Monday, September 16, 2024

Musavvir | Last Episode 6

بچے کے دوبارہ ٹیسٹ لئے گئے اور ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا، لیکن بچے کی کمزور صحت کی وجہ سے آپریشن ابھی ممکن نہیں تھا۔ دسمبر آنے والا تھا۔ بچیوں نے اپنی فرمائشوں کی لمبی فہرست بنا لی تھی۔ ایرچ ایک بہت خوبصورت کرسمس ٹری لے کر آیا تھا جو اس نے لائونج کے ایک گوشے میں سجا دیا تھا۔ نینا بچے کو گود میں لئے یہ سب دیکھتی رہتی تھی۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ بچہ اس طرح زیادہ آرام محسوس کرتا ہے اور صحیح طرح نیند لیتا ہے۔
ایرچ کو اب شکایت ہونے لگی تھی۔ ’’اب تمہیں اپنے بیٹے کے علاوہ کسی اور کی پروا ہی نہیں رہی۔ تمہیں علم ہونا چاہئے کہ تانیہ، روتھ اور ان کے ڈیڈی محسوس کرتے ہیں کہ وہ نظرانداز ہورہے ہیں۔‘‘
وہ بچیوں کی فرمائشوں کو پورا کررہا تھا تاکہ کرسمس کے دن انہیں کوئی شکایت نہ ہو۔ وہ کبھی کبھی بچے کو اٹھاتا لیکن جلد ہی اسے نینا کی گود میں دے دیتا۔ وہ اتنا نازک اور ننھا منا تھا کہ وہ اسے گود میں لیتے ہوئے گھبراتا تھا۔
نیا سال آگیا تھا۔ بچہ اس دوران کئی مرتبہ بیمار ہوا۔ اس کا وزن بھی کچھ بڑھ گیا تھا۔ نینا بچے کا گہوارہ پہلے اپنے کمرے میں رکھتی تھی لیکن جب سے وہ بہتر ہونا شروع ہوا تھا، اس نے اسے نرسری میں سلانا شروع کردیا تھا جو اس کے کمرے کے ساتھ تھی، جسے اس نے بڑے چائو سے سجایا تھا۔
وہ صبح اٹھی تو دن چڑھ آیا تھا۔ سردی کی شدت ویسی ہی تھی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ آٹھ بج چکے تھے۔ بچے کی فیڈ کا وقت نکل گیا تھا۔
وہ لپک کر بستر سے نکلی، بچے کے کمرے کی طرف دوڑی۔ اس کی لمبی پلکیں اس کے زرد رخساروں پر سایہ ڈال رہی تھیں۔ ناک کے ایک طرف نیلی سی رگ ابھری ہوئی تھی۔ بچے نے اپنے بازو سر کی طرف اٹھا رکھے تھے۔ اس کی ہتھیلیاں کھلی ہوئی تھیں، وہ سانس نہیں لے رہا تھا۔
نینا کا ہسٹریائی انداز میں چیخنا، بچے کو گود میں لے کر ننگے پائوں برف پر دوڑتے ہوئے آفس پہنچنا۔ ایرچ، کلائیڈ اور مارک کا وہاں موجود ہونا، ڈاکٹر کا کہنا۔ ’’یہ بچہ بہت بیمار تھا مسزایرچ! اس کا اتنے دن زندہ رہنا بھی شاید آپ کی محبت اور ممتا کی وجہ سے ممکن ہوا۔‘‘
اسے یہ سب کچھ کیسے بھول سکتا تھا۔ اس کا بچہ، اس کے دل کا ٹکڑا اچانک اس سے ہمیشہ کے لئے چھن گیا تھا۔ ایرچ بھی بہت پریشان تھا، دونوں بچیاں بھی باربار اس سے پوچھتی تھیں کہ ان کا ننھا بھائی جنت میں اتنی جلد کیوں چلا گیا۔ کچھ روز مارک، ایملی اور کچھ دوست تعزیت کے لئے آتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آنے لگی۔
ایرچ اپنی اگلی نمائش کے لئے پینٹنگ تیار کرنے لگا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اس مرتبہ نینا اور دونوں بچیوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائے گا تاکہ تبدیلی سے ان کا ذہن اس ناگوار غم کو ہلکا کرسکے۔ ایرچ اب پھر اس پر توجہ دینے لگا تھا۔ وہ اس کو تسلی دیتا۔ ’’نینا…! تمہیں معلوم ہے نا ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟ بچہ بہت بیمار تھا، اس کا زندہ رہنا مشکل تھا، تم خود کو سمجھائو، اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ جلد یا بدیر اسے جانا تھا۔‘‘
’’ایرچ!‘‘ آخر نینا نے وہ کہہ دیا جو اس کے دل میں تھا۔ ’’میں کچھ عرصے کے لئے یہاں سے دور جانا چاہتی ہوں۔ میرا یہاں دل نہیں لگتا۔ میں بچیوں کو اپنے ساتھ لے جائوں گی۔‘‘
’’نہیں…! یہ نہیں ہوسکتا۔ تم بہت پریشان ہو، تمہیں تنہا نہیں رہنا چاہئے، کوئی تمہارا خیال رکھنے والا ہونا چاہئے۔ بچیاں اب قانونی طور پر اتنی ہی میری ہیں جتنی تمہاری!‘‘
’’مگر میں ان کی حقیقی ماں ہوں۔‘‘
’’لیکن عدالت کی نظر میں مجھے بھی ان پر اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا تمہیں…! اگر تم نے مجھے چھوڑ کر جانے کی کوشش کی تو میں عدالت کے ذریعے بچیوں کو حاصل کرلوں گا۔‘‘
’’ تم کیسی باتیں کررہے ہو؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو اور میں جانتا ہوں کہ تم بچیوں کے بغیر نہیں رہ سکتیں، اس لئے میرے ساتھ رہنے پر مجبور ہوگی۔ ہم نئی زندگی شروع کریں گے۔ ان تلخ یادوں کو بھول جائو، میں بھی کبھی ان کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ تم وعدہ کرو کہ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائو گی؟‘‘
لیکن نینا کے دل میں سما گیا تھا کہ اسے یہاں سے نکلنا ہوگا۔ ورنہ حالات اسے پاگل کردیں گے۔ مگر وہ یہ سب کس طرح کرے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا
تھا۔ اس کے پاس پیسہ نہیں تھا کہ وہ ٹکٹ خرید سکے۔ ایرچ سے کوئی رقم مانگنا ممکن نہیں تھا۔ اس نے اپنی ایک گہری دوست فیرن کو فون کیا۔ ایک عرصے بعد اس سے بات ہورہی تھی کیونکہ ایرچ اس کا دوستوں سے رابطہ کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔
وہ اس کی آواز سن کر نہال ہوگئی۔ ’’اوہ… نینا! تم کہاں تھیں…؟ نہ تم کوئی فون سنتی ہو، نہ خط کا جواب دیتی ہو۔‘‘
’’فیرن…! میری بات سنو…! مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ جتنی جلد ہوسکتا تھا، نینا نے اسے اپنے حالات سے آگاہ کیا اور بولی۔ ’’میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں۔ ہر حال میں…!‘‘
فیرن کی ہنسی دم توڑ گئی۔ ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے بُرے حالات میں ہو۔ میں اس وقت ڈیوٹی پر جارہی ہوں، پھر فون کروں گی۔‘‘
لیکن وقت میں فرق ہونے کی وجہ سے جب اس کا فون آیا تو ایرچ اس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اسے ریسیور دیتے ہوئے اس نے ابرو اچکائے۔ فیرن کی آواز پرجوش تھی۔ ’’نینا…! میں نے زبردست پروگرام بنایا ہے۔ تم سنو گی تو…!‘‘
نینا نے اس کی بات کاٹی۔ ’’فیرن…! بہت اچھا لگا ہے اتنے عرصے بعد تمہاری آواز سن کر! ایرچ میرے پاس بیٹھے ہیں… ان سے بھی ہیلو ہائے کرلو۔‘‘ نینا نے ریسیور اس کی طرف بڑھایا۔ فیرن نے مختصر بات کرکے فون رکھ دیا۔
نینا نے اگلے روز فیرن کو پھر فون کیا۔ اس نے بتایا کہ ایک مقامی اسکول میں اس کے لئے ایک ملازمت تلاش کرلی ہے۔ جب تک وہ آئے گی، وہ اس کے لئے کوئی چھوٹا سا اپارٹمنٹ بھی تلاش کرلے گی۔ نینا اب اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی تھی۔
ایرچ اپنی تصویروں کی نمائش کی تیاری کررہا تھا۔ وہ اپنی نئی تصویریں کاٹیج سے گھر لے آیا تھا تاکہ انہیں پہلے روانہ کرسکے۔ نینا نے ڈرتے ڈرتے ایرچ سے گاڑی کی چابی مانگی تو اس نے بغیر کسی پس و پیش کے دے دی۔ دوپہر کو بچیاں سو گئیں تو نینا ایک جیولر کی دکان پر گئی جس سے اس نے پہلے بات کرلی تھی۔ اس نے اپنی دادی کا لاکٹ اس کے پاس فروخت کردیا۔ اگرچہ اسے مناسب رقم نہیں ملی تھی لیکن یہ رقم اتنی تھی کہ وہ ٹکٹ خرید سکتی تھی۔
اس نے ایرچ کے کریڈٹ کارڈ سے اپنے لئے کچھ ذاتی چیزیں خریدیں تاکہ ایرچ کو کوئی شک نہ ہو۔ وہ گھر واپس آئی تو بچیاں ابھی سو رہی تھیں۔ ایرچ گھر پر نہیں تھا۔ نینا نے رقم کو اپنے بیگ کے اندرونی خانے میں محفوظ کیا اور ان چیزوں کی لسٹ بنانے لگی جو اسے اپنے ساتھ لے جانی تھیں تاکہ وہاں جاکر اسے کسی مسئلے کا سامنا نہ ہو۔
اگلے دن ایرچ نے انہیں بتایا کہ وہ دوپہر کو نمائش کے لئے روانہ ہوں گے۔ اس لئے وہ ضروری چیزیں رکھ لے۔ نینا نے ایرچ سے پوچھا کہ وہاں کا موسم کیسا ہوگا تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے اور بچوں کے کپڑے ساتھ لے جائے۔ ایرچ نے اسے موسم کے بارے میں بتایا اور معنی خیز لہجے میں کہا۔ ’’تم سبز اسکرٹ اور بلائوز کے ساتھ وہ لاکٹ پہننا جو تمہاری دادی نے تمہیں دیا تھا۔‘‘
نینا چونکی لیکن سنبھل کر فطری انداز میں بولی۔ ’’ہاں ضرور…!‘‘
سب کچھ تیار تھا۔ بچیاں اپنے نیلے ویلوٹ کے کوٹ اور پنک ہیٹ پہنے بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ نینا دل ہی دل میں منصوبہ بنا رہی تھی کہ وہ اب پلٹ کر یہاں نہیں آئے گی، وہیں سے اپنے شہر جانے کی کوشش کرے گی۔ وہ ابھی اپنی جیکٹ پہن رہی تھی کہ ایرچ نے کمرے میں جھانکا۔ ’’کار میں سامان رکھ لیا ہے، جلدی کرو۔‘‘ پھر بچیوں سے بولا۔ ’’تم میرے ساتھ آئو، ممی بھی ہمارے پیچھے آتی ہیں۔ ہم گاڑی میں جاکر بیٹھتے ہیں۔‘‘
نینا نے جلدی جلدی جائزہ لیا کہ اس نے ہر چیز رکھ لی ہے اور پھر ان کے پیچھے لپکی لیکن پورچ میں ایرچ کی گاڑی نہیں تھی۔ وہ انتظار کرنے لگی کہ شاید وہ کسی کام سے گیا ہو لیکن دس منٹ سے اوپر ہوگئے، گاڑی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔
نینا نے اسے فون کیا لیکن اس کا فون بند تھا۔ اس نے آفس فون کیا تو کلائیڈ نے بتایا کہ ایرچ جا چکا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بھی گاڑی میں ہے۔ وہ یہ سن کر حیران ہوا تھا کہ وہ اسے ساتھ نہیں لے کر گیا تھا۔
نینا کے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ یہ کیا ہوا تھا۔ ایرچ بچیوں کو اپنے ساتھ لے گیا تھا، سارا سامان بھی اس کے ساتھ تھا اور وہ بیگ بھی جس میں نینا نے رقم چھپائی تھی۔ وہ کیا کرنا چاہتا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ نینا نے جلدی جلدی ہوٹل کا نمبر ملایا جسے ایرچ نے بک کروایا تھا اور کلرک کو پیغام دیا۔ ’’جب مسٹر
ایرچ یہاں پہنچیں تو انہیں یہ پیغام دے دیں کہ وہ اپنی بیوی سے بات کرلیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ بکنگ تو ایک ہفتہ ہوا کینسل کردی گئی تھی۔‘‘
’’اوہ خدایا…!‘‘ یہ ایرچ کیا چاہتا تھا۔ وہ بچیوں کو اپنے ساتھ کیوں لے گیا تھا؟ یہ سوچ کر نینا کا دل بیٹھا جارہا تھا مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
اس وقت ایلسا کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’مسز ایرچ! گڈ بائے۔‘‘
’’گڈ بائے ایلسا!‘‘ نینا نے بے دلی سے کہا۔
ایلسا روز کی طرح گئی نہیں اور چند قدم قریب آکر بولی۔ ’’مسز ایرچ! میں معذرت چاہتی ہوں کہ میں آپ کو چھوڑ کر جارہی ہوں۔‘‘
’’چھوڑ کر جارہی ہو… کیا مطلب؟‘‘ نینا نے چونک کر کہا۔
’’مسٹر ایرچ نے کہا تھا کہ وہ اور بچیاں شہر سے باہر جارہے ہیں اس لئے میں کچھ روز نہ آئوں۔ جب وہ آجائیں گے تو مجھے اطلاع دے دیں گے۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’مسٹر ایرچ نے تم سے یہ کب کہا تھا؟‘‘
’’آج صبح جب وہ جانے کی تیاری کررہے تھے۔‘‘ ایلسا بولی۔
ایلسا کے جانے کے بعد نینا جیسے انتظار کی سولی پر لٹک گئی۔ اسے یقین تھا کہ ایرچ فون ضرور کرے گا، مگر کب کرے گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انتظار تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا، گھڑی کی سوئیاں جیسے ٹھہر گئی تھیں، وقت گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایک ایک لمحہ اس کے دل پر قیامت ڈھاتا بڑی اذیت سے گزر رہا تھا۔ وہ بچیوں کوکہاں لے گیا تھا؟ اس سوال نے اسے پاگل کردیا تھا لیکن جب تک اس کا فون نہیں آجاتا، وہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتی تھی۔
کمرے میں تاریکی پھیلتی جارہی تھی۔ وہ لائٹ جلانا چاہتی تھی لیکن ہمت یوں ٹوٹ گئی تھی جیسے یہ کوئی بہت مشکل کام ہو۔ پھر چاند نکل آیا اور لیس کے پردوں سے اس کا عکس دیوار پر پڑنے لگا جیسے مکڑی کا جالا ہو۔ آخر نینا اٹھی، بوجھل قدموں سے کچن میں پہنچی۔ سارا گھر سائیں سائیں کررہا تھا، ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔ دل میں ایک خوف سا اتر رہا تھا۔ کسی انجانے حادثے کا اندیشہ سر پر سوار تھا۔
نینا نے کافی بنائی اور آکر فون کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کی آخری امید بس یہی فون تھا جو اسے زندگی کی نوید دے سکتا تھا، ورنہ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ زندہ ہے اور نہ مردہ…!
کہیں نو بجے جاکر فون کی گھنٹی بجی۔ نینا کا دل جیسے چلتے چلتے رک گیا۔ اس نے بمشکل فون اٹھایا۔ اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا، اس کا حلق خشک تھا۔ اس کے ہونٹوں سے ’’ہیلو‘‘ یوں نکلا جیسے سرگوشی ہو۔
پھر روتھ کی آواز سنائی دی۔ یوں جیسے بہت دور سے آرہی ہو۔ ’’ممی…! آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں آئیں…؟ آپ نے تو وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’روتھ! تم کہاں ہو؟‘‘ نینا نے تڑپ کے سوال کیا۔
پھر یوں لگا جیسے ریسیور اس کے ہاتھ سے لے لیا گیا ہے۔ روتھ کے احتجاج کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ’’مجھے ممی سے بات کرنی ہے… میں نے ممی سے بات کرنی ہے۔‘‘
پھر تانیہ بولی۔ ’’ممی…! ابھی ہم جہاز میں نہیں بیٹھے، آپ نے کہا تھا کہ ہم جہاز میں جائیں گے۔‘‘
’’تانیہ…! تم لوگ کہاں ہو، مجھے بتائو…؟‘‘ نینا کی آواز بھرا گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔
’’ہیلو ڈارلنگ…!‘‘ یہ ایرچ کی آواز تھی۔ اس کے پیچھے تانیہ اور روتھ کے رونے اور ضد کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
’’ایرچ! تم کہاں ہو…؟ تم ایسا کیوں کررہے ہو؟‘‘
’’میں کچھ نہیں کررہا… میں نے تو تمہیں محبت دی ہے، تمہاری بچیوں کو باپ کا پیار دیا ہے، تمہیں اس غربت بھری زندگی سے نکال کر عیش و آرام دیا ہے۔ میں نے دنیا کی ہر نعمت تمہارے قدموں میں ڈھیر کردی ہے لیکن تم پھر بھی مجھے چھوڑنا چاہتی ہو، میری بچیوں کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو۔‘‘
’’نہیں ایرچ…! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بچیوں کو واپس لے کر آئو میرے پاس!‘‘ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں۔ بس تم یوں کرو کہ جلدی سے کاغذ، قلم لے کر آئو۔ جو میں لکھواتا ہوں، لکھو، میں ہولڈ کرتا ہوں۔‘‘
نینا بری طرح پریشان ہوئی۔ بچیوں کے رونے کی آوازیں اب بھی آرہی تھیں۔ کچھ ٹریفک کا شور بھی تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ کسی ٹیلیفون بوتھ سے بات کررہا تھا۔ نینا نے دہائی دی۔ ’’اوہ ایرچ…! بتائو تم کہاں ہو؟‘‘
’’میں کہہ رہا ہوں کہ جلدی سے کاغذ، قلم لے کر آئو۔ جو میں کہتا ہوں، لکھو، جلدی کرو جلدی!‘‘ وہ اپنی بات پر زور دے کر


بولا۔ نینا کو مجبوراً کاغذ، قلم لانا پڑا۔ اس کی بچیاں ایرچ کے پاس تھیں۔ اس وقت وہ جو بھی کہتا، اسے کرنا تھا۔ وہ دوڑ کر کاغذ، قلم لے آئی۔ ’’ایرچ! بولو میں لکھنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’یہ خط تم نے مجھے لکھنا ہے۔ لکھو ڈیئر ایرچ!‘‘
نینا لکھنے لگی۔ وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا تاکہ وہ آسانی سے لکھ سکے۔
’’ایرچ…! میں جانتی ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ میں سوتے میں اکثر چلتی ہوں۔ مجھ سے بہت سے خوفناک کام ہوئے ہیں جو مجھے یاد نہیں۔ میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں کیون کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ دراصل میں نے ہی اس کو یہاں بلایا تھا تاکہ میں اسے تنبیہ کروں کہ وہ میرا پیچھا نہ کرے، مجھے مشکل میں نہ ڈالے، میرا گھر خراب نہ کرے۔ میں اسے اتنی زور سے نہیں مارنا چاہتی تھی۔‘‘
نینا حیران تھی کہ وہ یہ سب کیا لکھوا رہا ہے۔ اس نے ذرا دبے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’ایرچ…! میں یہ لکھنا نہیں چاہتی، یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘
’’درمیان میں مت بولو، میری بات سنو۔‘‘ اس نے ٹوکا اور تیزی سے بولنے لگا۔ ’’جوئی پر گھوڑے نے جو حملہ کیا تھا، میں نے گھوڑے کے چارے میں زہر ڈالا تھا، کیونکہ میں جوئی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اسے پتا چل چکا تھا کہ میں کیون کے ساتھ رات کو باہر گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ تم بچے کو قبول کرلو گے لیکن تم جانتے تھے کہ وہ تمہارا نہیں… میں نے اس کو مار دیا کیونکہ اس بچے کی وجہ سے ہمارے درمیان فاصلے پیدا ہورہے تھے اور…!‘‘
قلم نینا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے زور سے کہا۔ ’’نہیں… نہیں… ہرگز نہیں!‘‘
’’نینا…! یاد رکھو۔ جب تم اس پر دستخط کردو گی تو میں واپس آجائوں گا۔ میں اس خط کو سیف میں بند کردوں گا۔ یہ بات صرف میرے اور تمہارے درمیان رہے گی۔‘‘
’’ایرچ! یہ غلط ہے… یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ نینا نے احتجاج کیا۔
’’میں مہینوں بلکہ سالوں واپس نہیں آئوں گا۔ جب تک کہ تم اس پر دستخط نہیں کردیتیں۔ میں ایک یا دو ہفتے تک تمہیں فون کروں گا۔ تم اس بارے میں اچھی طرح سوچ لو۔‘‘
’’نہیں…! میں یہ نہیں کرسکتی۔ یہ جھوٹ ہے، یہ غلط ہے۔‘‘
’’نینا…! میں جانتا ہوں کہ تم نے کیا کچھ کیا ہے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا، نہ ہی میں بچیوں سے جدا ہونا چاہتا ہوں۔ میں اپنی محبت کو دائو پر نہیں لگا سکتا۔ تمہیں یہ سب کرنا ہوگا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔
نینا نے ہراساں نظروں سے فون کی طرف دیکھا۔ جو خاموش ہوچکا تھا۔ پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ کی طرف دیکھا۔ جس پر ایرچ نے نہ جانے کیا کچھ لکھوادیا تھا۔ جو اس کے اپنے ذہن کی اختراع تھی۔ جس کے بارے میں وہ جانتی تک نہیں تھی۔
نینا نے سر پکڑ لیا اور بے چارگی سے بڑبڑائی۔ ’’اوہ خدایا! میری مدد کر… میں کچھ نہیں جانتی، میں کیا کروں… اپنی بچیوں کو کیسے حاصل کروں جوایرچ نے یرغمال بنا لی ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
جب وہ اپنے حواسوں میں آئی اور کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تو اس نے سب سے پہلے فیرن کو فون کیا کیونکہ وہ اس سے کہہ چکی تھی کہ وہ اسی ہفتے آرہی ہے۔
’’میں فی الحال نہیں آسکتی فیرن!‘‘ وہ اپنے لہجے کو نارمل بناتے ہوئے بولی، ورنہ اپنی پرانی دوست کی آواز سن کر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو۔
’’کیوں نینا…! خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہاں! سب ٹھیک ہے۔ دراصل بچیاں ایرچ کے ساتھ شہر سے باہر گئی ہیں۔ وہ آجائیں تو پھر میں تمہیں اطلاع دوں گی۔‘‘
’’نینا…! اگر تم پسند کرو تو میں تمہارے پاس کچھ دنوں کے لئے آجائوں؟ میری چار چھٹیاں ہیں، کچھ میں اور لے لوں گی۔‘‘
’’نہیں فیرن…! فی الحال نہیں۔‘‘ نینا نے کہا۔ وہ جانتی تھی کہ ایرچ اسے پسند نہیں کرتا۔ ’’تم خود فون بھی نہ کرنا بس میرے لئے دعا کرو۔‘‘
نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسے کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ گھر سائیں سائیں کررہا تھا، سارے کمرے خالی تھے، ویران اور سنسان تھے۔ جہاں روتھ اور تانیہ کی ہنسی گونجتی تھی، ننھے بچے کے رونے کی آواز اسے اپنی جانب متوجہ رکھتی تھی، لیکن اب کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کا دل کسی بیڈ روم میں جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ وہیں لائونج میں آتشدان کے پاس صوفے پر لیٹ گئی۔
کبھی وہ اونگھنے لگتی اور کبھی ایک جھٹکے سے جاگ جاتی۔ اس کی گود خالی تھی، اس کی بچیاں اس سے چھن گئی تھیں۔ وہ لٹی ہوئی
تھی۔ وہ ایرچ کا عجیب و غریب مطالبہ پورا نہیں کرسکتی تھی۔ وہ تمام جھوٹ کس طرح اپنے سر لے سکتی تھی۔ وقت بڑی پریشانی میں گزر رہا تھا۔ باربار اس کی نگاہ فون کی طرف جاتی تھی لیکن کوئی گھنٹی نہیں بجتی تھی۔
نینا کو یقین تھا کہ وہ بچیوں کو زیادہ دن نہیں سنبھال سکے گا بالآخر اسے لوٹنا ہی پڑے گا۔ مگر کب، اسے کچھ پتا نہیں تھا اور انتظار کی گھڑیاں تھیں کہ بڑھتی ہی جاتی تھیں۔
بالآخر تیسرے دن فون آیا۔ نینا نے لپک کر ریسیور اٹھایا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ اس نے بیتابی سے کہا۔ ’’ہیلو!‘‘
’’نینا…!‘‘ اس کی آواز میں تنگ کرکے لطف لینے کی کیفیت تھی۔
’’ایرچ… ایرچ…! تم کہاں ہو؟‘‘ وہ روہانسی ہورہی تھی۔ ’’تانیہ اور روتھ کیسی ہیں؟ وہ میرے بغیر پریشان ہوں گی
ایرچ…! کچھ خیال کرو۔‘‘
’’وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ خواہ مخواہ شور نہ مچائو اور وہ خط مجھے پڑھ کر سنائو جو اس دن میں نے لکھوایا تھا۔‘‘ اس کے لہجے میں تحکم تھا۔
’’ایرچ…! تم آجائو، بچیوں کو لے آئو… ہم آپس میں بیٹھ کر بات کرلیں گے۔‘‘
’’تم نے وہ خط ابھی تک نہیں لکھا؟‘‘ وہ درشتی سے بولا۔
’’ایرچ…! تم یہ سب کیوں کررہے ہو؟ میں غلط باتیں کس طرح لکھ سکتی ہوں۔‘‘ رابطہ ٹوٹ گیا۔ اس نے فون بند کردیا۔ نینا ریسیور ہاتھ میں لئے دیکھتی رہ گئی۔
وہ بے حد پریشان تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایرچ پر کوئی جنون سوار ہے۔ وہ اس کی کوئی بات سننے پر تیار نہیں تھا اور بچیاں اس نے جیسے یرغمال بنا رکھی تھیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد اسے یہی حل نظر آیا کہ کسی سے بات کرے۔ یہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس سے ہمدردی کرتا۔ صرف مارک کا نام اس کے ذہن میں آیا۔ وہ ایک معقول انسان تھا، ایرچ کا دوست بھی تھا۔ وہ اس کو قائل کرسکتا تھا، اسے سمجھا سکتا تھا۔
اس نے ڈائری سے دیکھ کر مارک کا نمبر ملایا۔ اس نے پہلی گھنٹی پر ہی فون اٹھا لیا۔ اس کی ملائم آواز سنائی دی۔ ’’نینا…! تم کہاں ہو؟‘‘
نہ جانے اس کی آواز میں ایسا کیا تھا کہ نینا کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اس نے بمشکل خود پر قابو پا کر کہا۔ ’’مارک… مارک! مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ تمہیں کوئی یہاں آتے ہوئے دیکھے۔‘‘
’’اوہ … نینا! کیا تم ایرچ کے ساتھ نہیں گئیں؟‘‘ اس نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’وہ مجھے لے کر نہیں گیا۔ بچیاں اس کے ساتھ ہیں، اسی مسئلے پر مجھے بات کرنی ہے۔‘‘
نینا نے گھر کی کچھ بتیاں جلا دیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ وہ گھر سے باہر ہے۔ مارک اپنی گاڑی میں اسے گھر لے گیا۔ اس سے بات کرکے نینا کو کافی تسلی ہوئی۔ مارک نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ایک وکیل دوست سے بات کرے گا اور مناسب موقع دیکھ کر ایرچ کو بھی سمجھانے کی کوشش کرے گا۔ نینا کو حوصلہ ملا کہ کوئی تو اس کے ساتھ ہے۔
گھر آکر وہ بہت دیر تک جاگتی رہی۔ دل ہی دل میں وہ بہت سے منصوبے بناتی اور بگاڑتی رہی لیکن اس مسئلے کا کوئی حل اس کے ذہن میں نہیں آیا لیکن صبح اٹھتے ہی پہلی بات جو اس کے دماغ میں آئی، وہ یہ تھی کہ اسے اس وسیع فارم میں ایرچ کا کاٹیج تلاش کرنا چاہئے۔ ایرچ نے کبھی اسے کاٹیج دکھانے کا عندیہ نہیں دیا تھا بلکہ اسے یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی اس کی تنہائی میں مخل ہو جہاں وہ شاہکار تصویریں تخلیق کرتا تھا۔
وہ ایرچ کے ساتھ اسکائی اِنگ کرتے ہوئے سارا فارم گھومی تھی لیکن وہ اسے لے کر جنگل کی طرف نہیں گیا جہاں اس کا کاٹیج تھا۔ نینا نے وہاں سے اپنی تلاش شروع کی جہاں سے ایرچ جنگل میں داخل ہوتا تھا اور اس کے بعد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا تھا۔ وہ درختوں کی شاخیں ہٹاتی، اونچی نیچی ڈھلانوں پر دیر تک کاٹیج کو تلاش کرتی رہی لیکن لاحاصل…! آخر تھک کر وہ پلٹنے کو تھی کہ اسے کاٹیج کا ہیولا نظر آیا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ وہ جیسے جیسے نزدیک آتا جارہا تھا، اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ایرچ بچیوں کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ قریب آکر اسے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی پرانا گھر ہے، جہاں کبھی ایرچ کا خاندان رہتا تھا۔ کاٹیج رنگ وروغن سے محروم تھا۔ جگہ جگہ دیواروں پر کائی جمی ہوئی تھی، دروازہ لاک تھا۔
نینا نے ایک بڑے پتھر سے کھڑکی کا شیشہ توڑا۔ یہاں تک کہ اتنی جگہ بن گئی کہ وہ آسانی سے اندر
جاسکتی تھی۔ اندر خون جما دینے والی سردی تھی۔ اندر نیم تاریکی کا راج تھا۔ نینا نے کھڑکیاں کھولیں اور پردہ پیچھے ہٹایا تو گردوپیش کا کچھ حصہ نظر آنے لگا۔
خلاف توقع یہ ایک گندا کمرہ تھا۔ لگتا تھا جس کی صفائی ایک عرصے سے نہیں ہوئی۔ فرش پر ایک پرانا قالین بچھا ہوا تھا، ایک کونے میں اسٹو رکھا تھا اس کے علاوہ یہاں بہت سی تصویریں تھیں جو ایک ریک میں رکھی ہوئی تھیں۔ نینا انہیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ ان کے ایک کونے پر کوئی نام لکھا ہے۔ اس نے ایک کینویس اٹھا کر غور سے دیکھا۔ اسے حیرت ہوئی۔ وہ نام کیرولین تھا اور ہر تصویر پر کیرولین کے دستخط تھے۔
تمام تصویریں بہترین تھیں، حالانکہ ایرچ کہتا تھا کہ اس کی ماں صرف معمولی سے اسکیچ بناتی تھی۔ اس نے پھر تصویروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ یہ وہ تصویریں تھیں جو ایرچ نمائش میں رکھتا رہا تھا۔ اسے ایک ایک تصویر یاد تھی۔ تو گویا ایرچ اپنی ماں کی تصویروں کی نقل کرتا ہے۔ کچھ تصویریں فریم کی ہوئی پڑی تھیں جنہیں وہ نمائش کے لئے تیار کررہا تھا لیکن وہ تصویریں ایسی تھیں جن پر صرف اس نے اپنی ماں کے دستخط مٹا کر اپنے دستخط کردیئے تھے۔ اوہ خدایا…! نینا سٹپٹائی۔ وہ جو ایرچ کو ایک بڑا آرٹسٹ سمجھتی تھی، اس کی حقیقت اب سامنے آئی تھی۔
تو پھر اتنے دن وہ یہاں کیا کرتا تھا؟ نینا نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس کی نگاہ سیڑھیوں پر پڑی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی۔ یہاں ایزل، رنگ وغیرہ پڑے ہوئے تھے۔ فرش اور دیواروں پر رنگ کے چھینٹے تھے۔ نینا نے آگے بڑھ کر ایزل پر پڑا ہوا کپڑا ہٹایا تو وہ ٹھٹھک گئی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہے۔
اس کی اپنی تصویر اتنی حقیقت سے قریب تھی کہ وہ اسے غور سے دیکھنے لگی۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ یہ ایرچ نے کیا بنایا تھا، کیا ظاہر کیا تھا…؟ اس کے چہرے پر غم کے گہرے تاثرات تھے۔ وہ تصویر میں سکتے کی سی حالت میں جس طرف دیکھ رہی تھی، وہاں زمین پر روتھ اور تانیہ زمین پر پڑی تھیں۔ ان کی آنکھیں ابلی ہوئی تھیں، زبانیں باہر لٹکی ہوئی تھیں اور ان کی گردنوں کے گرد ان کے نیلے کوٹوں کی بیلٹ کسی ہوئی تھی۔
نینا کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے ریک میں پڑے ہوئے کینویس جلدی جلدی الٹ پلٹ کر دیکھے اس کے سارے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ہر تصویر میںایسا منظر تھا کہ نینا کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کے کوٹ کو پہنے ہوئے کوئی ایسا انسان جو ہر جگہ نظر آتا تھا۔ کہیں بچے کے جھولے پر جھکا ہوا، کہیں کیون پر وار کررہا تھا، کہیں دور کھڑا گھوڑے کو دیکھ رہا ہے۔ اف…! یہ سب کیا تھا؟ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بلند آواز میں رونے لگی۔ اوہ…! ایرچ کا یہ روپ…! وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باربار تصویروں کو دیکھ رہی تھی۔ پھر جیسے وہ ہوش میں آگئی۔ اس نے سارے کینویس اکٹھا کئے، انہیں بغل میں دبایا اور کاٹیج سے باہر نکل آئی۔
٭…٭…٭
وہ تیزی سے آفس تک پہنچی اور دیوانوں کی طرح دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ فوراً ہی دروازہ کھل گیا۔ اسے مارک کا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ مارک نے اسے کہا۔ ’’نینا…! تم کہاں تھیں؟‘‘
’’میں… میں! اپنی بیگناہی کے ثبوت لے کر آئی ہوں۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولی اور اس نے سارے کینویس میز پر رکھ دیئے۔ ’’یہ دیکھو… یہ دیکھو! ایرچ نے یہ سب تصویریں بنائی ہیں۔ میرا کوٹ پہن کر، میرے بالوں میں ایسی وگ لگا کر اس نے وہ سب جرائم کئے جس کے لئے مجھے مجرم ٹھہرایا جارہا تھا۔‘‘
اس نے حیرت سے دیکھا۔ وہاں شیرف اور کلائیڈ بھی موجود تھے۔ وہ سب کینویس پلٹ پلٹ کر ہر تصویر کو غور سے دیکھ رہے تھے۔
’’اوہ… آئرین…!‘‘ کلائیڈ کے منہ سے جیسے ایک فریاد سی نکلی۔
’’آئرین… آئرین…! کہاں ہے آئرین؟‘‘ اچانک رونیکا تیزی سے میز کے قریب پہنچی۔ وہ نہ جانے کب آفس میں آگئی تھی۔
کلائیڈ نے اس کا بازو تھام لیا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی، جس میں ایرچ اس کی بیٹی کا گلا گھونٹ رہا تھا۔
’’اوہ… میرے خدا…!‘‘ مارک نے پریشانی سے سر جھٹکا۔ ’’یہ ایرچ تھا جس نے کیرولین کو دھکا دیا تھا، گیارہ سال کی عمر میں اس نے اپنی ماں کو قتل کردیا۔‘‘
’’اس


کہ وہ اسے چھوڑ کر جانا چاہتی تھی۔‘‘ رونیکا بولی۔ وہ حیرت انگیز طور پر پرسکون تھی۔
’’ڈیڈی ٹھیک کہتے تھے کہ کیرولین اپنے بیٹے کو لے کر ان کے پاس آئی تھی کہ وہ ایک نفسیاتی مریض تھا بچپن سے ہی…! وہ پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کو اذیت دے کر اور انہیں مار کر خوشی محسوس کرتا تھا۔ کیا اس کو کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہئے…؟ ڈیڈی نے اپنے دوست کا ایڈریس انہیں دیا لیکن ایرچ کے والد نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر لوگوں کو اس کے بارے میں پتا چل گیا تو وہ اسے پاگل سمجھیں گے۔ اس کے بعد کیرولین کو حادثہ پیش آگیا۔‘‘
’’تم نے جب بتایا کہ بچیاں بھی اس کے ساتھ ہیں تو میں پریشان ہوگیا۔ میں نے شیرف کو اطلاع کردی تاکہ بچیوں کو واپس لایا جائے۔‘‘
’’اوہ خدایا…!‘‘ نینا کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’مسز ایرچ! حوصلہ رکھیں۔ ہم یہاں وہ سسٹم لگا رہے ہیں جو مسٹر ایرچ کی کال آنے پر اس کا سراغ لگائے گا کہ وہ کہاں سے بات کررہے ہیں۔ اس طرح ہمیں بچیوں کو تلاش کرنے میں آسانی ہوگی۔‘‘ شیرف نے وضاحت کی۔
’’نہ جانے اس کا فون کب آئے گا… ہائے میری بچیاں…؟‘‘ نینا نے آنسو روکتے ہوئے کہا۔
’’مسز ایرچ…! آپ کوشش کریں کہ وہ زیادہ دیر بات کرے تاکہ ہمارا سسٹم اس کا درست طور پر پتا چلا سکے۔‘‘ شیرف نے کہا۔
اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ نینا اچھل پڑی۔ دوسرے بھی متوجہ ہوگئے۔ مارک نے ریسیور اٹھا کر نینا کو دیا۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا اور اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ نہ جانے اب وہ کیا کہے گا۔ نینا نے ڈرتے ڈرتے ’’ہیلو‘‘ کہا۔
وہ دھک سے رہ گئی۔ دوسری طرف روتھ تھی۔ اس کا دل امڈنے لگا۔ شکر ہے وہ ابھی تک زندہ تھی۔ اس نے خود پر قابو پا کر کہا۔ ’’ہیلو روتھ ڈارلنگ…! تم کہاں ہو میری بیٹی…؟‘‘
’’ممی…! آپ بہت گندی ہیں۔ رات آپ ہمارے کمرے میں آئی تھیں، مگر آپ نے ہم سے بات بھی نہیں کی۔ آپ نے تانیہ کو کمبل میں اتنی زور سے کیوں دبایا تھا؟ آپ بہت بری ہیں۔ تانیہ بہت روئی تھی… اس کا دم گھٹ رہا تھا۔‘‘
نینا نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کو روکا۔ اوہ خدایا…! میری بچیوں کی حفاظت کرنا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’روتھ… روتھ…! مجھے تانیہ سے بات کرنے دو میری جان…! میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔‘‘
روتھ رونے لگی۔ ’’ممی…! جلدی آئو… جلدی!‘‘
’’ممی…!‘‘ پھر تانیہ کے رونے کی آواز آئی۔ ’’ممی…! آپ نے یہ کیوں کیا… کمبل میرے منہ پر آگیا تھا۔‘‘
’’اوہ تانیہ… تانیہ! آئی ایم سوری!‘‘ نینا نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ پھر تانیہ سے فون لے لیا گیا۔ اس کے رونے کی آواز آنے لگی اور ایرچ بولا۔ ’’نینا! تم کیوں پریشان ہورہی ہو۔ لڑکیوں نے خواب دیکھا ہے… دراصل وہ تمہاری کمی محسوس کررہی ہیں، میری طرح…! تم مجھے بہت یاد آرہی ہو۔‘‘
’’ایرچ… ایرچ! پلیز بتائو تم کہاں ہو…؟ میں وعدہ کرتی ہوں میں اس بیان پر دستخط کردوں گی۔ تم جو کہو گے، کروں گی… پلیز…! واپس آجائو… میرے بچوں کو میرے پاس لے آئو، میں ان کے بغیر مر جائوں گی۔‘‘
’’تمہیں صرف اپنے بچوں کی پروا ہے۔ تم مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی تھیں… تمہاری محبت جھوٹ ہے، دکھاوا ہے۔‘‘
’’ایرچ…! پلیز گھر آجائو۔ ہمیں اس مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرنا ہوں گی۔‘‘
’’تم نے کسی کو اس بارے میں کچھ بتایا تو نہیں…؟‘‘
’’نہیں… نہیں…! مجھے کیا ضرورت ہے کسی کو بتانے کی!‘‘ نینا نے جلدی سے کہا۔
’’میں نے کل تین مرتبہ فون کیا مگر تم کہاں تھیں؟‘‘
نینا نے لمبا سانس کھینچا۔ ’’میں تھوڑی دیر کے لئے باہر گئی تھی۔ مجھے کھلی ہوا کی ضرورت تھی۔ گھر میں رہ رہ کر میرا دم گھٹنے لگا تھا۔‘‘
’’میں نے مارک کو فون کیا، وہ بھی موجود نہیں تھا۔ کیا وہ تمہارے ساتھ تھا؟‘‘
پیچھے سے تانیہ کے رونے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ روتھ باربار کہہ رہی تھی۔ ’’میں نے ممی سے بات کرنی ہے۔ پلیز… پلیز…!‘‘
نینا کا دل اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ ایرچ نے درشتی سے کہا۔ ’’یہ نہ سمجھنا کہ میں تم سے بے خبر ہوں۔ مجھے ہر بات کا علم ہے۔ میں تمہاری نگرانی کررہا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔
نینا ہونٹ چباتی رہ گئی۔ مارک اس کے قریب کھڑا تمام گفتگو سن رہا تھا۔ اس نے شیرف کو بھی اس کے بارے میں بتایا۔
شیرف نے نینا کو یقین دلایا کہ وہ جلد سراغ لگا لیں گے کہ وہ کہاں رہ رہا ہے۔
’’لیکن تم خبردار رہنا نینا…! وہ کسی بھی وقت یہاں آسکتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
دوسرے روز اس کا فون آیا۔ نینا کا ہاتھ لرز رہا تھا۔ وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ ’’ایرچ…! بچیاں کیسی ہیں؟‘‘ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
’’وہ باکل ٹھیک ہیں۔‘‘
’’پلیز…! میری ان سے بات کرائو۔‘‘ نینا نے منت کی۔
’’میں نے انہیں سلا دیا ہے اور ہاں…! رات تم بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ نینا پریشان ہوگئی۔
’’میں فارم پر آیا تھا۔ میں نے تمہیں کھڑکی سے دیکھا تھا۔ تمہیں میری موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی تو تم میری موجودگی کو محسوس کرلیتیں۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہے ہو تم ایرچ…! تمہیں اندر آنا چاہئے تھا۔‘‘
’’نہیں…! میں صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ تم گھر پر ہی ہو، کہیں چلی تو نہیں گئیں۔ تم جانا چاہتی ہو نا…؟‘‘
’’نہیں… نہیں…! میں تمہارا انتظار کروں گی ہمیشہ…! عمر بھر…! پلیز جلدی آجائو۔‘‘
اچانک اس کی آواز بدل گئی۔ اونچی اور غیر انسانی آواز! ’’تم جھوٹ بولتی ہو۔ تم مارک سے محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہو۔ تم ایک بری عورت ہو۔ تم کیرولین جیسی نہیں ہو… نہیں ہو۔‘‘ فون بند ہوگیا۔
اس فون نے نینا کو سخت پریشان کردیا تھا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ شیرف کے عملے نے اس جگہ کا پتا چلا لیا تھا جہاں سے ایرچ فون کرتا تھا۔ وہ پبلک کال آفس سے فون کرتا تھا، اس لئے اس کی رہائش کا پتا نہیں چلایا جاسکا تھا۔ لیکن پولیس کو امید تھی کہ وہ جلد اس تک پہنچ جائے گی۔ شیرف بچیوں کی گمشدگی کا اشتہار ٹی وی اور اخبارات میں دینا چاہتا تھا لیکن نینا نے انہیں منع کردیا کہ یہ بات ایرچ کو غصہ دلا سکتی ہے۔ وہ بچیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دوپہر کو گہرے بادل چھا گئے، ہواچلنے لگی، جس کی آواز دل میں خوف جگاتی تھی، لیکن اس ہوا کی وجہ سے بادل اڑ گئے اور اچانک سورج نکل گیا جس سے روشنی اور حرارت پھیل گئی۔ روشوں پر پڑی ہوئی برف چمکنے لی۔ نینا ایک کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ کبھی جنگل کی طرف دیکھتی، کبھی سڑک کی جانب جو دریا کی طرف جاتی تھی۔ کبھی پورچ کی طرف…! کبھی لان کی طرف کہ کہیں ایرچ آتو نہیں گیا۔
دور کھیتوں میں کام کرنے والے کارکن گھروں کو واپس جارہے تھے۔ سورج غروب ہونے جارہا تھا۔ افق پر مختلف رنگ ہر طرف بکھر رہے تھے۔
باہر کا منظر اتنا حسین تھا کہ نینا خود کو روک نہ سکی۔ اس نے شال کندھوں پر ڈالی اور باہر خنک ہوا میں نکل گئی۔ اسی وقت اچانک جنگل میں ایک غیر انسانی رونگٹے کھڑے کردینے والی چیخ گونجی۔ نینا کانپ گئی۔ اس نے غیر ارادی طور پر پلٹ کر جنگل کی طرف دیکھا۔
کوئی لمبا کوٹ پہنے ہوئے جنگل سے نکلا۔ اس کے ہاتھ میں رائفل تھی اور چہرے پر عجیب و غریب تاثرات…! اس نے دور سے رائفل اس کی جانب سیدھی کی جیسے نشانہ لینا چاہتا ہو۔
وہ ایرچ تھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور چہرے کے نقوش بگڑے ہوئے تھے۔ نینا جیسے ہوش میں آکر پلٹی۔ اس نے دروازے کے ہینڈل کو گھمایا مگر وہ تیز ہوا کی وجہ سے لاک ہوچکا تھا۔
اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ دائیں بائیں دوڑتی پورچ کی سیڑھیاں پوری رفتار سے اتری۔ اسے اپنے پیچھے گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ اوہ! کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ چھپ سکتی۔ وہ ہر لمحہ قریب آتا جارہا تھا۔ ’’مدد… مدد‘‘ پکارتی ہوئی نینا اندھا دھند دوڑنے لگی اور سامنے آنے والے دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہوگئی۔
وہ ڈیری تھی۔ جہاں دودھ دینے والے مویشی اپنے اپنے اسٹائل میں کھڑے اس کی طرف اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ دوڑتی چلی گئی اور دوسری جانب نکل گئی۔ وہ اس کے پیچھے تھا۔ وہ تمسخر اڑاتی، غیر انسانی ہنسی ہنس رہا تھا۔ وہ اس سے دس فٹ کے فاصلے پر رک گیا اور رائفل اس کی جانب تان کر بولا۔ ’’تم بے وفا ہو… تم بری عورت ہو… تم کیرولین جیسی نہیں ہو سکتیں۔ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ تم نے میرے کاٹج سے میری تصویریں چرائی ہیں۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ تمہیں بھی کیون کے پاس پہنچا کر دم لوں گا۔ تمہیں اس سے محبت ہے نا…؟‘‘ وہ خونی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نینا کے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا
اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ خود کو چھپا سکتی۔ ایرچ اس کا نشانہ لے رہا تھا، وہ نہیں بچ سکتی تھی۔ اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں اور ساکت ہوگئی۔
گولی چلی، کسی کے منہ سے عجیب آوازیں نکلنے لگیں۔ نینا نے یکدم آنکھیں کھول دیں۔ اوہ خدایا…! ایرچ زمین پر گرا ہوا تھا اور اس کے اردگرد خون بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر اذیت کے تاثرات تھے اور آنکھوں میں کوئی پہچان نہیں تھی۔
اور اس کے پیچھے رونیکا اپنے شوہر کلائیڈ کی شاٹ گن لئے ہوئے کھڑی تھی۔ وہ جیسے سرگوشی کے لہجے میں بولی۔ ’’میں نے آئرین کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بچیاں کہاں ہیں۔ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں…! نہ جانے وہ کس حال میں ہیں۔ نینا کے لئے ایک ایک پل صدیوں پر بھاری تھا۔ مارک نے اسے بہت سہارا دیا تھا۔ بچیوں کی گمشدگی کے اشتہارات ہر جگہ چل رہے تھے، پولیس پوری تندہی سے انہیں تلاش کرنے میں لگی ہوئی تھی۔
تیسرے دن پولیس چیف خود آیا۔ اس نے بتایا کہ بچیوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ نینا کے اندر بات کرنے کی سکت بھی نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے جارہے تھے۔ مارک نے پوچھا۔ ’’کیا وہ ٹھیک ہیں؟‘‘
نینا سانس روک کر جواب سننے لگی۔
’’ہاں…! وہ جسمانی طور پر ٹھیک ہیں مگر ذہنی طور پر بہت خوف زدہ ہیں۔ مسٹر ایرچ نے انہیں بہت ڈرایا تھا کہ اگر انہوں نے اس اپارٹمنٹ سے قدم باہر نکالا تو وہ انہیں سخت سزا دے گا لیکن جب مسٹر ایرچ کو گئے ہوئے بہت دیر ہوگئی اور گھر بہت ٹھنڈا ہوگیا تو بڑی بچی نے ہمت کرکے دروازہ کھولا۔ دونوں باہر نکلیں اور ’’ممی… ممی‘‘ پکارتی ہوئی سڑک پر دوڑ رہی تھیں کہ ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی اور انہیں حفاظت سے یہاں لایا جارہا ہے۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ نینا کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس کے دل کے ٹکڑے ایک بار پھر اس کی گود آباد کرنے آرہے تھے۔
ایرچ کی تمام جائداد اس کے نام تھی مگر نینا اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی تھی جہاں خوفناک یادوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ اس نے مارک کا ایک گھر کرائے پر لے لیا اور ایرچ کے گھر کو میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا جہاں کیرولین کی شاہکار تصویریں رکھی جائیں گی۔
اب نینا کو کسی سے ملنے میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ جب شام کو مارک کچھ وقت گزارنے کے لئے ان کے پورچ میں داخل ہوتا تو بچیاں ’’انکل… انکل‘‘ کا شور مچا کر اس کا استقبال کرنے دوڑتیں۔ نینا خود کو سوچنے سے روکتی۔ ابھی وہ کوئی نیا تجربہ نہیں کرسکتی تھی۔ (ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS