نینا نے بچیوں کو کھانا کھلا کر سلا دیا۔ اس نے بے دلی سے پنیر کا ایک سینڈوچ کھایا اور کافی پی۔ اس کا ذہن ابھی تک مصروف تھا۔ ایرچ نے اسے کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کے والدین کے درمیان طلاق ہوچکی تھی۔ شاید وہ اس تلخ حقیقت کو دہرانا نہیں چاہتا تھا۔ بچیاں سوچکی تھیں۔ اس کا دل گھر میں نہیں لگ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے آفس چلی گئی۔
منیجر کلائیڈ کام میں مصروف تھا۔ اسے دیکھ کر وہ کچھ مضطرب سا ہوا لیکن پھر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ نینا نے اس سے پوچھا کہ اس کا کوئی خط تو نہیں آیا؟ اسے یہاں آئے دو مہینے ہوچکے تھے۔ اس نے اپنی دوست کو خط لکھا تھا، اس کا اب تک جواب آجانا چاہئے تھا۔
کلائیڈ نے بتایا کہ اس کے نام ایک خط اور دو پوسٹ کارڈ آئے تھے، جو اس نے ایرچ کو دے دیئے تھے۔ نینا نے کلائیڈ پر تو کچھ ظاہر نہیں کیا لیکن اسے حیرت ہوئی کہ ایرچ نے اسے ڈاک نہیں دی تھی۔ اس بات نے اسے اور پریشان کردیا۔ کیا ایرچ اسے یہاں سب سے کاٹ کر رکھنا چاہتا تھا؟
وہ واپس گھر آگئی۔ ایلسا جانے کے لئے تیار تھی۔ وہ اسے دیکھ کر بولی۔ ’’مسز ایرچ! بچیاں ابھی تک سو رہی ہیں، میں کل ذرا دیر سے آئوں گی۔‘‘
’’کیوں خیریت…؟‘‘ نینا نے پوچھا۔
’’مسٹر ایرچ یہاں آئے تھے، جب آپ بچیوں کے ساتھ باہر تھیں، انہوں نے مجھے خریداری کے لئے لسٹ دی ہے۔ میں کل مارکیٹ سے وہ چیزیں لے آئوں گی۔‘‘
’’کون سی چیزیں…؟‘‘
’’گروسری وغیرہ!‘‘
نینا یہ کہتے کہتے رہ گئی کہ وہ خود مارکیٹ جاکر خریداری کرسکتی ہے تو پھر ایرچ نے ایلسا سے خریداری کے لئے کیوں کہا ہے۔ ایلسا چلی گئی تو اس نے دراز میں دیکھا جہاں چابیاں رکھی رہتی تھیں، وہاں گاڑی کی چابی نہیں تھی۔ وہ دھک سے رہ گئی۔ کیا ایرچ کو پتا چل گیا تھا کہ وہ کیون سے ملنے گئی تھی، اسی لئے اس نے گاڑی کی چابی غائب کردی تھی کہ وہ کہیں نہ جاسکے۔
وہ بری طرح پریشان ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیرولین نے ایرچ کے باپ سے کیوں طلاق لی تھی۔ کیا وہ بھی ایرچ کی طرح ملکیت کے خبط میں مبتلا تھا۔ کیا اس کا انجام بھی کیرولین جیسا ہونے والا تھا جو اس کی ہمشکل تھی اور شاید اسی وجہ سے ایرچ نے ایک مہینے کے اندر اسے سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر، اس سے شادی کرلی تھی۔
نینا کی کیفیت کسی جال میں پھنسے ہوئے پنچھی کی سی تھی۔ اس کا کہیں دل نہیں لگ رہا تھا، اسے گھر کی دیواریں جیسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھیں۔ وہ بچیوں کے کمرے میں آگئی۔ دونوں بچیاں بڑے سکون سے سو رہی تھیں۔ ان کے سرخ بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے۔ دونوں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ نینا چند لمحے ان کی طرف بغور دیکھتی رہی۔
’’یہ دونوں ننھی منی گڑیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں؟‘‘ اچانک ایک آواز بالکل اس کے کان کے قریب سنائی دی۔
نینا ڈر کر اچھل پڑی۔ اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ تب ایک استخوانی بازو اس کی کمر کے گرد حمائل ہوگیا۔ ’’ہم ان بچیوں سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں؟‘‘
نینا نے دیکھا کہ وہ رونیکا تھی۔ اس کی خالی خالی آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا، اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ اس سے نگاہ ملتے ہی وہ خودکلامی کے انداز میں بولی۔ ’’اوہ… کیرولین!‘‘
نینا، رونیکا کو کمرے سے باہر لے آئی کہ کہیں بچیاں نہ جاگ جائیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی باہر آگئی۔ اس کا ہاتھ ابھی تک نینا کی کمر میں حمائل تھا۔
’’ایک کپ چائے پیتے ہیں۔‘‘ نینا نے کہا۔ اس کا ذہن اسی میں الجھا ہوا تھا کہ وہ گھر میں داخل کیسے ہوئی تھی، جبکہ دروازہ لاک تھا۔ کیا اس کے پاس کوئی دوسری چابی تھی؟
چائے پیتے ہوئے وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جس سے دور جنگل کا منظر بھی نظر آتا تھا۔
’’آئرن کو یہ جنگل بہت اچھے لگتے تھے… میں اس کو منع بھی کرتی تھی، مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتی تھی۔ وہ سارے درختوں پر منٹوں میں چڑھ جاتی تھی اور اسے بڑ کے درخت پر بیٹھ کر کتابیں پڑھنا بہت پسند تھا۔‘‘ پھر اس نے نینا کی طرف دیکھا۔ اب اس کی آنکھوں میں پہچان تھی۔
’’تم کیرولین تو نہیں ہو؟‘‘ اس نے جیسے تصدیق چاہی۔
’’ہاں…! میں نینا ہوں، میں کیرولین نہیں ہوں۔‘‘
’’اوہ آئی ایم سوری…! دراصل مجھ پر پرانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ میں سو کر اٹھی تو مجھے لگا کہ مجھے کام پر آنے میں دیر ہوگئی ہے۔ کیرولین کو یہ اچھا نہیں لگے گا۔‘‘
’’تمہارے پاس چابی ہے؟‘‘
’’نہیں…! میرے پاس چابی نہیں۔ دروازہ کھلا تھا، میں اس سے اندر آگئی۔‘‘
نینا کو یقین تھا کہ دروازہ لاک تھا لیکن اس نے رونیکا سے بحث نہیں کی۔ وہ اپنی رو میں کہتی جارہی تھی۔ ’’میں اوپر گئی تھی کہ بستر ٹھیک کردوں لیکن سارا کام تو ہوچکا تھا۔ پھر میں نے کیرولین کو وہاں کھڑے دیکھا لیکن وہ تم تھیں۔‘‘ پھر وہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’اوہ… مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، ایرچ بہت ناراض ہوگا۔ پلیز تم اسے نہ بتانا۔ نہ ہی کلائیڈ سے کچھ کہنا۔ مجھ سے وعدہ کرو تم نہیں بتائو گی؟‘‘ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔
’’نہیں…! تم تسلی رکھو، میں انہیں نہیں بتائوں گی۔‘‘
’’تم بہت اچھی ہو، کیرولین کی طرح! اس کی طرح ہی خوبصورت ہو۔ خداوند تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے، تمہارے ساتھ کوئی ایسی بات نہ ہو جس طرح کیرولین کے ساتھ ہوئی۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ کوئی خطرناک بات ہونے والی ہے۔‘‘ وہ چلنے کے لئے اٹھ گئی۔ اس نے بوسیدہ سوئٹر پہن رکھا تھا جو شدید سردی کے لئے ناکافی تھا۔
’’تم کوٹ کیوں نہیں پہنتیں…؟ باہر تو بہت سردی ہے۔‘‘ نینا نے اسے ٹوکا۔
’’میرا کوٹ نہ جانے کہاں گم ہوگیا ہے۔ میری چیزیں اکثر اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’اچھا ٹھہرو…! یہ میرا کوٹ پہن لو۔‘‘ نینا نے اپنا بھاری کوٹ الماری سے نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
رونیکا نے زیادہ پس و پیش نہیں کی اور کوٹ پہن کر بولی۔ ’’یہ کوٹ بہت اچھا ہے اور قیمتی بھی ہے۔‘‘
’’تم اسے رکھ لو، یہ اب تمہارا ہے۔‘‘
’’شکریہ…! اچھا مجھے بتائو کیا میں بچیوں کے لئے سوئٹر بنوں؟‘‘
’’ہاں ضرور…!‘‘ نینا نے کہا۔
رونیکا نے کچن کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ باہر تیز اور ٹھنڈی ہوا میں وہ لہراتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
ایرچ کو کاٹیج میں گئے کافی دن ہوگئے تھے۔ اس کی غیر موجودگی میں وقت گزارنا کافی مشکل لگ رہا تھا۔ دن بہت لمبے ہوگئے تھے۔ اب تو بچیاں بھی پوچھنے لگی تھیں کہ ڈیڈی کہاں چلے گئے ہیں؟ اتنے سے دنوں میں وہ اس سے اتنی مانوس ہوگئی تھیں کہ انہیں اس کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی تھی، حالانکہ کیون کے بارے میں انہوں نے کبھی ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا، جبکہ وہ ان کا حقیقی باپ تھا۔
اس بوریت سے گھبرا کر نینا نے سوچا کہ اسے گھڑ سواری سیکھ لینا چاہئے تاکہ فارغ وقت کا کچھ تو مصرف ہو۔ جوئی اسے گھڑسواری کا ابتدائی سبق دینے کے لئے بڑی خوشی سے تیار ہوگیا۔ نینا کو لگا کہ گھڑ سواری بہت دلچسپ کام ہے۔ وہ پہلی بار گھوڑے کی پشت پر بیٹھی تھی۔ اسے گھڑ سواری سیکھنے کے لئے مشق کی ضرورت تھی۔
اس نے مارک کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔ وہ یقیناً ایرچ کے زخمی گھوڑے کو دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ ’’ہیلو…! تم پہلی بار گھوڑے پر سوار ہوئی ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’اس لحاظ سے تو تمہاری کارکردگی بہت اچھی ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’میں نے سوچا کہ بلاوجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایرچ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوگا کہ میں نے گھڑ سواری سیکھ لی ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے شاید نہیں، وہ تمہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’دیکھ رہا تھا…؟‘‘ نینا حیران ہوئی۔
’’ہاں…! تقریباً آدھا گھنٹے… جنگل سے!‘‘
’’اب وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ تھوڑی دیر کے لئے گھر گیا تھا، پھر واپس کاٹیج میں چلا گیا۔‘‘
’’عجیب ہے…! ایرچ جب سے اپنی تصویروں کی نمائش کے بعد گھر آیا ہے، کاٹیج میں ہی رہ رہا ہے۔ ایک بار میری غیرموجودگی میں گھر آیا تھا ایلسا کو خریداری کی لسٹ دینے کے لئے، میرے لئے تنہائی کا یہ وقت گزارنا مشکل ہے… میں نے ماضی میں بہت مصروف وقت گزارہ ہے۔ ہر وقت لوگوں سے میرا رابطہ رہتا تھا۔ دوست، احباب اور ساتھ کام کرنے والوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا اور اب یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ یہاں کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ تنہائی ہے یا میں…! اگر دونوں بچیاں نہ ہوں تو میرے لئے وقت گزارنا بہت مشکل ہوجائے۔‘‘
’’چلو کچھ دیر انتظار کرلو شاید وہ کل پرسوں تک اپنا کام ختم کرکے گھر آجائے۔‘‘ مارک نے کہا اور واپس چلا گیا۔
نینا گھر آئی تو ایلسا اس کے انتظار میں تھی۔ تانیہ اور روتھ دونوں قالین پر بیٹھی ڈرائنگ کررہی تھیں۔
’’ڈیڈی ہمارے لئے نئی ڈرائنگ کاپیاں اور رنگ لائے ہیں۔‘‘ دونوں خوشی سے بولیں۔
’’مسٹر ایرچ نے آپ کے لئے پیغام دیا ہے۔‘‘ ایلسا نے میز کی طرف اشارہ کیا۔
نینا نے محسوس کیا کہ ایلسا کی آنکھوں میں تجسس ہے۔ نینا نے وہ لفافہ اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔
ایلسا چلی گئی تو نینا نے جیب سے لفافہ نکالا۔ اس میں ایرچ نے بڑے بڑے لفظوں میں صرف ایک جملہ لکھا تھا۔ ’’تمہیں انتظار کرنا چاہئے تھا کہ میں تمہارے ساتھ گھڑ سواری کرتا۔‘‘
نینا کاغذ ہاتھ میں تھامے اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’ممی… ممی…! کیا ہوا؟‘‘ روتھ اس کی جیکٹ کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’آپ پریشان ہیں؟‘‘
نینا نے چونک کر بچی کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا۔ تانیہ بھی اس کے ساتھ کھڑی تھی اور رونے والی ہورہی تھی۔
نینا نے جلدی سے کاغذ اپنی جیب میں ڈال لیا اور خود کو سنبھال کر دونوں کو پیار کرتے ہوئے بولی۔ ’’نہیں… نہیں… میں ٹھیک ہوں بالکل!‘‘
بظاہر وہ بچیوں کی خاطر خود کو نارمل ظاہر کررہی تھی لیکن دل ہی دل میں وہ پریشان تھی کہ ایرچ اسے بالکل تنہا کردینا چاہتا ہے۔ اس نے اسے چرچ کی میٹنگ میں جانے دیا نہ مارکیٹ…! نہ وہ چاہتا ہے کہ وہ گاڑی استعمال کرے۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں گھڑ سواری سیکھے۔ اس کا احساس ملکیت روزبروز بڑھتا جارہا تھا جیسے چاہتا ہو کہ وہ ہر شے سے لاتعلق ہوکر اس کے انتظار میں ہاتھ باندھے بیٹھی رہے۔
اتنی جلدی کوئی فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں تھا کہ وہ ایرچ کو کوئی نفسیاتی
ریض قرار دے یا اس کی کوئی اور وجہ تلاش کرے، خود کو کس طرح تسلی دے یا اس کا کیا حل نکالے…! پریشانی مستقل اس کا پیچھا کررہی تھی۔ اس نے کچھ وقت بچیوں کے ساتھ گزارہ۔ شام ہونے والی تھی، وہ انہیں کھلونوں میں مصروف کرکے پورچ میں چلی آئی۔
جھولا ہوا کے ساتھ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ مگر نینا اس جھولے پر نہیں بیٹھنا چاہتی تھی۔ اسے کیرولین کی وہ پینٹنگ یاد تھی جس میں وہ جھولے پر بیٹھی غروب آفتاب کا نظارہ کررہی تھی۔ ڈوبتے سورج اور شفق کے شنگرفی اور سنہری رنگوں میں اس کا چہرہ بہت حسین معلوم ہورہا تھا۔ ایرچ درست کہتا تھا۔ یہ تصویر اس کا شاہکار تھی اسی لئے وہ اس کو فروخت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آسمان پر کاسنی، نارنجی، سنہری اور گلابی رنگ بکھر کر ہر لمحہ ایک نیا نقش بنا رہے تھے۔ نینا کچھ دیر کھڑی غروب آفتاب کے اس دلکش منظر کو تکتی رہی، یہاں تک کہ شام کے ملگجے سائے زمین پر اترنے لگے۔ سارے رنگ یکدم غائب ہوگئے اور صرف سرمئی رنگ باقی رہ گیا۔ وہ گھر جانے کے لئے پلٹی تو اس کی نگاہ جنگل پر پڑی۔ یوں لگا جیسے کوئی اسے دیکھ کر فوراً درخت کے پیچھے چھپ گیا۔
نینا کو اپنی ذاتی زندگی میں یہ مداخلت پسند نہیں آئی۔ اس نے تیز لہجے میں پکارا۔ ’’کون ہے وہاں…؟‘‘ یوں لگا جیسے جھاڑیوں میں کوئی حرکت ہوئی ہو۔ نینا نے پھر سوال کیا۔ ’’کون ہے…؟‘‘
وہ پورچ کی سیڑھیاں اتر کر جنگل کی طرف بڑھی۔ اسی وقت ایرچ درخت کی اوٹ سے نکل کر اس کی جانب دوڑا۔ نینا ٹھٹھک گئی۔ اس سے اجتناب برتتے ہوئے اس نے جیب سے کاغذ کا وہ ٹکڑا نکالا جو دن کو ایرچ اس کے لئے چھوڑ کر گیا تھا۔
’’یہ کیا ہے…؟‘‘
’’اوہ ڈارلنگ…!‘‘ وہ ہنسا۔ ’’یہ ایک مذاق تھا، تم نے اسے سچ کیوں سمجھ لیا؟‘‘ اس نے کاغذ کا پرزہ اس کے ہاتھ سے لے کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں اڑا دیا۔ ’’لو یہ بات ختم!‘‘ نینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مسلسل مسکرا رہا تھا اور لگاوٹ بھری باتیں کرتا اس کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا تھا۔
نینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ ایک ہفتے بعد گھر آیا تھا۔ اس دوران جو باتیں اس کے دل میں پلتی رہی تھیں، ان کا کیا کرے…! انہیں بھول جائے اور خود کو اس لمحہ موجود کے حوالے کردے جس میں وہ ایک محبت کرنے والے شوہر کے روپ میں اس کے بہت قریب تھا۔
ایرچ کے آنے سے گھر کی فضا یکدم جاگ اٹھی۔ ہر طرف رونق اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ بچیاں اس کی آواز سن کر ’’ڈیڈی… ڈیڈی‘‘ پکارتی دوڑی چلی آئیں۔ اس نے دونوں کو ایک ساتھ اٹھا لیا اور پیار بھرے لہجے میں بولا۔ ’’اب ہم گھڑ سواری شروع کریں گے تو کتنا مزہ آئے گا۔‘‘ بچیوں نے تالیاں بجا کر پرجوش انداز میں خوشی کا اظہار کیا۔
نینا ان کے خوشی سے دمکتے چہرے دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔ اسے بچیوں کی خوشی عزیز تھی۔ وہ ان کی زندگی بنانا چاہتی تھی۔ اس کی خاطر اسے کچھ پریشانی برداشت کرنا پڑے تو وہ اس کے لئے تیار تھی۔ اس نے ڈنر میں بہت اہتمام کیا۔ ساری چیزیں ایرچ کی پسند کی بنائیں۔
وہ بھری پری میز دیکھ کر بولا۔ ’’یقین جانو کاٹیج میں اکیلے کام کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ تم سب سے علیحدہ رہنا واقعی بہت مشکل تھا۔‘‘
’’ہم سب بھی تمہاری بہت کمی محسوس کررہے تھے۔ تانیہ اور روتھ باربار تمہارے بارے میں پوچھتی تھیں۔‘‘ نینا نے بتایا۔
روتھ ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’ممی…! کیا آپ ان ڈیڈی کو دوسرے ڈیڈی سے زیادہ چاہتی ہیں؟‘‘
نینا سٹپٹا گئی۔ یہ روتھ نے کس قسم کا سوال کردیا تھا۔
’’تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘
روتھ نے ایرچ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’کیونکہ یہ ڈیڈی مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا میں اپنے پہلے ڈیڈی سے زیادہ انہیں چاہتی ہوں؟‘‘
’’ایرچ…! میں نے بچیوں سے کبھی اس قسم کی بات نہیں کی۔‘‘ نینا نے قدرے ناگواری سے کہا۔
’’میں ذرا دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اسے بھول گئی ہیں یا نہیں؟‘‘ پھر اس نے بغور اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اور تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
وہ اسے کوئی جواب دیئے بغیر بچیوں کو لے کر اوپر چلی گئی۔ انہیں نہلا کر بستر میں لٹا کر وہ نیچے آئی تو ایرچ کافی بنا چکا تھا۔ اس نے ٹرے میں پیالیاں رکھیں اور بولا۔ ’’آئو کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر کافی کے مزے لیتے ہیں۔ میں نے بہت اچھی کافی بنائی ہے۔‘‘
نینا نے ایک نگاہ ایرچ پر ڈالی۔ اس کا سفید سوئٹر اس کے سنہری بالوں کے ساتھ بہت جچ رہا تھا۔ نینا سوچنے لگی۔ وہ خوبصورت ہے، اسمارٹ ہے، ایک کامیاب مصور ہے۔ کسی بیوی کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے۔ اتنی خوبیاں تو شاید ہی کسی میں یکجا ہوں۔
وہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ایرچ نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھے فون پر کون ہے۔ نینا نے اٹھ کر فون اٹھایا اور اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ دوسری طرف کیون تھا۔ ایرچ کا اس پر ردعمل نہ جانے کیا ہوگا۔ اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور اپنے لہجے کو نارمل کرتے ہوئے بولی۔ ’’میں ٹھیک ہوں کیون…!‘‘ اس نے جان بوجھ کر اس کا نام لیا تاکہ کیون پر واضح ہو جائے کہ وہ کچھ چھپا نہیں رہی۔
’’نینا…! مجھے یقین نہیں آرہا کہ مجھے جاب مل گئی ہے۔ بالآخر میری صلاحیتوں کو پہچان لیا گیا ہے۔ بہت جلد تم دیکھو گی کہ میرا نام سب کی زبان پر ہوگا… میں یہ سب سے پہلے تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘
ایرچ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنا کان اس کے ساتھ لگا دیا۔
’’یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن کیون…! دیکھو تمہیں یہاں فون نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے راستے الگ ہوچکے ہیں۔ ایرچ گھر پر ہیں، انہیں تمہارا یہاں رابطہ کرنا بالکل پسند نہیں۔‘‘
’’تم میری بات غور سے سنو۔ میں جب چاہوں گا، کال کردوں گا اور اپنے اس بجو کو بتا دو کہ بچیوں کو گود لینے کے سارے کاغذات پھاڑ دے۔ میں اس کے خلاف عدالت میں جارہا ہوں۔ روتھ اور تانیہ میری بیٹیاں ہیں۔ میں انہیں اس پاگل شخص کے حوالے نہیں کرسکتا۔ مجھے ملازمت مل گئی ہے، میں اپنے انداز میں ان کی تربیت کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ تانیہ بہت اچھی اداکارہ بنے گی۔ اچھا! پھر بات کریں گے۔ میری ایک ضروری کال آرہی ہے۔‘‘ اس نے فون بند کردیا۔
نینا نے بھی ریسیور رکھ دیا۔ اس کے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے۔ یہ کیون کیا کرنا چاہ رہا تھا۔ ایرچ کے اثرورسوخ کے سامنے اس کی ایک نہیں چلے گی۔ اس نے پریشان سے لہجے میں کہا۔ ’’کیا وہ معاہدہ منسوخ کروا سکتا ہے؟‘‘
’’کوشش کرکے دیکھ لے، منہ کی کھائے گا۔‘‘ وہ حقارت بھرے لہجے میں بولا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ ’’میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا نینا کہ اگر تم دو سال پہلے اس پر کورٹ میں بچوں کے خرچے کا مقدمہ کردیتیں تو یہ اسی وقت پیچھے ہٹ جاتا، خواہ مخواہ تمہارے ساتھ تعلق نہ جوڑتا پھرتا۔‘‘
نینا خاموش رہی، لیکن اس کے اندر پریشانی گھر کر گئی۔ وہ اس بات سے گھبرا رہی تھی کہ بچیوں کے معاملے پر کیون اور ایرچ کا جھگڑا کہیں ان کے سکون کو برباد نہ کردے۔ اس کے لئے وہاں بیٹھنا محال ہوگیا۔ وہ ایرچ سے مخاطب ہوئی۔ ’’میں سونے جارہی ہوں۔ کیا آج رات تم ٹھہرو گے؟‘‘
’’ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ وہ بولا۔
نینا اپنے بیڈ روم کی طرف چل پڑی۔ ابھی وہ زینے کے قریب ہی پہنچی تھی کہ ایرچ نے پکارا۔ ’’نینا…!‘‘
نینا نے پلٹ کر دیکھا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘وہ قریب آیا۔ اب اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے کی درشتی اور سرد مہری نہیں تھی۔ وہ ملائمت سے بولا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کہ کیون نے یہاں فون کیا ہے۔ تم یقین رکھو کہ اس کی وجہ سے ہمارے درمیان کوئی بدمزگی نہیں ہوگی۔‘‘
’’لیکن پھر بھی…! تم اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے کہ ایسا ہوتا ہے۔‘‘ نینا نے شکوہ کیا۔
’’تم فکر نہ کرو۔ اگلے چند روز میں تمہاری یہ شکایت بھی دور ہوجائے گی۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو نینا…! جب بھی یہ دن آتے ہیں، میں بہت ڈپریشن میں چلا جاتا ہوں۔ میری ماں مجھ سے کہا کرتی تھی کہ وہ میری سالگرہ پر ہمیشہ میرے ساتھ ہوگی لیکن میری سالگرہ پر ہی وہ ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہوگئی۔ میرا کتنا بڑا نقصان ہوا، شاید کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا۔‘‘
’’دیکھو ایرچ…! بس اب تم اس صدمے سے باہر نکلو… اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ مرے ہوئے لوگ واپس نہیں آتے۔ اس بات کو پچیس سال گزر چکے ہیں۔ یہ ایک المیہ ضرور ہے لیکن زندگی بھر اسے گلے سے لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پلیز…! اس طرح خود کو دوسروں سے الگ تھلگ نہ رکھو۔ مجھے صحیح معنوں میں اپنی شریکِ حیات بنائو، اپنے ہر دکھ سکھ میں مجھے شریک کرو… مجھے اپنے ساتھ اسٹوڈیو لے کر جائو، اپنے دوستوں کو گھر بلائو، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارو… مجھے بھی زندگی کی گہماگہمی میں حصہ لینے دو۔ مجھے گاڑی چلانے دو کہ میں شاپنگ کروں۔ بچیوں کو فلم پر لے کر جائوں، یہاں لوگوں کے ساتھ میل جول رکھوں۔‘‘
’’تم چاہتی ہو کہ تمہیں کیون سے ملنے میں آسانی ہو؟‘‘ ایرچ نے بڑی سہولت سے کہہ دیا۔
’’ایرچ…! مجھے جانے دو۔‘‘ نینا نے برہمی سے کہا۔ غصے اور صدمے سے وہ کانپ رہی تھی، جب وہ اپنے بیڈ روم میں آئی۔ اس کا مطلب تھا کہ ایرچ کے دل میں اب بھی اس کے لئے بداعتمادی تھی۔ اس کا ذہن ہزاروں پریشان کن اندیشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اس نے کتاب پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی اس کا دل نہیں لگا، بالآخر کہیں رات گئے اسے بڑی بے چین سی نیند آئی۔
وہ صبح بھی تنہا ہی اٹھی۔ اس کا مطلب تھا کہ ایرچ واپس چلا گیا تھا یا کسی اور بیڈ روم میں سویا تھا۔ وہ بچیوں کو ناشتہ کروا کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ایرچ زینہ اتر کر نیچے آیا۔ نینا سمجھ تو گئی کہ وہ اپنی ماں کیرولین کے بیڈ روم میں سویا ہوگا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا۔ وہ نیچے آیا۔ اس نے اپنا بھاری کوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ بغیر کسی تمہید کے بولا۔ ’’میں کاٹیج جارہا ہوں، کچھ کام اب بھی ادھورا ہے۔‘‘
’’ایرچ…! جمعے کو ضرور واپس آجانا… ہم تمہاری سالگرہ منائیں گے۔ میں نے مارک اور ایملی کو بھی بلایا ہے۔‘‘ نینا نے محتاط سے لہجے میں کہا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے۔
وہ اس کی بات نظرانداز کرکے بولا۔ ’’نینا! کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ نینا نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔
’’کبھی مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائو
گی؟‘‘
’’نہیں…! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔‘‘
’’ماما کیرولین بھی ایسے ہی کہتی تھی۔‘‘ وہ جیسے خود سے بولا۔ اور ’’گڈبائے‘‘ کہہ کر چلا گیا۔ نینا سوچنے لگی کہ کیا اسے ایرچ کو کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کے بارے میں کہنا چاہئے۔ اپنی ماں کی موت اور سالگرہ کا دن اکٹھا ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت الجھ گیا تھا۔ اسے اس کیفیت سے باہر آنا چاہئے تھا جس نے اس کی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ لیکن اس کو اس پر آمادہ کرنا بہت مشکل تھا، شاید وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرے گا کہ اسے نفسیاتی مریض کہا جارہا ہے تو اسے کس طرح رضامند کیا جائے؟ کیا اسے اس کے بچپن کے دوست ڈاکٹر مارک کی مدد حاصل کرنی چاہئے؟ وہ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی۔ اسے یہ تجویز بہتر معلوم ہوئی کہ اسے مارک سے بات کرنی چاہئے۔
٭…٭…٭
خلاف توقع ایرچ ڈنر والے روز گھر آگیا اور اس کے ساتھ مل کر ڈنر کی تیاری کرواتا رہا۔ اس کا موڈ کافی بہتر تھا۔ کسی طرح کی الجھن میں گرفتار معلوم نہیں ہوتا تھا۔ وہ اسے مارک اور اس کی مشترکہ دوست ایملی کے بارے میں بتا رہا تھا۔
’’ایک وقت تھا جب ایملی کے والدین بڑی شدت سے چاہتے تھے کہ میں اور ایملی شادی کرلیں۔ ایملی کے والد یہاں بینک کے پریذیڈنٹ ہیں۔ ظاہر ہے انہیں میری مالی حیثیت کا علم تھا۔‘‘
’’اور تم کیا چاہتے تھے؟‘‘ نینا نے پوچھا۔
’’مجھے ایملی میں دلچسپی نہیں تھی، اس لئے میں کوئی ایسی صورتحال پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا جو کسی کے لئے تکلیف دہ ہو۔ میں ایک مکمل خاتون کے انتظار میں تھا۔‘‘ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔
’’تو تمہیں اپنی من پسند خاتون ملی؟‘‘
’’ہاں…! کیوں نہیں۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
لیکن نینا کو اعتبار نہیں آیا۔ یہ بات کبھی اس کے دل سے نہیں نکلی تھی کہ ایرچ نے اس لئے اس سے شادی کی تھی کہ اس کی شکل اس کی ماں سے بہت ملتی تھی جسے وہ ٹوٹ کر چاہتا تھا۔
تھوڑی دیر میں مہمان آگئے۔ مارک اپنے بہترین سوٹ میں تھا اور بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ ایملی بھی ایک خوبصورت خاتون تھی لیکن لئے دیئے انداز والی…! ایسی خاتون جو آسانی سے بے تکلف نہیں ہوتی۔ وہ تنقیدی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تعارف کے بعد وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’تمہیں معلوم ہے نینا کہ میں نے واپس جاکر سب کو رپورٹ دینی ہے کہ ایرچ کی بیوی کیسی ہے؟ میری ماں نے تو مجھے پورے بیس سوالات دیئے ہیں جن کے جوابات اسے درکار ہیں۔‘‘ ابھی نینا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہ دوبارہ بولی۔ ’’دراصل تم اب تک یہاں کسی سے بھی نہیں ملیں۔‘‘
نینا کے بجائے ایرچ نے جواب دیا۔ ’’اگر ہم دو ماہ کے لئے ہنی مون پر چلے گئے ہوتے تو شاید کسی کو بھی اتنا تجسس نہ ہوتا لیکن نینا چاہتی تھی کہ ہم ہنی مون فارم پر منائیں، اس کی خوبصورتیوں کو دریافت کریں اور ان سے خوشی حاصل کریں۔‘‘
نینا کچھ نہ بولی۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا اور نہ ہی ایسا چاہا تھا مگر اب وہ ایرچ کو جھٹلا بھی نہیں سکتی تھی۔ زیادہ تر گفتگو ایرچ ہی کرتا رہا۔ نینا نے بہت کم حصہ لیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایرچ اپنی مرضی کی گفتگو کرنا چاہتا ہے۔
نینا بہت بے چینی محسوس کررہی تھی، لیکن اپنے چہرے کے تاثرات سے اس کا اظہار نہیں ہونے دے رہی تھی۔ اس نے کھانا لگایا تو ایرچ نے اس کی مدد کی۔ کھانا کھاتے ہوئے مارک بولا۔ ’’لو ایملی…! تم اپنی ممی کو یہ تو بتا سکتی ہو کہ نینا بہت اچھا کھانا پکاتی ہے۔‘‘
’’ہاں! کھانا واقعی بہت اچھا ہے۔‘‘ ایملی نے کہا اور تھوڑے توقف کے بعد استفسار کیا۔ ’’تم نے اتنا اچھا کھانا پکانا کہاں سے سیکھا؟‘‘
’’میں نے اپنی دادی سے سیکھا ہے۔‘‘ نینا نے بتایا۔
دروازے پر ہلکی سی دستک کے بعد دروازہ کھلا۔ سب نے دروازے کی طرف دیکھا۔ ایرچ بولا۔ ’’یہ اس وقت کون ہوسکتا ہے؟‘‘
ایک بھاری جسم کا لمبا تڑنگا شخص اندر داخل ہوا۔ اس نے دروازے کے سامنے رک کر کہا۔ ’’میں شیرف وینڈل ہوں۔ کیا میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘
’’آپ اندر تو آ ہی چکے ہیں۔ فرمایئے… ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں؟‘‘ ایرچ نے نیم مزاحیہ لہجے میں کہا۔
’’معاف کیجئے مسٹر ایرچ…! کیا میں آپ کی بیگم سے کچھ سوالات کرسکتا ہوں؟‘‘
’’ہمارے ساتھ کافی میں شریک ہوجائو اور سوالات بھی پوچھ لو۔‘‘
’’میں معذرت خواہ ہوں مسٹرایرچ! مجھے یہ سوالات تنہائی میں کرنا ہوں گے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’مگر ایسی کیا بات ہے، آپ یہیں کیوں نہیں سوالات کرلیتے؟‘‘ نینا نے محسوس کیا کہ اس کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ رہی ہیں۔ اسے یونہی شک ہوا کہ کیون نے بچیوں کی حوالگی کے لئے عدالت کی مدد حاصل کرلی ہے۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ بچیوں کی جدائی کبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
وہ شیرف کے ساتھ دوسرے کمرے میں آئی تو اس نے پوچھا۔ ’’مسز ایرچ…! کیا آپ کسی کیون کو جانتی ہیں؟‘‘
اس کے لہجے سے نینا چونکی۔ اس کے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا۔ ’’کیوں… کیا اس کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے؟‘‘
’’آپ نے آخری بار اسے کہاں دیکھا تھا؟‘‘
’’شاید ایک شاپنگ سینٹر میں…! مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔‘‘
’’کیا وہ آپ کے بچوں کا باپ ہے؟‘‘
’’ہاں…! وہ میرا سابقہ شوہر اور میرے بچوں کا باپ ہے۔‘‘
’’آپ نے آخری بات اس سے کب کی تھی؟‘‘
’’سترہ تاریخ کو رات نو بجے فون پر!‘‘ نینا کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ ’’پلیز آخر بات کیا ہے، آپ پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں؟‘‘
شیرف غور سے اس کے چہرے کی طرف مسلسل دیکھتا ہوا بولا۔ ’’پیر کی دوپہر کو جب وہ تھیٹر پر ایک ریہرسل کررہا تھا تو اس کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس کی سابقہ بیوی، بچوں کے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے ایک ساتھی اداکار کی گاڑی لے کر روانہ ہوا، یہ وعدہ کرکے کہ وہ صبح تک واپس آجائے گا مگر چار روز گزر چکے ہیں، اس کا کچھ پتا نہیں۔ وہ اداکار جس کی گاڑی لے کرگیا تھا، اپنی نئی گاڑی کے لئے پریشا ن ہے، کیونکہ گاڑی خریدے اسے صرف ایک ماہ ہوا تھا۔ کیا آپ کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے نہیں بلایا؟‘‘
’’نہیں… بالکل نہیں!‘‘ نینا نے پورے یقین سے کہا۔
’’اس نے آپ کو فون کیوں کیا تھا؟‘‘
’’وہ بچوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتا تھا جو اس کے اور میرے موجودہ شوہر کے درمیان ہوا تھا جس کی رو سے وہ بچوں سے دستبردار ہوچکا تھا۔‘‘
’’پیر کی دوپہر کو آپ اور آپ کا شوہر کہاں تھے؟‘‘
’’میرے شوہر اپنے اسٹوڈیو میں ایک تصویر مکمل کررہے تھے، میں یہاں اکیلی تھی۔‘‘
’’آپ نے فون پر کسی سے بات کی؟‘‘
’’نہیں…! میں جلد سو گئی تھی۔‘‘
’’تو گویا آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ شوہر کو فون کرکے نہیں بلایا؟‘‘
’’نہیں ہرگز نہیں…! میرے شوہر اسے پسند نہیں کرتے تو میں اسے یہاں کیوں بلائوں گی۔‘‘ نینا نے زور دے کر کہا۔ ’’آپ اس کو جلد ازجلد تلاش کریں تاکہ معاملہ صاف ہوجائے۔‘‘
’’ہاں…! ہم نے اپنے لوگوں کو اس مہم پر لگا دیا ہے۔ جیسے ہی کوئی خبر ملے گی، ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ رخصت ہوگیا۔
ایرچ نے مارک اور ایملی سے ہاتھ ملایا اور نینا کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ ہماری یہ شام تھوڑی بدمزگی پر ختم ہوئی، لیکن جب آپ کسی ایسی خاتون کے ساتھ شادی کرتے ہیں جس کا ماضی بھی اس کے ساتھ لگا ہوا ہو تو پھر ایسا اتفاق ہو ہی جاتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
اگلی صبح بھی وہ تنہا تھی۔ صبح کی چائے پی رہی تھی کہ دروازے پر ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ نینا نے چونک کر دیکھا۔ ’’اوہ…!‘‘
’’کیا میں نے تمہیں ڈرا دیا؟‘‘ رونیکا اندر آگئی۔ تیز ہوا سے اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔
’’رونیکا…! یہ دروازہ تو لاک تھا، کیا تمہارے پاس چابی ہے کہ تم کھول کر اندر آگئیں؟‘‘
’’ہاں…! مجھے میری چابی مل گئی ہے۔‘‘
’’میری چابی کہیں گم ہوگئی ہے، مل نہیں رہی۔ کہیں یہ چابی میری تو نہیں؟‘‘
’’تمہاری چابی تمہارے کوٹ کی جیب میں تھی۔ ہم نے اس چابی کو نہیں نکالا اور کوٹ تمہیں واپس کردیا تھا۔‘‘
’’نہیں…! میرا نہیں خیال کہ تم نے کوٹ واپس کیا ہے۔‘‘
’’کلائیڈ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ میں تمہارا کوٹ لوں اس لئے وہ خود کوٹ واپس کرنے آیا تھا۔ کچھ دن پہلے میں نے تمہیں وہ پہنے ہوئے بھی دیکھا تھا۔‘‘
’’اچھا دکھائو تمہاری چابی کہاں ہے؟‘‘
رونیکا نے اپنے لمبے بوسیدہ سوئٹر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چابیوں کا گچھا نکالا۔ یہ کلائیڈ کی چابیاں تھیں جو بحیثیت منیجر کے اس کے پاس رہتی تھیں۔ اگر ایرچ کو پتا چلے کہ رونیکا تمام چابیاں اس طرح لئے پھرتی ہے تو وہ بے ہوش ہوجائے۔ اس نے تنبیہ کے انداز میں اس سے کہا۔ ’’رونیکا…! یہ بری بات ہے۔ تمہیں کلائیڈ کی چابیاں اپنے ساتھ نہیں رکھنی چاہئیں۔‘‘
’’ہاں…! میں اس کو واپس کردوں گی۔‘‘ اس نے جلدی سے چابیاں جیب میں ڈال لیں۔
نینا نے پیالی میں اس کے لئے چائے نکالی اور بولی۔ ’’آئو چائے پیو۔‘‘
وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور اس نے اپنی بغل میں سے ایک پیکٹ نکالا اور کچھ ہچکچا کر اسے کھولا۔ اس میں دو نیلے رنگ کے سوئٹر تھے۔ ان کی اسٹرا بری کی شکل کی جیبوں پر اس نے بڑی خوبصورت کڑھائی کی تھی۔ ان کے سائز دونوں بچیوں کے لئے بالکل ٹھیک لگ رہے تھے۔
’’یہ تو بہت خوبصورت ہیں رونیکا!‘‘
’’یہ رنگ بھی دیکھو، کتنا اچھا ہے… میں چاہتی تھی کہ پہلے تم سے رنگ پسند کروا لوں… مگر میں یہاں آئی تو تم کہیں جارہی تھیں۔ اس لئے میں نے تمہیں روکنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
رونیکا عجیب انٹ شنٹ بولتی رہتی تھی۔ بھلا رات گئے اس نے کہاں جانا تھا۔ اس نے موضوع بدلنے کے لئے کہا۔ ’’مجھے ہمیشہ سے سلائی اور بنائی سیکھنے کا شوق تھا لیکن وقت نہیں ملا… کیا تم مجھے سکھا سکتی ہو؟ یہاں میرے پاس کافی وقت ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں… ہاں کیوں نہیں… بڑے شوق سے!‘‘ پھر وہ چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’میں ساری ضروری چیزیں جمع کرکے پھر آئوں گی کسی دوپہر کو…! یہ بالکل پرانے وقتوں کی طرح ہوگا۔ کیرولین کو بھی یہ سب نہیں آتا تھا، مگر اس کو اس
دلچسپی تھی۔ میں نے ہی اسے سکھایا تھا۔ اس سے اس نے کتنی ہی چیزیں بنائی تھیں۔ یہی ایرچ کا باپ چاہتا تھا کہ وہ تصویریں بنانا چھوڑ کر اس قسم کے گھریلو کام کرے مگر وہ یہ نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر وہ حادثے کا شکار ہوگئی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
دو یا تین دن بعد ایرچ خلاف توقع دن چڑھے گھر آگیا۔ بچیاں اسے دیکھ کر نہال ہوگئیں۔ وہ دونوں کے ہاتھ پکڑ کر بولا۔ ’’آئو ذرا میں دیکھوں کہ تم نے کتنی گھڑ سواری سیکھی ہے۔‘‘
دونوں کچھ عرصے سے گھڑ سواری کی باقاعدہ مشق کررہی تھیں۔ انہوں نے اس میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ دونوں خوشی سے اچھلتی ہوئی اس کے ہمراہ چل پڑیں۔ نینا بھی ان کے ساتھ تھی۔ بچیوں کے ساتھ ایرچ کا یہ لگائو جیسے وہ ان کا حقیقی باپ ہو، نینا کے لئے بڑی تقویت کا باعث تھا۔ وہ اپنی بچیوں کی خوشی کی خاطر ایرچ کا ہر قصور معاف کرسکتی تھی۔
جوئی نے بچیوں کے گھوڑوں کو تیار کردیا تھا۔ اس نے انہیں سوار ہونے میں مدد دی۔ وہ دونوں بڑی خود اعتمادی سے ایک ساتھ سواری کرتی ہوئی دور تک نکل گئیں۔ ایرچ نے اس کا بازو تھاما۔ ’’دیکھا میری ننھی شہزادیاں کتنی خوبصورتی سے گھڑ سواری کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں…! اب انہیں کافی مہارت ہوگئی ہے۔‘‘ نینا نے کہا۔
تھوڑی دیر میں بچیاں واپس آگئیں اور ایرچ سے پوچھنے لگیں کہ انہوں نے کیسی سواری کی۔ ایرچ مزاحیہ انداز میں انہیں بتانے لگا کہ انہوں نے کیا کیا غلطی کی ہے۔ وہ اس کی باتوں پر کھلکھلا کر ہنسنے لگیں۔
اسی وقت ایک کار روش طے کرتی پورچ میں آن کھڑی ہوئی۔ نینا دھک سے رہ گئی۔ وہ شیرف کی سرکاری گاڑی تھی۔ کیا انہیں کیون کے بارے میں کوئی سراغ مل گیا تھا۔ اس بات نے اس کے دل میں کھلبلی سی مچا دی لیکن وہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ کسی طرح کی بے چینی کا اظہار نہیں ہونے دے رہی تھی۔
ایرچ نے بھی شیرف کی گاڑی دیکھ لی تھی۔ وہ اس کے استقبال کے لئے آگے بڑھا۔ شیرف کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اس نے ایرچ کو بتا دیا کہ وہ نینا سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہے۔
ایرچ نے بچیوں کو سنبھال لیا اور شیرف اس کے ساتھ لائبریری میں آگیا۔ ایک نشست پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’مسز ایرچ! آپ کا سابقہ شوہر ابھی تک لاپتا ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ جس طرح وہ گیا ہے، اس کا سامان اور ایک بڑی رقم اس کے کمرے میں موجود ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ اتنی اچھی ملازمت چھوڑنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں آپ سے علیحدگی میں بات کرلوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہمیں حقائق سے آگاہ کردیں۔ یہی آپ کے لئے مناسب ہے، ورنہ تفتیش شروع ہوگئی تو حقائق منظرعام پر آہی جائیں گے۔ آپ مجھے یہ بتایئے کہ کیا آپ نے مسٹر کیون کو فون کیا تھا؟‘‘
’’نہیں… بالکل نہیں!‘‘
’’وہ تھیٹر سے ساڑھے پانچ بجے چلا تھا۔ اسے نو بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہئے تھا۔ اس روز آپ اس تمام عرصے میں کہاں تھیں؟‘‘
’’میں اپنے بیڈ روم میں تھی اور اتفاق سے میں نو بجے سو گئی تھی۔ میری کمر میں درد تھا۔‘‘
’’یعنی آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ کیون سے نہیں ملیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ نینا نے پریقین لہجے میں کہا۔
’’تھیٹر والوں کا کہنا ہے کہ انہیں کسی خاتون کی کال موصول ہوئی تھی، آپ کے نام سے…! تو کیا کوئی ایسی خاتون ہے جو آپ کا نام استعمال کرسکتی ہے؟‘‘
’’مسٹر شیرف! میرا کیون کی گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ اس کا الزام مجھ پر کیوں تھوپ رہے ہیں؟‘‘
’’میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگا رہا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کچھ سچ بتا دیں۔ یہ آپ کے حق میں بہتر ہوگا، بجائے اس کے کہ بعد میں کوئی پریشانی ہو۔‘‘
’’میرے پاس ایسے کوئی حقائق نہیں ہیں مسٹر شیرف!‘‘ نینا کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی اور لائبریری کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ ایرچ بچیوں کے ساتھ کچن میں تھا۔ وہ انہیں سینڈوچ بنا کر دے رہا تھا۔ وہ تینوں مزے لے لے کر سینڈوچز کھا رہے تھے۔ نینا نے دیکھا کہ میز پر اس کے لئے کوئی پلیٹ موجود نہیں تھی۔
اس نے ایرچ کو مخاطب کیا۔ ’’ایرچ…! شیرف جارہے ہیں۔‘‘ ایرچ اٹھ کر چلا گیا۔ نینا نے فریج سے دودھ کا ایک گلاس لیا اور بچیوں کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بہت کمزوری محسوس کررہی تھی۔ چاہتی تھی کہ جلد سو جائے۔
ایرچ واپس نہیں آیا۔ شاید وہ وہیں سے اپنے کاٹیج چلا گیا تھا۔ نینا اگلے دن خود کو کچھ بہتر محسوس کررہی تھی۔ اس نے اٹھ کر بچیوں کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا۔ تب تک ایلسا صفائی کرنے کے لئے آگئی۔ وہ بچیوں کے کمرے میں انہیں کتاب پڑھ کر سنانے لگی کہ معلوم ہوا باہر شیرف آیا ہوا ہے اور اس سے ملنا چاہتا ہے۔
نینا کے دل میں کھدبد سی ہونے لگی۔ نہ جانے وہ آج اس کے خلاف کون سے الزامات لے کر آیا تھا۔ وہ ہر بار کیون کی گمشدگی کو اس کے ساتھ جوڑنا چاہتا تھا۔ اس کے رویئے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس پر شک کررہا ہے۔
وہ اس سے ملنے کے لئے باہر آئی تو اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ وہ قریب آیا اور رسمی گفتگو کے بعد بولا۔ ’’ہمیں ایک فون کال کے ذریعے پتا چلا تھا کہ کیون یہاں آیا تھا اور اس نے آپ کے گھر کا پتا پوچھا تھا۔‘‘ نینا خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کا دل ڈوبا جارہا تھا۔ شیرف کی گفتگو جاری تھی۔ ’’لہٰذا ہم نے آپ سے رابطہ کرنے سے پہلے یہ سراغ لگانے کی کوشش کی کہ اگر وہ یہاں آیا تھا تو کہاں جاسکتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر یہاں کوئی اجنبی آئے اور آپ کے گھر کا گیٹ اسے نظر نہ آئے تو آنے والا موڑ سیدھا دریا کے کنارے تک جاتا ہے، کیونکہ رات کو یہاں کافی اندھیرا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ تیزی سے آگے نکل گیا ہو۔ جب ہم نے تفتیش کی تو ہمیں ایک سفید گاڑی دریا کے کنارے نظر آئی۔ وہ برف سے ڈھکی ہوئی تھی، اسی لئے شاید کسی کو نظر نہیں آئی۔ ہم نے گاڑی کو باہر نکالا۔‘‘
نینا کی آنکھوں کے سامنے کیون کا چہرہ لہرا گیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اسے کیا بتانے والا ہے۔ ’’لاش کی حالت کافی بگڑ چکی تھی لیکن اس کے لائسنس اور لباس سے شناخت کرلی گئی کہ وہ کیون کی لاش ہے۔‘‘
نینا کے اندر خاموش فریاد جاری تھی۔ سرخ بالوں والا کیون جو اپنے لباس اور انداز سے بڑا ایکٹر نظر آنا چاہتا تھا، اس کی معصوم بچیوں کو کیا علم کہ وہ باپ کے رشتے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوچکی ہیں۔ اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہونٹوں سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔
شیرف نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اب ہمیں ضرورت ہے کہ آپ جتنی جلد ہوسکے، کیون کی لاش کو شناخت کرلیں۔‘‘
’’اوہ خدایا…! کیا یہ وقت بھی آنا تھا؟‘‘ نینا دل ہی دل میں پریشان ہورہی تھی مگر بول نہیں پاتی تھی۔
’’مسز ایرچ…! آپ اپنے لئے کوئی وکیل بھی مقرر کرلیں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ بمشکل ایک لفظ نینا کے ہونٹوں سے نکلا۔
’’کیونکہ مسٹر کیون کی موت کے حوالے سے کچھ پہلوئوں پر آپ سے تفتیش کی جائے گی۔ آپ کا ہر جواب نوٹ کیا جائے گا جو آپ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔‘‘
’’میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں مسٹر شیرف…! میں آپ کے ہر سوال کا جواب دوں گی۔‘‘ نینا نے بڑی جرأت سے کہا۔
’’اگر آپ راضی ہیں تو ہمیں اس وقت آپ سے چند سوالات کرنے ہیں۔‘‘
(جاری ہے)