نینا کو ایرچ کی ناپسندیدگی کا اندازہ ہوا۔ گویا وہ نہیں چاہتا تھا کہ نوکروں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ زندگی آگے بڑھ رہی تھی اور میرا شہر، میرا اپارٹمنٹ اور گیلری سب بہت پیچھے رہ گئے تھے۔
ایرچ نے قیمتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نینا اور تانیہ کو بٹھایا اور خود اگلی سیٹ پر روتھ کے ساتھ براجمان ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بڑی شاہراہ پر آگئے۔ ایرچ نے اسے مخاطب کرکے کہا۔ ’’یہاں سے فارم تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔‘‘ پھر اس نے تانیہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر نینا سے بولا۔ ’’ابھی کافی وقت ہے، تم تھوڑا آرام کرلو۔‘‘
نینا نے دیکھا کہ تانیہ بڑی آمادگی کے ساتھ ایرچ کی گود میں چلی گئی۔ اسے قدرے اطمینان ہوا کہ کم ازکم بچیاں اس کے ساتھ خوش اور مانوس تھیں۔ گاڑی تیزی سے سفر طے کررہی تھی۔ شاہراہ کی روشنیاں پیچھے رہ گئی تھیں اور گائوں کا علاقہ شروع ہوچکا تھا جو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
جوئی نے گاڑی کی روشنیاں تیز کردی تھیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے درخت اور جھاڑیاں تیزی کے ساتھ پیچھے کی طرف دوڑتی ہوئی نظر آنے لگی تھیں۔ نینا کا ذہن ابھی پوری طرح سے واضح نہیں تھا کہ اس بارے میں مکمل طور پر سوچ سمجھ سکے۔ اسے ایرچ کی باتیں یاد آرہی تھیں۔
’’ڈارلنگ! ابھی تو ہنی مون کے لئے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ بچیوں کے پاس کون رہے گا۔ میں بچیوں کے لئے کوئی تسلی بخش انتظام کرلوں تو پھر ہم باقاعدہ ہنی مون منائیں گے۔‘‘ وہ بچیوں پر کتنا مہربان تھا کہ ان کے لئے اس طرح سے سوچتا تھا۔
نینا مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ یہ سب کتنا خوبصورت ہوگا کہ صبح تروتازہ ذہن کے ساتھ اٹھنا۔ جب نہ آفس پہنچنے کی جلدی ہوگی اور نہ بچیوں کو تیار کرکے ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑنے کا جھنجھٹ ہوگا۔ اب وہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکے گی۔ اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کو دیکھ کر وہ سوچا کرتی تھی کہ اگر اس کے پاس گنجائش ہوتی تو وہ سو طریقوں سے سجاتی، سنوارتی۔ اب اس کے پاس فرصت بھی ہوگی اور وسائل بھی…! وہ اپنے گھر کو بڑی محبت سے آراستہ کرے گی۔ وہ گھر جو ایرچ کی ماں کے انتقال کے بعد شاید کسی خاتون کے جمالیاتی لمس سے بہت زمانے سے محروم تھا۔
’’اٹھ جائو نینا…! ہم قریب پہنچ چکے ہیں۔‘‘ اسے ایرچ کی آواز سنائی دی۔
’’کیا میں سو گئی تھی؟‘‘ اس نے حیران ہوکر سوال کیا۔
’’ہاں…! اچھی بات ہے۔ تم نے آرام کرلیا۔ تانیہ اور روتھ بھی سو رہی ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
نینا سیدھی ہوکر بولی۔ ’’اب کتنی دیر اور ہے؟‘‘
’’بس! ہم قریب ہی ہیں۔ ہمارا فارم سڑک پر دونوں طرف لگی ہوئی باڑ سے شروع ہوگا۔ دایاں حصہ سرمئی جھیل تک جاتا ہے اور دوسری طرف جنگل کا علاقہ ہے جو تقریباً دو سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے آخر میں دریا اور وادیوں کی ڈھلانیں جو اس دریا کو دور تک لے جاتی ہیں۔ آگے جاکر یہ سمندر میں ضم ہوجاتا ہے۔‘‘ وہ چند لمحے توقف کے بعد بولا۔ ’’یہاں جو تمہیں تعمیراتی حصے نظر آرہے ہیں، وہاں ہم مویشیوں کو سردیوں میں رکھتے ہیں۔ اس سے آگے اصطبل، پرانی مل اور پن چکی وغیرہ ہیں۔ اس موڑ کے بعد تمہیں گھر کا مغربی حصہ نظر آئے گا۔ یہ گھر ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔‘‘
نینا نے اپنا چہرہ گاڑی کے شیشے سے لگا دیا۔ اردگرد گزرتے ہوئے مناظر میں کچھ وہ بھی تھے جو ایرچ کی بعض پینٹنگز میں نظر آتے تھے۔ گھر سرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا اور حویلی نما تھا۔ اس کی تین منزلیں تھیں۔ دور سے روشنی میں ڈوبا ہوا وہ بہت شاندار نظر آرہا تھا۔ لان کے کچھ حصوں پر برف جمی ہوئی تھی جو روشنیوں میں بلوریں سا لگ رہا تھا۔
’’نینا…! تمہیں یہ پسند آرہا ہے؟‘‘
’’یہ کسی کو پسند کیوں نہیں آئے گا۔ یہ اتنا شاندار اور خوبصورت ہے کہ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ ‘‘
’’میں تمہیں حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے منیجر سے کہہ دیا تھا کہ وہ تمام روشنیاں جلا دے تاکہ تم ایک نظر میں اس کی تمام تر خوبصورتی سمیٹ لو۔‘‘
نینا اس کے حسن سے اتنی مسحور ہوگئی تھی کہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے حسن کو اپنے اندر جذب کرتی رہی۔ کار آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ایک وسیع پورچ تک آگئی جو لکڑی سے بنا ہوا تھا جس پر نفیس کام حیرت زدہ کردینے کے لئے کافی تھا۔ یہاں ایک جھولا بھی تھا جو نینا اس کی بہترین پینٹنگ میں دیکھ چکی تھی۔ جسے اس نے فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے وہ جھولا آہستگی کے ساتھ یوں آگے پیچھے ہورہا تھا جیسے اس پر کوئی بیٹھا ہوا ہو۔
ایک طرف ایرچ کے خاندانی نام کے ساتھ ایک بڑا سا بورڈ آویزاں تھا۔ ’’کروگر فارمز‘‘ دوسری طرف جنگل نظر آرہا تھا جو گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا لیکن برف باری کی وجہ سے اکثر درختوں کی شاخیں پتوں سے خالی تھیں۔ گاڑی گھوم کر سنگ مرمر کی سیڑھیوں کے پاس آن رکی۔
جوئی نے بڑھ کر شیشے کے شاندار دروازے کھولے۔ ایرچ نے اس سے کہا۔ ’’تم بچیوں کو لے کر آئو۔‘‘
تانیہ اور روتھ دونوں گہری نیند سو چکی تھیں۔ ایرچ نے نینا کا ہاتھ تھام لیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور دروازے کا لاک کھولا۔ پھر نینا کی طرف پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ ’’کاش…! میں تمہاری ان خوبصورت، حیران آنکھوں کو پینٹ کرسکتا… میں اس پینٹنگ کو ’’اپنے گھر کا جادو‘‘ کا عنوان دیتا۔ تمہارے یہ خوبصورت بال، تمہارے دلکش چہرے پر محبت کی یہ نرمی جو میرے لئے ہے، صرف میرے لئے…!‘‘ وہ کہہ رہا تھا بڑے مدھم میٹھے سروں میں…! ’’مجھ سے وعدہ کرو نینا کہ تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائو گی؟‘‘
’’ایرچ…! تم اس طرح کیوں سوچ رہے ہو؟ اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ نینا نے ملائمت سے کہا اور سوچنے لگی کہ جب سے ان کی شادی ہوئی ہے، اس نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا جو اس کی محبت کا عکاس ہو۔ وہ اپنے کاموں میں ہی الجھی ہوئی تھی۔ شاید وہ اسی لئے خود کو پیاسا محسوس کررہا تھا۔
نینا نے رک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی تھم گیا۔ نینا نے وہ اظہار کیا جو وہ اب تک نہیں کرسکی تھی۔ چاندنی اس کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔ اس کے ریشمیں بالوں میں چاندنی کے ریشمی تار تھے، اس کے گلابی تراشیدہ لبوں پر چاندنی افشاں کی مانند دمک اٹھی تھی۔ ایرچ مبہوت سا ہوگیا۔ ’’تم بہت حسین ہو نینا…! میں تمہاری پرستش کروں گا۔‘‘
وہ اس کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی۔ اس کے قدموں تلے لکڑی کا فرش جیومیٹری کی اشکال کے ساتھ مکمل کیا گیا تھا۔ دیواروں پر نفیس کام تھا۔ لکڑی کا ایک خوبصورت زینہ دوسری منزل پر جاتا تھا۔ دیواروں پر ایرچ کی بنائی ہوئی تصویریں سجی تھیں۔ نینا ان تمام چیزوں کو دیکھ کر مسحور ہوگئی تھی۔ ہر طرف اتنا سلیقہ، آراستگی اور حسن تھا جو اس نے ایک مقام پر اکٹھا اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ ایرچ اسے مختلف چیزوں کے بارے میں بتا رہا تھا جو اس کے بزرگوں سے وابستہ تھیں۔
جوئی کے ساتھ بچیاں بھی اندر آگئی تھیں۔ ایک لمبی نیند لینے کے بعد وہ خوب تروتازہ اور چونچال تھیں۔ وہ دوڑتی، بھاگتیں ہر طرف بڑے شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ نینا نے انہیں تنبیہ کی۔ ’’دیکھو زیادہ تیز مت بھاگو… آرام سے… کہیں پھسل نہ جانا۔‘‘ وہ محسوس کررہی تھی کہ ایرچ کی نگاہ بچیوں پر تھی۔ اسے ان کا ہر چیز سے چھیڑ چھاڑ کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ نینا نے بڑھ کر انہیں قابو کیا اور ان کی توجہ بٹانے کو بولی۔ ’’چلو ابھی ہمیں باقی گھر دیکھنا ہے۔‘‘
ڈائننگ روم میں میز اتنی بڑی تھی کہ اس کے گرد بیس کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ دوسرے کمروں کی طرح یہاں بھی قیمتی چیزیں اسے شاندار اور دلکش بنا رہی تھیں۔ ایک دیوار پر لگی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’یہ میری ماں نے بنائی تھی۔‘‘
لائبریری کی دیواروں کے ساتھ اخروٹ کی لکڑی سے بنے ہوئے شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نینا نے قریب جاکر کچھ کتابوں کے نام دیکھے۔ سبھی کتابیں بہترین مصنفین کی تھیں۔ نینا نے خوش ہوکر کہا۔ ’’یہاں اتنی اچھی کتابیں ایک جگہ جمع ہیں۔ اوہ! یہاں تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلے گا۔ اس لائبریری میں کتنی کتابیں ہیں؟‘‘
’’تقریباً گیارہ سو تئیس۔‘‘ وہ بولا۔
کچن بہت بڑا اور تمام سہولتوں سے آراستہ تھا۔ لائونج میں قیمتی سامان اور اعلیٰ ذوق ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تھے۔ ایرچ نے بتایا کہ اس حویلی میں تقریباً بائیس کمرے ہیں۔ ایرچ کے لہجے میں فخر و غرور تھا۔ پھر وہ بولا۔ ’’تم تھکی ہوئی ہو، باقی گھر ہم کل دیکھیں گے۔ اس وقت میں تمہیں بیڈ روم دکھا دیتا ہوں۔‘‘
نینا اتنا سب کچھ دیکھ کر خاصی مرعوب ہوگئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ آنکھ کھلے گی تو یہ خوابوں کا دیس نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ یہ بیڈ روم گھر کے سامنے والے حصے کے دائیں گوشے میں تھا۔ اس کا فرنیچر گہرے رنگ کی مہاگنی سے بنا ہوا تھا۔ جگہ جگہ قیمتی مخمل کا استعمال تھا۔ بیڈ پر قیمتی پلنگ پوش تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل بہت ہی خوبصورت تھی۔ کرسٹل کے گلدانوں میں تازہ پھول سجے ہوئے تھے۔
’’ممی…! کیا میں اور روتھ یہاں سوئیں گے؟‘‘ تانیہ نے پوچھا۔
ایرچ ہنس پڑا۔ ’’نہیں! یہ بڑوں کا بیڈ روم ہے… بچوں کا بیڈ روم دوسری طرف ہے۔‘‘ وہ انہیں دوسرے کمرے میں لے گیا جو بہت شاندار تھا۔ بچیوں کو اپنا کمرہ پسند آیا۔
روتھ نے نینا کا ہاتھ تھام کر کہا۔ ’’ممی! ہمیں بھوک لگی ہے۔‘‘
روتھ کی بات ایرچ نے بھی سنی۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’اوہو… سوری بچو…! چلو آئو کچن میں چلتے ہیں۔‘‘
روتھ اور تانیہ دوڑ کر آگے نکل گئیں۔ ان کے پیروں کی آواز ہال میں پھیل گئی۔ ایرچ نے قدرے ناگواری سے کہا۔ ’’بھاگو مت!‘‘
’’دیکھنا کوئی چیز توڑ نہ دینا۔‘‘ نینا نے گھبرا کر کہا۔
ریفریجریٹر میں بہت کچھ موجود تھا۔ نینا نے بچیوں کو سینڈوچز بنا کر دیئے اور دودھ میں چاکلیٹ ڈالی۔ دونوں کھانے میں مصروف ہوگئیں۔ ایرچ نے معنی خیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تم کب فارغ ہوگی؟‘‘
نینا نے اس کی نگاہوں کا جواب نگاہوں سے دیا اور اسے یقین دلایا کہ وہ جلد فارغ ہوجائے گی۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایرچ نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’اوہ مارک…! یہ تم کہاں سے ٹپک پڑے۔ آئو… آئو اندر آجائو۔‘‘
نینا نے آنے
والے کی طرف دیکھا۔ وہ ایک دراز قد، لمبا چوڑا شخص تھا۔ اس کے بکھرے ہوئے بال دروازے کی چوکھٹ کو چھو رہے تھے۔ اس کے چوڑے شانے اس کی بھاری جیکٹ میں کچھ اور نمایاں ہوگئے تھے۔ اس کی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ان میں دوسروں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت موجود ہے۔
’’نینا…!‘‘ ایرچ نے اسے مخاطب کیا۔ ’’یہ مارک ہے۔ میں نے تمہیں اس کے بارے میں بتایا تھا نا!‘‘
’’ہاں…! مجھے یاد ہے۔‘‘ نینا نے مسکرا کر دونوں کی طرف دیکھا۔
’’مارک…! میرے لئے بھائی کی طرح ہے۔ اگر میں شادی نہ کرتا اور مجھے کچھ ہوجاتا تو مارک میرا وارث تھا۔ اس فارم اور میری تمام چیزوں کا!‘‘
’’چھوڑو…! ایسی باتیں مت کرو نینا کے سامنے!‘‘ اس نے نینا سے ہاتھ ملایا۔ ’’میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘
اس کا انداز اپنائیت بھرا تھا۔ نینا کو وہ اچھا لگا۔ اس نے بچیوں کا اس سے تعارف کروایا۔ وہ کچھ شرمائی شرمائی سی اس سے ملیں۔ روتھ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’آپ… بہت لمبے ہیں۔‘‘
’’تو کیا تم مجھ سے ڈر جائو گی کہ میں اتنا لمبا ہوں؟‘‘ مارک نے مسکرا کر اس کے بالوں کو چھوا۔
’’نہیں…! ہم بہادر لوگ ہیں۔‘‘ تانیہ نے آگے بڑھ کر روتھ کے برابر کھڑے ہوکر کہا تو سب کو ہنسی آگئی۔
نینا نے مارک سے کافی کے لئے پوچھا۔ اس نے معذرت کرلی اور ایرچ سے بولا۔ ’’میں دراصل تمہیں ایک اطلاع دینے آیا تھا۔ مناسب یہی تھا کہ یہ بات میرے ذریعے تم تک پہنچتی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ ایرچ نے سنجیدہ ہوکر اس کی طرف دیکھا۔
’’دوپہر کو بیرن تھوڑا سا زخمی ہوگیا ہے۔‘‘ مارک نے بتایا۔
نینا بھی جانتی تھی کہ بیرن ایرچ کا پسندیدہ گھوڑا تھا جو بہت قیمتی اور اعلیٰ نسل کا تھا۔ ایرچ نے اسے صرف اپنی سواری کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔
’’کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی؟‘‘ ایرچ نے بظاہر بڑے سکون سے پوچھا۔
’’میں نے اس کا تفصیلی معائنہ کیا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’ہوا کیا تھا…؟‘‘
مارک کچھ ہچکچایا۔ ’’دراصل اصطبل کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ وہ باہر نکل آیا۔ اس نے باڑ پھلانگنے کی کوشش کی اور زخمی ہوگیا۔‘‘
’’اصطبل کا دروازہ کیوں کھلا رہ گیا تھا؟ کس نے اسے کھلا چھوڑا تھا۔‘‘
’’کوئی ملازم یہ الزام اپنے سر لینے پر تیار نہیں اور جوئی کہتا ہے کہ اس نے صبح بیرن کو چارہ کھلا کر دروازہ بند کردیا تھا۔‘‘
یہ نام تو ڈرائیور کا ہے۔ نینا نے سوچا۔ یعنی وہ ڈرائیونگ کے علاوہ اصطبل میں بھی کام کرتا تھا۔ نینا نے بچیوں کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ گویا انہیں ماحول کی تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا۔ اب ایرچ کا غصہ چھپا نہیں رہ سکا تھا۔
’’میں نے ہی جوئی سے کہا تھا کہ وہ اس کا تذکرہ تم سے نہ کرے۔ میں خود تم سے بات کرنا چاہتا تھا کہ تمہیں بیرن کے بارے میں تسلی ہوجائے۔ وہ دو ہفتے میں بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے جوئی سے دروازہ کچھ ڈھیلا رہ گیا حالانکہ وہ لاپروا نہیں ہے اور بیرن سے بہت محبت کرتا ہے۔‘‘
’’اگر بیرن کی ٹانگ میں کوئی نقص رہ گیا تو؟‘‘ ایرچ کے لہجے میں سخت غصہ تھا۔
’’نہیں…! ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے اس کی ٹانگ پر پٹی باندھ دی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تم اسے ابھی چل کر دیکھ کیوں نہیں لیتے۔ اس طرح تمہیں اطمینان ہوجائے گا۔‘‘
’’ہاں…! میں دیکھتا ہوں۔‘‘ اس نے کرسی کی پشت پر لٹکا ہوا کوٹ اتارا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے سرد غصہ ظاہر ہورہا تھا۔
مارک بھی اس کے ساتھ چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور نینا سے بولا۔ ’’نینا! میں معذرت خواہ ہوں کہ اس خوشگوار موقع پر میں ایک بری خبر لے کر آیا۔ میں تمہیں ایک مرتبہ پھر خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ایرچ کے ساتھ باہر نکل گیا۔
نینا نے جلدی جلدی بچیوں کو گرم پانی سے نہلایا۔ انہیں کہانی سنائی اور وہ بالآخر سو گئیں۔ کمرے میں بچیوں کے سوٹ کیس، ان کے کھلونوں کا بیگ اور کچھ ایسی ہی چیزیں پڑی تھیں لیکن نینا اتنی تھک گئی تھی کہ وہ انہیں اس وقت سنبھال نہیں سکتی تھی۔ کمرہ جو پہلے بڑی ترتیب کے ساتھ آراستہ تھا، اس وقت مکمل بے ترتیبی کا نمونہ پیش کررہا تھا۔
وہ بچیوں کی طرف سے اطمینان کرکے کمرے سے نکل ہی رہی تھی کہ ایرچ واپس آگیا۔ اس نے ایک گہری نگاہ کمرے کی بدلی ہوئی حالت پر ڈالی اور اس کے چہرے کا رنگ کچھ بدلا۔
نینا کو اس کا اندازہ ہوگیا۔ اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’ایرچ…! میں اس وقت بہت تھک گئی ہوں۔ صبح یہ سب بالکل ٹھیک کردوں گی۔‘‘
ایرچ نے نفی میں سر ہلایا اور اپنے لہجے کو عمداً خوشگوار بناتے ہوئے بولا۔ ’’نینا…! میں یہ سب اس طرح سے چھوڑ کر ٹھیک طرح سو نہیں سکوں گا۔‘‘
نینا اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور اس نے سوٹ کیس سے کپڑے نکال کر درازوں میں رکھے، کھلونوں کو سنبھالا، جوتوں کو ترتیب سے رکھا، بچوں کے کوٹ اور سوئٹر ہینگروں میں ڈال کر الماری میں لٹکائے۔ نینا نے کچھ کہنا بیکار سمجھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کی بات نہیں سنے گا۔ شور سے اگر بچیاں اٹھ گئیں تو وہ گھنٹوں سونے کا نام نہیں لیں گی۔ سوٹ کیس خالی کرکے ایرچ نے اوپر کے شیلف میں رکھے اور کمرہ ویسا ہی ہوگیا جیسے وہ پہلے تھا۔ بچیاں سکون سے سو رہی تھیں۔ ایرچ اس کے ساتھ کمرے سے باہر آگیا اور دروازہ احتیاط سے بند کردیا۔
باہر آکر اس کا موڈ یکسر تبدیل ہوگیا۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے محبت سے بھیگے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’سوئیٹ ہارٹ! مجھے معلوم ہے آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ تم لباس تبدیل کرلو، میں تب تک کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ تم دیکھنا میں جو کچھ بنائوں گا، تمہیں پسند آئے گا۔‘‘
نینا جو کچھ بدمزہ سی ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں کچھ خجل سی ہوئی۔ وہ اتنا خیال رکھنے والا تھا اور وہ اس کے بارے میں اچھا نہیں سوچ رہی تھی۔
اس نے ایرچ کی بات کا جواب مسکرا کر دیا۔ ’’تم کسی خواب کی تعبیر کی طرح بہت اچھے اور ناقابل یقین ہو۔‘‘
٭…٭…٭
نینا کو اپنے اپارٹمنٹ میں ٹریفک کے شور اور مختلف آوازیں سنائی دینے کی عادت تھی۔ یہاں خاموش رات میں اسے نیند نہیں آرہی تھی یا وہ بے انتہا خوشی تھی۔ اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی زندگی اتنا خوبصورت موڑ لے گی۔ اسے وہ سب کچھ حاصل ہوجائے گا جس کا کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ محبت، پیار، آسائشیں اور بہت کچھ…!
ایرچ اس کے برابر میٹھی نیند سو رہا تھا۔ نائٹ بلب کی روشنی میں اس کے گھنگھریالے بال چمک رہے تھے۔ وہ اس نئے اور خوبصورت ماحول میں ایرچ کے تحفظ کی چھائوں میں نہ جانے کب سو گئی۔ پھر ایرچ کے اٹھنے سے اس کی آنکھ کھلی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر قالین پر کھڑا اپنے سلیپر پہن رہا تھا۔
’’ایرچ…!‘‘ نینا نے پوری آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا۔
’’سوری ڈارلنگ…! میں تمہاری نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سو سکتا۔ تم آرام کرو، میں ذرا کاٹیج میں جاتا ہوں۔ کچھ پینٹ کرنے کا موڈ ہے۔ میں دوپہر تک واپس آجائوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جھک کر اس کے بال چھوئے اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
نینا کو سخت نیند آرہی تھی، جلد ہی وہ گہری نیند سوگئی۔ پھر اس کی آنکھ کھلی تو کمرہ دن کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھی اور کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ باہر کا منظر ویسا ہی تھا جیسا ایرچ کی بعض تصویروں میں نظر آتا تھا۔ درختوں کی شاخیں برف سے ڈھکی ہوئی، گودام اور سرونٹ کوارٹروں کی چھتیں برف سے سفید ہورہی تھیں، دور چراگاہ میں جانور چرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ آٹھ بج رہے تھے۔ نینا کو بچیوں کی فکر ہوئی۔ وہ جاگنے والی ہوں گی۔ خود کو اجنبی ماحول میں دیکھ کر کہیں وہ گھبرا نہ جائیں۔ وہ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکلی تو اسے راہداری میں بچیوں کے بھاگنے اور پکارنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ تیزی سے اس طرف لپکی۔ تانیہ اور روتھ اسی طرف دوڑتی ہوئی آرہی تھیں۔
’’او ممی…! ہم آپ کو ڈھونڈ رہے تھے۔‘‘ روتھ نے ناراضی سے کہا۔
’’مجھے یہ سب بہت اچھا لگا ہے۔‘‘ تانیہ چہکی۔
’’میں تمہارے پاس ہی آرہی تھی بچو…!‘‘ نینا نے کہا۔
اس نے بچیوں کے منہ ہاتھ دھلائے، انہیں دوسرے کپڑے پہنائے۔ روتھ نے پوچھا۔ ’’ممی…! اسکول نہیں جانا؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ نینا نے سر ہلایا۔
وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے چلی آئیں۔ نینا بھی ان کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتری۔ اس نے دیکھا کہ صفائی کرنے والی ملازمہ آچکی تھی۔ اس کا نام ایلسا تھا۔ نینا نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ ایک مضبوط جسم کی عورت تھی۔ اس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی نظر آتی تھیں اور بہت چھوٹی چھوٹی تھیں مگر ان میں تیزی اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت تھی۔ نینا نے اس سے اپنا تعارف کروایا تو وہ بولی۔ ’’ہاں…! مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ مسز ایرچ ہیں۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔‘‘
نینا نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا کیونکہ ایرچ کے رویئے سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ نوکروں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتا۔ ڈرائیور جوئی کے ساتھ اس کا ہاتھ ملانا ایرچ کو برا لگا تھا۔
ایلسا دوسرے کمرے میں صفائی کرنے لگی۔ نینا بچیوں کے ساتھ کچن میں آگئی۔ تینوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد نینا نے بچیوں کی ڈرائنگ کی کاپیاں اور رنگ نکال کر انہیں مصروف کردیا اور بولی۔ ’’مجھے ایک کپ کافی ذرا سکون سے پی لینے دو پھر ہم باہر چہل قدمی کے لئے جائیں گے۔‘‘
کافی پیتے ہوئے وہ اس نئی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی جو اس کے ماضی سے یکسر مختلف تھی۔ ایرچ کیون سے کتنا مختلف تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا دل اس کے لئے محبت سے بھرا ہوا ہے۔ وہ بچیوں سے بھی اتنا پیار کرتا تھا جیسے ان کا حقیقی باپ ہو۔ نینا کے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا باعث یہی تھی۔ وہ بچیوں کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوگئی تھی۔ وہ تنہا انہیں اتنی آسائشیں نہیں دے سکتی تھی۔
بچیاں اس کے قریب آگئیں۔ وہ باہر جانا چاہتی تھیں۔ نینا نے انہیں برف باری والے کوٹ پہنائے اور ان کے ہاتھ تھام کر باہر نکلی۔ موسم سرد تھا لیکن ٹھنڈی ہوا نہیں چل رہی تھی۔ نینا گھر کے پچھلی طرف چل پڑی، جہاں کھیت تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا دوسرے ملازموں سے سامنا ہو، شاید ایرچ
� ان کا تعارف کروانا پسند کرے گا۔
برف ان کے پیروں کے نیچے ٹوٹ کر ایک دلکش آواز پیدا کررہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ شہر سے کافی دور نکل آئے۔ رہائشی حصہ آہستہ آہستہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ دور سے اس نے ایک طرف چھوٹی چھوٹی سی باڑ لگی ہوئی دیکھی۔ وہ تھوڑا قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ یہاں ان کا خاندانی قبرستان تھا، جہاں آدھی درجن سے زیادہ کتبے نظر آرہے تھے۔
’’ممی…! یہ کیا ہے؟‘‘ روتھ نے سوال کیا۔
نینا نے اس کا گیٹ کھولا اور اندر جاکر کتبے پڑھنے لگی۔ کچھ قبریں تو اٹھارویں صدی کے لوگوں کی تھیں۔ ایک قبر ایرچ کے والد کی معلوم ہوتی تھی۔ تین قبریں چھوٹے بچوں کی تھیں اور ایک قبر دیوار کے ساتھ کچھ فاصلے پر تھی۔ نینا نے کتبے میں نام دیکھے۔ کیرولین برانی! نینا کے ذہن میں یہ نام کھٹکا۔ پھر اسے فوراً ہی یاد آگیا کہ کیرولین، ایرچ کی والدہ کا نام تھا جو ایک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھی۔
باقی قبروں کے کتبوں پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ لگتا تھا کہ انہیں عرصے سے صاف نہیں کیا گیا لیکن کیرولین کی قبر صاف ستھری تھی۔ سنگ مرمر کا کتبہ دھلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر پھولوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی تھی۔ نینا کا خیال فوراً ایرچ کی طرف گیا۔ یقیناً قبر کو صاف کرنے والا وہی ہوسکتا ہے۔ اس سے اس کی اپنی ماں کے لئے محبت ظاہر ہوتی تھی مگر قبرستان پر ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ اگر بچیاں اس کے ساتھ نہ ہوتیں تو شاید وہ اس ماحول سے خوف زدہ ہوجاتی۔
اس نے بچیوں کے ہاتھ تھامے اور انہیں قبرستان سے باہر لے آئی۔ پھر ان سے بولی۔ ’’چلو… آئو میرے پیچھے آئو… مجھے پکڑو۔‘‘
دونوں بچیاں ہنستی ہوئی اس کے پیچھے بھاگنے لگیں۔ وہ انہیں جھکائیاں دیتی پھر قریب آکر انہیں پکڑنے کا موقع دیتی، مگر ان کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی وہ دور ہوجاتی۔ وہ کافی دیر تک اس کھیل میں لگی رہیں، یہاں تک کہ ان کا سانس پھول گیا۔ وہ مخملیں سبز گھاس پر بیٹھ کر ہانپنے لگیں۔ بچیوں کے گال سرخ ہورہے تھے، ان کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں۔
ان کا سانس بحال ہوگیا تو نینا نے ان سے کہا۔ ’’آئو اس ٹیلے تک چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہم اس پر کہاں تک چڑھ سکتے ہیں۔‘‘
تانیہ اور روتھ اس مہم کے لئے فوراً تیار ہوگئیں۔ تینوں آہستہ آہستہ اس پہاڑی ٹیلے پر چڑھ گئیں۔ نینا نے دیکھا کہ دوسری جانب سفید رنگ کا ایک خوبصورت فارم ہائوس تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ پرانی رہائش ہے۔ یہاں ملازم رہتے ہوں گے۔ وہ ابھی اسے دیکھ ہی رہی تھی کہ اس گھر کا مرکزی دروازہ کھلا، ایک عورت باہر آئی۔ اس کی نگاہ ان تینوں پر پڑی تو اس نے اپنا ہاتھ لہرایا اور انہیں نیچے آنے کے لئے کہا۔ ’’چلو تانیہ، روتھ! نیچے چل کر اپنی پہلی پڑوسن سے ملاقات کرتے ہیں۔‘‘ نینا دونوں کے ہاتھ تھام کر دوسری طرف اترنے لگی۔
نینا کو لگا جیسے وہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جیسے جیسے نیچے آرہی تھیں، اس عورت کا سراپا نمایاں ہوتا جارہا تھا۔ وہ ایک دبلی پتلی سی عورت تھی جس کی عمر پچاس کے قریب تھی۔ اس کے برائون بالوں میں سفیدی جھلک رہی تھی، جو اس کے سر کے اوپر ایک اونچی پونی ٹیل میں لاپروائی سے بندھے ہوئے تھے۔ عینک کے موٹے شیشوں سے اس کی آنکھیں اداس اور بڑی بڑی نظر آرہی تھیں۔ اس نے ایک لمبا سا ڈھیلا ڈھالا بوسیدہ سوئٹر پہن رکھا تھا جو اس کے کمزور شانوں پر لٹکا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
اس کے نقوش خوبصورت تھے شاید جوانی میں وہ خوبصورت لڑکی ہوگی۔ نینا نے نیچے آکر اس سے اپنا اور بچیوں کا تعارف کروایا۔ وہ نسبتاً آہستگی سے کچھ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ ’’تم بالکل ویسی ہی ہو جیسی ایرچ نے مجھے بتایا تھا۔ اس نے کہا تھا رونیکا…! تم جب نینا سے ملو گی تو دیکھنا وہ بالکل کیرولین کی طرح لگے گی جیسے اس کا دوسرا روپ ہو۔‘‘ پھر وہ یکدم یوں خاموش ہوگئی جیسے اس کے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہو۔ پھر جیسے اپنے آپ سے بولی۔ ’’ایرچ نے مجھے اس بارے میں بات کرنے سے منع کیا تھا۔‘‘
نینا چونکی۔ یہ عورت کیا کہہ رہی تھی۔ کیا وہ ایرچ کی ماں کیرولین سے کوئی مشابہت رکھتی تھی…؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ایرچ نے اس لئے اس سے شادی کی تھی کہ شکل و صورت اس کی ماں سے ملتی جلتی تھی۔ شاید اسی لئے اس نے لمحے بھر میں فیصلہ کرلیا تھا، بغیر کچھ جانے اور پرکھے۔
رونیکا ابھی تک اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔ نینا نے سر جھٹک کر خود کو ان پراگندہ خیالات سے چھڑایا اور رونیکا سے بولی۔ ’’مجھے ایرچ نے تمہارے بارے میں بتایا تھا رونیکا کہ تمہارا شوہر فارم منیجر ہے لیکن میں ابھی تک اس سے نہیں ملی۔‘‘
معلوم ہوتا تھا کہ رونیکا نے جیسے اس کی بات نہیں سنی۔ وہ اس سے پوچھنے لگی۔ ’’تم شہر سے تعلق رکھتی ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کون سا شہر!‘‘ اس نے پوچھا۔
نینا نے شہر کا نام بتایا تو وہ بولی۔ ’’تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘
’’ستائیس سال!‘‘
’’میری بیٹی آئرن چھبیس سال کی تھی۔ کلائیڈ کہتا ہے کہ وہ شہر چلی گئی ہے۔ تم بھی اسی شہر میں رہتی تھیں۔ کیا تم کبھی آئرن سے ملی ہو؟‘‘
’’وہ شہر بہت بڑا ہے۔ اگر پتا ہو کہ وہ کہاں کام کرتی ہے، کس علاقے میں رہتی ہے تو پھر اسے تلاش کیا جاسکتا ہے۔‘‘
’’ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ وہ دس سال پہلے گھر سے چلی گئی تھی۔ اسے بھلا اس طرح گھر سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ مجھے آرام سے بتا دیتی کہ وہ شہر جانا چاہتی ہے تو میں اسے کبھی نہ روکتی۔ اس کے ڈیڈی کا رویہ اس کے ساتھ ذرا سخت تھا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ اس کے ڈیڈی اتنی چھوٹی عمر میں اسے جانے نہیں دیں گے۔ وہ بہت قابل لڑکی تھی۔ وہ اسکول کے کلب کی صدر تھی۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہمارے ساتھ بہت خوش ہے لیکن…!‘‘ وہ خالی خالی نظروں سے سامنے والی دیوار کی طرف ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ اس پر خودکلامی کی سی کیفیت طاری تھی۔ ’’وہ ہماری اکلوتی اولاد تھی۔ سب کو اس پر بہت پیار آتا تھا۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت، اسمارٹ اور چلبلی…!‘‘
روتھ اور تانیہ کچھ سہم کر نینا کی ٹانگوں سے چپکی ہوئی تھیں۔ اس عورت کی شخصیت نے انہیں خوف زدہ کردیا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کی باتوں کو بھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں لیکن خود نینا کو اس پر بہت ترس آرہا تھا۔ اس کی اکلوتی بیٹی کا دس سال سے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اگر وہ اس کی جگہ ہوتی تو شاید پاگل ہوجاتی۔ اس کی یہ دگرگوں حالت یقیناً اس صدمے کی وجہ سے تھی۔
’’میں سوچتی ہوں کہ شاید اب تک تو اس نے شادی کرلی ہوگی، اس کے پیارے پیارے بچے ہوں گے۔ جب میں نے تمہیں ان بچوں کے ساتھ دیکھا تو مجھے لگا کہ کہیں یہ آئرن تو نہیں جو اچانک ہم سے ملنے چلی آئی ہے۔‘‘
’’اوہ…! مجھے بہت افسوس ہے۔‘‘ نینا نے ہمدردی سے کہا۔
’’نہیں! کوئی بات نہیں… اب تو میں آئرن کے بغیر رہنے کی عادی ہوچکی ہوں لیکن دیکھو پلیز ایرچ کو نہ بتانا کہ میں نے تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ کلائیڈ کہتا ہے کہ یہ ذکر باربار سن کر ایرچ تنگ آچکا ہے اسی لئے ایرچ نے مجھے ملازمت سے بھی ہٹا دیا ہے، حالانکہ میں اس کے گھر کی بہت اچھی دیکھ بھال کرتی تھی، جس طرح کہ میرا اپنا گھر ہو۔ میں اور کلائیڈ اس وقت سے یہاں ہیں جب جان اور کیرولین کی شادی ہوئی تھی۔ کیرولین کو میرا سلیقہ اور صفائی بہت پسند تھی۔ وہ اپنا سارا کام مجھ سے لیتی تھی۔ اس کی المناک موت کے بعد بھی میں نے اس کی تمام چیزیں اسی طرح رکھی تھیں، جس طرح اس کی زندگی میں تھیں۔ بس ایسا احساس ہوتا تھا کہ … وہ یہیں کہیں قریب ہی ہے۔‘‘ رونیکا نے تھوڑا توقف کیا۔ پھر بولی۔ ’’آئو میرے ساتھ کچن میں چلو… میں نے ڈونٹس بنائے ہیں اور کافی بھی بالکل تیار ہے۔‘‘
نینا اس کی بات ٹال نہیں سکی۔ وہ اس کے ساتھ کچن میں آگئی۔ عمدہ کافی کی خوشبو نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ سفید میز کے گرد بیٹھ گئے۔ کچن کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ تانیہ اور روتھ کو رونیکا کے بنائے ہوئے ڈونٹس بہت پسند آئے جو ابھی گرم تھے۔ وہ مزے اور بے تکلفی سے ڈونٹس کھاتی اور دودھ پیتی رہیں جو رونیکا نے ان کے لئے مگ میں بھر کے رکھا تھا۔
’’مجھے یاد ہے جب ایرچ ان بچیوں کی عمر کا تھا تو اسے یہ ڈونٹس بہت پسند تھے۔ وہ ہر وقت ان کی فرمائش کیا کرتا تھا۔ کیرولین مجھ پر بہت اعتماد کرتی تھی۔ جب وہ شاپنگ یا کسی کام سے باہر جاتی تھی تو ایرچ کو میرے پاس چھوڑ جاتی تھی۔ وہ مجھے اپنے بچوں جیسا ہی لگتا تھا۔ اب بھی وہ مجھے اتنا ہی عزیز ہے۔ میری بیٹی آئرن ہماری شادی کے دس سال بعد پیدا ہوئی لیکن کیرولین کی گود میں ایرچ ایک سال بعد ہی آگیا تھا۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی بچہ اپنی ماں سے اتنی زیادہ محبت کرتا ہو۔ وہ اسے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا تھا۔ ہر وقت اس کے ساتھ لگا رہتا تھا اور تم نینا!‘‘ وہ چند لمحے ایک ٹک اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی۔ ’’اوہ نینا…! تم کیرولین سے کس قدر مشابہ ہو۔ تم بالکل اس کے جیسی لگتی ہو۔‘‘
اس نے نینا کی پیالی میں اور کافی ڈالی پھر بولی۔ ’’ایرچ کا سلوک ہم سب کے ساتھ بہت اچھا ہے۔ اس نے لاکھوں روپے پرائیویٹ سراغرسانوں پر خرچ کر ڈالے کہ کسی طرح میری بیٹی کا سراغ مل جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔‘‘
نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔ یقیناً ایسا ہی تھا۔ وہ اس کی بچیوں کے ساتھ کتنی محبت کرتا تھا۔ دیوار پر لگے ہوئے کلاک نے وقت کا اعلان کیا۔ نینا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوپہر ہوچکی تھی اور ایرچ نے دوپہر میں آنے کے لئے کہا تھا۔ وہ گھر آچکا ہوگا اور اسے موجود نہ پا کر پریشان ہوگا۔
’’رونیکا…! ہمیں بہت دیر ہوگئی ہے۔ بس اب ہم گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کافی اور ڈونٹس کے لئے بہت شکریہ…! دونوں بہت لذیز تھے۔ تم بھی ملنے آنا۔‘‘
’’کلائیڈ نہیں چاہتا کہ میں وہاں جائوں لیکن میں موقع دیکھ کر وہاں کا چکر ضرور لگاتی ہوں۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ نینا…! تم میرے پاس آتی رہنا۔ میں بہت تنہا ہوں، بالکل تنہا…!‘‘ وہ انہیں رخصت کرتے ہوئے مسکرائی اور اس مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ نینا نے سوچا کہ اس کا اندازہ بالکل درست
وہ جوانی میں یقیناً ایک بہت خوبصورت خاتون رہی ہوگی۔
رونیکا نے انہیں ڈونٹس کی ایک پلیٹ ساتھ بھی دے دی۔ اس نے ان کے لئے دروازہ کھولا تو ہوا کا ایک سرد جھونکا اندر داخل ہوکر انہیں کپکپا گیا۔ رونیکا نے اپنے بوسیدہ سوئٹر کے کالر اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’اوہ…! کتنی سردی ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک بار پھر آئرن کو تلاش کرنا شروع کروں۔‘‘ اس کے چہرے پر نرمی اور ملائمت کے بجائے ایک عجیب وحشت سی اتر آئی تھی۔
دوپہر کو سورج کی روشن تھالی کچھ اور زیادہ سنہری ہوگئی تھی۔ برف پر دوڑتی ہوئی سورج کی کرنیں کہیں کہیں سات رنگوں میں ڈھل گئی تھیں۔ جیسے ہی وہ پہلا موڑ مڑے، انہیں گھر نظر آنے لگا۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا گھر سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ نینا کے دل میں ایک فخر سا پیدا ہوا۔ یہ خوبصورت گھر ایرچ اور اس کا تھا۔
’’یہ بہت اچھی آنٹی تھیں۔‘‘ روتھ نے اس کے ساتھ چلتے چلتے اظہار خیال کیا۔
’’ہاں…! واقعی۔‘‘ نینا نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور بولی۔ ’’اب جلدی جلدی چلو بچو…! ڈیڈی ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’کون سے ڈیڈی…؟‘‘ روتھ نے سوال کیا۔
’’بس! صرف ایک ہی ڈیڈی ہیں۔‘‘ نینا نے جواب دیا اور پھر دونوں سے بولی۔ ’’چلو ہم ذرا آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور جاکر ڈیڈی کو حیران کردیتے ہیں۔‘‘
بچیوں نے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں زور زور سے سر ہلایا۔ نینا نے آہستگی سے دروازے کا ہینڈل گھمایا تاکہ ایرچ کو ان کی آمد کا پتا نہ چلے لیکن دروازہ کھلتے ہی انہیں ایرچ کے غصے میں بولنے کی بلند آواز سنائی دی۔ وہ کسی بات پر ایلسا کو ڈانٹ رہا تھا۔ ’’تم اپنے رویئے پر معذرت کرو یا دفع ہوجائو اور پھر کبھی یہاں نہ آنا۔‘‘
پھر ایلسا کی پریشان سی آواز سنائی دی۔ ’’آئی۔ایم سوری مسٹر ایرچ!‘‘
نینا نے جلدی سے دروازہ بند کردیا۔ اسے خواہ مخواہ اس معاملے میں دخل دے کر بدمزگی پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایرچ اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات پسند نہیں کرتا۔
ایرچ کی آواز اتنی بلند تھی کہ بچیوں نے بھی سب کچھ سن لیا تھا۔ وہ حیران بھی تھیں اور سہم بھی گئی تھیں۔ وہ دروازے سے کچھ دور نکل آئیں تو روتھ نے کہا۔ ’’ڈیڈی اتنے غصے میں کیوں ہیں… انہیں کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ہم جانتے تو نہیں ہیں نا ڈیئر لیکن میری بات بہت غور سے سنو۔ انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ ہم نے ان کی بات سنی ہے تو ہم ان کے سامنے یہی ظاہر کریں گے کہ ہم نے کچھ نہیں سنا۔‘‘
’’مگر ہم نے تو سنا ہے۔‘‘ تانیہ بڑی سنجیدگی سے بولی۔
’’ہاں…! میں جانتی ہوں لیکن ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے تو ہم اس معاملے میں کیوں دخل دیں۔ اچھا چلو آئو، ہم اندر جاتے ہیں۔‘‘
اس بار نینا نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں پکارا۔ ’’ہیلو ایرچ…!‘‘ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر نینا نے کہا۔ ’’کیا یہاں کوئی شوہر نامدار تشریف رکھتے ہیں؟‘‘
’’اوہ سوئٹ ہارٹ!‘‘ ایرچ مسکراتا ہوا سامنے آیا۔ اس کا موڈ یکدم خوشگوار ہوگیا تھا۔ اب سے پہلے کی تلخی بالکل غائب تھی۔ ’’میں ابھی ایلسا سے پوچھ ہی رہا تھا کہ تم کہاں ہو۔ یہ سن کر مجھے مایوسی ہوئی کہ تم خود ہی باہر چلی گئی ہو حالانکہ میں خود تمہیں سب کچھ دکھانا چاہتا تھا۔‘‘
’’مجھے بھی یہی اچھا لگتا ہے کہ سب تمہارے ساتھ دیکھوں اسی لئے میں بچیوں کے ساتھ کھیتوں کی طرف نکل گئی تھی۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔ ’’تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ مجھے یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہر چند میٹر بعد ٹریفک لائٹ دیکھ کر رکنا پڑتا ہے۔‘‘
ایرچ کی نگاہ اس پلیٹ پر پڑ چکی تھی جس میں رونیکا نے بچیوں کے لئے ڈونٹس دیئے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آنٹی رونیکا نے یہ ممی کو دیئے ہیں۔‘‘ روتھ نے بتایا۔
ایرچ یکلخت سنجیدہ ہوگیا۔ ’’نینا! کیا تم رونیکا کے گھر گئی تھیں؟‘‘
’’ہم لوگ ٹیلے پر چڑھے تو اس نے ہاتھ ہلا کر ہمیں بلا لیا۔ اب یہ اچھا نہیں لگتا تھا کہ ہم نہ جاتے۔‘‘ نینا نے وضاحت کی۔
’’وہ تو ہر راہ چلتے کو ہاتھ ہلا کر بلالیتی ہے، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ لوگوں سے ملو اور میں تمہیں ان کے بارے میں بتائوں۔ رونیکا ایک نفسیاتی مریض ہے۔ تم اسے ایک انچ جگہ دو گی تو وہ تمہارے سر پر سوار ہوجائے گی۔ میں اسے ریٹائر کرچکا ہوں، مگر وہ پھر بھی یہاں بار بار گھسنے سے باز نہیں آتی، جب بھی اسے موقع ملتا ہے۔ مجھے اس کی حالت پر افسوس ہے۔ خدا اس کی مدد کرے لیکن یہ بھی مناسب نہیں لگتا کہ وہ رات کو ہال میں آکر پھرنے لگے یا میری آنکھ کھلے تو وہ میرے کمرے میں کھڑی ہو۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے روتھ کی طرف مڑا۔ ’’آئو روتھ…! تمہارا یہ بھاری کوٹ اتارتے ہیں۔‘‘ اس نے روتھ کو اٹھا کر ہوا میں اچھالا اور اسے فریج پر بٹھا دیا۔
’’میں بھی… میں بھی!‘‘ تانیہ نے شور مچایا۔
’’ہاں… تم بھی… تم بھی!‘‘ وہ اس کے لہجے کی نقل کرتا ہوا بولا۔ اس نے تانیہ کو بھی فریج پر بٹھا دیا اور ان کے جوتے اتارنے لگا۔
نینا قریب آگئی، اس اندیشے سے کہیں بچیوں کا توازن نہ بگڑ جائے لیکن ایرچ نے ان کے بوٹ اتارے اور دونوں کو باری باری نیچے اتار لیا۔ پھر ان کی طرف جھک کر بولا۔ ’’اچھا بتائو میرا نام کیا ہے؟‘‘
’’ڈیڈی…؟‘‘ تانیہ نے سوالیہ لہجے میں کہا۔
’’ممی کہتی ہیں کہ صرف آپ ہی ڈیڈی ہیں۔‘‘ روتھ نے اسے اطلاع دی۔
’’اچھا…! تو ممی ایسا کہتی ہیں؟‘‘ اس نے سر ہلایا اور مسکرا کر نینا کی طرف دیکھا۔ ’’تھینک یو ممی…!‘‘
٭…٭…٭
نینا بچیوں کو سلا کر نیچے کچن میں آئی تو ایرچ سینڈوچز بنانے کے لئے چکن سلائس کاٹ رہا تھا۔ نینا نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔ ’’ہے مسٹر…! آج فارم پر ہمارا پہلا کھانا ہے۔ اسے یادگار ہونا چاہئے۔‘‘
’’ہاں…! کیوں نہیں… میں نے جو جو چیزیں تیار کی ہیں، وہ سب تمہیں پسند آئیں گی۔ تم ٹیبل لگائو۔‘‘
نینا نے دیکھا کہ اس نے بہت سے کھانے بنا لئے تھے۔ ٹن میں بند چیزوں کو گرم کرلیا تھا اور کافی میکر میں بنتی ہوئی کافی سے بڑی لذیز خوشبو آرہی تھی۔ نینا نے اس کی مدد کی۔ سلاد اور سینڈوچز بھی تیار ہوگئے۔ ایرچ نے اسٹوو جلا دیا۔ کچن میں نرم گرم سی حدت نے ماحول کو بہت سحر انگیز بنا دیا۔ اسٹوو کے نیلے شعلوں کے سامنے پرلطف کھانا بہت مزے لے لے کھایا۔
’’صبح بچوں کے ساتھ فارم میں گھومتے ہوئے مجھے یہ بے حد اچھا لگا کہ تم یہاں کتنی نسلوں سے رہ رہے ہو اور تم اپنے خاندانی لوگوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ مجھے اپنے بزرگوں کے بارے میں کچھ اتنا زیادہ پتا نہیں ہے۔ میرے پاپا کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور ممی کی زیادہ رشتہ داری نہیں تھی اور ہاں…! میں نے تمہارا خاندانی قبرستان بھی دیکھا۔‘‘
’’تم وہاں گئی ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’تم نے وہاں کیرولین کی قبر بھی دیکھی ہوگی… میری ماں کی قبر…؟‘‘
’’ہاں!‘‘ نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کا جی چاہا کہ اس سے پوچھے کہ کیا اس نے اس کے ساتھ اس لئے شادی کی کہ اس کی شکل اس کی ماں سے بہت ملتی ہے، لیکن پھر وہ مصلحتاً خاموش رہی۔ یہ سوچ کر کہ ایرچ کو خود ہی موقع دینا چاہئے کہ وہ اسے بتائے۔
’’تم نے دیکھا ہوگا کہ میرے والدین کی قبریں ایک ساتھ نہیں ہیں جیسی دوسرے میاں، بیوی کی ہیں۔‘‘
’’ہاں! مجھے حیرت تو ہوئی تھی۔‘‘
’’دراصل ممی نے وصیت کی تھی کہ انہیں مشرقی جانب دفن کیا جائے جہاں پائین کے درخت ہیں اور میرے والد اپنے والدین کے ساتھ دفن ہونا چاہتے تھے۔ میں نے ان کی خواہش پوری کردی۔ کیرولین زیادہ آزادانہ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ میرے پاپا کو یہ آزادی پسند نہیں تھی۔ میرا خیال ہے کہ بعد میں میرے والد کو پچھتاوا ہوا تھا جب کیرولین نے اپنی اسکیچ بک پھینک دی تھی۔‘‘ ایرچ نے ناگواری سے سر جھٹکا۔ ’’بھلا اس میں کیا حرج تھا کہ وہ اپنا شوق پورا کرلیتی… پینٹنگ کرتی رہتی، بجائے اس کے کہ گھریلو کاموں میں الجھی رہتی۔ میرے والد کا رویہ غلط تھا۔ سراسر غلط!‘‘ وہ مسلسل شعلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نینا کو محسوس ہوا جیسے وہ اپنے ماضی میں اس قدر گم ہوچکا ہے کہ وہ اس کی موجودگی سے بے خبر ہے۔
’’مگر… مگر کیرولین بھی غلط تھی۔ اس نے بھی تو دانشمندی سے کام نہیں لیا۔‘‘ اس کی آواز ایک سرگوشی تھی۔
اس وقت نینا کو پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ایرچ کے والدین کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔
٭…٭…٭
نینا کا دل یہاں لگ گیا تھا۔ اس نے روزانہ کے کچھ معمولات بنا لئے تھے۔ وہ بچیوں کو زیادہ وقت دینے لگی تھی، جس کی وجہ سے اس نے محسوس کیا تھا کہ روتھ اور تانیہ اس خوشگوار ماحول میں کھل اٹھی تھیں۔ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگی تھیں۔ روتھ موسیقی میں دلچسپی لے رہی تھی۔ وہ پیانو پر بہت جلد نئی دھن سیکھ لیتی تھی۔
تانیہ جسے پہلے رونے کے سوا کوئی کام نہیں تھا، اب پراعتماد ہوگئی تھی۔ اس کی حس مزاح حیرت انگیز طور پر بہت اچھی تھی۔ اب وہ ہنستی ہوئی نظر آتی تھی۔ ایرچ عموماً صبح صبح اپنے کاٹیج چلا جاتا تھا۔ جہاں اس نے اپنا اسٹوڈیو بنا رکھا تھا۔ وہ زیادہ تر تنہائی میں کام کرنا پسند کرتا تھا۔ وہ دوپہر سے پہلے کبھی واپس نہیں آتا تھا۔
نینا بچیوں کے ساتھ ناشتہ کرتی اور جب سورج بلند ہوتا اور ماحول میں ذرا حدت آتی تو وہ تینوں لمبی سیر کے لئے نکل جاتیں۔ یہ سیر بچیوں کے لئے بڑی پرلطف اور مہم جوئی سے بھری ہوتی تھی۔ سب سے پہلے ان کے راستے میں مرغی خانہ آتا تھا جہاں کچھ دیر وہ مرغیوں سے کھیلتیں۔ (جاری ہے)