والد صاحب پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ ان کی ملازمت کو تین سال کا عرصہ ہوا تھا کہ ان کی شادی ہو گئی۔ والدہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ والد صاحب کا تعلق ایک غریب دیہاتی گھرانے سے تھا، تبھی ابا کی سوچ بھی کچھ گائوں والوں کے ماحول سے مطابقت رکھتی تھی۔ والدہ اپنے جیون ساتھی کے برعکس تھیں، یہی وجہ تھی کہ وہ ابا کو ہر بات پر دیہاتی ہونے کا طعنہ دیتی تھیں۔ کچھ عرصہ تو برداشت کیا مگر رفتہ رفتہ وہ بھی بیوی کے ان طعنوں کا بر ملا جواب دینے لگے۔ اب لڑائی جھگڑا معمول بن گیا۔ اسی دوران ماں نے مجھے جنم دیا۔ میں نہایت گوری چٹی، خوبصورت اور معصوم سی تھی مگر دادی نے اس کارن گود میں نہ لیا کہ ان کو امید تھی پوتا ہو گا۔ بھلا اس میں والدہ کا کیا قصور، یہ تو اللہ کی مرضی تھی۔ خیر والد صاحب نے ماں کو سمجھایا۔ ان کے سمجھانے سے دادی چپ ہو گئیں۔ اصل پھوٹ تو اس وقت پڑی جب میری ماں نے یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی لائن لگادی۔ والد صاحب، دیہاتی سہی، پر پڑھے لکھے تھے۔ وہ ہم چاروں بہنوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ دادی سے بھی کہتے۔ ان معصوموں کو کچھ مت کہا کرو، ورنہ خُدا ہم سے ناراض ہو جائے گا۔ ان کی شادیاں بھی تو کرنی ہیں اور تم ایک معمولی ٹیچر ہو۔ دادی جواب دیتیں۔ تو کیا ان کو ڈانٹ ڈپٹ میں رکھنے سے ان کے نصیب سنور جائیں گے ؟ یہ تو اللہ کی رحمتیں ہیں بس ان کے لئے دُعا کیا کرو۔ سب سے بڑی میں تھی۔ جب سے پیدا ہوئی ، گھر میں جھگڑا ہی دیکھ رہی تھی۔ کبھی والد صاحب والدہ میں، کبھی دادی کامیری ماں کے ساتھ اور کبھی پھوپھیاں آستین چڑھائے لڑنے پہنچ جاتیں۔ ماں کو اپنے گھر کے ماحول سے اتنی نفرت تھی کہ وہ ہر وقت افسردہ اور آدم بیزار رہنے لگی تھیں۔ کبھی کبھی ہم بیٹیاں بھی ان کے اس چڑ چڑے پن کی لپیٹ میں آ جاتیں۔ ظاہر ہے میرے حساس ذہن نے ان حالات کا بہت اثر لیا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائوں۔ لڑائی جھگڑے کا خوف تو بہت بچپن سے میرے دل میں بیٹھ گیا تھا۔ جوں جوں شعور آنے لگا، دن بہ دن حساس اور خاموش رہنے لگی۔ پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ یوں بھی میں ذہین نہ تھی ، شاید یہی وجہ ہو گی کہ والدین نے آٹھویں کے بعد اسکول سے اُٹھالیا تھا۔ ماں کی خواہش کے باوجود میٹرک نہ کر سکی۔ اسکول چھوڑا تو گھر کی ذمہ داریاں میرے سر پر آ رہیں۔ دن بھر خاموشی سے کام میں لگی رہتی۔ کسی سے بات چیت اور نہ ہنسی مذاق ، ہر وقت یہی خوف ذہن پر سوار رہتا نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد ابا کے جاننے والوں نے ان کو ایک رشتے کے متعلق بتایا۔ ابا جلد سے جلد اپنی بیٹیوں کا بوجھ اُتارنا چاہتے تھے اور ویسے بھی آئندہ حالات کا کیا بھروسہ تھا۔ ابھی انہوں نے اپنی تین بیٹیوں کی بھی شادی کرنی تھی تبھی والد نے ان لوگوں سے جو رشتہ لانا چاہتے تھے، کہا کہ ان کو ہمارے گھر بھیج دو۔ لڑکے والے ہمارے گھر رشتہ دیکھنے آ گئے۔ میری شکل وصورت اچھی تھی، انہوں نے دیکھتے ہی پسند کر لیا۔ والدہ سے کہنے لگے۔ ہم صرف اچھی سیرت والی بہو چاہئے ، جو سلیقہ شعار ہو، کھانا پکانا جانتی ہو۔ اس سے زیادہ ہم کو کچھ نہ چاہئے۔ اس بات کی تو آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میری ماں نے جواب دیا۔ میری بیٹی نیک سیرت اور گھریلو کام کاج میں طاق ہے، بس ایک کمی ہے کہ چالاک اور زمانہ ساز نہیں ہے ، زمانے کی باریکیوں کو نہیں سمجھتی۔ یہ تو اچھی بات ہے، ہمیں بھی ایسی بہو چاہئے جو چالاک نہ ہو بس سیدھی سادی ہو۔ اسی وقت رشتہ پکا ہو گیا اور دوماہ بعد میری شادی ہو گئی۔ پہلے پہل تو انہوں نے مجھے بہت پیار دیا پھر ان کے اصل چہرے میرے سامنے آنے لگے۔ پہلی ہی رات پیار و محبت کی باتیں کرنے کی بجائے میرے دولہا نے ایسی باتیں کیں جو کچھ فلسفیانہ قسم کی تھیں، میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔ انہوں نے کہا۔ میں سمجھ گیا کہ تم نہ صرف کم پڑھی لکھی ہو بلکہ تم میں سوجھ بوجھ کی بھی کمی ہے۔ ہماری اماں اپنے لئے خدمت گار بہو چاہتی تھیں لہذا ان کو مل گئی ہے۔ تم میں تو معمولی موضوع پر بات کرنے کی اہلیت نہیں ہے ، میں تم سے خوش رہوں نہ رہوں، میری ماں تمہارے ساتھ بہت خوش رہیں گی۔ گویا شہاب نے پہلی رات مجھے قبول نہ کیا۔ باقاعدہ میرا انٹر ویو لیا اور میں انٹر ویو میں فیل ہو گئی۔ وہ ایسی بیوی چاہتے تھے جو ہر لحاظ سے ان کے برابر کی ہو ، سوچ اور خیالات میں اور تعلیم و تہذیب میں۔ وہ بہت پڑھے لکھے تھے ، ان کی سوسائٹی بھی پڑھے لکھوں کی تھی۔ وہ چاہتے تھے میں ہر جگہ ان کے ساتھ جائوں ، مجھے ڈھنگ سے بات کرنا آتا ہو، پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ سوشل بھی رہوں۔ شاید میری ساس نے بیٹے سے کچھ غلط بیانی سے کام لیا ہو گا کہ لڑکی پڑھی لکھی ہے حالانکہ میں تو صرف مڈل پاس تھی۔ البتہ یہ بات صحیح تھی کہ میں خُوبصورت تھی اور سگھڑ بھی اور میری ساس نے ان ہی دو خوبیوں کو اہمیت دی تھی۔ یہ نہیں دیکھا کہ ان کا بیٹا کیسی خوبیاں اپنی شریک حیات میں دیکھنا چاہتا ہے۔ میں وہ سب کچھ نہ کر سکتی تھی اور ویسی بن ٹھن کر محفلوں میں نہیں جاسکتی تھی جیسا میر اشوہر چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آئے دن وہ مجھ سے الجھنے لگے۔ کہتے، ماڈرن کپڑے پہنو، پارلر جائو، نئے انداز کے بال بنوائو اور میں انکار کر دیتی۔ اب وہ کسی کے سامنے بھی مجھے بُرا بھلا کہنے سے گریز نہ کرتے۔ گنوار تک کہہ ڈالتے تھے۔ جب شوہر بیوی کا ساتھ دینے والا نہ ہو تو لوگوں کو بھی ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں سُسرال والوں کے ساتھ لاکھ اچھی سہی لیکن شوہر کے رویئے کو دیکھتے ہوئے سُسرال والوں کے دلوں میں بھی میرے لئے کوئی مقام نہ رہا۔ وہ مجھے ہر وقت مختلف قسم کے طعنے دینے لگے۔ ہر وقت ان کی زبان پر میرے لئے یہ الفاظ ہوتے۔ ہمارا بیٹا، اتنا خُوبصورت، اچھی نوکری والا ، پڑھا لکھا جانے اس نے اپنی بیوی کے کیسے کیسے خواب دیکھے ہوں گے۔ اس نے تو فیصلہ ہم پر چھوڑا تھا، ہم ہی نے اس کی خواب اس کے تمام ارمان مٹی میں ملا دیئے۔ نندیں بھی ماں سے اب یہی کہنے لگیں۔ جب ہمارا بھائی شادی سے خوش نہیں تو ایسی بیوی کس کام کی۔ ہمار ا بس چلے تو ہم اپنے بھائی کی دوسری شادی کروا دیں۔ ان کی باتیں سن کر میں اندر ہی اندر کڑھتی تھی مگر کسی سے کچھ نہیں کہتی تھی۔ حتی کہ اپنے والدین سے بھی اس بارے بھی ذکر نہ کیا کہ ان کو تکلیف ہو گی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد میں ایک خوبصورت بیٹے کی ماں بن گئی۔ میں نے اللہ کالاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے بیٹے سے نوازا۔ کم از کم سسرال میں میرے پائوں تو جمے۔ سال بعد بیٹی ہو گئی۔ اپنے بچوں کی پرورش میں، میں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اپنی طرف سے میں ان کی پرورش اچھے طریقے سے کر رہی تھی۔ ان کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہتی اور اپنی جان ان پر نچھاور کرتی تھی۔ اس پر بھی میرے شوہر اور سسرال والے کہتے۔ ان پڑھ ہے کیو نکر صحیح طرح بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ کاش ہم پڑھی لکھی بہو لاتے۔ میں یہ سب اس لئے برداشت کر رہی تھی کہ ابھی میری تین بہنوں کی شادیاں ہوئی تھیں۔ نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے ان کا مستقبل خراب ہو۔ میں نے خود کو بدلنے کی کوشش کی کہ ویسی بن جائوں جیسا شوہر اور اس کے گھر والے دیکھنا چاہتے ہیں مگر ناکام رہی۔ کافی حد تک حالات سے سمجھوتہ کر لیا، لیکن انسان چلتا تو اپنی فطرت پر ہے پھر میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔ میں اپنی ماں کا حال دیکھ چکی تھی اور سبق حاصل کر چکی تھی کہ مقابلہ کرنے اور جواب دینے سے بہتر ہے کہ عورت چُپ رہے۔ اس طرح ہی وہ اپنے بچوں کے لئے گھر کی فضا میں سکون لاسکتی ہے، ورنہ بچے پر یشان ہوتے ہیں۔ اب تو میں چار بچوں کی ماں تھی۔ خُوب جانتی تھی کہ ترکی بہ ترکی جواب دینے سے جھگڑا بڑھتا ہے۔ اس طرح حالات بہتر نہیں ہوتے بلکہ اور خراب ہوتے ہیں۔ بے شک میں نے بہت صبر سے کام لیا لیکن آخر تو انسان تھی ، اب میرے صبر کے بندھن ٹوٹ رہے تھے۔ میں خوب رونا چاہتی تھی، اپنی حالت کے بارے کسی کو بتانا چاہتی تھی مگر یہاں میرا کوئی بھی اپنانہ تھا جو میرے دکھ درد بانٹ سکتا۔ تبھی سب در دو غم اپنے سینے میں دفن کرتی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیمار پڑنے لگی۔ ایک بار بیماری غالب آجائے اور حالات بہتر نہ ہوں تو پھر بیماری بار بار حملہ آور ہوتی ہے۔ میں آئے دن بیمار رہنے لگی۔ وہ جو ایک خوبی کچھ میں موجود تھی کہ میں خوبصورت تھی اور صرف اسی خوبی کی بنا پر شہاب کو امی مجھے پسند کر کے بہو بنا کر لائی تھیں، بیماری کی وجہ سے وہ بھی باقی نہ رہی تھی۔ حسن گہنا گیا، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے ، چہرہ بے رونق اور رنگ اُڑا اڑا سا۔ تھوڑا سا کام کرنے سے سانس پھولنے لگتا، آرام کی نیت سے ذرا سا لیٹ جاتی تو گھر میں شور برپا ہو جاتا کہ ہم تمہیں آرام کرنے کے لئے تو نہیں لائے تھے۔ سارے گھر کا کام پڑا ہے۔ اگر ہر وقت پلنگ پر بچھی رہے گی تو کام کون کرے گا؟ ان باتوں سے بچنے کے لئے مجھ کو مجبورا کام کرنا پڑتا۔ نندیں کالج جاتی تھیں اور ساس کہتی۔ میں تو بوڑھی ہوں، کام کیسے کر سکتی ہوں، کام تو تم کو ہی کرنا پڑے گا۔ وہ ملازمہ بھی نہ رکھتی تھیں کہ ان کو نوکرانیوں کے ہاتھ کا کام پسند ہی نہ تھا۔ ان ذلت آمیز جملوں سے بچنے کی خاطر مرتا کیا نہ کرتا، مجبوراً اٹھ کر کام کرنے لگتی۔ شوہر رات گئے آتے اور آکر سو جاتے جیسے ان کو مجھ سے کوئی علاقہ ہی نہ ہو۔ کبھی میٹھانہ بولتے۔ ہم ایک ہی کمرے میں دو اجنبیوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ وہ میرے ہو کر بھی میرے نہ تھے۔ ایک عزت دار شخص کی بیوی تھی لیکن تمام رشتوں کے ہوتے تہی دامن چھت ضرور تھی۔ شہاب نے کبھی نہ پوچھا کہ تم کو کچھ چاہئے ؟ میری عادت ویسے بھی کسی سے کچھ مانگ کر لینے کی نہ تھی۔ جو مل گیا کھا لیا، جو مل گیا پہن لیا۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چُپ کا روزہ رکھ لیا۔ میں روز روز کے جھگڑوں سے گھبراتی تھی، اس لئے چُپ رہتی تھی کہ میرا انجام بھی میرے والدین جیسا نہ ہو۔ وہی تاریخ دہرائی جارہی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں اماں رُعب دار تھیں، یہاں میرے شوہر ۔ سوچ سوچ کر ڈرتی تھی کہ ان جھگڑوں کا اثر میرے بچوں پر نہ پڑ جائے، جس طرح میرے والدین کے جھگڑوں کا اثر ہم بہنوں پر ہوا، تبھی ایسی کوئی بات ہی منہ سے نہ نکالتی کہ جو جھگڑے کی بنیاد بنے۔ ایک منحوس دن میری ایک سہیلی آگئی۔ میں اکیلی بیٹھی تھی، دل پر منوں بوجھ تھا۔ صبح ہی زارا کے ابا بلاوجہ جھگڑا کر کے گئے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ چیخ چیچ کر روئوں ، بھلا بات ہی کیا تھی، انہوں نے کہا تھا کہ بنیان دھودینا۔ میں نے دھو کر رسی پر ڈالی، وہ دیور صاحب پہن کر چلے گئے بنا بتائے، بھلا اس میں میرا کیا قصور ؟ جب شہاب آفس جانے کو تیار ہونے لگے تو بنیان نہ تھی۔ کہا تم نے دھوئی نہیں ہو گی ، اب جھوٹ بول رہی ہو ۔ مجھے کو دس سنا دیں۔ میں رونے لگی، میلی بنیان اٹھا کر میرے منہ پر ماری اور بغیر کپڑے تبدیل کر کے چلے گئے۔ نندیں کالج اور بچے اسکول جا چکے تھے، ساس بھی پڑوس میں چلی گئیں۔ میں اکیلی بیٹھی ہی تھی کہ فاضلہ آگئی۔ یہ برسوں بعد مجھ سے ملنے آئی تھی۔ مجھ کو روتے دیکھ کر پوچھا کیا ہوا؟ مجھے اس وقت کسی غمگسار کی ضرورت تھی ، ذراسی ہمدردی پا کر پھٹ پڑی۔ اس کے کندھے پر سر رکھ کر خُوب روئی تو اس نے کہا۔ بے ہمت بنی ہوئی ہو ، اسی لئے اتنادُکھ سہ رہی ہے۔ ذرا ہمت سے کام لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ تو کیا کروں فاضلہ ! کدھر جائوں؟ باپ بے چارہ کمزور بوڑھا، جس کے در پر تین بن بیاہی سیٹیاں بیٹھی ہیں۔ خاوند کو کہہ دو، میں جارہی ہوں۔ چند دن میکے چلی جائو، بچے بھی چھوڑ جائو۔ یہ بچے سنبھالیں گے۔ گھر کا کام کریں گے تو جلد تمہاری قدر آجائے گی۔ جانے میں کس موڈ میں تھی کہ بچوں کے اسکول سے لوٹ آنے کا بھی انتظار نہ کیا۔ گھر کی چابیاں پڑوسن کو تھما کر کہا کہ ساس آئے تو، تو کہ دینا۔ مومنہ چلی گئی ہے، اپنا گھر بار پوتے پوتی سنبھالو۔ میں اب اس عقوبت خانے میں نہیں رہ سکتی۔ مجھے مت ڈھونڈنا میکے نہیں جارہی۔ میں اب تمہارے گھر بھی لوٹ کر نہ آئوں گی۔ سہیلی کے اکسانے پر بغیر سوچے سمجھے گھر سے قدم نکالا۔ نہیں جانتی تھی کہ یہ قدم مجھے بہت مہنگا پڑے گا، ہمیشہ کے لئے بچوں کا منہ دیکھنے کو ترس جائوں گی۔ اے کاش! اس وقت عقل سے کام لیتی اور اپنی والدہ کو گھر سے بلوا کر ان کے ساتھ ہی چلی جاتی۔ فاضلہ کے گھر تمام دن رہی۔ رات آئی تو سوچا کہ میکے جائوں۔ کم از کم ان کو بتائوں کہ کہاں ہوں اور کیسے حالات سے نکلی ہوں۔ رات کو ماں کے پاس پہنچی۔ وہاں میرا ماتم تھا کہ خدا جانے کہاں گئی، کس کے ساتھ بھاگ گئی ؟ میں نے ماں سے کہا۔ میں کسی کے ساتھ نہیں بھاگی۔ فاضلہ کے گھر تھی۔ ماں نے کہا۔ اوّل تو گھر سے قدم نہیں نکالنا تھا اور اگر آنا ہی تھا تو مجھے فون کرتی، میں آجاتی۔ گھر کی چابیاں میرے سامنے ساس کے حوالے کرتی۔ اب تو تجھ پر ہر سو طرح طرح کے الزامات لگ گئے ہیں۔ وہ تو تھانے تیری گم شدگی کی اطلاع درج کرانے جارہے ہیں کہ بہو ہمارے گھر سے نقدی اور زیورات بھی لے گئی ہے اور نجانے کس کے ساتھ گئی ہے۔ میں نے یہ سنا تو ہوش اُڑ گئے۔ یہ تو سوچا بھی نہ تھا کہ ایسے بھی ہوتا ہے۔ ابا الگ حیران تھے کہ اب کیا کریں ؟ فوراً بھاگے ہوئے گئے ، میرے خاوند کو بتایا کہ سہیلی کے گھر پر تھی، ہمارے گھر آگئی ہے۔ وہ نہ مانے ، بولے۔ ہم کیا جانیں سہیلی کے یہاں تھی کہ کہیں اور تھی۔ اب ہم اسے نہ رکھیں گے۔ اتنالحاظ کرتے ہیں کہ تھانے میں رپٹ نہیں لکھواتے کہ کچھ گھر سے لے کر نہیں گئی مگر اب ہم اس کو گھر واپس نہیں لائیں گے۔ والد صاحب غمزدہ واپس آگئے۔ تینوں بہنیں بھی رونے لگیں کہ ان کو بھانجے اور بھانجیوں سے بہت پیار تھا اور اب تو ان سے ملنا نصیب کی بات تھی کہ بچے بھی میں ان کے باپ کے گھر چھوڑ کر آ گئی تھی۔ یہ ہے عورت کی حیثیت اور اس کی خطا۔ قصور وار نہ بھی ہو تو سزا ملتی ہے اور ہر قدم سُسرال میں پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ پانچ سال گزر گئے ، والدین کے گھر رہتے ہوئے۔ ایک دن بھی انہوں نے بچے نہ دکھائے۔ کہتے تھے کہ ہم نے تو نہیں چھینے تھے ، خود ہی چھوڑ کر گئی تھی۔ بچوں کی صورت دیکھنے کو ترس گی۔ سب کہتے کہ بچے تو اب عدالت سے ملیں گے ۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ عدالت تم کو بچے دیتی ہے تو ہم بھی دے دیں گے۔ بچوں کی یاد ستاتی تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا۔ وہ میرے بغیر کیسے تیار ہو کر اسکول جاتے ہوں گے ؟ کیا سوچتے ہوں گے کہ ان کی ماں کہاں چلی گئی ؟ نجانے سسرال والے ان سے میرے بارے کیا کہتے ہوں گے ؟ کیسی الٹی سیدھی باتیں ان کو میرے بارے نہیں بتاتے ہوں گے۔ کتنی اذیت ان کو ملی اور کتنی مجھے ، پھر بھی حاصل کیا ہوا؟ اس سے تو وہی حالت اچھی تھی کہ اپنے گھر میں اپنے بچوں کے پاس تو تھی۔ بچے میری آنکھوں کے سامنے رہتے اور مجھے ان کے کام کر کے سکون ملتا تھا۔ اے کاش ! میں ہی کچھ اور صبر کر لیتی اور سہیلی کے اکسانے میں گھر نہ چھوڑتی۔ والد صاحب کہتے ہیں بیٹی صبر سے رہو ۔ کسی دن شہاب کو خیال آئے گا تو آ کر لے جائیں گے۔ ہم شریف لوگ ہیں، عدالت جائیں گے اور نہ طلاق ما نگیں گے۔ سُنا ہے کہ ساس بیٹے کے لئے لڑ کی ڈھونڈتی پھرتی ہے لیکن چار بچوں کا سُن کر لوگ پرے ہٹ جاتے ہیں۔ دن رات دُعا کرتی ہوں کہ اللہ میرے دن پھیر دے۔ شہاب کو میرا خیال آجائے اور وہ مجھے از خود لینے آجائیں تاکہ میں اپنے بچوں میں جا کر آباد ہو جائوں۔ سچ کہتی ہوں کہ بچوں کی جدائی بھی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے ، ان سے جدا رہ کر ماں کبھی سکون سے نہیں رہ سکتی۔ یہ ماں ہی ہے جو بچوں کی حفاظت کر سکتی ہے ، اس لئے گھر سے قدم نکالتے وقت عورت کو سو بار سوچنا چاہئے۔