ناصرہ میری ہم جماعت تھی۔ وہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ اس کا ارادہ ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کا تھا مگر شومئی قسمت جن دنوں ہم ایف ایس سی سال دوئم کے پرچے دے رہے تھے ، اس کے والد کی نوکری جاتی رہی۔ اس کے والد ایک ایسے محکمے میں تھے جو ملک بھر میں رشوت کے معاملے میں مشہور ہے مگر وہ ایماندار آدمی تھے ، رشوت کی طلب انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ اسی وجہ سے اپنے راشی افسران کو خوش نہ کر سکے اور انہیں کسی چھوٹی سی غلطی کے بہانے سے معطل کر دیا گیا، تبھی انہوں نے ضمیر فروشی سے بہتر جانا کہ استعفیٰ دے دیں۔ اس طرح ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ناصرہ کو سب بونگی سمجھتے تھے مگر وہ خاصی سمجھ دار اور حساس تھی۔ گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس نے میڈیکل کالج میں داخلے کی ضد نہ کی بلکہ ملازمت کرلی یوں وہ اپنے باپ کا سہار این گئی۔ اس کی والدہ بھی ایک سگھڑ عورت تھیں۔ تنگی کے باوجود کسی نہ کسی طریقے سے وہ گھر کی گاڑی کھینچ رہی تھیں۔ بھائی دونوں چھوٹے تھے اور کمانے کے لائق نہ تھے۔ ناصرہ ایک اسکول میں ٹیچر ہو گئی تھی۔ وہ صبح اسکول جاتی اور شام کو ٹیوشن پڑھاتی چار پیسے اکٹھے ہوتے اور گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔ ان پیسوں میں سے ناصرہ کی ماں کچھ روپے بچا لیتی کہ آخر بیٹیوں کو بھی بیاہنا تھا۔ ان ہی دنوں پڑوسن فریدہ نے ایک رشتہ بتایا، لڑکا کسی مل میں کام کرتا تھا۔ لڑکے کی ماں آئی تو اس نے ناصرہ کی بجائے چوتھے نمبر والی بہن کو پسند نہ لیا۔ عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ناصرہ نے ماں پر دبائو ڈال کر اپنی بہن کی شادی اس لڑکے سے کروا دی۔ جو تھوڑی بہت جمع پونجھی تھی، شادی پر خرچ کر کے وہ لوگ پھر سے خالی ہاتھ ہو گئے۔ میری دوست ناصرہ ایک بار پر مشین کی طرح کام کرنے لگی۔ اسی دوران اس نے کچھ روپے اکٹھے کئے اور اپنے اسکول کے کلرک سے اپنے پانچویں نمبر والی بہن کو بیاہ کر والدین کا ایک اور بوجھ ہلکا کر دیا۔ بہن کی شادی کے بعد جب وہ اسکول گئی تو اس نے سنا کہ اس کی ساتھی ٹیچر اپنے عمر رسیدہ ماموں کے لئے رشتہ تلاش کر رہی ہے۔ ایسی بیوہ یا بانجھے عورت کا رشتہ جو اس کے ماموں کی تنہائی دور کر سکے اور زندگی کے باقی ماندہ سفر میں اس کا ساتھ دے سکے۔ دکھ سکھ میں اس کا دھیان رکھے ۔ یہ بات کچھ دنوں تو اسٹاف روم میں گردش کرتی رہی پھر آئی گئی ہو گئی لیکن ناصرہ نے اس بات کو نہ بھلایا۔ وہ اس شخص کے بارے میں سوچتی رہی، جس کی جیون ساتھی اسے اس عمر میں تنہا کر گئی تھی اور بچے بھی سب شادی شدہ ہو کر سب اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے تھے۔ ایک دن اس نے اپنی ساتھی ٹیچر عائزہ کو گھر بلایا اور اس سے اس کے ماموں کے رشتے کے بارے میں دریافت کیا۔ عائزہ نے تفصیل سے بتایا کہ ماموں رشید صاحب کی عمر پچاس سال کے قریب ہے تاہم وہ اپنی عمر سے کم نظر آتے ہیں کیونکہ صحت اچھی ہے۔ عائزہ کے یہ ماموں کئی مربع اراضی کے مالک تھے۔ ان کی دو فیکٹریاں بھی چل رہی تھیں۔ مالدار تھے، کسی شے کی کمی نہ تھی۔ کمی تھی تو صرف یہی کہ ان کے ذاتی کام اور ان کی دیکھ بھال کا اصل جیون ساتھی نہ رہا تھا۔ اگلے دن عائزہ کے ماموں اس کو لینے آئے تو نجمہ نے گیٹ سے ایک نظر دیکھا۔ وہ اونچے لیے خوبصورت، خاصے اسمارٹ اور چاق و چوبند نظر آرہے تھے۔ ناصرہ نے سوچا اگر میں اس آدمی سے شادی کر لوں تو گھر کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگلے دن اُس نے عائزہ سے کہا کہ میں تمہارے ماموں سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔ تم رشتہ طے کرا دو۔ یہ سن کر وہ لڑکی پریشان ہو گئی ، بولی۔ تم ہوش میں ہو ؟ اتنی زیادہ عمر کے آدمی سے شادی کرو گی۔ یہ تو مرا پاگل پن ہے ، تم کو کسی کنوارے نوجوان کارشتہ مل سکتا ہے۔ ناصرہ نے مگر بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔ ایک بار پھر ا چھی طرح سوچ بچار کر لو۔ کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے مگر میری دوست نے سوچ لیا تھا کہ اس کی قربانی سے باقی تمام خاندان بن جائے گا اور چند دن عیش و عشرت کے وہ بھی دیکھ لے گی پھر سکون سے جی سکے گی۔ عائزہ اسے سمجھاتی رہی کہ ابھی تو عیش ہوں گے مگر بعد میں اس کے لئے تکالیف پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس لئے اپنی جوانی کو دائو پر لگانا عقل مندی نہیں۔ ناصرہ نے یہ کہہ کر اسے خاموش کر دیا کہ اب بھی تو اس کی زندگی کو گھن لگا ہوا ہے۔ اب کون سا سکھ ہے ؟ کم از کم اس طرح نہ صرف اس کا خاندان سنور جائے گا بلکہ کچھ دن آرام کے وہ بھی دیکھ لے گی۔ بے فکری سے ہنس بول سکے گی۔ عائزہ نے ناصرہ کو اپنے ماموں کا پتا دے دیا اور کہا کہ وہ خود یا اپنے گھر والوں کے ذریعہ ان سے رابطہ کر لے۔ وہ یہ رشتے اپنے ہاتھوں سے نہیں کروائے گی۔ سچ ہے، غریبی اور لاچاری کبھی کبھی کتنا ہے دست و پا کر دیتی ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کیا کچھ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہی مجبور عزت کی زندگی جینے کی خاطر کسی کے دامن میں پناہ لیتا ہے تو دنیا کیسے کیسے نشتر نہیں لگاتی۔ بہر حال ناصرہ نے رشید صاحب سے خود ملاقات کی اور شادی کی پیش کش کی۔ رشید صاحب بھی سوچ میں پڑ گئے۔ اچھی طرح سوچ لو ! بعد میں کہیں تم کو پچھتانا نہ پڑے۔ میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے۔ ناصرہ نے جواب دیا تو رشید صاحب آمادہ ہو گئے۔ آخر کو وہ مرد تھے۔ کم عمر، پڑھی لکھی اور خوبصورت بیوی مل رہی تھی۔ ان کو کیا تھا۔ وہ تو بیوہ یا طلاق یافتہ ڈھونڈ ر ہے تھے ، ادھر جوان اور کنواری لڑکی کا رشتہ بن مانگے مل گیا لیکن ناصرہ نے اپنی کچھ شرائط بھی پیش کر دیں جن کو انہوں نے بلا چون و چرامان لیا۔ شرائط کے مطابق رشید صاحب نے تین ماہ کے اندر اندر اس کے بہنوئی کو کپڑے کا کاروبار کرا دیا اور رقم قرضہ حسنہ کے طور پر دی۔ دوسرے بہنوئی کو ورکشاپ کھول کر دی اور تین لاکھ روپے اسے شادی کے خرچے کی مد میں دیئے جو اس نے اپنے والد کے نام بینک میں جمع کرا دیئے۔ رشید صاحب نے اس کے بعد اپنے سماجی مقام کے مطابق ناصرہ کی دونوں بہنوں کی شادیاں کروا دیں۔ رشتے بھی اپنے حلقہ احباب سے تلاش کئے۔ آخر میں انہوں نے اس کے والد کو ایک پختہ مکان لے کر دیا یوں اس لڑکی نے اپنی زندگی کا نفع بخش سودا اپنے عمر رسیدہ خاوند سے کیا لیکن ، اپنے گھر والوں کے سکھ اور آرام کے عوض اس نے رشید صاحب کے ساتھ عمر بھر کی وفاداری بنانے کی قسم جو کھائی اس کو نباہ بھی دیا۔ سسرال میں تو میری سہیلی کو شروع میں کوئی پذیرائی نہ ملی۔ رشید صاحب کی بہوئوں نے اپنے خاوندوں اور نندوں کے ساتھ مل کر ناصرہ سے اچھوت کا سا برتائو کیا۔ ان کے بچوں کے لئے تو گویا وہ ایک ایسا تختہ مشق تھی کہ کوئی بھی لمحہ زہر یلا نشتر چھونے سے گریز نہ کرتے تھے۔ ادھر ناصرہ کی ایک چپ اور خاموشی تھی۔ سرخ و سفید رنگت کی مالک ناصرہ، پانچ چھ ماہ میں ہی کملا کر رہ گئی۔ ہر کوئی اسے گھٹیا، لالچی اور ذلیل کہتا تھا۔ خاندان والوں کے سامنے اسے خوب بڑھا چڑھا کر بے عزت کیا تھا کہ ایک بوڑھے سے عشق لڑا کر شادی کر کے آگئی ہے اور اب اپنے میکے کی تجوریاں بھر رہی ہے۔ رشید صاحب نے اپنے خاندان کے اس رویے کو محسوس کیا کہ ان کی اولاد ہر لمحہ ان کی بیوی کو بے عزت کرتی ہے -ادھر ناصرہ تھی کہ ایک لفظ بھی شکایت کا اپنی زبان پر نہ لاتی تھی اور نہ ہی ماتھے پر ناگواری کی شکن ابھرتی تھی کیونکہ ایسے ہی سلوک کی اس کو توقع تھی۔ اپنے شوہر کی وہ بے حد تابعدار تھی۔ جب بھی رشید صاحب آتے ، اس کے ہونٹوں پر مدھر مسکان ہوتی۔ اس نے اپنے شوہر کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھی تھی، پھر رشید صاحب کیونکر ناصرہ کو برا کہتے یا اس سے نا انصافی کرتے۔ اس نے شوہر سے کوئی دھوکا نہیں کیا تھا، ہر بات شادی سے پہلے طے کی تھی۔ ان دنوں تو وہ بڑی خوشی تھی جب ان کی خدمت اور اطاعت کو دیکھتے ہوئے شوہر نے اس کو ایک پوش علاقے میں بڑا سا خوبصورت گھر سجا سنوار کر تحفے میں دیا اور خود بھی اس کے ساتھ وہیں شفٹ ہو گئے۔ گھر سے جاتے ہوئے وہ اپنے سوتیلے بیٹوں، بیٹیوں، بہوئوں اور پوتے پوتیوں سے اچھی طرح ملی لیکن کسی نے اس کو گرم جوشی سے گلے نہ لگا یا پھر بھی اس نے مسکرا کر سب کو خدا حافظ کہا اور ڈھیٹ کا لقب سن کر وہ اپنے نئے گھر میں آگئی۔ یہاں آکر اسے ایسے لگا جیسے وہ جنت میں آگئی ہو۔ اس نے سکھ کا سانس لیا۔ ان دنوں ہی اس نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا۔ میکے والے اسے اور رشید صاحب کو مبارکباد دینے آگئے مگر سسرال سے کوئی نہ آیا۔ رشید صاحب نے البتہ دوستوں کو دعوت کھلائی، بیوی کو قیمتی تحائف دیئے اور بچے کا نام ماہتاب رکھا۔ یوں ناصرہ بھی تمام کلفتیں بھول کر بچے کی پرورش میں لگ گئی مگر اسے یہی فکر کھائے جاتی تھی کہ اگر رشید صاحب کو کچھ ہو گیا تو اسے اور اس کے بچے کو دیکھنے والا کون ہو گا۔ اس بات کا ذکر اس نے رشید صاحب سے کیا تو شوہر نے اسے تسلی دی کہ گھر والوں کا رویہ اور اپنی عمر دیکھتے ہوئے نہ صرف یہ گھر بلکہ ایک فیکٹری اور خاصی رقم بھی ناصرہ کے نام بینک میں جمع کروا دی ہے بلکہ تمام زیورات کی حق دار بھی اس کو بنا رہا ہے۔ ان دنوں وہ مجھ سے ملنے آئی تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم اسکول کھول لو تا کہ تمہاری آمدنی میں اضافہ ہوتا ر ہے۔ اس نے میری رائے سے اتفاق کیا اور ایک پرائیویٹ اسکول کھول لیا۔ اس کی محنت رنگ لائی اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کا اسکول دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ اسی عرصے میں پھر ان کے یہاں ایک بیٹے اور دو سال بعد ایک بیٹی نے جنم لیا۔ اب وہ تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اسی دوران اس کی ایک اور بہن کی بھی شادی ہو گئی۔ ایک بھائی ڈاکٹری پڑھ رہا تھا، دوسرا بینک میں ملازم ہو چکا تھا۔ میکے کے حالات سدھر چکے تھے۔ ادھر چین تھا تو ادھر ناصرہ بھی چین میں تھی۔ ماہتاب اب دس برس کا ہونے کو تھا۔ چھوٹا لڑ کا آٹھ کا اور بیٹی چھ سال کی تھی کہ ایک رات اچانک رشید صاحب کو دل کا دورہ پڑا وہ ناصرہ اور بچوں کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ایسے نازک موقع پر سسرال والوں نے طرح طرح کی باتیں کیں اور رشید صاحب کے چالیسویں سے قبل ہی اسے سوتیلے بیٹوں کی طرف سے نوٹس مل گیا کہ اس جائیداد میں ناصرہ اور اس کے بچوں کا کوئی حصہ نہیں اور مکان بھی ان کو خالی کرنا ہو گا۔ ناصرہ کے بھائیوں نے جواب عدالت سے دینے کا فیصلہ کیا تو اس نے ان کو روک دیا اور خود ہی تمام جائیداد سے دستبر دار ہونے کا اعلان کر دیا کہا کہ رشید صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے میرا اور بچوں کا حق دے گئے اور جو کچھ انہوں نے مجھے دیا ہے وہ ہی میرے بچوں کے لئے بہت ہے۔ یوں سسرال والے بھی سرد پڑ گئے کہ ناصرہ نے ہر بات ان کے حق میں کہی تھی۔ یوں اس کا سسرال ہمیشہ کے لئے اس سے دور ہو گیا، مکان کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہا، بچے بڑے ہو گئے۔ انہوں نے تعلیم مکمل کی تو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلے گئے کیونکہ زرعی اراضی میں سے وراثت از خود ان کو مل گئی تھی۔ یوں اس کی فراست اور کچھ تقدیر کہ دولت کی دیوی اس پر مہربان ہوتی گئی۔ اب اس کے بچے جوان تھے اور اس کو کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ ادھیڑ عمری میں رشید صاحب نے اپنی تنہائی کا ساتھی ناصرہ کو بنایا تھا اور ایک بار پھر سے اپنا سونا آنگن آباد کر لیا تھا مگر ناصرہ ایسانہ کر سکی اور تا عمر اپنے شوہر سے وفا کا وعدہ نبھاتی رہی۔