کہتے ہیں نام کا بڑا اثر ہوتا ہے اس لیے بچوں کے نام سوچ سمجھ کر رکھنے چاہئیں – میرے بھی کا نام تو فہد تھا یر پیار سے فرہاد ہوگیا پھر زندگی نے ایسا غم دیا کے اس کا حال آج دیوانوں سے بھی برا ہے- میرے والد کی ملازمت ایبٹ آباد میں تھی۔ یہ علاقہ ان کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے یہاں ایک پلاٹ خرید لیا۔ کہتے تھے میں ریٹائر منٹ کے بعد اپناگھر یہیں بنائوں گا۔ والد صاحب نے کسی سبب وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنا خواب بھی پورا کیا۔ انہوں نے ایبٹ آباد میں گھر بنوایا اور قریب میں بازار میں ایک دکان بھی خرید لی۔ اباجان نے محنت کی تو بزنس نے ترقی کی اور دکان جنرل اسٹور میں تبدیل ہو گئی۔ اسی بزنس سے ہم خو شحال ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ بیمار ہو گئے تو اسٹور میرے بھائیوں ارسلان او فہد نے سنبھال لیا۔ دونوں باری باری جنرل اسٹور پر بیٹھتے تھے۔ فہد کو گھر میں سبھی پیار سے فرہاد بلاتے تھے۔اس کو بھی عادت پڑ گئی۔ جب بھی کوئی نام پوچتا تو وہ فورا ہی اپنا نام فرہاد بتادیتا۔ آخر اسی نام نے ایک دن اس سے اس کی خوشیاں چھین لیں۔ اس کو ایک لڑکی ملی جس کے فراق میں اسے ایسی چپ لگی کہ وہ اپنے حواس میں نہ رہا۔ وہ اپنی بھولی بھولی آنکھوں سے ہر کسی کے چہرے کو تکتار بتا یا پھر کسی ویرانے میں درخت کے نیچے جا بیٹھتا اور پتے گنتا رہتا اس کو اپنی دکان سے بڑا پیار تھا۔ جمعہ کے دن بھی وہ د کان کھول کر بیٹھ جاتا۔ ایک دن جانے کیا اس کے جی میں سمائی کہ اسٹور بڑے بھائی کو سونپ کر نمائش دیکھنے چلا گیا۔ ابھی تھوڑی دور گیا تھا کہ اس کو لڑکیوں کا ایک گروپ آتاد کھائی دیا۔ شاید وہ شاپنگ کرنے نکلی تھیں اور ہمارے جنرل اسٹور کی طرف ہی آرہی تھیں۔ فرہاد واپس پلٹا اور اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ اس نے بڑے بھائی پر کچھ ظاہر نہ کیا۔ یہ تین لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے ایک جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بہت نمایاں تھی ، اس نے کچھ چیزیں دیکھیں اور مختصر خریداری کر کے یہ چلی گئیں لیکن وہ لڑ کی پل بھر میں ہی جیسے میرے بھائی کے دل پر گھائو ڈال گئی۔ فہد نے دوبار دوکان بھائی کے حوالے کی اور اس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ جس جس دکان پر جاتی ، یہ اس کے پیچھے جاتا۔ اس کا جی چاہا کہ لڑکی کو روک کر اس کا نام پوچھے مگر اتنی ہمت نہ تھی کہ بازار میں بات کرتا۔ آخر کار اسے بہانے سے روک کر کہہ ہی دیا کہ آپ میری دکان پر یہ پر فیوم بھول کر آگئی تھیں، یہ لیجئے۔ اس نے مسکرا کر پر فیوم رکھ لیا حالانکہ یہ پرفیوم کی شیشی جو اس نے خریدی تھی ، وہ اس کے شاپنگ بیگ میں موجود تھی۔ فرہاد کی خوشی کی انتہانہ رہی۔ وہ وکان جانے کی بجائے گھر آ گیا۔ ساری رات بے چینی سے گزری۔ اسے نیند بالکل نہیں آرہی تھی۔ جب آنکھیں بند کرتا، اس پری پیکر کا چہرہ اس کے سامنے آ جاتا۔ صبح دکان کھولی تو فون کی گھنٹی بجی۔ فون پر کوئی لڑکی تھی۔ بھائی نے پوچھا۔ آپ کون ہیں اور کس سے بات کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کل آپ کی دکان پر شاپنگ کی تھی۔ آپ نے ایک فاضل پرفیوم کی شیشی مجھے دے دی جبکہ خریدی ہوئی تو میرے بیگ میں موجود تھی۔اب ایک واپس کرنی ہے۔ میں یہاں اسکول ہاسٹل میں ہوں، آپ آکر اپنی امانت واپس لے جایئے۔ وہ شام کو اس کے ہاسٹل گیا۔ پر فیوم نہ لیا بلکہ اصرار کر کے اس کو دے دیا۔ البتہ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور اس کے بعد فون پر باقاعدگی سے باتیں ہونے لگیں۔اس لڑکی نے جب بھائی سے اس کا نام پوچھا تو اس نے سادگی سے فرہاد بتادیا۔ لڑکی نام سن کر ہنس پڑی۔ میرے بھائی نے بھی سوال کیا۔ تمہارا نام کیا ہے ؟ بولی۔اگر تمہارا نام فرہاد ہے تو میر انامشیریں سمجھ لودونوں آپس میں ملتے نہیں تھے البتہ فون پر رابطہ رکھتے تھے۔ ایک دن اس نے بتایا کہ اس کے گھر والے اسے لینے آرہے ہیں کیو نکہ سالانہ امتحان کے پرچے ختم ہو گئے ہیں ، وہ اب ہاسٹل سے چلی جائے گی ۔ فرہاد یہ سن کر اداس ہو گیا۔ اگلے دن و دکان پر خداحافظ کہنے آئی۔ اس کو اپنی بہنوں کے لئے کچھ چیزیں بھی خریدنی تھیں۔ بھائی کو اداس دیکھ کرشیریں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ ۔ وہ چلی گئی تو میرے بھائی کا بھی دکان پر دل نہ لگا اور وہ بھی گھر آ گیا۔ راستے میں اسے بڑا بھائی ملا ۔ فرہاد! کدھر جارہے ہو اور دکان کس پر چھوڑ کر آ گئے ہو ؟ بھائی جان ! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، دکان بند کر کے گھر جار ہا ہوں۔ فرہاد کو پتا نہ چلا کہ اپنی سوچوں میں مگن وہ گھر سے کافی آگے نکل آیا ہے ۔ لیکن تم تو گھر سے کافیدور آ گئے ہو۔ اچھا! وہ شر مند ہ ہو گیا۔ یہ بے خودی کی وہ کیفیت تھی جس پر اس کا اختیار نہ تھا۔ اگرچہ اس کی محبت صاف ستھری تھی مگر آج دل کی عجیب کیفیت تھی۔ آج سار اما حول اجنبی اجنبی لگ رہا تھا۔۔ خاموشی سے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ ماں نے کھانے کا پوچھا تو آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے۔ امی نے بیٹے کی یہ حالت دیکھی تو ان کی چیخ نکل گئی۔ ماں کی چیخ پر گھر والے دوڑے آۓ ۔ والد صاحب نے پوچھا۔ کیا بات ہے ؟ فرہاد نے کہا۔ سر میں درد ہے، طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ فورا ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے چیک کیالیکن کوئی پیاری نہ جان سکا۔ ظاہر ہے بیماری تو کوئی نہ تھی مگر یہ ایسامرض تھا کہ جس کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں تھا۔ فرہاد کو پھر بھی ڈاکٹر نے بلڈ ٹیسٹ کے لئے اسپتال میں داخل کر دیا۔ تیسرے روز وہ اسپتال سے بھی بھاگ کر گھر آ گیا کیونکہشیریں کی یاد اس کو اندر ہی اندر کھارہی تھی ۔ فون کا انتظار تھا تبھی دکان پر آ بیٹھا۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ دکان پر آئے تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کا فون آگیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ جب سے گھر آئی ہوں ، دل نہیں لگتا۔ تمہاری یاد نے مجھے بہت افسردہ کر رکھا ہے۔ میں اس اداسی سے نکل ہی نہیں پارہی ہوں۔ کھانے کو جی کرتا ہے اور نہ کچھ کرنے کو ، خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔ لگتا ہے مر جائوں گی۔ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ اس نے فرہاد کو جگہ بتائی۔ وہ جگہ ایبٹ آباد سے سو کلو میٹر دور تھی۔ فرہاد ا گلے دن وہاں پہنچا۔ آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ آتی دکھائی دی۔ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ آرہی تھی۔ آتے ہی کہا۔ رانجھا! جانتی نہ تھی کہ میرے دل میں تمہاری محبت بس گئی ہے۔ اب تمہارے بغیر ہی نہ سکوں گی۔ تمہیں مجھ سے شادی کرنا ہو گی۔اس کی بے باکی پر فرہاد منہ تکتارہ گیا۔ کس سوچ میں کھو گئے ہو ؟ کیا تم کو میں پسند نہیں؟ یہ بات نہیں ہے ۔ پہلے تو تمہارے گھر والوں سے بات کر نا ہو گی۔ وہ راضی ہوں گے تو میں اپنے گھر والوں سے بات کروں گالیکن مجھے تو ڈر ہے کہ میرے گھر والے بھی راضی نہ ہوں گئے ۔ وہ بھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سامنے سے کچھ لڑ کے آگئے اور ان کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔شیریں ان کو دیکھ کر گھبراگئی۔ اس کے منہ سے نکالا۔ بھائی جان ! آپ یہاں ؟ ان میں سے ایک اس کا بھائی تھا۔ فرہاد کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ لڑکی کے بھائی نے بہن کو چلے جانے کو کہا۔ ظاہر ہے وہ انکار نہ کر سکتی تھی ، وو دونوں چلی گئیں۔ در اصل جہاں فرہاد اورشیریں بیٹھے تھے ، وہ جگہ ایک سیر گاہ تھی اور وہ اس لڑکی کے گھر سے نزدیک تھی۔ اس کا بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں گھومنے آیا ہوا تھا۔ وہ فرہاد سے تین چار سال بڑا تھا اور اس کے تینوں دوست بھی میرے بھائی سے عمر میں بڑے تھے۔ بھاگنے کا موقع تھالیکن میرے بھائی نے بھاگ جانے کو مناسب نہ سمجھا۔شیریں کے بھائی نے فرہاد کو گھونسامارا اور پھر اس کے دوست بھی اس پر پل پڑے۔ وہ اکیلا تھا، ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ قسمت اچھی تھی کہ وہاں سب لوگ جمع ہو گئے جنہوں نے ان چاروں حملہ آوروں کو قابو کر لیا۔ فرہاد تیزی سے ہجوم سے نکل بس کے اڈے آیا۔ بس تیار کھٹری تھی، وہ اس میں سوار ہو کر اپنے شہر روانہ ہو گیا۔ انہوں نے پیچھا بھی کیا مگر بس نکل چکی تھی۔ فرہاد کواب اپنی فکر نہ تھی، بس یہی اندیشہ تھا کہ یہ شیریں کومار ڈالیں گے یا اس پر کڑی پابندیاں لگا د یں گے اور پھر جلد از جلد شادی کر دیں گے۔ انہی سوچوں میں سفر کا پتا بھی نہ چلا کہ کیسے ختم ہو گیا۔ گھر پہنچاتو پنا ہوش نہ تھا۔ ماں نے دیکھا تو پوچھا۔ بیٹا ! یہ تیری کیا حالت ہے ، کسی نے مار پیٹ دیا ہے ؟ تب اسے اپنا ہوش آیا۔ خود پر نظر ڈالی تو کپڑے پھٹ گئے تھے ، گھونسے کھانے سے منہ سوج گیا تھا۔ آئینہ دیکھ کر سخت شرمندگی ہوئی۔ ماں کو کسی طرح ٹالا۔ رات کا وقت تھا، وہ اپنے کمرے میں جا گھسا اور کنڈی لگالی۔ تمام رات اسی فکر نے سونے نہ دیا۔ بدن دکھ رہا تھا، صبح دکان پر بھی نہ جا سکا۔ دس دن فرہاد نے اس فکر میں گزارے کہ کہیں اس کو اس کے بھائیوں نے مار نہ دیا ہو ۔ وہ یہی بات سوچ سوچ کر پاگل ہورہا تھا۔ اس کو خبر ہوتی کہ وہ اس لڑکی سے مل کر ایسا بیگانہ ہو جائے گا تو بھی اس کے پیچھے نہ جاتا۔ شاید یہ اس کے اختیار سے باہر تھا۔ وہ زندہ تھا مگر مردہ جیسا تھا۔ کسی سے بات کرنے کو دل کرتا تھا اور نہ دکان داری کو… اگر سودا لینے والے سیدھی بات کرتے تو بھی اس کو برا لگتا۔ وہ ابشیریں کے فون کے انتظار میں ہی دکان پر جاتا تھا۔ کچھ دن فون کی گھنٹی خاموش رہی ، فرہاد کی سانس بھی گھٹی گھٹی رہی۔ وہ مایوس ہو چلا تھا۔ اس کو اس کے سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ خدا جانے لڑکی کے بھائی نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔اس کو اس سوال کا جواب دینے بھی کوئی نہ تھا۔ ایک دن پھر سے فون کی گھنٹی بجی۔ شیریں کا فون تھا۔ آواز سن کر بے اختیار فرہاد کے منہ سے نکلا۔شیریں ! اب تو اپنا صحیح نام بتادو، کیا تم زندہ ہو یا…؟ بتادوں گی جب تم اپنا اصل نام بتائو گے اور کیا تم کو میرے مر جانے کا یقین تھا؟ نہیں، لیکن الجھن میں ہوں کہ گھر والوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بھائیوں نے مل کر خوب مارا اور پھر کمرے میں دس روز تک بند رکھا۔ آج ایک کزن کی منگنی ہے۔ سب گھر والوں کے ساتھ میں گزن کے گھر آئی ہوں اور یہاں سے چپ کر فون کر رہی ہوں۔ایک ماہ بعد میری شادی ہے ،اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو ایک ماہ ہے ہمارے پاس ، ہم شادی کر سکتے ہیں۔ مگر ایسی شادی میں تو گھر والوں کی رسوائی ہے۔ تم صبر سے کام لو۔ فرہاد نے اسے سمجھایا۔ تو پھر تم کر لو صبر ۔ اس کے بعد ساری زندگی صبر سے کام لینا ہو گا۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا- فرہاد پہلے سے زیادہ پریشان ہو گیا۔ اسی وقت دکان بند کی اور گھر آ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ وقت کم ہے۔ گھر والوں سے بھی بات نہیں کر سکتا۔ لاکھوں کا کاروبار تھا، وہ الگ ختم ہو رہا تھا۔ وہ دکانداروں سے بھی غافل ہو رہا تھا۔ اس کو خبر تھی کہ لڑکی کے گھر والے کجا، خود اس کے گھر والے بھی راضی نہ ہوں گے ۔ بڑا بھائی کسی ضروری کام سے پشاور گیا ہوا تھا۔ فرہاد نے آٹھ دن دکان نہ کھولی، خرابی طبیعت کا بہانہ کئے رکھا۔ نویں دن والد صاحب کے اصرار پر دکان کھولی تو فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ ریسیور اٹھایا۔شیریں بولی۔ تین دن سے مسلسل فون کر رہی ہوں ، تم فون کیوں نہیں اٹھاتے ، طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ میں بیمار تھا۔ رانجھانے بتایا۔ بیمار تو میں بھی ہوں مگر اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ تم کل دو بجے فلاں جگہ آ جانا، میں تم کو اپنے گھر یلو حالات سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔ اتنا کہہ کرشیریں نے فون رکھ دیا اور وہ ریسیور کان سے لگائے سوچتا ہی رہ گیا کہ کیا کروں۔ اس کو رات بھر نیند نہ آئی۔ اس روز کی ملاقات یاد تھی۔ اچھی درگت بنی تھی ، دو بارہ جانے کا حوصلہ نہ پڑتا تھا۔ خود کو بہت روکا مگر اس راہ خطر کی طرف خود بخود قدم اٹھتے جاتے تھے ۔اس کی بتائی ہوئی جگہ جا پہنچا۔ تین گھنٹے بعد وہ آتی دکھائی دی۔ آج وہ اکیلی تھی۔ ہاتھ میں تھیلا پکڑ رکھا تھا۔ پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ یہ میرے کپڑے ہیں ،اب میں گھر واپس نہیں جائوں گی۔ اگر تم مجھ کو ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں یہاں سامنے پہاڑ پر سے چھلانگ لگا دوں گی۔ اس کے قدم اب بھی من من بھر کے ہو رہے تھے لیکن لڑ کی دلیر تھی ، اس کا بازو پکڑے تھی۔ فرہاد کیا سوچ رہے ہو؟ چلو اٹھو وقت کم ہے۔ میرے گھر والے مجھ کو تلاش کرتے ہوں گے ۔ وہ یہاں آگئے تو ہم دونوں کو مار دیں گے۔ فرہاد بادل ناخواستہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اس کے ساتھ قدم بڑھانے لگا۔ جاتے تو کہاں جاتے ، بس اسٹینڈ پر آکر کھڑے ہو گئے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا، کوئی گاڑی نہ ملی۔ فرہاد گم سم تھا جیسے اندھا، گو نگا اور بہرہ ہو گیا ہو۔شیریں کی آواز بھی اس کو سنائی نہ دے رہی تھی جو چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔ وہ سامنے دیکھو، نشیبی راستے پر میرا بھائی اور اس کے ساتھ نجانے کون کون لوگ آرہے ہیں۔ بھاگ جاؤ فرہاد ! خدا کے لئے یہاں سے بھاگ چلوور نہ وہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ میں تم کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ مر جائوں گا مگر تم کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ نہیں دیکھو وہ ایک دو نہیں دس پندرہ آدمی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اسلحہ بھی ہے ۔ وہ اسی ارادے سے آرہے ہیں کہ ہم کو جان سے مار دیں گے۔ ہم دونوں کا اب تمہارے بھائی کے ہاتھوں مر جانا ہی بہتر ہے لیکن شیریں مرنے کے لئے تیار نہ تھی۔اس نے خدا اور رسول کی قسمیں دے کر کہا کہ یہ بیگ لے لو، اس کو آگے جا کر کہیں نالے میں پھینک دینا۔ میں تمہارے ساتھ بھاگ نہیں سکتی کیونکہ میں تیز نہیں بھاگ سکوں گی اور میری وجہ سے تم بھی پکڑے جائو گے ۔ وہ یہاں آتے ہی مجھ سے الجھ جائیں گے ۔ اتنی دیر میں تمہیں نکل بھاگنے کا موقع مل جاۓ گا۔ مجبور ہو کر فرہاد نے اس کا بیگ تھاما اور مخالف سمت میں بھاگ کھڑ اہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پہاڑوں کی اوٹ میں نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا تجھی وہ تمام شیریں کے سر پر آ پہنچے جس نے خود کو ایک پتھر پر گرا لیا تھا اور اب بے ہوش پڑی تھی۔ فرہاد بھاگتے بھاگتے جنگل میں پہنچ گیا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے ، شام قریب تھی۔ خوف کی وجہ سے اس کو وہیں پڑائو کر نا پڑا۔ ساتھ کوئی چادر تھی اور نہ کھانے پینے کا سامان۔شیریں کے کپڑوں کا تھیلا تو اس نے راستے میں نالے کے تند و تیز پانی کے سپر د کر دیاتھا۔ نزدیک کوئی بستی بھی نہ تھی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر اس نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دیا اور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی زندگی کے دن باقی تھے جو اتنی سردی کے باوجود وہ بچ گیا۔ کالی لمبی رات جوں توں کر کے گزر گئی مگر یہ رات قیامت سے بڑھ کر لمبی تھی۔ صبح پو پھٹتے ہی وہ درخت سے اترا اور روانہ ہو گیا۔ راستے کا پتا نہ تھا، کوئی جاننے والا نہ تھا بس خود کو قسمت پر چھوڑ دیا۔ جس راستے سے آیا تھا، وہ بھول چکا تھا۔ گھنٹہ بھر یو نہی چلتا گیا بالآ خر سامنے سے ایک شخص کھائی دیا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں لئے جارہاتھا۔ فرہاد نے اس سے بڑی سڑک کے بارے میں پوچھا۔ وہ کوئی نیک دل انسان تھا۔ کہنے لگا۔ سڑک تو بہت دور ہے ، تم راستہ بھول جائو گے ، میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ وہ فرہاد کے ساتھ ہو گیا۔ کافی دیر کے بعد وہ بڑی سڑک پر پہنچ گئے۔ فرہاد نے اس کو کچھ رقم دی کہ وہ بہت غریب تھا۔ اس نے اتناوقت بھی فرہاد کی خاطر خراب کیا تھا۔ فرہاد وہاں کسی سواری کے انتظار میں کھڑ ا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی آگئی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر گھر آ گیا۔ گھر والوں نے پوچھا۔ کہاں چلے گئے تھے اور یہ کیسی حالت بنارکھی ہے ؟ ایک دوست کے پاس چلا گیا تھا۔ وہ بیمار تھا، اس نے رات مجھ کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ رانجھانے ہم سے بہانہ کیا اور اپنے بستر پر گرا تو ہوش ہی نہ رہا کیونکہ رات بھر سردی میں درخت پر بیٹھے رہنے سے حالت خراب ہو چکی تھی۔ اگلے دن اٹھا تو حالت کچھ بہتر تھی۔ شکرانے کے نفل پڑھے کہ اللہ پاک نے عزت اور زندگی دونوں رکھ لی تھیں مگر اب فکر تھی توشیریں کی ، اس کو یقین ہو گیا کہ اس کو تو اس کے بھائیوں نے اگلے جہان پہنچا دیا ہو گا۔ اس کے بعد والد صاحب کی علالت دیکھتے ہوۓ اس کو احساس ہواتو وہ بلاناغہ دکان پر بیٹھنے لگا۔ اب بھی فون کی گھنٹی پر دل دھڑک اٹھتا تھا کہ شایدشیریں کا فون ہو مگر اس کا فون نہ آیا۔ خدا جانے اس پر کیا بیتی تھی۔ دوماہ یونہی گزر گئے۔ جب فون کی گھنٹی بجتی ، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی کہ میر اسی کا فون ہو گا لیکن وہ کسی اور کا ہوتا اور فرہاد مایوس ہو جاتا۔ دن یونہی گزرتے گئے ،اس لڑکی کا کچھ پتا نہ چلا۔ حالت یہ تھی کہ فرہاد صبح مشکل سے ہی دکان پر جا پاتا اور شام کو گھر آجاتا۔ وود کان پر جاتاہی یہی امید لے کر کہ شاید آج شیریں کا فون آ جائے ورنہ اس میں تو اب چلنے کی بھی ہمت نہ رہی تھی۔ ایک دن فون کی گھنٹی بجی، فرہاد نے فون اٹھایا۔ ایک لڑ کی بول رہی تھی۔اس نے پو چھا کہ فرہاد ہے ؟ میں بول رہا ہوں۔ بھائی نے جواب دیا۔ میں صنوبر کی سہیلی بول رہی ہوں فرہاد ! آپ کو یہ بتانا تھا کہ میری دوست اور آپ کی شیریں اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ یہ سن کر فرہاد کی آنکھوں تلے اند ھیرا چھا گیا۔ میں صحیح کہہ رہی ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا جب پہلی بار اس نے آپ کو ملنے کے لئے سیر گاہ میں بلایا تھاتو میں ساتھ تھی۔ اس نے مجھے آپ کا نمبر دیا ہوا تھا۔ کہا تھا اگر بھی مجھے کچھ ہو جائے تو فرہاد کو بتادینا۔ پھر اس دن اس کو اس کے بھائی گھر نہیں لائے تھے بلکہ وہیں بے ہوشی میں ہی اس کا گلاد باکر پہاڑ کے اوپر سے نالے میں میں پھینک دیا تھا۔ انہوں نے اس کے قدموں کے نشانات کے ساتھ ساتھ کسی اور کے قدموں کے نشان بھی دیکھے تھے۔ اس کا ایک بھائی دکان پر تم کو دیکھنے بھی آیا تھاتو اس وقت تمہارا بھائی دکان پر موجود تھا۔ وہ یہی سمجھے کہ تم دکان پر موجود ہو اور ان کی بستی میں نہیں آۓ ، کوئی دوسرا آ یا ہے۔ اس نے جا کر یہی کہا کہ جس پر تم لوگ شک کر رہے ہو وہ تو اپنی دکان پر بیٹھا ہے شاید وہ کسی اور کے ساتھ گئی تھی۔ خدا نے تم کو بچانا تھا، سو تم بچ گئے ورنہ تمہارامارا جانا بھی یقینی تھا۔ خدا جس کو زند ہ رکھنا چاہے ،دشمن کو اندھا کر دیتا ہے۔ فرہاد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ اس نے ریسیور رکھ دیا، دکان بند کی اور گھر آگیا۔ اس کو اپنے بچ جانے کی کوئی خوشی نہ تھی۔ غم تھاتوشیریں کے ڈوب جانے کا جس کا اصل نام اس کی سہیلی نے بتایا تھا کہ صنوبر ہے۔ صنوبر کا غم میرے پیارے بھائی فرہاد کو آج بھی ہے ۔ اب ہم اس کو اس کے اصل نام سے ہی بلاتے ہیں کیونکہ گھر والوں کا خیال ہے کہ اس کو فرہاد نام راس نہیں آیا۔