پریشانی اور مصیبت میں بری طرح گرفتار نینا آرٹ گیلری پہنچی تو وہ گھنٹہ بھر لیٹ تھی۔ منیجر اس سے زیادہ پریشانی کا شکار تھا۔
اس نے نینا کو دیکھتے ہی کہا۔ ’’سب کچھ غلط ہورہا ہے نینا! سب کچھ غلط…! کوئی کام بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’سب ٹھیک ہوجائے گا، آپ فکر نہ کریں۔‘‘ نینا نے اپنا کوٹ اتار کر الماری میں پھینکا اور جلدی سے بولی۔ ’’مسٹر ایرچ کب پہنچ رہے ہیں؟‘‘
’’ایک بجے…! تم سوچ سکتی ہو کہ تین پینٹنگز ابھی پانچ منٹ پہلے پہنچی ہیں۔‘‘
نینا جانتی تھی کہ منیجر ایسے موقعوں پر عموماً آدھا پاگل ہوجاتا ہے اسی لئے اس نے تشفی آمیز لہجے میں کہا۔ ’’آپ ذرا خود کو نارمل کریں، تب تک میں سارا کام نمٹا دوں گی۔‘‘
کچھ دیر کی بھاگ دوڑ کے بعد نینا ساری تصویریں مناسب جگہوں پر لٹکا چکی تھی۔ منیجر کی بھی جان میں جان آئی۔ وہ گہرا سانس لے کر بولا۔ ’’نینا…! مجھے پوری امید تھی کہ جب تم آجائو گی تو سارا کام سنبھال لو گی۔‘‘
یہ سارا ہنگامہ ایک نئے آرٹسٹ ایرچ کروگر کی وجہ سے ہورہا تھا۔ جو آیا اور چھا گیا تھا۔ اس کی تصویروں کی پہلی نمائش نے ہی میلہ لوٹ لیا تھا۔ گیلری کے لئے بھی وہ نفع بخش ثابت ہوا تھا۔ اس کے پرستاروں کے اصرار پر آج آرٹسٹ کو گیلری میں مدعو کیا گیا تھا۔ منیجر چاہتا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے تمام تیاری مکمل ہوجائے۔
ایرچ ایک پیدائشی آرٹسٹ تھا ورنہ اس کا خاندانی پس منظر اس سے کوئی خاص مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ ایک دوردراز علاقے میں اپنے فارم ہائوس میں رہتا تھا جو پانچ نسلوں سے آباد تھا۔
ان کا خاندانی پیشہ بہترین مویشی پالنا تھا جو ہمیشہ انعامات حاصل کرتے تھے۔
دو سال پہلے ایک آرٹ ڈیلر نے اسے دریافت کیا تھا۔
اس کی تصویروں کی چار نمائشیں ہوچکی تھیں۔ اس کا کام اور اس کی شخصیت دونوں ہی بہت پرکشش تھیں۔ کسی بھی خاتون کا اسے نظرانداز کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ اس کی عمر تیس سال تھی اور وہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔
نینا نے اخباروں میں اس کی تصویریں دیکھی تھیں۔ آج اس سے پہلی مرتبہ اس کی ملاقات ہونے والی تھی لیکن وہ اس ساری تقریب کے حوالے سے اتنی مصروف تھی کہ اسے ایرچ کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
منیجر مطمئن ہوکر اپنی سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ نینا سب سے خوبصورت تصویر کو اس شوکیس میں لگانا چاہتی تھی جو باہر سے گزرنے والوں کی نگاہ میں آتا تھا۔ اگر تصویر واقعی پرکشش ہوتی تو اکثر لوگ اسے رک کر دیکھتے تھے اور پھر دروازہ کھول کر اندر آنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
نینا نے ایک تصویر کا انتخاب کیا اور اسے باہر آویزاں کرنے کے لئے لپکی۔ وہ تصویر ایک حسین نوجوان لڑکی کی تھی جو گھر کے پورچ میں لگے جھولے میں بیٹھی تھی۔ اس کے دلکش چہرے کا رخ سورج کی جانب تھا۔ سورج کی روشنی دھنک رنگ بن کر اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ سیاہ بالوں کی گھنگھریالی لٹیں اس حسین لڑکی کے چہرے کو ہالے میں لئے ہوئے تھیں۔ دور سے ایک چھوٹا لڑکا اس کی جانب بڑھا چلا آرہا تھا۔ اس کے پائوں برف میں دھنس رہے تھے۔
ایک نظر سارے منظر کو دیکھ کر نینا سوچ رہی تھی کہ اتنی سردی میں یہ حسینہ باہر پورچ میں کیا کررہی تھی، اس کے چہرے پر اداسی کیوں تھی…؟ اردگرد کا سارا ماحول اور ڈوبتا ہوا سورج مجموعی طور پر ایک سوگوار سی کیفیت پیدا کررہا تھا لیکن اس کے باوجود یہ تصویر ایک شاہکار تھی۔ اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔
نینا اسے مناسب مقام پر لگا کر چند قدم پیچھے ہٹی کہ اس پر ایک آخری نگاہ ڈال کر اندر چلی جائے کہ تصویر اپنے طور پر درست تھی یا نہیں…! یکدم وہ کسی سے ٹکرائی۔ بے خیالی میں لڑکھڑائی لیکن ایک مضبوط ہاتھ نے اسے تھام کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کردیا۔
’’تم اتنی سردی میں بغیر کوٹ کے کیوں کھڑی ہو؟‘‘ ایک بھاری پرکشش آواز نے پوچھا۔
’’اوہ…!‘‘ نینا الجھ سی گئی۔ وہ چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
وہ حیرت سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگی جو اس کے روبرو تھا اور اگر وہ غلطی پر نہیں تھی تو وہ مقبول آرٹسٹ ایرچ کروگر تھا جو بڑی دلچسپی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نینا نے جلدی سے ہاتھ بڑھایا۔ ’’اوہ… مسٹر ایرچ! معاف کیجئے گا۔ میرا نام نینا ہے، میں گیلری میں کام کرتی ہوں۔‘‘
وہ چند لمحے گہری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتا رہا، پھر یکدم چونک کر بولا۔ ’’نہیں… کوئی بات نہیں۔‘‘
اس دوران نینا بھی اس کا جائزہ لے چکی تھی۔ اسے یہ باور کرنے میں کوئی باک نہیں تھا کہ وہ مردانہ وجاہت کا ایک شاہکار تھا۔ اس کے یونانی دیوتائوں کے جیسے نقوش، سنہری مائل برائون بال اور سمندروں کی انوکھی نیلاہٹیں لئے مسحورکن آنکھیں…!
ایرچ نے جلدی سے کہا۔ ’’نینا! چلو اندر، کوٹ کے بغیر تمہیں سردی لگ جائے گی۔‘‘ اس نے گیلری کا دروازہ کھولا اور اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا اور پھر فوراً ہی آگے بڑھ کر تصویروں کا جائزہ لینے لگا۔ نینا اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ کچھ تصویروں کو اس نے تھوڑا سیدھا کیا، کچھ کے بارے میں سوالات کئے کہ انہیں کس ترتیب سے لگایا گیا ہے۔
جب وہ ساری تصویریں دیکھ کر اپنے اطمینان کا اظہار کرچکا تو نینا نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مسٹر ایرچ! آپ کے لئے کھانا منیجر کے کمرے میں آنے والا ہے۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ دیتی ہوں اور میں جلدی سے قریبی ریستوران میں جاکر جلدی جلدی ایک سینڈوچ کھا کر آجاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الماری سے اپنا کوٹ نکالنے لگی۔
ایرچ نے کوٹ پہننے میں اس کی مدد کی اور بولا۔ ’’تمہارے منیجر آج اکیلے ہی کھانا کھائیں گے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے، میں تمہارے ساتھ لنچ کروں گا۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو؟‘‘ اس کی نیلی آنکھیں گہرے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
نینا نے نظریں چرا لیں۔ وہ دل ہی دل میں گھبرا رہی تھی۔ منیجر کو یقیناً یہ ناگوار ہوگا کہ ان کے کھانے کا اتنا مہنگا آرڈر بیکار جائے گا اور وہ گیلری کی ایک عام کارکن، اتنے بڑے آرٹسٹ کے ساتھ مزے سے لنچ کرتی پھر رہی ہے۔ نینا کو سوچنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ ایرچ اتنا انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے نہایت بے تکلفی سے اس کا بازو پکڑا اور بولا۔ ’’تم تو سوچنے میں ہی گھنٹے لگا دو گی پھر جواب کتنی دیر میں دو گی۔ یہ کوئی اتنی مشکل بات نہیں ہے۔ چلو جلدی کرو۔‘‘ وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا گیلری سے باہر آگیا۔
ایک قریبی ریسٹورنٹ میں اس نے کلب سینڈوچز کا آرڈر دیا اور میز پر دونوں بازو ٹکا کر تھوڑا سا اس کی طرف جھکتا ہوا بولا۔ ’’نینا…! مجھے اپنے بارے میں بتائو؟‘‘
نینا نے بے ساختہ ہنس کرکہا۔ ’’کیا تم نے وہ کورس کیا ہے جس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مخاطب کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ اسے اہم سمجھا جارہا ہے، اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں؟‘‘
’’نہیں…! میں نے ایسا کوئی کورس نہیں کیا۔ نہ ہی میرا یہ مقصد ہے کہ تم خود کو اہم سمجھو۔ میں بس تمہارے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ بڑی متانت سے بولا۔
نینا مسکرائی اور کافی کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے بولی۔ ’’میرے بارے میں جاننا کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوگا۔ میری کہانی بس اتنی سی ہے کہ میں اپنی دو بچیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں۔ روتھ تین سال اور تانیہ دو سال کی ہے۔ ان بچیوں کو پروان چڑھانے کے لئے میں اس آرٹ گیلری میں تین سال سے ملازمت کررہی ہوں۔ میں نے شوہر سے طلاق لے لی ہے۔‘‘
’’تم اتنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کس طرح ملازمت کررہی ہو؟‘‘
’’میری دادی نے اس سلسلے میں میری بہت مدد کی۔ اب میں بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ دیتی ہوں۔‘‘
’’کیا تمہارا سابقہ شوہر بچیوں کا خرچ اٹھاتا ہے؟‘‘
’’نہیں…! وہ ایک اداکار ہے جسے فی الحال کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘ نینا نے جواب دیا اور اس کے مزید سوالات سے بچنے کے لئے اس نے سوال کا سہارا لیا۔ ’’اب تمہاری باری ہے مجھے اپنے بارے میں بتانے کی۔‘‘
’’میرے بارے میں تو تم نے میرے انٹرویو میں پڑھا ہی ہوگا لیکن میں پھر بھی تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ وہ ایک مسحورکن مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ’’میں اپنے والدین کا اکلوتا بچہ ہوں، میری والدہ ہمارے فارم ہائوس میں ایک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ میں اس وقت دس سال کا تھا بلکہ اس روز ہی میری دسویں سالگرہ تھی۔ دو سال ہوئے میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ میرا منیجر میرے تمام معاملات دیکھتا ہے۔ میرا زیادہ وقت اپنے اسٹوڈیو میں ہی گزرتا ہے۔‘‘
’’تم اپنے خاندان کے پہلے آرٹسٹ ہو؟‘‘
’’نہیں…! میری والدہ کو بھی پینٹنگ کا شوق تھا اور میرے نانا تو ایک مشہور آرٹسٹ تھے۔‘‘ اس نے ان کا نام بتایا۔
’’اوہ…! ان کا نام تو میں نے سنا ہے۔ وہ ایک اچھے پینٹر سمجھے جاتے ہیں لیکن تم نے اپنے تعارف میں کبھی ان کا نام نہیں لیا۔‘‘
’’میں کسی کے سہارے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ یقیناً میں نے یہ فن وراثت میں بھی پایا ہے لیکن اب تک میں نے جو کیا ہے، وہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ ہے۔ میری والدہ بہت اچھی آرٹسٹ نہیں تھیں، وہ پینسل سے خاکے وغیرہ بناتی تھیں، مگر میرے والد کو یہ بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ ممی کی اس مصروفیت کو اپنا رقیب سمجھتے تھے۔ وہ اکثر انہیں کہتے کہ وہ اپنا وقت اس طرح برباد کرنے کے بجائے کوئی مفید کام کریں۔ اسی لئے جب میں نے مصوری شروع کی تو میں نے اسے اپنے والد پر ظاہر نہیں کیا اور اپنا کام چھپ کر کرتا رہا۔ انہیں مرتے دم تک اس کا علم نہیں ہوا کہ میں بھی مصوری کرتا ہوں۔‘‘
دوپہر کا تپتا سورج مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کھڑکی کے شیشوں سے روشنی کی چند کرنیں زاویہ بدل کر ان کی میز تک آگئی تھیں، جس سے نینا کو اندازہ ہوا کہ وقت کافی بیت چکا ہے۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ ’’مسٹر ایرچ…! منیجر کو تو ہارٹ اٹیک ہوجائے گا یہ دیکھ کر کہ میں آپ کے ساتھ باہر لنچ پر چلی گئی۔ بس پلیز…! اب اٹھ جائو ورنہ میری خیر نہیں۔‘‘
ایرچ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ ’’مس نینا…! آج شام تمہاری کوئی مصروفیت ہے؟‘‘
’’بہت … بہت بڑی…!‘‘ نینا نے دلکش سبز آنکھیں پھیلائیں۔ ’’مجھے بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر سے لینا ہے۔ اگر میں دیر سے پہنچی تو مجھے
کی باتیں بھی سننا پڑیں گی، کیونکہ وہ ساڑھے پانچ بجے سینٹر بند کردیتی ہے۔‘‘
’’ہوں…!‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ تمہاری بچیاں بھی تمہاری جیسی خوبصورت ہوں گی۔‘‘ وہ گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
’’بس…! اب چلنا چاہئے۔‘‘ نینا اپنا بیگ اٹھا کر جلدی سے کھڑی ہوگئی۔ ایرچ کو بھی اٹھنا پڑا، لیکن صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ اٹھنا نہیں چاہتا۔
جب وہ گیلری پہنچے تو منیجر بے تابی سے ٹہل رہا تھا۔ نینا کو معلوم ہورہا تھا کہ وہ غصے میں ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی برہمی کا اظہار کرتا، ایرچ نے معاملہ سنبھال لیا۔ منیجر کی تعریف کرکے اس نے اس کا موڈ بحال کردیا۔
آہستہ آہستہ گیلری میں رش بڑھتا گیا۔ لوگ اپنے پسندیدہ آرٹسٹ کو دیکھنے، اس سے بات کرنے اور آٹوگراف لینے کے لئے جوق درجوق آئے تھے۔ تقریب بہت کامیاب رہی، لوگوں کو تصویریں بھی پسند آئی تھیں اور مصور بھی…! جو بہترین لباس، اپنی مسحورکن شخصیت، رکھ رکھائو اور متاثرکن گفتگو سے سب کو متاثر کررہا تھا۔ نینا کو ہمہ وقت اس کے ساتھ رہنا تھا تاکہ اسے اس کے پرستاروں، نقادوں اور میڈیا کے لوگوں سے ملوا سکے۔
جیسے جیسے گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں، نینا کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ اسے بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر سے لینا تھا اور یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ منیجر کو معلوم تھا کہ وہ پانچ بجے چھٹی کرلیتی ہے۔ اس وقت سوا پانچ ہوچکے تھے، تقریب ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایرچ کے پرستار اسے گھیرے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ باتیں کرکے ان کا دل نہیں بھر رہا تھا۔
نینا کے لئے اب وہاں مزید ٹھہرنا ناممکن تھا۔ وہ بڑے غیرمحسوس انداز میں ایرچ کو اپنے پرستاروں میں مصروف چھوڑ کر باہر نکلی، اپنا کوٹ پہنا اور خاموشی کے ساتھ پچھلے دروازے سے باہر نکل آئی۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی کہ سڑک کے کناروں پر برف موجود تھی۔ گویا کچھ دیر پہلے ہی برف باری ہوئی تھی۔ سواریاں کم تھیں اور معمول سے کم رفتار میں چل رہی تھیں۔
ڈے کیئر سینٹر پہنچنے کی جلدی میں نینا نے پیدل ہی جانے کا فیصلہ کیا لیکن گھڑی کی رفتار دیکھ کر اسے بھاگنا پڑا۔ جب اس نے وہاں پہنچ کر گھنٹی بجائی تو وہ ہانپ رہی تھی اور اس کی گھڑی پونے چھ بجا رہی تھی۔ اس نے خود کو انچارج کی لعنت ملامت سننے کے لئے تیار کرلیا تھا۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی، انچارج نے گلے شکوئوں کے دفتر کھول دیئے۔ ’’تمہاری بچیوں نے تو آج ہمیں پاگل ہی کردیا۔ تانیہ ایک منٹ کے لئے بھی خاموش نہیں ہوئی۔ اس کا رونا چلتا ہی رہا اور روتھ نے آج بہت گندگی پھیلائی اور کسی کی بات نہیں سنی۔‘‘
’’سوری مسز کرٹس…! دراصل بچیاں یہاں کی ابھی عادی نہیں ہوئیں، وہ جلدی سیکھ جائیں گی۔‘‘
’’بہت مشکل ہے مس نینا! یہ بچیاں بہت چھوٹی ہیں اور انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ ہم سارا وقت ان کو نہیں دے سکتے۔‘‘
’’ممی…!‘‘ بچیوں میں سے کوئی پکارا۔
نینا انچارج کے شور و ہنگامے کو نظرانداز کرکے بچیوں کی طرف بڑھی جو نیم تاریک لائونج میں ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نینا نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ تانیہ کے گال آنسوئوں سے بھیگے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی سبزی مائل آنکھیں اور گھنی پلکیں بالکل ان کے باپ پرگئی تھیں۔ اسے قریب پا کر روتھ نے روداد بیان کرنے کی کوشش کی۔ ’’تانیہ آج ڈر گئی تھی۔ وہ روتی رہی۔‘‘
نینا نے جھک کر تانیہ کو اٹھا لیا۔ روتھ بھی اس سے چپک گئی۔ اس ڈر سے کہ وہ کہیں یہیں نہ چھوڑ جائے۔
’’ہم بچیوں کو ہفتے تک رکھیں گے بس…! اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ مسز کرٹس نے فیصلہ سنایا۔
پریشان حال نینا اس کی بات ان سنی کرکے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ جہاں تیز ٹھنڈی ہوا نے ان کا استقبال کیا۔ تانیہ نے اپنا چہرہ نینا کی گردن میں گھسا لیا اور روتھ نے اس کے کوٹ سے خود کو ہوا کے تھپیڑوں سے بچانے کی کوشش کی۔
’’ہم بھیگ جائیں گے۔‘‘ وہ بولی۔
’’فکر مت کرو، ابھی ہم بس میں بیٹھ جائیں گے، پھر سردی نہیں لگے گی۔‘‘ نینا نے تسلی دی۔
مگر تین بھری ہوئی بسیں ان کے برابر سے گزر گئیں۔ آخر نینا نے پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ گود میں اٹھائی ہوئی تانیہ اونگھنے لگی تھی۔ اس لئے اس کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ تیز قدم اٹھاتی تھی تو ننھی روتھ اس کے ساتھ گھسٹنے لگتی تھی۔ آخر اس نے ہمت کی اور جھک کر روتھ کو بھی اٹھا لیا۔
’’ممی…! میں بڑی ہوں، میں چل سکتی ہوں۔‘‘ روتھ نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی۔ لیکن نینا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے ایک دوسرے میں جکڑ کر تانیہ اور روتھ دونوں کو سنبھال لیا اور روتھ سے بولی۔ ’’مجھے پتا ہے تم بڑی ہو، مگر اس وقت ہمیں گھر پہنچنے کی جلدی ہے۔ بس تم مضبوطی سے مجھے پکڑو، میں دوڑ لگاتی ہوں۔ ہم بہت جلد گھر پہنچ جائیں گے۔ بس سے بھی پہلے…! دیکھنا تمہاری ممی کتنا تیز دوڑتی ہے۔‘‘ وہ دونوں کو باتوں میں لگاتی تقریباً بھاگ رہی تھی۔
اچانک کوئی بالکل اس کے برابر آگیا۔ نینا نے چونک کر دیکھا۔ ایرچ نے ہاتھ بڑھا کر روتھ کو اس کے بازوئوں سے لے لیا۔ روتھ کچھ خوف زدہ، کچھ حیران سی روہانسی ہوگئی۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی احتجاج کرتی، ایرچ انتہائی نرمی سے بولا۔ ’’اگر میں تمہیں اٹھا لوں گا تو ہم جلدی گھر پہنچ جائیں گے۔ چلو ہم ممی اور تانیہ کے ساتھ ریس لگاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے؟‘‘
’’لیکن…!‘‘ نینا نے ہچکچاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔
’’تکلف سے کام نہ لو، مجھے مدد کرنے دو… میں تانیہ کو بھی اٹھا سکتا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ بہت چھوٹی ہے، میرے پاس نہیں آئے گی۔‘‘
’’شکریہ مسٹر ایرچ! لیکن آپ کو یہ…!‘‘
’’تمہارے منیجر نے مجھے دونوں ایڈریس دیئے ہیں۔ میں پیدل ہی تمہارا اپارٹمنٹ ڈھونڈنے چلا تھا کہ راستے میں مجھے ایک خوبصورت لڑکی نظر آگئی جسے مدد کی ضرورت تھی تو میں نے کہا پہلے یہ نیکی کا کام کرنا چاہئے۔‘‘
نینا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ اسے اپنے برابر چلتے ہوئے دیکھ کر اسے تحفظ کا احساس ہورہا تھا۔ اسے اپنی جانب دیکھتے ہوئے پا کر اس نے پوچھا۔ ’’تم ہر روز اسی طرح گھر جاتی ہو؟‘‘
’’نہیں…! میں عموماً بس لے لیتی ہوں لیکن آج کوئی بس خالی نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ موسم خراب ہورہا ہے، انتظار کرنے کے بجائے چلنا چاہئے، فاصلہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔ بس! وہ سامنے میرا اپارٹمنٹ نظر آرہا ہے۔‘‘
گھر کے قریب پہنچ کر نینا نے چاہا کہ وہ روتھ کو گود سے اتار دے اور وہ اس کو گڈ نائٹ کہہ کر رخصت کردے لیکن وہ اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا تھا اور اس کا کوئی ارادہ رخصت ہونے کا نہیں تھا۔ کچھ نیم دلی سے نینا نے اسے اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں آنے کے لئے کہا۔ جسے اس نے خوبصورتی سے سجا رکھا تھا۔
دونوں بچیاں گود سے اتر کر کمرے میں دوڑنے لگیں۔ روتھ نے خوش ہوکر کہا۔ ’’ممی…! میں بہت خوش ہوں کہ ہم گھر پہنچ گئے۔ تانیہ بھی خوش ہے، اس نے رونا بند کردیا ہے۔‘‘
’’ہمارا گھر چھوٹا سا ہے لیکن ہمیں بہت پسند ہے۔‘‘ نینا نے ایرچ سے کہا۔
’’ہاں…! واقعی یہ ایک خوبصورت اور پرسکون جگہ ہے۔‘‘ وہ بولا۔
نینا، روتھ کے بھاری کپڑے اتارنے لگی۔ ایرچ نے تانیہ کا کوٹ اتارنے میں اس کی مدد کی اور بولا۔ ’’ہاں…! آپ لوگ یہ بات سن لیں کہ میں نے خود کو ڈنر پر مدعو کرلیا ہے۔ اگر آپ لوگوں کا کوئی اور پروگرام ہے تو مجھے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں اور اگر نہیں ہے تو مجھے بتائیں کہ یہاں سب سے اچھی مارکیٹ کون سی ہے؟‘‘
دونوں بیک وقت اٹھ کر کھڑے ہوئے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ ایرچ بولا۔ ’’پھر کیا خیال ہے، میں چلا جائوں یا مارکیٹ کا پتا بتائو گی؟‘‘
چند لمحے دونوں کی نگاہیں اس طرح الجھ گئیں کہ تھوڑی دیر کے لئے وہ گردوپیش سے بے خبر ہوگئے۔
پھر ایک ننھی آواز نے انہیں چونکایا۔ روتھ اس کی ٹانگ کو تھامے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’آپ مجھے کہانی پڑھ کر سنا دیں، اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو!‘‘
’’لو بھئی! بچی نے طے کردیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘ اس نے روتھ کو جھک کر گود میں اٹھا لیا۔ ’’میں یہیں رکوں گا اور روتھ کو کہانی پڑھ کر سنائوں گا اور ممی! تم نے جو کرنا ہے، کرلو۔‘‘
’’وائو…!‘‘ روتھ نے خوشی سے نعرہ مارا۔
اور نینا نے سوچا کہ وہ واقعی ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ وہ اتنی بے تکلفی سے روتھ کو اٹھائے ہوئے کھڑا تھا جیسے نہ جانے کب سے ان کے ساتھ رہتا آیا ہو۔ نینا کو اپنے وجود میں ایک خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے ایرچ کو مخاطب کیا۔ ’’مارکیٹ جانے کی کوئی ضرورت نہیں، تمہیں آج گھر کا کھانا ملے گا۔‘‘
’’وائو…!‘‘ ایرچ نے روتھ کی نقل اتاری تو روتھ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
نینا اپنے معمول کے کام جلدی جلدی نمٹانے لگی۔ اس نے ایرچ کے لئے ٹی وی کھول دیا، خود بچیوں کو نہلا کر انہیں کھانا کھلایا اور انہیں کہانی سنانے کے لئے ایرچ کے حوالے کردیا۔ اس نے جلدی جلدی کھانا بنایا اور میز پر لگاتے ہوئے وہ چور نگاہ سے ایرچ کا بھی جائزہ لیتی رہی تھی۔ وہ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے دونوں بازوئوں میں دونوں بچیاں سمٹی ہوئی تھیں اور وہ انہیں بڑے ڈرامائی انداز میں کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔ پھر تانیہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو ایرچ نے اسے گود میں لٹا لیا۔ روتھ دلچسپی سے کہانی سن رہی تھی۔
کہانی ختم ہوئی تو وہ بولی۔ ’’یہ کہانی بہت اچھی تھی۔ آپ بھی ممی کی طرح ہی کہانی سناتے ہیں، بہت اچھے انداز میں…!‘‘
ایرچ نے مسکراتے ہوئے نینا کی طرف دیکھا۔ نینا بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔ تھوڑی دیر میں روتھ بھی سوگئی تو دونوں نے چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔
کھڑکی کے شیشوں میں سے باہر کا منظر بڑا دلکش معلوم ہورہا تھا۔ درختوں پر جمی ہوئی برف گھر کی پچھلی روشنیوں سے چمک رہی تھی۔ جنگلے پر چڑھی ہوئی بیلیں بلوریں معلوم ہورہی تھیں۔ ’’جب بچیاں سو جاتی ہیں تو میں یہاں بیٹھ کر کافی پیتی ہوں اور باہر کے منظر کو دیکھ کر یہ سوچتی ہوں کہ یہی میرا باغیچہ بھی ہے اور لان بھی!‘‘
ایرچ نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایرچ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آئے۔ نینا نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید پڑوسن
ہے۔ اسے اپنا تجسس دور کرنا ہوگا کہ کون آیا ہے۔‘‘
مگر وہ پڑوسن نہیں تھی، وہ کیون تھا۔ قیمتی سوئٹر، لمبے مفلر کے ساتھ وہ لڑکپن کی حد تک لاابالی سا معلوم ہورہا تھا۔ اس کے سرخ بال جدید انداز میں سنورے ہوئے تھے اور چہرے پر تھوڑا سا سانولا پن اس کی خوبصورتی اور وجاہت میں اضافہ کررہا تھا۔
’’آئو…!‘‘ نینا نے دروازے سے پیچھے ہٹ کرکہا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ ایرچ بہت غور سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔
وہ اندر آیا اور کھلنڈرے پن سے بولا۔ ’’بچے سو گئے؟ اوہو…! میرا خیال تھا کہ میں ان سے بھی مل لوں گا۔‘‘ پھر اس کی نگاہ ایرچ پر پڑی۔ ’’اوہ! تمہارے ہاں تو مہمان آئے ہوئے ہیں۔‘‘
نینا نے دونوں کا تعارف کروایا۔ دونوں نے لئے دیئے انداز میں ایک دوسرے کو ’’ہیلو‘‘ کہا۔
’’اوہ…! بڑی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ کیون گہرا سانس لے کر بولا۔ ’’یہ تو میں مانتا ہوں کہ تم زبردست کھانا پکاتی ہو… تمہارے ہاتھ کا ذائقہ میں ابھی نہیں بھولا… یہ بھی مجھ سے حماقت ہوئی۔ تمہیں خواہ مخواہ چھوڑا۔ اچھا نینا…! ذرا دوسرے کمرے میں چل کر مجھ سے بات کرلو۔‘‘ اس نے چٹکی بجا کر اسے دوسرے کمرے میں چلنے کا اشارہ کیا۔
نینا کو معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ان تاریخوں میں اسے تنخواہ ملتی ہے۔ نینا نے ایرچ سے نظر بچا کر اپنا پرس بغل میں دبایا اور اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں آگئی اور بولی۔ ’’کیون! دراصل میں…!‘‘
’’نینا…! میرا مالک مکان مجھے دھکے دے کر باہر نکالنے والا ہے پلیز…! مجھے صرف ہفتے بھر کا کرایہ دے دو۔ تم یہ کیسے گوارا کرسکتی ہو کہ تمہاری بچیوں کے باپ کا سامان باہر سڑک پر پھینک دیا جائے۔‘‘
’’لیکن یہ بہت زیادہ ہے۔ پھر میرے لئے کیا بچے گا؟‘‘
’’کچھ خیال کرو میرا نینا! آخر ہم نے کبھی محبت کی تھی، کچھ وقت ہم نے اچھا بھی گزارہ ہے۔‘‘
اس کی خوشامد کے سامنے وہ بے بس ہوگئی۔ مجبوراً اسے رقم دینا پڑی۔
وہ اپنی جیب میں رقم ٹھونستے ہوئے بولا۔ ’’مجھ سے لکھوا لو نینا…! یہ جو اندر بن مانس بیٹھا ہوا ہے، وہ تم پر بری طرح فریفتہ ہوچکا ہے۔ وہ تمہیں کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔‘‘ وہ یہ کہتا ہوا پچھلے دروازے سے نکل گیا۔
نینا واپس کمرے میں آئی تو ایرچ میز سے برتن اٹھا کر سنک میں رکھ چکا تھا۔ نینا کو اس کے تبصرے پر دل ہی دل میں ہنسی آرہی تھی۔ اس نے دور ہی سے کہا۔ ’’ٹھہرو…! میں ابھی برتن دھو لیتی ہوں۔‘‘
ایرچ نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں بولا۔ ’’تم نے اپنے اس ایکٹر کو کتنی رقم دی ہے؟‘‘
نینا نے بتایا تو ایرچ ناگواری سے بولا۔ ’’تم اس شخص کو یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہو، جبکہ تمہارا تعلق ختم ہوچکا ہے۔ پھر وہ تم سے رقم بھی اینٹھتا ہے؟‘‘
’’اس کو کرایہ دینا تھا ورنہ اس کا مالک مکان اس کا سامان باہر پھینک دیتا۔‘‘
’’وہ اسی قابل ہے جس نے تمہاری قدر نہیں کی۔‘‘
’’میں چاہتی ہوں کہ بچوں کے ساتھ اس کا رابطہ رہے… وہ باپ کی کمی محسوس نہ کریں۔‘‘
’’اس قسم کے باپ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔‘‘ وہ جل کر بولا اور دھلے ہوئے برتن خشک کرنے لگا۔
نینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس طرح کام کرتا ہوا گھر کے ایک فرد کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ اس کے ہونے سے اکیلے پن کا احساس مٹ گیا تھا۔ اپنا آپ بڑا محفوظ لگ رہا تھا۔
ایرچ نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’تم کیا سوچ رہی ہو نینا…؟‘‘
نینا مسکرائی۔ ’’نہیں! کچھ نہیں۔ ہاں کچھ اطمینان سا ہے، سکون…!‘‘
’’ہاں اور میں بھی شاید کبھی اتنا پرسکون اور مطمئن نہیں ہوا۔‘‘ چند لمحے توقف کے بعد وہ بولا۔ ’’نینا…! کیا تم اب بھی کیون سے محبت کرتی ہو؟‘‘
نینا کو ہنسی آگئی۔ ’’اگر ایسا ہوتا تو میں اس سے الگ ہی کیوں ہوتی؟‘‘
’’تو پھر تم اس کو اتنی آسانی سے رقم کیوں دے دیتی ہو؟‘‘
’’اس لئے کہ وہ میری بچیوں کا باپ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ ان کی زندگی میں رہے۔‘‘
وہ اس کی بات پر توجہ دیئے بغیر بولا۔ ’’میں صبح کی فلائٹ سے شہر سے باہر جارہا ہو۔ میں ہفتے کو واپس آئوں گا۔ تم ہفتے کی رات کو مصروف تو نہیں ہوگی؟‘‘
نینا کے دل میں ہلچل سی مچی تو وہ گویا اس سے رابطہ رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بے ساختہ کہا۔ ’’ہاں…! میں فارغ ہوں گی… بچیوں کے لئے میں کچھ انتظام کرلوں گی۔‘‘
’’اور اگر تم فارغ ہو تو بچوں کو چڑیا گھر لے کر چلیں؟ میرا خیال ہے اتنی سردی تو نہیں ہوگی بعد میں انہیں لنچ کے لئے ہوٹل لے چلیں گے۔‘‘ اس نے ایک مشہور ہوٹل کا نام لیا۔
’’بچے تویقیناً خوش ہوں گے مگر ایرچ…!‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’اچھا…! میں چلتا ہوں، تم بھی تھکی ہوئی ہو۔‘‘ وہ بولا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
صبح ٹھیک آٹھ بجے فون کی گھنٹی بجی۔ ’’رات کیسی گزری…؟‘‘ ایرچ پوچھ رہا تھا۔
’’ٹھیک گزری۔‘‘ نینا نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’میری بھی رات بہت اچھی گزری۔ ایک عرصے بعد میں نے بہت خوشگوار خواب بھی دیکھے اور ہاں نینا…! آج سے میں نے ایک لیموزین گاڑی کا انتظام کردیا ہے۔ وہ ٹھیک سواآٹھ بجے تمہارے پاس پہنچ جائے گی جو بچوں کو ڈے کیئر سینٹر چھوڑے گی اور تمہیں آرٹ گیلری اور وہ تمہیں واپس بھی لائے گی۔ ڈرائیور کو وقت بتا دینا۔‘‘
’’ایرچ…! لیکن یہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ نینا نے پس و پیش کی۔
’’نینا پلیز…! یہ میری طرف سے ایک چھوٹا سا اظہار عقیدت ہے۔ میں نے اس روز جس طرح تمہیں بارش میں دونوں بچیاں اٹھائے ہوئے بھاگتے دیکھا تھا، میں سخت پریشان ہوگیا تھا۔ اگر تم میری یہ پیشکش قبول کرلو گی تو میرے ذہن سے پریشانی کا بہت بڑا بوجھ اتر جائے گا، ورنہ میں تمہارے لئے پریشان رہوں گا۔‘‘
’’لیکن … ایرچ…!‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
’’نینا! مجھے فلائٹ کے لئے دیر ہورہی ہے۔ ہم اس موضوع پر پھر کبھی بحث کرلیں گے۔ فی الحال میں ایئرپورٹ کے لئے نکلتا ہوں۔‘‘
گاڑی عین وقت پر پہنچ گئی۔ وہ ڈے کیئر سینٹر پہنچی تو انچارج کا رویہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئی۔ ’’مس نینا…! آپ کا دوست تو بہت کمال کا انسان ہے۔ صبح اس کا فون آیا تھا۔ تمہیں یہاں سے بچیوں کو ہٹانے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ چند روز وہ یہاں آتی رہیں گی تو عادی ہوجائیں گی۔‘‘
نینا من ہی من میں مسکراتی گیلری پہنچی تو ایرچ کا فون آیا۔ ’’میں ابھی ایئرپورٹ پر اترا ہوں۔ گاڑی وقت پر پہنچ گئی تھی نا؟‘‘
’’اوہ… ایرچ…! میں بہت شکرگزار ہوں۔ بچیوں کو سنبھال سنبھال کر بسوں میں دھکے کھانا اور اس طرح آرام سے ڈے کیئر سینٹر پہنچ جانے میں بہت فرق ہے۔ یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔‘‘
’’ بس میں یہی چاہتا تھا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔‘‘
’’اور ہاں…! تم نے انچارج سے کیا کہا ہے کہ وہ تو آج بچھی جارہی تھی؟‘‘
’’چلو… چھوڑو تم اس بات کو اور مجھے بتا دو کہ ہفتے کی رات تم کہاں کھانا کھانا پسند کرو گی؟‘‘
’’کہیں بھی… مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’نہیں… تم کوئی ایسا ریسٹورنٹ منتخب کرو جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ کوئی ایسی جگہ جہاں تم کبھی کسی اور کے ساتھ نہیں گئیں۔‘‘
’’اس شہر میں سیکڑوں ریسٹورنٹ ہیں، جہاں میں کبھی نہیں گئی لیکن…!‘‘
’’اچھا…! تم کبھی وہاں گئی ہو؟‘‘ اس نے ایک ریسٹورنٹ کا نام لیا۔
’’اوہ… میرے خدا! وہ تو بہت مہنگا ہے۔‘‘ نینا بے ساختہ بولی۔
’’تو بس ٹھیک ہے… ہم وہیں کھانا کھائیں گے۔‘‘ اس نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔
آہستہ آہستہ وقت گزر گیا اور جیسے کرشماتی طور پر ہفتے کا دن آگیا۔ دھڑکتے ہوئے دل والا ایک حسین دن…! ایرچ ٹھیک ساڑھے سات بجے اسے لینے کے لئے آگیا۔ نینا بڑے اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔ سیاہ اور سنہری سلک کے لباس میں مناسب زیورات کے ساتھ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔
ایرچ نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالی اور والہانہ انداز میں بولا۔ ’’نینا! تم بہت خوبصورت ہو۔‘‘ وہ خود بھی نیلے قیمتی سوٹ میں بہت اسمارٹ اور پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔
قیمتی لیموزین میں بیٹھ کر وہ نینا سے مخاطب ہوا۔ ’’مجھے تمہاری کمی بہت محسوس ہوئی۔ میری زندگی کے شاید یہ سب سے طویل دن تھے۔‘‘
’’میری کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔‘‘ نینا نے کہہ تو دیا لیکن فوراً ہی کچھ محجوب سی ہوگئی۔
شاندار ریسٹورنٹ میں وہ داخل ہوئی تو اسے بہت سے چہرے جانے پہچانے لگے۔ یہ مشہور لوگ تھے۔ وہ ایرچ کے ساتھ مخصوص میز پر بیٹھ گئی۔
ایرچ نے کہا۔ ’’تم مسکرا کیوں رہی ہو نینا…؟‘‘
’’ہاں…! میں اپنی زندگی کی سادگی اور اس زندگی کی نمود و نمائش کے فرق پر مسکرا رہی ہوں۔ میں کبھی اتنے بدلے ہوئے ماحول میں نہیں گئی۔ یہ میرے لئے ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔‘‘
’’تمہیں کچھ خاص منگوانا ہے؟‘‘
’’نہیں…! مجھے اس بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں ہے۔ تم یہاں آتے رہتے ہو، جو اچھا ہو، وہ منگوا لو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ بولا اور بیرے کو غیر ملکی زبان میں آرڈر دینے لگا۔
بیرا چلا گیا تو نینا نے پوچھا۔ ’’یہ زبان تم نے کہاں سیکھی؟‘‘
’’میں اکثر بیرون ملک جاتا رہتا ہوں لیکن اصل بات یہ ہے کہ میں سب سے زیادہ خوش اور مطمئن اپنے فارم پر رہتا ہوں جب میں پینٹنگ کرتا ہوں، مگر پچھلے چند روز بہت برے گزرے ہیں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’میں تمہارے بغیر بہت تنہائی محسوس کرتا رہا۔‘‘
اتوار کے روز وہ نینا اور بچوں کے ساتھ چڑیا گھر گیا۔ وہ بچوں کے ساتھ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ وہ انہیں باری باری اپنے کندھوں پر سوار کررہا تھا۔ جتنی بار وہ کسی پنجرے کے پاس جانا چاہتی تھیں، اتنی بار وہ انہیں بڑے صبر اور سکون کے ساتھ لے کر جاتا رہا، حالانکہ نینا اس سے بہت جلد اکتا جاتی تھی۔ بچیوں کو کھانا کھلانے میں بھی اس نے بہت مدد کی اور انہیں بہلا کر پورا کھانا کھلا دیا۔ نینا کے منع کرتے کرتے بھی اس نے بچیوں کو قیمتی کھلونے خرید کر دیئے۔
ایک دن وہ بچیوں کے لئے اسکیٹنگ جوتے لے کر آیا اور سب کو اسکیٹنگ کے لئے مشہور ٹریک پر لے گیا، جہاں وہ دیر تک لطف اندوز ہوتے رہے اور اسی شام اس نے نینا کو ایک شاندار ہوٹل میں ڈنر کرایا۔ کافی پیتے ہوئے دونوں بہت خاموش تھے۔ انہیں کچھ کہنے کی
ضرورت نہیں تھی۔ وہ یونہی ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن سن رہے تھے، آنکھوں سے کہی ہوئی باتیں سمجھ رہے تھے اور ایک دوسرے کی قربت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
پھر ایرچ نے کہا۔ ’’یہ دو دن بہت ہی پرلطف گزرے۔‘‘
’’ہاں…!‘‘ نینا نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا اور سوچنے لگی کہ اس نے کوئی وعدہ تو نہیں کیا کہ وہ پھر کب آئے گا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، جہاں سے پارک کا منظر اسٹریٹ لائٹس میں بے حد دلکش معلوم ہورہا تھا۔ اس نے یونہی بات کرنے کوکہا۔ ’’یہ پارک کتنا خوبصورت ہے۔‘‘
’’کیا تمہیں یہ یاد آئے گا؟‘‘
نینا نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا کہ اس سوال کا کیا موقع تھا۔
’’ہمارے شہر کی خوبصورتی اس سے بہت مختلف ہے۔‘‘ وہ بولا۔
نینا نے پھر قدرے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ ذرا سا آگے جھکا اور اس کی دلکش آنکھوں میں اپنی نیلے سمندروں جیسی آنکھوں سے دیکھتا ہوا بولا۔ ’’شاید تم اسے بہت جلدی کا فیصلہ سمجھو، لیکن میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کرکیا ہے اور میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اگر تم چاہتی ہو تو میں چھ ماہ تک ہر ہفتے تمہارے شہر میں تم سے ملنے آئوں گا۔ تم چاہو گی تو سال بھر…! مگر میں اپنے اس فیصلے پر قائم رہوں گا۔‘‘
نینا نے ایک جھرجھری سی لی۔ ’’ایرچ! تم تو مجھے اچھی طرح جانتے بھی نہیں۔‘‘
’’میں تمہیں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ پانچ سال کی عمر میں تم نے سوئمنگ سیکھ لی تھی، تم ہر کلاس میں ’’اے‘‘ گریڈ لیتی تھیں۔ ایک مرتبہ تمہیں بہترین تعلیمی ریکارڈ پر میڈل بھی ملا تھا۔‘‘
نینا کو ہنسی آگئی۔ ’’یہ تو میرا تعلیمی ریکارڈ ہے… یہ کوئی جاننا تو نہیں ہوا نا!‘‘
’’میرا خیال ہے کہ یہ کافی ہے۔ مجھے خود پر بھروسہ ہے کہ جب میں کسی کے بارے میں رائے قائم کرلیتا ہوں تو وہ ہمیشہ سوفیصد درست ہوتی ہے اور تمہارے بارے میں ایسا ہی ہے۔‘‘
اس کی نگاہوں کی تپش نینا کے رخسار دہکا رہی تھی۔ وہ سٹپٹا کر بولی۔ ’’میں پہلے ہی ایک غلطی کرچکی ہوں۔ اس وقت مجھے ایسا ہی لگتا تھا جیسے کیون میں ہر خوبی موجود ہے مگر بعد میں…!‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنا گلابی لب دانتوں تلے دبا لیا۔
’’تم اپنے ساتھ انصاف نہیں کررہیں۔ اس وقت تمہاری عمر بہت کم تھی۔ تمہاری زندگی میں کسی مرد کی کمی تھی۔ تمہارا باپ تھا نہ بھائی…! صرف ایک دادی تھیں جن کے ساتھ تمہارے شب و روز بسر ہوتے تھے۔ اس لئے تمہارا کیون سے متاثر ہوجانا فطری تھا۔‘‘
’’ہاں…! شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
’’اب تم اپنی بچیوں کو نظرانداز مت کرو… انہیں خوشیاں پانے کا حق ہے۔ تم نے دیکھا کہ وہ دونوں مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ وہ میرے ساتھ بہت خوش رہیں گی۔ بس! تم مجھ سے شادی کرلو۔‘‘
نینا سوچنے لگی کہ ایک ہفتہ پہلے وہ اس کو جانتی تک نہیں تھی۔ مگر اب وہ اس کی آنکھوں میں ان جذبوں کو دیکھ سکتی تھی جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ جو یقین دلاتے ہیں اور جو بالآخر اپنا ہی عکس بن کر ان آنکھوں میں جھلکنے لگتے ہیں۔ اسے اب کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ اس کا دل کیا چاہتا ہے۔
دونوں صبح ہونے تک برآمدے میں بیٹھے دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے۔ ایرچ اسے بتا رہا تھا۔ ’’میں دونوں بچیوں کو اپنانا چاہتا ہوں ہمیشہ کے لئے…! میں اپنے وکیل سے کاغذات تیار کروا لوں گا۔ تم کیون سے اس پر دستخط کروا لینا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ بچیوں کو چھوڑنے پر تیار ہوجائے گا۔‘‘
’’لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ آسانی سے مان جائے گا۔ میں تانیہ اور روتھ کو اپنا نام دینا چاہتا ہوں۔ جب ہم اپنی ایک فیملی بنائیں گے تو میں نہیں چاہتا کہ بچیاں اجنبیت محسوس کریں۔ جس طرح ان کے باپ نے انہیں اپنے پیار سے محروم رکھا، میں انہیں باپ کے پیار کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔ میں اپنے فرائض بہت اچھے انداز میں پورے کروں گا۔‘‘
اگلے دن ایرچ نے فون کرکے بتایا کہ وہ کیون سے علیحدگی میں بات کرکے معاملے کو آسانی سے سلجھا لے گا۔ اس کے بعد ایرچ کا کوئی پیغام نہیں ملا۔ بچیاں اس کے بارے میں پوچھتی رہیں کہ وہ کب آئے گا اور وہ انہیں بہلاتی رہی۔ ایرچ ایک ہفتے بعد آیا تو دونوں بچیاں دوڑ کر اس کی گود میں چڑھ گئیں اور چہک چہک کر اس سے باتیں کرنے لگیں۔ نینا کا دل اطمینان سے بھر گیا۔ اس کی آنکھیں خوشی کے آنسوئوں سے بھیگ گئیں۔ اب اسے اپنی خوشیوں سے زیادہ بچیوں کی خوشی اور تحفظ کا احساس تھا۔ وہ بچیوں کا ایرچ سے پیار بھرا تعلق دیکھ کر آسودہ ہوگئی تھی۔
رات اس نے ڈنر کے دوران نینا کو بتایا کہ اس نے کیون سے ملاقات میں سب کچھ طے کرلیا ہے۔ کافی بحث کے بعد وہ بچیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگیا۔ میں نے اسے قائل کرلیا کہ بچیوں کے لئے یہی سب سے بہتر ہے کیونکہ وہ خود تو انہیں کچھ دے نہیں سکتا۔ پیار، نہ اچھی زندگی کے لوازمات اور نہ ہی تعلیمی سہولتیں…! اس مہینے کے آخر تک ہم ضروری معاملات طے کرلیں گے۔ بچیوں کا قانونی طور پر وارث بننے میں چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ تمام قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کیون کا بچیوں پر کوئی حق نہیں رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ اب تو تمہیں شادی کے لئے ہاں کہنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
٭…٭…٭
نینا خود بھی حیران تھی کہ یہ سب کچھ کتنی جلدی اور کتنی سہولت سے ہوگیا۔
صرف ایک ماہ کے اندر اس کی زندگی میں یہ انقلاب آگیا تھا۔ وہ اس شہر میں جہاں وہ پیدا ہوئی اور اس نے زندگی کے کتنے ہی ماہ و سال گزارے تھے، سب کچھ چھوڑ چلی تھی۔ صرف دونوں بچیوں کو لے کر ایرچ کی ہمسفر بن گئی تھی۔
اگرچہ وہ کچھ اداس بھی تھی کہ ایرچ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے سب کچھ چھوڑنا ضروری تھا لیکن ایک اچھے مستقبل کے لئے اسے حال کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا تھا۔ اس کے سوٹ کیس بہترین لباسوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کی انگلی میں قیمتی انگوٹھی تھی اور وہ ایرچ کے ساتھ ایک نئی زندگی کی طرف محوپرواز تھی۔
روتھ اور تانیہ سوگئی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے ان کی سیٹ کو دونوں کے لئے چھوٹا سا بستر بنا دیا تھا۔ دونوں نے بہت خوبصورت ویلوٹ کے لباس پہن رکھے تھے، جو ایرچ نے ان کے لئے پسند کئے تھے۔ ان کے بیگ بھی قیمتی لباسوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب بڑی پرسکون نیند میں سمٹی ہوئی تھیں۔
ایرچ اس کے قریب بیٹھا اسے راستے میں آنے والے مشہور مقامات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اچانک وہ بولا۔ ’’نینا…! میں نہیں چاہتا کہ وہ شخص کبھی تم سے ملے۔‘‘
’’کون…؟‘‘ نینا نے الجھ کر پوچھا۔
’’کیون…!‘‘ وہ بولا۔ ’’میں اس سے حسد کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کبھی تمہیں انگلی بھی لگائے۔ وہ بالکل تمہارے لائق نہیں تھا۔‘‘
’’ایسا کیوں ہوگا بھلا…! مجھے اس سے کیا واسطہ… ہاں! میں اس کے لئے اس کی ضرور شکرگزار ہوں کہ اس نے بچیوں سے دستبرداری قبول کرلی۔‘‘
’’دولت میں بڑی طاقت ہے نینا!‘‘
’’کیا مطلب…؟ ایرچ! کیا تم نے اسے اس کے لئے کوئی رقم دی ہے؟‘‘
’’نہیں! کچھ زیادہ نہیں… صرف دو لاکھ… فی بچی ایک لاکھ…! یہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک بہت ہی سستا طریقہ تھا۔‘‘
’’اس نے تمہارے ساتھ اپنی بیٹیوں کا سودا کرلیا؟‘‘ نینا نے دکھ اور حیرت سے کہا۔
’’وہ اتنے پر ہی مان گیا، ورنہ میں تو اسے اس سے چار گنا زیادہ دینے پر بھی تیار تھا۔‘‘
’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’میں اب بھی تمہیں نہ بتاتا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تمہارے دل میں اس کے لئے کوئی معمولی سا جذبہ بھی رہے۔ چلو چھوڑو اس کو… کوئی اور بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
لیکن نینا کچھ نہیں کہہ سکی۔ وہ ابھی تک اس دھچکے سے نہیں نکلی تھی۔ اسے کیون سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنا گر جائے گا کہ اپنی بچیوں کی قیمت وصول کرے گا۔
ایرچ نے اس کا ہاتھ چھو کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور بولا۔ ’’نینا…! مجھے ہوٹلوں میں رہنا پسند نہیں اور آج رات مجھے بالکل اچھی نیند نہیں آئی۔ میں تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کل تم میرے ساتھ ہوگی تو میں یوں تنہائی کا شکار نہیں ہوں گا۔‘‘
نینا اس کی باتوں کے جواب میں یونہی ہوں، ہاں کرتی رہی۔ اس کا دل جیسے یکدم خوشی سے خالی ہوگیا تھا۔ وہ اس طرح اظہار نہیں کرسکتی تھی جس طرح ایرچ کررہا تھا۔
خدا خدا کرکے ایئرپورٹ آیا۔ ایرچ نے تانیہ کو گود میں اٹھا لیا اور روتھ کی انگلی نینا نے تھام لی۔ ایرچ کا ڈرائیور جوئی انہیں لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔
وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ نینا نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا تو وہ بولا۔ ’’مسز ایرچ! سب لوگ بڑی بے تابی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
’’شکریہ…!‘‘ نینا نے کہا۔
ایرچ نے اسے بازو سے پکڑ کر اتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا کہ جوئی کو ایک طرف ہوجانا پڑا۔ (جاری ہے)