اس بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نے کوئٹہ جانے کا پروگرام بنایا تھا مگر والد صاحب کو چھٹی نہ مل پائی توانہوں نے بھائی فیاض سے کہا کہ میں کچھ دن بعد آجائوں گا۔ تم لوگ پہلے چلے جائو۔ شہر دیکھنے کا مجھے بھی ارمان تھا۔ والد صاحب نے ہمارے سفر کا انتظام کر دیا اور ہم اپنے خوابوں کے نگر کو روانہ ہو گئے۔ راولپنڈی سے یہ ایک لمبا سفر تھا اور رستہ بھی بہت دشوار گزار تھا بہرحال ہم پندرہ گھنٹے کا سفر طے کر کے اس گائوں پہنچ گئے جہاں ابو کے دوست کا گھر تھا اور ہم نے ان کے وہاں قیام کرنا تھا۔ ہم سفر سے بہت تھکے ہوئے تھے۔ اس دن تو آرام کیا۔ اگلے دن اپنے میزبان کے پڑوس میں گئے۔ وہاں قرآن خوانی ہو رہی تھی۔ میں نے انکل کی بیٹی شیزا سے پوچھا یہ کس لئے ؟ وہ بولی۔ آج ان کے بیٹے کی برسی ہے۔ جس لڑکے کی برسی تھی، اس کی بہن سے بات چیت ہوئی، اس نے بتایا کہ میرے بھائی کا نام زاہد تھا، اس کو گولی لگی تھی۔ میں نے اس لڑکی سے افسوس کیا اور مزید کوئی سوال نہ کیا البتہ گھر آ کر شیزا سے پوچھا کہ تمہاری پڑوسن لڑکی کے بھائی کو گولی کس نے ماری تھی؟ وہ بولی۔ کسی نے نہیں۔ تو پھرعرشیہ یہ کیوں کہہ رہی تھی کہ اس کا بھائی گولی لگنے سے مرا تھا۔ ہاں وہ صحیح کہہ رہی تھی، زاہد واقعی گولی لگنے سے ہی مرا تھا۔ یہ عجیب بات تھی کہ وہ گولی لگنے سے مرا تھا مگر گولی کسی نے نہ ماری تھی۔ مجھ کو حیران دیکھ شیزا نے بتایا کہ زاہد ایک بہادر اور ہردلعزیز لڑکا تھا لیکن ایک لڑکی کی بات کا اعتبار کرنے پر جان سے گیا۔ دراصل وہ دوسروں کی بات پر بہت جلد یقین کر لیتا تھا۔ بچپن سے ہمارے گھر آتا تھا تبھی ہم اس کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس کی عادت تھی کہ صبح دم سیر کو نکل جاتا تھا۔ ایک روز حسب معمول صبح کی سیر کو گیا، واپسی میں اس کو پیاس لگی۔ راستے میں چشمہ تھا۔ جہاں سے روز لڑکیاں پانی بھرا کرتی تھیں۔ وہ وہاں ٹھہر گیا۔ کچھ لڑکیاں جو مشکیزے لے کر گزر رہی تھیں۔ ان سے پانی کا سوال کیا تو کسی لڑکی نے بھی اپنے مشکیزے سے اس کو پانی نہ دیا۔ چشمہ تک وہ جا نہیں سکتا تھا کہ یہاں جب لڑکیوں اور خواتین کے پانی بھرنے کا وقت ہوتا تو مرد اس طرف نہیں جاتے تھے۔ سبھی لڑکیاں انکار کر کے چلی گئیں لیکن ایک کمسن لڑکی جو پندرہ برس کی تھی، ٹھہر گئی۔ اس معصوم کی دھانی دوپٹے والی لڑکی نے اپنے مشکیزے سے زاہد کو پانی دیا۔ اس روز بادل چھائے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ چند لمحوں میں ہی چھما چھم بارش برسنے لگی۔ بارش کا آناً فاناً ایسا زور پڑا کہ لڑکیوں کے لئے بھرے ہوئے مشکیزے لاد کر گھر تک پہنچنا دو بھر ہوگیا ۔ باقی لڑکیاں تو کسی نہ کسی طرح اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر چل کر نظروں سے اوجھل ہو گئیں لیکن دھان پان کی دھانی دوپٹے ولی زہرا پیچھے رہ گئی۔ یہ وہی تھی جس نے رک کر زاہد کو پانی دیا تھا۔ اس کو بھیگتا دیکھ کر ذرا فیصلے پر زاہد رک گیا۔ وہ مشکیزا اٹھائے بے حال ہوئی جاتی تھی۔ تبھی زاہد نے پانی سے بھرا ہوا مشکیزہ اس سے لے لیا، بولا۔ تم چلو، میں یہ مشکیزہ تمہارے گھر تک پہنچا دیتا ہوں۔ پہلے تو وہ لڑکی جھجکی لیکن بارش اور موسم کے بگڑے حال دیکھ کرمان گئی۔ آگے قدم بڑھنے سے قبل لڑکی نے سوال کیا۔ تم کس کے بیٹے ہو اور تمہار نام کیا ہے ؟ میں لالہ اعظم کا بیٹا ہوں۔ کیا تم نے ان کا نام سنا ہے ؟ اور میرا نام زاہد ہے۔ اچھا ٹھیک ہے۔ لڑکی مطمئن ہو گئی مشکیزہ اس کے حوالے کر کے وہ خود ہلکی پھلکی ہو کر پہاڑی رستے پر قلانچیں بھرتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ زاہد کے لئے بات چیت کی حد تک تو وہ اجنبی تھی لیکن رشتہ داری کے لحاظ سے غیر نہ تھی۔ وہ اس کے والد کے چچازاد بھائی احسان خان کی بیٹی تھی۔ وہ اس کا گھر بھی جانتا تھا البتہ ان کے گھر آنا جانا بہت کم تھا۔ زہرا نے گھر میں داخل ہو کر اپنے چھوٹے بھائی خانزادہ سے کہا۔ دروازے پر رہو۔ لالہ اعظم کا بیٹا مشکیزہ لارہا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ کہانی بھی سنادی کہ بارش کی وجہ سے اس کا پیر پھسل گیا تھا تو پیرمیں موچ آ گئی۔ وہ کراہنے لگی ، تاکہ مشکیزہ کسی نوجوان کو تھمانے کا کچھ جواز بنے۔ یہاں بارش تو اکثر ہوتی تھی۔ کسی سے مدد لینے کا یہ کوئی بہتر جواز نہیں تھا۔ وہ ہائے ہائے کرتی چولہے کے پاس بیٹھ گئی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور کان دروازے کی جانب تھے۔ دستک ہوئی اور چھوٹا بھائی دوڑا گیا۔ اس نے وزنی مشکیزہ تھامنا چاہا مگر تھام نہ سکا۔ تبھی زاہد نے کہا۔ اجازت ہو تو میں ہی اندر پہنچا دوں۔ لڑکے نے ماں سے پوچھا۔ وہ بولی۔ ہاں ہاں کیوں نہیں، یہ لڑکا کوئی غیر نہیں، لالہ اعظم کا بیٹا ہے۔ اؤ بچہ اؤ۔ مشکیزہ ادھر ڈال دو۔ اس نے مٹی کے بڑے سے مرتبان نما بر تن کی طرف اشارہ کیا۔ جب زاہد واپس جارہا تھا اس نے زہرا پر نظر ڈالی جو پائوں میں موچ کا بہانہ کیے کرہا رہی تھی۔ یہ دونوں کا پہلا تعارف تھا۔ زاہد اب بھی روز سیر کو نکلتا تھا لیکن اب بات ذراسی مختلف ہو گئی تھی۔ واپسی پر اس کا رستہ سونا نہیں ہوتا تھا۔ وہاں راہ میں ایک لڑکی اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی ۔ جب وہ اکیلی رہ جاتی زاہد اس کے مشکیزے سے پانی پی لیتا۔ اس سے قبل کہ یہ راز طشت از بام ہوتا، زہرا کی ایک ساتھی لڑکی نے اس کی ماں کو خبردار کر دیا کہ لالہ اعظم کا لڑکا روز رستے میں ملتا ہے اور جب زہرا اکیلی ہوتی ہے تو ٹھہر کر اس کے مشکیزے سے پانی پیتا ہے۔ آپ زہرا کو روکو یا پھر ان کو رشتہ دے دو۔ اس سے پہلے کہ یہ بات بزرگوں میں دشمنی کا آغاز کرے۔ وہ سمجھ دار عورت تھی۔ اس نے لالہ اعظم کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ باتوں باتوں میں بیٹی کا بھی ذکر کیا کہ اس کے رشتے کے لئے فکر مند ہے۔ ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پچاس بھیڑیں دے سکو تو لڑکی کا باپ اور بھائی فور مان جائیں گے۔ زہرا خوبصورت تھی اور زاہد کی ماں اپنے بیٹے کے لئے خوبصورت اور کم سن لڑکی کا رشتہ چاہتی تھی۔ زاہد کے باپ کے لئے پچاس بھیڑیں دے دینا معمولی سوال تھا۔ جب بیوی نے لالہ اعظم سے یہ سارا معاملہ بیان کیا تو اس نے کہا اگر یہ لڑکی ہمارے لڑکے کی مرضی کے مطابق ہے تو پچاس کیا میں سو بھیڑیں دینے پر راضی ہوں۔ ۔ تم فورا زہرا کی ماں سے بات پکی کرو۔ سو بھیڑیں معمولی معاوضہ نہ تھا۔ زہرا کے لئے اس سے اچھا رشتہ نہیں مل سکتا تھا۔ دونوں گھرانوں کے تعلقات خوشگوار تھے لہٰذا رشتہ پکا کر دیا گیا۔ اب زہرا کو سہیلیوں سے خوف نہیں تھا۔ اب کوئی بد خواہ ان کو بد نام نہ کر سکتا تھا۔ تاہم منگیتر سے سر راہ ملنا، سہیلیوں کے لئے نہ سہی لیکن والد اور بھائی کے نزدیک معیوب بات تھی اور ان کی غیرت کے منافی بھی۔ تبھی اپنی بے چینی کو کم کرنے کی خاطر یہ دونوں ایک رشتہ داری لڑکی کے ذریعہ اپنی گفتگو ایک کیسٹ میں ریکارڈ کر کے ایک دوسرے کو بھجواتے تھے۔ اس زمانے میں وادی کے میدان میں روایتی کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ ان مقابلوں کو دیکھنے ارد گرد کے گائوں اور شہروں سے بھی لوگ آتے تھے۔ ایک مقابلہ نیزہ بازی کا بھی ہوتا تھا کہ گھوڑے پر بیٹھ کر نیزے کو نشانے پر مارنا تھا اور ہرن یا بکری کو نیزے سے اٹھانا تھا۔ زہرا کا بڑا بھائی اس کھیل کا ماہر تھا۔ ہر سال میلے میں وہ اس کھیل کا مظاہرہ کرتا تھا، کوئی اس سے جیت نہ پاتا تھا۔ اس بار مگر اس کا مد مقابل زاہد ٹھہر گیا اور اس نے مقابلہ جیت لیا۔ زہرا کا بھائی سنگراش اس جیت کو ہضم نہ کر سکا۔ اس نے اپنی سبکی محسوس کی، جب بھرے مجمع میں پہلی بار اس کو شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ لوگ اس کی بجائے زاہد کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ وہ اپنی یہ توہین برداشت نہ کر سکا اور دل میں زاہد کے لئے خار ڈال لی۔ یہ شخص اس کو اپنا حریف لگنے لگا۔ وہ کسی صورت اس کو اب اپنے بہنوئی کے روپ میں دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ سوئے اتفاق کہ جب وہ رسماً جیت کی مبارک باد دینے زاہد کے پاس گیا تو وہ اپنے کسی خیال میں اتنا گم تھا کہ فوری طور پر اس کی جانب توجہ کر سکا اور نہ ہی احتراماً اس کا کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ یہ رویہ سنگراش کے دل میں تیر کی طرح چبھ گیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ زاہد نے اگر نوٹس نہیں لیا ہے تو وہ بھی اس کو اپنی رشتہ داری سے نکل کر کے رہے گا۔ اس نے باپ سے کہا کہ آپ کا بھتیجا تو سخت بد تمیز ہے جو بڑوں کا احترام جانتا ہے اور نہ خاندانی روایات کو۔ بھرے مجمع کی تقریب میں اس نے میرے لئے کھڑا ہو نا گوارا نہیں کیا۔ یہ کل ہمارے ساتھ کس طرح پیش آئے گا۔ سو بھیٹروں کی قیمت عزت سے زیادہ نہیں ہے۔ آپ اس رشتے کو ختم کر دیجیے۔ مجھے یہ توہین قبول نہیں۔ زہرا کے والد کو بیٹے کا مان رکھنے کے لیے رقم واپس کرنا پڑی۔ یوں رشتہ ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود برسوں ان گھرانوں کی دوستی دشمنی میں نہ بدلی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف باوجود شکر رنجی کوئی مخالفانہ کارروائی نہ کی کیونکہ دونوں گھرانوں کے بزرگ آپس میں خون خرابہ نہ چاہتے تھے۔ لالہ اعظم مضبوط شخص تھا۔ اس نے تو ہین کا یہ پیالہ پی لیا لیکن زاہد کو چین کہاں، اس کے لئے تو یہ جینے اور مرنے والا مقام تھا۔ اگر زاہد کے لبوں سے مسکراہٹ چھن گئی تھی تو زہرا بھی خود کو زندہ در گور محسوس کر رہی تھی۔ بیٹی کو حد درجہ افسردہ دیکھ کر ماں نے اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ وہ جانتی تھی کہ اب اگر یہ زاہد سے ملی تو رشتہ دار معاف کریں گے اور نہ زہرا کا والد اور بھائی۔ جب تمام رستے بند نظر آئے تو زہرا نے اپنی رشتہ دار سہیلی کے ذریعہ زاہد سے رابطہ کیا۔ وہی ان دونوں کو ملانے کا ذریعہ بنی۔ ایک رات باغ میں دونوں کی ملاقات طے پائی۔ ملنے کی جگہ گھر سے زیادہ دور نہ تھی کہ زہرا رات کے اندھیرے میں دور نہ جاسکتی تھی، البتہ زاہد جان پر کھیل کر زہرا کے والد کے گھر سے متصل خربانیوں کے باغ میں آیا۔ یہ رات کے بارہ بجے کا وقت تھا۔ دونوں کے لب پر ایک ہی بات تھی کہ کس طرح بگڑی کو پھر سے بنائیں۔ کیسے دونوں اپنے اپنے گھرانوں کو راضی کریں۔ دونوں ہی جانتے تھے کہ بھیڑوں کی قیمت لے دے کر اب اس رشتے کو دوبارہ جوڑ نا ممکن نہ تھا۔ بالآخر زہرا نے کہا۔ زاہد اگر تمہاری شادی مجھ سے نہ ہوئی تو میں نہ جیوں گی، خود کشی کرلوں گی۔ اگر تم خود کشی کر لو گی تو میں بھی خود کشی کرلوں گا۔ مجھ سے تمہاری موت کا صدمہ نہ سہا جائے گا۔ دونوں ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ زہرا کا باپ ان کے سروں پر پہنچ گیا کیونکہ جب زہرا گھر سے نکلی تھی تو اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی تھی۔ بیٹی کو بستر پر نہ پا کر وہ دروازے کو دیکھنے گئی، جس کی کنڈی کھلی ہوئی تھی۔ تبھی سمجھ گئی کہ وہ ضرور زاہد سے ملنے گئی ہے۔ گھبرا کر اس نے شوہر کو جگایا کہ دیکھو بیٹی کہاں ہے ؟ اس کا والد گھر سے نکلتے ہی پہلے باغ میں گیا۔ اس کو اندازہ تھا کہ لڑکی یہیں کہیں ہو گی کیونکہ اس کو غائب ہوئے زیادہ دیر نہ گزری تھی۔ باپ نے لڑکے کو کچھ نہ کہا لیکن اپنی بیٹی کو کھینچتا ہوا گھر لے آیا۔ وہ رات کے وقت واویلا نہ کرنا چاہتا تھا۔ اپنے بیٹے سنگر اش سے بھی خائف تھا کہ اسی وقت خون خرابہ کر دے۔ باپ نے زاہدہ کو کوٹھری میں بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا۔ یہ حادثہ زاہد کے لئے سخت ذہنی و دلی تکلیف کا باعث بنا اس کے حواس جاتے رہے۔ کتنی ہی دیر وہ پتھر کا بت بنا بیٹھا رہا۔ جب صبح کی اذان ہوئی اس کو ہوش آیا اور وہ باغ سے اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب اس کو زہرا کے بغیر تمام زندگی گزارنی تھی۔ وہ اب گائوں بھر کے لڑکوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تھا کیونکہ منگنی کا ٹوٹنا ایک کلنگ، کی جیسی بات سمجھی جاتی تھی۔ وہ تو ابھی سوچ و چار میں تھا مگر لڑکی زیادہ بے حوصلہ اور جذباتی تھی۔ اس نے ایک بار پھر سہیلی کے ذریعہ رابطہ کی کوشش کی مگر اس نے انکار کر دیا البتہ اپنی ماں سے درخواست کی وہ زاہد اور زہرا کی مدد کرے۔ رشتے میں یہ خاتون زاہد کی ممانی اور زہرا کی چچی ہوتی تھی اور اس کا دونوں گھرانوں میں آنا جانا بھی تھا۔ اس پر کوئی شک بھی نہ کر سکتا تھا۔ اس نے پہلے زاہد کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ منتیں کرنے لگا کہ ایک بار آپ میری آواز زہرا تک پہنچا دو۔ عورت رنجیدہ لڑکے کو دیکھ کر مجبور ہو گئی اور اس کی آواز میں ریکارڈ کیسٹ زہرا کو دی اور اس کو بھی سمجھایا کہ بیٹی تم اب بازرہو۔ تمہارے والد اور بھائی کو پتا چل گیا تو اب کے تمہارے ٹکڑے کر دیں گے۔ جب تم رابطہ سے انکار کرو گی تو زاہد باز آجائے گا۔ زہرا نے کوٹھری بند کر کے مدھم آواز میں کیسٹ میں ریکارڈ باتیں سنیں اور پھر مایوس ہو کر اس نے جواب میں کہا کہ یہ میرا آخری پیغام ہے۔ زاہد کیا جانتا تھا کہ زہرا کا آخری پیغام دراصل موت کا پیغام ہے۔ بہت بے چینی سے اس نے کمرے میں جا کر ٹیپ ریکارڈ آن کیا۔ زہرا روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ دنیا ہماری دشمن بن گئی ہے۔ اگر یہ ہم کو ایک ہوتا نہیں دیکھ سکتے تو ہم بھی ان کو مر کر دکھا دیں گے۔ تم میری بات غور سے سنو! تم نے جمعرات کو صبح کے وقت خود کشی کرنی ہے اور میں نے بھی۔ ہم اس جہان میں نہیں مل سکتے تو اگلے جہان میں تو مل سکتے ہیں۔ دیکھو وعدہ خلافی نہ کرنا۔ اس پیغام کو زاہد نے بار بار سنا۔ تین روز بعد جمعرات آنے والی تھی اور اس کے ذہن میں یہ پیغام راسخ ہو گیا کہ ان دونوں کو بس ایک ساتھ ، ایک دن ایک وقت ہی مرنا ہے۔ وہ دو روز بار بار بندوق کی نالی صاف کرتا، گھروالے پوچھتے تو کہتا کہ شکار کرنا ہے۔ پھر جمعرات کی وہ منحوس صبح آگئی۔ اس کو یقین تھا اگر اس نے اپنی جان وقت پرنہ لی تو زہرا کی موت کی خبر سننی پڑے گی۔ اس نے تو جو کہا ہے کر گزرے گی اور میں مرد ہو کر اس سے دو قدم پیچھے رہ جائوں گا۔ باپ جب کام پر چلا گیا، ماں باورچی خانے میں تھی اور بہن باورچی خانے میں ماں کا ہاتھ بٹا رہی تھی کہ انہوں نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ وہ آواز کی سمت دوڑیں۔ دیکھا تو ان کا وارث خون میں لت پت تھا۔ گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ وہ گھبرا کر ادھر ادھر بھاگنے لگیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کریں۔ آس پاس کے رہنے والے سبھی لوگ اکٹھے ہو کر آ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا گائوں ان کے گھر کے سامنے جمع ہو گیا۔ لوگوں نے جلدی سے زاہد کو چارپائی پر ڈالا اور اسپتال لے گئے لیکن اس نے رستے میں دم توڑ دیا۔ کچھ دن سوگ رہا پھر رفتہ رفتہ گھر والوں نے معمولات زندگی میں پھر سے جینا شروع کر دیا۔ ایک روز ماں زاہد کے کمرے میں صفائی کی غرض سے گئی تو ٹیپ ریکارڈ میں لگی کیسٹ مل گئی۔ بہن نے اسے چلایا تو اس کی موت کے راز سے پردہ ہٹ گیا۔ ایک ہی کیسٹ میں زاہد اور زہرا دونوں کی آوازیں ریکارڈ ملیں۔ زاہد نے اس کی بات پرعمل کر دیا لیکن زہرا عین وقت پر اپنی جان نہ لے سکی۔ وہ زندہ تھی۔ زاہد کے والدین نے زہرا کے گھر آکر اس کے والدین کو کیسٹ سنایا اور کہا۔ اب بتائو لالہ کہ ہم تمہاری لڑکی کو کیا سزا دیں ؟ منگنی بھی آپ لوگوں نے ختم کی اور اکسایا بھی موت کے لئے تمہاری لڑکی نے میرے بیٹے کو۔ خود تو اس کو اپنی زندگی پیاری لگی اور میرے بچے کی جان گئی۔ اس کی سزا میں دوں گا، زہرا کی جان اپنے ہاتھوں سے لے کر ۔ لالہ کا ظرف بڑا تھا۔ اس نے قسم دی کہ خبردار ! بچے عقل کے کچے ہوتے ہیں۔ اس بے عقل کو ہم نے معاف کیا، تم بھی معاف کر دو۔ قصور تو ہم بڑوں کا ہے ہم نے رشتہ طے کر کے پھر منگنی ختم کر کے ان کے خواب توڑ دیئے۔ اب نسل درنسل دشمنی نہیں کرنی، صلح کی راہ پر چلنا ہے۔ یوں ایک شخص کی فراست سے ان کی نسل خون خرابے سے بچ گئی۔