Thursday, February 20, 2025

Muqadus Rishta

جس کا کوئی بھائی بہن نہ ہو ، وہ پیاسی رُوح، عمر بھر ان میٹھے رشتوں کو ترستی رہتی ہے۔ میں ذرا سمجھ دار ہوئی تو ان انمول رشتوں کی کمی کو میں نے بھی محسوس کیا، تاہم میری امی نے مجھے اتنی توجہ دی کہ میری سہیلی اور بہن بن گئیں۔ والد بھی روزانہ شام کو میرے ساتھ وقت بتانے لگے ، کبھی میرے ساتھ ٹینس کھیلتے ، کبھی سیر کو لے جاتے اور انڈور گیم کھیل کر کمپنی دیتے۔ مجھ کو والد کے ہوتے بھائی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ میرے والدین اتنے باشعور تھے کہ انہوں نے مجھ کو تنہائیوں کے جنگل میں بھٹکنے نہ دیا۔ ہم اتنے دولت مند نہ تھے لیکن کنبہ چھوٹا ہونے کے سبب اخراجات کم تھے۔ والد صاحب نے عمر بھر کی جمع پونجی سے ایک جدید علاقے میں چھوٹاساگھر بنایا، گھر کیا تھا، خوشیوں کا گہوارہ تھا۔ جس کی فضا میں والدین کے پیار کی مہک رچی بسی تھی۔ اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو دل میں ایک مسرت بھرا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ ان دنوں ایف اے کی طالبہ تھی جب ہم نئے مکان میں شفٹ ہوئے تھے۔ ہم ایک معمولی سے گھر سے بہتر گھر میں آگئے تھے۔ ہیں سارا دن گھر کو سجانے سنوارنے میں مشغول رہتی تھی۔ کچھ دن تو نئے مکان کی خوشی میں مگن رہی، بالآخر امی کو پڑوسیوں سے رابطے کا خیال آیا۔ ہمارے ساتھ والے گھر میں ایک عمر رسیدہ جو ڑا رہتا تھا۔ ان کی اولاد نہ تھی، اتنے بڑے گھر میں وہ اکیلے رہتے تھے۔ کوئی ملنے چلا جاتا تو بہت گر مجوشی سے ملتے اور خوش ہو کر آئو بھگت کرتے۔ ان کا گھر دو منزلہ تھا۔ وہ اپنے مکان کا زیریں حصہ کرائے پر اُٹھا دیتے تھے ، اس طرح آمدنی کا معقول انتظام ہو جاتا تھا اور ان کا دل بھی بہلا رہتا تھا۔ میں ان سے ملنے گئی تو نہایت شفقت سے ملے۔ ہمارے گھر کی دیوار ان کے مکان سے ملی ہوئی تھی۔ جب زیادہ آنا جانا ہوا تو ہم نے بیچ سے راستہ بنا لیا۔ خاتون خانہ اصرار کر کے بلا تیں کہ دو گھڑی کے لئے روز میرے پاس آجایا کرو، تم سے مل کر جی خوش ہوتا ہے۔ کالج سے آتے ہی ضرور ایک چکر ان کے پاس لگا آتی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی بے حد شفیق تھے۔ معمر ہونے کے سبب میں آنٹی کے کچھ گھریلو کام بھی کر دیا کرتی تھی۔ کبھی چائے بنادینا اور کبھی ان کے کپڑوں کو تہہ لگا کر الماری میں رکھنا، انکل تو مجھ سے اپنے رشتے داروں کو خطوط وغیرہ لکھواتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا۔ بیٹی خولہ ! تم ہمیں انکل ، آنٹی کی بجائے دادا، دادی کہا کرو، تب سے میں انہیں دادا اور ان کی بیوی کو دادی کہنے لگی۔ مجھے یہ نیارشتہ زیادہ اچھا لگا۔ انہی دنوں جب میرے سالانہ پر چے ختم ہوئے تو میں ان کی طرف گئی، تب میں نے ان کے گھر کے نچلے پورشن میں ایک شخص کو دیکھا جولان میں کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ اس کی پشت میری جانب تھی لہذا اس کا چہرہ نہ دیکھ سکی، سمجھی کہ ان کا کوئی رشتہ دار مہمان آیا ہوا ہے۔ اس دن دادا اور دادی گھر پر موجود نہ تھے، میں اُلٹے قدموں لوٹ آئی۔ واپس دوبارہ لان سے گزرتے ہوئے وہاں وہ شخص نظر نہ آیا۔ میں نے کمرے میں جھانکا تو وہ موجود تھا۔ جو نہی اس کو دیکھا میں بھاگ کر باہر آگئی تبھی وہ بھی باہر آگیا۔ میں نے مگر پلٹ کر نہ دیکھا اور دوڑ کر اُس  کھڑ کی سے اپنے گھر پہنچ گئی جو ہماری دیوار میں نصب تھی اور ان کے آنگن میں کھلتی تھی۔ امی کو بتایا کہ دادا اور دادی اپنے گھر نہیں تھے۔ نجانے کہاں گئے ہیں۔ وہ کہنے لگیں۔ اپنے کسی رشتہ دار کے گھر گئے ہیں اور مجھے بتا کر گئے ہیں۔ شام تک آجائیں گے۔ اب تم اس کھڑکی سے نہ آیا جایا کرو، انہوں نے گھر کرایے پر دے دیا ہے۔ ان کے پاس جانا ہو تو گلی سے جایا کرو۔ پتا چلا کہ ان کا کرایے دار ، اکیلا مرد ہے یہاں نوکری کے سلسلے میں آیا ہے۔ کسی محکمے میں آفیسر ہے۔ اگلی صبح جب میں کالج جانے کو نکلی تو وہ بھی اپنی گاڑی نکال رہا تھا۔ میں نے اُسے نظر انداز کر دیا اور بس اسٹاپ کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے بعد متعدد بار سامنا ہوا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتا اور میں اس کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتی۔ ہمارے بزرگ پڑوسی آگئے توان کو بتایا کہ میں آئی تھی، وہ گھر میں موجود تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سنجیدہ شخص ہے، کسی سے فالتو بات نہیں کرتا۔ بہر حال انہوں نے میر اتعارف اپنے کرایے دار سے کروایا۔ اس کا نام ذیشان تھا۔ وہ واقعی معقول اور سلجھا ہوا شخص لگ رہا تھا۔ دادی چائے بنانے چلی گئیں۔ تبھی وہ میری طرف متوجہ ہوا۔ پوچھا آپ کون سی کلاس میں پڑھتی ہیں۔ یہ ایک عام سا آسان سوال تھا لیکن مجھے اس سے بات کرنا آسان نہ لگ رہا تھا۔ میں نے اس کی باتوں کا بس ہوں ہاں میں جواب دیا۔ امی کو احوال بتا یا تو کہنے لگیں۔ بیٹی تم نے اس کے ساتھ زیادہ باتیں تو نہیں کیں ؟ خیال رکھنا، ایسے لوگوں سے زیادہ بات چیت ٹھیک نہیں رہتی۔ اس روز میرا کالج میں ضروری پریکٹیکل تھا اور وقت پر پہنچنا لازم تھا۔ موسم بہت خراب تھا۔ گھر سے نکلتے دیر ہوگئی اور کالج بس روانہ ہو گئی۔ میں ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ بوندا باندی شروع ہو گئی۔ بارش رفتہ رفتہ تیز ہونے لگی۔ میں گھبرائی ہوئی، پبلک بس کا انتظار کر رہی تھی کہ ذیشان کی گاڑی میرے پاس آکر رکی۔ کہنے لگے۔ میں آپ کو کالج چھوڑ دیتا ہوں۔ بارش تیز ہو گئی ہے، آپ اور بھیگ جائیں گی اگر بس کے انتظار میں اسی طرح کھڑی رہیں۔ موقع غنیمت جان کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہی پوچھا۔ آپ کا لج ہی جائیں گی نا؟ جی۔ میں نے مختصر جواب دیا۔ ابھی ہم نے تھوڑا سا سفر طے کیا تھا کہ رستے میں بارش اور تیز ہو گئی۔ باتوں باتوں میں اس نے میری واپسی کا وقت بھی معلوم کر لیا۔ آج اُسے سوٹ میں ملبوس دیکھا تو پہلی بار وہ مجھ کو جاذب نظر شخص معلوم ہوا اور میرے اندر چھپی ہوئی شرمیلی لڑکی نے اس کو وجیہ ہونے کی سند دے دی۔ بہر حال، نئے ماڈل کی کار ، اعلیٰ عہدے پر فائز اور اچھے اخلاق رکھنے والے آدمی سے، میں تو کیا میرے جیسی کئی لڑکیاں متاثر ہو جاتی ہیں۔ کالج سے واپسی پر باہر آئی تو ذیشان پہلے سے موجود تھا۔ میں نے اُسے دیکھ لیا۔ پھر بھی اس طرح بن کر گاڑی کے پاس سے گزرنے لگی جیسے اس کو دیکھا نہ ہو۔ اس نے مجھ کو آواز دی۔ ارے کمال ہے ! آپ بارش میں اور اس کیچڑ میں پیدل جائیں گی۔ آج آپ کی قسمت اچھی ہے کہ میرا ادھر کام نکل آیا تھا۔ سوچا آپ کو لیتا چلوں، کرایے دار سہی، ہوں تو آپ کا پڑوسی ، آپ کا بہت حق ہے مجھ پر اتنا بڑا افسر، ایک معمولی لڑکی کو لینے بھلا کیوں آئے گا؟ ادھر کام ہی ہو گا۔ اس سوچ سے خود کو تسلی دے کر میں ذیشان کی گاڑی میں بیٹھ گئی اور ان کا شکر یہ ادا کیا۔ گھر پہنچ کر امی کو بتایا۔ وہ کہنے لگیں۔ چلو بارش تھی، آج تو ان کے ساتھ آگئی ہو ، آئندہ محتاط رہنا۔ شام کو فارغ ہوئی دادا میاں اور دادی جی سے ملنے گئی ، وہ بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ آج میری نظر بار بار اس کی طرف اُٹھ رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی شخصیت اور دولت کا طلسم مجھ پر اثر کر چکا تھا۔ خود کو لاکھ سمجھایا کہ میرا اس کا میل نہیں وہ ایک اجنبی ایک خوشحال افسر، مجھ سے عمر میں کم از کم دس برس بڑا لیکن دل تھا کہ اس کے بارے سوچے جاتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں متوسط طبقے کی لڑکی جس نے زندگی کی بیشتر آسائشیں نہ دیکھی تھیں، میرے لئے تو وہ ایک شہزادے کی طرح ہو گیا تھا۔ ماں مجھے ہر وقت نصیحت کرتیں کہ جب کرایے دار گھر پر ہو تو مجھے پڑوس میں نہ جانا چاہئے۔ میں بھی یہی ارادہ رکھتی تھی، لیکن جب وہ مجھ سے مخاطب ہوتا یا اپنے پاس بلا تا تو میں کسی معمول کی طرح خاموشی سے اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ احساس تھا کہ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے لیکن ایک موہوم کی امید کہ شاید وہ مجھ کو اپنالے ، پسند کرلے اور ایک بہت اچھی زندگی میں سب کچھ پالوں، میری ڈھارس باندھ جاتی تھی۔ ایک دن کالج سے نکلی تو وہ مجھے نظر آگیا۔ اپنی گاڑی میں تھا۔ مجھے پیدل بس اسٹاپ کی طرف جاتے دیکھا تو گاڑی میرے قریب لا کر روک لی، کہنے لگا۔ وہ سامنے عمارت میں میری ایک میٹنگ تھی۔ وہاں سے نکلا تو تم پر نظر پڑ گئی۔ اگر بس میں جانا نہ چاہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھ کو ماں کی ہدایت یاد آگئی، اجنبی مرد سے زیادہ ملنا جلنا ٹھیک نہیں، تبھی سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کافی دیر تک دیکھتا رہا۔ اس کا اس طرح دیکھنا، مجھے پریشان کر رہا تھا، سخت مضطرب ہو گئی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ میرے اضطراب سے محظوظ ہو رہا ہے۔ اچھا ٹھیک ہے، میرے ساتھ نہیں جانا تو پیدل جائو۔ میں نے تو از راہ اخلاق گاڑی رو کی تھی۔ یہ کہہ کر اس نے کار آگے بڑھادی، تبھی میں اپنی سوچ کے گہرے بھنور سے نکلی اور اشارے سے اس کو رکنے کو کہا۔ اس نے گاڑی روک کر دروازہ کھول دیا اور میں اس کے برابر والی نشست پر بیٹھ گئی۔ جب ہم ایک ریسٹورنٹ کے سامنے سے گزرے، ذیشان گویا ہوا۔ بہت بھوک لگ رہی ہے ، مصروفیت کے سبب ناشتہ بھی نہیں کر پایا۔ اگر تھوڑا سا کچھ کھا لیں تم کو اعتراض تو نہ ہو گا۔ گھر میں اکیلا رہتا ہوں، کھانا تو باہر سے ہی کھانا پڑتا ہے ، جانتی ہو نا؟ میں چپ رہی، اس نے میری خاموشی کو رضا جانا اور گاڑی ریسٹورنٹ کے سامنے کھڑی کر دی۔ کہنے لگا۔ خولہ بی بی، اتر آئو۔ تھوڑا سا کھا پی لیتے ہیں۔ اب مجھے اس کے ساتھ جاتے ہوئے حجاب آرہا تھا اور منع کرتے ہوئے بھی لحاظ تھا، ناچار میں اس کے ساتھ جا بیٹھی۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں کسی ریسٹورنٹ میں گئی تھی۔ اس نے کھانے کا آرڈر دیا۔ میں نے ذیشان کے اصرار پر تھوڑا سا کھایا۔ وہ کھاتے ہوئے باتیں بھی کرتا جاتا تھا۔ اس نے کہا۔ خولہ بی بی تم بہت اچھی لڑکی ہو، بہت معصوم ہو۔ میں جانتا ہوں تم آج کل کی سوسائٹی کی برائیوں سے دُور ہو۔ ہمیشہ ایسے ہی برائیوں سے دُور رہنا اور جب موقع ملے کسی اچھے انسان سے شادی کر کے وقت پر گھر بسا لینا۔ یہ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ فضول مشاغل میں اپنا قیمتی وقت ضائع مت کرنا۔ تعلیم پر توجہ دو اور اپنے والدین کا ہمیشہ خیال رکھنا۔۔ میں خاموشی سے اس کا لیکچر سن رہی تھی۔ جو باتیں اس کے منہ سے سُننا چاہتی تھی وہ کوئی بات اس نے نہ کہی، پھر بھی میں اس کے خواب دیکھنے لگی کہ شاید یہ میری عمر کا تقاضا تھا۔ خود ہی سے یہ سمجھ لیا کہ اس کی نصیحتوں کا مطلب ہے کہ وہ مجھے اپنانے والا ہے ، جلد میرے والدین سے رشتہ مانگنے کا ارادہ رکھتا ہے ورنہ ایسی نصیحتیں کیوں کرتا کہ ہمیشہ ماں باپ کا خیال رکھنا۔ اس کو بھلا میرے والدین سے کیا دلچپسی ؟ اس روز کے بعد جب میں اکیلی بیٹھتی تنہائی، میں اُسی کے بارے سوچتی، خیالوں میں اس کے ساتھ باتیں کرتی۔ حالانکہ اظہار محبت تو دور کی بات، اس نے تو لگاوٹ کا بھی اظہار نہ کیا تھا اور میں تھی کہ جیسے کسی نے حقیقت میں میری دُنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ یہ ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ دادا، دادی سے اس کے بارے پوچھوں کہ کون ہے ؟ کہاں کا رہنے والا ہے ؟ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ؟ میری آنکھوں پر خوش گمانی کی ایسی چمکتی دمکتی پٹی چڑھی کہ اس کا اصل روپ نہ دیکھ سکی  میں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ میں تو بس اس کی ہو جانا چاہتی تھی۔ اپنی اس بے خودی پر خود بھی حیران تھی۔ اب پڑوسن دادی کے گھر ذیشان سے جب سامنا ہوتا، وہ پہلی بات یہی پوچھتا۔ پڑھائی ہو رہی ہے نا دل لگا کر پڑھ رہی ہونا؟ دیکھو اپنی تعلیم کی طرف سے غفلت مت کرنا۔ یہی ایک چیز ہے جو آئندہ تمہارے کام آئے گی، تبھی میں سوچتی، یہ عمر رسیدہ لوگوں کے ساتھ رہ کر بوڑھی رُوح ہو گیا ہے۔ میں ایف اے میں پاس ہو گئی۔ ذیشان کو پتا چلا، وہ خوش ہوا، مٹھائی لایا اور سب کو دی۔ اس کی انہی باتوں نے مجھے اور بھی اس کا دیوانہ بنا دیا۔ میر اتھر ڈایئر میں تیسر اسال تھا۔ ایک دن اس نے مجھے کیک لا کر دیا۔ یہ میری سالگرہ کا کیک تھا، جو اس نے دادا اور دادی کے گھر کاٹا۔ گویا میری سالگرہ منائی، میں نے پوچھ لیا۔ آپ کو کس نے بتایا کہ آج میری سالگرہ ہے ؟ اس نے کہا۔ تھر ڈایئر کا فارم بھرا تھا تمہارا، اس میں تمہاری تاریخ پیدائش دیکھ لی تھی۔ سوچا کہ والدین کی اکلوتی ہو ، تمہارا کوئی بھائی، بہن نہیں ہے کس کے ساتھ سالگرہ منائو گی سو، ہم اس کمی کو پورا کر لیتے ہیں۔ اس روز تو مجھے یقین ہو گیا کہ ذیشان مجھ سے محبت کرتا ہے، تبھی میرے منہ سے نکل گیا۔ ایسے سالگرہ منانے سے کیا فائدہ ! عمر بھر ساتھ دیں تو بات ہے۔ وہ سمجھ گیا، تب اس نے کہا۔ کل میرے ساتھ تھوڑی دیر کو باہر چلنا، تم کو سب بتا دوں گا اگلے روز میں کالج سے نکلی۔ وہ گاڑی لئے میر امنتظر تھا۔ میںاس کی کار میں بیٹھ گئی۔ وہ مجھے ایک تفریح گاہ لے گیا۔ خولہ بی بی ! جانتی ہو میں تم کو یہاں کیوں لایا ہوں؟ یہ بتانے کے لئے کہ میں شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہوں۔ بڑی مشکل سے اپنی فیملی سے دور وقت کاٹ رہا ہوں اور اپنے تبادلے کی کوشش میں ہوں تا کہ گھر بار سے نزدیک ہو جائوں۔ دیکھو! میرے لئے تم کسی اور خیال کو دل میں جگہ نہ دے دینا۔ یہ میں تم سے اس لئے کہنا چاہتا ہوں کہ تم کسی دُکھ میں نہ پڑ جائو۔ جلد میر اتبادلہ ہو جائے گا اور میں یہاں سے چلا جائوں گا پھر شاید ہی کبھی تم سے ملاقات ہو ۔ تم اگر ایسا کچھ سوچ رہی ہو کہ میں تم کو پسند کرتاہوں یا ہماری شادی ہو سکتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ میں تم کو پسند ضرور کرتا ہوں مگر تم سے شادی نہیں ہو سکتی۔ میں محبت صرف اپنے بچوں سے کرتا ہوں۔ مجھ سے کوئی خواب وابستہ کرنا بے کار کی بات رہے گی۔ بس ایک بات اور کہتا ہوں کہ تم پڑھائی مت چھوڑنا۔ مجھے معلوم ہے تمہارے والد کافی بیمار ہیں اور وہی تمہارا سہارا ہیں لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین کو سہارے کی ضرورت پڑ جاتی ہو ہے، ایسے سے اولاد کو والدین کا سہار ابنا پڑتا ہے۔ اگر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر تم کو خدانخواستہ ایسے حالات کا سامنا تو تم بے شک مجھ کو یاد کر سکتی ہو۔ اپنا دکھ اپنی تکلیف کہہ سکتی ہو ، میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ وہ کہے جار ہا تھا اور میں گم صم تھی جیسے کچھ نہیں سُن رہی تھی۔ مجھ کو کسی نے اونچے پہاڑ سے دھکا دے دیا تھا، حالا نکہ
جو خواب بنے ، میں نے خود بنے پھر ان خوبوں میں بسیرا بھی خود کر لیا، ان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ جانتی نہ تھی حقیقت کی دنیا کیا ہے ، ارد گرد سے غافل میں تو بس اپنے بنائے خوابوں کے جال میں جی رہی تھی۔ ذیشان ایک سمجھدار جہاں دیدہ انسان تھا۔ وہ پہلی نظر میں سمجھ گیا تھا کہ میں اُس کے بارے کیا سوچنے لگی ہوں۔ پہلے تو وہ خاموش رہا پھر جب میں زیادہ ہی کھو گئی ، اس نے مجھے جگانا ضروری جانا، حقیقت بارے بتاناضروری سمجھا کیونکہ وہ نیک دل، اچھے کردار کا آدمی تھا۔ وہ مجھے دھوکا دینا نہ چاہتا تھا اور نہ میری معصومیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اس نے بجائے، مجھے حقیقت کا ادراک دے کر حالات سے محفوظ کر دینا چاہا۔ اس روز تو مجھے اتنادُ کھ ہوا کہ وہ مجھے دُنیا کا سب سے بُرا ، سب سے سنگ دل انسان لگا تھا کیونکہ اس نے مجھے میری زندگی کے سب سے میٹھے خواب سے جگاد یا تھا۔ ایسا خواب جس سے میں کبھی بھی جاگنانہ چاہتی تھی۔ لمحے بھر کو تو دل نے کہا کہ یہ شخص نفرت کے قابل ہے جس نے میرا دل توڑا ہے۔ اے کاش کہ فریب ہی دے دیتا، میں اس فریب میں جی لیتی لیکن یہ سچ تلخ ہی نہیں، اہانت آمیز بھی تھا اور انسان اپنی توہین کا زہر بڑی مشکل سے پی سکتا ہے۔ کافی دنوں تک روتی رہی۔ میرا دل جینے سے ہی اٹھ گیا۔ جانتی تھی کہ ذیشان میرے دُکھ کو محسوس کر رہا ہے لیکن اس نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ غمگساری نہ کی اور  ایک دن اپنا تبادلہ کرا کر ہمارے شہر سے چلا گیا۔ وقت بڑا مر ہم ہے۔ میں نے بھی کچھ عرصہ بعد رو دھو کر صبر کر لیا۔ ان دنوں اباجان کی طبیعت زیادہ خراب تھی، علاج معالجہ بھی کر لیا مگر شفا ان کی قسمت میں نہ تھی۔ بیماری بالآخر مرض الموت ثابت ہوئی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کچھ دن ان کے سوگ میں گزر گئے ، ہوش جب آیا کہ مشکل وقت سر پر آچکا تھا۔ جوں توں کر کے تعلیم مکمل کی اور اپنے وطن کی ہزاروں لڑکیوں کی طرح میں بھی سہارے ڈھونڈتی نوکری کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ اب پتا چلا کہ زندگی کتنی سنگلاخ ، کتنی مشکل ہے ، سال بھر تک ملازمت کے لئے ماری ماری پھرتی رہی۔ ایک روز دادی جی کی زبانی پتا چلا کہ ذیشان ترقی پا کر مزید بڑے آفیسر ہو کر ہمارے شہر آگئے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے ملنے آئے تھے ، میں نے ان کا نام سناتو رو پڑی۔ دادا سمجھے کہ نوکری نہ ملنے کی پریشانی اور معاشی تنگی نے رلا دیا ہے۔ کہنے لگے ۔ خولہ بیٹی روتی کیوں ہو؟ میں ذیشان سے تمہاری نوکری کے لئے بات کرتا ہوں۔ وہ ضرور تمہارے لئے کچھ نہ کچھ کرے گا۔ اب تو اسے بنگلہ بھی بینک کی طرف سے ملا ہے۔ میں چُپ رہی۔ انہوں نے فون ملایا اور ذیشان سے میرے بارے میں بات کی۔ اس نے کہا کہ میں آفس کے بعد آئوں گا۔ شام کو دادا کے گھر آیا اور مجھ کو بلوا بھیجا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں گئی۔ ذیشان جانتا تھا کہ میں اس سے خفا تھی لیکن اب کیا میر اخفاہونا! اب تو گھر کو چلانا تھا، ملازمت لینی تھی۔ دادا نے مجھے تمہارے حالات سے آگاہ کر دیا ہے۔ پریشان مت ہو۔ یہ رہا میر اکارڈ، کل میرے دفتر آجانا۔ تم کو ملازمت مل جائے گی۔ مجھ کو ان کے ایک فون پر ملازمت مل گئی۔ آج پتا چلا کہ زندگی میں محبت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ آج تو محبت کسی دیوانے کا خواب ہی لگتی ہے۔ والد کی وفات کے بعد امی صدمے سے نڈھال ہو کر اب تک بیمار پڑی تھیں اور گھر میں فاقوں تک نوبت آچکی تھی۔ ایسے میں ذیشان کی ذات اندھیرے میں چراغ کی مانند تھی۔ جب مجھ کو تقرری کا لیٹر ملا، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بولے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خوش ہوں کہ تمہارا مسئلہ حل ہو گیا۔ میں آپ کی بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے خوابوں کی دُنیا سے نکال کر حقیقت میں زندگی کا مفہوم سمجھا دیا ہے۔ اگر حقیقت کا مفہوم سمجھ لیا ہے تو مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھ لو، یہی رشتہ میرے اور تمہارے درمیان اچھا رہے گا۔ اس طرح تم میرے گھر آسکو گی، میری بیوی اور بچوں سے مل سکو گی اور آئندہ بھی تم کو کبھی زندگی میں کوئی مشکل در پیش ہوئی تو میں تمہارے کام آسکوں گا۔ اگر ایک بڑا بھائی تم کو مل جائے تو کیا یہ خوشی کی بات نہ ہو گی۔ جی ، بہت زیادہ خوشی کی بات ہے۔ میں نے آنسو پو چھتے ہوئے اس مقدس رشتے کو قبول کر لیا۔

Latest Posts

Related POSTS