Sunday, April 20, 2025

Naeki Ka Sila

ییٹا! میری کچھ مدد کر دو میرا بٹوہ کھو گیا ہے ۔ مجھے گھر جانا ہے، میرے پاس کرایے کے پیسے نہی ہیں، مجھے صرف ڈیڑھ سو روپے چا ہئیں ۔”دوائیوں کی لائن میں لگی عورتوں سے وہ ضعیف عورت کہ رہی تھی ۔ کسی نے دس روپے ، کسی نے بیس روپے دیئے۔ کچھ کہنے لگیں۔ ان عورتوں کے پاس بھی مانگنے کے نت نئے طریقے ہوتے ہیں۔ ہم تو خود پریشان ہیں ۔ فاطمہ نے بھی پچاس روپے دیئے۔اماں! آپ کے پاس فون نمبر نہیں ہے؟ میں فون کر دیتی۔ کوئی آپ کو آپ کے گھر سے لینے آجاتا ۔ فاطمہ نے اس عورت سے پوچھا۔ بیٹا نمبر بھی میرے بٹوے میں تھا۔ پتا نہیں پرچیاں نکالتے ہوئے بٹوہ گر گیا ۔ وہ عورت بولی۔ فاطمہ بھی دوائیوں کی لائن میں لگی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہی اماں ایک کونے میں پریشان کھڑی اپنے آنسو صاف کر رہتی ہیں۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس نے اشارے سے اماں کو اپنے پاس بلایا۔ اماں! آپ کے پیسے پورے نہیں ہوئے؟ بیٹا پیسے تو پورے ہو گئے۔ اب دوا کے لیے کھڑی ہوں ۔ جو آتا ہے مجھے دھکیل کر آگے آجاتا فاطمہ نے اسے دوائیاں لے کر دیں تو وہ عورت فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیروں دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئی۔

دوائیوں وغیرہ سے فارغ ہو کر ایک جگہ بیٹھ کر فاطمہ نے کیک کا پیکٹ نکالا کھانے کے لیے (چونکہ سرکاری اسپتالوں میں بچ جلدی جانا ہوتا ہے، اکثر جلدی میں وہ بغیر ناشتے کے نکل جاتی تھی۔ صرف جائے پی کر) جیسے ہی کیک نکالا برابر میں بیٹھا بچہ دیکھنے لگا۔ وہ اس نے اسے دے دیا۔ بچے کو مسکراتا دیکھ کر اس کے دل میں ڈھیروں سکون اور اطمینان اتر آیا۔ ناشتہ تو میں گھر جا کر بھی کرلوں گی ۔ فاطمہ نے اسپتال سے باہر آتے ہوئے سوچا۔ باہر آ کر رکشہ دیکھنے لگی، چونکہ اسپتال کے باہر واپسی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ملتی ، صدر آ کر ہی ملتی ہیں۔ بھائی صدر جانے کے کتنے لوگے؟ کوئی بولا دو سو کسی نے ڈیڑھ سو بتائے ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ بھی رکشہ دیکھ رہی تھی جب وہ رکشہ میں بیٹھ گئی تو فاطمہ کو آواز دی سنیں آپ ادھر آجا ئیں۔ مجھے بھی صدر جانا ہے ۔ اس اسٹوڈنٹ نے فاطمہ سے کہا۔ یہ کتنا کرایہ لے رہے ہیں؟ فاطمہ نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے پوچھا ؟ آدھا میں دے دوں گی ۔ کوئی نہیں آپی ! کرایہ میں دے دوں گی۔ مجھے تو ویسے بھی جانا تھا۔ آپ بھی بیٹھ گئیں تو کیا ہوا ۔ فاطمہ نے بہت زور دیا مگر وہ اسٹوڈنٹ نہیں مانی کرایہ اس نے ہی دیا۔ آپی ! آپ بس دعا کرنا میرے پیپر اچھے ہوں ۔ اس طالبہ نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔ بیٹا ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں ہر امتحان میں کامیاب کرے فاطمہ نے بھی مسکراتے ہوئے اسے الوداع کہا اور بس میں بیٹھی۔ اسے اپنی دوست نازی کے پاس جا نا تھا ( وہ عدت میں تھی )، وہ گھر پر بتا کر آئی تھی، کہ وہ نازی سے ملتی ہوئی آئے گی۔ صبح نو بجے سے گھر سے نکلی ہوئی دو پہر دو بج گئے ۔ اسٹاپ پر سوچا کچھ کھالوں، بھوک لگ رہی ہے۔ پھر سوچا روزے رکھتے ہیں تب بھی تو صبر ہوتا ہے۔ اب اپنے گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔ راستے میں اس نے فروٹ اور چیزیں لیں، نازی کے گھر پہنچی تو تین بج گئے تھے۔ اب پہنچی ہیں آپ کہاں رہ گئی تھیں۔

میں بارہ بجے سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں ۔ نازی نے گلے ملتے ہوئے کہا۔ اس نے فون پر صبح بتا دیا تھا اسپتال سے واپسی پر تمہاری طرف ہوتی ہوئی آؤں فون کہاں ہے آپ کا نمبر بند جا رہا تھا ۔ نازی نے کہا۔ چار جنگ ختم ہوگئی ، صبح جلدی جلدی میں چارج نہیں کیا ۔ میں پریشان ہوگئی راستے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی تھی ؟”ہاں آج کچھ زیادہ دیر ہوگئی ۔ (اب کیا بتاتی کہ کسی کو پانی لا کر دیا۔ کسی کو چائے ناشتہ لا کر دیا کسی کا بیٹھ کر دکھ درد سنا ۔ ) آپ منہ ہاتھ دھولیں۔ میں کھانا نکال رہی ہوں۔ نازی اٹھتے ہوئے بول۔ میں کھانا گھر جا کر کھاؤں گی تم بس چائے پلا دو ۔ سر میں درد ہو گیا ۔ چپ کر کے بیٹھ جائیں آپ ، آپ کے انتظار میں نہ ہم نے ناشتہ کیا اور نہ ہی کھانا کھایا”۔ نازی نے مصنوعی غصے سے کہا۔ فاطمه کنزا( نازی کی بیٹی) سے اس کی پڑھائی وغیرہ کے متعلق پوچھنے لگی ۔ تم لوگ کھانا تو کھا لیتے۔ اتنا ٹائم ہو گیا ۔ فاطمہ نے پیار سے کہا۔ بس سوچا آپ آئیں گی تو آپ کے ساتھ ہی کھائیں گے۔ کنز امعصومیت سے بولی۔ نازی کھانا لے آئی۔ چکن بریانی، راستہ ، سلاد پانی لا کر رکھا ، فاطمہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ نازی ! یہ سب کیا ہے۔ تم عدت میں ہو۔ اتنی تکلف کیوں کى ؟ میں تو جو مل جائے خوشی سے کھا لیتی ہوں۔ نہیں آپ کھانا کھائیں وہ (نازی کے شوہر) کہتے تھے کہ آپ کو بریانی بہت پسندہے۔ (نازی کے شوہر فاطمہ کی خالہ کے بیٹے تھے۔) تینوں نے نم آنکھوں سے کھانا کھایا، ناز یہ شہزاد کی باتیں کرنے لگی۔ مما! آپ آنٹی کو اداس نہ کریں۔ کنزا نے فاطمہ کی نم آنکھیں دیکھیں تو بولی۔ ارے بیٹا کیسی بات کر رہی ہو تم ، نازی مجھ سے نہیں کہے گی تو اور کس سے کہے گی۔ میں اس کی دوست ہوں۔  بس آنٹی ہمارے رونے سے, اداس ہونے سے پاپا تو واپس نہیں آئیں گے ورنہ سب سے زیادہ میں روتی ہوں ۔ ہم خوش رہیں گے تو پاپا بھی خوش ہوں گے۔ واقعی آج کل کے بچے بہت سمجھ دار با ہمت اور بلند حوصلہ کے ہیں۔ فاطمہ نے کنز ا کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

اچھا میری اماں! اب تم جاؤ ۔ کو چنگ کے لیے دیر ہو جائے گی ۔ فاطمہ نے اس کو پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ آنٹی میری واپسی تک آپ نے آج جانا نہیں ہے ۔ بیٹا میں پھر آؤں گی صبح سے نکلی ہوئی ہوں۔ تمہارے انکل کا جاب پر جانے کا وقت ہو رہا ہے اور پھر بچوں کو ٹیوشن بھی بھیجتا ہے۔ رک جائیں نا تھوڑی دیر سے چلی جائیے گا، باتیں کریں گے ابھی تو دل بھی نہیں بھرا۔ نازی نے بھی اصرار کیا۔ واپسی پر فاطمہ یہی سوچتی ہوئی آئی ، اللہ کی ذات کتنی بڑی ہے ۔ ہم کسی کے ساتھ نیکی کریں تو کہیں نہ کہیں ہمارے راستے آسان ہو رہے ہوتے ہیں۔ نیکی کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور ان شاء الله اللہ تعالی آخرت میں بھی اجر عطا فرمائے گا۔

Latest Posts

Related POSTS