Tuesday, March 18, 2025

Nadan Larki

میں سمھجتی تھی کہ میرا کوئی آئیڈیل نہیں ، حالانکہ میں نے ایک خوب سیرت انسان کو اپنے خوابوں میں سجایا ہوا تھا اور جب میری سوچوں کے برعکس ایک خوبصورت مگر بدسیرت آدمی سے میری شادی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ میں بھی ایک آدرش رکھتی تھی اور نوشین کو بلا وجہ طنز کا نشانہ بنایا کرتی تھی – نوشین میری ہم جماعت تھی اور ماموں زاد بھی۔ ان دنوں ہم ایف اے کی طالبات تھیں۔ اچھی اسٹوڈنٹ ہونے کے ناتے وہ اول اور میں دوئم پوزیشن لیتی۔ ہماری دوستی مثالی تھی۔ حسد کرنے کی بجائے دونوں مزید محنت سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی تھیں۔ کالج کی سب لڑکیاں جانتی تھیں کہ ہم دونوں میں آپس میں بہت پیار ہے۔ کالج میں تو ہم ہر وقت ساتھ ہوتیں لیکن ہمارے گھر فاصلے پر تھے ، تبھی خاص مواقع پر ہی ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا تھا- ہمارے درمیان یوں تو ذہنی ہم آہنگی تھی لیکن ایک بات پر اختلاف رہتا تھا- وہ ایک آئیڈیل پرست لڑکی تھی اور میں حقیقت پسند – میں اسے سمجھاتی کہ حقیقت اور ایڈیل ندی کے دو کنارے ہیں – جو باہم مل نہیں سکتے لیکن وہ میری اس دلیل سے اتفاق نہ کرتی تھی – اس میں ایک صفت اچھی تھی کہ وہ مجھ کو سچے دل سے دوست سمجھتی تھی اور بھروسہ بھی کرتی تھی- مجھ سے اپنی کوئی بات نہیں تھی – وہ اپنے خوابوں میں ایک ایسے شہزادے کو بسائے ہوئے تھی جو کسی دوسری دنیا کا باسی تھا۔ جب وہ ایک خوبصورت جیون ساتھی کی تمنا کرتی تو میں کہتی کہ جیسا پرتو تیرے خوابوں میں ہے حقیقی زندگی میں ایسا حسین شہزادہ تجھ کو مل نہیں سکتا لہذا تم کسی یوسف ثانی کے خواب دیکھنے کی بجائے کسی خوب سیرت شخص کو بطور جیون ساتھی اپنے رب سے مانگا کرو۔ وہ میری بات پر کان نہ دھرتی بلکہ برا منا لیتی۔ جب موڈ میں ہوتی تو اپنے خوابوں کے شہزادے کی تصویر الفاظ میں کھینچ دیتی۔ کہتی تابندہ! مجھ کو تو گوری رنگت، نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والے ایسے جیون ساتھی کی تمنا ہے جس کا قد لمباہ ہو اور پرسنیلٹی شاندار ہو – جس کے بال گھنگریالے ہوں اور جب وہ مسکرائے تو اس کے لبوں سے پھول جھڑیں۔ تم نے یونانی دیوتائوں کے مجسمے دیکھے ہیں نا ! تبھی میں تنک کر کہتی۔ نہیں، میں نے نہیں دیکھے پتھر کے مجسمے ۔ میں نے تو گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان دیکھے ہیں۔ معمولی شکل وصورت کے عام سی صورت والے لیکن سیرت کے دھنی ہوں تو ہی بات ہے۔ صورت کے گلفام ہوں لیکن عورت کو پیر کی جوتی سمجھتے ہوں۔ ایسے جیون ساتھی کی مجھ کو آرزو نہیں ہے۔ خدارا سوچوں کے اس خوبصورت جال سے نکلو ورنہ اپنی ہی سوچوں میں الجھ کر رہ جاو گی۔ یہ تو سچ تھا کہ ظاہری خوبیوں والے انسان کا باطن بدصورت ہو تو اس کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نوشین کی سوچ کو نہ بدل سکی اس کو حقیقت تسلیم کرانے میں ناکام رہی اور وہ اپنے خوابوں کے بھنور کے حصار سے باہر نہ نکل پائی۔ وہ بحث میں مجھے یہ کہہ کر ہرا دیتی کہ میری طرف دیکھو۔ میں خوبصورت ہوں تو میر اجیون ساتھی بھی میری طرح حسین جمیل ہونا چاہیے۔ خوبصورت مرد سے شادی کرنا میر احق بنتا ہے۔ بھلا میں کیوں کسی معمولی شکل کے شخص سے شادی کروں، جو ظاہراً مجھ سے میچ نہ کرتا ہو۔ خواہ وہ ہزار باطنی خوبیوں کا ملک ہو، مجھے نہیں کرنی کسی بدشکل سے شادی۔ بعض اوقات انسان ایسی بات زبان سے نکال دیتا ہے جس میں نفرت اور غرور بھرا ہوتا ہے تب قدرت کی اس پر ناراضگی بھی ہو سکتی ہے۔ وقت گزرتا گیا۔ ہم نے گریجویشن مکمل کر لی تو ہمارے رشتے آنے شروع ہو گئے۔ میں نے امی سے کہہ دیا تھا کہ آپ جس کو میرے لئے منتخب کریں اول بات یہ مد نظر رکھنا کہ وہ اچھی سیرت کا ہو۔ شکل معمولی ہو تو کوئی بات نہیں مجھے قبول ہو گا کیونکہ صورت تو اللہ کی بنائی ہوئی ہے ، مگر ساری زندگی نیک سیرت سے پر سکون چلتی ہے۔ اماں جواب دیتیں۔ یہ باتیں بے وقوف لڑکیاں سوچتی ہیں۔ جوڑے تو آسمان پر بنتے ہیں کسی کی صورت اچھی تو کسی کی سیرت اور خوش قسمت وہ کہ جس کی قسمت میں سیرت و صورت میں دونوں خوبیوں والا جیون ساتھی لکھا ہو۔ انسان تو بس اوپری چھان پھٹک کر لیتا ہے اندر کا حال کسے معلوم۔ چنائو کے عمل میں انسانی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ لڑکا اچھا ہو لیکن اس میں لڑکی کی اپنی قسمت کا بھی دخل ہوتا ہے۔ بس دعا کرنا چاہیے کہ سب اچھا ہو جائے۔ نوشین کے گھر کا ماحول ہمارے جیسا نہ تھا۔ وہ لوگ لڑکی کی رائے نہیں پوچھتے تھے۔ اس کے والد تو بہت سخت مزاج تھے۔ ان کا کہنا تھا لڑکی سے کیا پوچھنا؟ لڑکی کی کوئی پسند نا پسند نہیں ہوتی۔ اس کی رضا و منشا کی چابی اس کے بزرگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ وہ جس سے چاہیں اس کی شادی کر دیں۔ بھلا لڑکی کیا جانے کون اچھا ہے کون برا ہے ؟ ماموں عجیب مزاج رکھتے تھے۔ وہ سنتے سب کی مگر کرتے اپنے من کی تھے۔ اور جس بات پر اڑ جاتے دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس کام سے باز نہ رکھ سکتی تھی۔ ہاں ماموں کی ایک سوچ مجھ سے ضرور ملتی تھی یہ کہ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ خوبصورتی سے زیادہ انسانی کی خوب سیریتی اہمیت رکھتی ہے اپنی بیٹی نوشین کے لئے بھی وہ کسی ایسے رشتہ ہی کے منتظر تھے۔ آخر کار ایک ایسا رشتہ آ ہی گیا اور یہ ممانی کے دور کے رشتہ دار تھے۔ لڑکا نہایت نیک اطور ، شریف النفس اور صاحب حیثیت لیکن شکل وصورت سے کچھ گیا گزرا تھا۔ نوشین کے آئیڈیل سے تو بلکل برعکس تھا لیکن معاشرے میں اس کا مقام تھا، عزت و احترام کے لحاظ سے بھی اور کاروباری ساکھ کے اعتبار سے بھی۔ نوشین کو انہوں نے اس کی خوبصورتی کے علاوہ ذہانت کی وجہ سے بھی پسند کیا تھا۔ لڑکے نے جب نوشین کی ایک جھلک دیکھی تو اسی سے شادی کرنے کا سوچ لیا ۔ وہ اپنے جذبے میں سچا تھا مگر نوشین نعیم کا مذاق اڑاتی تھی کہتی کہ اس شخص کے خواب تو دیکھو ! کوئے کی چونچ میں انار کی کلی۔ میں نے کہا۔ نوشین کیا معمولی صورت والوں کو خوبصورت خواب دیکھنے کا حق نہیں ہوتا؟ شکل وصورت کے لحاظ سے تو وہ لڑکا ممانی جان کو بھی ایک آنکھ نہ بھایا مگر ماموں کا تو اپنا الگ سوچنے کا رنگ ڈھنگ تھا۔ وہ نعیم سے ملتے ہی دل و جان سے اس پر فدا ہو گئے اور اسی کو داماد بنانے کی ٹھان لی۔ وہ بیوی کو سمجھاتے کہ نیک بخت ! قدرت نے نعیم کو ایسی متوازن شخصیت سے نوازا ہے کہ اس کے باطن کی خوبصورتی کو لوگ نہیں دیکھ سکتے ، کیونکہ ان کی آنکھوں پر تو ظاہری حسن کی چکا چوند سے پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اب ان کے گھر میں کش مکش شروع ہو گئی۔ نوشین کہتی کہ میں نعیم جسے بد شکل سے شادی نہ کروں گی اور اس کی ماں اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتیں کیونکہ شوہر کے فیصلے کو جانتی تھیں کہ وہ کسی صورت یہ رشتہ ہاتھ سے کھونا نہ چاہتے تھے۔ بیوی تو میاں کا موقف سمجھ گئیں لیکن نوشین کو کون سمجھاتا۔ وہ ماں سے جھگڑتی تو ادھر ماموں نے کہہ دیا کہ نوشین کی شادی جہاں میں چاہوں گا وہیں ہو گی۔ زندگی کا تجربہ ہمیں ہے یا اس کو ؟ جس دن نوشین کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی، اس کو سکتہ ہو گیا۔ اس کو یقین نہ آرہا تھا کہ واقعی اس حور پری کو اس کے آئیڈیل کے بر عکس انسان کے پلے باندھا جارہا ہے۔ تصوراتی شہزادے کی تصویر جو برسوں سے ان کے تخیل کے پر دے پر ثبت رہی تھی اس کی وجہ سے ہی نعیم کی اچھائیاں بھی پس منظر میں جارہی تھیں۔ وہ اس کے بارے میں سوچنا تک اپنی توہین خیال کر رہی تھی، کجا کہ وہ اب اس کا دولہا بننے جارہا تھا۔ جب اس کی جھیل جیسی آنکھوں سے ساون بھادوں کی دھواں دھار بارش نے بھی ماموں پر کوئی اثر نہ کیا تو اس نے بھوک ہڑتال کر ڈالی۔ ماموں اس کی آنکھ میں آنسو کا ایک قطرہ نہ دیکھ سکتے تھے لیکن اب وہ ایسے سخت دل ہو گئے کہ کہتے کوئی باپ اولاد کی برائی نہیں چاہتا۔ نوشین مجھے عزیز ہے تو ہی اس کی بھلائی میں یہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ اس وقت جذباتی ہو رہی ہے ، جب شادی ہو گی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو کیا خبرہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی قصہ مختصر وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ نہ ہے۔ مایوں کے روز نوشین کی حالت دیکھنے والی نہ تھی۔ اس پر چھاجوں وحشت برس رہی تھی۔ مجھ کو حوصلہ نہ ہوا کہ اس کو دلاسا دیتی۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھ آئی کہ مجھ سے اس کی اتنی افسردگی دیکھی نہ جاتی تھی۔ شام کو کسی نے آکر بتایا کہ نوشین نے زہریلی گولیاں کھالی ہیں۔ میری تو جان ہی نکل گئی۔ اس کو اسپتال لے گئے۔ بہر حال بر وقت طبی امداد سے اس کو بچا لیا گیا۔ سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ دولہا والوں تک یہ بات نہ پہنچنے دی گئی۔ معمولی تکلیف کا بتا کر شادی کی تاریخ آگے بڑھا لی گئی۔ کافی جدوجہد کے بعد ڈاکٹر اس کی زندگی بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سب لوگ پریشان تھے لیکن میں نوشین کے والد کے حوصلے کی داد دیتی ہوں کہ وہ بالکل پرسکون تھے۔ ابھی تک نوشین کے انکار کو بچکانہ حرکت کہہ رہے تھے۔ اس کی حالت سنبھل گئی تور خصتی کی تاریخ دوبارہ رکھی گئی ۔ لڑکے والے نکاح کرنے آئے تو وہ خالی خالی نظروں سے خلا میں گھور رہی تھی۔ بہر حال میں اس کو کچھ نہ کہ سکتی تھی۔ یہ موقع ایسا نہ تھا۔ نکاح ہو گیا اور مرد کمرے سے چلے گئے تو اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ اے خدا مجھے موت دے دے۔ میں کیسے اس بد شکل انسان کے ساتھ زندگی بھر رہوں گی۔ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ایسے موقع پر کوئی خود کو اتنی سنگین بدعا دیتا ہے ؟ شادی ہوئی تھی سو ہو گئی۔ شروع تو نوشین بہت غمگیں لگتی تھی، پھر رفتہ رفتہ اس میں بدلاو آنے لگا۔ نعیم کی شخصیت میں کوئی جادو تھا یا اس نے میری کزن کو اتنی محبت دی کہ وہ اپنی سابقہ سوچوں پر شرمندہ رہنے لگی۔ نعیم نے نوشین کو ایسے رکھا جیسے وہ کسی دیس کی شہزادی ہو۔ اس نے اپنی اچھی عادات کی بدولت بہت جلد اپنی دلہن کو گرویدہ بنالیا۔ اب میں اس کو اس کے خوبصورت آئیڈیل کی یاد دلاتی تو وہ کہتی۔ تم سچ کہتی تھیں۔ واقعی تصوراتی پرچھائیوں اور حقیقی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پرچھائیاں تو محض پرچھائیاں ہوتی ہیں مگر حقیقت سچ ہوتی ہے اور سچ کڑوا ہو کہ میٹھا، اس کو مانا ہی پڑتا ہے، میری ساری سوچیں فضول اور بکواس تھیں۔ نعیم بہت اچھے اور نفیس انسان ہیں۔ ان کی نرم طبیعت نے میرا دل جیت لیا ہے۔ مجھے بھی ان سے محبت ہو گئی ہے۔ ان کی اس محبت کو نجانے کس کی نظر لگی کہ ایک رات نوشین کے پیٹ میں شدید درد تھی ۔ اس کو فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ جو گولیاں اس نے خود کشی کی خاطر کھائی تھیں انہوں نے اس کے معدے پر برے اثرات ڈالے تھے اور رفتہ رفتہ یہ اثرات زخم بن گئے تھے۔ جب نوشین کو پتا چلا تو وہ بہت روئی۔ اس نے کہا کہ اب میں مرنا نہیں چاہتی۔ بار بار کہتی تھی کہ میرے دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں۔ میں ان کے پاس رہنا چاہتی ہوں ۔ خدارا کوئی مجھے مرنے سے بچا لے۔ اس کی یہ باتیں دل کو ہلا دینے والی ہوتیں ، لیکن زخم ناسور بن گئے تھے اس لئے تجویز ہوا کہ اس کا علاج بیرون ملک کرانا چاہیے۔ نعیم بھائی کے پاس دولت کی کمی نہ تھی۔ جس روز اس کو امریکہ لے جا رہے تھے ، وہ ایئرپورٹ پر ہر کسی کو عجیب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو اور اس کے شوہر کی ایسی حالت تھی جیسے وہ اجڑ گیا ہو۔ نعیم بھائی کی حالت دیوانوں کی سی ہورہی تھی۔ انہوں نے نوشین کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا اور وہ بار بار کہتی تھی کہ میں تمہیں اور اس خوبصورت زندگی کو چھوڑ کر کہیں جانا نہیں چاہتی۔ وہ بار بار میرے گلے لگ کر کہتی تھی۔ امی سے کہنا میرے بچوں کا بہت خیال رکھیں گی۔ میں جلد لوٹ آئو گی۔ جاتے جاتے اس نے یہ آخری جملہ کہا جس کو میں عمر بھر نہیں بھلا سکتی اس نے کہا تھا۔ میں خود کو رخصتی والے دن بد عادے رہی تھی شاید میری وہی بدعا مجھے لگ گئی ہے۔ میں بہت ناشکری ہوں نا۔ اس کو معدے کا کینسر ہو گیا تھا اور اس کا آپریشن ہونا تھا۔ ہم سب اس کی زندگی کی دعا کر رہے تھے لیکن کسی کی دعانے اثر نہیں کیا۔ آپریشن کامیاب نہ ہوا۔ پندرہ روز بعد اس کی لاش واپس آگئی۔ نعیم بھائی بے حس و حرکت ایک ایک کا منہ تک رہے تھے۔ جس شخص کو اس نے بد شکل کہہ کر اسے نجات حاصل کرنا چاہی تھی وہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے ساتھ وفادار تھا۔ اس نے اپنے بنگلے کے احاطے میں اس کی قبر کھدوائی اور بچوں کی پرورش کی خاطر گھر میں ہی دفتر بنالیا۔ اس بد صورت شخص نے خوبصورتی کی ایسی مثال قائم کی کہ نوشین کی روح بھی حیران ہوتی ہو گی۔ اتنے برس ہو گئے آج بھی وہ صبح سویرے روزانہ نوشین کی قبر پر تلاوت کرتا ہے، اپنے ہاتھ سے ارد گرد کی صفائی کرتا ہے۔ افسوس کہ ایک نادان لڑکی نے اپنی نادانی کے باعث اپنا سب کچھ کھو دیا اور زندگی کی بازی وقت سے پہلے ہار گئی –

Latest Posts

Related POSTS