ڈالنے والوں نے پولیس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ ہر مشتبہ مجرم کو اس طرح لاتے اور لے جاتے دیکھنے کے عادی تھے۔
چہرے سے چادر ہٹنے کے بعد طارق نے اسپتال کا وہ وسیع آئی سی یو جیسا کمرا دیکھا جس میں ایک بستر پر اکمل بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا۔ اس کے بازوئوں سے پیوست ٹیوبیں بیڈ سائیڈ پر رکھے اسٹینڈ تک جارہی تھیں۔ اس کے سرہانے لگے مانیٹر پر روشن ہندسے تیزی سے بدل رہے تھے۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں سے منسلک تار اکمل کے تمام اعضاء کی جدوجہد کا پورا نقشہ پیش کررہے تھے۔
وہاں سیدھے کھڑے ڈاکٹر کے پیچھے دو نرسیں مستعد تھیں۔ ان کے مقابل بیڈ کی دوسری جانب ایک کرسی پر ڈاکٹر چوہدری نوازش براجمان تھے۔ دوسری پر کوئی سرکاری افسر نظر آنے والا شخص تھا۔ پولیس کے ایک مسلح انسپکٹر کے سوا طارق کو یہاں لانے والے باہر رک گئے تھے۔
سرکاری افسر نظر آنے والے شخص نے نفرت اور رعونت سے طارق کو دیکھا۔ ’’اس شخص نے اپنے بیان میں تمہیں زیب النساء کا قاتل قرار دیا ہے۔ میں نے اس کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے جس پر ڈاکٹر کی گواہی موجود ہے۔‘‘
طارق نے ہمت سے کام لیا۔ ’’میں اس بیان کو نہیں مانتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم وہ بیان دوبارہ لینے کی کوشش کریں گے، تمہارے سامنے…! اکمل ابھی زندہ ہے۔ اسے جیسے ہی ہوش آتا ہے، ہم اس سے دوبارہ بات کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر چوہدری نوازش نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’اگرچہ اس کا ایک ہی بیان کافی تھا مگر سعادت مند بیٹا بھی ماں کے قتل کی کہانی سن لے۔‘‘ پھرافسر نے طارق سے کہا۔ ’’معلوم ہونا چاہئے کہ نزع کی کیفیت میں بھی دیا جانے والا بیان سچ تسلیم کیا جاتا ہے؟‘‘
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ وہ چند لمحے کے لئے اکمل سے مل سکتے ہیں۔ افسر تیزی سے اٹھ کر بیڈ کے سرہانے آیا اور اس نے اکمل کے کان میں آہستگی سے کہا۔ ’’اکمل…! تم میری آواز سن سکتے ہو؟‘‘
ایک نحیف سی آواز آئی۔ ’’جی…!‘‘
’’کیا تم وہ سب دہرا سکتے ہو جو تم نے کچھ دیر پہلے کہا تھا؟‘‘
اکمل نے نحیف اور کمزور مگر صاف آواز میں وہ سب دہرایا جس میں طارق کے لئے کچھ بھی نیا نہیں تھا، کچھ بھی جھوٹ نہیں تھا۔ شک کی اب رتی برابر گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس دیرینہ نمک خوار نے حق نمک ادا کردیا تھا۔ اس نے اس وقت بڑی ہمت سے سانس روک لی تھی، اس ڈر سے کہ کہیں طارق اس پر دوسرا وار کرکے اسے مار نہ ڈالے۔ اس نے طارق کی ساری کارروائی دیکھی تھی۔ ماں کے قتل سے اس کے سارے زیورات اکٹھا کرنے تک…! جب وہ فرار ہوتے وقت ایک لمحے کے لئے رکا تھا تو اکمل نے سانس روک رکھی تھی اور وہ یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔
بیان مکمل ہوتے ہی وہ آئی سی یو سے باہر آگئے۔ اکمل کی زندگی کا سفر مختصر سے مختصر ہوتا جارہا تھا۔ وہ چند لمحوں کا مہمان تھا۔
’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم یہ سفاکانہ اور شرمناک قدم اٹھانے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔‘‘ ڈاکٹر چوہدری نوازش نے جاتے جاتے طارق سے کہا۔ ’’تمہاری ماں زیب النساء بیگم کو بہت پہلے ہی اندیشہ تھا کہ ان کی جائداد کے حق دار اپنا حق حاصل کرنے کی جلدی میں ان کا قتل نہ کردیں۔ انہوں نے اپنے اس خوف کا اظہار کچھ عرصہ پہلے کیا تھا جب تمہاری بہن انہیں دھمکیاں دے کر گئی تھی۔ ان کی خواہش پر میں نے وکیل کو بلا کر قانونی کارروائی مکمل کرا دی تھی۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ وہ تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کررہی ہیں مگر ماں سے زیادہ اولاد کو کون سمجھ سکتا ہے۔ تم ان کی توقعات پر پورے اترے مگر مجھے افسوس ہے کہ حق دار ہونے کے باوجود اب کسی کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ زیب النساء بیگم نے تمام جائداد لاوارث بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ادارے کو دے دی تھی۔ اپنی زندگی میں وہ ایسا کرنے کے لئے ہر طرح سے مجاز تھیں۔‘‘ جاتے جاتے وہ ایک لمحے کے لئے رکے اور بولے۔ ’’ایک بات اور بتا دوں تمہیں… حق دار تم اب صرف پھانسی کے ہو اس دنیا میں اور آخرت میں اس عذاب کے جو تم نے کمایا…! اس حق نمک ادا کرنے والے کو دیکھو۔ تمہاری ماں اس کی زندگی بھر کی خدمات کے بدلے اسے بہت کچھ دینا چاہتی تھیں، مگر اس نے انکار کردیا۔ اس نے حق نمک کی قیمت نہیں لی۔‘‘
جب وہ باہر نکل رہا تھا تو اس نے خورشید کو دیکھا جو نہ جانے کس وقت اندر آکر خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا تھا مگر اس میں اپنے ماں جائے سے نظر ملانے کی تاب نہیں تھی۔ ایک معمولی حیثیت کے ملازم نے حق نمک بیچنے سے انکار کرکے بازی جیت لی تھی اور وراثت کا حق رکھنے والے بازی ہار گئے تھے۔ (ختم شد)