Monday, March 17, 2025

Na Bharne Wale Ghao

کم عمری میں ہی بھائی ایان کو تا یازاد حنا سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ حنالوگ اکثر ہمارے گھر آتے تھے ۔ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ وہ ہم سے کھنچی کھنچی رہتی ہے ، خاص طور پر ایان بھٹیا ہے۔ میں سوچنے لگی کیا خبر کہ وہ ان کو جیون ساتھی کی حیثیت سے پسند نہ کر رہی ہو اور بزرگوں کی وجہ سے مجبور ہو۔ جی چاہتا اس سے پوچھوں کہ تم کو میرے بھائی سے شادی پر اعتراض تو نہیں ؟ہتا ہم جب وہ سامنے آتی تو میری ہمت نہ پڑتی۔ وقت یونہی گزرتا رہا اور وہ دن بھی آپہنچا جب باقاعدہ ان کی منگنی کا اعلان کر دیا گیا۔ بھیا بھی چاہتے تھے کہ منگنی سے پہلے حنا کی مرضی پوچھ لیں لیکن بڑوں نے اس کا موقع ہی نہ دیا اور دل کی دل ہی میں رہ گئی۔ منگنی کے دو ماہ بعد والد صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ حنا اور اس کے گھر والے بھی عیادت کو آئے۔ ہم کو پریشان دیکھ وہ بھی پریشان ہو گئی۔ مجھ کو احساس ہوا کہ وہ ہم سے انسیت رکھتی ہے کہ ہماری پریشانی پر پریشان ہو گئی ہے۔ والد صاحب اسپتال سے گھر آگئے۔ بھائی ایان ، تایا جی کے گھر کم کم جاتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ کہیں حنا یہ نہ سمجھے کہ مجھے دیکھنے روز روز آ جاتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ حنا اور ان کے رشتے بیچ کوئی ہلکا پن نہ ہو۔ ہمارے خالہ زاد بھائی اسرار ، ایان کے ہم عمر تھے۔ ایان بھائی سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ ایک روز حنا ہمارے گھر آئی ہوئی تھی۔ اسرار نے اس سے مذاق کیا۔ وہ ایک سنجیدہ مزاج کی لڑکی تھی۔ اسے اسرار بھائی کا مذاق اچھا نہ لگا، اس نے نہایت سرد مہری سے ان کو جواب دیا جس پر اسرار کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔ وہ انتقامی طبیعت کے تھے۔ انہوں نے دل میں کدورت رکھ لی۔ کبھی امی سے اس کی برائیاں گنواتے تو کبھی مجھ سے کہتے کہ اس لڑکی میں کیا گن ہیں۔ میری مانو تو والد سے کہو کہ اس رشتے پر نظر ثانی کر لیں۔ خاندان میں ایک سے ایک اچھی لڑکیاں موجود ہیں۔ یہی بات اس نے دو چار بار ایان بھائی سے بھی کہی، لیکن ہم نے اُن کی باتوں پر توجہ نہ دی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ حنا کی ذراسی بات کا انہوں نے اتنا اثر لیا ہے کہ اپنے دل میں کم پال لیا ہے. ایک روز حنا ہمارے گھر آئی ہوئی تھی۔ اسرار نے اس سے مذاق کیا۔ وہ ایک سنجیدہ مزاج کی لڑکی تھی۔ اسے اسرار بھائی کا مذاق اچھا نہ لگا، اس نے نہایت سرد مہری سے ان کو جواب دیا جس پر اسرار کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔ وہ انتقامی طبیعت کے تھے۔ انہوں نے دل میں کدورت رکھ لی۔ کبھی امی سے اس کی برائیاں گنواتے تو کبھی مجھ سے کہتے کہ اس لڑکی میں کیا گن ہیں۔ میری مانو تو والد سے کہو کہ اس رشتے پر نظر ثانی کر لیں۔ خاندان میں ایک سے ایک اچھی لڑکیاں موجود ہیں۔ یہی بات اس نے دو چار بار ایان بھائی سے بھی کہی، لیکن ہم نے اُن کی باتوں پر توجہ نہ دی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ حنا کی ذراسی بات کا انہوں نے اتنا اثر لیا ہے کہ اپنے دل میں غم پال لیا ہے. ایک روز حنا آئی تو ایان بھائی اپنے کمرے میں کوئی مضمون لکھ رہے تھے۔ یہ مضمون ان کو اپنے دفتر کی کسی تقریب میں پڑھنا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ایان تم کیا لکھ رہے ہو؟ بھائی نے بتایا کہ مضمون لکھ رہاہوں۔ کہنے لگی، کیسا لکھا ہے۔ میں بھی تو دیکھوں۔ بھائی نے پرچہ میز پر رکھ دیا اور کہا کہ لود دیکھ لو۔ یہ کہہ کر وہ واش روم چلے گئے اور حنا وہاں کھڑی کھڑی مضمون پڑھنے لگی۔ تبھی اس کی امی نے آواز دی۔ اسرار قریب ہی ٹی وی لائونج میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس نے ان کی ساری گفتگو سُن لی تھی۔ وہ مضمون وہاں چھوڑ کر چلی گئی۔ بھائی واش روم سے نکلے تو تائی سے ملنے چلے آئے اور دیر تک وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ موقع دیکھ کر اسرار نے ، بھائی کے کمرے سے مضمون اُٹھالیا اور اس کی جگہ اپنی طرف سے کوئی مضمون لکھ کر وہاں سرکھ دیا۔ اتنے میں حنا کمرے میں گئی، مضمون اُٹھا کر پرس میں رکھا اور ایان بھائی سے کہا کہ میں اسے گھر پر پڑھ کر آپ کو شام میں واپس کر دوں گی۔ وہ بولے، لے جائو۔ شام کو حنانے مضمون واپس نہ کیا۔ اگلے روز ایان بھائی خود تایا کے گھر پہنچے تا کہ مضمون لے آئیں۔ ایک روز بعد انہوں نے اس تحریر کو تقریب میں پڑھنا تھا اور ابھی اس کی نوک پلک بھی درست کرنا تھی۔ وہ بڑے اعتماد سے گئے تھے کیونکہ ہر لکھنے والے کو یہی یقین ہوتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا بہت پسند کیا جائے گا۔ تاہم وہ اس سوچ میں بھی تھے کیا خبر میری تحریر میری منگیتر کو اچھی لگی کہ نہیں ؟ جو نہی ان کا حنا سے سامناہوا، وہ بجھ کر رہ گئے کیونکہ حنا کے تیور بدلے ہوئے تھے۔اس نے کچھ کہے سنے بغیر ہی مضمون کے پرزے کر کے ایان بھیا کے منہ پر دے مارے اور کہا۔ ایان ! آج تمہارا اصل روپ میرے سامنے آگیا ہے۔ تم نے اتنی بے ہودہ باتیں مجھے لکھیں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ تمہاری سوچ اتنی گھٹیا بھی ہو سکتی ہے ! آج کے بعد تم مجھ کو اپنی صورت مت دکھانا۔ بھیا کے دل سے ٹھنڈی آہ نکل گئی کہ کیا سوچ کر وہ اپنی منگیتر کے گھر گئے تھے اور آگے سے کیا ہو گیا ہے۔ حنا سامنے سے چلی گئی تو انہوں نے کاغذ کے ٹکڑوں کو سمیٹا اور گھر آگئے۔ گھر آکر بڑی محنت سے کاغذ کو جوڑا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ یہ تحریر ان کی نہ تھی بلکہ کسی اور کی لکھی ہوئی تھی اور اس میں ایسی بے ہودہ باتیں لکھی ہوئی تھیں کہ وہ مرد ہو کر شرم سے پانی پانی ہو گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ کس کا کارنامہ ہے ، یہ اسرار کی حرکت تھی جو کافی دنوں سے حنا سے خار کھائے ہوئے تھا اور انتقام کی سوچ رہا تھا۔ ذراسی بات کو لے کر دل میں ایسی گرہ ڈال لی کہ ان کے پاکیزہ رشتے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ حنا کے دل میں اپنے منگیتر کی جو عزت تھی وہ خاک میں مل گئی تھی۔ ان کی محبت کو تمہیں نہیں کر کے جانے میرے اس بے وقوف خالہ زاد بھائی کو کیا ملا۔ میرے بھائی کو تو اس قدر غم ہوا کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کچھ الٹی سیدھی گولیاں کھا کر لیٹ گئے۔ خُدا کی قدرت کہ گولیاں کھانے کے بعد ان کا جی متلا یا تو پانی کا گلاس بھر کر پی لیا۔ پانی پیتے ہی اچھوں گا کھانسی اتنی شدید ہوئی کہ جو کچھ تھوڑی دیر پہلے نگلا اور پیا تھا سبھی قے کے ذریعے نکل گیا اور گولیاں بھی نکل گئیں۔ یوں از خود معدہ واش ہو گیا اور وہ بچ گئے ، تاہم جس دن سے حنا نے انکار کیا تھا، ان کی آدھی جان تو نکل ہی گئی تھی۔ انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا جس سے وہ بہت کمزور ہو گئے۔ آباجان، شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے اور تایا پریشان تھے کہ انہیں کیا جواب دیں کیونکہ اب تائی نہ مان رہی تھیں کیونکہ حنا نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر آپ لوگوں نے میری شادی ایان سے کی تو میں زہر کھالوں گی۔ اُسے مناتے سب ہار گئے اور منگنی ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ منگنی ٹوٹتے ہی حنا کے لئے خاندان سے رشتے آنے لگے۔ ادھر ایان بھائی بیمار تھے ، ادھر حنا کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ جب مہندی اُس کے ہاتھ پر اپنا رنگ جمارہی تھی، میرے بھائی کی زندگی سے رنگ اترنے والے تھے۔ ان کا مرض بگڑ جانے سے ڈاکٹر پریشان تھے۔ وہ کھا سکتے اور نہ پی سکتے تھے۔ ان کا بچنا مشکل نظر آرہا تھا۔ وہ ہر لمحہ حنا کو یاد کرتے اور مغموم ہو جاتے تھے۔ میں نے حنا کو سمجھانے کی بہت کوشش کی یہ اسرار کی سازش تھی، اس کا مکمینہ پن تھا۔ وہ کینہ پر ور تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن اس لڑکی نے میری ایک نہ سنی۔ شاید وہ مجھے جھوٹا سمجھتی تھی۔ افسوس کی بات یہ کہ اس کا علم صرف مجھے تھا یا بھائی ایان کو کہ انہوں نے اس کو اپنا مضمون پڑھنے کو دیا تھا۔ جو جرم میرے بھیا نے نہیں کیا تھا، اس کا احساس ان کو جینے نہیں دیتا تھا۔ وہ کڑا وقت تھا گزر گیا، لیکن ایک طوفان کی مانند اپنے نشان چھوڑ گیا۔ اس کے بعد ایان بھائی میں بڑی تبدیلی آگئی، انہوں نے زندگی کو منفی انداز سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ان کی سوچ کے دھارے ہی مر گئے۔ اب وہ بریکار لڑکوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگے تھے، جو پڑھتے لکھتے تھے اور نہ کوئی کام کرتے تھے۔ بس محلے کے چوک میں پڑے تخت پر بیٹھ کر چوکڑیاں کھیلتے یا سگریٹ چرس بھرے پیتے تھے۔ ایان بھائی کے اندر کا خالی پن ان کو ستانے لگا تھا۔ ان کی بربادی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ انہوں نے غلط سوسائٹی میں اُٹھنا بیٹھا شروع کر دیا جس کے باعث محلے میں بد نام ہونے لگے حالانکہ انہوں نے نہ تو کبھی کسی طرح کا بُرا کام کیا تھا اور نہ کبھی کسی لڑکی کو بُری نظر سے دیکھا تھا۔ کسی کی بہن بیٹی کی زندگی کو برباد کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا۔ بس حنا کے غم میں بڑے لڑکوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگے تھے کہ ایک اچھی لڑکی نے ان کو برائی کی دلدل میں اتر جانے سے قبل ہی بچالیا۔ یہ لڑکی شکیلہ تھی۔

ہوا یوں کہ ایک دن وہ گھر سے نکلے تو سامنے ایک دوست مل گیا۔ ایان بھائی اس کے ساتھ گلی میں کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ شکیلہ کو دیکھ کر بھائی کے دوست نے کچھ غلط بات کہی اور ٹھنڈی آہ بھری جو میرے بھائی کو بہت ناگوار گزری۔ تبھی انہوں نے اس آوازہ کسنے والے لڑکے کو ایسے ہاتھ جمائے کہ وہ بوکھلا گیا۔ ایان بھائی نے کہا۔ تم کو خبر ہے یہ لڑکی جس کو تم نے غلط انداز سے دیکھا، میرے گھر سے نکلی ہے۔ ہماری پڑوسن اور میری بہن کی سہیلی ہے۔ میری بہن جیسی ہے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے غلط لڑکوں سے سلام دعا ترک کر دی۔ ان میں اٹھنا بیٹھنا، بعام کلام سب چھوڑ دیا، یہ سوچ کہ اگر آج یہ میرے گھر سے نکلی ہوئی اس لڑکی کو بُرا آوازہ لگا سکتے ہیں تو کل میری بہن کو بھی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ یوں انہوں نے سارے بُرے دوست چھوڑ دیئے۔ شکیلہ اگلے دن ہمارے گھر آئی اور بھائی سے مخاطب ہوئی۔ ایان بھائی ، آپ کا بہت شکریہ۔ اس پر بھائی نے جواب دیا۔ شکیلہ بہن، میں نے تہہ دل سے تم کو اپنی بہن مان لیا۔ اس دن کے بعد وہ اس لڑکی کا بہت خیال رکھنے لگے۔ وہ بھی ان کو قسم دیتی تھی کہ بھٹیا ! یہ آوارہ گردی والے دوست اور سگریٹ پینا چھوڑ دو۔ بھائی نے اس کے کہنے پر سگریٹ ، بلا وجہ گھر سے باہر رہنا اور دیر سے گھر آنا چھوڑ دیا اور پہلے جیسے اچھے انسان بننے لگے۔ اب وہ دوبارہ ایک اچھال انسان بننے کی کوشش کر رہے تھے ، ایک روز وہ دیر سے گھر آئے تو والد صاحب نے جو تا اٹھالیا اور بغیر وجہ پوچھے کہ کیوں دیر سے آئے ہو ؟ جو تا کھینچ مارا، حالانکہ اس روز بھائی ایان اپنے بیمار دوست کو دیکھنے اسپتال گئے تھے۔ وہاں اس کو کسی کی موجودگی در کار تھی یہ اس کے پاس رُک گئے۔ یہاں تک کہ اس کے گھر والوں میں سے کوئی آیا تب وہ گھر لوٹے تھے۔ والد صاحب کے اس رویئے پر ایان کو اس قدر غصہ آیا کہ اگلے روز والدہ کی الماری میں سے روپے نکال لئے جو گھر کی مرمت کے لیئے انہوں نے رکھے ہوئے تھے۔ پچاس ہزار روپے لے کر گھر سے نکل گئے اور ایک ماہ تک نہیں لوٹے۔ کافی رقم ہونے کے باوجود انہوں نے اس کو خرچ نہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پچاس ہزار روپے کی بڑی قیمت تھی۔ فاقے کاٹے ، جوس اور سادہ پانی پر گزارہ کرتے رہے۔ جب رشتہ داروں کو پتا چلا کہ ایان کے پاس رقم ہے تو وہ ان کو ڈھونڈنے لگے۔ بالآخر ایک رشتہ دار نے انہیں ڈھونڈ لیا، اس نے اور وں کو بتایا۔ اب جس گھر جاتے وہ بہت خاطر مدارات کرتے اور بھنا ہوا گوشت پر اٹھے کھلاتے۔ سب سے بڑھ کر بڑے ماموں اور ممانی تھے، کیونکہ میری والدہ کا مکان جو انہوں نے ایان بھائی کے نام لکھ دیا تھا اور اس مکان کی کافی قیمت تھی۔ جب خالہ کو پتا چلا تو وہ اور خالو ، ایان کو اپنے گھر لے گئے اور امی کو اطلاع دی تب میری امی اور شکیلہ ، خالہ کے گھرایان بھائی کو لینے گئے۔ شکیلہ نے بھائی کو قسم دی کہ اگر بھائی ہو اور مجھے بہن کہتے ہو تو گھر چلو اور رقم بھی ماں کے حوالے کر و۔ والدین سے روٹھے ہو مجھ سے تو نہیں۔ بھائی نے رقم تو خرچ نہ کی تھی، اس نیت سے کہ والدہ کو لوٹانی ہے، صرف والد صاحب کے مارنے کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا تھا، خیر وہ گھر آگئے۔ ہم سب خوش ہو گئے۔ شکیلہ کے ساتھ اس کی بھتیجی فرحانہ بھی آئی ہوئی تھی۔ وہ شکیلہ ہی کی ہم عمر تھی۔ کچھ رشتہ دار خصوصا ماموں بھائی سے مکان اور رقم ہتھیا نا چاہتے تھے ، لہذا بھائی کے ساتھ اس بار چھوٹے ماموں نے ہاتھ کیا۔ وہ اسرار سے ملے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھائی ایان کو ایک لفافہ دیا کہا کہ یہ خط شکیلہ کی امی کا ہے ، ان کو دے دو۔ غلطی سے ڈاکیہ ادھر ڈال گیا ہے۔ بھائی نے سچ جانا اور لفافہ فرحانہ کو دے دیا، کیونکہ وہ سامنے کھڑی تھی۔ کہا کہ یہ شکیلہ کی امی کو دے دینا۔ اس نے لفافہ شکیلہ کو دیا۔ اس نے لفافہ کھول کر دیکھا۔ تحریر پر ایک نظر ڈالتے ہی اس کا رنگ سُرخ ہو گیا اور وہ خونی شیرنی کی طرح بھائی ایان کو گھورنے لگی۔ اس کے تیور دیکھ کر بھائی کے ہوش اُڑ گئے اور دماغ میں خوف کی گھنٹیاں بجنے لگیں کیونکہ ایک بار پہلے بھی اسی طرح ڈسے جاچکے تھے۔ سمجھ گئے اس بار چھوٹے ماموں نے چکر دے دیا ہے۔ شکیلہ نے اسی وقت خط پھاڑ دیا، جانے اس میں کیا بے ہودہ باتیں لکھی ہوئی تھیں۔ وہ روتی ہوئی ہمارے گھر سے چل گئی، بھائی تو سمجھ رہے تھے کہ ابھی ان کے منہ پر طمانچہ مار دے گی۔ اس کے بعد میں نے شکیلہ کو منانے کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ مانی۔ بولی۔ اب میرا اعتبار ایان پر سے اٹھ گیا ہے۔ اس نے میری بھتیجی کو ایسا غلط قسم کا خط لکھا اور بہانے سے ہم کو دیا کہ چند سطریں پڑھ کر ہی میں برداشت نہ کر سکی۔ بھلا ایسی گندی باتیں پڑھ کر کون برداشت کر سکتا ہے۔ اب نہ وہ میر ابھائی رہا اور نہ میں اس کی بہن۔ شکیلہ نے میری دوستی ترک کر دی اور ہمارے گھر آنا بھی بند کر دیا۔ ایان بھائی کو تو اتنا قلق ہوا کہ سکتے میں رہ گئے۔ پہلے خالہ کے بیٹے نے اور پھر ماموں نے ان کا سکون لوٹا۔ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ پیسوں کی لالچ میں اپنے قریبی عزیز ایسا کریں گے۔ ان کے وار ایسے تھے کہ شکیلہ جیسی بہن کو کھویا اور اپنی منگیتر کو بھی۔ حنا شادی کے بعد اپنے گھر میں خوش ہے مگر میر ابھائی بے چارہ تو برباد ہوا اور شکیلہ بھی ہم سے نفرت کرنے لگی۔ وہ میرے بھائی کو بد قماش سمجھنے لگی۔ کاش ماموں پچاس ہزار روپے مانگ لیتے تو ایان انکار نہ کرتا لیکن اس طرح تو ایان بھٹیا کو برباد نہ کرتے۔ اس واقعے کے بعد وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ ہمیشہ کے لئے گھر سے چلے گئے اور آج تک لوٹ کر نہیں آئے۔

Latest Posts

Related POSTS